سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

” عائلی نظام زندگی کے رھنما اصول سیرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی روشنی میں”

صابر حسین سراج (متعلم جامعہ الکوثر)
استاد رہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری
(یہ مقالہ جامعہ الکوثر کے شعبہ ” تفسیر و علوم قرآن ” کے زیر اہتمام ” علوم قرآن (رسائل اول)” کے نصاب کی تکمیل کے لئے لکھا گیا ہے۔سال تحصیلی، 2018)
مقدمہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی بسر کرنے کیلے سماجی تعلقات کا محتاج ہوتا ہےانسان جہاں اپنے وجود، پرورش، تعلیم ، صحت غرضیکہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم بقدم دم مرگ تک جہاں اپنے خالق کائنات کی خاص عنایتوں کا مرہون منت ہوتا ہے وہاں ایک دوسرے کیساتھ سماجی تفاعل کے بغیر بھی اس کا زندگی کے معاملات کا چلنا ناممکن ہے۔ انسان بطور سماجی رکن اپنی پیدائش کے فورا بعد جس سماجی ادارے کا محتاج ہوتا ہے وہ ادارہ” خاندان” کہلاتا ہے ۔یہی وہ سماجی ادارہ ہے جو انسان کی جسمانی، روحی، اخلاقی اور فکری پرورش کی بنیاد رکھتا ہے اس ادارے میں رہن سہن کے طور طریقوں کو عائلی نظام زندگی کہا جاتا ہے ۔ عائلی زندگی ہی انسانی شخصیت کی پہلی اینٹ رکھتی ہے اور اسکی تعمیر سازی کا آغاز کرتی ہے ۔عائلی زندگی کی بنیادی اکائی کی حیثیت میاں بیوی کو حاصل ہے،انہی کے ازدواجی تعلقات سے اس زندگی کی ابتداء ہوتی ہے لہذا جس طرح زندگی کے دیگر معاملات میں انسان رہنمائی اور اسوہ کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح اس زندگی کے اہم اور بنیادی معاملے میں بھی آئیڈیل رہنما اوراس کی رہنمائی انسان کیلے ناگزیز ہے یہی وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام نے عائلی زندگی کو اہمیت دینے کیساتھ ساتھ اسکے طور طریقے اور اراکین کی ذمہ داریوں اور حقوق سے روشناس کیا ہے۔ دوسری جانب ان اسلامی تعلیمات کی عملی تفسیر کا محور و مرکز محمد ؐو آل محمد علیھم السلام کا گھرانہ قرار پایا ہے ۔ اس گھرانے نے بنی نوع بشر کو دیگر تمام معاملات کی طرح عائلی نظام زندگی کا بھی وہ نمونہ پیش کیاہے جس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔پس، جہاں ایک مرد کیلے باپ، شوہر ، بھائی اور بیٹا ہونے کے لحاظ سےذمہ داریوں اور حقوق کا بہترین عملی نمونہ اہلیبیت علیھم السلام کے گھرانے سے ملتا ہے وہاں ایک خاتون کیلے ماں، بیوی، بہن اور بیٹی ہونے کے ناطے بہترین عملی سیرت اسی دہلیز پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ خاندان عصمت وطہارت کا محور و مرکز سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا ذات گرامی ہیں جن کو حضور اکرمؐ نے عالمین کے لئے خواتین کا سردار و سرتاج کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ چنانچہ جناب سیدہ کونین سلام اللہ علیہا نے اپنی مختصرمگر بابرکت وباشرف زندگی میں بیٹی، زوجہ اور ماں ہونے کی حیثیت سے کائنات کی تمام خواتین کیلے بہترین اور مناسب ترین نمونہ عمل پیش کیاہے تو ان کی دختر جناب ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے بہن ہونے کے اعتبار سے بھی عملی سیرت پیش کر کے کائنات کی خواتین کی ہر جھت سے رہنمائی کی ہیں۔ اسی با ت کے پیش نظر اس مختصر مقالے میں ہم نے جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی سیرت طیبہ کی روشنی میں نمونہ کے طور پر عائلی زندگی کے چند اصولوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ آج کل کے اس پرآشوب دور میں نت نئے خاندانی مسائل کا حل آپ (س) کی سیرت طیبہ میں تلاش کرسکیں اور جناب سیدہ طاہرہ (س) کی بابرکت اور آئیڈئل زندگی کی ایک جھلک دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
اسلام کی نگا ہ میں عائلی نظام زندگی کی اہمیت:
دین کامل اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر امور کی طرف رہنمائی کی ہے وہاں عائلی نظام زندگی کے بارے میں بھی ایک جامع نظام دیا ہے.اسلام نے عائلی زندگی میں ہر ارکان کے حقوق اور ذمہ داریاں اس طرح سے واضح کر کے بیان کیا ہے کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو ایک پرسکون اور خوشگوار خاندان تشکیل پا سکتا ہے اور ایسا نظام ہی معاشرے کو قیمتی گوہر دے سکتا ہے۔ اس دین مقدس نے عائلی نظام زندگی میں شادی سے پہلے اور بعد کے مراحل سے لیکر میاں بیوی کے حقوق، اولاد کے حقوق، والدین کے حقوق حتی کہ ہمسائے کے بھی حقوق اس طرح فرزند آدم کے سامنے پیش کیا ہے کہ ان پر عمل ایک پر امن و پر سکون معاشرے کی ضمانت دیتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ عائلی نظام زندگی کے دو اہم پہیےمیاں اور بیوی ہیں اس نظام کو کامیاب بنانے یا بگاڑنے میں اصل کردار میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے اسوجہ سے خداوند متعال نے فطرتا مرد اور عورت کی تخلیق ہی کچھ اس طرح سے کی ہے جس طرح ایک خاندانی نظام زندگی کی ضرورت ہے. علامہ عبد الحمید المہاجر اپنی کتاب ” اعلموا انی فاطمہ” میں اسی فطرتی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ” ایک خاندانی نظام زندگی کی تعمیر و تنظیم کیلے جہاں محبت و شفقت اور عطوفت کی ضرورت ہے وہاں مضبوط ارادوں اور دقیق فیصلوں کی بھی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ خداوند متعال نے عورت کی فطرت میں حساسیت اور شفقت و عطوفت کا پہلو مرد کی بنسبت زیادہ رکھا ہے تو مرد میں سخت ترین حالات میں بھی جذبات پر کنٹرول کر کے دقیق فیصلے کرنے کی طاقت عورت کی بنسبت زیادہ رکھ دی ہے”۔( عبد الحمید المہاجر ، اعلموا انی فاطمہ، ج ۶، ص،۱۲۴)
اس بات کی طرف قرآن مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے، ارشاد پروردگار ہے؛
“الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم، فالصالحات قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ.( النساء ،آیت ۳۴)
ترجمہ: "مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اسلئے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں اللہ نے جن چیزوں)مال و آبرو( کا تحفظ چاہا ہے،)خاوندکی( غیر حاضری میں انکی محافظت کرتی ہیں۔۔”
اس آیت میں عائلی نظام زندگی کے ایک اہم بنیاد ی اصول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ شیخ محسن علی نجفی حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
"مرد عورتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں یعنی عائلی نظام میں مرد کو قیَم اور ستون کی حیثیت حاصل ہے چونکہ مردوں کو عقل وتدبر اور زندگی کی مشکلات کا تحمل اور مقابلہ کرنے میں عورتوں پر برتری حاصل ہے اور عورتوں کو جذباتیت اور مہر وشفقت میں مردوں پر برتری حاصل ہے یہاں سے ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی منقسم ہو جاتی ہیں، اسلام کے عائلی نظام میں مرد کو برتری حاصل ہے اس سے عورت کا استقلال و اختیار سلب نہیں ہوتا اپنے اپنے مقام پر مرد وزن کی زمہ داریاں ہیں. عورت کو انسانی زندگی سے مربوط داخلی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور مرد کو بیرونی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں یہ بات مردو زن کی جسمانی ساخت و بافت اور نفسیاتی خصوصیات سے بھی عیاں ہے عورت ضعیف النفس،نازک مزاج، حساس ہوتی ہے اور اسکے ہر عمل پر جذبات غالب ہوتے ہیں جبکہ مرد طاقتور، جفاکش اور اسکے ہر عمل پر عقل و فکر حاکم ہوتی ہے.” (شیخ محسن علی نجفی، البلاغ القرآن، ص ۱۱۵ )
اس بات کو واضح کرنے کیلے ایک مثال یوں دی جاسکتی ہے ، اگر کبھی کسی کا بچہ کہیں سے گر جائے اور اسکے کسی عضو سے خون نکلنا شروع ہو جائے تو اسکی ماں، شفقت مادری کی وجہ سے فورا رونا پیٹنا شروع کرے گی اور اسکی حالت بھی متغیر ہو جائے گی جبکہ اسکا باپ فورا بچہ کو اٹھا کر اسکو ابتدائی طبعی امداد دینے کی کوشش کرے گا یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان فطری صفات کی بنیاد پر مرد اور عورت کی ذمہ داریاں بھی الگ الگ تقسیم کر کے بتا دیاہے۔
اسلام میں عائلی زندگی میں خاندان کے ارکان کی فکری و روحانی تربیت کی طرف قران مجید کی ان دو آیات میں بھی اشارہ ہوا ہے.
"وامر اھلک بالصلٰوۃ و اصطبر علیھا”( (طہ ، آیت ۱۳۲)
”اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں۔
"یا ایھا الذین آمنوا قواانفسکم و اہلیکم نارا” (التحریم، آیت ،۶)
"اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش سے بچا لو۔
ان دونوں آیات میں عائلی زندگی میں انسانی شخصیت کی تعمیر سازی کی طرف بہترین انداز میں رہنمائی کی گئی ہے کہ انسان کیلے ضروری ہے کہ اپنے آپ کوتربیت یافتہ بنانے کیساتھ ساتھ اپنے خاندان، بیوی اور بچوں کی بھی تربیت اس انداز میں کرے کہ وہ معاشرے میں ایک بے ضرراور مفید فرد بن کر زندگی گزار سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام نے تربیت اولاد کو والدین کی بنیادی ذمہ داری قرار دی ہے اورنطفہ ٹھہرنے سے لیکر اسکے بالغ و راشد ہونے تک کےایک ایک مرحلہ کی نہ صرف نظریاتی بلکہ خاندان اہلیبیت کے ذریعے عملی رہنمائی کی ہے.
عائلی زندگی سیرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی روشنی میں
ہم جانتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا وہ مقدس ہستی ہیں جنکی عظمت و مرتبت کے سبھی مسلمان قائل ہیں اور انکی عظمت کے قائل کیوں نہ ہوں جن کے بارے میں حضرت ختمی المرتبتؐ یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں :
” فاطمۃ بضعۃ منی،من سرھا فقد سرنی و من ساءھا فقدساءنی، فاطمۃ اعز الناس علی”
” فاطمہ سلام اللہ علیھا میرا ٹکڑا ہے جس نے انہیں خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ، فاطمہ سلام اللہ علیھا میرے لئے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہیں” (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج -۴۳، ص ۳۹ ، باب” مناقبھا و بعض احوالھا)
اسی طرح جن کے بارے کائنات کے افضل ترین مخلوق ، رہبر انسانیت حضور اکرم ﷺ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں:
” ان اللہ لیغضب لغضب فاطمۃ و یرضی لرضاھا”
"بے شک خداوند متعال فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ناراض ہونے سے ناراض اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے” ایسی ہستی کے مقام و رتبہ سے انکار کی گنجائش کسی کو حاصل نہیں۔ (صحیح بخاری، ج ،3، کتاب الفضائل باب مناقب فاطمہ، ص 1374)
یہ مسلم بات ہے کہ انسان کو اپنے امور کو منظم انداز مِیں بجا لانے کیلے رہنما او ر رہنمائی کی ضرورت ہے.لہذا کیسےممکن ہے کہ ذات حکیم انسان کو زندگی جیسی بے بہا نعمت تو عطا کرے لیکن اس زندگی کو گزارنے وسنوارنے کے طور طریقوں کی طرف رہنمائی نہ کرے. یہی وجہ ہے کہ ذات کردگار نے عالم انسانیت میں انبیاء و آئمہ کی صورت مِیں ایسے رہنما ء بھیجے جنہوں نے قول و عمل دونوں کے ذریعے سے بنی نوع ادم کی رہنمائی فرمائی اور بہترین اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصولوں کو بیان بھی فرمائے اور عملا انجام دے کر بھی دکھائے. یہاں تک کہ آخری نبی کے بارے میں تو اعلان ہوا” وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ". ان تمام اہتمام کے باوجود ابھی ایک چیز کی کمی رہ گئی تھی،وہ یہ تھی کہ بے شک رحمۃ للعالمین تمام انسانوں کیلے نمونہ عمل ہیں لیکن عالم نسوانیت کے کچھ ایسے امور بھی تھے جہاں آپ کی ذات گرامی عملی طور پر نمونہ عمل نہیں بن سکتے تھے پس عالم نسوانیت سے مخصوص امور کی بنسبت بھی ایک نمونہ عمل اور ایک سیرت طیبہ کی ضرورت تھی ، اسی ضرورت کو پورا کرنے کیلے خداوند متعال نے نور فاطمہ کو خلق فرمایا اور انہیں عالمین کے خواتین کی سیدہ و سردارقرار دیا. چنانچہ روایت میں ہے کہ ” وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی” کے مصداق ختم المرتبتؐ نے فرمایا:
"و اما بنتی فاطمۃ فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الاخرین وھی بضعۃ منی وھی نور عینی وھی ثمرۃ فوادی وھی روحی”
"میری دختر ارجمند فاطمہ سلام اللہ علیھا عالمین کی اول و آخر تمام خواتین کی سیدہ و سالار ہیں وہ میرے بدن کا حصہ ہیں. میری آنکھوں کا نور ، میرےدل کا میوہ اور میری روح ہیں” ((محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج -۴۳، ص ۳۹ ، باب” مناقبھا و بعض احوالھا)
یہ چیز انتہائی ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل خاندانی، ازدواجی اور مشترکہ زندگی کی تشکیل میں اسلامی تہذیب و تمدن کے اصولوں اور معصوم پیشواؤں (ع) منجملہ حضرت امام علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا(س) کی عملی زندگی اور سیرت کی پیروی کریں؛کیونکہ اس خاندان کی مشترکہ زندگی میں ایسے قیمتی نکات پائے جاتے ہیں جو عائلی زندگی کی تشکیل میں سب کے لیے سبق آموز ہو سکتے ہیں۔
اب ہم نظر دوڑاتے ہیں کہ ختمی المرتبت کے بعد کائنات کی دو افضل ترین ہستیوں کا جوڑا اپنی عائلی نظام زندگی کو کس طرح گزارتے ہیں اور کیسے اسلام کے اصولوں کو عملاعالم انسانیت کی خدمت میں رکھ دیتے ہیں . کتنا خوبصورت گھرانہ ہے کہ ایک طرف وہ ہستی ہیں جنکے بارے ارشاد پیغمبر ہوا” یا علی (ع) حبک ایمان و ” اور دوسری طرف وہ ہستی ہیں جنکے بارے ارشاد ہوا” ان اللہ لیغضب لغضب فاطمۃ(س) و یرضی لرضاھا”. ان فضیلتوں کے حامل ہستیاں اپنی زندگی کو اس طرح بسر کرتے ہیں کہ کائنات کے تمام افراد امیر و غریب سب کیلے اس سیرت پر عمل کرنا ممکن ہے۔
آج کل کے معاشرے میں عائلی نظام زندگی کے کئی مسائل ایسے ہیں جن کے سبب اس نظام میں دراڑ یں پیدا ہو رہی ہیں کہیں میاں بیوی کا جھگڑا ہے تو کہیں اولاد راہ راست پر نہیں،کہیں گھریلو امور منظم نہیں تو کہیں خاندان کے افراد کے تعلقات کا مسئلہ ہے لہذا اگر ہم اپنی عائلی نظام زندگی کو بہترین انداز میں بسر کرنا چاہتے ہیں اور خوشگوار اور آئڈیل زندگی گزرانا چاہتے ہیں، تو آئیں سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کے گھرانے سے اس نظام کے اصولوں کو سیکھتے ہیں، اور پھر انکو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ عالم نسوانیت میں ماں، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا بہت اہم کام ہے لہذا خاتون جنت نے اپنی مختصر مگر بابرکت زندگی میں ان تینوں حیثیتوں کے مطابق آیئڈیل زندگی گزار کر کائنات کی خواتین کو عملی درس دیا. بیٹی ہونے کے اعتبار سے اس طرح ذمہ داری بجا لائی کہ ام ابیھا کا لقب ملا، بیوی ہونے کے اعتبار سےاپنی ذمہ داریوں اور وظائف سے اس طرح عھدہ بر آ ہوئیں کہ امیر المومنین (ع) یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "جب بھی میں فاطمہ سلام اللہ علیھا پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے ہموم و احزان ختم ہوجاتے اور مجھے سکون مل جاتا” اور ماں ہونے کے اعتبار سے اس طرح اپنا کردار پیش کیا کہ بچوں کی اسقدر پرورش کی کہ جوانان جنت کے سردار قرارپائے.
اب ہم عائلی زندگی سے متعلق چند اہم امور کو،سیرت زہراء( س) کی روشنی میں بیان کرتے ہیں.
۱۔ کفو ہونا :
عائلی نظام زندگی کی کامیابی کیلے ایک اہم اور لازمی امر میاں اور بیوی کا ہم پلہ ہونا ہے .کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ میاں اور بیوی عائلی نظام زندگی کے دو پہیے ہیں لہذا دوپہیے اگر موافقت نہ ہو تو درست سمت میں چلنا مشکل ہے اور بیلنس برقراررکھنا سخت ہوگا. یہ حقیقت ہے کہ اگر خانوادگی زندگی میں افکار و عقیدہ اور ہدف میں ہم آہنگی ہو تو ایسی خا نوادگی زندگی ہر زاویہ نظر سے مہر ومحبت ،عشق و علاقہ اور ہم سر کے حقوق کی پاسبانی و رعایت سے معمور ہوتی ہے اور اسکے بر عکس اگر زوجین فکری، عقیدتی اور مزاج کے اعتبار سے ہم پلہ نہ ہوں تو کئی مسائل جنم دیتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑوں تک جا پہنچتی ہے جس سے خاندانی نظام زندگی تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی تزویج کیلے دونوں کی رضا مندی بھی ضروری ہے اس میں جبر و اکراہ کا کسی کو اختیار نہیں . اسوقت بھی کچھ معاشروں میں لڑکا اور لڑکی خاص کر لڑکی کی رضا مندی کے بغیر تزویج کر لیتے ہیں نتیجتا اس قسم کے رشتےخاندانی جھگڑے اور طلاق کی نوبت تک آکر ختم ہو جاتے ہیں. آئیں اس حوالے سے بھی ہم خاندان عصمت و طہارت کی روش کو دیکھتے ہیں.
روایات کے مطابق جب امیر المومنین ؑ نے ختم المرتبت سے جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا ہاتھ مانگا تو آپ ؐ نے فورا اپنی طرف سے فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ پہلے اپنی بیٹی کی رضایت طلب کی اور پھر رشتہ کو قبول فرمایا اور بیٹی کی رضا مندی پوچھ کر تمام انسانوں اور مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ بیٹی کی زندگی کا فیصلہ اسکی رضامندی کے بغیر کرنا تعلیمات اسلامی کے خلاف ہے اسلام نے خواتین کو خاص مقام و احترام دیا ہے.
دوسری بات زوجین کا ہم پلہ ہونے کے حوالے سے تھا یہ بات بھی روایات میں موجود ہے کہ امیر کائنات (ع) سے پہلے دیگر کچھ اصحاب نے بھی سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کا رشتہ مانگا تھا مگر جواب نفی میں ملا اور جب امیر کائنات(ع) نے رشتہ طلب کیا تو بیٹی کی رضایت کے بعد اسکو قبول کیا اور پھر فرمایا؛
” لو لا علی(ع) لم یکن لفاطمۃ سلام اللہ علیہا کفو”
"اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا کوئی کفو نہ ہوتا” (بحار الانواار ، ج 43، ص 58،98)
معلوم ہوا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کیلے زوجین کا ہم فکر وہم پلہ ہونا اور افکار و عقیدے کے لحاظ سے موافق ہونا بھی ضروری ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب خاندانی زندگی کیلےمزاج میں بھی کچھ حد تک یکسانیت ضروری ہے .
۲۔شوہر داری:
ہم جانتے ہیں کہ خاندانی نظام زندگی کی بنیادی اکائی میاں اور بیوی ہے ، یہی وجہ ہے کہ بہتر خاندانی نظام زندگی میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر منحصر ہے . اگر ان کے آپس کے تعلقات میں خلل آ جائے تو گھریلو نظام سے لیکر اولاد تک اس سے متاثر ہوتے ہیں، لہذا جوں ہی ایک مرد و وعورت رشتہ ازدراج سے منسلک ہو جاتے ہیں تو انکی ایکدوسرے کی نسبت کچھ ذمہ داریاں بھی آ جاتی ہیں. مرد کی ذمہ داریاں ایک الگ موضوع ہے ، فی الحال ہم ایک خاتون کی ذمہ داریوں پر بات کر رہے ہیں. لہذا تزویج کے بعد اولین اور اہم ترین ذمہ داری جو ایک خاتون کے ذمہ آتی ہے وہ ہے شوہر داری، یعنی اپنے شوہر کیساتھ بہتر تعلقات رکھنا ، اسکی فرمانبرداری کرنا، اسکے مال و آبرو کی حفاظت کرنا ، اسکے امور میں معاون بننا اور اسکو سکون و راحت فراہم کرنا. چناچہ ارشاد رسالتمآب ہے”جہاد المراۃ حسن التبعل” ” عورت کا جہاد شوہر کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنا ہے” (من لا یحضرہ الفقیہ، ج-۳، ص ۲۷۷)
اسی طرح امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں” جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے،روزہ رکھے ، حج کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے اور امام ؑ کا حق جانے وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے” (من لا یحضرہ الفقیہ، ج-۳، ص ۲۷۷)
ایک عورت کیلے شوہر کسیاتھ بہتر تعلقات پر اس قدر تاکید کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ عائلی نظام زندگی کی کامیابی اور سرفرازی میاں بیوی کے تعلقات پر موقوف ہے. یہ حقیقت ہے کہ اگر خانوادگی زندگی میں افکار و عقیدہ اور ہدف میں ہم آہنگی ہو تو ایسی خا نوادگی زندگی ہر زاویہ نظر سے مہر ومحبت ،عشق و علاقہ اور ہم سر کے حقوق کی پاسبانی و رعایت سے معمور ہوتی ہے. یہ چیز ہمیں کائنات کے اس حسین جوڑے میں نظر آتے ہیں .لہذا اب دیکھتے ہیں کہ سیدہ کونین سلام اللہ علیھا نے اس ذمہ داری )شوہر داری( کو کس طرح نبھائیں۔
حضرت زہرا(س) اپنے شوہر نامدار حضرت امام علی(ع) کی اس حد تک مطیع و فرمانبردار تھیں کہ اپنے آپ کو اپنے شوہر نامدار کی خدمت گزار سمجھتی تھیں۔ روایات میں آپ (س) کیے یہ الفاظ ملتے ہیں۔
البیت بیتک والحرہ امتک؛
یاعلی(ع)! یہ آپ کا گھر ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔(آپ جو بھی فرمائیں مجھے منظور ہے)
.آپ کی شوہر داری کے متعلق جاننے کیلے امیر المومنین ؑ کا یہی ایک قول کافی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا؛
"فو اللہ ما اغضبھا و لا اکرھتھا علی امر حتی قبضھا اللہ ولا اغضبتنی ولا عصت لی امر امرا،لقد کنت انظر الیھا فتنکشف عنی الھموم و الاحزان”
ترجمہ: اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی معاملے میں ان کو ناراض کیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر کے بارگاہ الہی میں پہنچ گئیں، اور نہ ہی وہ کبھی مجھ پر ناراض ہوئیں اور نہ کبھی میری کسی بات پر بر ہم ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے میری نافرمانی کی، جب میں ان پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے ہموم واحزان ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا” (بحار الانوار، ج -۴۳، ص ۱۴۳)
سبحان اللہ! کیا خوبصورت زندگی تھی اور کس قدر بہترین تعلقات استوار کئے.اس فرمان پاک میں ایک میاں اور بیوی کیلے بہترین درس عمل موجود ہے ، خاص کر مولا کائنات(ع) کا یہ فرمانا کہ ” جب میں ان پر نگا ہ ڈالتا تو میرے ہموم واحزان ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا” . محترم قارئین! اب اندازہ لگا لیجیے اگر میاں بیوی کے تعلقات اس طرح سے ہوں کہ بیوی پر نظر کرنے سے سکون ملے اور غم دور ہو جائے تو اس سے بہتر خاندانی زندگی کیا ہو سکتی ہے. آج کل کے بعض خواتین کا اپنے شوہروں کیساتھ رویہ نا گفتہ بہ حال ہے ، بات بات پر جھگڑےاور شکوہ شکایات کرتی رہتی ہیں . کچھ مرد حضرات اپنی بیویوں کے غیر مناسب رویوں کی وجہ سے کام سے گھر جانے کو بھی بوجھل محسوس کرتے ہیں.ایسے خواتین کو چاہیے کہ وہ سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کی سیرت سے اپنے لئے درس عمل لیں تاکہ عائلی نظام زندگی متاثر نہ ہوسکیں. دوسری طرف مردوں کیلے بھی ضروری ہے کہ وہ اس گھرانے سے اپنے لئے نمونہ عمل لیں، مولا علی ؑ کا یہ فرمانا کہ ” اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی معاملے میں انکو ناراض کیا” کس قدر قابل توجہ جملہ ہے۔آج بعض مرد حضرات اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے ،اور معمولی غلطیوں پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں. ایسے مردوں کو چاہیے کہ وہ مولا علی ؑ کی زندگی سے سبق سیکھیں .
اسی طرح ایک اور روایت میں ملتا ہے کہ؛
فقال ابو الحسن لھا) لفاطمہ ( یوما؛ یا فاطمہ! ھل عندک الشیء؟
قالت،” والذی عظم حقک ما کان عندنا منذ ثلاثۃ ایام شیءنقریک بہ، قال؛ افلا اخبرتنی ؟قالت: کان رسول اللہ نہانی ان اسالک شیئا، فقال : لا تسالین ابن عمک شیئا ان جاءک بشیء و الا فلا تسالیہ
ایک دن جناب امیرؑ نے بی بی پاک سلام اللہ علیھا سے پوچھا : اے سیدہ سلام اللہ علیہا! کیا گھر میں کوئی کھانے کی چیز ہے؟
آپ ؑ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کا حق عظیم بنایا ،تین دن سے ہمارے گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے.
آپ ؑ نے فرمایا: آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا ؟ سیدہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: مجھے رسولخدا ﷺ نے منع فرمایا تھا کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کروں . امام علی ؑ نے فرمایا : اگر میں ضروریات زندگی گھر میں لے آوں تو پھر آپ ؑ کے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے. اگر گھر میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور کہہ دیا کریں ،تاکہ میں وہ ضرورت پوری کروں” (الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہرا س، ج ۱۷،ص ۱۲۵)
یہ بات سیرت زہراء سلام اللہ علیھا میں ملتی ہے کہ آپ نے کبھی امیر کائنات سے ایسی چیز کا سوال نہیں کیا جو امیر کائنات کی وسعت اور دسترس سے باہر ہو، جبکہ آج کل کے معاشروں میں کچھ خواتین کی خریداری کی فہرست ہی ختم نہیں ہوتی. یہ نہیں دیکھتی کہ یہ چیز میرے میاں کی وسعت میں ہے یا نہیں ،بس صرف ڈمانٹ کرتی جاتی ہیں تو بعض اوقات انکے شوہروں کو قرض لینا پڑتا ہے اور انکو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے جسکا عائلی نظام زندگی پر حتما برا اثر ہوتا ہے .لہذا شوہر داری کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی چیز کا تقاضہ نہ کرے جو اسکی وسعت سے باہر ہو اور جسکو وہ پورا نہ کر سکتا ہو۔
3۔ گھریلو کام کاج( امور خانہ داری )
جب کسی خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اس نظام میں ایک اہم پہلو گھریلو کام کاج ہے یعنی گھر کی صفائی کرنا، کھانا وغیرہ بنانا، برتنوں کو صاف کرنا اور منظم کرنا ، کپڑے دھونا اور بچوں کی دیکھ بال کرنا وغیرہ. آج کل مشاہدے کی بات ہے کہ بعض خواتین ان امور کو بجا لانے کیلے نوکرانی رکھنے پر مجبور کرتی ہیں اور ان امور کو بجا لانے کو عار سمجھتی ہیں . بے شک بہت سارے امور شرعی لحاظ سے ان پر واجب نہیں ہیں لیکن ایک عائلی نظام زندگی کو بہتر انداز میں طے کرنے کیلے انکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان امور کو بجا لائیں. ہم جانتے ہیں کہ عالم نسوانیت میں سیدہ کونین سلام اللہ علیھا سے بڑھ کر کسی خاتون کا مقام نہیں ہے لیکن اس عظیم مرتبہ پر فائز جناب زہراء سلام اللہ علیھا گھریلو امور کو خود بجا لاتی تھیں .گھر کی چکی خود چلاتی تھیں،گھر کی صفائی ستھرائی خود بجا لاتی تھیں اور اندرون خانہ جتنے امور تھے وہ سب خود بجا لاتی تھیں. اس حوالے سے کچھ روایات پیش خدمت ہیں.
"عن ابی عبد اللہ عن ابیہ قال ;تقاضی علی (ع)و فاطمۃ سلام اللہ علیھا الی رسول اللہﷺ فی الخدمۃ فقضی علی فاطمۃ خدمۃ دون الباب وقضی علی علی بما خلفہ، فقالت فاطمۃ؛فلا یعلم ما دخلنی من السرور الا باللہ” ( الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہرا س، ج ۱۷،ص ۱۲۵)
امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے کہ جب امیر کا ئناتؑ اور خاتون جنت س کی تزویج ہوئی اور انکو خانوادگی زندگی کا آغاز ہوا تو ایک دن دونوں ہستیاں حضور اکرمﷺ کی خدمت عالیہ میں تشریف لائیں اور گھریلو امور کے حوالے سے ذمہ داریوں کی تقسیم بندی کے بارے فیصلہ کرنے کا تقاضا کیا تو رسالتمآب ﷺ نے فیصلہ کیا کہ گھر کے اندرونی کام فاطمہ سلام اللہ علیھا بجا لائے گی اور گھر سے باہر کے کام علیؑ بجا لائیں گے. جناب زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں اس فیصلہ سے مجھے جو خوشی ہوئی اسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
در اصل یہ عالم انسانیت کو درس عمل دینے کیلے تھا تاکہ انکو عائلی نظام زندگی میں مرد ارو عورت کی ذمہ داریوں کے بارے رہنمائی کر سکیں. جناب زہراء سلام اللہ علیھا کی خوشی بھی اسی وجہ سے تھی کہ انکو گھر سے باہر زیادہ نہیں نکلنا پڑے گی یوں وہ اپنی ذمہ داری بھی بخوبی بجا لا سکے گئیں اور نا محرموں کے نظروں سے بھی بچ کر رہیں گئیں.
اسی طرح جناب زہراء سلام اللہ علیھا کی گھریلو خدمات اور مشقت اٹھانے کے حوالے سے امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:
"انھا کانت عندی و کانت من احب اھلہ الیہ و انھا استقت بالقربۃ حتی اثر فی صدرھا و طحنت بالرحی حتی مجلت یداھا و کسحت البیت حتی اغبرت ثیابھا و اوقدت النار تحت القدر حتی دکنت ثیابھا فاصابھامن ذالک ضرر شدید۔۔۔۔۔۔ الخ”
"وہ میرے پاس آ گئی جبکہ وہ اپنے اہل وعیال میں سب سے محبوب ترین ذات تھی انہوں نے اس قدر کنویں سے مشک کے ذریعے پانی نکالا کہ ان کا سینہ اس کی وجہ سے متاثر ہوا اور اس حدتک آٹا تیار کرنے کے لئے دستی چکی چلائیں کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوئے تھے اور جاڑو دیکر کپڑے گرد آلود ہوتے تھے اور چولہے کو جلاتے جلاتے ان کے کپڑے بھی جل جاتے تھے ۔” (الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہرا س، ج ۱۷،ص 116)
اس روایت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا جیسی ہستی گھریلو امور کو بجا لانے میں کس قدر مشقت اٹھاتی تھیں.یہاں تک اس دور میں آٹا پیسنے کیلے ہاتھ سے چکی چلائی جاتی تھی اور جناب زہراء سلام اللہ علیہا یہ کام خود انجام دیتی تھیں اس وجہ سے آپ ؑ کے مبارک ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے. اسی طرح کے دیگر گھر کے امور بھی خود بجا لاتی تھیں .حتی کہ بعد میں جب جناب فضہ آپ کی خدمت کرنے آئی تب بھی کمال انصاف دیکھیے کہ آپ نے گھریلو کاموں کو بجا لانے کیلے باری لگائیں اور ایک دن جناب زہراء سلام اللہ علیہا خود ان امور کو انجام دیتی تھیں اور ایک دن جناب فضہ انجام دیا کرتی تھیں.
یہی وجہ ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ ایک دن جناب ام ایمن جب آپ سے ملنے آئی تو انہوں نے عجیب منظر دیکھا کہ چکی خود بخود چل رہی ہے. امام حسین ؑ کا جھولا بھی کوئی جھلا رہا ہے اور تسبیح کی آواز بھی آرہی ہے حالنکہ دیکھتی ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا آرام فرما رہی ہیں. ام ایمن پریشان ہو کر فورا حضوراکرمﷺ کی خدمت میں آکر اس بارے آگاہ فرماتی ہیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا؛ تعجب کی بات نہیں در اصل آج گرمی کی شدت ہے اورمیری لخت جگر آج روزہ سے تھیں اور اسکے باوجود ان امور کو بجا لانے میں مصروف تھیں کہ ان کو تھکاوٹ اور مشقت کیوجہ سے نیند آگئیں تو خدا وند متعال نے چند ملا ئکہ کو بھیجا تاکہ وہ ان امور کو بجا لا سکیں اور سیدہ کے یہ امور رکنے نہ پائے لہذا چکی چلانے والا حضرت جبرائیل ؑ ہیں اور حسینؑ کا جھولا حضرت میکائیل جھلا رہے ہیں جبکہ تسبیح حضرت اسرافیل ؑ پڑھ رہی ہیں. ( ، اعلموا انی فاطمۃ، ج ۔۳ ،ص)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں اتنی مشقت کے باوجود سیدہ کونین سلام اللہ علیہا گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے سے غافل نہیں رہتی تھیں اور ان امور کو عائلی نظام زندگی کو انس و محبت سے قائم رکھنے کیلے خود بجا لاتی تھیں.
۴۔ امور خانہ داری میں معاونت:
عائلی نظام زندگی کا ایک اور اصول جو در زہراء سلام اللہ علیہا سے ہم سیکھ سکتے ہیں وہ گھریلو امور کی انجام دہی میں بیوی کی معاونت ہے. بہت سارے مرد ایسے ہیں جو گھریلو امور میں معاونت کو عار سمجھتے ہیں اور گھر پہنچنے کے بعد ہاتھ بھی ہلانے کو تیار نہیں ہوتے. بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر گھر میں بھی ہم نے کام کرنا ہو تو پھر خواتین کا کیا کام رہے گا. اور خاتون کو جتنی بھی مشقت اٹھا نی پڑے وہ آرام سے بیٹھے رہتے ہیں اور گپ شپ وغیرہ میں مصروف رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھر کے کام کرنا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے. حالنکہ اگر ہمارے رہنماوں اور پیشواوں کی سیرت طیبہ میں دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ہستیاں امور خانہ داری میں گھر کے خاتون کی مدد کرتی تھیں۔ روایت میں ملتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا کہ
” ما من رجل یعین امراتہ فی بیتھا الا کان لہ بکل شعر علی بدنہ عبادۃ سنۃ…. یا علی! ساعۃ فی خدمۃ البیت خیر من عبادۃ الف سنۃ..”
"تم میں سے کوئی مرد گھر میں اپنی خاتون کی مدد کرے تو اسکو اسکے بدن پر موجود ہر بال کی نسبت ایک سال کی عبادت کا ثوا ب ملے گا .آگے فرمایا یا علی! گھریلو خدمت کی ایک گھڑی ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (بحار الانوار، ج ۱۰۱، ص ۱۳۲)
یہ ایک طولانی روایت ہے جو بحار الانوار میں موجود ہے .ہم نے اس میں سے صرف ایک اقتباس لیا ہے.
یہی وجہ ہے کہ امیر کائنات (ع) دیگر تمام امور کے ساتھ ساتھ گھریلو امور میں اپنی شریک حیات کی معاونت کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہے روایت میں آیا ہے ؛
"دخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علی، فوجدہ ہو و فاطمہ یطحنان فی الجاروش، فقال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: ایکما اعینی؟ فقال علی ؛ فاطمہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ” فقال لہا قومی یا بنتی فقامت و جلس النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موضعھا مع علی فواساہ فی طحن الحب”
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امیر کائناتؑ کے بیت شریف میں تشریف لائے تو آپ نے امیر المومنین(ع) اور جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو چکی کے پاس پایا کہ دونوں ملکر چکی چلا رہے تھے، تو نبی پاک ؐنے استفسار کیا کہ آپ میں سے کون تھک گئے ہیں؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا؛ فاطمہ سلام اللہ علیہا تھگ گئیں ہیں یا رسول اللہ، تو ختم المرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے میری بیٹی آپ اٹھ جائیں تو جناب زہراء سلام اللہ علیہا اپنے مقام سے اٹھ گئیں اور حضور اکرم ؐاس جگہ تشریف فرما ہوئے اور آٹا پیسنے میں حضرت علی(ع) کی معاونت کرنے لگے” (بحار الانوار، ج ۴۳، ص۔ ۵۰)
اس روایت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں گھریلو امور میں خاتون کی معاونت کی کیا اہمیت ہے کہ کائنات کے افضل ترین مخلوق وجہ تخلیق کائنات ہستی بھی امور خانہ داری میں معاونت فرماتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اسلام رہبانیت کا قائل نہیں کہ اپنے امور کو ،بال بچوں کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول رہے بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ انسان ان امور کو بھی اہمیت دے کہ وہ اپنے بال بچوں کو بھی ٹائم نکالے وہ انسان سازی کیلے بھی کام کرےیہی وجہ ہے گھریلو امور میں معاونت کو سال کی عبادت سے بہتر قرار دیا تاکہ انسان ان امور کو بطور احسن بجا لاسکے جب ان امور کو اچھے انداز میں بجا لائیں گے تو میاں بیوی کے تعلقات بہتر رہی گی جب تعلقات بہتر ہوگی تو عائلی نظام زندگی خوشگوار و پر سکون ہوگی جب عائلی نظام زندگی بہتر ہوگی تو ایسا خاندان معاشرے کو تربیت یافتہ مفید فرد دینے میں کامیاب ہو جائے گا یوں خاندانوں سے فرد سازی پھر ان سے معاشروں کی تعمیر و ترقی ہوگی. اس بارے علامہ الحمید المہاجر اپنی کتاب ” اعلموا انی فاطمۃ ” میں اس حوالے سے فرماتے ہیں.
” گھریلو معاملات میں خاتون کی مدد کرنے کی طرف مرد کو ترغیب دلانے سے مقصود صرف یہ نہیں کہ وہ کام انجام پا سکیں بلکہ اصل مقصد اس طرح ایکدورسرے کی معاونت سے طرفین کے دلوں میں الفت و محبت پیدا ہونا ہے . کیونکہ واضح سی بات ہے کہ جب گھریلو امور کو اس طرح خوشگوار طریقے سے باہمی تعاون سے بجا لائیں گے تو ایک دوسرے کی نسبت الفت ومحبت میں اضافہ ہوگا اور نہ صرف یہی بلکہ اس خوشگوار اور باہمی تعاون کا اثر اولاد پر بھی ہوگا اور یہ انکی عملی تربیت میں کار آمد ثابت ہوگا)” اعلموا انی فاطمۃ، ج ۔۳ ،ص ، ۵۹۸)
۵۔ تکامل نفس میں خاندان کا کردار:
جہاں ظاہری امور میں میاں بیوی کیلے ایک دوسرے کی معاونت کرنا ضروری ہے وہاں معنوی اور تربیتی امور میں بھی لازمی ہے کہ ایکدوسرے کیلے معاون و مددگار بنیں بلکہ ظاہری امور کی بنسبت معنوی امور اہم ہیں اور ظاہری کاموں میں معاونت کی تاکید کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ اس سے معنوی امور میں معاونت کی طرف پیشرفت ہوتی ہے. ایک عالم دین فرما رہے تھے کہ بعض اوقات اگر مجھ سے کوئی اخلاق کے منافی کام انجام پائے تو میری زوجہ مجھے متوجہ کراتی ہے اور ایک جملہ کہتی ہے کہ ایک عالم دین کیلے اس طرح کا رویہ یا کام مناسب نہیں اور میں فورا اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اپنی غلطی کیطرف متوجہ ہوتا ہوں. لہذا اگر میاں بیوی اخلاقی، معنوی اور روحانی امور میں بھی ایکدورسرے کے معاون ہو جائے تو یقین جانیے انکی عائلی نظام زندگی خوشحال و خوشگوار ہوگی . اس حوالے سے اگر ہم سیرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کا مطالعہ کریں تو امیر کائنات(ع) کا وہ تاریخی جملہ دل و دماغ میں بے اختیار ایک سرور پیدا کرتا ہے جو آپؑ نے تزویج کے بعد رسالت مآب ؐ کے استفسار کرنے پر ارشاد فرما یا تھا. روایات میں ملتا ہے کہ جب سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی رخصتی ہو گئی تو دوسرے دن نبی دو عالم کائنات کے بہترین اور خوبصورت ترین ،مقدس اور نورانی جوڑے کی خبر لینے تشریف لائے اور پھر امیر کائنات(ع) سے مخاطب ہو کر فرمایا:
"یا علی علیہ السلام ! کیف وجدک اھلک؟ فاجابہ "نعم العون علی طاعۃ اللہ”
اے علی (ع)! آپ نے اپنی زوجہ محترمہ کو کیسے پایا؟ تو جواب میں فرمایا؛” خداوند متعال کی عبادت میں بہترین معاون و مددگار” ( اصول کافی، ج۔۱ ص ۵۲۸)
اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کس مقام پر فائز تھیں کہ وہ ہستی جو ہر دن ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور محراب عبادت میں تڑپتے تھے وہ فرما رہے ہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اطاعت الہی میں بہترین مدد گار ثابت ہوئیں. ایسا کیوں نہ جبکہ وہ سیدہ نساء العالمین کے درجے پر فائزتھیں جنکی عبادت و ریاضت کا جاننے کیلے یہی ایک حدیث کافی ہے ۔
"روی جعفر بن محمد عن ابیہ: سالت ابا عبد اللہ عن فاطمہ الزہراء، لم سمیت الزہراء؟ قال لانھا کانت اذا قامت فی محرابھا تزھر نورھا لاھل السماء کما تزھر نور الکواکب لاھل الارض”
"امام جعفر صادق (ع) سے پوچھا گیا کہ جناب سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کو زہراء کیوں لقب دیا گیا تو آپ نے فرمایا اسوجہ سے آپ کو زہراء کہا گیا کیونکہ جب آپ محراب عبادت میں کھڑی ہو جاتی تھیں تو آسمان والوں کو آپ کا نور مبارک اس طرح دکھائی دیتا تھا جس طرح زمین والوں کو ستارے روشن نظر آتے ہیں۔” (علل الشرائع، ج ۱، ص ۱۸۱، ح۔۳)
۶۔ باہمی عزت و احترام:
حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا(س) کی مشترکہ زندگی میں جو نکات قابل غور ہیں ان میں سے ایک نکتہ ان کاباہمی احترام ہے۔یہ نکتہ بھی خاندانی نظام زندگی میں بہت گہرا اثر رکھتا ہے کہ گھر میں میاں بیوی ایکدوسرے کا احترام کریں انہیں ایکدوسرے کو زندگی کے ایک نظام کو تشکیل دینے میں معاون ہو ہمنوا سمجھنا چاہیے اس حوالےس ے مرد حضرات کو صرف یہ توقع لیکر نہیں بیٹھنا چاہیے کہ صرف بیوی اسکا احترام کرے بلکہ اسکی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی زوجہ کی رائ اور شخصیت کا احترام بروئے کار لائے اور کسی معاملہ میں اگر اختلاف ہو بھی جائے تو کم از کم بچوں کے سامنے اظہار نہیں کرنا چاہیے اب ہم کائنات کے خوبصورت ترین اور بہترین جوڑے کی زندگی میں اس پہلو کو دیکھتے ہیں اور اپنے لئے نمونہ عمل لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔امام علی(ع) فرماتے ہیں:”خد ا کی قسم جب تک زہرا (س) زندہ رہیں میں نے کبھی بھی انھیں پریشان نہیں کیا،انھیں غصہ نہیں دلایا اور انھیں کسی کام پر مجبور نہیں کیا اور زہرا(س) نے بھی مجھے کبھی بھی پریشان نہیں کیا اور کسی بھی کام میں میری نافرمانی نہیں کیں” جسکا تذکرہ پہلےبھی ہو چکا ہے۔
اسی طرح حضرت زہرا(س) شہادت کے وقت اس حقیقت کو اپنی زبان مبارک پر لائیں اور حضرت علی(ع) سے پوچھا: یاعلی(ع):ہماری مشترکہ زندگی میں کیا اپ نے کبھی مجھ سے جھوٹ سنا یا کوئی خیانت دیکھی ؟یا میں نے کبھی آپ کے احکامات کی خلاف ورزی کی؟
حضرت علی (ع) نے جواب میں فرمایا:خدا کی پناہ! اے بنت پیغمبر آپ خدا کی نسبت دانا تر ،پرہیز گار تر ،با عظمت تر اور اس سے خدا ترس تر ہیں کہ میں اپنی مخالفت اور نافرمانی کے سلسلے میں آپ کی سر زنش کروں۔( بحا ر الانوار ، مجلسی،ج 43، ص 191)
7۔تربیت اولاد:
یہ عائلی زندگی کا وہ اہم فریضہ ہے جو اہمیت و ضرورت کی بنسبت دیگر تمام فرائض سے بڑھ کر ہے .اور جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ عائلی نظام زندگی کا اصل مقصد ہی معاشرے کو تربیت یافتہ افراد فراہم کرنا ہے دوسری طرف تناکحوا و تناسلو ا سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ تزویج کا اصل مقصد بھی نسل انسانی کی بقاء ہے . ظاہر ہے کہ نسل انسانی کی بقاء صرف جسمانی پرورش سے نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی پرورش بھی نا گزیر ہے. یہی وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام نے اولاد کی تربیت کو والدین کے اوپر واجب قرار دیا تاکہ وہ اس اہم فریضہ سے غافل نہ رہیں اور معاشرے لو مفید افراد فراہم کر سکیں. دین مقدس نے تربیت کو اسقدر اہمیت دی ہے کہ اس سے متعلق لحظہ بہ لحظہ کے اصول بیان کیا ہے) . الجنۃ تحت اقدام الامہات ( ماں کے پاوں تلے جنت ہےکہہ کر جہاں ماں کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے وہاں ماں کی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کر کے انکوجنت پہنچا سکتی ہے ماں ہی وہ ہستی ہے جسکی گود کو اولین درسگاہ قرار دیا گیا ہے. یہ مسلم امر ہے کہ والدین کے کردار و رفتار کا اولاد پر لا محالہ اثر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا؛
"کل مولود يولد فهو على الفطرة، وإنما أبواه يهودانه أو ينصرانه”
” ہر بچہ جوپیدا ہوتا ہے وہ فطرت ” دین الہی” پر قائم ہوتا ہے یہ اسکے والدین ہیں جو اسکو یہودی اور نصرانی بناتے ہیں” ( .تصحيح اعتقادات الإمامية -ص 60، 62)
معلوم ہوا کہ بچے کی شخصیت سازی میں والدین کا بنیادی اور نمایاں کردار ہوتا ہے حتی کہ بعض اوقات زندگی کے پیشے بھی والدین کے اتباع میں اختیار کرتے ہیں. اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آیۃ اللہ خمینی فرماتے ہیں ؛
” گھر کا پرسکون ماحول اور ماں کی آغوش در اصل ایک بچہ کی تربیت کا نقطہ آغاز ہے اگر گھر کے ماحول اورماں کی آغوش جو ایک بچہ کیلے سب سے بڑی تربیت گاہ ہے، سے ایک بچہ اچھی تربیت نہ پائے تو یہ بچہ زمانہ طفولیت کی اسی تربیت پر زندگی کے آخری لمحات تک باقی رہتا ہے مگر یہ کہ بہت ہی مضبوط عوامل اسے اسکی بری تربیت سے لوٹا دیں ۔” ( تعلیم وتربیت، سید روح اللہ خمینی رح، ص ۲۷۶)
لہذا عائلی نظام زندگی میں اولاد کی شخصیت سازی کس طرح سے ہونی چاہیے اور کس طرح سے اولاد کی فکری، اخلاقی اور معنوی تربیت کرے اس کیلے بھی ہمارے لئےبہترین نمونہ عمل خاتون جنت کا مقدس گھرانہ ہے. اس گھرانے کا کیا کہنا جس نے دنیا کو امام حسنؑ،امام حسینؑ اور جناب زینبؑ وام کلثوم جیسی ہستیاں عطا کی کہ جنہوں نے انسانیت کی تاریخ میں ظلم و بربریت، مکر وفریب اور عوامی استحصال کے خلاف ایسی تحریک چلائی کہ قیامت تک آنے والےانسان اس تحریک سے اپنے لئے نمونہ لیتے رہِیں گے اور اسکے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہیں گے . کسی شاعر نے کیا خوب کہا
چلو سلام کریں اس کے آستانے کو حسین(ع) پال کے جس نے دیازمانے کو
تو دوسری طرف شاعر مشرق نے بھی عقیدت کا یوں اظہار کیا۔
مادر آن مرکز پرکار عشق مادر آں قافلہ سالار عشق
اور اس مطلب کو عارف کبیر سید روح اللہ خمینی ؒیوں بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،
” حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس چھوٹے سے گھر میں تربیت پانے والے ان چار پانچ افراد نے در حقیقت خداوند عالم کی تمام قدرت کو دنیا کو دکھا دیا اور انسانیت کی ایسی عظیم خدمات انجام دی ہیں کہ جس پر ہماری، آپ کی اور تمام بشریت کی عقلیں دنگ ہیں” (تعلیم وتربیت، سید روح اللہ خمینی رح، ص ۲۸۴)
عالم انسانیت کیلے آئیڈل اس گھرانے سے تربیت کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں.
۱۔ہم نے عرض کیا کہ زوجین کے تعلقات و روابط اور کردار و رفتار کا اولاد پر گہرا اثر ہوتا ہے . اس حوالے سے اس گھرانے کا کیا کہنا جس میں ایک طرف ایمان کل ہو تو دوسری طرف عالمین کے خواتین کی رہنما و بضعۃ منی کا مصداق ہو. لہذا انکے سیرت و کردار کا گہرا اثر انکے اولاد پر ہوئے.یہی وجہ ہے بیٹے تو بیٹے ہیں انکی بیٹی نے بھی دربار زیاد و یزید کے ایوانوں کو ہلا دیا اور اس طرح سے خطبے دئیے کہ لوگوں کو علی ؑ یاد آگئے.
۲.بچے کی ولادت کے بعد نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے.تو روایات میں ہے کہ جناب امیر کائنات ؑاور سیدہ کونین سلام اللہ علیہا نے اپنے کسی بچے کا نام رسالت مآب ؐ کی رائے کے بغیر نہیں رکھا اور رسالت مآب ؐنے وحی الہی کے مطابق اولاد زہراِء سلام اللہ علیہا کے نام تجویز کئے. چونکہ نام کی بھی ایک تاثیر ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیں بھی حکم یہی ہے کہ اپنے بچوں کے نام رکھنے میں اسکے معانی کی طرف ضرور توجہ رکھے اور انبیاِء و آئمہ اور خاندان عصمت و طہارت کے مقدس اور خوبصورت اسماء کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور دروازے پر جانے کی ضرورت نہیں۔
۳. اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ماں کی گود بچے کیلے اولین درسگاہ ہے . سید روح اللہ خمینی ؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” محترم خواتین آپ اور ہم سب خدا کے سامنے جواب دہ ہیں ۔آپ تربیت اولاد کے ذمہ دار ہیں آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی آغوش میں اولاد کو باتقوی بنائیں ، انکی صحیح تربیت کریں اور انہیں صحیح وسالم معاشرے کے سپرد کریں ہم سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں لیکن بچے آپ خواتین کی گود میں بہترین تربیت پاتے ہیں اور ایک ماں کی آغوش اسکی اولاد کیلے بہترین تربیتی مکتب ہے بچوں کی زمہ داری ماں اور باپ دونوں پر عائد ہوتی ہے لیکن مائیں زیادہ ذمہ دار ہیں کیونکہ ماوں کا رتبہ زیادہ باشرف ہے ماوں کی شرافت ، باپ کی شرافت سے زیادہ اور بچوں کی نفسیات اور روح پر انکی تربیت کا اثر باپ سے زیادہ ہوتا ہے۔ (تعلیم وتربیت، امام خمینی رح، ص280)
روایات کے مطابق جناب زہراء سلام اللہ علیہا ہمہ وقت ، بچوں کی دیکھ بال کے دوران ہو یا گھریلو دیگر امور کی انجام دہی ہو ،تسبیح خدا میں بھی مصروف ہوتی تھیں.یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ماووں کو بھی حکم ہے کے بچے کی پرورش کے دوران عموما اور دودھ پلانے کے اوقات میں خصوصا تسبیح وتقدیس پڑھتی رہیں اسکا اولاد پر گہرا اثر ہوتا ہے حتی کہ ایام حمل میں بھی تلاوت قرآن اور دعا و مناجات کی تلاوت کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان تمام امور کا بچے کی شخصیت سازی میں نمایاں اثر ہوتا ہے۔
8۔بچوں کی عملی تربیت:
یہ بنیادی اور اہم نکتہ ہے کہ زبانی اور قولی رہنمائی سے زیادہ عملی تربیت موثر و مفید ہوتا ہے اور گھر میں بچے خاندان والوں کے ،خاص کے والدین کے عملی کردار سے اور گھر کے ماحول سے زیادہ سیکھتے ہیں اور والدین کی روش اور چال چلن کو غیر محسوس طریقے سے بچہ جذب کرتا ہے ،اسی وجہ سے تو امیر کائنات ؑنے فرمایا کہ بچوں کا ذھن خالی زمین کی طرح ہے جس میں جو کچھ بوئیے گا کل وہی چیز اگے گا اور اسی کے مطابق ثمرہ ملےگا. یہی وجہ سے آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب آپ خصوصا مائیں گھر میں نماز پڑھنے لگتی ہیں تو بچے بھی آ کر کبھی سجدہ گاہ کو ہاتھ میں اٹھاتے ہیں تو کبھی پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں اور کبھی جا نماز بچھا کر اس پر اپنے انداز میں قیام و قعود کرتے ہیں. یاد رکھنا بچوں کو اس کام سے نہ روکنا بلکہ انکو ہمیشہ نماز پڑھتے ہوئے اپنے ساتھ رکھیے تاکہ اس کے ذھن میں نماز کی اہمیت راسخ ہو جائے. اسکے بر عکس اگر نماز کے اوقات میں اور دیگرامور کے دوران بچوں کو صرف کاٹون دیکھنے اور ڈرامے وغیرہ دیکھنے میں مگن رکھیں اور بچہ کبھی والدین کو نماز پڑھتے نہ دیکھے تو لا محالہ اس قسم کے بچوں میں ان عبادات کی طرف رغبت کم ہوگی یاانکی توجہ عبادات کی طرف مبذول کرانے میں دقت پیش آئے گی. ا س بات کو واضح کرنے کیلے ایک مثال دیتے ہیں کہ ایران میں جب حسین طباطبائی نے چھے سال کی عمر میں مکمل قرآن حفظ کیا جس عمر میں اکثر بچے قاعدہ نہیں پڑھ سکتے اس عمر میں حفظ مکمل کرنے پر انکی ماں سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے کبھی بغیر وضو کے اسکو دودھ نہیں پلایا اور اسکے حمل کے دوران سے لیکر دودھ پینے کے ایام کی تکمیل تک فرصت کے اوقات میں ،میں ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھی اور خاص کر دودھ پلاتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنا میر اشیوہ تھا ماں کی یہی عملی تربیت کا ثمرہ حافظ حسین طباطبائی کی شکل میں نمودار ہوا.جس نے کمسنی میں پوری دنیا کے خاص کر عالم اسلام کو حیرت میں ڈال دیا۔
اب ہم در بتول سے بچوں کی عملی تربیت کے کچھ نمونے بیان کرنے چلتے ہیں .امام حسن ؑ سے ایک روایت منقول ہے جس میں آپ ؑ فرماتے ہیں،
"رایت امی فاطمۃ قامت فی محرابہا لیلۃ جمعتھا فلم تزل راکعۃ ساجدۃ حتی اتضح عمود الصبح وسمعتھا تدعو للمومنین والمومنات و تسمیھم وتکثر الدعاء لھم ولا تدعولنفسھا بشیء فقلت لھا یا اماہ! لم لا تدعین لنفسک ؟؟فقالت؛ یا بنی” الجار ثم الدار”
"میں نے جمعہ کی رات اپنی مادر گرامی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو محراب عبادت میں دیکھا ،میری مادر گرامی صبح تک رکوع و سجود میں مشغول رہی اور میں نے سنا کہ مادر گرامی مومنین و مومنات کیلے دعا کرتی رہیں اور انکے نام لیتی رہیں اور انکیلئے بہت زیادہ دعائیں کیں مگر اپنی ذات کیلئے کوئی دعا نہیں مانگی اور کسی چیز کو طلب نہیں کیا تو میں نے مادر گرامی سے پوچھا ؛ آپ اپنے لئے کیوں دعا نہیں کرتی؟؟ تو جواب میں فرمائی” بیٹا پہلے پڑوسی پھر گھر” (بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۸۲)
اس ایک عمل کے ذریعَے بی بی پاک سلام اللہ علیہا نے کئی عملی تربیت کے نمونے واضح فرمائی. سب سے پہلے بچوں کے سامنے اس طرح رات بھر عبادت کر کے عبادت الہی کہ اہمیت اور معبود کی معرفت و پہچان کے لازمی ہونے کو آشکار فرمائی . اسکے بعد اپنی دعاوں میں دوسروں کو یاد رکھنے کا عملی نمونہ پیش کیا ، اور امام حسن ؑ کے سوال کرنے پر ” الجار ثم الدار” کہہ کر پڑوسیوں کے حقوق اور ایثار وقربانی کا درس دیا ساتھ ہی خود غرضی اور خود پسندی جیسی اخلاق رزیلہ سے بچنے کے عملی تصویر پیش کیں.
اسی طرح ایک اور روایت میں ملتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے بیٹوں سے استفسار کیا کرتیں تھیں کہ آج نانا کی مبارک زبان سے کونسی حدیث بیان ہوئی اور آج کونسی آیت نازل ہوئی ،آج مسجد میں کونسے کارنامے بجا لائے. یہی وجہ ہے کہ جب ابو الحسن امام علی ؑ تشریف لاتے تو خاتون جنت سلام اللہ علیہا فرماتیں یاعلی(ع) ! آج مسجد میں یہ آیت نازل ہوئی اور فلاں حدیث بیان ہوئی . امیر کائنات(ع) استفسار کرتے ؛ اے دختر رسول! آپ کو کیسے معلوم ہو جاتی ہے؟؟؟ تو فرماتیں ؛ آپ کے بڑے شہزادے حسن مجتبیٰ ؑ مجھے آگاہ کرتے ہیں..
روایات میں منقول ہے کہ جناب زہراء سلام اللہ علیہا اپنے بچوں کو اقوال و افعال کے ذریعے سے اخلاص وایثار، سخا وت و شجاعت، عبادت و ریاضت ، آداب و اخلاق اور امانتداری و فروتنی کا درس دیا کرتی تھیں ۔یہاں تک کہ آپ بچوں کیساتھ کھیلتی بھی تھیں چونکہ بچوں کی فطری اور طبیعی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھیلنا ہے کیونکہ ان کے لیے جسمی اور فکری ورزش دونوں ضروری ہیں۔اس لیے کہ کھیل ان کی روح اور جان کو فرحت بخشتا ہےاور ان میں نشاط پیدا کرتا ہے ۔حضرت زہرا(س) جو کہ اس نکتے سے بخوبی آکاہ تھیں مگر آپ اس دوران بھی شخصیت کی تعمیر سازی کی طرف دھیان دیتی تھیں۔ آپ اپنے فرزند گرامی امام حسن(ع) کو ہاتھوں پر لے کر اوپر کی طرف اچھالتیں اور فرماتیں ۔
” اشبہ اباک یا حسن، وا خلع عن الحق الرسن
و اعبد لہ ذا المین ولا توال ذالاحن”
"اے حسن(ع) ! اپنے والد کی طرح بنو. اور حق کی گردن سے رسی اتر کر پھینکو. اور نعمت عطا کرنے والے خدا کی عبادت کر اور کینہ پرستوں کو دوست مت رکھ ” ( بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۸۲)
اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا کس طرح اپنے بچوں کی شخصیت سازی پر کس طرح توجہ دیتی تھیں اور کس قدر محبت وشفقت سے انکی پرورش کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بوستان زہراء میں کھلنے والے پھولوں نے پورے عالم اسلام کو اپنی خوشبو سے معطر کیا اور اسلام و انسانیت کے محسن قرار پائے.
۸۔بچوں کے درمیان عدالت:
بچوں کی تربیت کے سلسلے میں حضرت زہرا(س) اسوہ و نمونہ تھیں اور ایک ماں کی ذمہ داریوں کو خوب نبھاتی تھیں ۔اولاد کی تربیت کےسلسلے میں قابل توجہ نکات میں سے ایک نکتہ آپ کا اولاد کے درمیان عدالت سے کام لینا ہے ۔یہ واقعہ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے:
امام حسن(ع) و امام حسین (ع) اپنے جدگرامی رسول خدا ؐکے سامنے کشتی لڑ رہے تھے ،رسول خدا ؐحسن ؑ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسلسل فرما رہے تھے :حسن بیٹا ! اٹھیں اور حسین کو زمین پر گرا دیں .
حضرت زہرا(س) یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئیں اور پوچھا :پدر جان ! حسن(ع) بڑا ہے اور حسین(ع) چھوٹا ہے اور آپ بڑے کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں ؟
رسول خدا(ص) نے فرما یا : یہ جبرئیل حسین (ع) کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور میں اس کے مقابلے میں حسن (ع) کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں۔ (بحار الانوار ، مجلسی، ج 43، ص 265 )
۔رہن سہن میں قناعت:
اس بات سے انکار نہیں کہ رہائش، غذا اور لباس انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں جنکے بغیر انسانی زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی مگر ہر امر کی طرح خیر الامور اوسطہا کے مطابق ان معاملات میں قناعت سے کام لینے میں ہی انسان کی بھلائی ہے قناعت کے بارے امیر کائنات (ع) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں؛
"القناعۃ مال لا ینفذ” ، "قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا” ( نہج البلاغہ، کلمات قصار، ۵۶)
"کفی بالقناعۃ ملکا "،” قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت نہیں” ( نہج البلاغہ ۔ کلمہ نمبر، ۲۲۹)
قناعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو جو میسر ہو اس پر خوش و خرم رہے اور کم ملنے پر کبیدہ خاطر و شاکی نہ ہو انسان کی زندگی میں بڑھتی ہوئی خواہشات کو اگر کوئی چیز روک سکتی ہے تو وہ صرف وقناعت ہے کہ جو ناگزیر ضرورتوں کے علاوہ ہر ضرورت سے مستغنی بنا دیتی ہے اور لا زوال سرمایہ جو ہمیشہ کیلے فارغ البال کر دیتا ہے۔ خاندانی نظام زندگی کے استحکام اور خوشگواری کا ایک اہم واسطہ قناعت کا راستہ ہے کہ میاں بیوی اور دیگر افراد اپنی وسعت سے بڑھ کر ، ضرورت سے ہٹ کر نمود و نمائش کی خاطر ایسے اقدامات و اخراجات کریں کہ پھر سالوں قرضوں کی چکی میں پستا رہے۔ اس حوالے سے اگر ہم جناب زہرا ء کی سیرت طیبہ میں ملاحظہ کریں تو ہماری عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں کہ جنکے طفیل کائنات کی تخلیق ہوئی وہ اپنے رہن سہن میں کس قدر قناعت سے کام لیتے تھے ۔ در زہراء ؑ سے اب ہم قناعت کی کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اسی بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ جب امیر کائنات(ع) کا جناب زہراء سلام اللہ علیہا سے رشتہ ہو جاتا ہے تو حضور اکرم ؐپوچھتے ہیں یا علی (ع) آپ کے پاس مہر دینے کیلے کیا چیز ہے، تو آپ(ع) نے فرمایا میرے پاس ایک اونٹ ، گھوڑے اور زرہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔ تو آپ ؐنے فرمایا؛ اہل وعیال کو حمل ونقل کیلے اونٹ کی ضرورت ہے۔جنگ و جہاد کیلے کیلے گھوڑا بہت ضروری ہے جبکہ زرہ کے بدلے میں خداوند متعال نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تیری زوجہ قرار دیا۔ تو حضرت علی(ع) وہاں سے بازار تشریف لے جاتے ہیں اور اس زرہ کو چار سو درھم میں بیچ کر اسے ختم المرتبتؐ کی خدمت عالیہ میں رکھ دیتے ہیں۔
چونکہ خاندان اہلبیت کا شیوہ رہا ہے کہ جو کچھ ہاتھ آ جاتا اسکو راہ خدا میں انفاق کرتے یہاں تک بعض اوقات فاقوں کی نوبت آتی تھی جیسا کہ ہم نے ایک روایت میں آیا ہے۔
"اصبح علی ذات یوم فقال یا فاطمہ، ھل عندک شیء تغذیتیہ؟ قالت؛ لا والذی اکرم ابی بالنبوۃ ما عندی شیء اغذیکہ، و لا کان لنا یعدک شیء منذ یومین من طعمہ الا شیء اوثرک بہ علی بطنی و علی ابنی ھذین قال ، یا فاطمہ الااعلمتینی حتی ابغیکم شیئا؟ فقالت : انی استحیی من اللہ ان اکلفک ما لا تقدر علیہ” ( الامالی للطوسی، ج ۲، ص ۲۲۸)
"ایک دن حضرت علی (ع) روزہ سے تھے آپ نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے سوال کیا آیا کھانے کیلے کچھ ہے ؟ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جواب دیا : قسم اس ذات کی کہ جس نے میرے بابا کو نبوت اور آپ(ع) کو انکی جانشینی کے ذریعے شرف بخشا ہے آج کھانے کیلے کچھ بھی موجود نہیں ہے دو دنوں سے گھر میں کھانے کیلے کوئی چیز نہیں ہے جو کچھ موجود تھا اسے میں نے اپنی ذات اور ااپنے دو بیٹوں حسن (ع) و حسین(ع) پر آپ کو ترجیح دی اور پیش کیا۔ امیر کائنات (ع) نے فرمایا: مجھے کیوں نہیں بتایا تاکہ میں کچھ نہ کچھ لے آتا؟ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کہا ؛ یا اباالحسن ب(ع) ے شک مجھے اپنے مالک سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ آپ سے ایسی چیز طلب کروں جو آپ کے پاس موجود نہ ہو”
ایک اور روایت میں ملتا ہے کہ
"قالت اسماء بنت عمیس لما اھدیت فاطمہ سلام اللہ علیہا الی علی ، لم نجد فی بیتہ الا رملا مبسوطا و وسادۃ حشوھا لیف و جرۃ و کوزا” (
اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ” جب امیر کائنات(ع) کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا تحفہ دیا تو حضرت علی (ع) کے گھر میں بچھی ہوئی ریت، کھجور کے پتوں سے بھرا تکیہ، پانی کا جگ اور کوزے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا” (احقاق الحق، ج۱۸، ص ۱۷۶.)
ان روایات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خاندان اہلبیت کس طرح سادہ اور معتدل زندگی گزارتے تھے۔
خاتمہ:
اس بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسان فطرتا ایک معاشرتی مخلوق ہے اور سماج میں اپنی معمولات زندگی میں ایکدوسرے کے محتاج ہیں.لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کی شخصیت کی تربیت ہو تاکہ وہ سماج میں ایک مفید فرد بن کر ابھرے .دوسری طرف اس بنیادی اور اہم کام کی اولین ذمہ داری سماجی ادارہ خاندان کی ہے جس میں رہن سہن اور کردار و رفتار کو عائلی نظام زندگی سے تعبیر کی جاتی ہے. آج اگر سماج میں جرائم نسبتا زیادہ ہیں اورجنسی بے راہ روی، قتل وغارت گری، چوری ، بے احترامی، حیوانیت اور سنگدلی میں معاشرہ جھگڑا ہو ا ہے اور گھریلو نا چاقیاں ، رشتہ داروں میں لڑائی جھگڑے، والدین سے بد سلوکی، خواتین سے ناروا سلوک اور طلاق جیسے مسائل معاشروں میں رونما ہو رہے ہیں تو یہ سب عائلی نظام زندگی کے اصولوں سے عدم آگاہی یا ان اصو لوں سے چشم پوشی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے. لہذا ان مسائل کے حل کیلے ہمیں عائلی نظام زندگی کے اصولوں سے آگاہی کیساتھ ساتھ ایک آئیڈل بھی چاہیے تاکہ ہمیں عملی طور پر ان اصولوں کا اطلاق سمجھ میں آ جائے. لہذا دیگر تمام امور کی طرح دین مقدس اسلام نے عائلی نظام زندگی کیلے بھی نمونہ عمل خاندان عصمت و طہارت کے گھرانوں کو قرار دیا. اسی وجہ سے ہم نے اس مقالہ میں عالمین کے خواتین کیلے نمونہ عمل ہستی خاتون جنت سلام اللہ علیہا کی سیرت کی روشنی میں عائلی نظام زندگی کے کچھ منتخب اصولوں کو بیان کرنے کی ادنی سی کوشش کی،جسکے بعد ہم ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عائلی نظام زندگی خوشگوار ومفید گزرے اور ہماری نسل نفع بخش ہو تو ہمیں خاص کر خواتین کو سیرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کو جاننے اور اسکو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے. اس تحریر کے بعد ہم نے جان لیا کہ سیدہ کونین سلام اللہ علیہا شوہر داری میں اس درجہ پر فائز تھیں کہ امیر کائنات ؑنے فرمایا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیکھ کر میرے غم واحزان ختم ہو جاتے تھے یا فرمایا فاطمہ سلام اللہ علیہا اطاعت الہی میں میرے لئے بہترین مددگار تھیں.اسی طرح گھریلو امور کو بجا لانے میں بھی سیدہ سلام اللہ علیہا پیش پیش تھیں یہاں تک کہ آپ کی مبارک ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے لیکن ان امور کیساتھ ساتھ عبادت الہی کو بھی خاص اہمیت دیتی تھیں. تربیت اولاد کے تناظرمیں دیکھیں تو آپ کے بوستان سے ایسے ایسے پھول و کلیاں کھلے جنکی خوشبو سے آج بھی کائنات معطر ہے آپ نے قول سے زیادہ عملی تربیت کا اقدام کیا تو نایاب گوہر ابھر کر عالم انسانیت کے سامنے ضوفشاں ہوئے. تو دوسری طرف امیر کائنات ؑبھی گھریلو امور میں بی بی سلام اللہ علیہا کی معاونت کرتے تھے اور آپ ایسا امر نہیں بجا لاتے تھے جس سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دکھ پہنچتی ہو یا انکو ناگوار گزرتی ہو ا. لہذا اگر ایک میاں بیوی کامیاب اور خوشگوار عائلی نظام زندگی استور کرنا چاہتے ہیں تو امیر کائنات اور سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کے گھرانے سے اپنے لئے نمونہ عمل لیں کیونکہ علیؑ و فاطمہ سلام اللہ علیہا کا گھر واقعا محبت وصمیمت کا باصفا محور تھا اور اور عائلی نظام زندگی کے اصولوں کی مجسم صورت تھی۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button