بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ کاعظیم واقعہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا دن پورے زمانے ”مِن َ الازَل اِلی الابد”باشرف ترین دن ہے۔چونکہ اس سے بڑا اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔دنیا میں بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں،عظیم انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات ہو گذرے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ اس عالم میں سوائے خداوند متعال کی ذات مقدس کے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم تر ہستی کوئی بھی نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے۔اور یہ واقعہ اس دن رونما ہوا ہے اسی نے اس دن کو عظمت اور شرافت عطا کی ہے۔ اس طرح کا دن ہمارے پاس ازل وابد میں نہیں آیا اور نہ آئے گا۔
عالم بشریت کا وحی کے فوائد اور تعلیمات سے بہرہ مند ہونا
بعثت کا ایک محرک یہ ہے کہ یہ قرآن کہ جو غیب میں تھا،غیبی صورت میں تھا،(فقط) علم خدا میں تھا اور غیب الغیوب میں تھا،اس عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے, وہ ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جس نے بہت زیادہ مجاہدت و ریاضت کرنے اور حقیقی فطرت اور توحیدی فطرت پر ہونے کی وجہ سے اور غیب کے ساتھ رابطہ رکھنے کی وجہ سے اس مقدس کتاب کو مرتبہ غیب سے منزل کیا ہے بلکہ (یہ مقدس کتاب ) مرحلہ بہ مرحلہ نازل ہوئی ہے۔اور اب ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی سے اپنی توان (اور استعداد ) کے مطابق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔بعثت کا مقصد اس دسترخوان نعمت کو لوگوں کے درمیان نزول کے زمانے سے لے کر قیامت تک بچھانا ہے اور یہی بات کتاب خدا کے نزول کے اسباب میں سے ایک سبب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی اصل وجہ ہے۔
بَعَثَہُ اِلَیْکُم
اس رسول کو تمہاری طرف بھیجا۔
وہ رسول تمہارے لیے قرآن اور ان آیات:
وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة
جمعہ:٢
وہ (رسول) ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
کی تلاوت کرتا ہے۔شاید ان آیات کی مقصود یا ہدف یہی ہوکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تزکیہ اور تمام افراد کی تعلیم وتربیت اور اسی کتاب وحکمت کی تعلیم کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ پس بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کیلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کے اپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کو سمجھ کر سکیں۔
غارحرا میں واقعہ بعثت
تواریخ میں ہے کہ آپ نے ۳۸ سال کی عمرمیں” کوہ حرا“ جسے "”جبل نور”” بھی کہتے ہیں کواپنی عبادت گذاری کی منزل قراردیا اوراس کے ایک غارمیں بیٹھ کر جس کی لمبائی چارہاتھ اورچوڑائی ڈیڑھ ہاتھ تھی عبادت کرتے تھے اورخانہ کعبہ کو دیکھ کرلذت محسوس کرتے تھے یوں تو دو دو، چارچارشبانہ روز وہاں رہا کرتے تھے لیکن ماہ رمضان سارے کا سارا وہیں گزراتے تھے۔
مورخین کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی عالم تنہائی میں مشغول عبادت تھے کہ آپ کے کانوں میں آوازآئی ”یامحمد“ آپ نے ادھرادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ نے ادھرادھردیکھا، ناگاہ آپ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی وہ جناب جبرائیل تھے انہوں نے کہا کہ ”اقرا“ پڑھو، حضور نے ارشاد فرمایا”مااقرا“ کیا پڑھوں؟ انہوں نے عرض کی کہ
” اقراء باسم ربک الذی خلق۔۔۔ الخ“
پھرآپ نے سب کچھ پڑھ دیا۔
کیونکہ آپ کوعلم قرآن پہلے سے حاصل تھا جبرئیل کے اس تحریک اقراء کا مقصد یہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ہو جائے۔ وہ پہلی آیت جو رسول پاک پر نازل ہوئی وہ یہ ہے۔
اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم
اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھوکہ جس نے انسان کو جمے ہوۓ خون سے پیدا کیا ہے پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اس وقت آ پ کی عمرچالیس سال ایک یوم تھی اس کے بعد جبرئیل نے وضو اورنمازکی طرف اشارہ کیا اوراس کی تعداد رکعات کی طرف بھی حضورکو متوجہ کیا چنانچہ حضور والا نے وضو کیا اورنماز پڑھی آپ نے سب سے پہلے جونمازپڑھی وہ ظہر کی تھی پھرحضرت وہاں سے اپنے گھرتشریف لائے اورخدیجۃ الکبری اور علی ابن ابی طالبؑ سے واقعہ بیان فرمایا۔ ان دونوں نے اظہارایمان کیا اورنمازعصر ان دونوں نے باجماعت ادا کی یہ اسلام کی پہلی نمازجماعت تھی جس میں رسول کریم امام اورخدیجہ اورعلی ماموم تھے۔
جب آپ غار حرا سے باہر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ کے گھر کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں جتنی پہاڑیاں تھیں وہ سب قدرت حق سے گویا ہو گئی تھیں اور پیغمبر خدا کے ساتھ باادب و احترام پیش آ رہی تھیں اور
” السلام علیک یا نبی اللّٰہ ”
کہہ کر آپ سے مخاطب ہو رہی تھیں۔
آپ درجہ نبوت پربدوفطرت ہی سے فائزتھے، ۲۷ رجب کومبعوث برسالت ہوئے۔ حیات القلوب کتاب المنتقی، مواہب اللدنیہ اسی تاریخ کونزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔