خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:273)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 25 اکتوبر 2024ء بمطابق 21 ربیع الثانی 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: حیاء
حیاءلغت میں شرم وندامت کے مفہوم میں ہے اور اس کی ضد یعنی اس کا الٹ ”وقاحت” اور بے حیائی ہے۔
علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیاء ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ کبھی خوفِ خدا ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگوں میں لوگوں کی طرف سے ملامت کا خوف ہوتا ہے۔
حیاء؛ انسان میں ایک ایسی نفسیاتی حالت کا نام ہے جو برے اعمال کے ارتکاب سے انسان کو روکتی ہے۔
آیات و روایات میں ”حیاء ” کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حیاء کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔
حیاء قرآن کی روشنی میں:
قرآن مجید میں شرم و حیاء کے حوالے سے چند مثالیں موجود ہیں:
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتۡ لَهُمَا سَوۡءَٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخۡصِفَانِ عَلَيۡهِمَا مِن وَرَقِ الۡجَنَّةِ (الاعراف:22)
جب انہوں نے درخت کو چکھ لیا تو شرم کے مقامات ان کے لیے نمایاں ہوگئے اوروہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑنے لگے۔
پس آدم و حوا کا پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپنا یہ بتاتا ہے کہ شرم و حیا انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔کیونکہ ابھی انہیں ایسے کرنے کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔
سورہ نور میں فرمایا:
قُل لِّلۡمُؤۡمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنۡ أَبۡصَٰرِهِمۡ وَيَحۡفَظُواْ فُرُوجَهُمۡ ذَٰلِكَ أَزۡكَىٰ لَهُمۡ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرُۢ بِمَا يَصۡنَعُونَ
آپ مومن مردوں سے کہہ دیجیے وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے اللہ کو ان کے اعمال کا یقینا خوب علم ہے۔
پس پردہ کا حکم فقط عورت کے لیے نہیں بلکہ مرد کو بھی پردہ کا حکم ہے لیکن مرد کا پردہ اس کی آنکھوں میں رکھا ہے کہ وہ آنکھیں جھکائے رکھے اور نامحرم کی طرف آنکھیں پھاڑ کر نہ دیکھے۔۔۔
وَقُل لِّلۡمُؤۡمِنَٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ أَبۡصَٰرِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَاوَلۡيَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ
اور مومنہ عورتوں سے بھی کہہدیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی جگہوں کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں خود سے ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں۔
مرد و عورت دونوں کو آنکھیں جھکانے کا حکم اسی لیے ہے کیونکہ بری نظر شیطان کا زہریلا تیر ہے جو برائی و فحاشی کا آغاز ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ :
النّظرة سهمٌ من سهام ابلیس مسمومٌ من ترکها للّٰه لا لغیره اعقبه اللّٰه ایماناً یجد طعمه نامحرم پر نگاہ شیطان کا زہر آلود تیر ہے کہ جو بھی خدا کی خوشنودی کیلئے خود کو اس سے محفوظ رکھے گا البتہ کسی اور کی خوشنودی کیلئے نہیں، خدا اسے ایسی ایمان کی نعمت عطا کرے گا کہ اس کی انکھیں اس کی لذت محسوس کریں گی۔( جامع الأخبار ج1 ص145)
حضرت شعیبؑ کی بیٹی کے حیاء کو قرآن نے یوں بیان کیا:
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا (القصص 25)
پھر ان دو لڑکیوں میں سے ایک حیاء کے ساتھ موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی آپ کو میرے والد بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے آپ کو اس کی اجرت ادا کریں۔۔۔
پس یہاں یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ وہ موسیٰ کے پاس آئی بلکہ یہ کہا کہ وہ حیا کے ساتھ آئی جس میں اس بات کی تاکید ہے کہ عورت کی چال میں اور بات کرنے میں بھی حیا ہونے چاہیے جیسے حضرت شعیب کی بیٹی حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور حیا کے ساتھ فقط ضروری بات کی۔
ایک اور مقام پہ حیاء کے متعلق فرمایا:
وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ (الاحزاب:53)
اللہ تعالیٰ حق بات کرنے سے شرم و حیا نہیں کرتا۔
حیاء کی برکت
رسول اسلام نے حیا کی اہمیت کے سلسلہ میں فرمایا :” اَلحَیاءُ زینَهُ الاسلامِ؛ حیا اسلام کی زینت ہے”
نیز حضرت نے ایک دوسری حدیث میں یوں ارشاد فرمایا:” إنَّ اللّٰه یُحِبُّ الحَیِىَّ الحَلیمَ العَفیفَ المُتَعفِّفَ؛ خداوند متعال با حیا، عفیف اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے۔”
امام علی علیہ السلام:
"الایمان شجرة، اصلها الیقین فرعها التقی و نورها الحیاء و ثمرها السخاء."(غررالحکم، ح 1786)
ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑ، یقین ہے اس کی شاخیں تقوا ہے اور اس کا نور، حیاء ہے اور اس کا پھل، سخاوت ہے۔
امام علی علیہ السلام نے حیا کے سلسلہ میں فرمایا: ” اَلحَیاءُ مِفتاحُ کُلِّ الخَیرِ؛ حیا تمام اچھائیوں کی چابی ہے۔
اور امام کاظم علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا:
اَلحَیاءُ مِنَ الایمانِ وَ الایمانُ فِى الجَنَّهِ و َالبَذاءُ مِنَ الجَفاءِ وَ الجَفاءُ فِى النّارِ؛
حیا ایمان کا حصہ اور ایمان جنت کا حصہ ہے ، بد زبانی بے توجہی اور برے برتاو کا نتیجہ اور برا برتاو جہنم کا حصہ ہے۔
پاکدامن رہنے کا طریقہ:
امام جعفر صادق علیہ السلام :عفّوا عَن نِساءِ النّاسِ تَعُفَّ نِسائُکُم
دوسروں کی خواتین کے لئے پاکدامن رہو تاکہ دوسرے بھی تمہاری خواتین کے لئے پاکدامن رہیں۔(کافی، ج5، ص554)
مَا اَلْمُجَاهِدُ اَلشَّهِیدُ فِی سَبِیلِ اَللّٰهِ بِأَعْظَمَ أَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ
(نہج البلاغہ، حکمت نمبر 474)
جو شخص گناہ کو انجام دینے پر طاقت رکھتے ہوئے بھی پاکدامنی اختیار کرے، اس کا اجر، شہید سے کم نہیں ہے۔
کس سے حیاء کریں:
روایات میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو کس سے حیاء کرنی چاہیے۔
1۔ اللہ تعالیٰ سے حیاء کرنا:
امام موسیٰ کاظمؑ فرماتے ہیں: اسْتَحيوا مِن اللّٰهِ في سَرائرِكُم كما تَسْتَحيون مِن النّاس في علانِيَتِكُم
تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے حیاء کیا کرو جس طرح باہر لوگوں کے سامنے حیاء کرتے ہو۔
2۔ فرشتوں سے حیاء کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: لِيَستحي أحَدُكُم مِن مَلَكَيه اللَّذَين معَهُ، كما يَستَحي من رجُلَين صالحَين من جِيرانه، وهما معه باللّيل والنَهار
تم میں سے ہر کوئی اپنے ساتھ موجود ان دو فرشتوں سے ایسے حیا کرے جیسے اپنے ساتھ موجود دو نیک بندوں سے حیا کرتا ہے کیونکہ یہ فرشتے دن رات ہر وقت تمہارے ساتھ موجود ہیں۔
3۔ اپنے آپ سے حیاء کرنا:
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: غاية الحياء أن يستحيي المرء من نفسه
حیا کی انتہاء یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے بھی حیا کرے۔
وہ مقامات جہاں شرم و حیا قابل مذمت ہے:
بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شرم و حیا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان میں سے تین مقامات مولا علیؑ نے اس قول میں بیان فر مائے ہیں:
ثلاثٌ لا يُسْتَحيى منهُنَّ: خِدمَةُ الرَّجلِ ضَيفَهُ، وقيامُهُ عن مَجْلسِهِ لأبيه ومعلّمِهِ، وطّلَبُ الحقّ وإنْ قَلَّ
تین عمل ہیں جن میں کوئی شرم و حیا نہیں کرنی چاہیے: مہمان کی خدمت کرنا، والد یا استاد کے لیے اپنی جگہ سے کھڑے ہو جانا، اپنا حق مانگنا چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح نہج البلاغہ حکمت 82 میں فرمایا:
وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ
اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہیں جانتا ہو تو یہ کہنے میں شرم نہ کرے کہ "میں نہیں جانتا”
وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ
اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اسے سیکھنے میں بھی شرم نہ کرے۔
حیاء کی وسعت:
حیا” ایسی وسیع صفت ہے جو کسی خاص حد میں محدود نہیں ہے۔
وضاحت یہ ہے کہ بعض صفات خاص حد میں محدود ہوتی ہیں، مثلاً عفت(پاکدامنی)، شہوت سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ روایات میں شہوت کے معنی عام ہیں کہ جو انسان کی ہر خواہش کو کہا جاتا ہے جس کی ایک قسم، جنسی خواہش ہے اور دوسری قسم کھانے کی خواہش ہے، اسی لیے عفّت سے متعلق روایات میں پیٹ اور شرمگاہ کی عفّت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔
بنابریں عفت شہوت کی حد تک ہے، البتہ شہوت کے حدود میں دیگر عام روکنے والے اسباب بھی پائے جاتے ہیں، لیکن عفت صرف شہوت کی حد تک ہے اور مثلاًغضب سے متعلق نہیں ہے۔ شہوت پر قابو پالینے سے ایسی حالت پیدا ہوتی ہے جسے عفت کہا جاتا ہے۔
کظم غیظ (غصہ کو پی جانا) بھی ایسی صفت ہے جو صرف غضب سے متعلق ہے اور کسی دوسرے موقع سے مثلاً شہوت سے اس کا تعلق نہیں ہے۔
لیکن "حیا” ایسی صفت ہے جس کا سب میدانوں میں کردار ہے، چاہے فرمانبرداری ہو یا نافرمانی، غضب ہو یا شہوت، کسی چیز سے روک تھام ہو یا ترغیب دلانا۔
مثال کے طور پر جب انسان کو کسی آدمی پر غصہ آتا ہے اور وہ اپنے غصہ کو پی جاتا ہے، جب کسی نامحرم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی نظریں جھکا کر گزر جاتا ہے، نماز کو فضیلت کے وقت پر ادا کرتا ہے اور کسی واجب روزے کو کسی شرعی عذر کے بغیر نہ چھوڑتا ہے اور نہ توڑتا ہے تو ان سب موقعوں پر اس نے اللہ تعالیٰ سے "حیا” کیا ہے۔
نازیبا عمل کا معیار اور حیاء
سوال یہ ہے کہ کسی عمل کے نازیبا ہونے یا اچھے ہونے کا معیار کیا ہے؟ اور کیا یہ شرعی مسئلہ ہے یا عرفی (عرفی یعنی جو عرف عام اور معاشرے کی ثقافت ہو)؟ کیا نازیبا عمل وہ ہے جسے شریعت نازیبا کہے یا معاشرے کا نظریہ بھی اس پر اثرانداز ہے؟
جواب یہ ہے کہ جو عمل شرعی لحاظ سے نازیبا ہو وہ بھی قابلِ شرم ہے اور جو عمل عرفی طور پر اور معاشرے کی نظر میں نازیبا ہو وہ بھی لائق شرم ہے۔
شرعی لحاظ کے لئے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی یہ حدیث ہے: "إنَّ المُؤمِنَ يَستَحيي إذا مَضى لَهُ عَمَلٌ في غَيرِ ما عُقِدَ عَلَيهِ إيمانُهُ"، "یقیناً مومن حیا کرتا ہے جب اس کے ایمان کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو”۔ [غررالحكم، ح 3463]
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی حدیث میں دونوں لحاظ (شرعی اور عرفی) کا تذکرہ ہوا ہے۔ آپؑ نے چار چیزوں کو مسلمان ہونے کے کمال کا باعث بتایا ہے: اللہ کے عہد کو پورا کرنا، سچائی، حیا اور خوش مزاجی اور حیا کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں: "وَالحَياءُ مِمّا يَقبُحُ عِندَ اللّٰه ِ وعِندَ النّاسِ"، "اور حیا اس چیز سے جو اللہ کی بارگاہ میں اور لوگوں کی نظر میں قبیح (نازیبا) ہے”۔ [الأمالى، مفيد، ص 167]
بنابریں نازیبا عمل کو دو ذرائع سے پہچانا جاسکتا ہے: شریعت کے ذریعے اور معاشرے کی ثقافت کے ذریعے۔ لیکن واضح رہے کہ ثقافتی اچھا عمل اور نازیبا عمل کو شریعت کے خلاف نہیں ہونا چاہیے اور معاشرے کی ثقافت کے بہانے سے شریعت کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتا، ایسے موقع پر ثقافت کی اصلاح کرتے ہوئے اسے شریعت کے مطابق اپنانا چاہیے۔
حیاء نیکی کا سبب بھی، برائی سے رکاوٹ بھی:
سوال یہ ہے کہ کیا "حیا” برائی کے ارتکاب سے منع کرتی ہے یا نیک کاموں کی طرف بھی ترغیب دلاتی ہے؟ اگر کوئی شخص واجبات کو بجالانے میں کوتاہی کرتا ہے، مثلاً نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا تو کیا اسے واجبات کی ترغیب دلانے کے لئے "حیا” کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا "حیا” کی حدیں فرمانبرداری کو بھی شامل ہوتی ہیں یا صرف گناہ سے مختص ہیں؟
جب اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کا اس سوال کے پیش نظر مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حیا، روکنے کا بھی سبب ہے اور ترغیب دلانے کا بھی۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الحَياءُ يَصُدُّ عَن فِعلِ القَبيحِ"، "حیا برے کام سے روکتی ہے”۔ [غررالحكم، ح 1393]۔
نیز آپؑ فرماتے ہیں: "الحَياءُ سَبَبٌ إلى كُلِّ جَميلٍ"، "حیا، ہر خوبصورتی کا سبب ہے”۔ [تحف العقول ، ص 84]
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "لَولاهُ لَم يُقرَ ضَيفٌ ولَم يوفَ بِالعِداتِ ولَم تُقضَ الحَوائِجُ"، "اگر وہ (حیا) نہ ہو تو کسی مہمان کا احترام نہ کیا جاتا، اور وعدوں کو پورا نہ کیا جاتا، اور (لوگوں کی) ضروریات پوری نہ کی جاتیں”۔ [بحارالأنوار، ج 3، ص 81]
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الحَياءُ مِفتاحُ كُلِّ الخَيرِ"، "حیا ہر بھلائی کی کنجی ہے”۔ [غرر الحكم : ح 340]
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭