خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:241)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک یکم مارچ 2024ء بمطابق 19شعبان المعظم1445ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: مناجاتِ شعبانیہ
مناجات شعبانیہ امام علیؑ سے منقول وہ راز و نیاز ہے جو امام المتقین ماہ شعبان میں اپنے رب کے سامنے بیان کیا کرتے تھے اور احادیث کے مطابق آپؑ کے بعد باقی ائمہ معصومینؑ شعبان کے مہینے میں پابندی سے یہ مناجات پڑھا کرتے تھے۔انسان اس مناجات کے ذریعے اسلام میں دعا اور مناجات کی اہمیت اور عظمت سے واقف ہوتا ہے۔ ان مناجات کے ذریعے نہ صرف خدا کی معرفت اور خدا سے عشق و محبت پر مبنی راز و نیاز کر سکتا ہے بلکہ ان کے اندر چھپے عظیم علمی معارف سے بھی فیض یاب ہو سکتا ہے۔
مناجات شعبانیہ کے ابتدائی جملے کچھ یوں ہیں:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، خدایا! درود بھیج محمد و آل محمد پر،
وَ اسْمَعْ دُعائی اِذا دَعَوْتُکَ، اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن لے،
وَ اسْمَعْ نِدائی اِذ انادَیْتُکَ، اور جب میں تجھے پکاروں تو میری ندا سن،
وَ اَقْبِلْ عَلَیَّ اِذا ناجَیْتُکَ، اور جب میں تجھ سے راز و نیاز کروں تو میری طرف رخ کر،
فَقَدْ هَرَبْتُ اِلَیْکَ، پس میں بھاگ کر تیری طرف آیا ہوں،
وَ وَقَفْتُ بَیْنَ یَدَیْکَ مُسْتَکینا لَکَ، اور بے چارگی کی حالت میں کھڑا ہوں،
مُتَضَرِّعا اِلَیْکَ، اور تیری بارگاہ میں گڑگڑا رہا ہوں،
راجِیا لِما لَدَیْکَ ثَوابی۔ اپنے ثواب کی امید لئے ہوئے ہوں جو تیرے پاس ہے۔

مولائے متقیان امیر المومنین امام علیؑ  کی مناجات کے ان چند ابتدائی جملوں میں ہی اتنے مطالب پوشیدہ ہیں کہ اگر وہ سب بیان کیے جائیں تو کئی خطبوں میں یہ سب مطالب مکمل ہو سکیں گے۔ لیکن ہم مختصر طور پر چند مطالب بیان کرتے ہیں:
دعا سے پہلے محمد و ال محمد علیہم السلام پرصلوات بھیجنا؛
پہلا مطلب اس مناجات سے اور اہلبیت سے منقول دیگر دعاؤں اور صحیفہ سجادیہ میں امام زین العابدینؑ  کی اکثر دعاؤں کے مطالعہ سے یہی سمجھ آتا ہے کہ اپنی دعا و مناجاجت کا آغاز محمد و آل محمد پر صلوات پڑھ کر کرنا چاہیے۔جس سے پیغام ملتا ہے کہ گویا دعا کرنے والے نے ان پاکیزہ ہستیوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا ہے جن کے وسیلہ اسے دین و دنیا کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں کیوںکہ دعا کی تمام چیزیں اور برکتیں انہی ہستیوں اور شخصیتوں کی وجہ سے اور انہی کے صدقے سے ملتی ہیں، جیسا کہ ہم زیارت جامعہ کبیرہ کے اس جملے میں پڑھتے ہیں:
اِنْ ذُکِرَ الْخَیْرُ کُنْتُمْ اَوَّلَهُ وَ اَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْویهُ وَ مُنْتَهاهُ ؛
جہاں بھی خیر و نیکی کا تذکرہ ہوگا آپ وہاں پہلے ہیں، اس کی اصل و بنیاد ، اس کی شاخیں اور معدن، آپ ہی اس کی ابتداء اور انتہا ہیں،
مناجات شعبانیہ بھی دنیا کی ان عظیم اور گراں قدر نعمتوں میں سے ایک ہے جو ان عظیم ہستیوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچی ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ اگر خاندان اہل بیت سے منقول یہ دعائیں اور مناجات نہ ہوتی تو لوگوں کو خدا سے مانگنے کا سلیقہ اور ادب ہی معلوم نہ ہوپاتا۔
دعا و مناجات کے آغاز میں صلوات پڑھنے سے دوسرا مطلب یہ سمجھ آتا ہے کہ:
یہ مقدس نورانی ہستیاں جو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں، جن کی زبانوں میں تاثیر ہے، جو آسمان و زمین کے درمیان رسی ہیں۔ تو دعا مانگنے والے نے انہیں اپنے اور اپنے خدا کے درمیان دعاوں کی قبولیت کے لئے واسطہ قرار دیا ہے، جیسا کہ عیاشی نے روایت کی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ’’ واعتصموا بحبل اللّٰه جمعیاً ‘‘ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو(سورہ ال عمران ، ۱۰۳) کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا: اس آیت کریمہ میں ’’حبل اللّٰہ‘‘ یعنی اللہ کی رسی سے مراد ’’علی ابن ابی طالب علیہ السلام‘‘ کی ذات گرامی ہے۔
ایک دوسری سند سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ آل مُحَمَّدٍ (صلی اللّٰه علیه و آله) هُمْ حَبْلُ اللّٰهِ الَّذِی أُمِرَ بِالِاعْتِصَامِ بِهِ ؛ آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) خدا کی رسی ہیں کہ انہیں تھامنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (تفسیرعیاشی، ج۱، ص۱۹۴ )
حضرت امام صادق علیہ السلام سے بھی اس سلسلہ میں روایت ہے کہ اپ نے فرمایا : وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیعاً قَالَ نَحْنُ الْحَبْلُ؛ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ، پھر [امام علیہ السلام نے] فرمایا: ہم ہیں خدا کی رسی۔(تفسیر اہلبیت ج۲، ص۷۱۶)
اور علی ابن ابراھیم نے روایت نقل کی ہے کہ ’’حبل اللّٰه‘‘ خدا کی وحدانیت اور اہل بیت اطھار علیہم السلام کی ولایت ہے، امام محمد باقر علیہ السلام نے ’’ فِی قَوْلِهِ وَلا تَفَرَّقُوا ‘‘ کے سلسلہ میں فرمایا:
قَالَ إِنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی عَلِمَ أَنَّهُمْ سَیَتَفَرَّقُونَ بَعْدَ نَبِیِّهِمْ وَ یَخْتَلِفُونَ
خداوند متعال کو معلوم تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد امت میں اختلاف ہوجائے گا اور امت فرقوں میں بٹ جائے گی۔
فَنَهَاهُمْ عَنِ التَّفَرُّقِ کَمَا نَهَی مَنْ کَانَ قَبْلَهُمْ
پس اسی بنیاد پر انہیں اختلاف اور تفرقہ سے منع کیا گیا جیسا کہ گذشتہ امتوں کو بھی اختلاف و فرقہ بندی سے منع کیا تھا
فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَجْتَمِعُوا عَلَی وَلَایَهْ آلِ مُحَمَّدٍ وَ لَا یَتَفَرَّقُوا
پس انہیں حکم دیا کہ وہ آل محمدکی ولایت پر متحد ہو جائیں اور تفرقہ نہ پھیلائیں۔ ( تفسیر قمی، ج۱، ص۱۰۸ )

پس واضح ہوا کہ محمد و ال محمد پر صلوات دعاوں کی قبولیت کا ذریعہ ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا: مَنْ کانَتْ لَهُ اِلَی اللّٰهِ عَزَّوجَلَّ حاجَةٌ فَلْیَبْدَأْ بِالصَّلاةِ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ثُمَّ یَسْأَلُ حاجَتَهُ،
خداوند متعال کی بارگاہ میں جس کی کوئی حاجت ہو وہ اپنی حاجتوں کی ابتداء میں محمد و ال محمد پر درود بھیجے پھر اپنی حاجتیں مانگے
ثُمَّ یَخْتِمُ بِالصَّلاةِ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، پھر دعا کے آخر میں بھی محمد و ال محمد پر درود بھیجے،
فَاِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ اَکْرَمُ مِنْ اَنْ یَقْبَلَ الطَّرَفَیْنِ وَ یَدَعَ الْوَسَطَ اِذا کانَتِ الصَّلاةُ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ لا تُحْجَبُ عَنْهُ۔ کیوں کہ خداوند متعال بہت کریم ہے اور وہ ایسا نہیں کرے گا کہ وہ دعا کے اول و آخر (میں پڑھی گئی صلوات) قبول کرلے مگر درمیان والی دعا کو چھوڑ دے ۔
مناجات شعبانیہ کے اگلے جملوں میں امام علی خدا سے یوں راز و نیاز کرتے ہیں:
وَ اسْمَعْ دُعائی اِذا دَعَوْتُکَ، اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن لے،
وَ اسْمَعْ نِدائی اِذ انادَیْتُکَ، اور جب میں تجھے پکاروں تو میری ندا سن،
وَ اَقْبِلْ عَلَیَّ اِذا ناجَیْتُکَ، اور جب میں تجھ سے راز و نیاز کروں تو میری طرف رخ کر،
فَقَدْ هَرَبْتُ اِلَیْکَ، پس میں بھاگ کر تیری طرف آیا ہوں،
وَ وَقَفْتُ بَیْنَ یَدَیْکَ مُسْتَکینا لَکَ، اور بے چارگی کی حالت میں کھڑا ہوں،
مُتَضَرِّعا اِلَیْکَ، اور تیری بارگاہ میں گڑگڑا رہا ہوں،
راجِیا لِما لَدَیْکَ ثَوابی اپنے ثواب کی امید لئے ہوئے ہوں جو تیرے پاس ہے۔
مناجات کے ان جملوں میں مولائے متقیان نے تین لفظ استعمال کیے ہیں اور ان تین فقروں میں تین حالتیں ذکر ہوئی ہیں کہ جو شخص اللہ کی طرف بھاگ جائے اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہو تو یہ تین حالتیں اس میں ہونی چاہئیں۔وہ تین حالتیں یہ ہیں: مُسْتَكیناً، مُتَضَرِّعاً، رَاجِیاً
مُسْتَکیناً: عربی زبان میں اس کا مطلب خضوع و خشوع ہے، یعنی اللہ کے سامنے جھکنا۔
مُتَضَرِعاً: گڑگڑانے، گریہ و زاری کرنے اور دعا میں اصرار کرنے کے معنی میں ہے۔ یعنی رو رو کر اور بار بار مانگنا جیسا بچہ والدین کے سامنے روتا ہے۔
راجیاً:” رجاء و امید کے معنی میں ہے اور اصطلاحاً احتمالی نشانیوں کے پیش نظر، اچھے کام کی توقع اور امید رکھنا یا دوسرے لفظوں میں ایسے کام کے وقوع پذیر ہونے کا گمان رکھنا جو خوشی کا باعث ہے۔
مذکورہ تین حالتیں جو حضرت امیرالمومنینؑ نے مناجات شعبانیہ میں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے دو حالتیں استکانت اور تضرع ہیں۔ سورہ مومنون میں اللہ تبارک و تعالی نے ان دو الفاظ کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے:
"وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ
بتحقیق ہم نے تو انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے رب سے نہ عاجزی کا اظہار کیا نہ زاری کی”۔
محمد ابن مسلم نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے اللہ عزوجل کے کلام:
"فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ"کے بارے میں دریافت کیا تو آپؑ نے فرمایا:
"الِاسْتِكَانَةُ هُوَ الْخُضُوعُ وَ التَّضَرُّعُ هُوَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ وَ التَّضَرُّعُ بِهِمَا”،
استکانت خضوع ہے اور تضرع ہاتھوں کو اٹھانا ہے اور ان کے ذریعہ تضرع کرنا ہے”۔ کتاب قاموس قرآن میں آیا ہے کہ استکانت دل کی کیفیت ہے اور تضرع، زاری زبان سے ہوتی ہے اور ظاہری عمل ہے۔
خشوع و خضوع اور تضرع و زاری کی اہمیت:
دعا تضرع اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہونی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے:
"ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ”،
"اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا”۔
اللہ تعالی بعض اوقات لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ تکبر و غرور کی حالت سے نکل آئیں اور اللہ کی بارگاہ میں تضرع و زاری کریں، جیسا کہ فرمایا:
"فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ
"پھر ہم نے انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کا اظہار کریں”۔
مصیبت اور تکلیف کے وقت تضرع اور تواضع کرنا، اللہ تعالی پر ایمان کی دلیل ہے اور اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسان، ایسی حالت میں اللہ کی پناہ لینا چاہتا ہے۔ جب انسان کا دل، اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے تو نرم ہوجاتا ہے اور اس پر رقت طاری ہوجاتی ہے، تو غفلت کی نیند سے جاگ جاتا ہے اور ہوش میں آجاتا ہے۔لہذا اس کے لئے وہی مصیبت، نعمت بن جاتی ہے اور دل کی نرمی اور رقت کے باعث اس کے دل میں اللہ کی جو محبت پیدا ہوئی ہے، وہ محبت اس کی سعادت اور خوش بختی کا باعث بن جاتی ہے۔ وہ گمراہی اور انحراف سے رخ موڑ کر صراط مستقیم اور حق کی طرف ہدایت پاجاتا ہے۔ لیکن مصیبت آنے کے باوجود بھی بعض لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور گمراہی پر ڈٹے رہتے ہیں اور کسی تکلیف سے ان میں بیداری پیدا نہیں ہوتی تو ایسے لوگ عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے بعد والی آیات میں فرمان الہی ہے:

"فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ .”
پھر جب ہماری طرف سے سختیاں آئیں تو انہوں نے عاجزی کا اظہار کیوں نہ کیا؟ بلکہ ان کے دل اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے۔

"فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ”،
پھر جب انہوں نے وہ نصیحت فراموش کر دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوشحالی) کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ ان بخششوں پر خوب خوش ہو رہے تھے ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا پھر وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔
تضرع کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) خداوند متعال کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: ”
"وَ لَا يُنْجِينِي مِنْكَ إِلَّا التَّضَرُّعُ إِلَيْكَ وَ بَيْنَ يَدَيْك”،
اور تیری بارگاہ میں گڑگڑاہنے کے علاوہ کوئی چیز مجھے تجھ سے رہائی نہیں دے سکتی”۔
اللہ کے ثواب پر امید: مولائے کائنات کی مناجات میں ثواب کی امید کا درس بھی موجود ہے یعنی جب انسان دعا کرتا ہے تو اللہ پر اور اس کے لطف و کرم پرامید رکھے، ثواب کے بارے میں نہ تو بالکل لاپرواہ ہونا چاہیے اور نہ ہی بالکل ناامید ہو۔ انسان کو جان لینا چاہیے کہ کوئی کام جزا کے بغیر نہیں ہے۔ رجا اور امید، ایمان کی علامت ہے۔ قرآن کی ہر سورہ (سوائے سورہ توبہ کے) اللہ کی رحمت کا ذکر کرتی ہوئی بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے، یہ بہترین تعلیم ہے اس بات کی کہ بندوں کو رحمتِ پروردگار پر امیدوار رہنا چاہیے۔
یہ مطالب امام زین العابدین ؑ کی دعاؤں میں:
حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ میں بارگاہ پروردگار میں عرض کرتے ہیں:
"دَعَوْتُكَ- يَا رَبِّ- مِسْكِيناً، مُسْتَكِيناً، مُشْفِقاً، خَائِفاً، وَجِلًا، فَقِيراً، مُضْطَرّاً إِلَيْك‏"، "اے میرے پروردگار! میں نے ایسے حال میں کہ میں بالکل مسکین، عاجز، خوف زدہ، ترساں، ہراساں، بے سروسامان اور لاچار ہوں، تجھے پکارا ہے”۔
نیز حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی مناجات کے یہ فقرے تو اور زیادہ مناجات شعبانیہ سے ملتے جلتے ہیں، جہاں آپؑ بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں:”وَ قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُسْتَكِيناً مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ رَاجِياً لِمَا عِنْدَكَ ، "میں خضوع کرتے ہوئے،  گڑگڑاتے ہوئے اور جو تیرے پاس ہے اس پر امید رکھے ہوئے تیری بارگاہ میں بیٹھا ہوں”۔ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) بارگاہِ پروردگار میں عرض کرتے ہیں: "…فَمَثَلَ بَيْنَ يَدَيْكَ مُتَضَرِّعاً"، "…چنانچہ وہ عاجزانہ صورت میں تیرے سامنے آکھڑا ہوا”۔
پس اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ آئمہ اہلبیت علیھم السلام کی دعاؤں اور مناجات میں بھی ہمارے لیے بے شمار معارف دینی اور دروس موجود ہوتے ہیں لہذا ان کی دعاؤں کو فقط تبرکا نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ ان کے معانی و مطالب پر غور وفکر کرکے ان کے اندر چھپے ہوئے معارف اور دروس بھی اخذ کرنے چاہیں اور یہ تب ہوگا جب ہم آئمہ اطہار کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں کا محور و مرکز بنائیں گے اور ان دعاؤں کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی عادت ڈالیں گے۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button