مکتوب مجالس

مجلس بعنوان: تربیت اولاد از سیرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا (حصہ سوئم)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ (التحریم:06)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا﴿ الدھر:۸ ﴾
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔
سیرت سیدہ علیھا السلام میں ایثار و قربانی جودو سخا اور انفاق فی سبیل اللہ کا عملی درس
صاحب الکوثر فی تفسیر القرآن سورہ دھر کی آیت نمبر 5سے 22 تک کی تفاسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ یہ آیات اہل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ان آیات کا شان نزول زمخشری نے اپنی تفسیر الکشاف میں درج کیا ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حسن و حسین (علیہما السلام) مریض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند لوگوں کے ہمراہ عیادت کے لیے آئے۔ لوگوں نے کہا: اے ابوالحسن! اپنے بیٹوں کی خاطر نذر مان لیں۔ چنانچہ علیؑ فاطمہؑ اور ان کی کنیز فضہ نے نذر مانی کہ اگر حسنین (علیہما السلام) شفایاب ہو جائیں تو تین دن روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ حسنین (علیہما السلام) شفایاب ہوئے لیکن ان کے گھر میں کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ علی (ع) نے شمعون خیبری یہودی سے تین صاع جو قرض لیا۔ اور فاطمہ (س) نے ایک صاع جو پیس لیئے اور پانچ روٹیاں پکائیں اور ان کے سامنے افطار کے لیے رکھ دیں تو ایک سائل ان کے دروازے پر کھڑا ہوا اور کہا: السلام علیکم اہل بیت محمد! میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کچھ کھلائیں۔ اللہ آپ کو جنت کے دسترخوان سے اطعام کرے۔ چنانچہ سب نے اس مسکین کو ترجیح دی اور صرف پانی پر افطارکیا اور دوسرے دن روزہ رکھا۔ دوسرے دن بھی جب افطار کے لیے بیٹھ گئےاور ایک یتیم نے سوال کیا تو سارا کھانا اس یتیم کو دیا۔ تیسرے دن ایک اسیر نے سوال کیا تو سارا کھانا اس اسیر کو دیا۔ چنانچہ علی علیہ السلام حسن اور حسین (علیہما السلام) کے ہاتھ پکڑ کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں گرسنگی کی وجہ سے چوزے کی طرح لرزتے دیکھا تو فرمایا: جو حال تمہارا میں دیکھ رہا ہوں اس سے میں شدید متاثرہوا ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ہمراہ گئے تو دیکھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) محراب عبادت میں گرسنگی کی حالت میں ہیں اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے پس جبرئیل نازل ہوئے اور کہا یہ لیجیے اپنے اہل بیت کے بارے میں آپ کو مبارک ہو۔ پھر یہ سورہ پڑھ کر سنایا۔۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن ،ج:09 ص:419)
اس واقعہ سے آشکار ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ منت کے تین دن روزہ رکھتی ہیں اور آپ کے دونوں بچے امام حسن و امام حسن علیھما السلام بھی آپ ؑکی معیت میں روزے رکھتے ہیں اور تینوں دن مسکین و یتیم اور اسیر آنے پر افطاری کے وقت اپنی افطاری کو راہ خدا میں انفاق کر دیتے ہیں ۔ تو خدا بھی ان ہستیوں کی مدحت میں سورہ دھر ناز ل فرماتا ہے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح بہترین اور خوبصورت ترین انداز میں آپ ؑ نے اپنے بچوں کو عملی طور پر ایثار و قربانی جودو سخا اور انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین درس دیا۔
چنانچہ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں :
مرالصبی فلیتصدق بیدہ بالکسرة والقبضة والشیٴ وان قل، فان کل شیٴ یرادبہ اللہ وان قل بعد ان تصدق النیة فیہ عظیم۔
”اپنے بچوں کوحکم دوکہ وہ اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں اگر چہ معمولی چیزہی کیوں نہ ہوسچی نیت کے ساتھ جوچیزاللہ کے لئے دی جائے وہ عظیم ہے چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو“ ۔ (- وسائل ۶:۲۶۱/۱باب من ابواب الصدقة)
خودداری، عاجزی و انکساری اور ماتحت افراد کے ساتھ حسن سلوک کا عملی درس
کائنات کی سب سے بہترین درس گاہ " بیت علی و فاطمہ علیھما السلام” نہ صرف اپنی اولاد کے لئے بلکہ کائنات کے تمام مرد و عورت کے لئے تمام معاملات زندگی خصوصا عائلی نظام زندگی کے سنہرے اصولوں کو سیکھنے کے لئے بہترین مرجع ہے۔ سیدہ کونین علیھا السلام سید الانبیاء و ملیکۃ العرب کی صاحبزادی خود اپنے گھریلو کاموں کو انجام دیتی تھیں، چکی چلاتی تھیں اور دیگر تمام کاموں کو بغیر کسی شکوہ شکایت کے اپنا فرض سمجھ کر انجام دیتی تھیں۔ اس حوالے سے امام علی ؑ کی ایک روایت ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں، ”
انها کانت عندی و کانت من احب اهله الیه و انها استقت بالقربة حتی اثر فی صدرها و طحنت بالرحی حتی مجلت یداها و کسحت البیت حتی اغبرت ثیابها و اوقدت النار تحت القدر حتی دکنت ثیابها فاصابهامن ذالک ضرر شدید۔۔۔۔۔۔ الخ” (بحار الانوار،,ج ,43 ,ص 158)
"وہ میرے پاس آ گئی جبکہ وہ اپنے اہل وعیال میں سب سے محبوب ترین ذات تھی انہوں نے اس قدر کنویں سے مشک کے ذریعے پانی نکالا کہ ان کا سینہ اس کی وجہ سے متاثر ہوا اور اس حدتک آٹا تیار کرنے کے لئے دستی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوئے اور جھاڑو دینے سے کپڑے گرد آلود ہوتے تھے اور چولہے کو جلاتے جلاتے ان کے کپڑے بھی جل جاتے تھے اور اس کی وجہ سے ان کو بہت زیادہ تکلیف پہنچتی تھی۔۔۔”
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام اس قدر خوددار تھیں کہ اپنے کاموں کو خود انجام دیتی تھیں اس کے ساتھ ہی آپ اپنے بچوں کو اپنے اس عمل کے ذریعے خودداری اور اپنے کاموں کو خود سے انجام دینے کا عملی درس بھی دے رہی تھیں۔ اور آپ ؑ کی عاجزی و انکساری کی انتہاء یہی تھی کہ ملیکۃ العرب اور سید الانبیاء و اوصیاء کی صاحبزادی، مولائے کائنات کی زوجہ اور جوانان جنت کی ماں ہونے کے باوجود کبھی گھریلو کاموں کو انجام دینے میں عار محسوس نہ کی۔ اور جب جناب فضہ آپ ؑ کی خدمت کے لئے آئیں تب بھی آپ ؑ نے گھریلو کاموں کی انجام دہی کے لئے اس طرح انتظام فرمائی تھی کہ ایک دن خود کام انجام دیتی تھیں اور ایک دن جناب فضہ کام انجام دیتی تھیں۔ (الموسوعۃ الكبری عن فاطمۃ الزہراء، ج‏ ۱۷، ص ۴۲۹.) اس سے اندازہ لگائیے کہ آپ ؑ کس قدر انکساری اور عاجزی سے پیش آتیں تھیں۔ اس طرح اس قسم کے امور سے آپ ؑکے بچے عملی طور پر آپ ؑ سے خودداری، عاجزی و انکساری اور اپنے ماتحت افراد کے ساتھ حسن سلوک کا درس آپ ع کی حیات طیبہ سے سیکھ رہے تھے۔
اولاد کے لئے بہترین ماحول کی فراہمی
اسلام نے ماں کی گود کو اولاد کے لئے اولین درسگاہ قرار دیا ہے اور ” قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا” ( اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ” کا حکم دیکر اولاد کی نیک تربیت کو والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے قرار دیا ہے۔اس لحاظ سے میاں اور بیوی دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے گھر میں ایسا ماحول مہیا کریں جس میں عملی طور پر ان کی اولاد کی شخصیت سازی ہو جائے۔ اس ضمن میں میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر میاں بیوی اولاد کے سامنے ایک دوسرے سے لڑتے جھگرتے رہیں اور ایک دوسرے کو گالم گلوچ دیتے رہیں ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال نہ رکھیں تو لا محالہ اس کے برے اثرات ان کے بچو ں پر ہونگے۔ اس کے برعکس اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام کریں ، کام کاج میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور گھر میں پیار و محبت کی فضا قائم رکھیں تو اس کے بہترین اثرات بچوں پر مرتب ہونگے۔ اگر ہم جناب فاطمہ زھرا ء س کے گھرانے پر اس لحاظ سے نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک بہترین آئیڈیل ازدواجی زندگی کی مثال دیکھنے کو ملے گی۔کہ ایک طرف امام علی ؑ گھریلو کام کاج میں جناب فاطمہ س کا ہاتھ بٹا رہے ہیں تو دوسری جانب جناب فاطمہ زھراء ؑ گھریلو کام کاج کے علاوہ مولائے کائنات کے ہتھیاروں بالخصوص ذوالفقار وغیرہ کی صفائی کر کے ان کی معاونت کر رہی ہیں۔ جناب امیر کائنات اور سیدہ کونین علیھما السلام اپنے گھر میں کس طرح کا ماحول بنائے ہوئے تھے اس کو واضح کرنے کے لئے مولائے کائنات ع کی ایک روایت بیان کرتے ہیں۔ امام علی ؑ ارشاد فرماتے ہیں
"فو الله ما اغضبها و لا اکرهتها علی امر حتی قبضها الله ولا اغضبتنی ولا عصت لی امر امرا،لقد کنت انظر الیها فتنکشف عنی الهموم و الاحزان” (بحار الانوار،, ج -۴۳، ص ۱۴۳.)
"اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی معاملے میں ان کو ناراض کیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر کے بارگاہ الہی میں پہنچ گئیں، اور نہ ہی کبھی انہوں نے مجھے ناراض کیااور نہ خود ناراض ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے کسی معاملہ میں میری نافرمانی کی، جب بھی میں ان پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے ہموم واحزان ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا”
اس سے اندازہ لگائیے کہ انہوں نے کس طرح کا ماحول اپنی اولاد کو مہیا کیا ہوا تھا کہ عملی طور پر اولاد کی بہترین انداز میں شخصیت سازی ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پھر اس گھرانے سے ایسی ہستیاں صفحہ کائنات پر اجاگر ہوئیں جو پوری انسانیت کے لئے قیامت تک بہترین نمونہ عمل قرار پائیں۔
بیٹیوں کو حجاب کی اہمیت کا عملی درس
تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے مسجد میں اصحاب کے مجمع سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگوں کی نظر میں ایک آزاد اور دانشمند خاتون کے نزدیک بہترین و شائستہ ترین چیز کیا ہے؟ اس دوران امام علی ؑ اٹھے اور گھر تشریف لے جاکر جناب فاطمہ زھراء ؑ کی خدمت میں اس سوال کو پیش کیا تو آپ ؑ نے ارشاد فرمائی”خَيْرٌ لِلِنّساءِ أنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَ لا يَراهنَّ الرِّجالُ.”عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ (نا محرم)مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ہی (نامحرم)مرد انھیں دیکھیں” (بحار الانوار، ج:43، ص:54)
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایک روز رسول خدا ؐ کے ہمراہ بیت زھراء ؑ میں ایک نابینا آدمی داخل ہوا تو حضرت زہراء (علیہا السلام) نے پردہ کیا. رسول اکرم (ص) نے فرمایا: جان پدر! یہ شخص نابینا ہے اور دیکھتا نہیں ہے تو آپ ؑ نے عرض کیا … "إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراه، وَ هوَ يَشُمُّ الريح.” "اگر وہ (نابینا)مجھے نہیں دیکھ سکتا تو میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں اور وہ خوشبوتو سونگھ سکتا ہے ۔” (احقاق الحق، مکتبۃ الاسلامیۃ تہران، ج:10، ص:258)
خواتین کے لئے حجاب سے متعلق سیرت جناب زہراء ؑ سے نمونے کے طور پر ان دونوں واقعات کو مشاہدہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف آپ ؑ مذکورہ اقوال و افعال کے ذریعے خواتین عالم کو حجاب کی اہمیت سے آگاہ فرما رہی تھیں تو دوسری جانب آپ ؑ کی بیٹیاں گھر میں آپ ؑ کی اس سیرت کا مشاہدہ کر رہی تھیں تو عملی طور پر آپ ؑ اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی فرما رہی تھیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button