امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات مبارکہ کا مختصر خاکہ اور شان و منزلت
محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب المعروف "امام باقر(علیہ السلام)” ولادت 57 ہجری شہادت 114ھ بمقام مدینہ منورہ، مکتب تشیّع کے کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کی مدتِ امامت 19 برس تھی۔ آپ طفولیت میں واقعہ عاشورا میں حاضر تھے۔ (1)
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اپنے زمانے میں تشیّع کے فروغ کے لئے معرض وجود میں آنے والے مناسب تاریخی حالات کے بدولت عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جس کو آپ کے فرزند امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے عروج تک پہنچایا۔ آپ کا مدفن مدینہ میں ہے (2)۔ اکابرین اہل سنت نے امام باقر (علیہ السلام) کی علمی اور دینی شہرت کی گواہی دی ہے۔
ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں:
"ابو جعفر محمد باقر نے علوم کے پوشیدہ خزانوں، احکام کے حقائق اور حکمتوں اور لطائف کو آشکار کردیا۔ آپ نے اپنی عمر اللہ کی طاعت و بندگی میں گذار دی اور عرفاء کے مقامات میں اس مرتبے تک پہنچ گئے تھے کہ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس کی وضاحت سے قاصر ہیں اور آپ سے سلوک اور معارف میں کثیر اقوال نقل ہوئے ہیں۔(3)
نسب، کنیت اور القاب
محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب المعروف امام باقر (علیہ السلام) شیعیان آل رسول(ص) کے پانچویں امام، چوتھے امام امام سجاد، زین العابدین علیہ السلام کے فرزند ہیں؛ آپ کی والدہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ بنت الحسن ہیں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"كانت صديقة لَم تُدرَك في آل الحسن امراءةٌ مثلها؛ میری دادی (فاطمہ بنت حسن) سچی اور پاکیزہ خاتون ہیں جن کی مانند خاتون آل حسن میں نہيں ملی” (4)۔ امام باقر (علیہ السلام) پہلے ہاشمی ہیں جنہوں نے ہاشمی، علوی اور فاطمی ماں باپ سے جنم لیا۔ یا یوں کہئے یا پہلے علوی اور فاطمی ہیں جن کے والدین دونوں علوی اور فاطمی ہیں۔(5)
آپ کے القاب میں شاکر، ہادی، اور باقر مشہور ہیں جبکہ آپ کا مشہور ترین لقب باقر ہے۔ باقر کے معنی "علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والا (شگافتہ کرنے والا)” کے ہیں۔ یعقوبی رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو شگافتہ کیا (6) ۔آپ کی مشہور کنیت "ابو جعفر” ہے (7) ۔حدیث کے منابع میں آپ کو غالباً ابو جعفر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انگشتریوں کے نقش
امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں۔
"رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً” (پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ) (8) اور "الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِيعاً"۔(9)
ولادت
امام ابو جعفر محمد باقر (علیہ السلام) روز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے گو کہ بعض مصادر میں آپ کی تاریخ ولادت روز سہ شنبہ (منگل ) تین صفر المظفر ثبت کی گئی ہے۔ (10)
لفظ "باقر” کے لغوی معنی "شقّ” کرنے اور "کھولنے” "وسیع” کرنے نیز "چیرنے” اور "پھاڑنے” اور تشریح کرنے والے کے ہیں۔(11)
نام مبارک
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور لقب باقر مقرر فرمایا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے.(12) علاوہ ازیں آئمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی کے سلسلے میں رسول اللہﷺ کے دیگر ارشادات بھی جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں وہ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔(13)
شہادت اور مدفن
امام محمد باقر (علیہ السلام) سات ذوالحجۃ الحرام سنہ 114ھ کو رحلت کرگئے۔ (14)
امام محمد باقر(علیہ السلام) کی رحلت و شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں تاریخی اور حدیث میں متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کو کس شخص یا کن اشخاص نے شہید کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی مروانی بادشاہ) ہشام بن عبدالملک اس قتل میں براہ راست ملوث ہے۔(15) کچھ مؤرخین کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بن مروان ہے جس نے امام کو مسموم کیا۔(16)
بعض روایات میں حتی زید بن حسن کو آپ کے قاتل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو عرصۂ دراز سے امام کا کینہ اپنے دل میں رکھا ہواتھا۔ علامہ مجلسیؒ کی روایت کے مطابق امام صادق(ع) نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسین (علیہ السلام) کا ساتھ نہیں دیا اور عبداللہ بن زبیر کے ساتھ بیعت کی۔(17) اس نے میرے والد امام محمد باقر(علیہ السلام) کے ساتھ امامت کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقر (علیہ السلام) نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت دے دیئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا، مگر وہیں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا اور امام محمد باقر (علیہ السلام) کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام بن عبدالملک نے مل کر امام ؑکی شہادت کی سازش پر طویل غور و خوض کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امام کو ایک زین کا تحفہ دیا۔ امام ؑنے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید، میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شرانگیزی کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امام کی شہادت کا سبب بنی تھی۔ میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے۔ چنانچہ آپؑ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔(18)
چنانچہ مذکورہ زین امام محمد باقر (علیہ السلام) کی شہادت کا سبب بنی۔(19) گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبدالملک بن مروان نے ہی آپ کو مسموم کرکے شہید کردیا۔ ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔(20) بہر صورت امام محمد باقر(علیہ السلام) ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں رحلت فرما گئے ہیں۔(21) کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105ھ سے سنہ 125ھ تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امام ؑکی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپؑ کے سال شہادت کو سنہ 118ھ قرار دیا ہے۔
روایات میں موجودہ اختلاف کے باوجود، بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقر (علیہ السلام) کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جاسکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقر (علیہ السلام) کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز خاندان محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس بات میں شک و شبہے کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہشام بن عبدالملک امام باقر (علیہ السلام) کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔
فطری امر ہے کہ ہشام اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قابل اعتماد افراد ہی سے فائدہ اٹھا سکتا تھا، چنانچہ اس نے ابراہیم بن ولید جو ایک اموی و مروانی عنصر اور اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کا دشمن تھا، کی خدمات حاصل کر لے اور ابن ولید نے بھی اپنے تمام تر وسائل اور امکانات ایسے فرد کو فراہم کر دیئے جو خاندان رسالت کا فرد سمجھا جاتا تھا اور بغیر کسی رکاوٹ کے امام محمد باقر (علیہ السلام) کی زندگی کے اندرونی ماحول تک رسائی رکھتا تھا اور کوئی بھی اس کو اس رسائی سے روک نہيں سکتا تھا اور یوں وہ ہشام کے بزدلانہ منصوبے کو عمل جامہ پہنا کر امام ؑکو شہید کیا جاسکتا تھا۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) جنت البقیع میں اپنے والد امام زین العابدین اور والد کے چچا کے چچا امام حسن مجتبی( علیہما السلام) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ (22)
ازواج اور اولاد
تاریخی منابع میں مروی ہے کہ ام فروہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کی زوجہ اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔ نیز آپؑ کی ایک زوجہ امّ حکیم بنت اسید ثقفی تھیں جو امام(علیہ السلام) کے دو فرزندوں کی ماں تھیں جبکہ آپ کے تین دوسرے فرزندوں کی ماں ام ولد تھیں۔(23)
اولاد
امام محمد باقر(علیہ السلام) کی سات اولادیں تھیں: 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں جن کے نام کچھ یوں ہیں: جعفر بن محمد [امام جعفر صادق (علیہ السلام)] اور عبد اللہ بن محمد، جن کی والدہ کا نام ام فروہ بنت قاسم بن محمد ہیں۔
ابراہیم بن محمد اور عبید اللہ بن محمد جنکی والدہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں؛ یہ دونوں طفولیت ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ علی، زینب اور ام سلمہ، جن کی والدہ ام ولد تھیں۔(24)
کربلا میں حاضری
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے طفولیت کی زندگی (چار سال تک) اپنے والدین اور دادا امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ گذار دی۔
آپ واقعۂ عاشورا کے دوران کربلا میں موجود تھے اور آپؑ خود ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: "میں چار سال کا تھا جب میرے جدّ امام حسین (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا اور مجھے آپؑ کی شہادت بھی یاد ہے اور وہ سارے مصائب بھی جو ہم پر گذرے ہیں۔(25)
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا سلام
شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام محمدباقر (علیہ السلام) نے فرمایا: ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا؛ تو انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا: تم کون ہو؟ (یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے)۔
میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔
کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔
پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔
اس کے بعد جابر نے کہا: بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔
میں نے کہا: و علیٰ رسول اللّٰہ السلامُ ورحمۃُ اللہ و برکاتُہ؛ لیکن وہ کیسے اے جابر!
جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا جب آپﷺ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤگے، یہاں تک کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لوگے جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔(26)
امامت
امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، الباقر (علیہ السلام) سنہ 95ھ میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ھ (یا 117 یا 118ھ) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک آل رسول (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کے پیروکاروں کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔
دلائل امامت
جابر بن عبداللہ انصاری ؒسے مروی ہے: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے بعد کےآئمہ علیہم السلام کے بارے میں استفسار کیا تو آپؑ نے فرمایا: علیؑ کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن و حسین(علیہما السلام)، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور۔۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) ہیں۔(27)
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللّٰهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بیان کئے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں۔(28) امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بیان کئے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں۔(29)
عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔(30)
امام زین العابدین (علیہ السلام) لوگوں کی توجہ مکرر در مکرر امام باقر (علیہ السلام) کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے آپ سے دریافت کیا کہ آپ "محمد باقر” کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتیٰ کہ ہمارے قائم [حضرت مہدی (علیہ السلام)] قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں۔چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔(31)
شیخ مفید رقم طراز ہیں: امام محمد باقر (علیہ السلام) فضل، علم، زہد اور جود و سخاء میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مدح کرتے تھے۔عوام و خواص آپ کا احترام کرتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الٰہیہ اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ میں امام حسن اور امام حسن (علیہما السلام) کے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقر (علیہ السلام) جتنی گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) نہیں چھوڑی ہیں۔ امام باقر (علیہ السلام) کے زمانے میں باقی ماندہ صحابہ جنہیں امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں شرف حضور نصیب ہوا، امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے تھے اور آپ ؑسے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہائے مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پُر نور سے فیضِ کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپؑ کی فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپؑ کی شان میں قصائد انشاد کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزين کیا کرتے تھے۔(32)
آپ کے ہم عصر خلفاء
امام محمدباقر(علیہ السلام) کا عہد امامت پانچ اموی مروانی حکمرانوں کا دور تھا:
* ولید بن عبدالملک (86 تا 96ھ)
* سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99ھ)
* عمر بن عبدالعزیز (99 تا 101ھ)
* یزید بن عبدالملک (101 تا 105ھ)
* ہشام بن عبدالملک (105 تا 125ھ)
آپ کے ہم عصر اموی مروانی خلفاء میں عمر بن عبدالعزیز کے سوا جو کسی حد تک عدل و انصاف کے راستے پر گامزن ہوئے ،باقی خلفاء عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے آل رسول (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کے شیعوں سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویئے اور انتقامی اقدامات بکثرت انجام پاتے تھے۔
ادارہ عالمی اہل بیت(علیہ السلام) اسمبلی ـ ابنا ـ
ترجمہ و تصحیح: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ لوئیس معلوف، ضاہر نجم معلوف یسوعی بن نقولا، المنجد في اللغۃ، الطبعۃ الثالثة والثلاثون، مطبوعہ دارالمشرق بیروت ۔ لبنان 1986۔
2۔ یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔
3۔ علامہ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج1، ص469؛ شیخ مفید ـ ابن المعلم، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حُجج اللہ علی العباد، ص508۔
4۔ ابن حجر الہیتمی، احمد بن الحجر، الصواعق المحرقۃ، ص201۔
5۔ شیخ مفید، الارشاد، ص508؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحارالانوار، ج46، ص215۔
6۔ شیخ مفید، الارشاد، ص508۔
7۔ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔
8۔ طبری، محدث شیخ ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامۃ، ص216۔ (یہ طبری شیعہ علماء میں سے ہیں جبکہ تاریخ طبری کے مؤلف ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب طبری ہیں)
9۔ (الانبیاء، 89) علامہ مجلسی، بحارالانوا، ج46، ص345۔
10۔ ماخوذ از "أَنَّ القُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً” (بقرہ، 158)، اربلی، الاِرْبِلی، علی بن عیسیٰ ہَکّاری (المعروف بہ بہاء الدین الاِرْبِلی)، کشف الغُمَّۃ فی معرفۃ الآئمۃ، ج2 ص133۔
11۔ علامہ مجلسی، بحار، ج46، ص212۔
12۔ قمی رازی، علی بن محمد بن علی خزاز، کفایۃ الاثر، صص144-145۔
13۔ دیکھئے: فٹ نوٹ نمبر 27۔
14۔ نوبختی، ابوالحسن حسن بن موسىٰ، فِرَقُ الشیعۃ، ص61؛ اعلام الوری میں امین الاسلام طبرسی نے لکھا ہے کہ کہ آپ ربیع الاول کے مہینے میں شہید ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259۔
15۔ الکفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی بن الحسن بن محمد العاملی، المصباح، ص691۔
16۔ طبری، دلائل الامامۃ، ص216؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ابو جعفر محمد بن علی بن شہر آشوب بن ابو نصر بن ابو الجیش ساروی، ج4، ص228۔
17۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوارج 47 ص294۔
18۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج46 ص329۔
19۔ الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، 2137۔
20۔ نوبختی، فرق الشیعۃ، ص 61۔
21۔ الیعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289؛ المسعودی، علی بن الحسین الشافعی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص219۔
22۔ نوبختی، فرق الشیعۃ، ص61؛ الکلینی، الکافی، ج2، ص372؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص156؛ طبری، دلائل الامامۃ، ص216، الطبرسی، أمین الاسلام فضل بن الحسن، إعلام الوری، ص259، الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص327؛ سبط ابن الجوزی، سبط ابن الجوزی، أبو عبد اللہ شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذہبی (شمس الدین الذہبی کا پڑپوتا)، تذکرۃ الخواص 306، الکفعمی، المصباح (یا جُنَّۃ الأمانِ الْواقیَۃُ وَ جَنَّۃ الإیمان الباقیَۃُ)، ص691۔
23۔ شیخ مفید، االارشاد، ج2، ص524۔
24۔ شیخ مفید، وہی ماخذ، امین الاسلام طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، ص۔375۔
25۔ الیعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔
26۔ المفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ق، ص382؛ نیز دیکھئے: ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج54، ص276۔
27۔ قمی رازی، کفایۃ الاثر، صص144-145؛ نیز دیکھئے: شیخ مفید، الاختصاص، ص211؛ صافی گلپایگانی، لطف اللہ، منتخب الأثر، باب8، ص97؛ الطبرسی، إعلام الوریٰ بأعلام الہُدیٰ، ج2، ص182-181؛ حُرّ العاملی، محمد بن الحسن، اثبات الہُداۃ بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔
28۔ علامہ مجلسی، بحارالأنوار، ج23، ص290؛ حُرّ عاملی، اثبات الہداۃ، ج3، ص123؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج1، ص283۔
29۔ علامہ مجلسی، بحارالأنوار، ج36، ص337، قمی رازی، کفایۃ الأثر، ص157۔
30۔ قندوزی حنفی، حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی بلخی حنفی، ترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودۃ، (مطبوعہ دارالاسوہ ـ تہران 1416ھ) ج3، ص281 و ص283؛ الباب السادس والسبعون في بيان الائمۃ الاثنی عشر بأسمائہم”
31۔ قمی رازی، کفایۃ الاثر، ص237۔
32۔ شیخ مفید، الارشاد، ص509۔