سیرتسیرت امام علی رضاؑ

حضرت امام رضا علیہ السلام کی اخلاقی سیرت کی ایک جھلک

ہم آٹھویں امام علی بن موسی الرضا (ع) کی سیرت پر روشنی ڈالنےسے پہلے مختصر طور پر آپ کا تعارف کرا تے ہیں:
امام رضا (ع) مشہور قول کی بنا پر 11/ ذی القعدہ سن 148 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد امام موسی بن جعفر (ع) ہیں اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں۔
ہر انسان کا ذاتی اخلاق یعنی ادب، انسان کی شخصیت کا اہم عنصر ہوتا ہے اور اس کی ذاتی کیفیت کا پتہ دیتا ہے اور اس کے باطن کو اجاگر کرتا ہے۔حضرت امام رضا (ع) اخلاقی بلندیوں کی اعلیٰ منزل پر فائز اور ممتاز صفات سے آراستہ تھے۔ اسی وجہ سے عام اور خاص سب کو اپنا دوست اور گرویدہ بنالیتے تھے۔ اسی طرح آپ (ع) کی انسانیت منفرد اور بے مثال تھی۔ در حقیقت آپ کے اندر نبوت کی روح جلوہ گر تھی اور اس رسالت کا مصداق تھی جس کے ایک محافظ، امین اور وارث خود حضرت تھے۔
ابراہیم بن عباس صولی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام رضا (ع) کو کبھی کسی سے تند لہجے میں گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔ کبھی آپ نے کسی کی بات تمام ہونےسے پہلے کاٹی ہو۔اگر کسی کی درخواست اور حاجت پوری کرنے پر قادر ہیں تو کبھی آپ نے رد نہیں کیا۔ اپنے ہمنشین کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلایا۔ ہمنشین کے سامنے کبھی ٹیک نہیں لگایا۔ کبھی آپ نے اپنی غلاموں کو برا بھلا نہیں کہا، کبھی آپ کو تھوکتے نہیں دیکھا، کبھی آپ نے قہقہہ نہیں لگا یا بلکہ مسکراتے تھے۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں: اگر کوئی یہ کہہ کہ میں نے ان کے جیسا دیکھا ہی تو اس کی بات پر یقین نہ کرو۔
امام (ع) فرماتے تھے: لباس انسان کی خارجی شخصیت کا مظہر ہے لہٰذا اس کی نسبت بے توجہی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مومن کی حرمت کا تقاضا ہے کہ جب ایک دوسرے سے ملاقات ہو تو اپنی اور سامنے والے کی رعایت کرے اور پاک و پاکیزہ اور اچھا لباس پہننے کا پابند ہوکیونکہ لوگوں کے نزدیک اگر اچھے لباس پہنیں گے تو دوسرے لوگ اس فرد کو دیکھ کر احساس لذت کریں گے اور اس سے متاثر ہوں گے۔
دنیا سے کنارہ کشی اور معمولی اور سادہ زندگی گذارنا امام رضا (ع) کی نمایاں خصوصیت ہے۔ آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب بھی کوئی دعا شروع کرتے تھے تو محمد (ص) و آل محمد (ع) پر صلوات پڑھتے تھے اور نماز و غیر نماز میں بکثرت صلوات پڑھتے تھے۔ آپ اپنے قول و فعل سے کسی کی اذیت کا سبب نہیں بنتے تھے اور جب تک مخاطب کی بات پوری نہیں ہوجاتی تھی اس وقت تک کلام نہیں کرتے تھے۔ کسی ضرورتمند کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ رات کی تاریکی میں لوگوں کے ساتھ بہت نیکی کرتے تھے۔ لوگوں سے نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔
امام رضا (ع) پوشیدہ طور پر بکثرت صدقہ دیتے تھے اور اپنے اموال سے ضرورتمندوں کی مدد کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپ کی اس درجہ بخشش اور سخاوت دیکھ کر کہا کہ یہ آپ کے لئے نقصان دہ ہے تو آپ (ع) نے فرمایا: اس قسم کی سخاوت اور بخشش ضرر رساں نہیں ہے بلکہ غنیمت ہے کیونکہ جس چیز کے ذریعہ اجر اور کرامت طلب کرتے ہےوہ نقصان دہ نہیں ہوتی۔ امام رضا (ع) کی سخاوت ضرورتمندوں کے علاوہ شعراء اور امام رضا (ع) کے چاہنے والوں کے ساتھ اس درجہ زیادہ تھی کہ جب آپ (ع) کے لئے دسترخوان بچھایا جاتا تھا تو آپ اپنے غلاموں، خادموں اور محافظوں کو بھی بلاکر دسترخوان پر بٹھاتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔
ولادت اور شہادت کے ایام کے بارے میں امام خمینی (رح) فرماتے تھے: یہ ایام، ایام اللہ ہیں لہٰذا ان کی قدر جاننی چاہیے اور ان ایام کی برکتوں، سعادتوں اور کرامتوں اور فضائل سے فیضیاب ہونا چاہیے۔
خداوند کریم ہم سب کو اپنے آئمہ معصومین (ع) اور اولیائے الٰہی کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا کردے۔ آمین۔
(مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح)بین الاقوامی امور)
امام رضا علیہ السلام کی شخصیت اور اخلاق
امام (ع) کی شخصیت معنوی کے ضمن میں نجم الحسن کراروی لکھتے ہیں کہ امام (ع) گفتگو میں بےحد نرم مزاج تھے۔ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کرلیتا تب اپنی طرف سے کلام کا آغاز فرماتے۔ کسی کے کلام کو قطع نہیں کرتے۔ راتوں کو کم سوتے۔ اکثر روزہ رکھتے تھے مزدور کی مزدوری پہلے طے فرماتے پھر اس سے کام لیتے۔ مشہور شاعر ابو نواس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جس کے آباء واجداد کے آستانہ کا جبرئیل خدمتگار تھا اس کی مدح محال تھی۔ عبداﷲ بن مطرف بن ہامان سے مامون رشید نے امام رضا (ع) کی بابت دریافت کیا تو اس نے برجستہ کہا کہ اس کے بارے میں کیا کہوں جس کی طینت رسالت میں پیوستہ اور اس کی سرشت میں وحی ہے۔ ( جواد معینی /احمد ترابی) امام رضا (ع) اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں خلق پیغمبر کی ایسی تصویر تھے کہ بے اختیار رسول اکرم (ص) کا خلق یاد آجاتا تھا۔
امام (ع) کی شخصیت کے اخلاقی اور روحانی اوصاف کے ضمن میں حسب ذیل حوالوں کا ذکرضروری ہے:
١۔ امام کے اخلاق کے پر توان کے بے شمار اقوال اور احادیث میں عیاں ہے۔ مولانا روشن علی نجفی نے”” گفتار دلنشین چہاردہ معصوم علیہ السلام”” کے اردو ترجمہ میں چہاردہ معصومین (ع) میں سے ہر ایک کے حوالہ سے ٤٠ اقوال اور احادیث نقل کیا ہے۔ امام رضا (ع) کی احادیث میں ایمان، قران، توحید، مومن کی خصوصیات اور فلسفہ نماز کا ذکر ہے۔
٢۔ امام (ع) نے ذاتِ تعالیٰ کے اوصاف کی نسبت سے حروف تہجی کے ہر حرف کے پنہاں معنی پر بصیرت، افروز تبصرہ فرمایا ہے۔ (سید غلام نقی)
٣۔ امام کے روحانی تصرفات اور معجزات سے متعلق معلومات میں مرزا محمد علی خراسانی نے انگریزی میں زائرین
مشہد کے حوالہ سے امام (ع) کے ٣٤ معجزات تحریر کئے ہیں۔ عباس حیدر سید نے اپنی تالیف "الحمد لللّٰہ” میں امام رضا (ع) کے ١٠ معجزات شامل کئے ہیں۔
آئمہ علیہ السلام کی شخصیتوں کو سمجھنے کے لئے تاریخی بخل کے کوہ گراں کی رکاوٹوں کو تحقیق اور تجسس سے عبور کرنا ضروری ہے. اس جستجو میں ہمیں فضل اﷲ بن روز بہان اصفہانی نظر آتے ہیں جو اپنی بعض تالیفات کی وجہ سے فریقین میں متنازع شخصیت ہیں لیکن چہاردہ معصومین (ع) پر صلوات کے موضوع پر اپنی کتاب "وسیلۃ الخادم الی المخدوم” میں آپ نے امام رضا (ع) کو احسان اور مودت کا پیکر، توحید کی نشانیوں کو رفعت عطا کرنے والا اور کمال علم و معرفت کے القاب سے یاد کیا ہے۔
www.tebyan.net

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button