خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:150)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 20 مئی 2022ء بمطابق 18 شوال المکرم1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
آج کی گفتگو میں ہم قرآن مجید کی نظر میں مومنین کی چند اہم صفات پر گفتگو کریں گے۔اگرچہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مومن کی صفات بیان کی گئی ہیں لیکن آج وہ صفات بیان کریں جو سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں بیان کی گئی ہیں اور قرآن کی نظر میں یہ صفات جن مومنین میں پائی جاتی ہیں یقینا وہ فلاح پا گئے اور کامیاب ہوگئے۔ سب سے پہلے توجہ طلب نکتہ سورہ مومنون کا یہی ابتدائی جملہ ہے جس میں مومنین کے اوصاف کے بیان سے پہلے ان کی پُرکیفیت اور مایہٴ ناز زندگی پر ورشنی ڈالی گئی ہے، تاکہ دلوں میں اس بلند وبالا مرتبے کو حاصل کرنے کا ذوق وشوق پیدا ہو، سب سے پہلے فرمایا گیا ہے: قَدْ اٴَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئے۔
یہ لفظ”اٴَفْلَحَ“ ”فلح“ اور ”فلاح“ سے ہے، اس کے اصلی معنیٰ چیرنا اور پھاڑنا ہیں، اس کے علاوہ ہمہ جہت کامیابی حاصل کرنا مقصد کو پالینا اور خوش نصیب ہونا بھی اس مفہوم میں شامل ہے، دراصل جتنے افراد کامیاب نجات یافتہ اور خوش بخت ہوتے ہیں، وہ ہرقسم کی رکاوٹوں کو چیر کر ہی اپنی منزل کامیابی کی راستہ بناتے ہیں ۔
البتہ فلاح اور کامیابی مادی اور معنوی دونوں پہلووٴں پر محیط ہے اور مومنین کے لئے دونوں جہات مراد ہیں ۔ فلاح کی وضاحت یہ ہے کہ جب آدمی ایسے راستے میں قرار پائے جس میں آدمی کے سامنے کچھ رکاوٹیں، کانٹے، گڑھے، پھسلنے کی جگہیں ہوں تو اگر اس راستے سے صحیح سلامت گزر جائے تو کہا جاتا ہے: "افلح”، "کامیاب ہوگیا”۔ یعنی اس نے مشکلات سے سامنا کیا، اس کے سامنے رکاوٹیں آئیں تو اس نے محنت و کوشش کی اور رکاوٹوں اور مشکلات سے رہائی پا کر کامیاب ہوگیا، ایسے آدمی کو کہا جاتا ہے: "افلح”۔ لہذا جو آدمی ایک ہی جگہ پر بیٹھا ہے اسے "افلح” نہیں کہا جاتا۔
مشکلات اور ہلاکتوں کی جگہوں سے گزر جانا اور کامیاب ہونا، ہر انسان کا فطری تقاضا ہے، یہ ذاتی طور پر مطلوب ہے، فلاح پانے کا مقصد نہیں ہے، بلکہ فلاح پانا خود مقصد ہے، اسی لیے قرآن کریم نے کہیں بھی ایسا نہیں فرمایا: "افلحوا لعلّکم کذا"، فلاح پاؤ تا کہ فلاں مقصد تک پہنچ جاؤ”، بلکہ کچھ کام بتائے ہیں کہ یہ کام کرنے کا نتیجہ فلاح ہے۔
قرآن کریم واجب اور حرام کو بیان کرنے کے علاوہ بہت ساری آیات میں تربیتی نکات بھی مدنظر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ قرآن کریم صرف بتائے کہ فلان چیز واجب اور فلان چیز حرام ہے۔ قرآن کریم اس طریقے سے ہمیں سکھاتا ہے کہ اِس راستے میں کامیاب ہونے کے لئے ہمیں کن باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور کون سی بات اہمیت کی حامل ہے۔
مثلاً سورہ مومنون اس آیت سے شروع ہوتی ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ"، "یقیناً مومنین فلاح پاگئے”۔ فلاح کی وضاحت یہ ہے کہ جب آدمی ایسے راستے میں قرار پائے جس میں آدمی کے سامنے کچھ رکاوٹیں، کانٹے، گڑھے، پھسلنے کی جگہیں ہوں تو اگر اس راستے سے صحیح سلامت گزر جائے تو کہا جاتا ہے: "افلح”، "کامیاب ہوگیا”۔ یعنی اس نے مشکلات سے سامنا کیا، اس کے سامنے رکاوٹیں آئیں تو اس نے محنت و کوشش کی اور رکاوٹوں اور مشکلات سے رہائی پا کر کامیاب ہوگیا، ایسے آدمی کو کہا جاتا ہے: "افلح”۔ لہذا جو آدمی ایک ہی جگہ پر بیٹھا ہے اسے "افلح” نہیں کہا جاتا۔
فلاح و کامیابی کی جانب پہلا قدم:
پہلا قدم ایمان ہے، اگر ایمان نہ ہو تو کوئی فلاح و کامیابی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص مستضعف ہو اور ایمان کے بارے میں کچھ نہ سمجھ پایا تو اس کے پاس عذر ہے، یہ شخص فلاح و کامیابی تک نہیں پہنچا، فلاح یہ ہے کہ بالغ انسان راستے کو پہچانے اور کوشش کے ساتھ اسے طے کرے اور مقصد تک پہنچ جائے، ایسی فلاح و کامیابی مومنین کے لئے ہے۔ غیرمومن ہرگز فلاح نہیں پاتا۔
اس فلاح پانے کی وضاحت یہ ہے کہ جب آدمی غفلت سے نکل آیا تو اسے پہلے دیکھنا چاہیے کہ وہ خود کون ہے؟ اور کہاں پر ہے؟ اور کہاں سے آیا ہے؟ اور کہاں جائے گا؟ یعنی اصول دین اور ان پر ایمان لانا۔ جو راستہ انبیاء (علیہم السلام) نے دکھایا، یہ وہی ایمان ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اس کا دل مان لے اور صرف زبان کی حد تک نہ ہو۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ فلاح کے ساتھ ایمان کا ذکر کیا یعنی مومن فلاح پا گئے۔ پس معلوم ہوا کہ پہلا قدم ایمان ہے، اگر ایمان نہ ہو تو کوئی فلاح و کامیابی نہیں ہے۔فلاح یہ ہے کہ بالغ انسان راستے کو پہچانے اور کوشش کے ساتھ اسے طے کرے اور مقصد تک پہنچ جائے، ایسی فلاح و کامیابی مومنین کے لئے ہے۔ غیرمومن ہرگز فلاح نہیں پاتا۔

دنیاوی کامرانی و کامیابی یہ ہے کہ انسان آزاد، سربلند، مستحکم اور بے نیاز ہے اور ایمان کے بغیر یہ مقام حاصل نہیں ہوا کرتا، اُخروی کامیابی یہ ہے کہ الله کے جوارِرحمت میں اچھے ساتھیوں اور ابدی نعمتوں میں باوقار اور سربلند رہے، کتاب "مفردات القرآن” میں دنیوی فلاح کو تین اور اخروی فلاح کو چار چیزوں میں بتایا گیا ہے:
دنیاوی فلاح تین چیزوں میں پوشیدہ ہے:
۱۔بقاء ۲۔بے نیازی(لوگوں کی محتاجی سے بےنیازی) ۳۔عزت ووقار
اور فلاح اُخروی چار چیزوں میں ہے:
۱۔بقاء غیرفانی ۲۔ہرقسم کی احتیاج سے بے نیازی ۳۔ہمہ جہت وقار اور عزّت ۴۔ہر قسم کی جہالت سے نجات دینے والا علم۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہم سورہ مومنون میں بیان کی گئی مومنین کی صفات پر گفتگو کرتے ہیں۔
پہلی صفت: نماز میں خشوع
سورہ مومنون کی دوسری آیت میں مومنین کے اوصاف میں سب سے پہلے نماز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: الَّذِینَ ھُمْ فِی صَلَاتِھِمْ خَاشِعُونَ
جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔
”خَاشِعُونَ“ ”خشوع“ سے ہے، اس کا معنیٰ جسمانی اور ذہنی عجز وانکساری ہے، یہ لفظ اس حالت کو بیان کرتا ہے جو ایک بزرگ وبرتر کی موجودگی میں کسی شخص میں پیدا ہوتی ہے، اس کے اعضاء وجوارح سے ظاہر ہوتی ہے ۔
جب آدمی ایمان لایا تو پہلی چیز جو اس کے لئے اہمیت کی حامل ہے، پہلی چیز جو اسے اِس راستے میں آگے لے جاتی ہے اور فلاح و کامیابی کے قریب کرتی ہے "نماز” ہے۔ اسی سورہ مومنون کی دوسری آیت یہ ہے: "الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ”، "جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں”۔ یعنی یہ بات طے شدہ ہے کہ واجب نماز ضرور پڑھنی چاہیے، یہ پہلی چیز ہے، مگر اس بات پر تاکید ہے کہ ہر طرح کی نماز نہیں، بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ نماز خشوع کے ساتھ ہو۔ خشوع کے ساتھ نماز ہے جو انسان کو فلاح کے قریب کرسکتی ہے۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید مومنین کے نماز پڑھنے کو ایمان کی علامت شمار نہیں کرتا (کیونکہ نماز پڑھنا تو مسلمان ہونے کی بنیادی شرائط میں سے ہے اور نماز بذات خود ایک فرض ہے) بلکہ نماز میں عجز و انکساری کو ان کی خصوصیت قرار دیتا ہے، یعنی یہ واضح کرتا ہے کہ مومنین کی نماز بے معنیٰ اور بے روح حرکات وسکنات نہیں، بلکہ عالمِ نماز میں وہ پوری طرح الله کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، غیرالله سے مکمل طور پر منقطع ہوتے ہیں، اور صرف ذات پرودگار عالم سے رشتہ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے میں وہ ذہنی اور جسمی طور پر اپنے پالنے والے سے راز ونیاز کرتے ہوئے عالم استغراق میں کچھ اس طرح کھوجاتے ہیں، کہ ان کے بدن کے ہر ایک عضو پر اس کا اثر ہوتا ہے، وہ ذاتِ لامتناہی کے مقابلے میں اپنے کوایک ذرّہ اور بحرِ ناپیدا کنار کے مقابلے میں ایک قطرہ سمجھنے لگتے ہیں، نماز کے لمحات ان کے لئے تہذیب نفس اور تربیت روح کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں ۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حالت نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا:
”اٴَ مَا اٴنّہ لَو خَشَعَ قَلْبَہُ لَخَشَعَت جَوَارِحَہُ“.
”اگر اس کا دل حالت عجز میں ہوتا کہ اس کے اعضاء بھی ہوتے“۔
یہ روایت اس حقیقت پر روشنی ڈال رہی ہے کہ نماز میں خشوع، ایک باطنی کیفیت ہے جو ظاہر پر اثر انداز ہوتی ہے، عظیم ہادیانِ اسلام عالمِ نماز میں اس درجہ خضوع وخشوع میں ہوتے تھے کہ غیرالله سے بالکل بیگانہ ہوجاتے تھے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے کبھی پیغمبر اسلام حالتِ نماز میں آسمان کی طرف دیکھ لیا کرتے تھے، مگر اس آیت کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ اپنی نظریں زمین کی طرف رکھتے تھے۔

نماز میں خشوع کی کس قدر اہمیت و ضرورت ہے اس بات کی وضاحت کے لیے ہم چند احادیث کا سہار ا لیتے ہیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام:دعا میں عرض کرتے ہیں: في الدُّعاءِ وأَعوذُ بكَ مِن نَفسٍ لا تَقنَعُ وبَطنٍ لا يَشبَعُ ، وقَلبٍ لا يَخشَعُ. (إقبال الأعمال : ۱ / ۱۷۴ )
’’اور میں ایسے نفس سے تیری پناہ مانگتاہوں جو قناعت نہیں کرتا، ایسے پیٹ سے جوسیر نہیں ہوتااور ایسے دل سے جو خشوع اور انکساری نہیں کرتا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :أمّـا عَـلامَةُ الخاشِعِ فأربَعةٌ : مُراقَبَهُ الله في السِّرِّ والعَلانِيَةِ ، ورُكوبُ الجَميلِ ، والتَّفَكُّرُ ليَومِ القِيامَةِ ، والمُناجاةُ لله ِ . (تحف العقول : ۲۰)
خشوع کرنے والوں کی چار علامتیں ہیں:۱۔ظاہر اور باطن میں خدا کو پیش نظر رکھنا۔۲۔اچھائیوں کی ہمرکابی کرنا۔۳۔روز قیامت کے لئے سوچ وبچار کرنااور۴۔اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: لا صَلاةَ لمَن لا يَتَخَشَّعُ في صلاتِهِ .(الفردوس : ۵ / ۱۹۵ / ۷۹۳۵)
جو شخص نماز میں خشوع و خضوع نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب خشوع کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا :لَمّا سُئلَ عنِ الخُشوع التَّواضُعُ في الصَّلاةِ ، وأن يُقبِلَ العَبدُ بقَلبهِ كُلِّهِ على رَبهِ .
(دعائم الإسلام : ۱ / ۱۵۸)
بندہ نماز میں خلوص دل اور تواضع اور انکساری کے ساتھ اپنے رب کی طرف توجہ کرے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: لِيَخشَعِ الرَّجُلُ في صلاتِهِ ؛ فإنّه مَن خَشَعَ قَلبُهُ لله ِ عز و جل خَشَعَت جَوارِحُهُ فلا يَعبَثُ بِشَيءٍ .(الخصال : ۶۲۸)
انسان کو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ جس کا دل خدا کے لیے خشوع کرتا ہے تو اس کے اعضاء بھی خشوع کرتے ہیں اور کسی چیز کے ساتھ نہیں کھیلتا۔
دوسری صفت: لغو سے پرہیز:
سورہ مومنون کی دوسری آیت میں فلاح پانے والے مومنین کی پہلی صفت نماز میں خشوع بیان ہوئی ہے اور دوسری صفت کہ جو تیسری آیت میں بیان ہوئی ہے، فضول چیزوں سے رُخ موڑنے کی صفت ہے۔ ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ . الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ”، "یقیناً مومنین فلاح پاگئے، جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں، اور جو لغو سے رُخ موڑنے والے ہیں”۔
اگر انسان صرف نیک کاموں کی طرف توجہ کرے، واجبات اور مستحبات کو مدنظر رکھے، لیکن گناہ کو پہچاننے اور اس سے پرہیز کرنے کی کوشش نہ کرے تو مقصد تک نہیں پہنچے گا۔ مثلاً جو کاشتکار گندم کاشت کرے، پھر فصل اٹھائے اور اسے اکٹھا کرلے، اس کے بعد اس فصل پر آگ گرے اور اسے جلا دے، یہ کیسا ہوگا؟!۔
اسی طرح ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی آگ ہمارے اعمال پر نہ گرے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے کیے ہوئے اعمال کو برباد کردیں۔ اس کی شرط یہ ہے کہ کچھ کاموں کو چھوڑنا پڑے گا تو تب ہے کہ اولاً: ہم نماز کو خشوع کے ساتھ پڑھنے میں کامیاب ہوں گے، ثانیاً: اس کا نتیجہ تباہ نہیں ہوگا، بلکہ صحیح و سلامت رہے گا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ خشوع کے ساتھ نماز کی توفیق پائیں اور اس کا نتیجہ بھی باقی رہے تو ضروری ہے کہ اِس دوسرے طریقہ کار کو اختیار کریں، یعنی لغو، بیہودہ اور فضول چیزوں، فضول باتوں اور فضول کاموں سے پرہیز کریں۔
امام علی علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے: كُلُّ قَولٍ لَيسَ لله ِ فيهِ ذِكرٌ فلَغوٌ .(بحارالانوار : ۷۸ / ۹۲ / ۱۰۱)
ہر وہ بات جس میں ذکرِ خدا (یادِ الٰہی) نہ ہو وہ لغو یعنی بے ہودہ ہے۔
امام جعفرصادق ع:في قولهِ تعالى :وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿۳﴾ (المؤمنون:۳): هُو أن يَتَقَوّلَ الرّجُلُ علَيكَ بالباطِلِ ، أو يأتِيَكَ بما لَيسَ فيكَ ، فتُعرِضَ عَنهُ لله ِ ۔ وفي روايةٍ اُخرى : إنّهُ الغِناءُ والمَلاهي .
(مجمع البيان : ۷ / ۱۵۷)
اللہ تعالیٰ کے اس قول:-وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ﴿۳﴾– یعنی جو لوگ بے ہودہ باتوں سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔کے بارے میں امام جعفرصادق ع سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص تمہاری طرف جھوٹی باتوں کی ناروا نسبت دے یا جو برائی میں تم میں نہیں پائی جاتی اسے بیان کرے اور تم صرف خدا کی خوشنودی کے لیے اس سے منہ پھیر لو۔ (ایک اور روایت کے مطابق -اس سے مراد راگ و رنگ وگانا بجانا ہے-)
لغو کے سب مراتب سے پرہیز
سورہ مومنون کی دوسری آیت میں فلاح پانے والے مومنین کی پہلی صفت نماز میں خشوع بیان ہوئی ہے اور دوسری صفت کہ جو تیسری آیت میں بیان ہوئی ہے، فضول چیزوں سے رُخ موڑنے کی صفت ہے۔ ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ . الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"، "یقیناً مومنین فلاح پاگئے، جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں، اور جو لغو سے رُخ موڑنے والے ہیں”۔
خشوع کو صرف واجب نمازوں کے بارے میں نہیں فرمایا، بلکہ نمازوں میں خشوع کا تذکرہ کیا ہے، یعنی خود نماز مراد ہے، مگر بعض نمازوں کے مصادیق واجب ہیں، بعض واجب مُؤَکَّد، بعض مستحب مؤکد، بعض عام مستحب۔ یہ سب مطلوب ہیں رتبوں کے فرق کے ساتھ اور سب کا فلاح و کامیابی پر اثر بھی ہے درجات کے فرق کے ساتھ۔
نقصان دہ چیزوں سے پرہیز کے بارے میں بھی اسی طرح ہے، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ گناہان کبیرہ (بڑے گناہوں) کو چھوڑ دو، بلکہ ایک کلّی عنوان بیان کیا ہے جو فضول سے رُخ موڑنا ہے۔ اس کا واضح مصداق بڑے گناہ ہیں یا بعض گناہ ہیں، لیکن یہ کلّی عنوان کئی اور کاموں کو بھی شامل ہوسکتا ہے، پھر مشتبہ اور مشکوک کاموں کو بھی شامل ہوسکتا ہے، مکروہات کو بھی شامل ہوسکتا ہے، بلکہ بعض اوقات بعض مباح کاموں کو بھی شامل ہوسکتا ہے۔
معیار یہ ہے کہ جو تمہارے لیے فائدہ مند نہیں ہے وہ "لغو” ہے اور اس کا ارتکاب نہ کرو۔
لغو سے متعلق رسول اللہ ص سے روایت ہے:
أعظَمُ النّاسِ قَدرا مَن تَركَ ما لا يَعنيهِ .(أمالي الصدوق : ۲۸ / ۴)
:وہ شخص قدر و منزلت کے لحاظ سے بڑا عظیم ہے جو بے مقصد اور بے معنی باتوں کو ترک کردے۔
جبکہ ایک مقام پہ امام علی ع فرماتے ہیں :
لا تَعَرَّضْ لِما لا يَعنيكَ بِتَركِ ما يَعنيكَ .(بحارالانوار : ۷۸ / ۷ / ۵۹)
جو چیز تمہارے لیے مفید ہے اُسے ترک کر کے اس چیز کے درپے نہ ہو جو تمہارے کسی کام کی نہ ہو۔
اسی طرح روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رح کے نام امیرالمومنین ع اپنے ایک مکتوب (خط)میں لکھتے ہیں:
مِن كِتابٍ لَهُ إلى عبدِالله بنِ العبّاسِ: أمّا بَعدُ ، فاطلُبْ ما يَعنيكَ واترُكْ ما لا يَعنيكَ ؛ فإنّ في تَركِ ما لا يَعنيكَ دَركَ ما يَعنيكَ . (تحف العقول : ۲۱۸)
امابعد: جو چیزیں تمہارے لیے فائدہ مند ہیں انہیں حاصل کرو اور جو مفید نہیں ہیں انہیں چھوڑ دو، کیونکہ بےفائدہ چیزوں کو ترک کرنا گویا مفید چیزوں کا حاصل کرلینا ہے۔
پس اس گفتگو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمہارے سامنے مقصد ہے اور تم مقصد تک پہنچنا چاہتے ہو، دیکھو کہ کون سا کام تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ سب سے بڑا کام نماز ہے۔ اسے خشوع کے ساتھ بجالاؤ۔ جس آدمی کے سامنے مقصد ہوتا ہے وہ اپنی طاقت کو ان چیزوں پر نہیں لگادیتا جو مقصد تک پہنچے سے رکاوٹ ہوں یا کم از کم اسے مصروف کرلیتی ہوں اور اسے چلنے سے روک دیتی ہیں۔
در اصل مومنین کی زندگی کی تمام حرکات وجہات، مقصد اور نصب العین کے حصول کے لئے ہیں اور مقصد بھی تعمیری اور مفید کیونکہ لغو کا مطلب بے مقصد یا وہ مقصد جس کا نتیجہ برآمد نہ ہو، بقول عظیم مفسروں کے لغو کے مندرجہ ذیل معانی ہیں:
۱۔باطل ۲۔گناہ ۳۔جھوٹ ۴۔گالی یا جوابی گالی ۵۔موسیقی اور گانا بجانا ۶۔شِرک
مندرجہ بالا سب کے سب معانی مجموعی اور کلی معنیٰ کا حصّہ ہیں ۔ ”لغو“ میں صرف بیہودہ باتوں اور افعال کا مفہوم ہی نہیں پایا جاتا، بلکہ وہ بیہودہ باتیں یا وہ فضول قسم کے افعال جو انسان کو الله کی یاد سے غافل کردیں ۔ نیز معقول اور مفید امور پر غور وفکر کرنے کا موقع نہ دیں ۔ سب لغو کے مفہوم میں شامل ہیں ۔
آج کی گفتگو میں ہم فلاح پانے والے مومنین کی فقط دو خصوصیات پر ہی بات کر سکے ہیں۔ ان شاء اللہ آنے والے خطبات میں باقی صفات پر بھی گفتگو ہوگی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں فلاح پانے والے مومنین کی صفات اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button