کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
ترتیب: حسنین امام
علامہ عبدالرحمن ملا جامی رحمت اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ” شواہد النبوت ” میں آئمہ طاہرین علیہم السلام کی اکثر کرامات کا ذکر کیا ہے۔ملا جامی ایسے عاشق رسول اور حب دار آل رسول تھے کہ مروی ہے کہ آپ جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کیلئے آئے تو حضور اکرم نے والی مدینہ کو خواب میں حکم دیا کہ:
” میرے عاشق کو شہر کے باہر روک لیا جائے ورنہ جس جذب وکیف میں وہ آ رہا ہے مجھے اس کی دل دہی کیلئے گنبد خضرٰی سے باہر آنا پڑے گا "۔
اس واقعہ سے علامہ جامی کی عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ملا جامی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی کرامات بھی بیان کی ہیں ان میں سے چند کو بحوالہ کتاب ” ذکر اہل بیت ” مولفہ محمد رفیق بٹ صاحب ، اس مقالے کی زینت بنانے کا شرف حاصل کیا جاتا ہے ۔
پہلی کرامت:
ایک دن منصور نے اپنے دربان کو ہدایت کی کہ حضرت امام جعفر صادق ؑکو میرے پاس پہنچنے سے پہلے شہید کر دینا۔ اسی دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف لائے اور منصور عباسی کے پاس آ کر بیٹھ گئے ۔ اس نے دیکھا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف فرما ہیں جب آپ واپس تشریف لے گئے تو منصور نے دربان کو بلا کر کہا میں نے تجھے کس بات کا حکم دیا تھا؟ دربا ن بولا خدا کی قسم! میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو آپ کے پاس آتے دیکھا ہے نہ جاتے بس اتنا نظر آیا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھ گئے تھے ۔
دوسری کرامت:
منصور کے ایک دربان کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز اسے غمگین و پریشان دیکھا تو کہا اے بادشاہ آپ متفکر کیوں ہیں؟ بولا میں نے علویوں کے ایک بڑے گروہ کو مروا دیا ہے لیکن ان کے سردار کو چھوڑ دیا ہے میں نے کہا وہ کون ہے ؟ کہنے لگا وہ جعفر بن محمد علیہما السلام ہے میں نے کہا وہ تو ایسی ہستی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت میں محو رہتی ہے اسے دنیا کا کوئی لالچ نہیں خلیفہ بولا مجھے معلوم ہے تم اس سے کچھ ارادت و عقیدت رکھتے ہو میں نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک میں اس کا کام تمام نہ کر لوں آرام سے نہیں بیٹھوں گا چنانچہ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ جونہی جعفر بن محمد آئے میں اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں گا تم اسے شہید کر دینا ۔ پھر امام جعفر صادق علیہ السلام کو بلایا میں آپ کے ساتھ ساتھ ہو لیا میں نے دیکھا کہ آپ زیر لب کچھ پڑ ھ رہے تھے جس کا مجھے پتہ نہ چلا لیکن میں نے اس چیز کا مشاہدہ ضرور کیا کہ منصور کے محلوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا وہ ان سے اس طرح باہر نکلا جیسے ایک کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے اس کا عجیب حلیہ تھا وہ لرزہ براندام برہنہ سر اور برہنہ پاؤ امام جعفر صادق علیہ السلام کے استقبال کیلئے آیا اور اپ کے بازو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا اے ابن رسول اللہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :تو نے بلایا اور میں آ گیا۔ پھر کہنے لگا کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیں۔ آپ نے فرمایا مجھے بجز اس اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں بلایا نہ کرو میں جس وقت خود چاہوں آ جایا کروں گا آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے تو منصور نے اسی وقت جامہائے خواب (رات کو سونے کا لباس ) طلب کئے اور رات گئے تک سوتا رہا یہاں تک کہ اس کی نما قضا ہو گئی بیدار ہوا تو نماز ادا کرکے مجھے بلایا اور کہا جس وقت میں نے جعفر بن محمد علیہما السلام کو بلایا تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا حصہ میرے محل پر وہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا مجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر تم سے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کوئی گزند پہنچی تو تجھے تیرے محل سمیت فنا کر دوں گا اس پر میری طبعیت غیر ہو گئی جو تم نے دیکھ ہی لی ہے میں نے کہا یہ جادو یاسحر نہیں ہے یہ تو اسم اعظم (قرآن کریم ) کی خاصیت ہے جو حضور نبی کریم پر نازل ہو اتھا چنانچہ آپ نے جو چاہا وہی ہوتا رہا ۔
تیسری کرامت:
ایک راوی کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ حج کیلئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے سوکھے درخت کے پاس ٹھہرنا پڑا امام جعفر صادق علیہ السلام نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی اچانک آپ نے سوکھے درختوں کی طرف منہ کرکے فرمایا اللہ نے تمہیں ہمارے لئے جو رزق و دیعت کیا ہے اس سے ہماری ضیافت کرو میں نے دیکھا کہ وہ جنگلی کھجوریں آپ کی طرف جھک رہی تھیں جن پر ترخوشے لٹک رہے تھے آپ نے فرمایا آؤ اور بسم اللہ کر کے کھاؤ، میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھجوریں کھا لیں ایسی شیریں کھجوریں ہم نے پہلے کبھی نہ کھائی تھیں ۔اس جگہ ایک اعرابی موجود تھا اس نے کہا آپ جیسا جادوگر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہم پیغمبروں کے وارث ہیں ہم ساحرو کاہن نہیں ہوتے ہم تو دعا کرتے ہیں جو اللہ تعالی قبول فرما لیتا ہے اگر تم چاہو تو ہماری دعا سے تمہاری شکل بدل جائے اور تم ایک کتے میں متشکل ہو جاؤ۔ اعرابی چونکہ جاہل تھا اس لئے کہنے لگا ہاں ابھی دعا کیجئے۔ آپ ؑنے دعا کی تو وہ کتا بن گیا اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے فرمایا اس کا تعاقب کرو میں اس کے پیچھے گیا تو وہ اپنے گھر میں جا کر بچوں اور گھر والوں کے سامنے اپنی دم ہلانے لگا انہوں نے اسے ڈنڈا مار کر بھگا دیا واپس آیا تو تمام حال کہہ سنایا اتنے میں وہ بھی آگیا اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے زمین پر لوٹنے لگااس کی آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس پر رحم کھا کر دعا فرمائی تو وہ شکل انسانی میں آ گیا پھر آپ نے فرمایا: اے اعرابی! میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر یقین ہے کہ نہیں ؟ کہنے لگا ہاں جناب ایک بار نہیں اس پر ہزار بار ایمان و یقین رکھتا ہوں۔ ان کے جد مصطفیٰ کو بھی لوگ جادو گر کہا کرتے تھے (معاذ اللہ) اور ان کی آل پاک کے بارے میں بھی یہی خیال کرنے لگے فرق صرف یہ تھا کہ وہ کافروں میں سے ہوتے تھے اور یہ منکرین میں سے تھا اس پر بھی خوشی ہے کہ کتابننے کے بعد راہ راست پر تو آ گیا ۔
چوتھی کرامت:
ایک آدمی آپ کے پاس دس ہزار دینا لے کر آیا اور کہا میں حج کیلئے جا رہا ہوں آپ میرے لئے اس پیسے کوئی سرائے خرید لیں تاکہ میں حج سے واپسی پر اپنے اہل و عیال سمیت اس میں رہائش اختیا ر کروں۔ حج سے واپسی پر وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے بہشت میں سرائے خرید لی ہے جس کی پہلی حد حضور پر دوسری حضرت علی علیہ السلام پر تیسری امام حسن علیہ السلام پر اور چوتھی امام حسین علیہ السلام پر ختم ہوتی ہے اور یہ لو میں نے پروانہ لکھا دیا اس نے یہ بات سنی تو کہا میں اس پر خوش ہوں چنانچہ وہ پروانہ لے کر اپنے گھر چلا گیا گھر جاتے ہی بیمار ہو گیا اور وصیت کی اس پروانے کو میری وفات کے بعد قبر میں رکھ دینا لواحقین نے تدفین کے وقت اس پروانے کو بھی قبر میں رکھ دیا ۔دوسرے دن دیکھا کہ وہی پروانہ قبر پر پڑا ہوا تھا اور اس کی پشت پر یہ مرقوم تھا :کہ” امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا” ۔
پانچویں کرامت:
ابن جوزی نے کتاب ” صفتہ الصفوہ ” میں لیث بن سعد سے بہ اسناد خود روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں موسم حج میں مکہ معظمہ میں نماز عصر ادا کر ہا تھا فراغت کے بعد میں کوہ ابوقبیس کی چوٹی پر چڑ ھ گیا کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور دعا مانگ رہا ہے ابھی اس کی دعا ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ میں نے وہاں ایک گچھا انگوروں کا اور نئی چادریں پری ہوئی دیکھیں اس وقت انگور کہیں بھی دستیاب نہ تھے جب صفا و مروہ پر پہنچے تو اسے ایک شخص ملا جس نے کہا: اے ابن رسول میرا تن ڈھانپیے اللہ تعالی آپ کا تن ڈھانپے گا انہوں نے دونوں چادریں اسے دے دیں ۔میں نے پوچھا یہ چادریں دینے والے کون ہیں ؟ تو اس نے کہا یہ جعفر بن محمد علیہما السلام ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے قول:
وکان ابوھما صالحا
کے مطابق ہمارا اسی طرح پاس لحاظ رکھو جیسے ان دو یتیموں کا لحاظ حضرت خضر ؑنے کیا تھا کیونکہ ان کا باپ صالح تھا ۔
("مغز متفکر اسلام "سے اقتباس)