احادیث امام مہدی علیہ السلاماھل بیت علیھم السلامحدیثسلائیڈر

امام زمانہ علیہ السلام کے اقوال زریں

1۔زمین پر خدا کی حجت:

قال الامام المهدي و عجّل اللّٰه تعالى فرجه الشّريف:
الَّذى يَجِبُ عَلَيْكُمْ وَ لَكُمْ أنْ تَقُولُوا: إنّا قُدْوَةٌ وَ أئِمَّةٌ وَ خُلَفاءُ اللّٰهِ فى أرْضِهِ، وَ اُمَناؤُهُ عَلى خَلْقِهِ، وَ حُجَجُهُ فى بِلادِهِ، نَعْرِفُ الْحَلالَ وَالْحَرامَ، وَ نَعْرِفُ تَأويلَ الْكِتابِ وَ فَصْلَ الْخِطاب۔ (1)
ترجمہ : امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا: تم پر واجب ہے اور تمہارے حق میں بہتر ہے کہ اس حقیقت کے قائل ہوجاؤ کہ ہم اہل بیت قائد و رہبر اور تمام امور کی اساس و محور ہیں، اور روئے زمین پر خلفاء اللہ، خدا کی مخلوقات پر اس کے امین اور شہروں اور قریوں میں اس کی حجت ہیں، ہم حلال و حرام کو جانتے اور سمجھتے ہیں اور قرآن مجید کی تفسیر و تأویل کی معرفت رکھتے ہیں۔
2۔خاتم الاوصیاء کے صدقے میں بلائیں ٹل جاتی ہیں:
قالَ عليه السلام : أنَا خاتَمُ الاَْوْصِياءِ، بى يَدْفَعُ الْبَلاءُ عَنْ أهْلى وَشيعَتى۔(2)
فرمایا: میں نبی اکرمؐ کا آخرین وصی اور خاتم الاوصیاء ہوں اور میرے صدقے میری اہل اور میرے شیعوں سے بلائیں اور آفات ٹل جاتی ہیں۔
3۔زمانہ غیبت کے حاکم:
قالَ عليه السلام : أمَّا الْحَوادِثُ الْواقِعَةُ فَارْجِعُوا فيها إلى رُواةِ حَديثِنا (أحاديثِنا)، فَإنَّهُمْ حُجَّتي عَلَيْكُمْ وَ أنَا حُجَّةُ اللّهِ عَلَيْهِمْ(3)
فرمایا: [سیاسی، عبادی، اقتصادی، فوجی، ثقافتی، سماجی امور میں] پیش آنے والے حوادث و واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں یعنی فقہاء کی طرف رجوع کرو، وہ زمانہ غیبت میں تمہارے اوپر ہماری حجت ہیں اور میں ان کے اوپر خدا کی حجت ہوں۔
4۔دور ہوجاؤگے تو امام کو کوئی نقصان نہ ہوگا:
قالَ عليه السلام : الحَقُّ مَعَنا، فَلَنْ يُوحِشَنا مَنْ قَعَدَعَنّا، وَ نَحْنُ صَنائِعُ رَبِّنا، وَ الْخَلْقُ بَعْدُ صَنائِعِنا(4)
فرمایا: حق ہم اہل بیت رسول اللہؐ کے ہمراہ ہے پس ہم سے کسی کی کنارہ کشی ہمیں وحشت زدہ نہیں کرتی کیونکہ ہم خداوند متعال کے تربیت یافتہ ہیں اور دیگر مخلوقات ہمارے ہاتھوں میں پلی ہیں۔
5۔بہشت میں صاحب فرزند ہونا:
قالَ عليه السلام : إنَّ الْجَنَّةَ لا حَمْلَ فيها لِلنِّساءِ وَ لا وِلادَةَ، فَإذَا اشْتَهى مُؤْمِنٌ وَلَدا خَلَقَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِغَيرِ حَمْلٍ وَ لا وِلادَةٍ عَلَى الصُّورَةِ الَّتى يُريدُ كَما خَلَقَ آدَمَ عليه السلام عِبْرَةً(5)
فرمایا: بے شک جنت میں عورتوں کے لئے حمل اور زچگی نہیں ہے؛ پس اگر کوئی مؤمن اولاد کی تمنا کرے تو خداوند متعال بغیر حمل و ولادت کے اس کو اس کا پسندیدہ بچہ عنایت فرمائے گا بالکل اسی صورت میں جس صورت میں اس نے ارادہ کیا تھا، جس طرح آدم علیہ السلام کو خلق کیا تا کہ ہم سبق حاصل کریں۔
6۔ولی اللہ کے ساتھ بحث و جدل بالکل نہیں:
قالَ عليه السلام : لا يُنازِعُنا مَوْضِعَهُ إلاّ ظالِمٌ آثِمٌ، وَ لا يَدَّعيهِ إلاّجاحِدٌ كافِرٌ۔(6)
فرمایا: کوئی بھی ہمارے ساتھ ولایت و امامت کے مرتبے کے اوپر بحث و نزاع نہیں کرتا مگر وہ شخص جو ظالم اور گنہگار ہو ،اسی طرح کوئی ولایت و امامت کا دعوی نہیں کرتا سوائے اس شخص کے جو منکر اور کافر ہو.
7۔حق صرف اہل بیت کے پاس ہے اور بس:
قالَ عليه السلام : إنَّ الْحَقَّ مَعَنا وَ فينا، لا يَقُولُ ذلِكَ سِوانا إلاّ كَذّابٌ مُفْتَرٍ، وَ لا يَدَّعيهِ غَيْرُنا إلاّ ضالُّ غَوىّ۔(7)
فرمایا: حق و حقیقت – تمام امور اور تمام حالات میں – ہمارے پاس اور ہم اہل بیت کے درمیان ہے اور اگر یہ بات ہمارے سوا کسی اور نے کہی تو وہ جھوٹا اور اہل افتراء ہے اور ہمارے سوا صرف گمراہ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں.
8۔حق و حقیقت کے لئے کمال ہے:
قالَ عليه السلام : أبَى اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِلْحَقِّ إلاّ إتْماما وَ لِلْباطِلِ إ لاّزَهُوقا۔(8)
فرمایا: بے شک خداوند متعال حق کو بہر صورت کامل کردیتا ہے اور باطل کو بہر صورت نابود اور مضمحل کردیتا ہے.
9۔امام زمان کے کندھوں پر کسی طاغوت کی بیعت نہیں ہے:
قالَ عليه السلام : إنَّهُ لَمْ يَكُنْ لاِ حَدٍ مِنْ آبائى إلاّ وَ قَدْ وَقَعَتْ فى عُنُقِه بَيْعَةٌ لِطاغُوتِ زَمانِهِ، و إنّى أخْرُجُ حينَ أخْرُجُ وَ لا بَيْعَةَ لاِ حَدٍ مِنَ الطَّواغيتِ فى عُنُقى۔ (9)
فرمایا: بے شک میرے آباء و اجداد (ائمہ طاہرین علیہم السلام) کے ذمے ان کے زمانوں کے طاغوتوں کی بیعت تھی مگر میں ایسی حالت میں ظہور کروں گا کہ کسی بھی طاغوت کی بیعت میرے ذمے نہ ہوگی.
10۔ امام زمان علیہ السلام اور عدل کا قیام:
قالَ عليه السلام : أنَا الَّذى أخْرُجُ بِهذَا السَيْفِ فَأمْلاَ الاَرْضَ عَدْلا وَ قِسْطا كَما مُلِئَتْ ظُلْما وَ جَوْرا۔ (10)
فرمایا: میں وہی ہوں جو یہی تلوار (ذوالفقار) اٹھا کر ظہور کروں گا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھردوں گا جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی.
11۔ اپنے امور امام کے سپرد کرو:
قالَ عليه السلام : اِتَّقُوا اللّٰهُ وَ سَلِّمُوا لَنا، وَ رُدُّوا الاْ مْرَ إلَيْنا، فَعَلَيْنا الاْ صْدارُ كَما كانَ مِنَّا الاْيرادُ، وَ لا تَحاوَلُوا كَشْفَ ما غُطِّيَ عَنْكُمْ۔(11)
فرمایا: خدا سے ڈرو اور ہمارے سامنے سر تسلیم خم کرو اور اپنے امور ہمارے سپرد کردو کیونکہ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ تمہیں بے نیاز اور سیراب کردیں جیسا کہ یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے کہ تمہیں معرفت کے چشموں میں داخل کردیں اور ان چیزوں کو کشف کرنے کی کوشش نہ کرو جو تم سے چھپائی گئی ہیں.
12۔ خمس و زکات محض اموال کی تطہیر کے لئے:
قالَ عليه السلام : أمّا أمْوالُكُمْ فَلا نَقْبَلُها إلاّ لِتُطَهِّرُوا، فَمَنْ شاءَ فَلْيَصِلْ، وَ مَنْ شاءَ فَلْيَقْطَعْ۔ (12)
فرمایا: تمہارے اموال – خمس و زکات – ہم اس لئے قبول کرتے ہیں کہ تمہاری زندگی اور تمہارا مال پاک و طاہر ہوجائے پس جو چاہے متصل ہوجائے اور جو چاہے منقطع ہوجائے (پس جو چاہے ادا کرے اور جو چاہے ادا نہ کرے)۔
13۔امام مؤمنین کے احوال سے آگاہ ہیں:
قالَ عليه السلام : إنّا نُحيطُ عِلْما بِأنْبائِكُمْ، وَ لا يَعْزُبُ عَنّا شَيْى ءٌ مِنْ أخْبارِكُمْ. (13)
فرمایا: ہم تمہاری احوال و اخبار پر احاطہ رکھتے ہیں اور تمہاری کوئی بات ہم سی مخفی نہیں ہے.
14۔ حاجت طلب کرنے کا وقت اور کیفیت:
قالَ عليه السلام : مَنْ كانَتْ لَهُ إلَى اللّٰهِ حاجَةٌ فَلْ يَغْتَسِلْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ نِصْفِ اللَّيْلِ وَ يَأتِ مُصَلاّهُ۔ (14)
فرمایا: جو شخص خدا کی بارگاہ سے حاجت مانگنا چاہتا ہے پس وہ شب جمعہ نصف شب کے بعد غسل کرکے راز و نیاز و مناجات کے لئے اپنی جائے نماز پر قرار پائے.
15۔مؤمنین کی ایک دوسرے کے لئے طلب مغفرت:
قالَ عليه السلام : يَابْنَ الْمَهْزِيارِ! لَوْلاَ اسْتِغْفارُ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ، لَهَلَكَ مَنْ عَلَيْها، إلاّ خَواصَّ الشّيعَةِ الَّتى تَشْبَهُ أقْوالُهُمْ أفْعالَهُمْ۔ (15)
فرمایا: اگر تم میں سے بعض کی بعض دوسروں کے لئے طلب بخشش و مغفرت نہ ہوتی، روئے زمین پر موجود سارے انسان ہلاک ہوجاتے سوائے ان خاص و خالص شیعوں کے جن کا کردار ان کی گفتار کے مطابق ہے.
16۔امام حسینؑ کے زندہ ہونے کا عقیدہ کفر و گمراہی ہے:
قالَ عليه السلام : وَأمّا قَوْلُ مَنْ قالَ: إنَّ الْحُسَيْنَ لَمْ يَمُتْ فَكُفْرٌ وَتَكْذيبٌ وَ ضَلالٌ.(16)
فرمایا: اور امام حسین علیہ السلام کو موت نہ آنے اور آپؑ کے زندہ ہونے کے قائل ہیں ان کا یہ عقیدہ کفر، تکذیب اور گمراہی ہے.
17. تربت سیدالشہداء کی تسبیح کی فضیلت:
قالَ عليه السلام : مِنْ فَضْلِهِ، أنَّ الرَّجُلَ يَنْسَى التَّسْبيحَ وَ يُديرُا السَّبْحَةَ، فَيُكْتَبُ لَهُ التَّسْبيحُ۔ ( 17)
فرمایا: حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کی تربت کی تسبیح کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں ہو اور وہ ذکر و تسبیح بھول جائے اور تسبیح پھیراتا رہےتو اس کے لئے ذکر و تسبیح لکھی جاتی ہے.
18۔ فعل حرام اور طعام حرام کے ساتھ روزہ توڑنے کا کفارہ:
قالَ عليه السلام : فيمَنْ أفْطَرَ يَوْما مِنْ شَهْرِ رَمَضان مُتَعَمِّدا بِجِماعٍ مُحَرَّمٍ اَوْ طَعامٍ مُحَرَّمٍ عَلَيْهِ: إنَّ عَلَيْهِ ثَلاثُ كَفّاراتٍ۔(18)
فرمایا: جو شخص ماہ رمضان کا روزہ قصدا و ارادتاً حرام مجامعت کے ذریعے توڑ دے یا حرام کھانا کھا کر توڑ دے،اس پر تینوں کفارے واجب ہیں. (یعنی یہ کہ روزے کی قضاء رکھنی پڑے گی اور مزید یہ کہ 60 روزے رکھنے پڑیں گے،ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا پڑے گا اور ایک غلام بھی آزاد کرنا پڑے گا.)
19۔ عطسہ کی برکت
قالَ عليه السلام : ألا أبَشِّرُكَ فِى الْعِطاسِ قُلْتُ: بَلى، فَقالَ: هُوَ أمانٌ مِنَ الْمَوْتِ ثَلاثَةَ أيّام۔(19)
نسیم خادم کہتے ہیں: میں امام مہدی علیہ السلام کے حضور چھینکا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں چھینک کے بارے میں بشارت نہ دوں؟
میں نے عرض کیا: کیوں نہیں مولائے من.
فرمایا: چھینک آنے سے موت تین روز تک ٹل جاتی ہے.
20۔ امام زمان (عج) کا نام لینے سے پرہیز کی ضرورت:
قالَ عليه السلام : مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ سَمّانى فى مَحْفِلٍ مِنَ النّاسِ۔
(وَ قالَ عليه السلام 🙂 مَنْ سَمّانى فى مَجْمَعٍ مِنَ النّاسِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُاللّٰهِ۔(20)
فرمایا: ملعون ہے اور خدا کی رحمتوں سے دور ہے وہ جو لوگوں کی کسی محفل میں میرا نام [جو رسول اللہؐ کا نام بھی ہے] زبان پر لائے.
نیز آپؑ نے فرمایا: جو شخص کسی مجمع میں میرا [اصلی] نام زبان پر جاری کرے اس پر خدا کی لعنت ہے۔

ماخذ:
1۔تفسير عيّاشى : ج 1، ص 16، بحارالا نوار: ج 89، ص 96، ح 58.
2۔دعوات راوندى: ص 207، ح 563.
3۔ بحارالا نوار: ح 2، ص 90، ح 13، و53، ص 181، س 3، وج 75، ص 380، ح 1.
4۔ بحارالا نوار: ج 53، ص 178، ضمن ح 9.
5۔بحارالا نوار: ج 53، ص 163، س 16، ضمن ح 4.
6۔بحارالا نوار: ج 53، ص 179، ضمن ح 9.
7۔بحارالا نوار: ج 53، ص 191، ضمن ح 19.
8۔بحارالا نوار: ج 53، ص 193، ضمن ح 21.
9۔ الدّرّة الباهرة: ص 47، س 17، بحارالا نوار: ج 56، ص 181، س ‍ 18.
10۔ بحارالانوار: ج 53، ص 179، س 14، و ج 55، ص 41.
11۔ إكمال الدّين: ج 2، ص 510، بحارالا نوار: ج 53، ص 191.
12۔ إكمال الدّين: ج 2، ص 484، بحارالا نوار: ج 53، ص 180.
13۔ احتجاج: ج 2، ص 497، بحارالا نوار: ج 53، ص 175.
14۔ مستدرك الوسائل: ج 2، ص 517، ح 2606.
15۔ مستدرك ج 5، ص 247، ح 5795.
16۔ غيبة طوسى: ص 177، وسائل الشّيعة: ج 28، ص 351، ح 39.
17۔ بحارالا نوار: ج 53، ص 165، س 8، ضمن ح 4.
18۔ من لايحضره الفقيه: ج 2، ص 74، ح 317، وسائل الشّيعة: ج 10، ص 55، ح 12816.
19۔إكمال الدّين: ص 430، ح 5، وسائل الشّيعة: ج 12، ص 89، ح 15717.
20۔وسائل الشّيعة: ج 16، ص 242، ح 12، بحارالا نوار: ج 53، ص ‍ 184، ح 13 و 14.
https://erfan.ir/urdu/68657.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button