اولاد معصومینؑسلائیڈرشخصیات

جناب سکینہ کی زندان شام میں شہادت تاقیامت یزیدیت کے منہ پر طمانچہ

جناب سکینہ: اے کوفیو ! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا کہ جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالبؑ کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اسکی پاک عزت کے ساتھ کیا؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے کہ جسے خداوند نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا۔؟
یزید لعین کا ظلم صرف کربلا میں جاری نہیں رہا بلکہ سن 61 ہجری سے سن 64 ہجری تک یزید ملعون نے وہ ظلم کیے کہ منجنیق سے خانہ کعبہ و مسجد نبوی پرپتھر برسا کر حرمت کعبہ کو پامال کیا اور واقعہ کربلا کے بعد محمد و آل محمدؐ کے گھرانے اہلبیت اطہار کے خواتین و بچوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسیر بنا کر شام و کوفہ کے زندانوں اور بازاروں میں پھرا کر قید کر دیا گیا۔
ان اذیتوں سے درجنوں کمسن بچے شہید ہوئے جن میں سے ایک امام حسینؑ کی چار سالہ کمسن بی بی سکینہ کی شہادت بھی تیرہ صفر کے دن زندان شام میں ہوئی۔ حق کی راہ میں ہر سن و عمر کے افراد حتی کہ کمسن بچوں و بچیوں تک نے قربانیاں دی ہیں۔ اگر ایک طرف میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے چھ ماہ کے شیر خوار فرزند علی اصغر نے یزیدی فوج کا تیر ہنستے ہوئے سہہ کر وقت کے امام سید الشہداء نواسئہ رسول کی اطاعت کا حق ادا کیا تو دوسری طرف امام حسین کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین نے دمشق و کوفہ کے بازاروں و زندانوں اور درباروں میں حق کی خاطر قربانیاں دے کر آخر کار تیرہ صفر المظفر یا بعض روایات کے مطابق 10 یا 11 صفر المظفر 62 ہجری میں زندان دمشق کے خرابے میں جام شہادت نوش کیا۔
بی بی سکینہ بنت حسینؑ امام علیؑ کی پوتی اور امام حسینؑ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بنت الحسینؑ جو تاریخ میں سیدہ سکینہ کے نام سے معروف ہیں اور جن کا سن مبارک صرف 4 برس کا تھا، جب بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ کی علامت ملعون یزید ابن معاویہ نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارات اہل بیت آل محمد کو شہید کیا تو صرف انکی شہادت پر اکتفا نہ کیا بلکہ محمد و آل محمد کی مخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں حتی کہ یتیم بچوں و بچیوں کو دس محرم کے بعد قیدی بنا کر بے کجاوہ اونٹوں کے ذریعے اپنے پایہ تخت دمشق و کوفہ کے بازاروں و درباروں تک لے جایا گیا اور یہ پروپیگنڈہ تک کروایا گیا کہ نعوذ باللّٰہ ان اہل بیت اطہار نے خلیفۃ المسلمین یزید ابن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔
شاید یزید کو معلوم نہ تھا کہ خاندان رسالت اور عصمت و طہارت کی خواتین و بچے ہوں یا پھر ان کے گھر کی کنیز فضہ ہی کیوں نہ ہوں، یہ سب مفسر قرآن ہیں۔ رسول خدا اور علی کی تربیت کی وجہ سے اپنے خطبات کے ذریعے بازاروں و درباروں میں انقلاب برپا کر سکتی ہیں اور ایسا ہوا بھی، علی کی بیٹی زینب سلام اللہ و بی بی ام کلثوم اور امام حسین کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین نے اپنے کردار و خطبات کے ذریعے یزید اور یزیدیت کو تاقیامت لعنت کا حقدار کر کے باطل کی علامت قرار دیا۔ اس کا ذکر حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی یوں کیا ہے کہ:
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد و دیگر زینب
بی بی سکینہ بنت حسین نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ کی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے۔ اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے، اس خطبے کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا گناہ عظیم سرزد ہوا ہے۔ حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے:
حمد ہے خداوند کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ، عرش کے وزن سے لے کر زمین تک میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں، اس پر بھروسہ کرتی ہوں، گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمد اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپؐ کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا۔
اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی وصیت کی، لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اور آپ کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ کو شہید کر دیا جیسے کل انہی کے بیٹے (حسین )کو شہید کیا گیا۔
اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا کہ جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جا معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔
اے اللہ ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں، میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں۔
اے اللہ ! تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تو نے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا۔
اے کوفیو ! اے مکر و فریب اور دھوکہ دینے والو ! اللہ نے ہم اہل بیت کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں،اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد ؐکے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا ،گویا ہم اولاد رسول نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا، تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا، تم نے ہمیں قتل کر کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے، تم نے اللہ پر افتراء باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے۔تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بے شک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔
تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم پر لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے، اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جہنم) ہے ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی کون ہماری طرف خود چل کر آیا تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے تمہارے دل سخت ہو گئے تمہارے جگر غلیظ ہو گئے، اللہ نے تمہارے دلوں ، کان، آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔
اے کوفیو ! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا کہ جسکے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا ؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟ ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے۔ تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی، اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا۔
نبوت اور امامت کی پروردہ نے اپنے اس عظیم خطبے میں چند اہم امور پر گفتگو فرمائی:
1- سیدہ سکینہ نے اپنے دادا امیر المومنین کی ولایت کے عہد کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا اور آپ کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جو حق ہے اور زمین پر مجسمہ عدل ہے، یہاں تک کہ وہ خداوند کے گھر میں شہید کر دئیے گئے۔ امیر المومنین ؑ وہ شخصیت ہیں جن کو اللہ نے چن لیا اور اپنی صفات و فضائل و مناقت سے آپ کو مخصوص کر دیا۔
2- سیدہ سکینہ نے اہل بیت کے مصائب کا ذکر فرمایا، ان پر اللہ کا سلام ہو وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں، ان سے پوچھا جائے گا کہ کس نے ان کی نصرت کی اور کس نے دشمنی اور امت نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور جس طرح آل محمد کا خون بہایا اور جس طرح آل محمد نے مصائب و آلام برداشت کیے۔
3- اہل بیت پر کی جانے والی زیادتیوں کا بیان کیا کہ ظالم افراد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نے کتنا ظلم ڈھایا اور ان کو اللہ کے سخت ترین عذاب کی نوید بھی سنائی لوگوں کے نفوس میں اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس سے لوگوں کے دل جلنے لگے۔
اے طاہرین کی بیٹی ! خدارا اپنے کلام کو روک دیجئے آپ نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور ہماری سانسیں ہمارے حلق میں اٹک گئی ہیں، حتی کہ اس مجمع میں موجود بعض افراد نے یزید ملعون اور اس کی افواج کے خلاف علم جہاد اٹھا کر جام شہادت نوش کیا۔ کربلا اور معرکہ حق و باطل آج بھی ہمارے ارد گرد جاری ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا اسکی نشاندہی کی ہے:
لب فرات پہ اب بھی جنگ جاری ہے
کوئی حسین کے لشکر میں آئے حر کی طرح
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں محرم کے ساتھ ساتھ صفر کے مہینے میں بھی عزاداری و مجالس اور چہلم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ معرکہ حق و باطل کربلا کی ایک اہم اہمیت یہ ہے کہ اس واقعے میں بچوں، خواتین و بزرگوں حتی کہ اس وقت تک زندہ رہنے والے بعض اصحاب رسول خدا جیسے بزرگ صحابی حضرت حبیب ابن مظاہر تک نے شرکت کر کے حق و حسینت کے لیے قربانیاں دیں۔
یہ بات حدیث و تاریخ کی متفقہ کتب میں ملتی ہے کہ حضرت محمدؐ نے اپنی زندگی ہی میں واقعہ کربلا کے پیش ہونے اور بنی امیہ و ملوکیت کے ڈکٹیٹر یزید لعین کی طرف سے امام حسینؑ کی شہادت کا اشارہ کیا تھا۔ حضور اکرمؐ نے اپنی زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ (س) کو خاک کربلا دے کر فرمایا تھا کہ سن 61 ہجری میں دس محرم کے دن یہ خاک سرخ رنگ میں تبدیل ہو گی اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کربلا میں میرا نواسہ سید الشہدا حضرت امام حسین تین دن کا بھوکا و پیاسا شہید کیا جائیگا۔
اسی طرح حضور اکرم ؐنے اپنے ایک مشہور صحابی حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری سے فرمایا تھا کہ:
اے جابر ابن عبد اللہ انصاری تم میرے نواسے امام حسینؑ کے دور تک زندہ رہو گے اور شہادت حسین و شہدائے کربلا کے بعد کربلا میں امام حسینؑ کی زیارت سے فیض یاب ہو گے۔ (تاریخ کے کتب کے مطابق شہادت امام حسین و واقعہ کربلا کے بعد حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری نے پہلی دفعہ امام حسین کی زیارت کر کے زیارت امام حسین کی سنت کا احیاء کیا) نہ صرف امام حسین کی زیارت بلکہ تم امام حسین کے نواسے اور میرے پانچویں جانشین امام محمد باقر ابن امام زین العابدین علیہ سلام کے زمانے تک زندہ رہو گے اور ان سے ملاقات ہو گی، انہیں میرا یعنی حضور اکرمؐ کا سلام پہنچانا۔
حضور اکرمؐ نے تو یہاں تک حق و باطل کو واضح کیا تھا کہ میرے صحابی حضرت عمار ابن یاسر باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہو جائیں گے اور حضرت عمار ابن یاسر کو بنی امیہ کے دہشت گرد ٹولے نے حضرت علیؑ کے دور خلافت میں اس جرم پر بے دردی سے شہید کر دیا کہ حضرت عمار ابن یاسر بنی امیہ کی طرف سے کھلم کھلا امیر المومنین و خلیفتہ المسلمین حضرت علیؑ کی شان میں کئی ہزار منبروں سے نماز جمعہ کے خطبات میں لعن طعن کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور بنی امیہ کی مسلط کردہ جنگوں امیر المومنین و خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیتے تھے۔ اتنی واضح حدیث رسول خداؐ کے باوجود بنی امیہ کے ڈکٹیٹر یزید لعین کے دور تک بعض تابعین نے اہل بیت علیہم السلام و امام حسین علیہ سلام کا ساتھ دینے کی بجائے اسلام و سنت رسول کو پامال کرنے والے یذید لعین کا ساتھ دیا حتی کہ یزید ملعوں نے تو حد کرتے ہوئے منبر رسول کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے بندر و کتوں تک کو منبر رسول پر شراب کے نشے میں دھت ہو کر یہاں تک ناپاک جسارت کی کہ نہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ پیغام بلکہ یہ بنی ہاشم و محمد و آل محمد نے حکومت حاصل کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا ہے۔ نقل کفر کفر نہ باشد نعوذ باللہ یہ تھا خلافت کو ملوکیت میں بدلنے والے یزید لعین و بنی امیہ کی اسلام دشمنی۔ یہی وجہ ہے کہ سید الشہدا نے قیام کا فیصلہ کرتے ہوئے امت کو یزید و بنی امیہ کے خلاف میدان عمل میں آنے کے لیے فرمایا تھا کہ:
جب یزید جیسا شخص امت مسلمہ کا خلیفہ ہو تو اسلام پر فاتحہ پڑھنا چاہیے۔
اور میدان کربلا میں یزیدی فوج کہ جن میں بعض اصحاب و تابعین تک شامل تھے، پر ایک بار پھر اتمام حجت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
اے آل ابو سفیان کے پیروکارو نہ تمارے پاس دین ہے اور نہ تم آخرت پر ایمان رکھتے ہو کم از کم دنیا میں تو مردانگی کا مظاہرہ کرو۔
امام حسین کا کربلا میں یہ فرمان تاقیامت مینارہ نور ہے کہ جو بھی محمد و آل محمد اور امام حسین کے مقابلے میں یزید لعین کا ساتھ دے گا یا پیروی کرے گا،
اسی طرح محرم کے دوران جلوسوں اور باطل و یزیدیوں کے خلاف برسر پیکار رہنے کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؑ
کہ فکر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک سجدہ شبیریؑ ایک ضرب ید الہی ؑ
https://valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1772

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button