امامت

امامت پر ایک مدلل بحث (حصہ اول)

امام کے وجود کا فلسفہ
الہٰی رہبروں کے وجود کے ساتھ معنوی تکامل
سب سے پہلے ہمیں انسان کی خلقت کے مقصد پر بحث کرنی چاہئے کیونکہ یہ گلدستہ کائنات کا سب سے اچھا پھول ہے۔انسان خدا کی طرف ،تمام جہات میں کمال مطلق اور معنوی تکامل کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایک طولانی اور نشیب وفراز سے پر راستہ طے کرتا ہے۔بیشک انسان اس راستہ کو ایک معصوم پیشوا کی رہبری کے بغیر طے نہیں کر سکتا ہے اور اس کے لئے ایک الہٰی معلم کی رہبری کے بغیر یہ منزل طے کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ”اس راہ میں تاریکیاں اور گمراہی کے خطرات موجود ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ خدا وند متعال نے انسان کو عقل وشعور کی قوت سے نوازا ہے اور اسے محکم اور قوی ضمیر عطا کیا ہے ،اس کے لئے آسمانی کتابیں بھیجی ہیں۔لیکن ممکن ہے یہ انسان ان تمام تکوینی اور تشریعی وسائل کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کی شناخت کر نے میں غلطی کا شکار ہو جائے ۔بیشک ایک معصوم پیشوا انحراف اور گمراہی کے خطرات کو دور کر دیتا ہے ۔لہذا ”امام کا وجود انسان کی تخلیق کے مقصد کو مکمل کر نے والا ہے۔“
یہ وہی چیز ہے جسے عقائد کی کتابوں میں”قاعدہ لطف“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ”قاعدہ لطف“سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیتا ہے جو اس کو تخلیق کے مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں ۔انبیاء کی بعثت اور امام معصوم کا وجود بھی ان ہی میں سے ہے ورنہ انسان کے مقصد خلقت کی مخالفت لازم آئے گی۔(غور فر مائیں)۔
آسمانی ادیان کی حفاظت
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جب الہٰی ادیان انبیاء کے قلوب پر نازل ہو تے ہیں تو وہ بارش کے پانی کی بوندوں کے مانند صاف وشفاف حیات بخش اور روح پرور ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ آلودہ ماحول اور کمزور یا ناپاک ذہنوں میں وارد ہوتے ہیں تو رفتہ رفتہ آلودہ ہو جاتے ہیں اور خرافات وتو ہمات ان میں اس قدر مخلوط ہو جاتے ہیں کہ ان کی بنیادی پاکیزگی اور لطافت ختم ہو جاتی ہے ۔اس حالت میں نہ ان میں جذّابیت باقی رہتی ہے اور نہ تربیت کا خاص اثر ،نہ ہی یہ ادیان پیاسوں کو سیراب کر سکتے ہیں اور نہ ان میں فضائل وکمالات کی کلیاں اور پھول کھلا سکتے ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ دین ومذہب کی اصلی شکل کی حفاظت اور دینی اصول وضوابط کے خالص رہنے کے لئے ایک معصوم پیشوا موجود ہو تا کہ وہ انحرا فات ،غلط افکار،غلط اور اجنبی نظریات،توہمات وخرافات سے دین کو بچاسکے ۔اگر دین ومذہب ایسے رہبر سے محروم ہوگا تو وہ دین مختصر مدت کے اندر ہی اپنی حقیقی شکل اور پاکیزگی کو کھودے گا۔
اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:
”اللّٰھم بلی ،لا تخلوا لارض من قائم للّٰہ بحجة،اماظاھراًمشہورا،اوخائفاًمغمورا لئلا تبطل حجج اللّٰہ وبینا تہ”
(نہج البلاغہ،کلمات قصارنمبر۱۴۷)
”جی ہاں ،زمین ہر گز قیام کر نے والے حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی ہے،خواہ(وہ حجت خدا)ظاہر وآشکار ہو یامخفی وپوشیدہ،تاکہ خدا کی واضح دلیلیں اور نشانیاں باطل نہ ہونے پائیں۔“
حقیقت میں قلب امام علیہ السلام اس محفوظ صندوق کے مانند ہے جس میں ہمیشہ گراں قیمت اسنادرکھے جاتے ہیں تاکہ چوروں کی لوٹ مار اور دوسرے حوادث سے محفوظ رہیں یہ بھی وجود امام کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ہے۔
امت کی سیاسی واجتماعی رہبری
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی معاشرہ یاگروہ ایک ایسے اجتماعی نظام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا ہے جس کی سر پرستی ایک توانا رہبر کرتا ہو۔اسی لئے زمانہ قدیم سے آج تک تمام اقوام و ملل نے اپنے لئے ایک رہبر کو منتخب کیا ہے۔ کبھی یہ رہبر صالح ہو تا تھا لیکن بہت سے مواقع پر غیرصالح ہو تا تھا ۔اکثر مواقع پر امتوں کی ایک رہبر کی ضرورت اور احتیاج سے ناجائز فائدہ اٹھا تے ہو ئے ظالم بادشاہ اور سلاطین زورو زبر دستی سے لوگوں پر مسلط ہو کر اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے۔یہ ایک طرف۔دوسری طرف انسان کو اپنے معنوی کمال کے مقصد تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کو اکیلے ہی نہیں بلکہ جماعت اور معاشرہ کے ہمراہ طے کر ناچاہئے کیونکہ فکری ،جسمانی، مادی اور معنوی لحاظ سے انفرادی طاقت کمزور ہو تی ہے اور اس کے مقابلہ میں اجتماعی طاقت بہت قوی ہوتی ہے لیکن ایک معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ایک ایسا صحیح نظام حکم فر ماہو،جو انسانی صلاحیتوں میں نکھار لائے ،انحرا فات اور گمراہیوں سے مقابلہ کرے،معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کا تحفظ کرے،بلند مقاصد تک پہنچنے کے لئے پرو گراموں کو منصوبہ بند طریقے پر منظم کرے اور ایک آزاد ماحول میں پورے معاشرے کو حرکت میں لانے کے عوامل یکجا کرے۔
چونکہ ایک خطا کارانسان میں ایسی عظیم ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے ،جیسا کہ ہم ہمیشہ صحیح راستہ سے سیاسی حکمرانوں کے انحراف اور گمراہی کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں ،اس لئے ضروری ہے کہ خداوند متعال کی طرف سے ایک معصوم رہبران امور کی نگرانی ونظارت کرے اور لوگوں کی توانائیوں اور دانشوروں کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے انحرافات کی بھی روک تھام کرے۔
یہ امام کے وجود کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اور”قاعدہ لطف“کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔ہم مکرر عرض کر رہے ہیں کہ استثنائی زمانہ میں بھی ،جب امام معصوم کچھ وجوہات کی وجہ سے غائب ہوں تو لوگوں کی ذمہ داریاں واضح ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ ہم”حکومت اسلامی“کی بحث میں اس پر مفصل روشنی ڈالیں گے۔
اتمام حجّت کی ضرورت
امام علیہ السلام کے وجود کی نورانی کرنوں سے صرف آمادہ دلوں کی رہنمائی ہی مقصد نہیں ہے تاکہ وہ کمال مطلق کے راستے پر گامزن رہیں بلکہ امام کا وجودان لوگوں کے لئے بھی حجت کے طور پر ضروری ہے،جو جان بوجھ کر گمراہی کی طرف جاتے ہیں ،تاکہ ان کے ساتھ وعدہ کی گئی سزابے دلیل نہ ہو اور کوئی شخص ایسا اعتراض نہ کر سکے ،کہ اگر کسی الہٰی رہبر نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں حق کی طرف دعوت دی ہو تی تو ہم ہر گزگمراہ نہ ہو تے۔
مختصر یہ کہ امام کے وجود کا مقصد یہ ہے کہ عذر اور بہانہ کے تمام راستے بند کر دیئے جا ئیں ،حق کی دلیلیں کافی حد تک بیان کی جائیں ،نا آگاہ لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے اور آگاہ افراد کو اطمینان دلاکر ان کے ارادہ کو تقویت بخشی جائے۔
امام،فیض الہٰی کا عظیم وسیلہ ہے
بہت سے علماء ،اسلامی احادیث کی روشنی میں،انسانی معاشرہ یا تمام کائنات میں پیغمبر اور امام کے وجود کو انسان کے بدن میں ”قلب“کے وجود سے تشبیہ دیتے ہیں۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دل کی دھڑکن کے نتیجہ میں خون تمام رگوں میں پہنچ جاتا ہے اور اس طرح بدن کی تمام خلیوں کو غذا پہنچتی ہے۔چونکہ امام معصوم ایک انسان کامل اور کاروان انسانیت کے راہنما کی حیثیت سے فیض الہٰی کے نازل ہو نے کا وسیلہ ہے اور ہر شخص پیغمبر وامام سے اپنے ارتباط کے مطابق اس فیض الہٰی سے بہرہ مند ہو تا ہے ۔لہذا یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح انسان کے لئے ”دل“کا وجود ضروری ہے اسی طرح عالم انسانیت کے لئے فیض الہٰی کے اس وسیلہ (امام علیہ السلام ) کا ہونابھی ضروری ہے۔(غور فر مائیے)
مغالطہ نہ ہو ،پیغمبر اور امام کے پاس اپنی کوئی ایسی چیز نہیں ہو تی ہے جسے وہ دوسروں کو عطا کریں ،بلکہ ان کے پاس جو کچھ ہو تا ہے وہ خدا کا دیا ہوا ہو تا ہے ،لیکن جس طرح ”دل“بدن کے لئے فیض الہٰی کا وسیلہ ہو تا ہے ،اسی طرح پیغمبر اور امام بھی تمام انسانوں کے لئے فیض الہٰی کے سبب اور وسیلہ ہو تے ہیں۔
امام کے خاص شرائط وصفات
اس بحث میں سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:قرآن مجید سے بخوبی معلوم ہو تا ہے کہ”امامت کا مرتبہ“ایک ایسا بلند مرتبہ ہے کہ ممکن ہے ایک انسان اس مرتبہ تک پہنچ سکے ۔یہاں تک کہ یہ مرتبہ ”نبوت“ اور ”رسالت“کے مرتبہ سے بھی بلند تر ہے۔ کیونکہ بت شکن پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴میں ارشاد ہوا ہے:
وإذ ابتلیٰ إبراھیم ربّہ بکلمٰتٍ فاٴتمّھنّ قال إنّی جاعلک للنّاس اماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عھدی الظلمین
”اور اس وقت کو یاد کرو جب خد انے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا اور انہوں نے اسے پورا کر دیا تو اس (خدا) نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنارہے ہیں ۔انہوں نے عرض کی:میری ذریت؟ارشاد ہو یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔“
اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام ،نبوت اور رسالت کا مرحلہ طے کر نے اور خدا کی طرف سے لئے گئے مختلف امتحانات میں کامیابی حاصل کر نے کے بعد لوگوں کی ظاہری وباطنی اور مادی ومعنوی پیشوائی کے بلند مرتبہ(امامت)پر فائز ہوئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نبوت ورسالت کے مرتبہ کے علاوہ لوگوں کی امامت ورہبری کے مرتبہ پر فائز تھے ،بعض انبیاء علیہ السلام بھی اس مرتبہ پر فائز تھے ،یہ ایک طرف۔دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ کسی عہدہ کو سنبھالنے والے میں فرائض اور ذمہ داریوں کے مطابق شرائط اور صفات کا ہو نا ضروری ہے یعنی جس قدر مرتبہ بلند تر اور ذمہ داریان سنگین تر ہوں گی اسی تناسب سے ضروری شرائط اور صفات سنگین تر ہوں گی ۔
مثلاًاسلام میں قاضی اور جج کے عہدہ پر فائز ہونے،حتی گواہی دینے اور امام جماعت بننے کے لئے بھی عادل ہو نا ضروری ہے ۔جس مذہب میں ایک گواہی دینے یا نماز جماعت میں حمد وسورہ پڑھنے کی ذمہ داری نبھانے والے کے لئے عادل ہو نا ضروری ہو،ظاہر ہے اس میں امامت کے جیسے غیر معمول اور بلند مرتبہ پر فائز ہو نے کے لئے کن شرائط کا ہو نا ضروری ہو گا ۔
بہر حال امام کے لئے درج ذیل شرائط کا ہو نا ضروری ہے:
۱۔معصوم ہو نا:امام کو پیغمبر کے مانند معصوم ہو نا چاہئے یعنی اسے خطا اور گناہوں سے پاک ہو نا چاہئے ۔اگر ایسا نہ ہو گا تو وہ لوگوں کے لئے رہبر اور نمونہ نہیں بن سکتا ہے اور معاشرے کے لئے قابل اعتماد نہیں بن سکتا ہے۔
امام میں ایسی خصوصیات ہونی چاہئیں کہ لوگوں کے دل و جان پر حکمرانی کر سکے اور اس کا حکم کسی چون وچرا کے بغیر لوگوں کے لئے قابل قبول ہو نا چاہئے ۔جو شخص گناہوں میں آلودہ ہو گا وہ کبھی ہر لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہو سکتا اور ایسی مقبو لیت پیدا نہیں کر سکتا۔
جو شخص اپنے روز مرہ کاموں میں غلطیوں اور خطاؤں کا مرتکب ہو تا ہو ،اس کے لئے کیسے ممکن ہے کہ معاشرے کے امور میں اس کے افکار و نظریات پر اعتماد کرتے ہو ئے کسی چون وچرا کے بغیر عمل کیا جائے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبرکو معصوم ہو نا چاہئے ،امام میں بھی اس شرط کا ہو نا مندرجہ بالا دلیل کے مطابق ضروری ہے ۔
اس بات کو ایک اور طریقہ سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے،وہ طریقہ”قاعدہ لطف“ہے ۔کہ پیغمبر و امام کے وجود کی اصل کا انحصار اسی قاعدہ پر ہے اور یہ قاعدہ عصمت کی صفت کو بھی ضروری قرار دیتا ہے ،کیو نکہ پیغمبر و امام کے وجود مقدس کے مقاصد کی تکمیل مرتبہ عصمت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ سبق میں جو وجود امام علیہ السلام کے فلسفے ہم نے بیان کئے ہیں وہ بھی اس (صفت عصمت)کے بغیر نامکمل رہیں گے۔
۲۔بھر پور علم:امام،پیغمبر کے مانند لوگوں کے لئے علمی مامن اور پناہ گاہ ہو تا ہے ۔وہ تمام اصول دین،فروع دین،قرآن مجید کے ظاہر و باطن ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور جو کچھ اسلام سے مربوط ہے ان سب کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ و عالم ہو نا چاہئے کیونکہ وہ شریعت اسلام کا محافظ بھی ہو تا ہے اور لوگوں کا رہبر و قاعد بھی ہو تا ہے۔
جو اشخاص ،پیچیدہ اور مشکل مسائل پیش آنے کی صورت میں پریشان ہو کر دوسروں کی طرف دست ِسوال دراز کرتے ہیں اور ان کا علم ودانش اسلامی معاشرے کو پیش آنے والے مسائل کو حل کر نے سے قاصر ہو تا ہے وہ ہر گز امامت کا منصب اور لوگوں کی رہبری وقیادت کی باگ ڈور نہیں سنبھال سکتے ہیں۔مختصر یہ کہ امام کو دین الہٰی کا سب سے عظیم عالم ہو ناچاہئے تاکہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی وجہ سے پیدا ہو نے والے خلاء کو فوراًپر کر سکے اور صحیح اور ہر قسم کے انحرافات سے پاک اسلام کی راہ کو ثبات و دوام بخش سکے۔
۳۔شجاعت:امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں شجاع ترین انسان ہو،کیونکہ شجاعت کے بغیر ،رہبری وقیادت ممکن نہیں ہے ۔یہ شجاعت سخت اور ناگوا حوادث جابروں،سرکشوں ظالموں،اور اسلامی مملکت کے داخلی وخارجی دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ضروری ہے۔
۴۔زہد وتقویٰ:ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کی ظاہری شان وشوکت اور زرق وبرق میں گرفتار ہوئے لوگ جلد دھوکہ کھاتے ہیں اور ان کے لئے حق کی راہ سے منحرف ہو نے کا احتمال زیادہ ہو تا ہے ۔ان دنیا پرستوں کو کبھی لالچ کے ذریعہ اور کبھی دھمکیوں سے اپنے اصلی راستہ سے منحرف کیا جاتا ہے۔امام کو اس دنیا کی ظاہری نعمتوں کے مقابلہ میں ”اسیر“ہو نے کے بجائے ”امیر“(بے نیاز)ہو نا چاہئے۔امام کو اس مادی دنیا کی ہر قید وبند ،یعنی، نفسانی خواہشات ،مقام و منزلت ،مال و دولت اور جاہ و حشم کی قیود سے آزاد و بے نیاز ہو نا چاہئے تاکہ فریب،اثرورسوخ اور سازش کے دام میں پھنسا کر اسے شکست نہ دی جا سکے ۔
۵۔پر کشش اخلاق: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۹ میں ارشاد ہوا ہے:
فبما رحمة من اللّٰہ لنت لھم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک ( سورہ آل عمران۱۵۹)
”پیغمبر!یہ اللہ کی مہر بانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہو تے“۔
پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام ہی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر رہبر و پیشوا کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی پر کشش اور نیک اخلاق کا مالک ہو تا کہ وہ مقناطیس کے مانند لوگوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔بیشک ہر قسم کی تند روی اور بد اخلاقی،جو لو گوں میں نفرت پیدا ہو نے کا سبب ہوتی ہے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورامام کے لئے بہت بڑا عیب شمار ہوتی ہے وہ ایسے عیوب سے پاک و منزّہ ہو تے ہیں ،ورنہ(امام علیہ السلام )کے بہت سے وجودی فلسفے بے کار ہو کر رہ جائیں گے۔
یہ اہم ترین شرائط ہیں،جو عظیم علماء نے امام کے لئے بیان کئے ہیں۔
البتہ مذکورہ پانچ صفات کے علاوہ بھی امام کے لئے کچھ مزید صفات اور شرائط کا ہو نا ضروری ہے ،لیکن ان میں سے اہم ترین صفات یہی ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے۔
امام کا تعیّن کس کے ذمہ ہے؟
مسلمانوں کے ایک گروہ (اہل سنّت)کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی حالت میں رحلت فر مائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو جانشین کے طور پر مقرر و معیّن نہیں فر مایا تھا ۔ان لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ ذمہ داری خود مسلمانوں کی ہے کہ اپنے لئے رہبر اور پیشوا کو منتخب کریں اور اس کام کو ”اجماع مسلمین“ کے طریقہ سے انجام دیں جو دلائل شرعی میں سے ایک دلیل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ کام انجام پایا اور سب سے پہلے خلیفہ اول امت کے اجماع کے ذریعہ خلافت کے عہدے پر منتخب کئے گئے ۔جبکہ پہلے خلیفہ نے (اجماع امت کے بجائے) خود ذاتی طور پر (وصیت کے ذریعہ) دوسرے خلیفہ کو مقرر کیا۔اس کے بعد دوسرے خلیفہ نے چھ افراد پر مشتمل ایک شوریٰ تشکیل دی تاکہ یہی لوگ ان کے بعد ان کے جانشین کو منتخب کریں۔اس شوریٰ کے اراکین :حضرت علی علیہ السلام ،عثمان،عبدالرحمان بن عوف،طلحہ،زبیر اور سعد بن ادبی وقاص تھے۔اس شوریٰ نے تین اراکین کی اکثریت سے،یعنی سعدبن ابی وقاص ،عبدالرحمان بن عوف اور طلحہ کی رائے سے عثمان کو منتخب کیا۔ دوسرے خلیفہ نے صراحت کی تھی کہ شوریٰ کے اراکین کی رائے تین تین افراد پر برابر تقسیم ہو جانے کی صورت میں جس طرف عبدالرحمان بن عوف (عثمان کے بہنوئی )کی رائے ہو وہی خلیفہ منتخب کیا جائے!
عثمان کی خلافت کے آخری دنوں میں لوگوں نے مختلف دلائل کی بنا ء پر ان کے خلاف بغاوت کی اور اس سے پہلے کہ وہ ذاتی طور پر یا شوریٰ کے ذریعہ اپناجانشین مقرر کرتے،انہیں قتل کر ڈالا۔اس وقت عام مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے آپ علیہ السلام کی بیعت کی ۔صرف شام کے گورنر معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا ،کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام اسے موجودہ عہدے پر باقی نہیں رکھیں گے۔ معاویہ نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بیعت ہی نہیں کی بلکہ آپ علیہ السلام کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا اور اس طرح تاریخ اسلام میں ناگوار،مرگ آور اور منحوس حوادث کا دور شروع ہوا جس کے نتیجہ میں بے گناہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا خون بہہ گیا۔
یہاں پر علمی اور تاریخی بحثوں کے واضح ہو نے کے لحاظ سے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں ہم ان میں سے چند سوالات پر بحث کر رہے ہیں:
۱۔کیا امت کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین منتخب کر نے کا حق ہے؟
اس سوال کا جواب مشکل اور پیچیدہ نہیں ہے ۔اگر ہم امامت کو اسلامی معاشرہ کی ظاہری حکمرانی جان لیں تو ایسے حاکم کو لوگوں کی رائے سے منتخب کر نا رائج ہے۔لیکن اگر ہم امامت کو اس معنی میں لیں ،جس کی وضاحت ہم پہلے قرآن مجید کی روشنی میں کرچکے ہیں ،تو کسی شک و شبہہ کے بغیر ، خداوند متعال یا وحی الہٰی سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی شخص امام اور خلیفہ کو معین نہیں کرسکتا ہے۔کیونکہ اس تفسیر کے مطابق امامت کی شرط اسلام کے تمام اصول وفروع میں بھر پور علم رکھنا ہے ایسا علم جس کا سر چشمہ علم الہٰی اور علم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتاکہ وہ شریعت اسلام کی حفاظت کرسکے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ امام معصوم ہو ناچاہئے ،یعنی اسے خداکی طرف سے ہر خطاو گناہ سے پاک ومنزّہ ہو نے کی ضمانت حاصل ہو تا کہ معاشرے کی معنوی و مادی، ظاہری و باطنی رہبری و قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔اس کے علاوہ امام یا خلیفہ کو اس منصب کے لئے ضروری زہد وتقویٰ ،پرہیز گاری اور شجاعت کا حامل بھی ہو ناچاہئے ۔
یہ بات یقینی ہے کہ ان شرائط کی تشخیص خدا اور پیغمبر کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ ممکن نہیں ہے ۔وہی(خداہی) یہ جانتا ہے کہ کس شخص کی روح عصمت کے نور سے منور ہے اور وہی جانتا ہے کہ منصب امامت کے لئے ضروری علم ،تقویٰ ،پرہیز گاری ،شجاعت و شہامت کس شخص میں موجود ہے۔
جن لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ اور امام کا تعیّن لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے،انہوں نے حقیقت میں امامت کے قرآنی مفہوم میں تبدیلی ایجاد کر کے امامت کو عام حکمرانی اور دنیوی امور میں لوگوں کی رہبری تک محدود کر کے رکھ دیا ہے ورنہ جامع اور کامل معنی میں امامت کے شرائط پرور دگار عالم کے ذریعہ ہی قابل تشخیص ہیں اور وہی ان صفات کے بارے میں مکمل علم و آگاہی رکھتا ہے۔
امام کا انتخاب بھی بالکل اسی طرح کیا جاتا ہے جس طرح پیغمبر کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔پیغمبر کا انتخاب لوگوں کی رائے سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ ضروری ہے کہ پیغمبر کا انتخاب خداوند متعال کی طرف سے ہو اور معجزات کے ذریعہ اس کی پہچان کر وائی جائے اس لئے کہ پیغمبر میں پائی جانے والی ضروری صفات کی تشخیص بھی صرف خدا وند متعال ہی کر سکتا ہے۔
۲۔کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایا ہے؟
بیشک دین اسلام ایک ”عالمی‘اور ”لافانی“دین ہے اور قرآن مجید کی واضح آیات کے مطابق یہ دین کسی خاص زمان و مکان سے مخصوص نہیں ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی رحلت کے زمانہ تک یہ الہٰی اور آسمانی دین جزیرئہ عرب سے باہر نہیں پھیلا تھا۔دوسری طرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندہ گی کے تیرہ سال مکہ میں شرک وبت پرستی سے مبارزہ اور مقابلہ کر نے میں گزرگئے اور ہجرت کے بعد، جو اسلام کے پھلنے اور پہولنے کا درد تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندہ گی کے باقی دس سال بیشتر دشمنوں کی طرف سے تھوپی گئی جنگوں اور غزوات میں صرف ہو گئے۔
اگر چہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے مسائل کی تبلیغ اور تعلیم کے لئے دن رات انتھک کو شش کی اور اور نو عمر اسلام کا تمام جہات میں تعارف فر مایا،پھر بھی یقینا اسلام کے بہت سے ایسے مسائل باقی تھے جن کی تفسیر وتشریح کے لئے مزید وقت در کار تھا، اس لئے ضروری تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جیسا کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس سنگین ذمہ داری کو سنبھالے ۔
ان تمام باتوں کے علاوہ مستقبل کے حالات کی پیشنگوئی کے پیش نظر مذہب کو دوام بخشنے کے مقد مات کو فراہم کر نا ان اہم امور میں سے ہے کہ ہر رہبر اور قائد کو اس کی فکر ہو تی ہے اور ہر گز اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہو تا ہے کہ اس بنیادی مسئلہ کو فرا موش کر دے۔اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض اوقات انسانی زندگی کے معمولی اور سادہ مسائل کے بارے میں بھی احکام بیان فر مائے ہیں ،کیا یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی خلافت،زعامت اور امامت جیسے اہم مسئلہ کے بارے میں کو ئی دستور معیّن نہیں فر مایا ہو گا؟!
مذکورہ تین نکات کا مجموعہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جانشین مقرر کر نے کا قطعاً اقدام فر مایا ہے ۔انشااللہ ہم بعد میں اس سلسلہ میں قطعی اور مسلّم الثبوت روایتوں کے چند نمو نے بھی پیش کریں گے تاکہ یہ منطقی حقیقت اور بھی زیادہ واضح ہو جائے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر گز اپنی زندگی کے دوران اس اہم اور حیاتی مسئلہ سے غافل نہیں رہے ہیں ،اگر چہ خاص سیاسی وجو ہات کی بنا ء پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایاہے۔
کیا یہ بات قابل یقین ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوات (جیسے غزوہ تبوک) کے دوران صرف چند دنوں کے لئے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو ضرور اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر فر ماتے تھے اور اپنی جگہ خالی نہیں رکھتے تھے،لیکن اپنی رحلت کے بعد کی کوئی پروا کئے بغیر کسی قسم کا اقدام نہ فر مائیں ،اور امت کو اختلا فات اور سر گردانی کے طوفان میں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ہر ایک رہبر کے ذریعہ اسلام کے دوام کی ضمانت فراہم نہ فر ما ئیں؟!
اگرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا جانشین مقرر نہ فر ماتے تو یقینا نو عمر اسلام کے لئے بڑے خطرات لا حق ہو تے ۔عقل اور منطق اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کام انجام دیں جس سے اسلام کو خطرات لاحق ہوں۔جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کام امت کے ذمہ چھوڑ دیا ہے ،وہ اپنے اس نظریہ کی تائید میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کم از کم ایک دلیل تو پیش کریں،جس سے ثابت ہو جائے کہ پیغمبر اسلام نے اس نظریہ کی تاکید فر مائی ہے !،جبکہ ان کے پاس اس سلسلہ میں کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے۔
۳۔ اجماع اور شوریٰ
فرض کریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنا جانشین مقرر کر نے کے )اس نہایت اہم مسئلہ کو نظر انداز کیا ہو اور خود مسلمانوں پر اس (خلیفہ) کے انتخاب کر نے کی ذمہ داری ہو لیکن ہم جانتے ہیں کہ ”اجماع“سے مراد تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور پہلے خلیفہ کی خلافت کے بارے میں ہر گز ایسا اتفاق یا اجماع حاصل نہیں ہوا ہے ۔صرف مدینہ میں موجود اصحاب میں سے چند صحابیوں نے اس بات کا فیصلہ کیا، جبکہ تمام اسلامی شہروں کے لوگوں نے اس فیصلہ میں بالکل شرکت نہیں کی ،بلکہ خود مدینہ میں موجود حضرت علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کے بہت بڑے گروہ نے اس انتخاب میں کسی قسم کی شرکت نہیں کی ،اس لئے یہ اجماع قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔
پھراگر یہ طریقہ صحیح تھا ،تو پہلے خلیفہ نے اپنا جانشین مقرر کر نے کے سلسلہ میں کیوں اس پر عمل نہیں کیا ؟انہوں نے کیوں ذاتی طور پر اپنا جانشین نامزد کیا ؟اگر ایک شخص کی طرف سے جانشین کو مقرر کر نا کافی ہوتا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کام کے لئے سب سے افضل و اولیٰ تھے۔اگر لوگوں کی طرف سے بعد میں کی جانے والی بیعت اس مشکل کو حل کر سکتی ہے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہی بیعت بہر صورت میں مسئلہ کو حل کرسکتی ہے ۔
اس کے علاوہ تیسری مشکل ”خلیفہ سوم“کے بارے میں پیش آتی ہے ،کہ دوسرے خلیفہ نے کیوں پہلے خلیفہ کے منتخب ہو نے کے طریقہ کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور جس طریقہ سے خود بر سر اقتدار آئے تھے ،اس کو بھی توڑ دیا یعنی نہ”اجماع“ پر عمل کیا اور نہ ذاتی طور پر کسی کو نامزد کیا بلکہ اس کام کے لئے ایک تیسرا طریقہ ایجاد کر کے ایک محدود شوریٰ کو اس کام کی ماموریت دے دی۔
اصولی طور پر اگر شوریٰ صحیح ہے تو یہ شوریٰ کیوں صرف چھ افراد تک محدود ہو؟اور چھ ارکان میں سے صرف تین ہی کی رائے کافی ہو؟
یہ وہ سوالات ہیں جو تاریخ اسلام کے ہر محقق کو پیش آتے ہیں اور ان سوالات کا جواب نہ ملنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام اور خلیفہ کے انتخاب کے مذکورہ طریقے صحیح نہیں ہیں ۔
۴۔علی علیہ السلام سب سے لائق وافضل تھے۔
اگر ہم فرض کریں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کو اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایا تھا،اور یہ بھی فرض کرلیں کہ یہ کام لوگوں پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ اور امام کو منتخب کر نے کے وقت ایک ایسے شخص کو نظر انداز کر دیا جائے جو علم ،تقویٰ،پرہیز گاری شجاعت اور دوسرے امتیازات و خصوصیات کے لحاظ سے سب سے افضل ہو اور اس کے بجائے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو اس سے نہایت کمتر ہو؟!
علماء اسلام کی ایک بڑی تعداد ،حتی کہ اہل سنت علماء نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اسلامی مسائل سے آگاہی اور علم رکھنے کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام سب سے افضل تھے۔ خود حضرت علیہ السلام سے باقی ماندہ روایات اور آثار اس حقیقت کے روشن ثبوت ہیں۔تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام علمی مشکلات کو حل کر نے میں امت کے پناہ گاہ تھے،یہاں تک کہ اگر کبھی خلفاء کو بھی کوئی پیچیدہ یا مشکل مسئلہ پیش آتا تھا، وہ حضرت علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ علیہ السلام سے مدد طلب کرتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام شجاعت ،علم ،تقویٰ،پرہیز گاری اور دوسری صفات کے لحاظ سے سب سے افضل تھے اس لئے اس فرض کی بناء پر کہ لوگوں کو امام وخلیفہ چننے کا حق تھا ،پھر بھی علی علیہ السلام اس منصب کے لئے سب سے زیادہ لائق اور شائستہ تھے۔(البتہ اس بحث سے متعلق کافی اسناد موجود ہیں ،جن کا ذکر اختصار کے پیش نظر یہاں پر ممکن نہیں ہے )۔
قرآن اور امامت
عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید ،دوسری تمام چیزوں کے مانند امامت کے مسئلہ میں بھی ہمارے لئے بہترین راہنما ہے۔قرآن مجید نے مسئلہ امامت پر مختلف جہات سے بحث کی ہے۔
۱۔قرآن مجید”امامت“کو خدا کی جانب سے جانتا ہے:
جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بت شکن کی داستانوں میں پڑھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت اور رسالت پر فائز ہو نے اور مختلف امتحانات میں کامیاب ہو نے کے بعد امامت کے عہدہ پر قرار دیا ہے۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴ میں ارشاد فر مایا ہے:
وإذابتلیٰ إبرا ھیم ربّہ بکلمٰتٍ فاٴتمّھنّ قال إنی جاعلک للنّاس إما ماً
”اور اس وقت کو یاد کروجب خدانے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام بنارہے ہیں“۔
قرآن مجیدکی مختلف آیات اور تاریخی قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام با بل کے بت پرستوں سے مبارزہ کر نے،شام کی طرف ہجرت کر نے اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان گاہ میں لے جانے کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہو ئے ہیں۔
جب نبوت و رسالت کا عہدہ خدا کی طرف سے معیّن ہو ناضروری ہے تو مخلوق کی ہمہ جہت امامت و رہبری کا مرتبہ بطریق اولیٰ خدا کی طرف سے معیّن ہو نا ضروری ہے ،کیونکہ امامت کا مرتبہ رہبری کے تکامل کی معراج ہے ۔اس لئے یہ کوئی ایسی معمولی چیز نہیں ہے جسے لوگ انتخاب کریں ۔
پھر قرآن مجید خود مذکورہ آیت میں فر ماتا ہے:
إنی جاعلک للنّاس اماماً
”میں تم کو امام و پیشوا قرار دینے والا ہوں”۔
اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۷۳ میں بھی بعض با عظمت انبیاء جیسے: حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت لوط علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے:
وجعلنا ھم اٴئمة یھدون باٴمرنا
”اورہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے“۔
اس قسم کی تعبیریں قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں بھی ملتی ہیں ،جن سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ الہٰی منصب خداوند متعال کے توسط سے ہی معیّن ہو نا چاہئے ۔اس کے علاوہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت سے متعلق مذکورہ آیت کے آخری حصہ میں پڑھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرزندوں اور آنے والی نسل کے لئے اس منصب کی درخواست کی تو اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا :
لا ینال عھدی الظالمین .”میرا عہد ہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا “
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی دعا قبول ہوئی ،لیکن آپ کےفر زندوں میں سے جو ظلم کے مرتکب ہو نے والے ہیں وہ ہر گز اس مرتبہ پر فائز نہیں ہو ں گے۔
قابل ذکر بات ہے کہ لغوی اور قرآن مجید کی منطق کے اعتبار سے ”ظالم“ کے وسیع معنیٰ ہیں اور اس میں تمام گناہ من جملہ ان کے آشکار و مخفی شرک اور اپنے اوپر اور دوسروں پر ہر قسم کا ظلم شامل ہے ۔چونکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اس امر سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے، کیونکہ صرف خدا ہی لوگوں کی نیتوں اور باطن سے آگاہ ہے ،اس لئے واضح ہو تا ہے کہ اس مرتبہ و منصب کا تعیّن صرف خدا وند متعال کے ہاتھ میں ہے ۔
۲۔آیہ تبلیغ
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ میں یوں ارشاد ہوا ہے:
یٰاٴ یّھا الرّسول بلّغ ماانزل إلیک من ربّک وإن لم تفعل فما بلّغت رسا لتہ واللّٰہ یعصمک من الناس إن اللّٰہ لا یھدی القوم الکٰفرین
”اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پرور دگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکہے گا کہ اللہ کا فروں کی ہدایت نہیں کر تا ہے”۔
اس آیہ شریفہ کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر ایک سنگین ماٴ مو ریت ڈالی گئی ہے اور اس سلسلہ میں ہر طرف کچھ خاص قسم کی پریشانیاں پھیلی تھیں ،یہ ایسا پیغام تھا کہ ممکن تھا لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی،اس لئے آیہ شریفہ تاکید کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر عمل کر نے کا حکم دیتی ہے اور ممکنہ خطرات اور پر یشانیوں کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاطر خواہ اطمینان دلاتی ہے۔یقینا یہ اہم مسئلہ توحید، شرک یا یہودو منا فقین جیسے دشمنوں سے جہاد کر نے سے مربوط نہیں تھا،کیونکہ اس زمانہ(سورہ مائدہ نازل ہو نے )تک یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو چکا تھا۔
اسلام کے دوسرے احکام پہنچانے کے سلسلہ میں بھی اس قسم کی پریشانی اور اہمیت نہیں تھی ،کیو نکہ مذکورہ آیت کے مطابق بظاہر یہ حکم رسالت کے ہم وزن اور ہم پلہ تھا کہ اگر یہ حکم نہ پہنچا یا جاتا تو رسالت کا حق ادا نہیں ہو تا ۔کیا یہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟خاص کر جب کہ یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے اور یہ خلافت کے مسئلہ کے ساتھ تناسب بھی رکھتا ہے ،جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رسالت ونبوت کی بقا کا وسیلہ ہے۔
اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد ،من جملہ زید بن ارقم ،ابو سعید خدری ،ابن عباس،جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو ہریرہ ،حذیفہ اور ابن مسعود سے اس سلسلہ میں کثیر تعداد میں روایتیں نقل ہو ئی ہیں اور ان میں سے بعض روایتیں گیارہ واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور اہل سنت علماء،مفسرین ،محدثین اور مورخین نے بھی انھین نقل کرتے ہو ئے واضح کیا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام اور غدیر کے واقعہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے۔
( مزید تفصیلات کے لئے کتاب ”احقاق الحق“،”الغدیر“،”المراجعات“ اور ”دلائل الصدق“کا مطالعہ کریں)
یہاں پر ہم اسی یاد دہانی پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ اپنی زندگی کے آخری حج سے لوٹتے وقت حضرت علی علیہ السلام کو با ضابطہ طور پر اپنا جا نشین معیّن کریں اور تمام مسلمانوں کو ان کا تعارف کرائیں۔
۳۔آیہ اولی الامر
سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوا ہے:
یٰاٴیّھاالّذین اٰمنوا اطیعوااللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم
”ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرواور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔
یہاں پر اولوالامر کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ہمراہ بیان ہوئی ہے۔
کیا”اولوالامر“سے مراد ہر زمان و مکان کے حکام اور فرمانروا ہیں؟ مثلاًکیا ہمارے زمانے میں ہر ملک کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے حکام اور فر مانرواؤں کی اطاعت کریں؟(جیسا کہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے بیان کیا ہے)
یہ بات عقل ومنطق کی کسی کسوٹی پر ہر گز نہیں اترتی ہے،کیونکہ اکثرحکمراں مختلف زمانوں اور عصروں میں منحرف،گناہ کار ، دوسرے ملکوں کے ایجنٹ اور ظالم ہو ئے ہیں۔کیا اس سے مراد یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی پیروی و اطاعت کی جانی چاہئے جن کا حکم اسلامی احکام کے خلاف نہ ہو؟یہ بھی آیت کے مطلق ہو نے کے خلاف ہے۔
کیا اس سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص اصحاب ہیں؟یہ احتمال بھی اس آیت کے وسیع مفہوم (جو ہردور اور زمانے کے لئے ہے)کے خلاف ہے۔
اس لئے ہمارے لئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد معصوم پیشوا ہے جو ہر دور اور زمانے میں موجود ہو تا ہے اور اس کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر واجب ہو تی ہے اور اس کا حکم، خدا ورورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہو تا ہے۔اس سلسلہ میں اسلامی منابع وماٴخذ میں موجود متعدد احادیث میں ”اولو الامر“کی حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہ السلام سے کی گئی تطبیق بھی اس حقیقت کی گواہ ہے۔
(مزید تفصیلات کے لئے تفسیر نمونہ ج۳:ص۴۳۵کا مطالعہ کریں)
۴۔آیہ ولایت
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد ہوا ہے:
إنما ولیکم اللّٰہ ورسولہ والّذین آمنواالّذین یقیمون الصّلوٰة ویؤتون الزکوٰة وھم راکعون
”ایمان والو بس تمہاراولی اللہ ہے اور اس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔“
عربی لغت میں لفظ”إنما“انحصار کے لئے استعمال ہو تا ہے،اس بات کے پیش نظر قرآن مجید نے مسلمانوں کی قیادت اور ولایت وسر پرستی کو صرف تین اشخاص میں منحصر فر مایا ہے :”خدا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰة دیتے ہیں“۔
اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ”ولایت“ سے مراد مسلمانوں کی آپس دوستی نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی عام دوستی کے لئے قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمام مسمان آپس میں دوست اور بھائی بھائی ہیں اگر چہ رکوع کی حالت میں کوئی زکوٰة بھی نہ دے۔ اس لئے یہاں پر ”ولایت“ وہی مادی و معنوی رہبری اور سر پرستی کے معنی میں ہے،بالاخص جب کہ یہ ولایت ،خدا کی ولایت اور پیغمبر کی ولایت کے ساتھ واقع ہو ئی ہے۔یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ مذکورہ آیت میں ذکر شدہ اوصاف ایک مخصوص شخص سے مر بوط ہیں،جس نے رکوع کی حالت میں زکوٰة دی ہے،ورنہ یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ انسان نماز کے رکوع کی حالت میں زکوٰة ادا کرے ،حقیقت میں یہ ایک نشاندہی ہے نہ توصیف۔
ان تمام قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی ایک مشہور داستان کی طرف ایک پر معنیٰ اشارہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نماز کے رکوع میں تھے ،ایک حاجتمند نے مسجد نبوی میں مدد کی درخواست کی ۔کسی نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اسی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا ۔حاجت مند نزدیک آگیا۔ حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں موجود گراں قیمت انگوٹھی کو اتار کر لے گیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کا مشاہدہ فر مایا تو نماز کے بعد اپنے سر مبارک کو آسمان کی طرف بلند کر کے یوں دعا کی :پروردگارا!میرے بھائی موسی علیہ السلام نے تجھ سے درخواست کی کہ ان کی روح کو کشادہ،کام کو آسان اور ان کی زبان کی لکنت کو دور فر مادے اور ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور مدد گار بنادے۔پرور دگارا! میں محمد ،تیرا منتخب پیغمبر ہوں ،میرے سینہ کو کشادہ اور میرے کام مجھ پر آسان فر ما، میرے خاندان میں سے علی علیہ السلام کو میرا وزیر قرار دے تاکہ اس کی مدد سے میری کمر قوی اور مضبوط ہو جائے“۔
ابھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ کو لے کر جبرئیل امین نازل ہو ئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل سنّت کے بہت سے عظیم مفسرین ،مورخین اور محدثین نے اس آیہ شریفہ کی شاٴن نزول کو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا ہے ۔اس کے علاوہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک گروہ نے ،جن کی تعداد س سے زیادہ ہے،اس حدیث کو خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست نقل کیا ہے۔
(مزید توضیح کے لئے قیمتی کتاب”المراجعات “کا مطالعہ فر مایئے ،جس کا اردو ترجمہ”دین حق“کے نام سے ہو چکا ہے)
ولایت کے موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر ہوئی ہیں ،ہم نے کتاب کے اختصار کے پیش نظر صرف مذکورہ چار آیتوں پر ہی اکتفا ءکیا۔
Source: https://www.erfan.ir/urdu/۔http://balaghah.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button