رحلت پیغمبرﷺ کے بعد علیؑ کی جدوجہد اور عدم قیام کے اسباب

مقالہ نگار: منظر عباس
چکیدہ
رحلت پیغمبرﷺ کے بعد حضرت علیؑ کے لیے مشکلات پیدا ہو گئیں، حق سے محروم کیا گیا لیکن شیر خدا نے وصیت رسولﷺ اور سیرت انبیاءؑ پر عمل کرتے ہوئے صبر و استقامت دکھائی۔ ہمیشہ دفاع اسلام و مسلمین کے لیے کوشاں رہے۔ انصار کی قلت، دشمنوں کی کثرت اور نفاق عروج پر تھا مگر حضرت علیؑ نے ان تمام وجوہ کو پس پشت ڈال دیا۔ اگرچہ قیام نہیں کیا مگر دین کو فروغ دیا اور سنت خداوندی اور سنت نبویﷺ کو حیات جاودانی عطا کی۔ علوم قرآن اور علوم محمدی کی نشر کے ساتھ ساتھ جدید علوم اور سماجی و معاشرتی نیز زراعتی ترقی کو بھی فروغ دیا۔
کلیدی الفاظ: امام علیؑ، جدوجہد،عدم قیام،اسباب
مقدمہ
میدان غدیر میں رسولﷺ نے حضرت علیؑ کی امامت کا اعلان فرمایا مگر رحلت پیغمبرﷺ کے بعد یہ حق چھینا گیا لیکن علیؑ نے مصلحت اسلام کو مدنظر رکھتے ہوئے خاموشی سے اسلام کا دفاع کیا۔غاصب حکومت نے اگرچہ مشکلات پیدا کی مگر ثابت قدمی کے عظیم پیکر کے قدموں میں لغزش نہ آئی۔
اگرچہ کہا جاتا ہے علیؑ اور خاموشی یہ متضاد بات ہے اور مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ جھوٹ اتنے تواتر سے بولا جائے کہ اگر کلی طور پر چھپایا نہ جا سکے تو کم از کم سچ اس میں گم ہو جائے۔ خاموشی کی وجوہات تھیں کہ رسولﷺ نے صبر کی وصیت کی، فوجی طاقت کا فقدان, اسلام کا تحفظ، ارتداد کا خطرہ،دشمنوں کا خوف، انصار کی کمی، پاکیزہ نسلوں کی بقا وغیرہ۔
دوسری طرف علیؑ نے ان 25 سالوں میں اسلام کی ترویج کی۔ فکری انقلاب کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلام میں پہلی کتاب”مصحف علی” تصنیف کی۔یہ ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کی جمع آوری تھی،کتاب تفسیر میں علوم قرآن کی 60 سے زیادہ اقسام مع مثال بیان کی، کتاب الجفر،اونٹ کی زکوۃ کے متعلق رسالہ، کتاب فی الدیات، کتاب الفرائض،کتاب صدقات النعم، اربعہ مائہ باب، رسالہ فی النحو،احتجاج علی الیہود،احتجاج علی النصاریٰ، نوادر احتجاجات، مالک اشتر کے نام تحریری ہدایات، محمد حنفیہ کے نام وصیت،کتاب فی ابواب الفقہ وغیرہ۔
ان تحریری خدمات کے علاوہ اسلامی درس دینے کا اہتمام کیا،لوگوں کو نئے راستے متعارف کروائے، کنویں کھودے، کھیتی باڑی کے ایسے طریقے ایجاد کیے جو آج تک باقی ہیں،زمین کا سینہ چاک کر کے فصلیں اور باغات اگائے، دولت کا انبار وقف کیاجبکہ خود سوکھی روٹی کھائی،رسولﷺ کی تحریک علمی کو فروغ دیا،عربی زبان کو زندگی بخشی، فقہ اسلامی کے اہم باب کا اضافہ کیا، اسلامی دستور کو تحریری شکل دی، خلفائے ثلاثہ کومشکلات میں مشورے دیے،علمی بصیرت اور علم لدنی کے چراغ روشن کیے،الغرض آخری دم تک اسلام کی ترویج میں تن من دھن قربان کیا۔
عدم قیام کے اسباب
وفات پیغمبرﷺ کے بعد حضرت علیؑ پیغمبرﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے ادھر کچھ اصحاب نے سقیفہ میں عجلت کے ساتھ خواص سے بیعت لے لی اور خلیفہ ابوبکر کو مقرر کر دیا۔
حضرت علیؑ چاہتے تو اپنا حق خلافت لے سکتے تھے لیکن کچھ وجوہات ایسی تھیں کہ جن کی بنیاد پر حضرت علیؑ خاموش رہے۔ خاموشی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ گھر میں چادر اوڑھ کے بیٹھ گئےبلکہ اسلام کو جہاں ضرورت پڑی ناصر کامل بنے۔ خلفائے ثلاثہ کو جب ضرورت پڑی حضرت علیؑ سے مشورہ لیا اور مولا نے اسلام کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے اچھا مشورہ دیا۔
اگرچہ علیؑ قیام کر سکتے تھے ان کے پاس طاقت تھی،بازوؤں میں زور تھا،ہمت مرداں موجود تھی لیکن تاریخ کی کتب میں کچھ اسباب کا ذکر ملتا ہے:
” لما توفی رسول اللّٰہ ارتدت العرب واشرابت الیھودیۃ والنصرانیۃ، ونجم النفاق وصار المسلمون کالغنم المطیرہ فی اللیلۃالشاتیۃ لفقد نبیھم"۔(حمیری، عبد الملک بن ہشام، سیرۃ ابن ہشام، ( دار الکتاب العربی، بیروت)، ط ثالث، ۱۹۹۰ء، ج۴، ص۳۱۷)
"جس وقت رسولﷺ کی وفات ہوئی عرب دین سے مرتد ہو گئے۔ یہود و نصاری ٰنے سر اٹھانا شروع کیا۔ منافق نمایاں ہو گئے۔ مسلمانوں کی حالت ایسی تھی جیسے مویشوں کا گلہ بغیر چرواہے کے ہے، سردیوں کی تاریک رات ہے، آسمان سے پانی برس رہا ہے اور بیابان و جنگل میں یہ راستہ بھٹک گئے ہوں”۔
انصار کا مدد نہ کرنا
حیران کن بات ہے کہ حضرت علیؑ رات کی تاریکی میں حضرت فاطمہؑ کے ساتھ اتمام حجت کےلیے انصار کے گھروں میں جاتے تھے اور ان سے مدد طلب کرتے، پیغمبرﷺ کی وصایا یاد دلاتے۔تعجب ہے لوگ جواب میں کہتے اے بنت رسولﷺ ہم پہلے ہی ابوبکر کی بیعت کر چکے ہیں اگر علیؑ پہلے آتے تو ہم علی ؑ کی بیعت کرتے،اب تو دیر ہو گئی۔اس پر حضرت علیؑ فرماتے عجیب بات ہے آپ چاہتے کہ علیؑ، رسولﷺ کی تجہیز و تکفین کو چھوڑ کر تم سے پہلے بیعت لیتے۔سیدہ فاطمہؑ فرماتی ہیں:
"اے ابو الحسن ؑ جو کچھ تو نے کیا وہ صحیح تھا اور لوگوں نے جو کچھ کیا وہ درست نہیں تھا خدا ان سے باز پرس کرے گا”۔( مرکز تحقیقات اسلامی، تاریخ اسلام، ( نور مطاف کراچی)، ط سوم1428ھ، ج۳، ص۵۰)
وصیت اور سیرت رسولﷺ پر عمل
رسول اکرمﷺ نے آخری وقت حضرت علیؑ سے سرگوشی فرمائی اور آنے والے حالات سے آگاہ فرمایا اور فرمایا یا۔ علیؑ صبر سے کام لینا۔حضرت علیؑ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم اگر رسول اللہﷺ ہم سے عہد نہ لیتے اور ہم کو اس امر کی اطلاع نہ کر چکے ہوتے تو میں اپنا حق کبھی نہ چھوڑتا اور کسی کو اپنا حق نہ لینے دیتا”۔(کوفی، احمد بن ابو محمداعثم، تاریخ اعثم کوفی، (مطبع یوسفی دہلی)،ط 1913ء، ص113)
انہی وصیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"میں نے اپنے حالات پر نظر کی تو دیکھا میرے لیے ہر قسم کی بیعت سے اطاعت رسولﷺ مقدم تھی اور ان سے کیے ہوئے عہد و پیمان جو میری گردن میں تھے”۔(مفتی،جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)،ط دوم 2013ء خطبہ37، ص 146)
امام رضا علیہ السلام سے جب ہیثم بن عبداللہ رمانی نے سوال کیا کہ فرزند رسولﷺ بتائیں کہ 25 سال تک حضرت علیؑ نے اپنے دشمنوں سے جہاد کیوں نہیں کیا پھر اپنے عہد خلافت میں کیوں جہاد کیا، آ پؑ نے فرمایا:
"حضرت علیؑ نے اس سلسلے میں رسولﷺ کی اقتدا کی ہے اور ان کی سیرت پر عمل کیا ہے اس لیے کہ پاک پیغمبرﷺنے اعلان نبوت کے بعد مکہ میں 13 سال اور مدینہ میں 19 ماہ مشرکین سے ترک جہاد کیا کیونکہ مشرکین کے مقابلہ میں آپﷺ کے اعوان و انصار کم تھے پس اسی طرح حضرت علیؑ بھی قلت اعوان کی وجہ سے اپنے دشمنوں سے جہاد ترک کیے رہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ جب 14سال 7 ماہ ترک جہاد کی وجہ سے رسولﷺ کی نبوت باطل نہیں ہوئی تو 25 سال ترک جہاد کرنے سے علیؑ کی امامت کیسے باطل ہوتی ہے جبکہ دونوں سے ترک جہاد کا سبب ایک ہی تھا”۔( صدوق، ابو جعفرمحمد بن علی ابن بابویہ قمی، عیون الاخبارالرضا،( اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ کراچی)، ط اول 2021، ج2، ص177)
معقول فوجی قوت کی کمی
حضرت علیؑ خود فرماتے تھے:
"امر خلافت میں کوتاہی موت کے خوف سے نہیں بلکہ فرمان پیغمبرﷺ کے مطابق ہے کیونکہ پیغمبرﷺ نے فرمایا یا علیؑ!امت تجھ سے خیانت کرے گی۔ انہوں نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا وہ اسے وفا نہیں کریں گے در حالانکہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیؑ کے لیے ہارونؑ۔علیؑ نے رسولﷺ سے سوال کیا ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے تو رسولﷺ نے فرمایا اگر کوئی ایسا شخص مل گیا جو تمہاری مدد کرے تو تم ان سے جنگ و جدال کرنا اور اپنا حق وصول کرنا اگر ایسا نہ ہوا تو تم اس خیال سے دور رہنا اپنے خون کی حفاظت کرنا تاکہ میرے پاس مظلوم آؤ”۔(طبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، احتجاج طبرسی، (ادارہ تحفظ حسینیت لاہور)، ط اول 2009ء،ج1،ص304)
ایک جگہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
"اگر مجھے 40 باعزم افراد مل جاتے تو میں اس گروہ کے خلاف انقلاب اور جنگ و جدال کرتا”۔
( المعتزلی، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (موسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان قم،ایران)، ط اول 1378ھ 1959ء، ج2،ص 22، 47)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
"میں نے اپنے اطراف میں نظر ڈالی اور دیکھا کہ میرے اہل بیتؑ کے سوا میرا کوئی مددگار نہیں، مجھے یہ گوارا نہیں ہے کہ انہیں موت کے منہ دے دوں”۔
(مفتی،جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)، ط دوم 2013 ء، خطبہ26،ص123// (1) طبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، احتجاج طبرسی،( ادارہ تحفظ حسینیت لاہور) ط اول2009، ج1،ص301 تا 303 (2) مجلسی، علامہ محمد باقر،بحار الانوار،(دار التراث العربی بیروت لبنان)،ط ثالث 1982ء،1403ھ ج29،ص417)
اگر ہم صحیح تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اکثر انبیاء کرامؑ نے یار و مددگار نہ ہونے کی وجہ سے قیام نہیں کیا۔مولائے کائناتؑ نے انبیاءؑ کی سیرت پر عمل کیا ہے اور انصار نہ ہونے کی وجہ سے قیام نہیں کیا بلکہ جب مولا متقیانؑ سے اشہد بن قیس نے سوال کیا کہ مولا آپؑ نے اپنا حق لینے میں اپنی تلوار کا سہارا کیوں نہیں لیا تو فرمایا:
"اے اشعث دیکھو میرے سامنے چھ انبیاءؑ کے نمونے موجود ہیں: جناب نوحؑ، لوطؑ، ابراہیمؑ، موسیؑ، ہارونؑ اور پیغمبرﷺ کہ جنہوں نے صرف اس لیے قوم کی سرکشی اور طغیانیوں کے خلاف قیام نہیں کیا کہ ان کے پاس ساتھیوں اور ناصروں کی کمی تھی ورنہ ہم بندگان خدا کو موت سے کوئی ڈر نہیں کہ ہم موت کے خوف سے گریز کریں بلکہ وجہ یہی تھی کہ میرے ساتھیوں کی تعداد کھانے میں نمک اور آنکھ میں سرمہ کے برابر تھی”
(طبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، احتجاج طبرسی،( ادارہ تحفظ حسینیت لاہور) ط اول2009، ج1،ص301 تا 303)
(مجلسی، علامہ محمد باقر،بحار الانوار،(دار التراث العربی بیروت لبنان)،ط ثالث 1982ء،1403ھ ج29،ص417)
یہ سچ ہے کہ موت سے مولاؑ کوکوئی ڈر نہ تھا مگر دوسری طرف مخلصین نہیں تھے جیسے خود فرماتے ہیں:
” افسوس کہ آج میرے پاس جعفر اور حمزہ جیسے یار و مددگار نہیں ہیں "۔
( مجلسی، علامہ محمد باقر،بحار الانوار،(دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان) ط ثالث 1983ء،۱۴۰۳ھ، ج29،ص452)
تحفظ ملت اسلامیہ
نو مسلم عرب جن کےجاہلانہ رسم و رواج مکمل ختم نہیں ہوئے تھے اور جذبہ ایمان سے سرشار نہ تھے اور اس وقت ہر قسم کی داخلی و خارجی جنگ مسلمانوں کی طاقت کے خاتمے کا باعث بنتی اور اسلام منہدم ہو جاتا۔
ان دنوں اہل ردہ نے جزیرۃ العرب کے اطراف میں مرکزی حکومت کے خلاف اپنا پرچم لہرایا۔ ان کے علاوہ ایران اور روم کی دو طاقتیں اس موقع کی تلاش میں تھیں کہ قائم شدہ حکومت برسر پیکار ہوں۔ اگر ان متزلزل مسلمانوں اور بیرونی دشمنوں کے پیش نظر حضرت علیؑ تلوار کا سہارا لیتے اور اپنا حق لینے کی خاطر جنگ کرتے تو اسلامی طاقت اور مرکزیت کو نقصان ہوتا اور بیرونی طاقتیں حملہ آور ہوتیں نتیجتاً اسلام نیست و نابود ہو جاتا۔شاید یہی وجہ کار فرماتی کہ سقیفہ کے واقعات کے بارے اپنی تقریروں میں مولا علیؑ نے تفرقہ بازی کے نتائج کی طرف اشارہ فرمایا:
"فتنے کی افواج کو نجات کی کشتی سے چاک کر دو، اختلافات پیدا کرنے سے گریز کرو، فخر فروشی کی علامات کو سرسے اتارو، میری خاموشی کا سبب میری وہ دانش و باطنی آگاہی ہے جس میں میں غرق ہوں اگر تم بھی میری طرح باخبر ہوتے تو کنویں کی رسی کی مانند مضطرب اور لرزاں ہو جاتے”۔
(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)، ط دوم2013ء، خطبہ 5، ص88 )
کنز الاعمال ج 6، ص 69 پر، پاک پیغمبرﷺ کا حضرت علیؑ سے عہد لینے اور صبر سے کام لینے کی وصیت پر بحث کرتے ہوئے حضرت علیؑ کے اس قول کو نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:
"اگر میں تلوار اٹھاتا تو اسلام منزل اول ہی سے ختم ہو جاتا”۔
(کراروی، سید نجم الحسن، چودہ ستارے، (امامیہ کتب خانہ لاہور)،ط1973 ء،1393ھ، ص149)
شیرازہ نہ بکھرے
حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
” میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھتا رہا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا۔۔۔یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگیں اور چارے کے مابین کھڑا ہوا اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے”۔
(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)، ط دوم 2013ء، خطبہ 3، ص 73، 74 )
اس صورتحال کے باوجود وہ کون سی چیز تھی جس کی بنا پر مصحف ناطقؑ خاموشی سے نظارہ خلق کرتا رہا جبکہ وہ خود احکام الہٰی کے انجام دہی میں اتنا پابند تھا کہ اس کے ہاں تھوڑی سی چوک بھی ناقابل تلافی ہوا کرتی تھی خود فرماتے تھے:
” خدا کی قسم میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈا کر اسے سرچشمہ حق تک کھینچ کر لے جاؤں گا اگرچہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے”۔
(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)، ط دوم 2013ء، خطبہ134، ص 73، 293 )
شریعت اسلامی اور حقوق العباد کی اتنی پاسداری کرنے والا آخر کیوں خاموش تھا؟ کیا وجہ تھی؟ وجہ صرف مسلمانوں کا اتحاد اور شیرازہ بندی تھی،مسلمانوں کی طاقت اور قوت کو مستحکم کرنا تھا یہی وہ اہم علت تھی جس کی وجہ سے فاتح خیبر و خندق نے سکوت اختیار کیا اور فرمایا:
” میں نے دیکھا کہ صبر کرنا اس عظیم مصیبت پر مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے سے بہتر ہے”۔
(المعتزلی، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،(دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)، ط اول 1418ھ، 1998ء،ج1،ص184)
حضرتؑ کے عہد خلافت میں جب طلحہ اور زبیر نے بیعت توڑی اور داخلی فتنہ پردازی میں شامل ہو گئے تو علیؑ نے اپنے موقف اور ان لوگوں کے موقف کے مابین کئی بار موازنہ کیا اور فرمایا میں نے مسلمانوں کے اتحاد کے لیے اپنے حق سے چشم پوشی کی ہے تاکہ اتحاد باقی رہے لیکن ان لوگوں نے پہلے خاموشی سے بیعت کی اور بعد میں بیعت توڑ دی۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرنے کی پرواہ نہ کی۔
امت کے ارتداد کا خطرہ
قرآن میں واضح اشارہ موجود ہے کہ پیغمبرﷺ کی رحلت کے بعد ایک گروہ واپس دور جاہلیت کی طرف چلا جائے گا۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا:
"وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ "
"محمدﷺ صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی رسول گزرے ہیں کیا وہ اگر مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟”۔(القرآن: آل عمران، 3: 144 )
اس آیت کی روشنی میں پیغمبرﷺ کو اپنے بعد آئندہ اسلامی معاشرے کے بارے سخت تشویش تھی۔ سقیفہ کے واقعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس روز کس طرح یہ راز روشن اور عیاں ہوا کہ ایک بار پھر قبائلی تعصبات اور جاہلیت کے خیالات انصار و مہاجرین کی تقاریر سے اشارہ و کنارہ میں نمایاں ہو گئے۔اس کے علاوہ جو قبائل کچھ عرصہ پہلے ہی مسلمان ہوئے تھے رسولﷺ کے رحلت کی خبر سنتے ہی مرتد ہو گئے اور اپنے آبا و اجداد کے دین کی طرف چلے گئے حتی کہ مرکزی حکومت کی مخالفت شروع کر دی۔
دوسری طرف مسیلمہ، سجاح، اور طلیحہ نے بھی نجد اور یمامہ کے علاقوں میں اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے دوسرا پرچم بلند کر دیا اور بہت سے لوگوں کو اپنے گرد جمع بھی کر لیا۔ ایسی صورتحال میں اگرچہ حضرت علیؑ حق بجانب تھے مگر ان کے لیے زیبا نہ تھا کہ الگ سے اپنا پرچم بلند کرتے۔ چنانچہ والی مصر کو خط لکھا اس میں آپؑ نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے:
"میں نے دیکھا کہ لوگوں میں ایک گروہ دین اسلام سے برگشتہ ہو گیا ہے اور وہ اس فکر میں ہے کہ آئین محمدی کو نیست و نابود کر دے۔ مجھے یہ خوف محسوس ہوا کہ اگر میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کرو تو مجھے اس بات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ اسلام کی تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔دنیا کی حکومت چند روزہ ہے جو سراب یا ابر کی طرح سرعت سے گزر جائے گی۔ اسلام کی تباہی اس حکومت کے ترک کرنے سے زیادہ مجھ پر شاق اور المناک گزرے گی”۔
(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)،ط دوم، 2013ء، خطبہ 62، ص 609)
پیغمبرﷺ کو امت کے ارتداد کے خطرہ تھا وہ پریشان تھے کہ کہیں امت میرے بعد منحرف نہ ہو جائے کیونکہ امت کو جب موقع ملتا تو صراط مستقیم سے ہٹ جاتے تھے حتی کہ جنگ احد میں جب کسی نے رسولﷺ کی شہادت کی جھوٹی خبر پھیلائی تو سب ادھر ادھر بھاگنے لگے اور لوٹ مار شروع کر دی۔ منافقوں کے رئیس عبداللہ ابن ابی، ابو سفیان کے ذریعے سے امان نامہ حاصل کرنا چاہتے تھے اور اس وقت خدا کے بارے لوگوں کا عقیدہ ایسا ہو گیا تھا کہ توبہ! چنانچہ ارشاد ہوا:
"ایک گروہ جن کو اس وقت بھاگنے کی شرم سے جان کے اولے پڑے تھے خدا کے ساتھ زمانہ جاہلیت کی ایسی بدگمانیاں کرنے لگے (اور) کہنے لگے بھلا یہ امر (فتح) کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے؟”۔
(القرآن:آل عمرآن، 154:3 )
آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں:
"یہی ارتداد کا خطرہ ایسا تھا کہ پیغمبر اکرمﷺ کو کھائے جا رہا تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ جب مرسل اعظمﷺ کی وفات کی خبر منتشر ہوئی تو وہ قبائل جو نو مسلم تھے وہ دین اسلام سے منحرف ہو گئے اور پرچم ارتداد بلند کر کے مالیات دینے سے بھی انکار کر دیا”۔
(سبحانی، جعفر،فروغ ولایت، (موسسہ امام صادق، قم ایران)، ط پنجم1380ھ، صفحہ 163)
ایسے نامساعد حالات میں علی ؑ قیام کرتے تو کیسے کرتے جبکہ ان کا اصل ہدف حصول سلطنت نہ تھا بلکہ بقاء اسلام تھا۔ لہٰذا مولا علیؑ نے یہ دیکھا کہ اگر میں قیام کرتا ہوں تو لوگ مرتد ہو جائیں گے کیونکہ نئے مسلمانوں کے لیے تھوڑی سی کوتاہی بساط اسلام کو ختم کر دے گی۔ چنانچہ صادق آل محمدؑ سے جب کسی نے پوچھا کہ حضرت امیر المومنین ؑ نے قیام کیوں نہیں کیا تو فرمایا:
"امیر المومنینؑ کو خوف تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم مرتد ہو جائے اور مرسل اعظمﷺ کی شہادت (آذان سے) ہی مٹ جائے”۔
(مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، (موسسہ الوفا بیروت لبنان)، ط دوم 1403ھ، ج29، ص 445)
حتی ایک دن سیدہ طاہرہؑ نے شکوہ کر دیا کہ آپ قیام کیوں نہیں کرتے۔ اتنے میں اذان کی آواز آئی تو کہنے لگے:
"کیا آپؑ چاہتی ہیں کہ آپؑ کے بابا کا نام دنیا سے مٹ جائے؟انہوں نے جواب میں کہا نہیں تو فرمایا اس لیے قیام نہیں کر رہا”۔
(معتزلی، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (موسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان قم ایران)، ط اول 1378ھ، 1959ء، ج 11، ص 113)
کینہ توز دشمن اور خارجی دشمن
"لوگ فضیلت علیؑ جانتے تھے مگر اکثر وہ تھے کہ جن میں سے کسی کا باپ،کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، یا کسی کا کوئی قرابت دار جنگوں میں حضرت ؑ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔حضرت علیؑ سے یہ دشمنی اور کینہ اسی وجہ سے ان کے دلوں میں تھا”۔
(صدوق، ابو جعفر محمد بن علی ابن بابویہ، عیون الاخبارالرضا،( اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ کراچی) ط اول2021ء ج2،ص176)
ان حالات میں اگر حضرت علیؑ قیام کرتے تو یہی دشمن کہنے لگتے کہ علی ؑ نے مسلمانوں کے مابین رخنہ پیدا کیا ہے اور دین کے نام پر جنگ شروع کر دی ہے۔ممکن تھا ابتدا میں حضرت علیؑ کے ہمدرد ہی تہ تیغ ہو جاتے اور مجموعی نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں کا مرکز زوال پذیر ہو جاتا۔ اور جب مرکز کمزور ہو جاتا تو وہ قبائل جو مرکز سے دور تھے یا جن کے اندر ابھی اسلام پوری طرح بسا نہیں تھا وہ مرتدین سے جا ملتے اور اسلام کی روشنی ماند پڑ جاتی۔
دوسری طرف خارجی دشمنوں کا حملے کا خطرہ بھی تھا خصوصا ًایران اور روم۔جبکہ پہلے تین بار رومیوں سے مقابلہ ہو چکا تھا۔ ایسی صورتحال میں اگر امیر المومنینؑ قیام کرتے تو مرکز اسلام کا داخلی محاذ کمزور ہو جاتااور پھر خارجی محاذ کےدفاع کے لیے قدرت ممکن نہ تھی۔ مولاؑ کرتے تو کیا کرتے خود اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"میں نے سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کروں”۔
(المنتظری، آیت اللہ العظمی المنتظری، شرح نہج البلاغہ، (دانشگاہ امام خمینی کراچی )،ط اول۲۰۱۱ء ج2، ص14 ,15)
یہاں کٹے گی ہوئے ہاتھوں سے مراد یہ ہے کہ طاقت کے بغیر حملہ کیسے کر سکتا ہوں جبکہ عسکری قوت دوسروں کو حاصل ہے لوگ میرے ساتھ نہیں بلکہ صاحبان حکومت کے گرد جمع ہیں۔
پاکیزہ نسلوں کا خیال
اللہ کا قانون ہے۔
لَوۡ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا۔
"اگر وہ (ایماندار کفار سے) الگ ہو جاتے تو ان میں جو لوگ کافر تھے ہم انہیں دردناک عذاب کی سزا دیتے”۔(القران:سورہ فتح، 25:48 )
مذکورہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مومنین جو کافر آباؤ اجداد کی صلب میں قرار دیے گئے ہیں جب تک وہ مومنین کافروں کی صلب سے نکل نہ جائیں تب تک عذاب الٰہی رکا رہتا ہے۔ اس لیے امام صادقؑ فرماتے ہیں:
"مومنین کی صلب میں جو کافرین قرار دیے گئے ہیں اور اسی طرح کافروں کی صلب میں کچھ مومنین قرار دیے گئے ہیں یہ (مومنین) اگر کفار سے الگ ہو جائیں تب خدا کافرین پر عذاب نازل کرتا ہے”۔
(مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، (دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان)،ط ثالث 1983ء،1403ھ،ج29 ص437)
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہاں دنیا میں موقع دیتا ہے اور انتظار فرماتا ہے کہ جب عذاب آئے تو زد میں صرف کفار اور منافقین ہی ہوں۔ امام صادق ؑسے سوال ہوا کہ مولا علیؑ نے قیام کیوں نہیں کیا تھا تو امام صادق ؑ نے فرمایا:
"اس وقت خداوند متعال نے مومنوں کی صورت میں کچھ امانتیں کفار اور منافقین کی صلبوں میں قرار دی تھیں کہ جب تک وہ امانتیں ان کی صلبوں سے خارج نہ ہو جائیں تب تک وہ بھلا کیسے تلوار اٹھاتے”۔
(مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، (دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان)،ط ثالث 1983ء،1403ھ،ج29 ص428)
لہٰذا وہ علیؑ جو حکمت و نظام الہٰی کا پابند تھا وہ کیسے حکمت اور منشاء خداوندی کے برخلاف قدم اٹھاتا۔
جدو جہد مولا علیؑ
یوں تو وفات پیغمبرﷺ کے بعد حضرت علی ؑ کے لیے حکومت نے بڑی مشکلات کھڑی کر دی تھیں ان سے خلافت کا حق ظاہرا چھینا گیامگر علیؑ نے گوشہ نشینی کے باوجود اسلام کے لیے وہ کاوشیں فرمائیں جو ان کی عین ذمہ داری تھی۔ہم اس مختصر مقالہ میں 25 سالہ دورانیہ میں حضرت علیؑ کی جدوجہد کا کچھ حصہ بیان کریں گے۔حضرتؑ ہمیشہ رسالت کے مددگار اور اسلام کے بقا کے لیے کوشاں رہے۔ چند کاوشیں درج ذیل ہیں۔
جمع و تدوین قرآن
امیر المومنینؑ ترجمان قرآن اور پاسبان حریم کتاب اللہ تھے۔ رحلت پیغمبرﷺ کے بعد جب خلافت و حکومت پر لوگ قابض ہو گئے تو مولا علیؑ وصیت پیغمبرﷺ کے مطابق خاموش رہے۔گوشہ نشینی کے ساتھ اس الہٰی فریضہ کو تکمیل تک پہنچایا۔
علیؑ اور قرآن
پہلے علی ؑ اور قرآن کی ہم آہنگی بیان کرتے ہیں۔ حضرت علی ؑ اور قرآن میں کوئی جدائی تجویز نہیں کی جا سکتی چنانچہ پیغمبر اکرمﷺ کا فرمان ہے۔
"علی مع القران والقرآن مع علی لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض”
” علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے”
اس فرمان کی روشنی میں علیؑ اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ایک کو دوسرے سے بے نیاز اور جدا نہیں کیا جا سکتا گویا چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ قرآن کا ہر اجمال، تفصیل کا اور ہر ابہام تشریح کا محتاج ہے۔علیؑ ظاہر و باطن کا عالم ہے قرآن میں مجملات، متشابہات، ناسخ و منسوخ،اطلاق و تقیید، عام و خاص کی معرفت نبی یا امام کے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا۔قرآن کی تنزیل اور تاویل معصوم ہی جانتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد پیغمبرﷺ ہے:
"یا علی انا صاحب التنزیل وانت صاحب التاویل”
"اے علیؑ میںﷺ صاحب تنزیل ہوں اور آپؑ صاحب تاویل ہیں "۔
(عاملی،محمد بن حسن بن حرعاملی، فصول المہمہ فی اصول الائمہ،(موسسہ معارف اسلامی امام رضا مشہد ایران)، ط 1386ھ، باب: عدم جواز تاویل بغیر معارض و دلیل، ج 1،ص674)
اب تاویل کے لیے تنزیل کی آگاہی ضروری ہے کیونکہ علم تنزیل کے بغیر ناسخ و منسوخ، مجمل و مبین، عام و خاص، مطلق و مقید معلوم نہیں ہو سکتے۔ اگر علم تنزیل کے بغیر تاویل ہو تو اس میں تغیر و تبدل اور غلطی کا امکان رہتا ہے پس جب پیغمبرﷺ نے فرمایا اے علیؑ تو صاحب تاویل ہے تو اس کا لازمہ ہے کہ علیؑ تنزیل کا بھی عالم ہو۔چنانچہ وہب بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ علی ؑ سے خطبہ دیتے ہوئے سنا:
"سلونی عن کتاب اللّٰہ فواللّٰہ مامن آیۃالا و انا اعلم أبلیل نزلت ام بنھار”
” کتاب اللہ کے متعلق مجھ سے پوچھو خدا کی قسم میں قرآن کی ہر آیت کے بارے جانتا ہوں کہ وہ رات کو نازل ہوئی یا دن کو، ہموار زمین پر نازل ہوئی یا پہاڑ پر”۔
( سیوطی، جلال الدین، اتقان فی علوم القرآن، (دار الفکر لبنان)،ط اول1996ء1416ھ ج 2،ص493)
(مجلسی، علامہ محمد باقر،بحار الانوار، (دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان) ط ثالث 1983ء،1403ھ ج 92، ص 78)
چنانچہ پاک پیغمبرﷺ فرماتے ہیں:
"ان منکم من یقاتل علی تاویل ھذا القرآن کما قاتلت علی تنزیلہ، فقالا ابو بکر و عمر نحن ؟ فقال لا، ولکنہ خاصف النعل وعلی یخصف نعلہ ”
"تم میں وہ بھی ہے جو تاویل قرآن پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے کہا کیا وہ ہم ہیں؟ فرمایا نہیں بلکہ وہ جو جوتیاں گانٹھ رہا ہے اس وقت حضرت علی ؑپیغمبرﷺ کے جوتے گانٹھ رہے تھے”۔
(عاملی، محمد بن حسن بن حرعاملی، وسائل الشیعہ، (موسسہ اہل البیت لاحیاء التراث قم مشرفہ)، ط ثانی 1414ھ، ج27 ، ص204)
(حنبل،احمد بن محمد بن حنبل، مسند امام احمد بن حنبل، (موسسہ الرسالہ بیروت لبنان )،ط ثانی1429ھ 2008ء ج17،ص391)
(کوفی، محمد بن سلیمان، مناقب امیر المومنین، (موسسه فرہنگی واطلاع رسانی تبیان ایران)، ط1387 ھ، ج 2، ص 553، ح 7670)
جمع قرآن
رحلت پیغمبرﷺ کے بعد امیر المومنینؑ کا پہلا علمی اور دینی کارنامہ جو ظاہر ہوا ا ور قرآن کی جمع آوری ہے۔ اگرچہ قرآن کے نزول پر صحابہ کرام اسے ضبط کرتے تھے مگر یہ آیات درخت خرمہ کی چھال، لکڑی اور چمڑے کے ٹکڑوں اور بڑی ہڈیوں پر تحریر کرتے تھے جن میں نظم و ضبط کا خیال رکھنا مشکل تھا ضرورت ہوئی کہ ان سب کو یکجا کیا جائے۔
ایک طرف حکومت کا دباؤ تھا تو دوسری طرف اسلام کی ترویج کی ذمہ داری۔ آپؑ نے ان نامساعد حالات میں قرآن کی تدوین اور جمع آوری کی۔ قرآن کو ترتیبِ نزول کے مطابق جمع کر کے اسلام کی بنیادی ضرورت مکمل کی۔ چنانچہ محمد ابن اسیرین کہتے ہیں حضرت علیؑ نے فرمایا:
"اٰلیت بیمین ان لا ارتدی بردائی الا الصلوۃ حتیٰ اجمع القرآن”
"میں نے قسم کے ذریعے اپنے اوپر یہ پابندی لگائی کہ نماز کے علاوہ عبا نہ پہنوں گا جب تک قرآن کو جمع نہ کر لوں”۔
(مجلسی، علامہ محمد باقر بن محمد تقی،بحار الانوار، (دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان)، ط ثالث 1983ء،1403ھ، ج28، ص 191 )
قرآن کی جمع آوری ترتیب نزول کے مطابق صرف حضرت علیؑ ہی کر سکتے تھے کیونکہ ترتیب نزول آیات سے کما حقہ واقف تھے جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی پیغمبرﷺ حضرت علیؑ کو لکھواتے تھے۔حضرت علیؑ کا جمع کردہ قرآن قبول نہ کیا گیا بلکہ یہ ترویج خلاف مصلحت قرار دی گئی۔ حضرتؑ نے اصرار نہ کیا تاکہ وحدت اسلامی کو دھچکا نہ لگے۔ چنانچہ قرآن کے بارے فرمایا:
"واعلموا ان ھذا القرآن ھو الناصح الذی لا یغش والھادی الذی لا یضل والمحدث الذی لا یکذب "
"یاد رکھو یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا،ایسا ہدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا”۔
(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ، (معراج کمپنی لاہور)، ط دوم 2013ء، خطبہ 174، ص 362 )
امیر المومنینؑ نے اس قرآن کے متعدد نسخے اپنے ہاتھ سے قلم بند کیے۔ان میں سے بعض آج بھی محفوظ ہیں۔ چنانچہ مکتب رضویہ مشہد میں چند سورتوں کا مجموعہ 92 اوراق کا اور ایک مجموعہ سورہ ہود تا کہف 68 اوراق کا نیچے لکھا ہے”کتبه علی ابن ابیطالب"، مکتبہ نجف میں بھی ایک مجموعہ ہے نیچے لکھا ہے” کتبہ علی ابن ابیطالب فی سنۃ اربعین فی الھجرہ"۔
نقاط اور اعراب قرآن
ابتدائے اسلام میں نقاط اور اعراب کے بغیر قرآن تھا۔ کاتب افراد بھی نقاط سے آگاہ نہیں تھے۔ جیسے جیسے اسلام پھیلا غیر عرب لوگوں کے لیے مشکل بن گئی خصوصا ًبغیر نقاط کے ہم شکل حروف جیسے ب،ت،ث وغیرہ۔
حضرت علیؑ نے ابو الاسود دوئلی کو بلایا اور ان کو حروف کے نقاط اور اعراب کی ذمہ داری سونپی۔ سب سے پہلے قرآن پر نقاط ابو الاسوددوئلی نے لگائے اس کے دو شاگرد یحٰی بن یعمر اور نصر بن عاصم نے ان کی مدد کی لیکن موصوف نے مختلف رنگوں (سیاہ، سبز، سرخ اور پیلا)کا استعمال کیا جو کہ خود ایک مشکل بن گئی اس کے بعد خلیل ابن احمد فراہیدی نے علامات وضع کیں اور قرآن کی موجودہ حرکات و علامات کے موجد ٹھہرے۔
علم تجوید کی جھلک
اصطلاح قراء میں تجوید کے معنی ہیں کہ الفاظ قرآن کو اس طرح پڑھا جائے کہ حروف اپنی صوتی کیفیت کے ساتھ اپنے مخارج سے ادا ہوں اورمحل وقف کا خیال رکھا جائے۔ امیر المومنینؑ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ ادائے حروف اور صحت تلفظ پر پورا اقتدار رکھتے تھے اور اوقاف کی پابندی کرتے تھے۔جب ان سے "ورتل القرآن ترتیلا” کا معنی پوچھا گیا تو فرمایا:
"ھو حفظ الوقوف و بیان الحروف”
"اوقاف کی پابندی کرنے اور حروف کی صحیح ادائیگی کرنے کا نام ترتیل ہے”۔
( فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تفسیر صافی،(کتاب فروشی اسلامیہ تہران ایران)، ط1393 ھ، ج1، ص 45/(2) مفتی، جعفر حسین، سیرت امیر المومنین، (دار التحقیق اسلام آباد پاکستان)، ط2022ء، ج 2، ص 124، 125)
تدوین حدیث اور مصحف علی
قرآن مجید کی طرح احادیث بھی شرعی اوامر اور نواہی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پیغمبرﷺ کے بعد جس طرح حضرت علیؑ نے قرآن مجید کی جمع اور تدوین کےلیے ہمت بلند رکھی اسی طرح تدوین حدیث کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔حق تو یہ تھا کہ رحلت پیغمبر ﷺ کے بعد ظاہری خلیفہ سرمایہ احادیث پیغمبرﷺ کو جمع کرتے اور تحریر میں لاتے الٹا۔ انہوں نے احادیث کی جمع آوری پر پابندی عائد کر دی اور تحریر حدیث کی مخالفت کی حتی کہ حضرت عمر نے احادیث پیغمبرﷺ بیان کرنے والے صحابہ ابن مسعود،ابوالدردہ اور ابوذر غفاری ؓ کو قید کر دیا تھا اور ابو ہریرہ کو بدر شہر کی دھمکی دی۔
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ” میرے بابا حضرت ابو بکر رات کافی پریشان تھے۔ میں نے پوچھا کہ کوئی مشکل ہے۔اس وقت تو خاموش ہو گئےلیکن صبح ہوئی تو مجھے کہنے لگے کہ جو 500 حدیثیں تمہارے پاس رکھوائی تھیں وہ لے آؤ جب میں لے آئی تو اس کو آگ میں جلا دیا”۔
(ذہبی، شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان، تذکرۃ الحفاظ ذہبی، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)، ط2021، ج1،ص52)
بالکل اسی طرح حضرت عمر نے بھی احادیث کو جلوا دیا اور کہا کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے لہٰذا سنت پیغمبرﷺ کی ضرورت نہیں۔
امیر المومنینؑ نے تدوین قرآن کے ساتھ ساتھ تدوین حدیث پر کام کیا کیونکہ پیغمبر ﷺسے بالواسطہ مستفید ہوتے تھے۔حضرتؑ اس خیال سے کہ احادیث مٹ نہ جائیں اور علم و ہدایت کا سرمایہ زندہ رہے فرماتے تھے:
” تذاکروا الحدیث فانکم ان لم تفعلوا یندرس”
"ایک دوسرے کو حدیث بیان کرتے رہو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو حدیث کے آثار مٹ جائیں گے”۔
(نیشابوری، محمد بن عبداللہ حاکم، مستدرک حاکم، (یو اینڈ می پریس لاہور)، ط2009ء، ج 1، ص 88)
حضرت علیؑ نے پیغمبرﷺ کے زمانہ سے بحیثیت کاتب قرآن و حدیث تحریر کی مگر پیغمبرﷺ کے بعد اپنا اولین فریضہ سمجھا چنانچہ صحیح بخاری میں ایک صحیفہ علیؑ کا ذکر موجود ہے۔
ابوجحیفہ کہتے ہیں میں نے علیؑ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی کتاب ہے تو فرمایا اللہ کی کتاب جو قابل فہم ہے جو ایک مرد مسلم کو عطا کی گئی یا وہ جو اس صحیفہ میں تحریر ہے۔حضرت علیؑ نے قرآن مرتب کیا جو تفسیری حیثیت رکھتا تھا اور تفصیلات و تشریحات پر مشتمل تھا۔ چنانچہ اس مصحف علیؑ کے بارے محمد ابن اسیرین کہتے ہیں:
"لو اصبت ذالک الکتاب کان فیہ العلم”
"اگر وہ کتاب مجھے مل جاتی تو اس سے علم کا ذخیرہ دستیاب ہوتا”
سن ہجری کا آغاز
17 ھ تک مسلمانوں کی تاریخ میں کسی سن کا تصور نہیں تھا۔ لوگ واقعات کا حساب عام الفیل سے لگاتے تھے۔ عام الفیل وہ سال تھا جب ابرہہ نے خانہ کعبہ پر ہاتھیوں کی فوج سے حملہ کیا۔لوگ جنگ فجار کو بھی سنگ میل کی حیثیت دیتے تھے اسی لڑائی سے ماضی کے واقعات کا حساب لگاتے تھے کچھ لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر سے سابقہ زمانہ کی نشاندہی کرتے تھے۔
اسلام جب دور دراز تک پھیلا اور خط و کتابت کا دور بڑھا تو مشکل کھڑی ہوئی کہ کون سا حکم پہلے آیا کون سا بعد میں، کون سا خط پہلے لکھا گیا کون سا بعد میں۔حضرت عمر نے مشاوراتی کونسل بلائی۔ جلسہ میں مختلف تجاویز پیش کی گئی۔ کسی نےکہا ایرانی سن کو اختیار کیا جائے تو کسی نے رائے دی کہ یہودی سن رائج ہو کچھ لوگ عام الفیل کے حق میں تھے۔حضرت علی ؑ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کو سال کا آغاز قرار دیا جائے کیونکہ پیغمبرﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد اسلام ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ حساب لگانے پر معلوم ہوا کہ ہجرت کو تقریباً 17 سال گزر گئے تھے چنانچہ اس سال کو 17 ھ قرار دیا گیا۔ حضرت علیؑ کا یہ مشورہ اسلامی تاریخ کی بنیاد ہے اور قیامت تک ہر سال مسلمانوں کو حضرت علیؑ کی یاد دلاتا رہے گا۔
اسلام میں سڑکوں کی تعمیر
یوں تو جتنے بھی بعد از پیغمبرﷺ رفاعی کام ہوئے ہیں سب مولا علیؑ کی بدولت ہوئے ہیں سید امیر علی نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے۔
"حضرت عمر کے عہدہ خلافت میں جتنے رفاہ عامہ کے کام ہوئے ہیں وہ سب حضرت علیؑ کی جدو جہد سے ہوئے ہیں”۔
(سید امیر علی، تاریخ اسلام مکمل، (آزاد بک ڈپو، ہال بازار امرتسر)، ط1993ء، ج1، ص 33 )
"خلیفہ ثانی کے دور میں جزیہ کا جتنا مال آتا تھا وہ مال لشکر کی آراستگی، سرحد کی حفاظت،قلعوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا تھا جو بچتا تھا وہ مال سڑکوں، پلوں کی تیاری اور تعلیمی سرگرمیوں میں لگایا جاتا تھا”۔
(احسن، سید علی احسن، احسن الانتخاب، ( ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،لکھنو)، ط1351ھ،ص488)
فقہی کتابوں میں سڑک کی تعمیر کی طرف لفظ فی سبیل اللہ سے اشارہ کیا گیا ہے۔ شرائع الاسلام میں لکھا ہے:
” فی سبیل اللہ سے مراد مخصوص جنگی اخراجات ہیں اور ایک قول کی بنا پر اس میں راستوں اور پلوں کی تعمیر، زائروں کی امداد،مسجدوں کی مرمت بھی شامل ہے مجاہد کوامداد دینا ضروری ہےچاہے وہ اپنے معاملات میں غنی ہی کیوں نہ ہو”۔
( محقق حلی، ابو القاسم نجم الدین جعفر بن الحسن، شرائع الاسلام، (دارالقاری بیروت لبنان)، ط11، 1425 ھ 2004 ء، باب:فی من تصرف الزکوٰۃ، ج1، ص127)
سبیل کے لغوی معنی راستہ کے ہیں اور سبیل کی اضافت اللہ کی طرف دینے سے بحوالہ مذکورہ ثابت ہوتا ہے کہ سڑک کی تعمیر کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے اس لیے حضرت علیؑ نے سڑک کی تعمیر میں پورے تن دہی سے کام کیا۔علامہ ہاشم بحرانی بحوالہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں:
"حضرت علیؑ نے 17 میل تک اپنے ہاتھوں سے زمین ہموار کی اور سڑک تعمیر فرمائی اور ہر میل پر پتھر نصب کیا۔ ان پر ( ھذا میل علی )تحریر فرمایا۔ چونکہ اس زمانے میں نقل و حمل کا کوئی خاص ذریعہ نہیں تھا اس لیے ان وزنی پتھروں کو خود اٹھا کر لے جاتے اور نصب کرتے تھے۔اٹھانے کا انداز یوں تھا کہ دو پتھروں کو ہاتھ میں لے لیتے تھے اور ایک پتھر کو پیروں کے ٹھوکڑوں سے آگے بڑھاتے تھے اس طرح تین تین پتھر لے جاتے ہر میل پر سنگ میل نصب کرتے”۔
(بحرانی، سید ہاشم، مدینۃ المعاجز، (موسسہ معارف اسلامی قم)، ط1413ھ، ج 1، ص 519، 520)
جانی امداد
حضرت علیؑ نے 25 سالوں میں دفاعِ اسلام کےلیے جانی نذرانے پیش کیے۔ جیسے 17ھ، فتح مصر کے موقع پر حضرت علیؑ نے اپنے خاندان کے نوجوان فوج میں بھرتی کرواکر جنگی خدمات سرانجام دیں۔ صاحب فتوحات مصر میں مسلمانوں کی فتوحات کے بارے کہتے ہیں:
"حضرت علیؑ کے بھتیجے اور داماد حضرت مسلم بن عقیل اور ان کے ایک بھائی نے محاذ مصر میں سخت جنگ کی اور اس قدر زخمی ہوئے کہ خون ان کی زرہ سے جاری تھا ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اونٹ کے جگر کے ٹکڑے ہیں”۔
(شیخ محمد بن معجز، فتوحات، (ممبئی)، ط 1286ء، ص 64)
” 17ہجری فتح شوشتر کے موقع پر بھی حضرت علی ؑ کے بھتیجے محمد ابن جعفر اور عون بن جعفر شہید ہوئے”۔
(کراروی، سید نجم الحسن، چودہ ستارے، (امامیہ کتب خانہ لاہور)، ط1973 ء، 1393ھ، ص 152,153)
علم نحو کی ایجاد
علم نحو ایسا مفید علم ہے جو انسان کو خطا لفظی سے محفوظ رکھتا ہے اور اس عظیم علم کے بانی اور موجد حضرت علیؑ ہیں۔ایک دفعہ حضرت علیؑ نے ایک شخص کو غلط قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو مولا علیؑ نے ضروری سمجھا کہ کوئی ایسا قاعدہ بنایا جائے جس سے عوام الناس فائدہ اٹھائیں اور قرآن کے تلاوت میں غلطی واقع نہ ہو۔ چنانچہ اپنے شاگرد ابو الاسود دوئیلی کو چند قواعد کلیہ بتائے اور اس فن کی تدوین پر مامور فرمایا۔
حضرت علیؑ نے قواعد کلیہ کے ساتھ ساتھ علم نحو کے ابتدائی اصول بھی بتائے تاکہ اسلام میں یہ فن ترویج پائے اور مسلمان عربی پڑھتے ہوئے خاص کر تلاوت قرآن کے مابین لفظی خطاء سے محفوظ ہو سکی۔اس وقت قرآن کریم پر کوئی اعراب اور نقاط کی پہچان نہیں تھی یوں مولا علیؑ نے علم نحو کی بنیاد رکھی۔
نشر علوم محمدیﷺ
پیغمبر اکرمﷺ کے بعد علیؑ ہی وہ تنہا ذات تھی کہ جس نےحکومت میں مداخلت کی نہ اطاعت کی۔ غدیر خم پر بحکم خدا رسولﷺ نے ولایت علیؑ اور تکمیل دین کا اعلان فرمایا تھا۔تمام صحابہ نے سنا مگر بغض علی ؑ اتنا تھا کہ وفات پیغمبرﷺ کے فورا ًبعد سقیفہ میں ابوبکر کی خلافت کا اعلان ہو گیا۔مگر سعد بن عبادہ اور حضرت علیؑ کے ساتھ چند ساتھیوں کو بیعت کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔حضرت ابوبکر نے بنی ہاشم اور بعض صحابہ کرام کو پابند مدینہ کر دیا۔ چونکہ بنو ہاشم مقبول تھے علم ان کا حصہ، شجاعت اور اعلی اخلاق ان کی میراث تھی انہوں نے اسلام کو قائم کیااور پھیلایا۔ اس وقت جو اسلام رائج تھا سارا بنی ہاشم کے گھرانے کا ثمرہ تھا۔
ابوبکر نے بنی ہاشم کو کوئی عہدہ نہ دیا، نہ مدینہ سے باہر جانے دیا اس کے باوجود علیؑ بحیثیت امام خاموش نہ بیٹھ سکے۔رسول خداﷺ نے جن فتنوں کے درخت کی جڑوں کو کاٹا تھا مولا علی ؑ نے ان جڑوں کو دوبارہ ہری نہیں ہونے دیا۔چنانچہ انہوںؑ نے رسول اکرمﷺ کی تحریک علمی کو آگے بڑھایا کہ علم ہی وہ کرن ہے جو نہ صرف ذہنی تاریکی کو دور کرتی ہے بلکہ دین و دنیا کے استحکام کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔سید امیر علی شاہؒ لکھتے ہیں:
” جس زمانہ میں اسلام دور دراز ممالک میں پھیل رہا تھا علی ؑ مدینہ میں ابھری ہوئی قوم کے دماغی قوت کو بڑھا رہے تھے۔ مدینہ کی جامع مسجد میں علیؑ اور ان کے چچا زاد بھائی اور شاگرد عبداللہ ابن عباس ہفتہ وار فلسفہ، منطق، فصاحت و بلاغت، حدیث و فقہ پر لیکچر دیا کرتے تھے۔ یہ ابتدا تھی اس دماغی تحریک کی جس نے بعد میں بہت زور و شور سے بغداد میں ظہور کیا”۔
(سید امیر علی شاہ، اسپرٹ آف اسلام، (آزاد بک ڈپو ہال بازار امرتسر)، ط1923ء، ص47)
جہل و جہالت کا خاتمہ
25 سالہ صبر آزما دور میں حضرت علیؑ کی جنگ جہل کے عفریت سے تھی جس کو مٹانے کی دعوت نہ صرف قرآن دے رہا تھا بلکہ رسولﷺ نے اس کے خاتمہ کےلیے زندگی صرف کی۔
تاریخ میں ثبت ہے کہ حکومت وقت نے اس دور میں بجز اسلامی سرحدوں کو وسعت دینے کے اس طرف کوئی مفید قدم نہیں اٹھایا بلکہ حضرت علیؑ ایک عام شہری کی حیثیت سے جہالت سے جنگ اور اشاعت علم مصروف عمل رہے۔
فقہ اسلامی کی پہلی کتاب
صحیح مسلم و صحیح بخاری سے ثابت شدہ ہے کہ فقہ اسلامی کی پہلی کتاب جو تعلیمات اور احکام نبوی پر مشتمل تھی ایک پوست پر لکھی ہوئی تھی وہ حضرت علیؑ کی تالیف و تدوین تھی جو آپ نے سب کو دکھائی تھی۔ اس کتاب میں دیت کے احکام بھی تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وہ فقہ اسلامی کی کتاب قرآن مجید کے علاوہ تورات و انجیل پر حاوی تھی۔حضرت علی ؑ نے فقہ اسلامی میں اہم باب کا اضافہ کیا جس کا نام "باغیان حکومت اسلامی” ہے اس میں باغیوں کے احکام بیان فرمائے۔بقول ابو حنیفہ:
"رسول اکرمﷺ کے خلاف بغاوت کرنے والے تو کافر تھے البتہ جو مسلمان اپنے امام اور اپنی حکومت کے خلاف باغی ہوں ان سے کیا سلوک کیا جائے یہ ہم کو حضرت علیؑ کی فقہ اسلامی سے معلوم ہوا”۔
(موسوی، ضیاء الحسن، باب مدینۃ العلم کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے، (روزنامہ جنگ،یوم علی ایڈیشن)، ط1974ء)
عربی زبان کو زندگی عطاکرنا
ابوالاسود دوئلی کو امیر المومنینؑ سے بہت فیض حاصل ہوا جس بنا پر وہ ماہر لسانیات تھے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر کلام عرب کے عالم اور لغت دان تھے۔ قواعد عربیہ کے ایجاد سے حضرت علیؑ نے عربوں اور ان کی زبان کو حیات جاودانی بخشی۔ اس بات کا اقرار خود ابو الاسود دوئلی کو بھی تھا۔اس نے خود امیر المومنینؑ سے عرض کیا کہ:
"ہم عربوں کو آپؑ نے زندہ کیا اور ہماری زبان کو آپ نے بقائے دوام بخشا”۔
(الہنسوی، سید سبط الحسن، منہاج نہج البلاغہ، (مرکز احیاء آثار برصغیر،مآب نجف)، ط اول ۱۴۴۴ھ،۲۰۲۲ء،ص۵۸)
حضرت علیؑ نے نہ صرف زبان عرب میں بہت سے الفاظ،کلمات، تراکیب، محاورات اور ضرب الامثال کا اضافہ فرمایا بلکہ غیر زبان کے الفاظ بھی عربی میں شامل کرنے کا عملی ثبوت دیا۔ایک مرتبہ مشہور قاضی شریح بن حارث سے کچھ دریافت کیا قاضی نے صحیح جواب دیا حضرت نے بجائے "اصبتَ”یا "جیّد” ارشاد فرماتے بلکہ اسی کے ہم معنی رومی لفظ کو استعمال فرمایا "قانون”یعنی درست ہے۔
(الہنسوی، سید سبط الحسن، منہاج نہج البلاغہ، (مرکز احیاء آثار برصغیر،مآب نجف)، ط اول ۱۴۴۴ھ،۲۰۲۲ء،ص۵۸)
اسی وجہ سے اہل لغت اس لفظ کو ذکر کرنے پر مجبور ہوئے اب ظاہر ہے قاضی شریح خالص عربی تھے ان سے گفتگو میں مولاؑ کا غیر عربی، رومی لفظ استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حضرت علیؑ کا رجحان غیر عرب الفاظ استعمال کرنے میں بھی تھا۔ جیسے قرآن میں بھی لفظ” طور،صراط، فردوس، مشکاۃ، تنور، سراب” وغیرہ غیر عربی لفظ استعمال ہوئے ہیں۔
افتادہ زمینوں کی آبادکاری
ملک عرب کا اکثر علاقہ ریگستان، پتھریلہ اور بنجر تھا اور جو سر سبز قطعات تھے ان پر بیرونی قوتیں قابض تھیں۔ مدینہ اور طائف میں کچھ کاشتکاری ہوتی تھی۔ عرب مستقل پیشہ ور نہیں تھے۔ رسول اکرمﷺ نے صحابہ کرام کو ترغیب دی کہ زمین کو آباد کرو فرمایا کہ جس نے جس زمین کو آباد کیا وہ اس کا مالک ہے۔ حضرت علیؑ نے بنجر علاقوں کو مفاد عامہ کی خاطر آباد کیا۔وہ خود زمین جوتتے، نالیاں بناتے،پانی کھیت کے آخری سرے تک پہنچاتے۔ کھیتی باڑی کے ساتھ باغ لگانے کا رجحان بھی تھا۔ آج کا طریقہ کاشتکاری و باغبانی حضرت علیؑ کی ہی ایجاد ہے۔
زراعتی سائنس ایجاد علیؑ
یہ ایک حقیقت اور حضرت علیؑ کا عظیم کارنامہ ہے کہ زراعتی سائنس بھی حضرت علیؑ کی ایجاد ہے۔مدینہ کے آس پاس میلوں تک جتنی زمینیں پڑی تھی اکثر پتھریلی تھی۔ وفات پیغمبرﷺ کے بعدصبح سویرے علیؑ، حسنؑ و حسینؑ کے ساتھ جاتے اور بڑی بڑی چٹانیں کاٹتے۔ 25 سال میں کئی مربع زمین علیؑ نے اس قابل بنائی کہ وہاں گیہوں، جو اور طرح طرح کے پھل اگنے لگے۔12چشمے اور24 کنویں حضرت علیؑ نے کھودے اور ایک فارم بنایا۔ اس فارم کا نام حضرت علیؑ نے "ینبوع” رکھا جو کہ اب ایک شہر ہے، وہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اور فارم علی کے نام سے مشہور تھا۔ان چشموں اور کنوؤں کی کھدائی کے علاوہ علیؑ نے زراعتی سائنس (Agricultural Science)میں پیش قدمی کی کہ کھیتوں میں دور دراز تک پانی پہنچانے کا ایسا نظام بنایا کہ مدینہ کی بنجر زمین سر سبز و شاداب ہو گئی اور وہاں علیؑ نے کھیتوں اور باغوں کے مابین ایک مکان تعمیر کروایا۔وہ مدینہ سے30 میل دور ہے اور آج بھی فارم علیؑ کہلاتا ہے۔