سلائیڈرسیرتسیرت امام جعفر صادقؑ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت اور علمی فیوض

ابتدائیہ:
امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت اور علمی فیوض کے عنوان پر اس مقالہ کو زیارت جامعہ کے چند کلمات سے شروع کیا جاتا ہے۔
السلام علیکُم یا اَھل بیتِ النُبوَۃِ و مو ضَع الرّساَلَۃ ۔۔۔ کلا مَکُم نُورُ وَاَمَرکُم رُشد، وَ صیّتکُم الّتقویٰ وَفعلُکُم خَیرَ عَادَتُکُم الا حَسانِ ۔۔۔ ان ذکِر الخَیر کُنتُم اَوّلَہ وَاَصلَہ’ وَفَرَعَہُ وَ مَعدَ نہ وما وَایہُ و منتَھا ۃُ ( مفاتیح الجنان)
ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے نبوت کے گھر والو اور پیغام ربانی کے مرکز۔ آپ کی گفتگو سر تاپائے نور، آپ کا فرمان ہدایت کا سرچشمہ ، آپ کی نصیحت تقویٰ کے بارے میں آپ کا عمل خیر ہی خیر، آپ کی عادت احسان کرنے کی ہے جب کبھی نیکیوں کاتذکرہ ہو تو آپ حضرت سے ہی ان کی ابتداء ہوتی ہے اور انتہا بھی۔ اس کی اصل بھی آپ ہیں اور مخزن اور مرکز اور انتہا بھی آپ ہیں۔ ( ترجمہ رضی جعفر)
زیارت جامعہ محمد و آلِ محمد ﷺ کا قصیدہ ہے، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں اپنے انتہائی فصیح و بلیغ کلام میں زیارت جامعہ کی تدوین کی جو حقائق اور معرفت کا بے پایاں سمندر ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ کی شخصیت زیارت جامعہ میں بیان کردہ ان خصائص کی مجسم تصویر ہے۔
امام صادقؑ کی ہمہ گیر شخصیت کااحاطہ نا ممکن ہے، اس مختصر مقالہ اور تیز رفتار زندگی کے تقاضوں کے پیش نظر اختصاراً امام صادقؑ کی شخصیت کے چند اہم گوشوں کا تعارف، نشر علوم، تدوین۔ فقہ اور دانشگاہ جعفری کے فیوض کا ایک تعارفی جائزہ مقصود ہے۔
تصانیف:
نور المشرقین منِ حیاۃ الصادقین میں آغا سلطان مرزا نے ( اعیان الشیعہ) کے حوالہ سے امام کی تصانیف کی طویل فہرست دی ہیں ان میں سے چند مشہور حسب ذیل ہیں۔ ( ١٥٠ تصانیف۔ ٨٠ بلاواسطہ اور ٧٠ بالواسطہ)
١۔رسالہ عبداللّٰہ ابن  النجاشی ۔ ٢۔رسالہ مروی عن الاعمش ٣۔ رسالہ توحید مفضل ٤۔کتاب الاہلیلجہ
ان کے علاوہ امام کے مختلف دینی اور لا دینی طبقات اور دہریوں سے مناظروں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جس میں اعترافات طبیب ہندی، امام ابو حنیفہ سے مناظرہ ، صوفیوں کے گروہ سے مناظرہ اور مشہور دہریہ ابو شاکر دیصانی سے مناظرہ قابلِ  ذکر ہیں۔
تدوین فقہ ایک جائزہ:
امام جعفر صادقؑ کے تذکرہ میں ذہن فوری فقہ جعفری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ تدوین فقہ کی کوشش امام صادق کے حوالہ کے بغیر نا ممکن سمجھی جاتی ہے۔ مکتب تشیع کی فقہ یعنی فقہ جعفری تو اپنی وجہ تسمیہ ہی سے امام صادقؑ کی مرہون منت اور احسانمندی ظاہر کرتی ہے۔
عربی میں فقہ کے لغوی معنی علم و فہم ہے اور فقیہ کے معنی عالم ہیں لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اصطلاحاً اس سے دینی مسائل اور استدلالی علم مراد لیا جاتا ہے۔ جس میں احکام شریعہ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ احکام واجب ، مستحب ، حرام ، مکروہ ، اور مباح کے محور کے اطراف اپنے میں سبب، شرط، مانع، صحت بطلان، رخصت اور عزیمت کے پہلو لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تمام فقہی اصطلاحات ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی اس مختصر تشریح کے بعد اب تدوین کا مطلب جمع کرنا یا مرتب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم تدوین کی نسبت سے امام جعفرِ صادقؑ کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ نے فقہ محمدیہ کے احکام کو جمع اور مرتب کیا کہ وہ ایک مستقل علم بن گیا۔
اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے چند واضح ادوار نظر آتے ہیں، امام صادقؑ کی علمی فیوض کو سمجھنے کےلئے فقہ اسلامی کے تدریجی ارتقاء کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کا سبب سے پہلا عہد حضرت ختمی مرتبت کی ظاہری رسالت سے ١١ھ تک محیط ہے جس میں سوائے چند استثنائی واقعات ( صلح حدیبیہ، حدیث قرطاس) کے بظاہر مسلمانوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ رحلت سر کار کائنات کے فوری بعد سب سے بڑا فقہی اختلاف آنحضرت کی جانشینی کے سلسلہ میں نمودار ہوا اس دور میں جو پہلے تین خلفائے راشدین کے زمانہ یعنی تقریباً ٢٤ سال(٣٥ھ) تک پھیلا ہوا ہے قرآن اور سنت کے علاوہ فقہ کے ماخذ میں قیاس اور اجماع کا اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ روایت حدیث پر کڑی پابندی لگادی گئی جس کی وجہ سے قیاس پر زیادہ انحصار ہوا۔ تیسر ادور ٣٥ھ تا ٤٠ ھ میں خلافت امیر المومنینؑ کے دوران قرآن و سنت ہی ماخذ فقہ رہے اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ تدوین فقہ کا ایک اہم اصول فکر کی یکسانیت ہے فقہ کی تدوین میں احکامات الٰہیہ اور منشائے قدرت یعنی نص کے تعین کے لئے وصل قول بھی ایک اہم اصول رہا ہے۔ احکام فقہ میں نص کے تعین اور تلاش کے طریقوں پر تفصیلی بحث علامہ رشید ترابی نے ( اسلام میں اجتہاد) کے عنوان پر اپنے ایک مقالہ میں کی ہے جو ١٩٥٧ء میں ایک بین الاقوامی سیمنار میں پیش کیا گیا۔
اثنائے عشری شیعہ عقیدہ کی رو سے اسلام کی اصل تشریح وہی ہے جو وفاتِ پیغمبر کے بعد حضرت امیر المومنین سے لے کر بارہویں امام تک بلا فصل جاتی ہے۔ بالآخر ہر حکم کا منبع قول معصوم ہوتا ہے اور جو کچھ راوی کی زبان پر آئے گا وہ عصمتِ  فکر اور معیار صداقت پر پورا اترے گا۔ حضرت علیؑ سے امام حسینؑ تک یہ وصل قول انتہائی بھر پور انداز میں عیاں ہے۔
چوتھا دور ٦٠ ھ تا ١٣٣ ھ کا ہے جو بنی امیہ کی خلافت کا زمانہ ہے اس دور میں شہادت امیر المومنین، امام حسن کی ظاہری خلافت سے دستبرداری اور شہادت، سانحہ کربلا و مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تاراجی کے واقعات دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سلاطین بنو امیہ کس فقہ کے پابند تھے۔ جس میں ان باتوں کی انہیں اجازت تھی۔ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں البتہ فدک واپس کیا گیا لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ کس فقہ کے تحت چھینا گیا تھا۔
پانچواں طویل دور ١٣٥ھ سے ٢٦٠ھ یعنی ١٢٥ سال پر محیط ہے دور امام صادقؑ کی امامت کے ابتدائی زمانے سے شہادت امام حسن عسکری کے بعد تک پھیلا ہوا ہے، سیاسی اور فکری اعتبار سے تاریخ اسلام کا یہ نہایت اہم دور تھا اس زمانے میں بے شمار تاریخ ساز واقعات اور تحریکات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں امت مسلمہ بشمول شیعہ فقہی اعتبار سے مختلف مسلکوں میں بٹ گئی۔ اس دور میں روایت حدیث پر کوئی پابندی نہیں تھی اور وقتی مصلحتوں اور حاکمانِ وقت کی سرپرستی کے نتیجے میں وضع حدیث ایک مشغلہ اور پیشہ بن گیا تھا۔ اس دور میں امام جنبل،امام بخاری،امام مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی کی مسانید کی تدوین ہوئی اب وہ صحابہ اور تابعین بھی نہیں رہے جنہوں نے یہ احادیث سنے تھے اور اصل اور نقل میں تمیز کر سکتے تھے۔ مزید برآں فتوحات اور اسلامی سلطنت کی توسیع اور بڑھتے ہوئے بیرونی روابط کے نتائج میں ایک نیا خفلشار اسلامی فلسفہ میں ایران، روم اور یونان کے فلسفوں کی آمیزش کی صورت میں نمودار ہوگیا تھا۔
تدوین فقہ اور امام صادقؑ
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس افرا تفری کے عالم میں فقہ اسلامی کو اس اصل روح میں محفوظ رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ واقعہ کربلا اور اس کے تسلسل میں دربارِ شام میں جناب زینب کے خطبہ نے ثابت کردیا کہ حق اور نا حق اورر استی و گمراہی میں حد فاصل قائم رکھنے کا فریضہ آئمہ حق نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ یہ ذمہ داری ان آئمہ نے نہایت منصوبہ بندی سے انجام دی۔ اس کی خاموش ابتداء امام زین العبدینؑ نے اپنی دعاؤں سے کی جن کے ذریعے امت کے افراد کے ذہنوں کی تربیت کا انتظام کیا گیا۔ بعد ازاں امام محمد باقرؑ نے مدینے میں اپنی درس گاہ میں با قاعدہ درس کا آغا زکیاجس کی بنیادوں کو امام جعفر  صادقؑ نے استوار کیا۔ امام جعفر صادقؑ کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ آپ کو اپنی ٦٥ سال عمر میں سے تقریباً ١٢ سال اپنے دادا حضرت علی ابن الحسین کی معیت میں اور پھر ١٩ سال اپنے والد ماجد کے زیر سایہ گزار نے کا موقع ملا اور پھر خود اپنی امامت کے ٣٤ سال میسر ہوئے۔ اس دوران بنو امیہ اور بنو عباس کو اپنی لڑائیوں میں مشغولیت نے آل محمدﷺ کے ساتھ تعرض کا موقع نہیں دیا۔ امام صادقؑ نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس درس گاہ کو ایک عظیم دانش گاہ کے رتبہ تک پہنچا دیا۔ میرے راقم کے اندر کا استادیہ کہہ رہا ہے کہ اس دانشگاہ کے نصاب کا دستاویز بہت پہلے ہی امام زین العابدین نے صحیفہ کاملہ کی شکل میں تیار کردیا تھا۔ بظاہر یہ دعاؤں کا مجموعہ اپنے اندر حکمت اور دانائی، احکام خداوندی، عبد اورمعبود کے تعلقات، حقوق الناس اور تخلیق کائنات جیسے کثیر الجہت عنوانات پر مشتمل تھا جو پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔ محمد ابنِ  یعقوب کلینی نے ١٦١٩٩ احادیث پر مشتمل اصول کا فی بطور تدریسی مواد مہیا کیا جس کو من لا یحضر الفقیہ، تہذیب اور استبصار نے مزید و سعت دی اور اس طرح تقریباً ٦٠ ہزار احادیث پر مشتمل یہ مایہ ناز سر مایہ بنا جس کی موجودگی میں ہمارے علماء کو قیاس اور رائے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امام صادقؑ کی تدوین فقہ کی انہی کوشش کی بناء پر فقہ محمدی کو فقہ جعفری سے موسوم کیا گیا کیونکہ اس کو فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سے ممتاز کیا جاسکے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب باقی فقہوں کو ریاست کی سرپستی حاصل تھی فقہ جعفری پر زور مخالفتوں کا مقابلہ کرتی ہوئی پھیلی اور یوں اپنی ترقی کی راہیں طے کرتی رہی۔ اس کی ارتقاء میں قابلِ ذکر سنگِ میل علامہ حلی(ساتویں صدی) علامہ بہبہانی ( گیارہویں صدی) شیخ مرتضیٰ (تیرھویں صدی) اور پھر موجودہ دور میں ایران، عراق، بیروت اور دمشق کے حوزہ علمیہ نے اس کی آبیاری کا فریضہ سنبھالا ہواہے۔
فقہ جعفری کی برتری کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ دیگر تمام فقہوں کے بانی بالواسطہ یابلا واسطہ امام صادقؑ کے شاگرد تھے اور اس پر ان کو ناز بھی تھا۔ فقہ جعفری میں دور جدید کی ضروریات کے مطابق اجہتاد کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کی تمام صلاحتیں موجود ہیں۔ یہ ایک عادلانہ نظام ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز  کی راہ بتاتا ہے جہاں سرور کے موقعوں پر خوشی کے اظہار کا ڈھنگ اور آلام و مصائب میں تعزیت کے اسلوب بتائے جاتے ہیں۔ جہاں اکابرین کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور عبرت کے نشانات سے دوری سکھائی جاتی ہے یہ ایک صالح معاشرے کے قیام میں مدد دیتا ہے۔
امام جعفر صادقؑ کے علمی فیوض:
مخلوقات کی ہدایت کی غرض سے انبیاء اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ تخلیق کیا گیا جو ہم تک آنحضرت اور آئمہ اہلبیت کی صورت میں پہنچا۔ باوجود یکہ ختمی مرتبت کے بعد کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع نہ ماحول میسر ہو سکا ہر امام نے اپنے عہد میں فیوض امامت امت تک پہچانے کا مناسب انتظام کیا۔ کربلا کے مصائب کے بعد امام زین العبدینؑ نے ایک انوکھے انداز میں تبلیغ دین کی جو صحیفہ کاملہ کی صورت میں آثارِ علمیہ کا ایک شاہکار ہے۔ امام محمد باقرؑ  وہ کوہِ علم ہیں جس بلندیوں تک انسان کی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ آپ کا شریعت کدہ علم و حکمت کا سرچشمہ تھی۔ امام جعفر صادقؑ کی شخصیت کا اہم رخ یہ ہے کہ آپ نے اپنے علمی انقلاب سے معارف اسلام کے افق کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل بعد جب حضرت امام رضا نیشا پور میں قدم رکھتے ہیں تو ہزار ہا افراد امامؑ  کی آواز سننے اور ارشاد کوکاغذ پر محفوظ کرنے سراپا مشتاق تھے۔ یوں تو سلسلہ امامت کے ہر فرد نے جس قدر ممکن ہوسکا ظلم و ستم اور قیدو بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا، لیکن امام صادقؑ کو اپنے عہد میں موقع مل گیا تھاکہ آنحضرت کے مقصد یعنی ( کتاب و حکمت کی تعلیم) کو فروغ دیں۔ اس دور میں علم کا پھیلا ؤ اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل کھلی مجلسوں میں زیر بحث آنے لگے۔ اس ضمن میں جسٹس امیر علی لکھتے ہیں: ”یہ تحریک امام صادقؑ کی سر کردگی میں آگے بڑھی جن کی فکر و سیع ، نظر عمیق اور جنہیں ہر علم کی دستگاہ حاصل تھی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکرکے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مجلس بحث و درس میں صرف وہی افراد نہیں آتے تھے جو بعد میں امامی مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے حاضر ہوتے تھے۔ ”
دوسری صدی کی ابتداء یعنی ١٣٣ھ میں اموی خلافتوں کے خاتمہ پر عباسی دور شروع ہوا۔ یہ عبوری دور انتقال و تحویل اقتدار کی کشمکش کا وقفہ تھا، جس کو استعمال کرتے ہوئے امام صادقؑ نے علوم و معارف اسلام کی ترویج و اشاعت کا اہم کام انجام دیا۔ یہ وہ دور تھاجب فتوحات اور بیرونی دنیا سے بڑھتے ہوئے روابط کے نتیجے میں رومی اور یونانی فکری اثرات عربستان میں مختلف فنون، علوم اور نظریاتی رجحانات کو متاثر کر رہے تھے جو اسلام کے خلاف ایک بیرونی یلغار ثابت ہو رہے۔ ( موجودہ عالمگیر یت یا گلوبلائزیشن کی ایک صورت میں) یہ ایک ایسی سرد جنگ تھی جس کے زہر یلے اثرات اور ہلاکت سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا صرف تلوار کی دھار اور اسلحہ کی طاقت سے ممکن نہ تھا کیونکہ علم و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ نسلی تعصب اور جہالت سے فکری اور علمی طوفان پر بندھ نہیں باندھ سکتے۔امام صادقؑ  واقف تھے کہ ایسی صورت میں سب سے بہتر حکمت عملی امت مسلمہ کو حصول علم و دانش کی طرف راغب کرنا ہے۔ ان فیوض کے اجراء کے لئے مدینے میں آپ کا گھر اور مسجد نبوی ایک بڑے علمی تحقیقی مرکز  کی شکل اختیار کر گئے اراس حلقہ تعلیم ، تدریس و تحقیق میں کم از کم چار ہزارطلباء مختلف شہروں اور ملکوں سے آکر زیر تعلیم تھے۔ شیخ طوسی کے بموجب یہ تعداد ٣١٩٧ مرد اور ١٢ خواتین پر مشتمل تھی۔ حسن بن علی بن زیاد جو شاگرد امام رضاؑتھے اور خود بھی اساتذہ حدیث میں شمار ہوتے تھے فرماتے تھے کہ ” میں نے مسجد کوفہ میں نوسو استاد حدیث کو دیکھا ہے جو امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے” صاحبانِ  اصول یعنی وہ لوگ جو اصل کتاب جس میں راوی اور معصوم کے درمیان صرف ایک واسطہ ہوتا ہے امام کی خدمت میں حاضر ہو کر ارشادات قلم بند کرتے جاتے۔ اس طرح ایسی چار سوں کتابیں تیار ہوئیں جن کو” اصول اربعماۃ”(چار سو اصول) کہا جاتا ہے۔ محمد ابن یعقوب کلینی نے چار سو کتابوں کی مدد سے ” اصول کافی” مرتب کی جو فقہ جعفریہ کی بنیادی کتاب ہے۔( محمد محمدی۔٨) یہ امام صادقؑ کا فیض تھا آج ہمارا حدیثوں کا سرمایہ اتنا مستند اور مستحکم ہے۔
امام صادقؑ کے علمی فیوض کے ضمن میں یہ عرض ہے کہ علم تو آئمہ کی میراث ہے جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سوال کرنے والے کو مطمئن کردیا۔ ان کے ذاتی تقدس اور دینی نظام میں ان کے مقام کے حوالے سے امام سے حصولِ فیوض کو زیادہ تر دینی معاملات تک محدود رکھا گیا۔ یہ ہماری بصیرت کی کوتاہی ہے۔ ورنہ علوم طبعیہ اور کونیہ (کائناتی معلومات) علوم میں بھی ہم اپنے آئمہ کو انتہائی مقام پر فائز دیکھتے ہیں۔ نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں اس ضمن میں بے شمار اشارے موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے امام جعفر صادقؑ کو درس و تدریس، بالمشافہ افہام و تفہیم، مناظرون اور مواعظہ حسنہ کی صورت میں ایسا ما حول اور موقع میسر ہو اکہ علوم جدیدہ کے شعبہ میں بھی اپنے فیوض سے مستفید کر سکے بلکہ یہ کہنا بر محل ہوگا کہ اس سلسلہ میں بھی انہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔
تتمہ:
مذاہب عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی مذہب بالکل ویسا نہ رہ سکا جیسا کہ وہ تھا، اسلام کے طے شدہ سفر میں بھی مختلف الخیال تحریکیں سامنے آئیں۔ تشیع نے بھی زمانہ کا یہ سفر طے کیا اور اثنائے سفر فطرت انسانی کے تقاضوں کے تحت مشکلات سے دو چار ہو الیکن شیعہ فکر کا اصل نچوڑ کہ تمام مسلمانوں میں اہلبیت نبی کی فضیلت مسلم ہے ایک حقیقت ثابتہ رہی۔ اس فضیلت کا تقاضہ یہ ہے کہ معاملات دین، احکامات شرعیہ اور تشریح قرآن و سنت کے باب میں آئمہ اہلبیت کی فکر کو سندِ آخر سمجھا جائے آئمہ کی اس فکر کو ایک دستاویزی شکل دینے اور رہتی دنیا تک اس کے تحفظ کی ضمانت مہیا کرنا امام جعفر صادقؑ کی تعلیمات کا محور ہے۔
مقالہ کا ما حصل یہ ہے کہ حصول اقتدار ، انقلاب اور تصادم کی اس طویل تاریخ میں آئمہ اہلبیت نے اپنے آپ کو کسی ایسی تحریک سے وابسطہ نہیں رکھا جو نشر علوم اور انسانی ذمہ داریوں سے متصادم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں ان کے اعلیٰ انسانی، اخلاقی، نیکی، علم، خلق، مروت، ضبط نفس اور فراست کا معترف نظر آتا ہے، اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت ایک مضبوط کڑی تھی۔
https://erfan.ir/urdu/45024.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button