خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:300)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 25 اپریل 2025 بمطابق 26 شوال المکرم 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:عدل و انصاف
اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر انصاف قائم کرنے کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبَىٰ وَیَنْہَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ۚ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ” [سورہ النحل: 90]
یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔
تفسیری نکتہ:
تفسیر الکوثر (علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ): انسانی زندگی کی سعادتمندی کا انحصار ایک اچھے معاشرے پر ہے۔ ایک فاسد معاشرے میں کسی فرد کے لیے کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور معاشرے کی درستی عدالت پر منحصر ہے۔ عدالت ہی کے زیر سایہ انسان امن و سکون کی زندگی گزار سکتا ہے، صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور فکری نشوونما اور باہمی محبت و آشتی کو فروغ ملتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام عدل کی تعریف میں فرماتے ہیں:
وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌ۔ ۔۔۔ ( نہج البلاغۃ، کلمات قصار: ۴۳۷)
اور عدل سب کی نگہداشت کرنے والا ہے۔
جس کے تحت ہر طبقہ اور ہر مذہب کے لوگوں کو تمام انسانی حقوق میسر آتے ہیں۔
عدل و انصاف کی اہمیت:
"وَلَا تَرْکَنُوا إِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ”
اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پر تکیہ(انحصار) نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہو گا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔ [سورہ ہود: 113]
تفسیر الکوثر:
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی اعلی اللہ مقامہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اسلامی سیاست اور معاشرت کی ایک اہم ترین اساس، ظلم و ناانصافی کی نفی ہے۔ اسلام اپنے معاشرے کو ظلم و تجاوز سے پاک رکھنے کے لیے جامع قوانین وضع فرماتا ہے۔ من جملہ ظالموں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات جن میں ظالم کی بالا دستی ہو ممنوع قرار دیے کیونکہ ظالم پر تکیہ(انحصار) کرنا:
i۔ اپنی کمزوری کا عملی اعتراف ہے۔
ii۔ ظالم کے ظلم کی تائید ہے۔
iii۔ ظالم کی بالادستی کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نفرت نہیں ہے اور یہ خود ظلم کی طرف پہلا قدم ہے۔
iv۔ استحصال کے لیے ظالم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔
v۔ ظلم کو قبول کرنا ہے۔
vi۔ جن مقاصد کے لیے ظالم پر تکیہ کیا ہے وہ حاصل نہیں ہوتے۔ یہ اسلام کا خارجی سیاسی موقف ہے کہ ظالم طاقتوں کے ساتھ معاملہ ہو سکتا ہے لیکن ان پر تکیہ کرنا جائز نہیں ہے۔
vii۔ اس کو مداخلت کا حق دینے کے مترادف ہے۔
viii۔ ظالم کی مداخلت اسلامی ریاست کی خودمختاری اور استقلال کے منافی ہے۔
ظلم کرنے والوں پر تکیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے احیاء کے لیے ظالموں کا سہارا لیا جائے۔ احیائے حق کے لیے حق کو پامال کیا جائے۔
تفسیر قمی میں آیا ہے لَا تَرۡکَنُوۡۤا کا مطلب ہے:
رکون مودۃ و نصیحۃ و طاعۃ۔ ۔۔ (تفسیر القمی ۱: ۳۳۷)
محبت، نصیحت اور فرمانبرداری میں تکیہ کرنا۔
عدل و انصاف کے فوائد:
قرآن میں ارشاد ہے:
” إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ "
نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ [سورہ ہود: 114]
عدل و انصاف بھی ایک ایسی بڑی نیکی ہے کہ جس سے بہت ساری برائیاں عملی طور پر دور ہوجاتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلَىٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ، الَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِیْ حُکْمِہِمْ وَأَہْلِیْہِمْ وَمَا وَلُّوا”
یقینا عدل و انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر براجمان ہوں کیونکہ وہ اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ عدل کرتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اَلْعَدْلُ أَسَاسُ الْمُلْکِ”
عدل مملکت و حکومت کی بنیاد ہے۔
امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:
"أَعْدَلُ اَلنَّاسِ مَنْ أَنْصَفَ مَنْ ظَلَمَهُ "
لوگوں میں سے سب سے بڑا عادل وہ ہے جو اپنے ساتھ ظلم کرنے والے کے ساتھ بھی انصاف کرے۔
[بحار الانوار، جلد 75، صفحہ 249]
اس کی بڑی مثال خودامیر المومنین ؑ کی سیرت میں ملتی ہے کہ جب ابن ملجم نے آپ پر ظلم کرتے ہوئے آپ کو ضرب لگائی تو آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اس پر ظلم نہ کرنا اور ایک ضربت کے بدلے میں ایک ہی ضرب لگانا اور اس کی لاش کو پامال نہ کرنا۔ یہ امامِ عدل کی سیرت جو اپنے قاتل کے ساتھ بھی عدل و انصاف کا معاملہ کرتے ہیں۔
عدل و انصاف کی اہمیت:
عدل اس قدر اہم ہے کہ انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میں سے ایک عدل کا قیام تھا۔ قرآن میں ارشاد ہے:
"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ”
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔ [سورہ الحدید: 25]
تفسیر الکوثر:
اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کے ساتھ میزان بھی نازل فرمایا۔ میزان کیا ہے؟ میزان ترازو ہے جس سے اوزان کا علم ہوتا ہے اور حقدار کو اپنا حق ملتا ہے۔ میزان انصاف دینے کے لیے ایک محسوساتی آلہ ہے۔ قرآن محسوسات کے ذریعے معنویات کو واضح انداز میں سمجھانے کا طریقہ اختیار فرماتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات حقوق و فرائض پر مشتمل ہیں۔ ان تعلیمات میں انفرادی اور اجتماعی حقوق کی تشریح ہے جس سے انسانوں کو اپنے حقوق کی شناخت اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی بھی شناخت ہوتی ہے۔ اسی شناخت کو قرآن نے میزان کہا ہے۔ چنانچہ اسی میزان اور شناخت کی وجہ سے ظالم اور مظلوم کی شناخت ہوتی ہے:
وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۷)
اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔
اسی طرح عدل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں مومنوں کو اجتماعی طور پر معاشرے میں عدل قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، فرمایا:
"یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنْفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ”
اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔۔۔[سورہ النساء: 135]
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"وَ اَلْعَدْلُ زِينَةُ اَلْإِيمَانِ”
اور عدل ایمان کی زینت ہے۔
عدل و انصاف کے فوائد:
"وَالسَّمَاءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ أَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ”
اور اسی نے اس آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔ تاکہ تم ترازو (کے ساتھ تولنے) میں تجاوز نہ کرو۔ [سورہ الرحمٰن: 7-8]
تفسیر الکوثر:
آسمان کو بلند اور میزان قائم کرنے میں ایک ربط اس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اس بلند و بالا آسمان میں توازن قائم رکھا ہے۔ اسی توازن پر آسمان یعنی اجرام سماوی قائم ہیں۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے:
بالعدل قامت السمٰوات و الارض۔ (عوالی اللالی ۴: ۱۰۲)
آسمان و زمین عدل سے قائم ہیں۔
دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے: جہاں اللہ نے آسمان کو بلند کیا ہے وہاں حق و باطل میں تمیز کرنے والی قوت عقل کو ترازو بنایا یا یہ ہو سکتا ہے: جہاں اللہ نے آسمان کو بلند کیا ہے وہاں اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے شریعت و احکام کا میزان قائم کر کے حق و باطل، صدق و کذب اور عدل و ظلم میں تمیز قائم کی۔ جیسے فرمایا:
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ۔۔۔۔
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔
بہرحال پوری کائنات اعتدال و توازن پر قائم ہے۔ اس اعتدال میں بال برابر بھی انحراف آ جائے تو یہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ ہے تکوینی میزان۔ اس کے ساتھ ایک تشریعی میزان بھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس میزان سے انحراف نہ کرے ورنہ عدل اجتماعی اور انصاف ناپید ہو جائے گا۔ اس میزان کے مصادیق میں وہ ترازو بھی شامل ہے جس سے اوزان معلوم کیے جاتے ہیں۔
۲۔ اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ: میزان، وضع اس لیے کیا کہ تم اس میزان و معیار سے تجاوز نہ کرو اور اپنے معاملات میں ترازو کے ساتھ تولنے میں تجاوز نہ کرو۔
۳۔ وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ: لہٰذا جب تمہارے سامنے میزان آ گیا تو اپنے معاملات میں اوزان اور تول میں کمی نہ کرو۔ انسانی زندگی کا دار و مدار اجتماعی زندگی پر ہے، اجتماعی زندگی باہمی معاملات پر قائم ہے اور باہمی معاملات انصاف کے ساتھ ناپ تول پر موقوف ہیں۔
"یَا دَاوُوْدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَىٰ”
اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں، [سورہ ص: 26]
نصیحت آموز واقعہ:
حضرت علی علیہ السلام امامِ عدل تھے۔ انہوں نے ہمیشہ عدل قائم کیا اور عدل کا ساتھ دیا جبکہ ظالم کی مخالفت کی۔اس بابت آپ کی زرہ کا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مشہور ہے۔
حضرت علی(ع) کی زِرہ گم ہو گئی تھی۔ زرہ اس آہنی لباس کو کہا جاتا ہے جو جنگوں میں دشمنوں کی تلواروں کی ضرب سے بچنے کے لئے پہنا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد امام علیؑ نے کسی اہل کتاب کے پاس وہ زرہ دیکھی۔ بعض روایات میں عیسائی درج ہے اور بعض میں یہودی۔ لیکن مشہور یہودی ہے۔
حضرت علیؑ نے اس یہودی سے مطالبہ کیا کہ یہ میری زرہ ہے مجھے واپس کرو۔ اس پر اس نے کہا کہ زرہ تو میرے پاس ہے، آپ کا اس پر دعوی ہے تو ثابت کریں۔ (اصولی طور پر بھی جو چیز کسی کے ہاتھ میں ہو وہ اسی کی سمجھ جاتی ہے جب تک کوئی دلیل نہ آ جائے کہ یہ کسی اور کی ہے)
حضرت علیؑ اس کو لے کر قاضی کے پاس چلے جاتے ہیں۔ زمانہ بھی حضرت علیؑ کی خلافت کا تھا۔ قاضی کے پاس جا کر آپ نے شکایت کی کہ یہ زرہ میری ہے، میں نے کسی کو بیچی نہیں، اور گمشدہ تھی، اب اس یہودی کے پاس سے نکلی ہے۔ قاضی نے یہودی کی طرف رخ کیا اور کہا کہ خلیفۂ مسلمین کا یہ دعوی ہے، تم کیا کہتے ہو؟
یہودی نے کہا کہ زرہ میری اپنی ہے، ممکن ہے کہ خلیفہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ قاضی نے پھر امام علیؑ کی طرف رخ کیا اور کہا کہ یہ شخص انکار کر رہا ہے کہ زرہ آپ کی ہے، اب آپ پر ہے کہ آپ اپنے دعوی کے اثبات کے لئے گواہ پیش کریں۔ اس پر امام علیؑ مسکرائے اور فرمایا کہ تم صحیح کہہ رہے ہو، اس صورتحال میں گواہ لانے کی ذمہ داری میری ہے لیکن میرے پاس کوئی گواہ نہیں۔
قاضی نے یہ سنا تو یہودی کو زرہ واپس کر دی اور فیصلہ امام علیؑ کے خلاف سنا دیا۔ یہودی نے اپنی زرہ اٹھائی اور چل دیا لیکن کچھ قدم چل کر واپس پلٹا اور کہا: "یہ طرز حکومت عام لوگوں کی طرح نہیں ہے، یہ انبیاء کی حکومت کی مثل ہے۔”
اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوا اور قاضی کو بتایا کہ یہ امام علیؑ کی زرہ ہے جو جنگ صفین سے واپسی پر ایک خاکی گھوڑے سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھا لی۔ امام علیؑ نے جب یہودی کا اعتراف اور اس کے قبول اسلام کو دیکھا تو زرہ اس کو بخش دی۔
وہ شخص اس قدر خوش ہوا کہ امام علیؑ کے سچے ساتھیوں میں سے ہوا، اور بعض روایات کے مطابق خوارج کے خلاف جنگ نہروان بھی لڑی۔(مناقب ابن شہر آشوب؛ ج 2 ص105)
موجودہ زمانے میں عدل و انصاف کے تقاضے:
اے اللہ کے بندو! آج کے دور میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
1. گھر میں انصاف: اپنے گھر میں بیوی، بچوں اور دیگر افراد کے ساتھ انصاف کرو۔ اولاد کے درمیان محبت اور حقوق میں فرق نہ کرو۔ حدیث میں ہے:
"اِعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ كما تُحبُّون أنْ يَبَرُّوكم”
اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ نیکی کریں۔
مثلاً، اگر ایک بچے کو تحفہ دیا تو دوسرے کو نظر انداز نہ کریں، کیونکہ یہ ناانصافی دل میں بغض پیدا کرتی ہے۔
روایت میں ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس کے پاس اس کا چھوٹا بیٹا آیا، اس نے اس کا بوسہ لیا اور اسے اپنی گود میں بیٹھا لیا، اس کے بعد اس کی چھوٹی بیٹی آئی، اس نے اسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اس کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا؟“ یعنی بیٹے کا بوسہ لیا اور بیٹی کا نہیں لیا۔
2. دفتر میں انصاف: اگر تم دفتر میں ذمہ دار ہو تو ملازمین کے ساتھ انصاف کرو۔ تنخواہ، ترقی اور کام کے اوقات میں فرق نہ کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"أَعْطُوا الْأَجِیْرَ أَجْرَہٗ قَبْلَ أَنْ یَجِفَّ عَرَقُہٗ”
(مزدور کو اس کی مزدوری دو قبل اس کے کہ اس کا پسینہ خشک ہو جائے۔) [سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2443]
آج کل لوگ ملازمین کی تنخواہ روکتے ہیں یا ان سے زیادہ کام لیتے ہیں، یہ ظلم ہے۔
3. کاروبار میں انصاف: کاروبار میں ناپ تول، معیار اور وعدوں میں انصاف کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَإِذَا کَالُوْہُمْ أَوْ وَزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ”
(ہلاکت ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے، جو لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں، اور جب دیتے ہیں تو کمی کرتے ہیں۔) [سورہ المطففین: 1-3]
آج کل دکاندار قیمتوں میں اضافہ یا ناقص جنس بیچ کر ناانصافی کرتے ہیں، جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔
پس اے مومنو! انصاف کے تقاضوں کو پورا کرو، کیونکہ یہ تمہارے گھر میں سکون، دفتر میں اعتماد اور کاروبار میں برکت کا باعث بنے گا۔ اپنے نفس سے انصاف کرو، دوسروں کے حقوق ادا کرو، اور اللہ کی رضا کو مقدم رکھو۔
اے اللہ! ہمیں انصاف کرنے کی توفیق دے، ہمارے معاشرے میں عدل قائم فرمائے اور ہمیں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی ہدایت عطا فرمائے۔آمین
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭