قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن و اہل بیتؑ کا باہمی تعلق (حدیث ثقلین کی روشنی میں)حصہ دوم

فاضل جامعۃ الکوثر ثاقب علی ساقی
باب دوم
دوسرے آسمانی مصاحف پر قرآن مجید کی فوقیت
اگر چہ قرآن مجید بھی اللہ تعالی کی طرف سے دوسرے آسمانی مصاحف کی طرح انسان کیلئے ہدا یت کا نظام لیکر نازل ہوا ہے۔لیکن قرآن مجید کئی لحاظ سے دوسرےآسمانی مصاحف پر فوقیت رکھتا ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ قرآنِ مجید ا ور دوسرے آسمانی مصاحف میں امتیازات پر قلم فرسائی کرتے ہیں۔
قرآن مجید معجزہ خالدہ
حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بھی دو سرے انبیاء کی طرح کفار و مشر کین کے سامنے بہت سارے معجزات پیش کئے لیکن وہ معجزات ایسے تھے کہ جو صرف انہیں تک محد ود تھے،تاکہ دیکھنے والے افراد ا ن معجزات کو دیکھ کر ہدایت پائیں ا ور ا ن پر اتمام حجت ہوجائے۔لیکن قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے رسالت مآبؐ کو دیا جانے والا قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت ا ور ا ن پر اتمام حجت کرنے کیلئے ایک زندہ معجزہ ہے کہ جس نے قیامت تک آنے والے جن و انس کو عاجز بنادیا ہے۔یہ وہ معجزہ ہے کہ جو قیامت تک با طل طاقتو ں کو للکار رہی ہے جبکہ کو ئی اس کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔قرآن مجید میں رب ذوالجلال فرماتے ہیں: قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہیرا(1) (ِکہدیجیے: اگر جن و انس سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل لا نہیں سکیں گے اگر چہ و ہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔)
ایک تو خود یہ کلام معجزہ ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کلام ایک ایسے انسان کی زبان سے جاری ہوتا ہے کہ جس نے کبھی اپنے زندگی میں کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی جبکہ ایک ایسا فرد کہ جو کسی استاد کے سامنے بیٹھ کر تعلیم حاصل نہ کرے کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی زبان سے ایسا کلام جاری ہو۔ یہ خود ایک طرح کا معجزاتی پہلو ہے۔ا ن آیات میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ا ن آیا ت میں غور و فکر کریں ا ور قرآن مجید کے معجزاتی پہلو کو خود درک کریں۔ جن جہات سے ہم قرآن مجید کو معجزہ سمجھتے ہیں انہیں جہات سے یا ا ن میں سے بعض جہات سے دوسرے آسمانی مصاحف بھی معجزہ ہیں لیکن باقی آسمانی مصاحف میں ا ور قرآن مجید میں فرق یہ ہے کہ قرآن مجید فقط معجزہ نہیں بلکہ معجزہ خالدہ ہے یعنی یہ وہ معجزہ ہے کہ جس کا یہ معجزا تی پہلو قیامت تک رہے گا جبکہ دوسرے مصاحف تحریف ا ور دو سرے وجوہات کی بنا پر اپنا معجزاتی پہلو اس وقت کھو چکے ہیں۔
تعلیمات قرآن کا زمان و مکان کے لحاظ سے آفاقی ہونا
قرآن مجید قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے ہدایت کا نظام لیکر نازل ہوا ہے۔قرآن مجید کی تعلیمات کسی خاص قوم،قبیلے یا خطے کے افراد کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ قرآن مجید کی تعلیمات زمان و مکان کے لحاظ سے آفاقی ہیں۔دینِ اسلام کے بعد قیامت تک کو ئی دین آنے والا نہیں ہے،ر سالت مآبؐ کے بعد کوئی نبی و رسول قیامت تک آنے والا نہیں ہے ا ور اسی طرح قرآن مجید کے بعد قیامت تک اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کیلئے کوئی ا ور کتاب آنے والی نہیں ہے بلکہ صرف یہی منشورِ کا مل ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے قیامت تک کے آنے والے انسانوں کیلئے ہدایت کا نظام رکھا ہے۔دنیا میں موجود ہر فرد قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے خوا اس کا تعلق کسی بھی خطے، مذہب،زبان ا ور رنگ و نسل سے ہو۔
قرآن مجید میں خالق کائنات فرماتے ہیں: قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا (2)کہدیجیے:ا ے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔)
قرآن مجید ہر لحاظ سے جامعیت رکھتا ہے ا ور جس شعبے کے ساتھ بھی انسان تعلق ر ہے ضروری ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کے تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے قانون سازی کرے۔
قرآن مجید کا تحریف سے پاک ہونا
جب قرآن مجید قیامت تک آ نے والے انسانوں کیلئے ہدایت کا نظام ہے لھذا ضروی ہے کہ قرآن مجید ہر قسم کے تحریف سے پاک ہو،ا ور اسی وجہ سے قرآن مجید کو تحریف سے پاک رکھنے کی ذمہ دا ری خود اللہ تعا لی نے اپنے ذمہ لی ہے۔جبکہ دوسرے آسمانی مصاحف ا ور شریعتوں کے منسوخ ہونے کا سب سے بنیادی وجہ تحریف ہی ہے،لیکن قرآن مجید سے متعلق خود اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ(3) (بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے ا ور ہم ہی ا س کی حفاظت کرنے والے ہیں۔)
تاریخ کے مطالعے سے معلو م ہوتا ہے کہ بہت سارے افراد نے قرآن مجید میں تحریف کی کوشش کی ہے لیکن اپنے اس کوشش میں ناکام رہے۔آج بھی وہی قرآن اپنے اصلی شکل و صورت پر باقی ہے کہ جس صورت میں رسالت مآبؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوا تھا ا ور پوری دنیا میں جتنے بھی مسلمان ہیں سب کے ہاتھوں میں ایک ہی قسم کا قرآن مجید موجود ہے۔ میرے نظر میں قرآن مجید میں تحریف کے نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ با وجود اس کے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں دسیوں فرقے وجود میں آئے ہیں لیکن قر آن سب کا ایک ہی ہے ا ور جس کسی نے بھی قرآن مجید میں کمی یا بیشی کا د عوی کیا ہے سب نے مل کر اس کو جھوٹا کہا ہے۔
جہاں تک دوسرے آسمانی مصاحف کی بات ہے تو ا ن میں ایسا نہیں ہےبہت سارے آ سمانی مصاحف تو آج موجود ہی نہیں ہیں ا ور اگر چند ایک موجود بھی ہیں تو وہ تحریف کے شکار ہو چکے ہیں۔ یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ خود انہیں مذاہب کے محققین کہ جو ا ن کتابوں کے پیرو ہیں وہ اس بات کو تاریخی حقائق کی بنیاد پر تسلیم کرتے ہیں کہ ا ن کتابوں میں تحریف ہو ئی ہے۔تمام اسلامی مذاہب اگر چہ نظر یاتی اختلافات رکھتے ہیں لیکن سب کے پاس اللہ تعالی کا کتاب یعنی قرآن مجید ایک ہی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی تورات سے متعلق بیا ن فرماتے ہیں کہ:
وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ۚ فَخُذۡہَا بِقُوَّۃٍ وَّ اۡمُرۡ قَوۡمَکَ یَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِہَا ؕ سَاُورِیۡکُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِیۡنَ (4)
(ا ور ہم نےان کےلیے الواح میں ہر قسم کی نصیحت لکھی تھی ا ور ہر چیز کو بیا ن کیا تھا، پس اسے مضبوطی سے تھام لو ا ور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اچھی طرح اس پر عمل کریں جلد ہی فاسقوں کی جگہ ہم تمھیں دکھلادیں گے۔ )
تورات انہیں تعلیمات کا نام ہے۔اب ان الواح کی تعداد کتنی تھیں؟قرآن مجید کی آیت مبارکہ میں تو جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے کہ جس سے اجمالی طور پر زیادہ سے زیادہ ہم یہی نتیجہ لے سکتے ہیں کہ کم ا ز کم ا ن الواح کی تعداد تین یا تین سے زیادہ تھیں لیکن بائبل (5)نے ا ن الواح کی تعداد دو بتا ئی ہے کہ جو الواح پتھر کی تھی۔
بائبل کے کتاب خروج باب نمبر 31 اور آیت میں 18 میں ان الواح کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے کہ:
اور جب خداوند کوہ سینا پر موسی سے باتیں کر چکا تو اس نے اسے شہادت کی دو لوحیں دیں۔وہ لوحین پتھر کی تھی اور خدا کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔ (6)
قرآن مجید میں اللہ تعا لی ارشاد فرماتے ہیں: فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ (7) (ہلاکت ہے ا ن لوگوں کے لیے جو }توریت کے نام سے{ ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر اس کے بارے میں دعوی کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تا کہ اس کے ذریعے ایک ناچیز معاوضہ حاصل کریں، پس ہلاکت ہو ا ن پر اس چیز کی وجہ سے جسے ا ن کے ہاتھوں نے لکھا ا ور ہلاکت ہو ا ن پر اس کما ئی کی وجہ سے۔)
استاد محترم مفسر قرآن آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی الکوثر فی تفسیر القرآن میں کہتے ہیں:
” توریت میں تحریف اب ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ خود یہودی بھی اب یہ کہنے کی جرائت نہیں کر سکتے کہ یہ توریت من و عن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،بلکہ جدید تحقیقات سے تو یہا ں تک عقدہ کشائی ہو ئی ہے کہ توریت کے قوانین حمورابی ا ور بابلی قوانین(حمورابی قدیم بابل کا ایک بادشا ہ، جس نے سب سے پہلے قوا نین حکومت وضع کیے۔ ) سے ملتے جلتے ہیں۔” (8)
جہاں تک انجیل کی بات ہے انجیل کے تحریف میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ موجودہ بائبل میں جو چار اناجیل ہمیں نظر آتے ہیں حقیقت میں تو یہ حضرت عیسیؑ کا زندگی نامہ ہے،آپؑ کے سیرت کی کتابیں ہے نہ کہ خود خدا کا کلام ہے۔ان میں قوانین خدا کا ذکر نہیں ہے نہ کہیں اعتقادی بحث ہے بلکہ فقط حضرت عیسی کی سیرت اس میں درج ہے،آپؑ نے جو معجزات کئے ہیں یا کچھ مباحثے آپؑ کے اس میں موجود ہیں۔خود بائبل بھی یہودیوں اور مسیحیوں کا ایک نہیں ہےبلکہ خود مسیحیوں کا بائبل بھی ایک نہیں ہے کیتھولک بائبل میں کتابوں کی تعداد 73 ہے جبکہ پروٹسٹنٹ بائبل میں کتب کی تعداد 66 ہے۔
متن قرآن کا اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونا
قرآن مجید کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ نہ صرف قرآن کے مطالب اللہ تعالی کی طرف سے ہیں بلکہ خود الفاظ و جملات کا چناؤ بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہے ا ور یہ الفاظ و جملات وحی کے ذریعے سے آپؐ پر نازل ہوئے ہیں۔قرآن مجید کے ظاہرِ آیت سے معلو م ہوتا ہے کہ تورات کے الفاظ و جملات بھی اللہ تعالی کی طرف سے تھے لیکن بعد میں یہودیوں نے ا ن الفاظ و جملات کو تبدیل کیا۔ بعض مطالب، الفاظ اور آیات کو تو بالکل تورات سے ہی نکال دیا۔ جبکہ قرآن مجید جن الفاظ و آیات کے سا تھ آپؐ پر نازل ہوا ہے آج بھی انہیں الفاظ و آیات کے ساتھ موجود ہے ا ور اس میں کسی قسم کی کو ئی تحریف نہیں ہو ئی ہے۔
جہا ں تک زبور کی بات ہے زبور اللہ تعالی کی اس حمد و ثنا پر مشتمل ہے کہ جو مناجا ت حضرت داؤدؑ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کیا کرتے تھے البتہ ہوسکتا ہے وہ مناجات بذریعہ وحی بتادی گئی ہوں، کیونکہ قرآن مجید کے الفاظ یہی ہیں کہ و اٰتَینَا دَاودَ زَبُورا (9)(اور داؤد کو ہم نے زبور عطا کیا۔)لیکن آج وہ اپنی اصلی صورت میں موجود نہیں ہیں۔اس وقت بائبل میں موجود زبور کہ جسے مزامیر داودؑ یا زبو (Psalms) بھی کہتے ہیں 150 مناجات پر مشتمل ہے۔
انجیل کے الفاظ وجملات کا اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے میں محققین کا اختلاف ہے۔اس سے متعلق دقیق تحقیق کے بغیر ہم کسی بھی نظریے کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ لیکن قرآن مجید کے ظاہری آیات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انجیل فقط تعلیمات کا نام نہیں ہے بلکہ اس کتاب کا نام ہے جو اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰؑ کو عطا کیا جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد فرماتے ہیں:
نَزَّل عَلیکَ الکِتَابَ بِالحَقِّ مُصدِقاً لِما بَینَ یَدیہِ وَ اَنزَلَ التّوراۃَ و الاَنجیل (10)
(اس نے حق پر مبنی ایک کتاب آپ پر نازل کیا جو سابق کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس نے تورات و انجیل کو نازل کیا۔)
لیکن اگر یہ بات مان بھی لیں کہ انجیل کے الفاظ و جملات بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہیں پھر بھی یہ مسلم ہے کہ آج جو انجیل کے نام سے مختلف تالیفات ہمارے سامنے ہیں یہ وہ نہیں ہے بلکہ یہ حضرت عیسیؑ کی سیرت ہے کہ جس کو ہر مؤلف نے اپنے انداز سےاپنے معلومات کے مطابق تدوین کیا۔
سننِ قرآن فطرت کے آئینہ دار
قرآن کریم میں موجود قوانین در حقیقت فطرت کے آئینہ دار ہیں۔قوانینِ قرآن میں سے کوئی ایک قانون بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کو فطرتِ انسان قبول نہ کر تا ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن مجید نے انسان کی فطر ت کو اجاگر کیا اور انسان کو اپنی فطرت کی طرف متوجہ کیا۔حتی کہ اسلام کو اللہ تعالی نے دین فطرت کہا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعا لی فرماتے ہیں: فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (11)
(پس ا ے نبی (یک سوء ہو کر اپنا رخ دین) خدا (کی طرف مرکوز رکھیں،) یعنی (اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔)
جہاں تک تورات و ا نجیل کی بات ہے تو تورات و انجیل جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ تھے وہ بھی فطرت کے آئینہ دار ہی تھے لیکن موجودہ تورات اور انجیل میں کچھ ایسے واقعات اوراحکامات موجود ہیں کہ جو ا ز سر نو فطرت انسانی کے خلاف ہیں۔ کچھ ایسی باتیں اللہ تعالی کے بار ے میں موجود ہیں کہ جو اللہ تعالی کے شایانِ شان نہیں ہیں،بعض انبیاء کے کچھ ایسے واقعات تورات و انجیل میں موجود ہیں کہ جو انبیاء کی کھلی توہین شمار ہوتی ہے۔موجودہ بائبل کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ انبیاء وہ ہستیاں ہیں کہ جو نعوذ باللہ اس لائق ہوں کہ ان کی اتباع کی جائے۔ موجودہ بائبل انبیاء پر تہمتوں سے پر ہے جبکہ قرآن مجید اس طرح کے غیر فطری چیزوں سے پاک ہے۔انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے ترقی و کمال کی طرف ہدایت رکھا دیا ہے۔ا ب انسان جس چیز میں ترقی و کمال کو پاتا ہے اس کی طرف چلاجاتا ہے جبکہ انسان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جس نے انسان کے اندر ترقی و کمال ا ور ان کی طرف ہدایت کا نظام رکھا ہے اسی نے ترقی و کمال کیلئے ہدایت کا نظام بنا کر قرآن کی صورت میں دیا ہے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ تورات و انجیل کے حقیقی تعلیمات بھی فطرت کے آئینہ دا ر تھے لیکن موجو دہ تحریف شدہ تورات و انجیل کے اکثر تعلیما ت و ہ نہیں ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئے تھے۔

حوالہ جات

1-القرآن الکریم /سورۃ الاسراء/88
2-القرآن الکریم /سورۃ الاعراف/158
3-القرآن الکریم /سورۃ الحجر/9
4-القرآن الکریم /سورۃ الاعراف/145
5-بائبل کو کتاب مقدس بھی کہتے ہیں۔لفظ بائبل یونانی زبان کا لفظ ہے کہ جس کا معنی ہے کتب یعنی کتابوں کا مجموعہ۔یہ مجموعہ مختلف صحیفوں پر مشتمل ہے۔
اس مجموعے کے دو حصے ہیں ایک کو عہد قدیم کہتے ہیں اور دوسرے کو عہد جدید کہتے ہیں۔عہد قدیم میں انجیل سے پہلے جو یہودیوں کی مقدس صحیفے ہیں وہ شامل
ہیں کہ جن میں سے بعض انبیاء کے ہیں بعض یہودیوں کی عظیم شخصیات کے ہیں۔عہد قدیم کے پہلی پانچ کتابیں(پیدائش،خروج،احبار،گنتی اوراستثنا)تورات
کہلاتی ہیں۔عہد جدید اناجیل اربعہ، حواریوں اور پولس کے خطوط اور مکاشفہ پر مشتمل ہے۔
6-بائبل،کتاب خروج،باب 31،آیت/18
7-القرآن الکریم /سورۃ البقرہ/79
8-نجفی،محسن علی،الکوثر فی التفسیر القرآن،ج1،ص366(مصباح القرآن ٹرسٹ،لاہور،2014ء)
9-القرآن الکریم/سورۃ النساء/163
10-القرآن الکریم/آل عمران/3
11-القرآن الکریم /سورۃ الروم/30

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button