قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن و اہل بیتؑ کا باہمی تعلق (حدیث ثقلین کی روشنی میں) حصہ پنجم

فاضل جامعۃ الکوثر ثاقب علی ساقی
باب پنجم
مقام اہل بیتؑ از نظر قرآن و حدیث

مقام اہل بیتؑ
طول تاریخ میں ناصبی فکر رکھنے والے افراد نے یہ کوشش کی ہے کہ جیسے بھی ہو اہل بیتؑ کے مقام و منزلت کو گھٹایا جائے اور اہل بیتؑ کے فضائل کو محو کردیا جائے لیکن اللہ کے نور کو پھونکوں کے ذریعے سے نہیں بجھایا جاسکتا۔اہل بیتؑ کے مقام کو نیچا دیکھانے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے گئے مثلا اہل بیتؑ کی شان میں موجود احادیث بیان کرنے پر پابندی لگانا،اہل بیتؑ کے مقابلے میں جعلی شخصیات بنانا،اسی طرح اہل بیتؑ کے ساتھ دوسرے افراد کو شامل کرنا کہ یہ بھی اہل بیتؑ میں سے ہیں تاکہ اس طرح دوسرے افراد کی شخصیت بن جائے اور اہل بیتؑ کا مقام مجمل ہوجائے یا لوگوں کی نظر وں میں اس اہمیت کے حامل نہ رہے جیسا ہونا چاہئے لیکن ان میں سے کوئی بھی حربہ کامیاب نہ ہوابس یہ کہ ابدی بدبختی کا طوق گلے میں ڈال کر دنیا سے چلے گئے۔اس فصل میں اختصار کے ساتھ قرآن و احادیث میں اہل بیتؑ کا جو مقام و منزلت بیان ہوا ہے اس کا ذکر کریں گے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ امت میں اہل بیتؑ کا کیا مقام و منزلت ہے۔
اہل بیتؑ صاحبان عصمت و طہارت
اہل بیتؑ وہ ہستیاں ہیں کہ جو عصمت و طہارت کے مقام و منزلت پر فائز ہیں۔قرآن مجید میں خداوندتبارک و تعالی اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا(1) (اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔)
شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں حدیث کساء تواتر کی حد تک نقل ہے اور مختلف احادیث میں مختلف مقامات پر اس واقعے کی رونمائی واضح ہے لھذا عین ممکن ہے کہ یہ واقعہ کئی بار اور کئی مقامات پر رونما ہوا ہو کیونکہ رسول اللہؐ نے اہمیت کے پیش نظر کئی دفعہ اہل بیتؑ کو امت کے سامنے متعارف کرنے کیلئے ایسا کیا ہو۔جیسے صحیح مسلم کی ایک صحیح حدیث میں ملتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہ کے گھر میں رونما ہوا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ نُمَيْرٍ – وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ – قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (2) (عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم ؐ صبح کے وقت نکلے، آپ کے جسد اطہر پر کجاووں کے نقوش والی کالی اون کی ایک موٹی چادر تھی۔ حضرت حسنؑ آئے تو آپ نے انھیں چادر کے اندر لے لیا، پھر حسین ؑ آئے تو وہ بھی اندر داخل ہو گئے، پھر فاطمہ ؑ آئیں تو انھیں بھی اندر لے لیا، پھر حضرت علی ؑ آئے تو انھیں بھی اندر لے لیا، پھر فرمایا ( یہ آیت پڑھی: ) اللہ چاہتا ہے کہ ( ہر قسم کی ) ناشایان بات کو تم سے دور رکھے۔ )
اہل بیتؑ امت وسط
قرآن مجید کے کئی سارے آیات میں جہاں اہل بیتؑ کی شان بیان ہوئی ہے وہیں ان میں سے ایک آیت سورہ بقرہ آیت نمبر 143 ہے۔اس آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا(3) (اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنادیاتاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔)اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام صادقؑ سے مروی ہے کہ:
نَحْنُ الْاُمَّۃُ الْوُسْطٰی وَ نَحْنُ شُھْدَائُ اللّٰہِ عَلَی خَلْقِہٖ وَ حُجَجُہُ فی ارضِہ۔(4) (ہم ہی امت وسط ہیں اور ہم ہی مخلوق خدا پر اس کے گواہ ہیں اور زمین میں اس کی طرف سے حجت ہیں۔)
دعا آدم اور اہل بیتؑ
قرآن مجید کی ایک اور آیت کہ جس سے اہل بیت کے مقام و منزلت کا علم ہوتا ہے وہ سورہ بقرہ آیت نمبر 37ہے۔اس آیت میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : فَتَلَقٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ(5) )پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔) اہل سنت کے معروف و مشہور عالم دین جلال الدین سیوطی کہ اہل سنت جن کو ایک مجدد الف کی حیثیت حاصل ہے، اپنی تفسیر الدرالمنثور میں کئی روایات اس بارے میں لاتے ہیں کہ یہاں اس آیت میں کلمات سے مراد وہ کونسے کلمات تھے کہ جو اللہ تعالی کی طرف سے آدمؑ پر القا ہوئے اور انہیں کلمات کے سبب اللہ نے آدم کی توبہ قبول فرمائی۔ان روایات میں سے ایک روایت ابن نجار نے ابن عباس سے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول خدا ﷺ سے ان کلمات کے بارے میں سوال کیا جن کی وجہ سے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا:سَألَ بِحَقِّ محمد و علی و فاطمۃ و الحسن و الحسین اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ فَتَابَ عَلَیْہِ۔(6) (آدم نے محمد علی فاطمہ حسن اور حسین علیہم السلام کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ میری توبہ قبول کی جائے۔ چنانچہ ان کی توبہ قبول ہوئی۔ )
مودت اہل بیت ؑاجر رسالت
اہل بیتؑ وہ ہستیاں ہیں کہ قرآن مجید میں باقاعدہ سے جن کی مودت و محبت کو اجر رسالت قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: ذٰلِکَ الَّذِیۡ یُبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ(7) (یہ وہ بات ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں، کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے۔) اس آیت میں اللہ تعالی نے قربی ٰکا لفظ استعمال کیا ہے اب قربی کا یہاں کیا معنی ہے اس بارے میں مفسرین کے درمیان کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف مفسرین اس حوالے سے مختلف نظر رکھتے ہیں۔ بعض نے اس سے مراد قریش لیا ہے جبکہ بعض نے قربی کو تقریب کے معنی میں لیکر قربت الہی مراد لیا ہے لیکن صحیح نظریہ یہی ہے کہ یہاں اس آیت میں قربی سے مراد کوئی اور نہیں ہیں بلکہ اہل بیتؑ ہیں۔اس بارے میں کئی صحابہ سے روایات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے نظریات کی نسبت یہ نظریہ آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ امام علی ؑسے مروی ایک روایت میں موجود ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
فینا فی ال حم ایۃ انہ لا یحفظ مودتنا الا مؤمن ثم قرأ:قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی۔(8) (سورۃ ) حم میں ہماری شان میں ایک آیت ہے (جس کے تحت) ہماری محبت کی حفاظت صرف مؤمن کرے گا۔ پھر آیہ مودت کی تلاوت فرمائی۔) اس آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے کسی اور چیز کو اجر رسالت قرار نہیں دیا بلکہ اہل بیتؑ کی مودت کو اجر رسالت قرار دیا ہے لھذا اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اہل بیتؑ کس مقام و منزلت کے مالک ہے۔یعنی یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی مودت و محبت کو اجر رسالت قرار دیا ہے۔
محبت اہل بیتؑ سے مراد فقط یہ نہیں ہے کہ ہم اہل بیتؑ سے عقیدت رکھیں اور ان کو ایک بلند مقام و مرتبے پر فائز ہستیاں مانیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے کچھ تقاضے ہیں اگر ہم نے ان تقاضوں کو پورا کیا تو گویا ہم اہل بیتؑ سے محبت رکھتے ہیں لیکن اگر ہم فقط عقیدت اہل بیتؑ سے رکھیں اور حدود خداوندی کا خیال نہ رکھیں،کام وہی کریں جو اہل بیتؑ کے دشمن کرتے ہیں مطلب نام حسینؑ کا لیں اور کام یزید کا کریں،ساتھ وقت کے یزید کا دیں تو یہ مودت و محبت کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ اہل بیتؑ سے دوری،غداری و نفاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ: ألزموا مودَّتنا أهل البيت فإنه من لقي اللّٰه وهو يودنا دخل الجنة بشفاعتنا والذي نفسي بيده لا ينفع أحداً عمله إلا بمعرفتنا و اداءحقنا.(9)
( تم لوگوں پر ہم اہل بیتؑ کی مودت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔پس جو اس حال میں اللہ تعالی سے ملاقات کرے کہ وہ ہم سے مودت رکھتا ہو ہماری شفاعت سے وہ جنت میں داخل ہوگا۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی کو بھی اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا سوائے وہ کہ جو ہماری معرفت رکھتا ہو اور ہمارے حق کو ادا کیا ہو۔)
ایک اور روایت میں رسول اللہؐ سے مروی ہے کہ:
و الذی نفسی بیدہ لا یبغضنا اھل البیت احد الا ادخلہ النار(10) (اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!جو شخص میرے اہل بیت سے بعض رکھے گا،اللہ اسے دوزخ میں ڈالے گا۔)
ایک حدیث میں تو یہاں تک رسول اللہؐ بیان فرماتے ہیں کہ: من أبغضنا أهل البيت حشره اللّٰه يوم القيامة يهوديا (11)
(جو ہم اہل بیت کے ساتھ بغض رکھے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو یہودی محشور کرے گا۔)
آیت مباہلہ اور اہل بیتؑ
جب نجران کے عیسائی علماء جو کہ رسول اللہؐ کے ساتھ مناظرے کیلئے مدینہ آئے تھے انہوں نے جب ان دلائل کے ماننے سے انکار کیا کہ جو رسول اللہؐ نے ان کے سامنے پیش کیے تو اللہ تعالی کی طرف سے ان کے ساتھ مباہلہ کرنے کیلئے یہ آیت نازل ہوئی:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِین(12) (آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔) آیت مباہلہ کے ذیل میں جو واقعہ رونما ہوا یہ ہر حوالے سے غور طلب ہے بالخصوص آیت میں نساء،ابناء و انفسنا کے الفاظ آئے ہیں جبکہ رسول اللہؐ فقط فاطمہ،علی و حسنین کو لیکر چلے یعنی عملا یہ بتادیا کہ یہ کوئی عام ہستیاں نہیں ہیں اور نہ امت میں سے کسی کا ان ہستیوں کے ساتھ کوئی برابری ہے چونکہ برابری اگر ہوتی تو ان ہستیوں کے ساتھ انہیں بھی لیکر چلتے اور اس میں کوئی ایسی بات بھی نہ تھی کیونکہ آیت میں گنجائش موجود ہے لیکن رسول اللہؐ نے عملا یہ بتادیا کہ امت میں سے کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ نعوذ اللہ ہم بھی اہل بیتؑ جیسا مقام رکھتے ہیں۔کیا ہی عظیم ہستیاں ہیں کبھی آدم ان کے ناموں کے وسیلے سے مشکل سے نجات پاتے ہیں تو کبھی خود خاتم المرسلینؐ اس ہستیوں کو دعا کے بعد آمین کہنے کیلئے لیکر چلتے ہیں۔
اہل بیتؑ قرآن کے ہم پلہ
رسول اللہؐ نے امت کے سامنے بار بار اہل بیتؑ کی شان و منزلت بیان فرمائی بالخصوص حدیث ثقلین کہ یہ حدیث رسول اللہ سے مختلف مقامات میں راویین نے روایت کیا ہے اور فقط اصحاب میں سے 35اصحاب رسول ؐ سے مروی ہے۔شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں کثیر سلسلوں سے یہ حدیث نقل ہے اور شیعہ و اہل سنت سب کے نزدیک یہ حدیث متواتر ہے۔حضرت زید ابن ارقم سے مروی ہے:
حدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَالْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،‏‏‏‏ وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فیھما (13)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو)
اس حدیث سے متعلق کچھ بحث پہلے گزر چکی ہے یہی وہ حدیث ہے کہ جس سے آئمہ اہل بیتؑ کا اہل بیتؑ میں ہونے کو ثابت کیا گیا اور بعض نظریات کو رد کیا گیا البتہ اس حدیث سے متعلق تفصیلی بحث آنے والی باب میں آرہی ہے۔
اہل بیتؑ مثل کشتی نوح
رسول اللہ سے مروی اہل بیت ؑکے شان و منزلت سے متعلق ایک اور حدیث حدیث سفینہ نوح ہے۔
رسول اللہ فرماتے ہیں کہ: مَثَلُ اَہلِ بَیِتی کَمَثَلِ سَفِینۃ نوح مَن رَکِبَھا نَجا وَ مَن تَخَلفَ عَنھا غَرِقَ و ھوی۔ (14)
(میرے اہل بیتؑ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہوا، اس کو نجات مل گئی، جو اس سے پیچھے رہ گیا، وہ غرق ہو گیا اور گمراہ ہوگیا۔)
اس حدیث کو رسول اللہؐ سے اصحاب میں سے حضرت علی علیہ السلام، حضرت ابوذر، ابو سعید خدری، ابن عباس اور انس بن مالک نے روایت کیا ہے۔
کیا ہی بہترین تعبیر ہے جو اس کشتی میں سوار ہوا وہ نجات پایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم مقام و منزلت اہل بیتؑ کے قائل ہوبھی جائیں لیکن اگر ان کے فرامین پر عمل نہ کریں ان کی ولایت کی کشتی میں سوار نہ ہو جائیں تو ہمارے لیےنجات نہیں ہے۔اگر کوئی باہر کھڑے رہ کر کشتی کی تعریف کرتا رہے لیکن کشتی کے اندر بیٹھ نہ جائے نجات نہیں پائے گا بلکہ وہ جہالت و گمراہی کے اندھیروں اور فساد کی طوفان میں اسی طرح ڈھوب جائے گا جس طرح حضرت نوحؑ کا بیٹا طوفان میں غرق ہوگیا اور کوئی چیز اس کو اس طوفان سے بچانے والی نہ تھی۔پس ہمیں فقط محبت اہل بیتؑ کا دم نہیں بھرنا چاہئے بلکہ اہل بیتؑ سے متمسک ہوکر اہل بیتؑ کا دامن تھام کر اہل بیتؑ کے پیچھے چلنا ہوگا لیکن اگر ہم محبت دل میں اہل بیتؑ کا رکھیں اور لبیک ابن زیاد کے آواز پر کہیں اور وقت کے شمر و عمر ابن سعد کے پیچھے چل پڑھیں تو ہم اپنے زمانے کےامام کے شیعہ نہیں بلکہ کوفی شمار ہوں گے۔
اہل بیتؑ  اور صلوات
رسول اللہ ؐنے ہر مقام پر اہل بیتؑ کو اپنے ساتھ رکھا کسی بھی مقام پر اہل بیتؑ کو اپنے سے جدا متعارف نہیں فرمایا حتی کہ اس درود کو ابتر کہا جو رسول اللہ ؐپر ہو لیکن اہل بیتؑ پر نہ ہو شاید اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ امت اس بات کو واضح طور پر سمجھے کہ میرے بعد امت میں اہل بیتؑ میرے ہی قائم مقام ہیں یعنی میرے بعد امت کی رہبری کا حق اگر ہے تو وہ اہل بیتؑ کو ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (15)
(اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔(
شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سَأَلْنَا رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّ اللّٰهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ؟ قَالَ: (قُولُوا: ‌اللَّهُمَّ ‌صَلِّ ‌عَلَى ‌مُحَمَّدٍ ‌وَعَلَى ‌آلِ ‌مُحَمَّدٍ، ‌كَمَا ‌صَلَّيْتَ ‌عَلَى ‌إِبْرَاهِيمَ، ‌وَعَلَى ‌آلِ ‌إِبْرَاهِيمَ، ‌إِنَّكَ ‌حَمِيدٌ ‌مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ). (16) ہم(کعب بن عجزہ)نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا، یا رسول اللہؐ!ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں؟اللہ تعالی نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سیکھا دیا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: ‌اللَّهُمَّ ‌صَلِّ ‌عَلَى ‌مُحَمَّدٍ ‌وَعَلَى ‌آلِ ‌مُحَمَّدٍ، ‌كَمَا ‌صَلَّيْتَ ‌عَلَى ‌إِبْرَاهِيمَ، ‌وَعَلَى ‌آلِ ‌إِبْرَاهِيمَ، ‌إِنَّكَ ‌حَمِيدٌ ‌مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ: عَنْ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ عُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍو ‌رضی ‌اللّٰہ ‌عنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰی جَلَسَ بَیْنَیَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللّٰہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنَ عِنْدَہُ، فَقَالَ: یَارَسُولَ اللّٰہِ! أَمَّا السَّلاَمُ عَلَیْکَ فَقَدْ عَرَفْنَاہُ فَکَیْفَ نُصَلِّیْ عَلَیْکَ إِذَا نَحْنُ صَلَّیْنَا فِیْ صَلاَتِنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ؟ قَالَ: فَصَمَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللّٰہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ یَسْأَلْہُ قَالَ: (إِذَا أَنْتُمْ صَلَّیْتُمْ عَلَیَّ فَقُوْلُوْا: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَآلِ إِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔(17) (سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، جبکہ ہم بھی آپ کے پاس موجود تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو ہم پہچان چکے کہ آپ پر سلام کیسے بھیجنا ہے، (اب سوال یہ ہے کہ) جب ہم نماز ادا کریں تو آپ پر درودپڑھنے کا کیا طریقہ ہےاللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جواباً خاموش ہو گئے (اور اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم یہ چاہنے لگے کہ کاش اس آدمی نے سوال نہ کیا ہوتا، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم مجھ پر درود بھیجو تو اس طرح کہا کرو: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ وَعَلیَ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَآلِ إِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔(ترجمہ: اے اللہ ! تو اُمّی نبی محمد پر رحمت کر اور محمدؐ کی آل پر، جیسے تو نے رحمت کی ابراہیم ؑپر اور ابراہیمؑ کی آل پر اور برکت نازل فرما اُمّی نبی محمد پر، جیسے تو نے برکت نازل کی ابراہیم پر اور ابراہیمؑ کی آل پر، بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ )
بلکہ اس حوالے سے تو ابن حجر الہیثمی جیسی شخصیت نے بہت سخت روایت صواعق المحرقہ میں نقل کی ہے۔وہ روایت یہ ہے کہ:
لا تُصَلوا علی الصلوۃ البتراء فقالوا و ما الصلاۃ البتراء قال!تقولون: اللّٰھم صل علی محمد و تمسکون۔ بل قولوا اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد (مجھ پر ناقص درود نہ بھیجو۔تو لوگوں نے پوچھا: ناقص درود کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:ناقص درود یہ ہے کہ اللّٰہم صل علی محمد کہ کر رک جاتے ہو بلکہ یوں کہو: اللّٰہم صل علی محمد و علی آل محمد۔ (18)
اہل بیتؑ امان لاہل الارض
اہل بیتؑ زمین پر اللہ تعالی کی طرف سے مخلوقات پر اللہ تعالی کی حجت ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دنیا میں حجت خدا موجود نہ ہو تو دنیا ختم ہوجاتی ہے اسی مطلب کو بیان کرتے ہوئے شیعہ و اہل سنت کتب احادیث میں کئی روایات موجود ہیں۔رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ:
النجوم امان لاھل السماء و أهل بيتي أمان لأهل الأرض.(19) (ستارے اہل آسمان کے لیے امن کا باعث ہیں اور میرے اہل بیتؑ اہل زمین کے لیے امن کا باعث ہیں۔) ایک اور روایت میں رسول اللہؐ سے مروی ہے کہ: النجومُ أمانٌ لأهل الأرض من الغَرَق، وأهلُ بيتي أمانٌ لأُمّتي من الاختلافِ (20) ( ستارے آسمان میں رہنے والوں کیلئے ہلاکت سے باعث امن ہیں اور میرے اہل بیتؑ میری امت کیلئے اختلاف میں باعث امن ہیں۔ )
اہل بیتؑ راسخون فی العلم
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔ (21)
(وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔)
اب سوال یہ ہے کہ یہ راسخون فی العلم کون لوگ ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے: اَنَّ الرَّاسِخِیْنَ فِی الْعِلْمِ ہُمُ الَّذِیْنَ اَغْنَاھُم اللّٰہ عَنِ الاقْتِحَامِ فِی السُّدَدِ الْمَضْرُوْبَۃِ دُوْنَ الْغُیُوْبِ (22)
(علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں جن کو اللہ نے غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی چیزوں میں الجھنے سے بے نیاز کیا ہے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
نحن الراسخون فی العلم و نحن نعلم تاویلہ (23)
(راسخین فی العلم ہم ہیں اور ہم ہی تاویل جانتے ہیں۔)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:الراسخون فی العلم امیر المؤمنین و الائمۃ من بعدہ علیہم السلام۔ (24)
(راسخون فی العلم امیر المؤمنین ؑ اور ان کے بعد کے آئمہ علیہم السلام ہیں۔)
اہل بیتؑ سے جنگ رسول اللہ سے جنگ
حضرت زید ابن ارقم رسول اللہؐ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، عَنِ السُّدِّيِّ،عَنْ صُبَيْحٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلِيٍّ،وَفَاطِمَةَ،وَالْحَسَنِ،وَالْحُسَيْنِ «أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ،وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ (25)
( رسول اللہ ﷺنے حضرت علی، فاطمہ، حسن ؑاور حسین‬ؑ سے فرمایا: ’’ جس سے تم صلح کرو، میری بھی اس سے صلح ہے اور جس سے تم جنگ کرو، اس سے میری بھی جنگ ہے۔)
اسی طرح امالی شیخ طوسی میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ:
خرج رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فاذا عَلِيٍّ،وَفَاطِمَةَ،وَالْحَسَنِ،وَالْحُسَيْنِ فقال«أَنَا حرب لمن حاربکم سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْکم (26)
(رسول اللہ ؐ نے حضرت علیؑ،حضرت فاطمہ ؑ، حسن ؑاور حسین‬ؑ سے فرمایا: ’’ جس سے تم صلح کرو، میری بھی اس سے صلح ہے اور جس سے تم جنگ کرو، اس سے میری بھی جنگ ہے۔) یہ حدیث اتفاقا شیعہ و اہل سنت سب کی کتابوں میں موجود ہے۔اہل بیتؑ سے جنہوں نے جنگ کی ہے ان سے متعلق فیصلہ کرنے میں ہمیں سکوت اختیار نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہمیں فیصلہ کرتے وقت دیر لگانا چاہئے چونکہ فیصلہ تو رسول اللہؐ پہلے سے کرچکے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ رسول اللہ کے کیے ہوئے فیصلے کو مان لیں۔اگر کوئی اہل بیتؑ سے جنگ کرچکا ہے یا کرتا ہے یا کرے گا رسول اللہؐ نے واضح انداز میں فرمایا ہے کہ گویا یہ مجھ سے جنگ ہے اہل بیتؑ سے جو جنگ کرتا ہے ایسا نہ سوچیں کہ یہ اہل بیتؑ سے جنگ کررہے ہیں بلکہ یہ سوچیں کہ یہ رسول اللہؑ سے جنگ کررہے ہیں اور جو رسول اللہؑ سے جنگ کرتا ہے جو حکم اس پر لگائیں گے وہی حکم اہل بیتؑ سے جنگ کرنے والے پر لگایا جائے۔
اہل بیتؑ پر کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا
اہل بیتؑ کی ایک امتیاز یہ ہے کہ امت میں اہل بیتؑ جیسا مقام و مرتبہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔روایات میں واضح الفاظ کے ساتھ آیا ہے کہ اہل بیتؑ پر امت سے کسی کا قیاس درست نہیں ہے۔جیسے کہ روایت ہے:
نحن اھل البیت لا یقاس بنا احد فینا نزل القرآن و فینا معدن الرسالۃ۔ (27)
(ہم اہل بیتؑ ہیں ہم پر کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا،ہم میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہم ہی میں معدن الرسالۃ(وہ ہستی جو علوم انبیاء سے آراستہ ہیں یعنی رسول اللہؐ)ہے۔
اہل سنت منابع میں بھی یہ روایت موجود ہے۔
نحن اھل البیت لا یقاس بنا احد (28)
(ہم اہل بیتؑ ہیں ہم پر کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔)
اسی طرح سلیمان قندوزی نے بھی ینابیع المودۃ میں نقل کیا ہے:
نحن اھل البیت لا یقاس بنا احد (29)
(ہم اہل بیتؑ ہیں ہم پر کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔)
رسول اللہؐ کے اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے اہل بیتؑ کا مقام و منزلت بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امت میں سے نہ تو کوئی ان ہستیوں جتنا مقام و منزلت رکھتا ہے اور نہ امت محمدیؐ میں سے کسی کو ان عظیم ہستیوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے چہ جائیہ کہ ان سے کسی کو بلند مقام دیا جائے۔امت محمدیؐ کو چاہئے کہ وہ اہل بیتؑ کی پیروی کرے نہ کہ اہل بیتؑ پر سلطنت و فوقیت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اہل بیتؑ شجرہ طیبہ
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ (30)
( کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟)
حضرت امام صادقؑ اس آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُهٰا ثٰابِتٌ وَ فَرْعُهٰا فِی السَّمٰاءِ: «رسول اللّٰه أصلها و امیر المؤمنین فرعها، و الائمّة من ذرّیتهما أغصانها، و علم الائمّة ثمرها، و شیعتهم المؤمنون ورقها (31)
(امام صادق اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:رسول اللہ اس درخت کی جڑ ہیں،امیر المومنین علی ابن ابی طالب اس کا تنا ہے،وہ آئمہ کہ جو ان دونوں کی ذریت سے ہیں وہ اس کی ٹہنیاں ہیں،آئمہ کا علم اس درخت کا پھل ہےاور ان کے صاحب ایمان شیعہ اس کے پتے ہیں۔)
ایک اور روایت میں امام صادقؑ سے مروی ہے:
الشجرة الطیّبة رسول اللّٰه و علی و فاطمة و بنوها، و الشجرة الخبیثة بنو امیّة (32)
(حضرت امام صادق فرماتے ہیں کہ شجرہ طیبہ رسول اللہ،علی،فاطمہ اور فاطمہ کے دو بیٹے(حسن و حسین )ہیں اور شجرہ خبیثہ بنو امیہ ہیں۔)
اگر چہ اہل بیتؑ کے مقام و منزلت سے متعلق اور بھی بہت سارے احادیث ہیں کہ اگرہم ان سب کو جمع کرنا چاہیں اور ان میں سے ایک ایک کے بارے میں بحث کرنا چاہیں تو یہ کئی جلدی ایک کتاب بن جائے گا البتہ مقام و منزلت اہل بیتؑ کو جاننے کیلئے شیعہ و اہل سنت منابع حدیث سے جو کچھ ہم نے یہاں ذکر کیا ہے اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی پراکتفا کرتے ہیں۔

حوالہ جات

1-القرآن الکریم /سورۃ الاحزاب/33
2- مسلم،ابو الحسین،مسلم بن حجاج قشیری،صحیح مسلم،کتاب،کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل اہل بیت النبیؐ،ج4،ص1883،رقم الحدیث2424
3-القرآن الکریم/سورۃ البقرہ/143
4-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب الحجۃ،باب فی ان الائمۃ شھداء اللہ عز و جل علی خلقہ،ج1،ص467،رقم الحدیث2
5-القرآن الکریم /سورۃ البقرہ/37
6-جلال الدین، عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی،الدرالمنثور،ج1،ص61(دار الفکر، بیروت،س-ن)
7-القرآن الکریم /سورۃ الشوری/23
8-حسکانی،عبید اللہ بن عبد اللہ،شواہد التنزیل،ص205(احیاء الثقافۃ الاسلامیہ،1990ء)
9-دیملی،ابو محمدحسن بن محمد،ارشاد القلوب،ص254(منشورات الشریف الرضی،قم،1409ھ)
10-حاکم نیشاپوری،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،المستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابہ،باب و من مناقب اہل بیت الرسول،ج،5ص670،رقم الحدیث 4767(دار الرسالہ العالمیہ،بیروت،طبع اول،2018ء)
11-صدوق،محمد بن علی بن یابویہ،امالی الصدق،ص245(موسسۃ الاعلمی المطبوعات،بیروت،طبع اول،2009ء)
12-القرآن الکریم /سورۃ آل عمران/61
13-ترمذی، محمد بن عیسی، جامع ترمذی،کتاب ابواب المناقب،باب مناقب اہل بیت النبیؐ،ج 5،ص663،رقم الحدیث3788
14- طوسی،محمد بن حسن،امالی الطوسی،ص/775(مؤسسہ البعثہ،تہران،1385)
15-القرآن الکریم /سورۃ الاحزاب/56
16-بخاری،ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،کتاب الانبیاء،باب {يزفون} /الصافات: 94/: النسلان في المشي،ج3،ص1233،رقم الحدیث 3190(دار ابن کثیر،دار الیمامہ،دمشق،طبع پنجم،1993ء)
17-احمد بن حنبل،ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی،مسند الامام احمد بن حنبل،کتاب مسند الخلفاء الراشدین،باب من اخبار عثمان بن عفان،ج3،ص239،رقم الحدیث1714
18-ابن حجر الہیثمی،احمد بن محمد بن علی بن حجر،الصواعق المحرقہ علی اھل الرفض و الضلال و الزندقہ،ج2،ص430(مؤسسۃ الرسالۃ،لبنان،1417ھ)
19- صدوق،ابن بابویہ محمد بن علی،علل الشرایع،ج1،ص124(مکتبہ الحیدریہ،قم،1425ھ)
20- حاکم نیشاپوری،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،المستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابہ،باب و من مناقب اہل بیت الرسول،ج،5ص670،رقم الحدیث4766
21-القرآن الکریم /سورۃ آل عمران/7
22-شریف الرضی،ابو الحسن سید محمد بن الحسن،نہج البلاغہ، ص125
23-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب الحجۃ،باب ان الراسخین فی العلم ھم الائمۃ،ج1،ص529،رقم الحدیث1
24-کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،کتاب الحجۃ،باب ان الراسخین فی العلم ھم الائمۃ،ج1،ص529،رقم الحدیث3
25-ابن ماجہ،ابو عبد اللہ محمد ابن یزید، سنن ابن ماجۃ،کتاب فی فضائل اصحاب الرسولؐ،باب فضائل الحسن و الحسین ابنی علی ابن ابی طالب،ج1،ص102،حدیث نمبر145(دار الرسالہ العالمیہ،طبع اول،بیروت،2009ء)
26-طوسی،محمد بن حسن،امالی الطوسی،ص/500
27-صدوق،ابن بابویہ،محمد بن علی،عیون اخبار الرضاؑ،ص507(موسسہ آل البیتؑ لاحیاء تراث)
28-متقی ہندی،کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال،کتاب فی فضل اہل البیت، باب فی فضلھم مجملا،ج،12ص،104،رقم الحدیث34201(مؤسسۃ الرسالۃ،طبع پنجم،1401ھ)
29-قندوزی،سلیمان بن ابراھیم،ینابیع المودۃ لذوی القربی،ج2،ص114
30-القرآن الکریم:سورۃ الابراھیم/24
31- عیاشی،محمد بن مسعود،تفسیر العیاشی،ص760(موسسۃ البعثہ،قم،1420ھ)
32- حویزی،عبد علی بن جمعہ، تفسیرنور الثقلین،ج2،ص535(موسسۃ اسماعیلیان، قم،1412ھ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button