خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:235)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک19جنوری 2024ء بمطابق 07رجب المرجب1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فضائل ماہ رجب/سیرت امام محمد تقی علیہ السلام
ماہ رجب کی بے شمار عظمت و فضیلت کا ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بڑی تعداد میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اس مہینے کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول خدا ارشاد فرماتے ہیں:
إنَّ اللّهَ تَعالى نَصَبَ فِي السَّماءِ السّابِعَةِ مَلَكا يُقالُ لَهُ : الدّاعي ، فَإِذا دَخَلَ شَهرُ رَجَبٍ يُنادي ذلِكَ المَلَكُ كُلَّ لَيلَةٍ مِنهُ إلَى الصَّباحِ : طوبى لِلذّاكِرينَ! طوبى لِلطّائِعينَ!
ويَقولُ اللّٰهُ تَعالٰى:…۔۔..
اللہ تعالی نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ کو مقرر کر کے رکھا ہے اسے "داعی” کہا جاتا ہے اور جب رجب کا مہینہ آتا ہے وہ فرشتہ رجب کے تمام راتوں میں یہ ندا دیتا رہتا ہے ” کتنے خوش نصیب ہیں اس ماہ میں ذکر خدا کرنے والے؛ کتنے خوش نصیب ہیں اطاعت کرنے والے”اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اس کا ہمنشین ہوں جو اس ماہ میں میرا ہم نشین ہوتا ہے،اس شخص کو بخش دیتا ہوں جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے،اسے جواب دیتا ہوں جو مجھے پکارتا ہے،اسے عطا کرتا ہوں جو مجھ سے مانگتا ہے،اور اسے ہدایت کرتا ہوں جو مجھ سے ہدایت طلب کرتا ہےاور اس مہینے کو میں نے اپنے اور بندوں کے درمیاں ایک رسی قرار دیا ہے جو بھی اس رسی کے ساتھ تمسک کرے اور اسے تھام لے وہ مجھ تک پہنچے گا۔(الإقبال : ج ۲ ص ۲۲۸)
ماہ رجب ماہ استغفار
چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: رجب شهر الاستغفار لاُمَّتي، فأكثروا فيه الاستغفار فإنه غفور رحيم ويسمى رجب الاصبّ لانّ الرحمة على أُمّتي تصبُّ فيه صَبّا ، فاستكثروا من قول "أَسْتَغْفِرُ الله وَأَسْأَلُهُ التَّوْبَةَ۔ (زاد المعاد، ص 5)
یعنی ماہ رجب میری امت کیلئے استغفار کا مہینہ ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ استغفار کرو، خدا سے بخشش طلب کرو کہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے نیز رجب کو "اصبّ” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری امت پر کثرت سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔
دعا، وظائف اور اعمال کی کتابوں میں بھی اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ اس ذکر کو کہنے کی تاکید ہے: اَسْتَغْفِرُ الله وَ اَسْئَلُه التَّوْبَةَ۔ یعنی میں خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس سے توبہ کی توفیق مانگتا ہوں۔
ماہ رجب کے روزے کی فضیلت
ثوبان نامی شخص رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن آنحضرت (ص) کے ساتھ قبرستان میں تھا کہ حضرت چلتے چلتے رک گئے پھر کچھ قدم چلے اور رک گئے، عرض کیا یا رسول اللہ (ص) آپ کے اس عمل کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت (ص) زور سے زور سے رونے لگے اور فرمایا میں اہل عذاب کے رونے کی آوازیں سن رہا ہوں، ان پر رحم کی دعا کی تو خداوند متعال نے ان کےعذاب میں کمی کردی، اے ثوبان ! اس قبرستان میں عذاب الھی کے شکار مُردوں نے اگر ماہ رجب میں فقط ایک روزہ رکھا ہوتا اور ایک شب صبح تک عبادت میں گزاری ہوتی تو آج قبر میں عذاب نہ ہو رہا ہوتا ۔ (بحارالانوار، ج97، ص 26)
یہ تمام فضائل و کمالات اس ماہ یعنی رجب میں روزہ رکھنے والوں کیلئے ہیں لیکن اگر کوئی روزہ رکھنے سے عاجز ہو تو روایتوں میں اس تسبیح کو پڑھنے کی تاکید ہے: "سُبْحانَ الْاِلٰہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إِلاَّ لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ أَھْلٌ ؛ پاک ہے وہ معبود اور بڑی شان والا ہے، پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں، پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے، پاک ہے وہ جو لباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔” اگر کوئی ہر دن سو مرتبہ اس تسبیح کو پڑھے تو اسے اس ماہ میں روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔(ترجمہ ثواب الاعمال، ص 136)
ابوسعید خُدری نے مرسل اعظم کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر کوئی ان اعمال کو انجام نہ دے سکے تو کیا کرے تو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی ماہ رجب میں روزہ نہ رکھ سکے تو وہ صدقہ دے دے کہ خداوند متعال قیامت میں اسے اس قدر ثواب عنایت کرے گا کہ جسے نہ آنکھوں نے دیکھا ہوگا اور کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی ذھن نے تصور کیا ہوگا ۔ (امالی صدوق، ص 542)
ماہ رجب کی اہم مناسبات
اس مہینے میں واقع ہونے والے واقیعات میں سب سے اہم واقعہ پیغمبر اسلام ﷺکی بعثت ہے جو اس مہینے کی ستائسویں تاریخ کو پیش آیا۔ اس کے علاوہ امام باقر علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے ساتھ ساتھ امام ہادی علیہ السلام اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت بھی اس مہنیے کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
امام محمدتقی علیہ السلام کی بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ ولادت باسعادت ہوئی۔
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں: چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کی کوئی اولاد آپؑ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں، یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کہ اولادکا ہونا خدا کی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسند امامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ اس کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔
(مناقب آل ابیطالب، ج 4، ص 379)
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؑ سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر ﷺکے جانشین ہونے کا لائق بن جائے؟ اور کیا اس سے پہلے کی امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے مسلمان مشکل کا شکار ہوچکے تھےلیکن اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں:
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ( سورہ مریم آیہ ۱۲)
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں کلام کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲ )
پس منصب امامت و رہبری کے لیے چھوٹا بڑا ہونا معیار نہیں بلکہ اہلیت معیار ہے۔
یحییٰ ابن اکثم سے امام علیہ السلا م کا مناظرہ:
جس وقت عباسیوں نے مامون عباسی پر اپنی بیٹی کی شادی، امام محمدتقی علیہ السلا م سے کرنے کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ نوجوان ہیں اور علم و دانش سے بہرہ مند نہیں ہیں جس کی وجہ سے مامون نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خود ان کا امتحان لے لو۔
عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے یحییٰ بن اکثم کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد علیہ السلا م کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔
مامون نے کہا : خود ان سے اجازت لو ۔
یحییٰ نے امام محمدتقی علیہ السلا م سے اجازت لی۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا: یحیی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔
یحیی نے کہا: یہ فرمایئے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔
امام محمدتقی علیہ السلا م نے اس کے جواب میں فرمایا: اے یحیی! تمہارا سوال بالکل مہمل ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاہل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طورپر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا۔
امام محمدتقی علیہ السلا م نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحییٰ بن اکثم حیران وششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اورشکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے تھے امام علیہ السلا م کےسامنےاس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اورگنگ ہوگئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاہدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔
مناظرےکےختم ہونے کے بعد جب سبھی لوگ چلے گئے اور مجلس میں صرف خلیفہ کے قریبی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام محمدتقی علیہ السلا م کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔
امام محمدتقی علیہ السلا م نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرتؑ نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اوراگر ہرن ہے تواس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکارحل میں کیا ہو۔ لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہےتو یہی کفارے دگنے ہو جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو "منیٰ ” میں قربانی کرے گا،اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو "مکہ” میں اس کی قربانی کرے گا اور شکارکے کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں(کفارہ کے واجب ہونے کے علاوہ)گنہگاربھی ہے،لیکن بھولے سے شکارکرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوربالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جوشخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔
مامون نے کہا:احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیی بن اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ علیہ السلا م سے سوال کیا ہے۔ امام علیہ السلا م نے یحیی سے کہا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کہا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہوجاؤں،اگر مجھ سے ہوسکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔
امام محمد تقی علیہ السلا م نے سوال کیا:
اس شخص کےبارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہوگئی،عصرکے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔
امام علیہ السلا م کےسوال کو قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم سن کر مبہوت ہوکر کہنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی نہیں معلوم ہے، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔
امام علیہ السلا م نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لیا، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے "ظہار” کیا۔ جس کی وجہ سے پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت ظہار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بناپر پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہوگئی۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی چند احادیث کی تشریح:
امام محمد تقی(علیہ السلام) سے روایت ہے: مَوْتُ‏ الْإِنْسَانِ‏ بِالذُّنُوبِ‏ أَكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالْأَجَلِ وَ حَيَاتُهُ بِالْبِرِّ أَكْثَرُ مِنْ حَيَاتِهِ بِالْعُمُرِ ؛ گناہوں کی وجہ سے لوگوں کی موت زیادہ واقع ہوتی ہے انکی طبعی موت سے اور نیکی کی وجہ سے لوگ زیادہ زندہ رہتے ہیں انکی اپنی عمر کی زندگی سے۔ (بحار الانور، ج:۷۵، ص:۸۳ )
تشریح:گناہوں کی وجہ سے جو لوگ اس دنیا کو خیرآباد کہتے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے ، یہ لوگ خود اپنی قبر اپنے گناہوں کی وجہ سے کھود لیتے ہیں اور زیادہ گناہوں کی وجہ سے اس دنیا کو خیرآباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، حالانکہ اگر وہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بجائےاس کی اطاعت کریں تو انہیں اس وقت تک موت نہیں آئیگی جب تک انکی حتمی موت لکھی ہوئی ہے: أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْ‌كُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى(سورۂ نوح، آیت:۳ اور ۴) اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو۔ اس آیت سے یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ تین چیزوں کی وجہ انسان کی ناگھانی موت واقع نہیں ہوتی ایک اللہ پر ایمان، دوسری تقوی اور تیسری اللہ کے رسول کی اطاعت۔

علم کی اہمیت کے بارے امام محمد تقی(علیہ لاسلام) ارشاد فرماتے ہیں: عَلَيْكُمْ بِطَلَبِ الْعِلْمِ فَإِنَّ طَلَبَهُ فَرِيضَةٌ وَ الْبَحْثَ عَنْهُ نَافِلَةٌ وَ هُوَ صِلَةٌ بَيْنَ الْإِخْوَانِ وَ دَلِيلٌ عَلَى الْمُرُوَّةِ وَ تُحْفَةٌ فِي الْمَجَالِسِ وَ صَاحِبٌ فِي السَّفَرِ وَ أُنْسٌ فِي الْغُرْبۃ؛ علم حاصل کرو! تم لوگوں کے لئے علم حاصل کرنا ضروری ہے، علم کا مباحثہ کرنا مستحب ہے، علم لوگوں میں بھائی چارہ کو بڑھاتا ہے(آپس میں ملاتا ہے)، اور مروت کے لئے دلیل ہے، مجلسوں کے لئے مناسب تحفہ ہے سفر کے لئے مصاحب ہے، تنھائی میں مونس ہے. (بحارالانوار، ج:۷، ص:۸۰)
امام محمد تقی علیہ السلام اس حدیث میں علم کے دو فائدوں کی جانب اشارہ فرمارہے ہیں: ایک تو علم کا فائدہ خود علم حاصل کرنے والے کو پہونچتا ہے اور دوسرا فائدہ اس کے اطراف والوں کو اس کے علم کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لئے علم کا حاصل کرنا ہر کسی پر واجب قرار دیا گیا ہے۔
لوگوں کو اپنے قریب کرنے کا طریقہ:
مہربانی اور محبت ایسی خصوصیتیں ہیں جن کو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے، خدا جو خود اپنے بندوں پر رحمٰن اور رحیم ہے اس نے اپنے بندوں کو بھی اس صفت کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور یہ وہی خدا ہے جس نے یہ فرمایا کہ میرا رحم میرے غضب پر غالب ہے، دنیا کی خلقت اسی محبت پر کی گئی ہے۔
اس بات کی جانب امام محمد تقی علیہ السلام اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کی محبت کو جلب کرنے کے لئے تین راستے بتارہے ہیں: ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الاْنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الاْنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ؛ تین چیزوں کی وجہ سے لوگوں کی محبت کو جلب کیا جاتاہے، معاشرے میں انصاف، مشکلات میں ہمدردی، اور معنویات کو اپنانا سچے دل کے ساتھ.(بحار الانور، ج:۷۵، ص:۸۲)
مومن کے لیے ضروری چیزیں:
امام محمد تقی علیہ السلام کا ایک ارشاد یہ ہے:المؤمنُ يَحتاجُ إلى تَوفيقٍ مِن اللّه، و واعِظٍ مِن نَفسِهِ، و قَبولٍ مِمَّن يَنصَحُهُ؛ مومن کو اللہ کی طرف سے توفیق، اندرونی نصیحت کرنے والا اور نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔(تحف العقول، ص 457)
اللہ کی طرف سے توفیق: توفیق تب حاصل ہوتی ہے جب مقصد تک پہنچنے کے تمام اسباب فراہم ہوں۔ توفیق عطا کرنے والا اللہ تعالی ہے اور انبیاء الہی کا بھی اس قول وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللّٰـهِ "میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے” کی بنیاد پر یہ عقیدہ تھا کہ لوگوں کی ہدایت کے اسباب کا فراہم ہونا اللہ کی جانب سے ہے، یہ توحیدی سوچ باعث بنتی ہے کہ آدمی اپنی توانائیوں کا سہارا لینے سے بڑھ کر اللہ کی توفیق کا سہارا لے، کیونکہ اس کی توانائیاں اور دیگر توفیقات بھی اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں، حتی یہی موجودہ توانائیاں بھی اللہ کی عطا کردہ طاقتیں ہیں جنہیں جب چاہے واپس لے سکتا ہے اور اگر چاہے تو ان میں اضافہ کرتا ہوا کسی مقصد تک انسان کو پہنچانے کے لئے توفیقات کو مکمل کرسکتا ہے۔

اندرونی نصیحت کرنے والا:  اندرونی نصیحت کرنے والامومن کی دوسری ضرورت ہے۔ عقل اور ضمیر ایک باطنی اور اندرونی چراغ ہے جو انسان کو خوبیاں دکھاتا ہے اور اگر آدمی نے اس کی مخالفت کی اور عقل کو استعمال نہ کیا تو ضمیر اس کی مذمت کرتا ہے۔ جو آدمی اپنے اندرونی نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول نہیں کرتا وہ عام طور پر دوسرے لوگوں کی نصیحت کو بھی قبول نہیں کرتا، فطرت کی بیداری اور ضمیر کا جاگ جانا باعث بنتا ہے کہ آدمی گناہ کے ارتکاب سے رک جائے اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے نیکیوں کی طرف بڑھتا چلا جائے۔
نصیحت کو قبول کرنا: نصیحت کو قبول کرنا، مومن کی تیسری ضرورت ہے جو حضرت امام جواد (علیہ السلام) کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ تواضع اور انکساری اس بات میں ہے کہ اگر ہمیں خیرخواہی اور ہمدردی کرتے ہوئے کوئی شخص تنقید اور نصیحت کرے تو ہم کھلے دل سے اس کی بات کو قبول کریں اور اس کی نصیحت کا اثر لینا عقلمندی ہے۔
مادی، دنیاوی اور ظاہری امور میں عموماً لوگ چونکہ فائدہ اور نقصان کو سمجھ رہے ہوتے ہیں تو اگر انہیں کسی نقصان یا فائدہ کے بارے میں متوجہ کردیا جائے تو فوراً اسے قبول کرلیتے ہیں بلکہ جس نے ان کو اس بارے میں نصیحت کی اس کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ جس بات کی طرف انہیں متوجہ کیا گیا ہے اس کے فائدہ اور نقصان کا بخوبی ادراک کررہے ہوتے ہیں لیکن معنوی اور اخلاقی مسائل میں چونکہ ہوسکتا ہے اکثر فائدے اور نقصانات دیکھنے میں نہیں آتے، بلکہ ان کو ایمان اور عقل کے ذریعے سمجھنا پڑتا ہے تو اکثر لوگ دیکھی جانے والی چیزوں کو مانتے ہیں، لیکن جو شخص ایماندار ہے وہ اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، جو چیزیں آنکھوں سے دیکھے جانے سے ماوراء ہیں، ان کو دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، ان پر غور کرتا ہے اور اپنے فائدے اور نقصان کا عقل سے ادراک کرتا ہے، اسی لیے ایک روایت کے مطابق آدمی کا بہترین دوست وہی ہے جو اسے اس کے عیب بتائے۔ واضح ہے کہ عیب کا خاتمہ تب ہوگا جب آدمی اپنے عیب سے واقف ہوگا اور چونکہ اپنی سب غلطیوں سے خود آدمی واقف نہیں ہوسکتا، لہذا جب کوئی شخص اسے اس کے عیب سے آگاہ کردے گا تو وہ اس عیب کو اپنے وجود سے ختم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گا، جس نے اسے اس کا عیب بتایا ہے، اس کا شکریہ بھی ادا کرے گا کیونکہ عیب کو ختم کرنے میں اس کا اپنا فائدہ ہے، لہذا مومن نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول کرنے کا محتاج ہے۔پس ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالی سے توفیق طلب کریں کہ وہ ہمارے اندرونی چراغ کو روشن رکھے تا کہ ہم اپنے ضمیر کی نصیحت کو بھی قبول کرسکیں اور لوگوں کی نصیحتوں کو بھی سن کر اپنے کردار میں تبدیلی اور بہتری لاسکیں، تب اخلاقی کمالات سے اپنے وجود کو منور کرسکتے ہیں۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button