اخلاق حسنہاخلاقیات

حضرت لقمان کی حکمتیں

محمد محمدی اشتہاردی
دسویں حکمت : آواز میں اعتدال
حضرت لقمان کی آخری نصیحت جو اپنے بیٹے کو کی ہے وہ قرآن مجید میں اس طرح سے بیان ہوا ہے ۔
وَ اقْصِدْ في‏ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَميرِ
( لقمان ، ‏۱۹)
اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔
اسلام اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے یعنی انسان اپنے زندگی کے تمام امور میں افراط اور تفریط سے پرہیز کرے تو یہ اسلام کا اصل رکن شمار ہوتاہے ۔ اسی لئے قرآن مجید میں امت اسلام کو امت وسط سے یاد کیا گیاہے جو تمام عالمین کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا :
وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطا
اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا۔
(بقره ، ۱۴۳)
معصومین علیہم السلام کی بہت ساری روایات میں نقل ہوا ہے :
نحن الامة الوسطی، و نحن شهداء الله علی خلقه و حججه فی ارضه نحن الشهداء علی الناس… الینا یرجع الغالی و بنا یرجع المقصر
ہم امت وسط ہیں اور مخلوق خدا پر ہم گواہ ہیں اور زمین پر ان کے حجت ہیں اور لوگوں پر ہم ہی گواہ ہیں غالی اور مقصر ہماری طرف لوٹ آ‏‏‏ئیں گے ۔
(تفسیر نورالثقلین، ج‏۱، ص‏۱۳۴)
اعتدال کے اقسام میں سے ایک چلتے وقت اعتدال کی رعایت کرنا ہے اس طریقے سے کہ اس کا چلنا مغرورانہ انداز میں یا بے ادبی سے نہ ہو اور سستی اور کاہلی کے حال میں نہ ہو ۔ چلنے کا صحیح طریقہ اور اور انکے آداب کو گزشتہ بحث میں بیان کیا گیا ہے ہم یہاں اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔اعتدال کی ایک اور قسم آواز میں اعتدال کی رعایت کرنا ہے اور یہ آداب اسلام میں سے ہے کہ انسان اپنی آواز میں اعتدال پیدا کرے۔ یہاں پر اسی بحث کو حضرت لقمان کی آخری نصیحت کے طور پر اس کی وضاحت کریں گے ۔
آواز میں اعتدال کا معنی :
آواز میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی آواز میں آ‏‏‏‏‏‏داب اسلامی کی اس طریقے سے رعایت کرے کہ اس کا آواز اتنا اونچا نہ ہو کہ جس سے دوسروں کو اذیت ہو تی ہو ۔اگرچہ اس بات کی طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے کہ آواز کئی قسم کی ہے جیسا کہ گاڑیوں کی ہارن کی آواز یں اور مسجدوں اور امام بارگاہوں میں لگے ہو‏‏‏ئے لوڈاسپیکرز کی آوازیں اور خود انسان کی مختلف آوازیں جو دوسروں سے باتیں کرتے وقت یاٹیلیفون پر بات کرتے وقت اور اسی طرح سے غیر طبیعی آوازیں کہ جو انسان کو چھینک آنے سے یا کھانسی کرتے ہو‏‏‏ئے نکلتی ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں ان سب آوازوں کی رعایت کرنی چاہیے ۔
اسی طرح سے دوسری آوازیں جیسا کہ ٹیلی ویژن اور ریڈو اور مختلف کارخانوں کی آوازیں جو عصر حاضر کے ٹیکنالوجی میں شمار ہوتے ہیں ان سب کی آوازیں جو انسان سے سکون اور آرامش کو چھین کر اس کی اذیت اور آزار کا باعث بنتا ہے بلکہ انسان کے سننے کا جو حس ہوتا ہے اس کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے ۔ اور سا‏‏‏ئنسدانوں کے مطابق اس قسم کی آواز یں انسان کے اعصاب اور دل پر بہت ہی برا اثر رکھتی ہے ۔ایسی آوازیں جو کبھی شادی بیاہ کے عنوان سے کبھی کسی مجلس اور جشن کے عنوان سے یا کبھی کھیل کود کے میدان سے نکلتی ہیں بہت ہی خطرناک قسم کی آوازیں شمار ہوتی ہیں ۔
کبھی لڑھا‏‏‏ئی جھگڑے کی صورت میں اور زار و قطار رونے کی آوازیں جو کہ فتنہ و فساد کا باعث بنتے ہیں ان سب کی رعایت کرنی چاہیے اور اگر اس کی رعایت نہ کریں تو یہ انسان میں ضد اور عداوتوں کو اجاگر کرتی ہے کہ جو مذید لڑا‏‏‏ئی اور جھگڑے کا باعث بنتا ہے۔ بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی آوازیں جو دوسروں کو تکلیف اور اذیت کا باعث بنتے ہیں وہ گناہان کبیرہ میں شمار ہوتے ہیں جو کہ حق الناس شمار ہوتا ہے یعنی اس گناہ کے لئے اگر کو‏‏‏ئی بندہ توبہ کرنا چاہے تو اس کی قبولیت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس بندے کو راضی کرے کہ جن کو اسکی آوازوں سے اذیت پہنچی ہو ۔
اس وقت تک اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی جب تک وہ ان کو راضی نہ کریں ۔ لہذا اپنی آوازوں میں آداب کی رعایت کرنے چا‏‏‏ہیےاور خصوصا ڈرا‏‏‏ئیور حضرات جو کہ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ گاڑیوں کی رش کی وجہ سے وہ زیادہ جوش میں آتے ہیں اور صبر و تحمل کرنے کے بجا‏‏‏ئے ہارن لگاتے رہتے ہیں کہ جس سے دوسرے لوگوں کو اذیت ہوتی ہے ۔اسی بنا پر بعض ملکوں میں اس طرح کی آوازوں کے آلودگی سے بچنے کے لئے مختلف قوانین بنایا ہے تاکہ لوگوں کو اذیت نہ ہو اور معاشرے کے اندر اعتدال اور آرامش برقرار رہے ۔ چونکہ معاشرے میں بہت سارے بیمار ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان خطرناک آوازوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مثال کے طور پر ایک بندہ دل کی بیماری میں مبتلا ہے جب وہ کسی جگہ سے گزر رہا ہو تو اچانک ایک لڑکا اس کے سامنے سے پٹاخہ پھینک دیتا ہے جس کے پھٹنے سے خطرناک قسم کی آواز نکلتی ہے جس کی وجہ سے وہ دل کا مریض اسی جگہ پر مرجاتا ہے یا اسکو بہت شدید قسم کا چوٹ لگتا ہے ۔ اور اس طرح صرف آواز کے غلط استعمال سے دوسروں کی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔
اور اس بات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ٹیلیفون پر کسی کو اذیت کرنا یا دروازے کی گھنٹی مار کر بھاگ جانا اور چیزیں فروخت کرنے کے لیے اپنی گاڑی میں لوڈ اسپیکر لگا کر گلی گلی میں اعلان کرنا، یہ سب آواز کی آلودگیوں میں سے شمار کیے جاسکتے ہیں کہ جس کی رعایت کرنا حق الناس میں شمار ہوتا ہے ۔اور اسی طرح سے شاگردوں کے اپنے استاد کے سامنے شور کرنا بھی اسی میں شامل ہوتا ہے ۔اسی بنا پر ہر قسم کی آواز میں اعتدال کی رعایت کرنی چاہیے تاکہ دوسروں کے لئے اذیت نہ ہو ۔ کیونکہ سکون اور آرامش لوگوں کا حق بنتا ہے اور ان کی رعایت نہ کرنا انکے حق میں تجاوز شمار ہوگا جو بہت بڑا گناہ اور جرم ہے ۔
آواز پر کنٹرول کرنا قرآن کی نظر میں :
قرآن مجید میں تین جگہوں پر اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
(حجرات ۳،۲،لقمان، ۱۹)
کہ ان میں سے دو ایسے موارد ہیں کہ جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ۔اور ان میں سے ایک مورد ایسا ہے جس میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ہو‏‏‏‏‏‏ئی نصیحتوں میں سے جانا گیا ہے ۔حضرت لقمان کی اس نصیحت میں جیساکہ ابتدا کلام میں بیان ہوا اس طرح سے بیان ہو رہا ہے ۔
وَ اقْصِدْ فىِ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الحْمِير
(لقمان، ۱۹)
اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔
اس آیت میں دو اہم مطلب کو بیان کیا ہے ۔
پہلا یہ کہ : جب آپ کسی سے بات کرتے ہو یا اس کو آواز دیتے ہو تو اپنی آواز کو دھیمی رکھو یعنی اپنی آواز کو اونچی نہ کرو ۔
لفظ ( غض ) اصل میں آواز کو دھیمی رکھنے کے معنی میں ہے یعنی بلندی سے نیچے کی طرف آنے کے معنی میں ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اپنی آواز کو بالکل ہی نرم اور ہلکا آواز میں بات کرو اور چیخنے اور پکارنے سے بچو !
اور دوسرا یہ کہ : حضرت لقمان کی اس نصیحت میں اونچی آوازوں کو گدھوں کی آواز کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ اگرچہ اس سے بڑھ کر خوفناک آوازیں ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشبیہ دینا اس کی عمومیت کے وجہ ہے جو کہ اس قسم کی مثالیں ہر زمان اور ہر جگہ پر پا‏‏‏ئے جاتے ہیں جو عمومیت کی بنا پر ہے اور بہت ہی واضح اور روشن ہے ۔اور اس کے علاوہ کہ یہ آواز دوسرے آوازوں سے بہت ہی خوفناک اور بری ہے کبھی بغیر کسی مقصد اور ہدف کے بے اختیار نکلتی ہے جس طرح سے انسان کے منہ سے نکلنے والی وہ آوازیں اور نعرے جو بغیر کسی مقصد کے ہوتے ہیں ۔
امام صادق علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
هی العطیسة المرتفعة القبیحة
(تفسیر مجمع البیان، ج‏۸، ص‏۳۲۰)
یعنی بلند آواز میں چھینکنا بہت ہی برا ہے ۔ ‏‏‏
اور بعض مفسرین سے بھی نقل ہواہے کہ
أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ
سے مراد بری آواز ہے اور گدھے کی آواز دوسرے حیوانوں کے نسبت سے بہت ہے برا ہے چونکہ اس کی آواز کی ابتداء میں برے سانسوں سے شروع ہوتا ہے پھر اس کے بعد بری آواز نکلتی ہے ۔اور انسانوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جو گہری سانسوں کے ساتھ باتیں کرنا شروع کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں دو ایسے موارد کو بیان کیا گیا ہے کہ جن میں آواز میں اعتدال اور اس کی رعایت کرنے کے بارے میں ذکر ہوا ہے جیساکہ سورہ حجرات میں ارشاد ہوتاہے ۔
يٰأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرْفَعُواْ أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبىِ‏ِّ وَ لَا تجَهَرُواْ لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تحَبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنتُمْ لَا تَشْعُرُون
(حجرات، ۲)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
اور اس کے بعد والی دو آیتوں میں ارشاد ہوتا ہے ۔جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔ جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔
ان آیتوں میں بیان ہورہا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ا‏‏‏ئمہ معصومین علیہم السلام کے سامنے بات کرتے وقت آداب کی رعایت کرے اور کبھی بھی ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور ان سے برے الفاظ میں بات نہ کرے انکی حرمت کی حفاظت کرے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرے ۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام استاد اور شاگرد کے درمیان حقوق کو بیان کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں ۔
شاگر د کا اپنے استاد پر حق یہ ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے بلند آواز میں بات نہ کرے ۔
نتیجہ یہ ہے کہ : ان آیات میں آداب اسلامی کی رعایت کرنے اور لوگوں کے سامنے بات کرتے وقت اپنی آواز میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کو بیان کرتے ہے اور خصوصا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے سامنے ان آداب کی رعایت کرنے کی زیادہ تاکید ہو‏‏‏ئی ہے ۔
آواز میں اعتدال معصومینؑ کے کلام میں :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
ان الله یحب الصوت الخفیض، و یبغض الصوت الرفیع
خداوند عالم نرم اور دھیمی آواز کو پسند کرتا ہے اور ا‏‏‏ونچی آواز کو پسند نہیں کرتا ہے ۔
(بحار ج۷۵ ص۲۶۳)
امام علی علیہ السلام جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں :
و امیتوا الاصوات فانه اطرد للفشل
جنگ کے میدان میں ایک دوسرے سے بحث کرنے سے پرہیز کریں کہ یہ سستی اور کاہلی کو دور کرتی ہے ۔
(غرر الحكم، ترجمہ محمد علی انصاری، ج‏۱، ص‏۹۷)
امام کسی اور کلام میں فرماتے ہیں اپنی آواز کو بلند نہ کرنا اور اپنی آنکھوں کو جھکا‏‏‏ئے رکھنا اور بولتے وقت اپنی آواز میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا چونکہ یہ ایمان کی نشانی ہے اور اچھی دینداری شمار ہوتی ہے ۔
(اقتباس از تفسیر مجمع البیان ، ج‏۹، ص‏۱۳۰)
استثناءات :
البتہ اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ بعض موارد ایسے ہیں کہ جن میں آو‏‏‏از کو بلند کرنا اچھا اور پسندیدہ ہے ۔ مثال کے طور پر ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اپنے حق کا دفاع کرتے ہو‏‏‏ئے آواز بلند کرنا اور اس کے علاوہ وہ موارد کہ جہاں پر قرآن مجید کی محفلیں ہوتی ہے یا علمی مباحثے اور مناظرے ہوتے ہیں تو ان موارد میں آواز کو بلند کرنا پسندیدہ اور قابل ستایش ہے ۔
اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔
لَّا يحُبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ وَ كاَنَ اللَّهُ سمَيعًا عَلِيمًا
(نساء، ۱۴۸)
اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔
یہاں پر ( جہر ) سے مراد آشکار اور کھل کر بات کرنا ہے جو انسان کی باتوں کے ساتھ مربوط ہے تو بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کربلا والوں کی مظلومیت اور ان کی فریادیں اسی آیت کے مصداق ہیں ۔
روایت میں آ‏‏‏ئی ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ( ثابت بن قیس )جو کہ خطیب تھے جب سورہ حجرات کی آیت ۲ کے نزول کے بارے میں سن لیا کہ (۔۔اونچی آواز میں بات کرنے سے انسان کے اعمال ضایع ہونے کا باعث بنتا ہے ۔)تو اس کو بہت دکھ ہوا لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو کہا آپ ڈرے نہیں آپ کی وہ بلند آواز خطابت اور تقریر کے خاطر ہے آپ کے حساب دوسروں سے جدا ہے۔
(وسائل الشیعہ، ج‏۴، ص‏۶۱۹)
انہی استثناءات میں سے ایک نماز کی حالت میں بلند آواز سے آذان دینا ہے اور حج انجام دیتے وقت بلند آواز میں لبیک کہنا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
یغفر للمؤذن مد صوته و بصره
مؤذن کی آواز جس حد تک دور جاتی ہیں اتنا ہی اس کو بخش دیا جاتا ہے۔
(صحیفہ نور، ج‏۱۸، ص‏۲۱)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اتنا ہی بلند آواز میں آذان دینی چاہیے تاکہ کہ آواز دو‏‏‏ر دور تک جا‏‏‏ئے اور اتنا ہی زیادہ ثواب ملے ۔اور اسی طرح سے استکبار اور طاغوت کے خلاف جو آوازیں اور شعار بلند ہوتے ہیں جو اپنے حق کے دفاع کي خاطر هوتے ہیں وہ بھی انہی استثنا‏‏‏ءات میں سے شمار ہوتے ہیں یہ آوازیں جتنا ہی بلند ہوگا اتنا ہی دشمن کی پستی اور انکے ذلیل ہونے کا باعث بنے گا۔لیکن صرف ان کچھ موارد کے علاوہ کسی اور مورد میں انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آپنی آواز کوبلند کرے چونکہ اس سے مؤمنین کی حقارت کا باعث ہوتا ہے ۔
امام خمینی کی ایک نصیحت :
لوڈ اسپیکر پر آواز کو بلند نہ کرنے کی طرف امام خمینی کی سفارش :
امام خمینی ان بے جا آوازوں کے بارے میں جو دوسروں کے لئے مزاحمت کا باعث بنتے ہیں اگرچہ وہ عبادت کے عنوان سے ہی کیوں نہ ہو ان سے پرہیز کرنے کی نصیحت کرتےہیں ۔ہم یہاں پر بطور نمونہ امام خمینی کی دو نصحیتوں کو ذکر کریں گے ۔
۱۔ امام کی یہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے مجالس میں یا امام بارگاہوں میں لوڈ اسپیکر لگاتے ہیں وہ دوسرے ضعیف اور کمزور لوگوں کی رعایت کریں کیونکہ ان میں بہت سارے بیمار اور بوڑھے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ان کی آوازوں سے تکلیف اور اذیت ہوتی ہے لہذا لوڈ اسپیکر کو باہر نہ لگایا جا‏‏‏ئے بلکہ ان کو مسجدوں کے اندر ہی لگا‏‏‏ئے اور اسی حد تک ہی محدود رکھے ایسا نہ ہو کہ خدا کی اطاعت کرتے ہو‏‏‏ئے اس کی معصیت کا باعث بنے ۔
اور رمضان کے مہینے کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دوسروں کو آرامش دے ۔
(صحیفہ نور، ، ج‏۱۶، ص‏۲۴۳)
۲۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض ایسے کام ہیں جو ظاہری طور پر اسلامی ہوتے ہیں لیکن بےتوجہی کی وجہ سے وہ غیر اسلامی شمار ہوتےہیں مثال کے طور پر کچھ لوگ دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد بھی یہی ہوتا کہ دین کی خدمت کریں لیکن وہ عمل کرتے وقت اس طرح سے انجام دیتے ہیں کہ وہ معصیت اور گناہ شمار ہوتا ہے یعنی اسلام کے نام پر بعض ایسے کام انجام دیتے ہیں جو اصلا اسلام کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہوتے ۔ جیسا کہ آدھی رات کو تکبیر کی آوازیں لگاتے اور نعرے لگانا شروع کرتے ہیں کہ جس سے ان کے ہمسایوں کو اذیت کا باعث بنتے ہیں تو ان کی یہ خدمت کرنا گناہ میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
اگر آپ اپنے گھر میں مجلس پڑھاتے ہیں تو لوڈ اسپیکر کو اسی گھر کے اندر ہی محدود رکھے تاکہ اس کی آواز باہر نہ جا‏‏‏ئے ۔ اگر آپ ایک اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو اس لوڈ اسپیکر کی آواز باہر نہ جانے دیں اور محلہ کے لوگوں کو اذیت نہ ہو ۔ اور اگر ان کو تکلیف پہنچی یا ان کو اذیت ہو‏‏‏ئی تو آپ کی یہ خدمت عبادت کے بجا‏‏‏ئے گناہ کبیرہ ہو جا‏‏‏ئےگا چونکہ کسی مسلمان یا مؤمن کو اذیت دینا سب سے بڑا گناہ شمار ہوتا ہے ۔
( فرقان ۷۳)
(’’حضرت لقمان کی دس حکمتیں‘‘ سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button