خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:187)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک03فروری2023ء بمطابق 11 رجب المرجب1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
سیرت امام علی علیہ السلام
امام علی علیہ السلام مکتب تشیع کے پہلے امام ، رسول خداﷺ کے داماد، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ کے والد اور جد امجد ہیں ۔ تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔شیعہ عقیدہ کے مطابق آپ بحکم خدا رسول خداﷺکے بلا فصل جانشین ہیں جس کا اعلان پیغمبر اکرمﷺنے اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر کیا۔قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔ شیعہ سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔
یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نھیں ہوئیں ،
آپ علیہ السلام کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :
۱۔اللہ کا ارشاد ہے : اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ﴿الرعد:۷﴾
”آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔“
طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی ﷺنے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:”اناالمنذرولکل قوم ھاد “،اور آپﷺ نے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:”انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي“۔(مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹)
”آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے “۔
خداوند عالم کا فرمان ہے:الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةًفَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ
”جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔“
اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ : امام علیہ السلام کے پاس چار درھم تھے جن میں سے آپ علیہ السلام نے ایک درھم رات میں خرچ کیا ،ایک درھم دن میں ،ایک درھم مخفی طور پر اور ایک درھم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہﷺ نے آپ علیہ السلام سے فرمایا : آپ(علیہ السلام ) نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ھوں اسی لئے میں نے ایسا کیا “اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔( تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰)
ایک اور مقام پہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ(البینۃ:7)
”جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔“
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی علیہ السلام وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:”وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “۔”خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ (علیؑ)اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں “۔
اسی موقع پر یہ آیہ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(تفسیر در منثور جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷)

اسی طرح روایت میں ہے کہ جب قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرﷺ نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔تب دارالندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خداﷺ کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپﷺکو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: "آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں”۔ پیغمبرﷺنے حضرت علی علیہ السلام کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ وہ آج رسو ل خداﷺ کے بستر پر سوجائیں۔ "(الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72)
یوں امام علی علیہ السلام کی اس فداکاری پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿البقرۃ:۲۰۷﴾
اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔
اسی طرح جب رسول خداﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علی علیہ السلام سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علی علیہ السلام کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔(اعیان الشیعہ ج 2، ص 27)
آپ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر ضروری ہے کہ ہم ان کی عملی سیرت سے درس لیں اور اسے اپنی زندگی میں اپناتے ہوئے حقیقی طور پر علی علیہ السلام کا شیعہ بن کر دکھائیں ورنہ صرف شیعہ ہونے کا دعوی کردینا اور عمل کے لحاظ سے ان کی سیرت اور ان کے بتائے ہوئے احکامات کو نظر انداز کردینے والا حقیقی شیعہ نہیں بن سکتا۔ نیز ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر جشن مناتے ہوئے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے تو جو اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کے خلاف ہو۔
متضاد صفات کی حامل ہستی:
امیرالمومنین علیہ السلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جس خصوصیت کو میں امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں توازن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور جو آپکی زندگی میں ایک عجیب و غریب توازن ہے یعنی بظاہر کچھ صفات آپکی ذات میںاس طرح خوبصورتی سے یکجا ہیں کہ جو خود اپنی جگہ حسن کا ایک مرقع بن گئی ہیں جبکہ ایک انسان کے اندر یہ صفات اکھٹی ہوتی دکھائی نہیں آتیں باہم نہیں دکھائی پڑتیں،اور علی علیہ السلام کے وجودمیں ایسی متضادصفات ایک دو نہیں بلکہ بے نہایت جمع ہو گئیں ہیں۔
یہاں اسمیں سے چند صفتوں کو بیان کیا جاتا ہے:

رحم دلی اور سختی:
مثال کے طور پر بیک وقت ایک انسان کسی کے ساتھ رحم دلی بھی کرے اور وہیں اور وہیں پراپنافیصلہ بھی اٹل رکھے اور قطعاً کسی کوبے جا حق دینے پر راضی نہ ہو یعنی رحم دلی اور سختی آپس میں دو ایسی متضاد صفتیں ہیں جو ایک شخص کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں!لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اندر رحم دلی، عطوفت و محبت اپنی حد کمال کو پہنچی ہوئی ہے جو ایک عام انسان کے اندر بہت کم نظر آتی ہے مثال کے طور پر فقیروں کو مدد کرنے والے پسماندہ لوگوں کی مشکلات حل کرنے والے آپکو بہت ملیں گے۔ مگر ایک ایسا شخص جو نمبر ۱ ۔اس کام کو اپنی حکومت کے دوران انجام دے ، نمبر۲ ۔اسکا یہ عمل ایک دو دن نہیں ہمیشہ کا ہو،نمبر۳۔تنہا ماّدی مدد تک ہی اسکا یہ عمل محدود نہ رہے بلکہ وہ بنفس نفیس ایسے لوگوں کے گھر جائے،اس بوڑھے کی دلداری کرے، اس نابینا کو دلاسا دے ، ان بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلے اسکا دل بہلائے اور اسی کے ساتھ ساتھ انکی مالی مدد بھی کرے پھر ان سے رخصت ہو یہ فقط امیر المومنین علیہ السلام ہی کی ذات ہے۔ اب ذرا بتائیے آپ دنیا کے رحم دل انسانوں میں اس جیسا کتنوں کو پیش کر سکتے ہیں!؟ حضرت علیہ السلام مہر ومحبت عطوفت اور رحم دلی میں اسطرح سے دیکھائی دیتے ہیں۔کہ ایک بیوہ جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اسکے گھر جاتے ہیں ، تنور روشن کرتے ہیں انکے لئے روٹیاں سینکتے ہیں انکے لئے کھاناپکاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے ان یتیم بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں یہی نہیں بلکہ اسلئے کہ ان بچوں کے لبوں پربھی دیگر بچوں کی طرح مسکراہٹ آئے اور وہ بھی کچھ دیر کے لئے غم و اندوہ سے باہر نکل سکیں انکے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے بھی ہیں انہیں اپنی پشت پر سوار کرتے ہیں انکے لئے ناقہ(اونٹ) بنتے ہیں اس جھونپڑی میں انہیں مختلف طریقوں سے سرگرم رکھتے ہیں تا کہ وہ بھی مسکرا سکیں یہ ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی رحم دلی اور محبت و عطوفت کی ایک مثال یہاںتک کہ محبت کا یہ برتاؤ دیکھ کر اس زمانے کے ایک بزرگ کہتے ہیں اس قدر امیرالمومنین یتیموں اور بے سہارا بچوں سے محبت سے پیش آتے اور انکے منہ میں شہد ڈالتے اور انہیں پیار کرتے تھے کہ خود میں تمنا کرنے لگا ’فوددتُ ان اکون یتیماً ‘کاش میں بھی یتیم ہوتاتاکہ مجھے بھی علی علیہ السلام اسی طرح پیار کرتے! یہ آپکی محبت ہے۔
اوریہی علی علیہ السلامجنگ نہروان میں بھی ہیں جب کچھ کج فکر اور متعصب لوگ بے بنیاد بہانوں سے آپکی حکومت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں پہلے آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ وہ جسکا مطلقاً اثر نہیں لیتے ، احتجاج کرتے ہیں مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔کسی تیسرے آدمی کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہیں انکی مالی امداد کرتے ہیں ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ دیتے ہیں مگر ان سب سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہیں پھر بھی آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں مگر آپکی یہ نصیحت انکے لئے بے فائدہ ثابت ہوتی ہے اسوقت پورے شد و مد کے ساتھ پوری قطعیت سے پرچم زمین پر گاڑ کر فرماتے ہیں ! تم میں سے کل تک جو بھی اس پرچم تلے آجائیگا وہ امان میں رہے گااور جو نہیں آیا اس سے میں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ہزار۱۲۰۰۰ افراد میں سے ۸۰۰۰آٹھ ہزار افراد پرچم کے نیچے آگئے اور باوجودیکہ ان لوگوں نے آپ سے دشمنی کی ہے، لڑنے میں بر ابھلا کہا ہے پھر بھی فرماتے ہیں جاؤ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں معاف کر دیا، جو دوسرے ۴۰۰۰چار ہزار بچے،فرمایا! اگر تم لڑنے پر تلے ہوتو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے دیکھا وہ لڑنے مرنے پر تیار ہیں فرمایا ! یاد رکھو تم چار ہزار میں سے دس افراد سے زیادہ کوئی باقی نہیں بچے گا ۔جنگ شروع ہوگئی اس ۴۰۰۰ چار ہزار میں ۱۰ لوگ زندہ بچے بقیہ سب کے سب ہلاک ہوگئے، یہ وہی علی علیہ السلام ہیں جب دیکھا مقابلہ میں بدسرشت و خبیث النفس انسان ہیں تو پھر پوری صلاحیت کے ساتھ ان سے جنگ لڑتے ہیں اور انکا دندان شکن جواب دیتے ہیں۔

.
متقی بھی اور حاکم بھی:
ایک دوسری مثال اور آپ کی متضاد صفات کا نمونہ حکومت کے ساتھ ساتھ تقویٰ و پارسائی ہے یہ ایک عجیب چیز ہے؟ ورع و تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی انسان ہر وہ چیز جس سے دین خدا کی مخالفت کی بو آتی ہو اس سے پرہیز کرے اور اسکے قریب نہ جائے۔پھر ادھر حکومت کا کیا ہو گا؟ آخر ممکن ہے کہ حکومت رکھتے ہوئے کوئی پارسا بھی ہو آج جب ہمارے کاندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں ہمیں زیادہ احساس ہے کہ اگر یہ خصوصیات کسی کے اندر موجود ہوں تو وہ کسقدر اہمیت کا حامل ہو گا، حکومت میں رہتے ہوئے صرف اسے کلی قوانین سے سروکار ہوتا ہے اور قانون کا نفاذ اپنی جگہ بہت سے فوائد لئے ہوتا ہے اگرچہ عین ممکن ہے اسی قانون کی وجہ سے مملکت کے کسی گوشہ میں کسی شخص پر ظلم و ستم بھی ہواور ممکن ہے حکومت کے ذمہ دار کی طرف سے خلاف ورزیاں بھی ہوں اور پھر نا محدود جزئیات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ وہ (حاکم)ہر شعبہ میں زہد و پارسائی کا بھی لحاظ رکھ سکے؟ اسلئے بظاہر لگتا ہے کہ تقویٰ حکومت کے ساتھ اکٹھا ہونا نا ممکن سی بات ہے لیکن قربان جائیں امیرا لمومنین علیہ السلام کی ذات پر کہ اپنے وقت کی بااقتدار حکومت کے ساتھ بھی پارسائی و تقویٰ کو یکجا کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں جوایک حیرت انگیز بات نظر آتی ہے۔
وہ اس معاملہ میں کسی کا پاس و لحاظ نہیں کرتے تھے کہ اگر انکی نگاہ میں کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب دے کر بھی بلاتکلف اس عہدے کو واپس لے لیتے ہیں ۔محمد بن ابی بکر کو حضرت امیرعلیہ السلام اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور وہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنے مہربان باپ کی حیثیت سے جانتے تھےمگر مصر کا والی بنانے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے ایک خط میں آپکو لکھا میں تم کو مصر کی حکومت کے لائق نہیں سمجھتا اسلئے مالک اشتر کو تمہاری جگہ بھیج رہا ہوں۔اور آپنے انکو معزول کر دیا اگرچہ انسان ہونے کے ناطے محمد بن ابی بکر کویہ بات بری بھی لگی ہو مگر حضرت نے اس معاملہ میں کسی بھی چیز کالحاظ نہیں کیا یہ ہے آپکی پارسائی ایسی پارسائی جسکی ضرورت ایک حکومت اور حاکم کو پڑتی ہے و ہ ذات علی علیہ السلام میں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتی ہے۔
آپکے زمانے میں نجاشی نامی ایک شاعر تھا جو امیرا لمومنین علیہ السلام کا مداح اور آپکے دشمنوں کے خلاف اشعار کہتا تھا۔ماہ رمضان میں ایک دن کسی گلی سے گذر رہا تھا کہ ایک برے انسان نے اسکو ورغلایا وہ کہتا ہے کہ آؤ آج ہمارے ساتھ میں کچھ وقت گذارو مثلاً اس شاعر نے کہا نہیں میں مسجد جا رہا ہوں قرآن پڑھنے یا نماز پڑھنے بہرحال زبردستی اس شاعر کو اپنے گھر میں بلا لیا! آخر یہ بھی ایک شاعر ہی تو تھا اسکے فریب میں آگیا اور اسکے دسترخوان پر روزہ خوری کے بعد شراب بھی پی جاتی تھی اور لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اس پر حد جاری کرواور اس کو اسی۸۰ تازیانے شراب نوشی کی وجہ سے اور دس۱۰ یا بیس۲۰تازیانے دن میں حرام چیز سے روزہ توڑنے کی بناء پر ۔ نجاشی نے کہا میں آپکا اور آپکی حکومت کا مداح ہوں اپنے اشعار سے آپکے دشمنوں کو جواب دیتا ہوں اور آپ مجھے تازیانے مارنے کا حکم دے رہے ہیں؟فرمایا، کہ یہ ساری باتیں اپنی جگہ قابل قبول اور قابل تحسین ہیں مگر میں حکم خدا کو اپنی ذات کی خاطر معطل نہیں کر سکتا ،ہر چند انکے قوم و قبیلہ والوں نے اصرار کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام اسطرح ہماری عزت چلی جائیگی پھر ہم معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے آپ معاف کر دیجئے مگر حضرت نے فرمایا نہیں ممکن نہیں کہ میں حد خدا جاری نہ کروں ۔ اس شخص کو لٹایا گیا، اور اسے کوڑے مارے گئے اور وہ راتوں رات آپکی حکومت سے یہ کہتے ہوئے فرار کر گیا کہ جب آپ کو میری قدر نہیں معلوم اور آپکی حکومت میں روشن خیالوں اور شاعروں کے ساتھ یہ برتاؤ ہے تو میں وہاں جاؤنگا جہاں ہماری قدر کو پہچانتے ہوں ! اور معاویہ کے دربار میں اس خیال سے چلا گیا کہ وہ اسکی قدر کو جانتا ہے ! خیرجسے اپنی خواہشات پر اتنا قابو نہیں کہ وہ علی علیہ السلام کی تابندگی کو اپنی خواہشات کے طوفان میں جھانک کر دیکھ سکے تو اسکی سزا بھی یہی ہے کہ وہ علی علیہ السلام کو چھوڑ کر معاویہ کے پاس چلا جائے حضرت علی علیہ السلام حضرت جانتے تھے کہ یہ شخص ایک نہ ایک دن ان سے جدا ہو جائے گا آج بھی شعراء اور فنکاروں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن اس زمانہ میں ایک شاعر اسلئے زیادہ اہمیت رکھتا تھا کہ وہ افکار و خیالات اور حکومت کی سیاست و حکمت عملی کو اپنے شعروں میں لوگوں تک پہنچاتا تھا کیونکہ اس زمانے میں آج کی طرح ٹیلویژن اور ریڈیو نہیں تھے بلکہ یہ شعراءکا کام ہو ا کرتا تھایہاں ملاحظہ کیجیے کس طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی پارسائی انکی بااقتدار حکومت کے ساتھ ساتھ ہے ذرا دیکھیں توسہی کیا خوبصورتی و زیبائی سامنے نکھرکر آتی ہے ۔ہم دنیا اور تاریخ عالم میں اس قسم کی مثال نہیں تلاش کر سکتے ۔پیش رو خلفائ میں بھی بہت سی جگہوںپر صلاحیت نظر آتی ہے لیکن کہاں حضرت امیرعلیہ السلام کہاں دیگر لوگ جو کچھ آپ سے پہلے اور آپکے بعد اور آج نظر آرہا ہے گذِشتہ اور آج میں ایک عجیب و غریب فاصلہ نظر آتا ہے اصلاً امیرالمومنین علیہ السلام کی صلاحیت و قابلیت ناقابل توصیف ہے۔

قدرت اور حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت:
ایک دوسرا نمونہ جو آپکی زندگی میں ملتا ہے وہ ہے آپکی قدرت و شجاعت اور مظلومیت ۔آپکے زمانے میں آپ سے زیادہ شجاع و بہادر کون ہو سکتا ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام کی آخری زندگی کے آخری لمحات تک کسی شخص کی بھی جرآت نہ ہو سکی کہ آپکی شجاعت و قدرت کے سامنے اپنی بہادری کا دعو یٰ کرسکے اس کے باوجود آپکی ذات گرامی اپنے زمانے کی مظلوم ترین شخصیت ہے۔ کسی کہنے والے نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ شاید تاریخ اسلام کی شخصیتوں میں مظلوم ترین شخصیت آپ کی ذات ہے قدرت اور مظلومیت آپس میں دو متضادصفات ہیں جو جمع نہیں ہوتیں،عموماً طاقتور مظلوم نہیں مگر امیر المومنین علیہ السلام قوت وطاقت کے مالک ہو کر بھی مظلوم واقع ہوئے ہیں۔

سادگی اور زھد:
سادگی اور دنیا سے بے توجہی امیرالمومنین علیہ السلام کی حیات بابرکت میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے، نہج البلاغہ کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع زہد ہے یہی امیرالمومنین علیہ السلام وفات پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے اپنے زمانہ حکومت تک ۲۵ سالہ خانہ نشینی کے دوران اقتصادی آباد سازی کے کام کرتے رہے، باغ لگاتے ، کنویں کھودتے، پانی کی نہریں اور کھتی باڑی کرتے تھے اور تعجب اس بات پر ہے کہ یہ ساری محنتیں راہ الہیمیںہوتیں اور ان سب چیزوں کو راہ خدا وقف کر دیتے تھے۔
شاید آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خود امیرالمومنین علیہ السلام اپنے وقت کے مالدار لوگوں میں سے تھے کہ آپ نے فرمایا! اگر میرے مال سے نکلی ہوئی خیرات پورے قبیلہ بنی ہاشم پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لئے کافی ہوگی ’’ انّ صدقتی لووزّع علیٰ بنی ہاشم لوسعھم‘‘ تو حضرت کی درآمدکم نہیں تھی مگر وقت کا یہ دولت مند انسان فقیرانہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے زور بازو سے کمائی ہوئی دولت راہ خدا میںخرچ کر دیتے ہیں، اپنے ہاتھوں کنواں کھود رہے ہیں راوی کہتا ہے میں نے دیکھا فوارے کی طرح زمین سے پانی ابل رہاتھا حضرت مٹی اور کیچڑ میں لتھ پتھ کنویں سے باہر تشریف لائے کنویں کے دہانے پر بیٹھ گئے ایک کاغذ منگوایا اور اس پر اسطرح لکھا: یہ کنواں فلاں قبیلہ کے لوگوں کے لیے میں وقف کرتا ہوں،آپ جو کچھ بھی امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپکے کاموں کو ملاحظہ کرتے ہیں وہ سب آپکی انفرادی زندگی کے کارنامہ ہیں جسکی برکتیں آپکے دوران حکومت میں بھی عیاں رہیں دنیا سے بے توجہی اوردنیا کو آباد کرنے (کہ خدا نے تمام انسانوں کا یہ ایک فریضہ قرار دیا ہے) میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا یعنی دنیا کو تعمیر کریں زمین آباد کریں ثروت و دولت کے اسباب وسائل تلاش کریں مگر ان سب سے دل نہ لگائیں اسکے اسیر و غلام نہ ہوں تا کہ با سکون ہو کر اسے راہ خدا میں خرچ کر سکیں اسلامی اعتدال اور توازن کا یہ مطلب ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی (اور دیگر آئمہ کی زندگیوں میں)اس قسم کے بہت سے نمونہ ہیں ۔
عدالت امیرالمومنین علیہ السلام :
عدل!علی علیہ السلام کی زندگی میں ایک اہم صفت کی حیثیت رکھتا ہے، جب ہم عدل علی علیہ السلام کی بات کرتے ہیں تو اسکا ایک مطلب وہی ہے جسے ہر انسان اپنی جگہ درک کرتا ہے یعنی وہ معاشرہ میں،اجتماعی عدل و مساوات بر قرار کرنے والے حاکم ہیں۔یہ ہے ابتدائی عدل لیکن بالاترین عدل یہی اعتدال و توازن ہے ’’بالعدل قامت السموات والارض‘‘ زمین اور آسمانوں کی استقامت و استواری عدل کی بناء پر ہے یعنی ایک توازن ہے خلقت و فطرت میں کہ یہی بات حق بجانب بھی ہے اورآ خری معنی کے لحاظ سے درحقیقت عدل و حق ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ اعتدال و توازن کا مظہر نظر آتی ہے اور سارے محاسن و محامد(اچھائیاں) اپنی اپنی جگہ نقطہ کمال پر پہنچے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔آپ عدل اور اس کے نفاذ میں اس قدر سختی سے پابند اور شدید ہیں کہ آپ کی شہادت کے بارے میں کہا گیا کہ علی کو ان کی شدت عدالت کی وجہ سے قتل کیا گیا۔
عظمت امام علی علیہ السلام:
امام علی علیہ السلام کی عظمت یہ ہے کہ آپ کی تربیت رسول خدا ﷺ کے زیر سایہ ہوتی رہی۔جب پیغمبرِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کواپنے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کی اولاد میں سے تربیت کے لیے چُنا تو جس طرح خداوندِ متعال نے اپنے حبیبؐ کی تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا، اسی انداز سے رسولِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کی تربیت فرمائی۔ حضرت علیؑ ہمیشہ رسولِ خداﷺ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ اِس بارے میں خود مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَ لَقَدْ کُنْتُ أَتْبَعُه اِتْبَاعَ الْفَصِیْلِ إِثْرَ أُمِّهِ ...(نہج البلاغہ خطبہ۱۹۲)
’’میں ہمیشہ آپﷺ کے پیچھے اِس طرح چلتا تھا جیسے اُونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے آپﷺروزانہ میرے لیے اپنے اخلاق کا نمونہ پیش کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں تھا جو تمام صفات و کمالات میں رسولِ اکرمﷺ کے مشابہ ہو۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے حضرت علی علیہ السلام کی تربیت بالکل اپنے انداز سے کی تھی اور اُن کو اپنے بعد جانشینی کے لئے مکمل طور پر تیار کیا تھا۔
ظاہری دنیا میں خلیفۃ المسلمین منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے خطبے میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اصولوں کو یوں بیان فرمایا: ’’إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَه أَنْزَلَ کِتَابًا هَادِیًّا بَیَّنَ فِیْهِ الْخَیْرَ وَ الشَّرَّ فَخُذُوْا نِهَجَ الْخَیْرِ تَهْتَدُوْا وَ أَصْدِفُوْا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصُدُوْا، اَلْفَرَائِضُ اَلْفَرَائِضُ أَدُّوْهَا إِلَی اللَّهِ تُؤَدُّکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ حَرَامًا غَیْرَ مَجْهُوْلٍ وَ أَحَلَّ حَلَالًا خَیْرَ مَدْخُوْلٍ وَ فَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَی الْحَرَامِ کُلِّهَا (نہج البلاغہ خطبہ۱۶۷)
’’خداوندِ عالَم نے ہماری ہدایت و راہنمائی کے لئے قرآن نازل فرمایا جس میں ہمارے لیے خیر اور شر (حق اور باطل) دونوں کو بیان کردیا ہے، پس تم نیکی اور حق کے راستے کو مضبوطی سے پکڑ لو تاکہ ہدایت پاؤ اور بُرائی کی طرف سے منہ پھیر لو تاکہ تم متّقی بن جاؤ۔ خدا کے احکامات اور فرائض کو پابندی سے ادا کرو، یہ فرائض تمہیں جنّت میں لے جائیں گے۔ یقیناً خدا نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، وہ مجہول نہیں ہیں اور جن کو حلال قرار دیا ہے، ان کا انجام دینا اچھا ہے اور خدا نے مسلمان بھائی کی حرمت کو تمام حرام چیزوں پر برتری دی ہے۔‘‘
مسلمانوں میں سے ہر ایک شخص کے مخصوص حقوق اور فرائض ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَ لَا تُضَیِّعَنَّ حَقَّ أَخِیْکَ اِتِّکَالاً عَلَی مَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَه فَاِنَّه لَیْسَ لَکَ بِأَخٍ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّهُ‘‘(الاختصاص شیخ مفیدص۲۷)
’’اپنے مسلمان بھائی کے حق کو اپنے اور اس کے درمیان اختلاف اور رنجش کی وجہ سے ضائع مت کرو کیونکہ (انسان ہونے کے ناطے تم سب برابرہو پس) جس کی تم حق تلفی کرو گے وہ تمہارا بھائی نہیں کہلائے گا۔‘‘
نقل ہوا ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ”دار بزاز‘‘ (جو کھدّر کے کپڑے کا بازار تھا) تشریف لائے اور دوکاندار سے فرمایا: ’’مجھے ایک قمیض دو اور میرے ساتھ اچھا معاملہ کرتے ہوئے تین درہم میں مجھے یہ قمیض دے دو۔‘‘ لیکن اُس شخص نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا اور پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ کچھ دیرکے بعد اُس کا ملازم آگیا اور آپ علیہ السلام نے اُس سے تین درہم میں قمیض خریدلی۔ جب مالک کومعلوم ہوا کہ اُس کے ملازم نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو تین درہم میں وہ قمیض فروخت کی ہے تو اُس نے ایک درہم لیا اور حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: مولاؑ یہ ایک درہم آپؑ کا ہے! حضرتؑ نے پوچھا: ’’یہ کیسا درہم ہے؟‘‘ تو اُس نے عرض کیا: آپ علیہ السلام نے جو قمیض خریدی ہے اِس کی قیمت دو درہم تھی لیکن میرے ملازم نے آپؑ کو تین درہم میں فروخت کیا ہے۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’اِسے میں نے اپنی رضا و رغبت سے خریدا ہے اور اُس نے اپنی رضا و رغبت سے فروخت کیا ہے۔‘‘(کنزالعمال ج۶، ص۴۱۰)
زاذان کہتا ہے کہ میں نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو مختلف بازاروں میں دیکھا کہ آپ علیہ السلام بزرگوں کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دیتے، بھولے ہوئے کو راستہ دیکھا تے اور بار اُٹھا نے والوں کی مدد کرتے ہیں اور قرآنِ کریم کی اِس آیتِ کریمہ کی تلاوت فرماتے ہیں: ’’تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ‘‘(سورۂ قصص، آیت۸۳)
’’یہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے اُن لوگوں کے لیے قرار دیا گیا ہے جو زمین میں غرور و تکبُّر اور فتنہ و فسادبرپا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اچھا انجام تو فقط متقین کے لیے ہے۔‘‘ پھر آپؑ نے فرمایا: یہ آیتِ کریمہ صاحبِ قد رت لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے۔(ریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃج۲، ص۲۳۴)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’أَلا إِنَّهُ مَن يُنصِفِ النّاسَ مِن نَفسِهِ لَم يَزِدهُ اللَّهُ إِلَّا عِزّاً‘‘(الکافی ج۲، ص۱۴۴)
’’آگاہ ہو جاؤ! جو شخص اپنے نفس کی نسبت لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتا ہے، خداوندِ عالَم اُس کی عزّت و وقار میں اضافہ فرما دیتا ہے۔‘‘
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’إِنَّ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بَعَثَ إِلَی رَجُلٍ بِخَمْسَةِ أَوْسَاقٍ مِّنْ تَمْرٍ، فَقَالَ رَجُلٌ لِأَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ: وَ اللَّهِ مَا سَأَلَکَ فُلَانٌ وَ لَقَدْ کَانَ یُجْزِیْهِ مِنَ الْخَمْسَةِ أَوْسَاقٍ وَسْقٌ وَاحِدٌ، فَقَالَ لَهُ: لَا کَثَّرَ اللَّهُ فِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ ضَرْبَکَ أُعْطِیْ أَنَا وَ تَبْخَلُ أَنْتَ‘‘(میزان الحکمۃ ، ج١، ص٢٣٤)
’’امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایک شخص کو پانچ وسق کھجور کےبھیجے تو ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم! اُس نے آپؑ سے کچھ مانگا تو نہیں تھااور اس کے لیے تو ایک وسق کھجور ہی کافی تھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اللہ مومنین میں تم جیسے لوگوں کو زیادہ نہ کرے، دے میں رہا ہوں اور کنجوسی تم دیکھا رہے ہو۔‘‘
پس ہمیں چاہیے کہ امام علی علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے مختلف گوشوں کو سمجھیں اور اپنی زندگی ان کی پاکیزہ سیرت کی روشنی میں گزار کر خود کو سچا محب علی علیہ السلام اور شیعہ علی علیہ السلام ثابت کرکے دکھائیں۔

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button