سلائیڈرسیرتسیرت امام موسی کاظمؑ

امام موسی کاظمؑ نے علی بن یقطین کو ہارون رشید کی وزارت قبول کرنے کو کیوں کہا؟

علی بن یقطین کے والد عباسی حکومت میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے. علی بن یقطین نے کوفہ میں پرورش پائی اور امام موسی کاظمؑ  کے حلقہ تلامذہ میں رہ کر آپؑ کے خاص شاگردوں میں سے قرار پائے۔
بقول علماء علم رجال و مورخین کے علی بن یقطین امام موسی کاظمؑ کے ہونہار شاگردوں اور وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے امام کاظمؑ سے بہت زیادہ کسب فیض کیا اور کثیر مقدار میں احادیث نقل کی ہیں جب کہ امام جعفرؑ سے بھی ایک حدیث نقل کی ہے۔(۱)
اپنے والد کی طرح سیاسی و اجتماعی اثر رسوخ رکھتے تھے، اس کے علاہ علم رجال کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔ ان کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
1 )ما سیل عنه الصادق(علیه ‏السلام) من الملاحم (۲)
2 )مناظره الشّاک بحضرته(۳)
3 )مسائل جو انہوں نے امام کاظم(علیہ ‏السلام) سے سیکھے تھے (۴)
علی بن یقطین اپنے اجتماعی وسیاسی اثر و رسوخ کے باعث شیعوں کیلئے ایک بہت بڑی امید و پناہگاہ سمجھے جاتے تھے۔
علی بن یقطین نے امام موسی کاظمؑ کی موافقت سے ہارون کی وزارت کی پیشکش قبول کی(۵)
اس کے بعد علی بن یقطین نے متعدد بار اس عہدے سے مستعفیٰ ہونے کا ارادہ کیا مگر ہر بار امامؑ انہیں اس امر سے منع فرماتے۔امامؑ کا انہیں استعفیٰ دینے سے روکنا حفظ جان و مال و حقوق شیعان عصر اور ان کی تحریک کو مدد فراہم کرنے کی غرض سے تھا۔(۶)
امامؑ نے یہ وزارت قبول کرنے کی تاکید کرتے ہوئے علی بن یقطین سے فرمایا:
"میں تمہیں تین چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں تم مجھے صرف ایک بات کی ضمانت دو۔ جن تین باتوں کی تمہیں میں ضمانت دیتا ہوں وہ یہ ہیں:
۱:  تلوار کے وار سے (دشمن کے ہاتھوں) نہیں مارے جاؤ گے۔
۲: کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوگے۔
۳:  کبھی قیدی نہیں بنو گے۔
اور ایک چیز جس کی ضمانت میں تم سے چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی شیعہ نے تم سے کسی بھی کام کیلئے رجوع کیا تم اس کی بھرپور مدد کروگے اور اس کا احترام کروگے۔ علی بن یقطین نے وعدہ کیا تو امامؑ نے بھی انہیں مذکورہ بالا تین باتوں کی ضمانت دی۔ (۷)
امامؑ نے اس ضمن میں فرمایا: تمہارا مقام، تمہارے بھائیوں (شیعوں) کیلئے موجب عزت ہے اور امید ہے کہ تمہارے ذریعے اللہ عز وجل ماضی کے نقصانات کا ازالہ کرے گا اور مخالفت کے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرے گا۔
مختصراً یہ کہ علی بن یقطین اپنے وعدے سے وفادار رہے۔اور جب تک اس عہدے پر فائز رہے شیعوں کیلئے ایک مضبوط قلعے اور پناہگاہ کی مانند رہے۔ علی بن یقطین ان سخت حالات میں شیعوں کی حفاظت اور استحکام کیلئے لوازمات مہیا کرنے کیلئے بڑے بڑے منصوبے بنایا کرتے تھے۔ علی بن یقطین امام موسی کاظمؑ کے وہ سچے ساتھی تھے جنہوں نے مشکل حالات اور شیعوں کے سخت مخالف ہارون رشید کا اعتماد جیتا تھا اور اس کے دربار میں وزارت حاصل کی تھی۔ وہ شیعوں کی حمایت اور مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا کرتے۔خصوصاً مالی حالات بہتر بنانے کے مواقع! وہ اپنے مال کا خمس ( جو کہ عموماً ایک خطیر رقم ہوا کرتی، یہ مبلغ بعض اوقات ایک لاکھ درہم سے لیکر تین لاکھ درہم تک ہوا کرتا)۔ (۸) ساتویں امامؑ کی خدمت اقدس میں پیش کیا کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان پر ان ہی کا حق ہے۔
علی بن یقطین کا بیٹا نقل کرتا ہے کہ: امام موسی کاظمؑ کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی یا کوئی مشکل پیش آتی تو میرے والد کو خط لکھا کرتے کہ فلاں چیز میرے لیے خرید کر بھیجو یا فلاں کام ہشام بن حکم کے ہاتھوں کروا دو۔ البتہ ہشام کی قید صرف حساس مسائل میں ہی لگاتے۔(۹)
امام موسی کاظمؑ جب عراق گئے تو علی بن یقطین نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میری حالت دیکھیں کیا ہوگئی ہے (یعنی کس عہدے پر ہوں اور کس قسم کے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔)امامؑ نے فرمایا اللہ کے اپنے نیک بندے کو ظالموں کے درمیان بھیجتا ہے تاکہ وہ نیک بندوں کی حمایت و حفاظت کرے اور تم ان خدا کے محبوب بندوں میں سے ایک ہو ۔(۱۰) جب دوسری مرتبہ علی بن یقطین نے عباسیوں سے ملحق ہونے کے متعلق امامؑ سے پوچھا تو امامؑ نے فرمایا: "اگر ناگذیر ہے تو یاد رکھو کہ شیعوں کے مال کی حفاظت کرنا۔
علی بن یقطین نے امامؑ کی ہدایات لیں اور پھر اسی طرح بظاہر شیعوں سے مال (ٹیکس وغیرہ) وصول کرتا لیکن یہ سارا مال چھپ کر انہی کو واپس لوٹا دیا کرتا ۔(۱۱)
اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہارون کی حکومت اسلامی حکومت نہیں تھی کہ ایک مسلمان پر اس کے قوانین کی پابندی واجب ہو۔ اصل حکومت تو امامؑ  کا حق تھا سو علی بن یقطین شیعوں کا سارا مال امامؑ کے حوالے کردیا کرتے۔
علی بن یقطین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہر سال متعدد افراد کو اپنی نیابت میں خانہ خدا کی زیارت کو بھیجا کرتے اور ان میں سے ہر ایک کو دس سے بیس ہزار درہم دیا کرتے۔(۱۲) ان چند افراد کی تعداد ہر سال ۱۵۰ کے لگ بھگ ہوتی یا پھر کسی سال یہ تعداد ۲۵۰ سے ۳۰۰ افراد تک جا پہنچتی۔ (۱۳)
حج جیسے فریضے کی اسلام میں اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علی بن یقطین کے اس عمل سے ان کی تقوی و پرہیزگاری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیکن اتنی کثیر تعداد میں وہ بھی اتنی خطیر رقم دے کر لوگوں کو حج پر بھیجنا اپنی جگہ علی بن یقطین کیلئے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا تھا۔اگر ہم ان حج پر جانے والے افراد کی تعداد اور ان کو دی جانے والی رقم کا تخمینہ لگائیں مثلا: بلفرض سال میں دو سو افراد اور ان میں سے ہر ایک کو ملنے والی رقم کو دس ہزار درہم فرض کریں تو بھی یہ بیس لاکھ درہم تک کی رقم بنتی ہے. عجیب بات یہ کہ یہ رقم ہرسال خرچ ہوتی تھی اس رقم کا کچھ حصہ علی بن یقطین اپنے حصے سے دیا کرتے اور باقی کا حصہ زکوۃ، خمس، صدقات، ہدیہ جات وغیرہ سے بنتا. یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اندازے کے مطابق علی بن یقطین کی آمدنی لاکھوں درہم ہونی چاہیے کہ ان اخراجات کو پورا کرسکیں۔
شیعہ علماء میں سے صرف شیخ بہائی نے اس سوال پر روشنی ڈالی ہے اور فرمایا کہ:
مجھے لگتا ہے کہ امامؑ نے علی بن یقطین کو مسلمانوں کے خراج اور بیت المال میں تصرف کی اجازت دے رکھی تھی اور علی بن یقطین اس مال سے اجرتِ حج کے عنوان سے شیعوں کی مالی مدد کیا کرتے اس لئے کہ دشمن کو شک نہ ہو۔ (۱۴)
لہٰذا یہ نیابتی حج پر لوگوں کو بھیجنے کا پروگرام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علی بن یقطین چلا رہے تھے تاکہ شیعوں کی مالی معاونت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ان نائبینِ حج میں کچھ ایسے شیعہ بزرگ بھی شامل تھے جو اس وقت امام موسی کاظمؑ کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے مثلاً «عبدالرحمن بن حجاج» و «عبداللہ بن یحیی کاہلی»(۱۵) یہ لوگ امامؑ کی دوستی کی وجہ سے حکومتی وظائف سے محروم تھے۔(۱۶)
علی بن یقطین کے بزرگوں کو حج پر بھیجنے کی دوسری بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ بزرگ دوسرے فرقوں کے علماء سے میل جول پیدا کریں اور مناظروں کی مدد سے تشیع کی تبلیغ ہو۔

حوالہ جات:
۱) نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، قم، مکتبہ الداوری، ص 195.
۲).امام صادق(علیہ‏ السلام) کی پیشنگوئیاں مستقبل کے حوادث و فتنوں کے بارے میں اور اس بارے میں ان سے کئے سوالات کے جوابات میں۔
۳). مناظره با يكى از شكّاكان در حضور امام.
۴). شيخ طوسى، الفهرست، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 234.
۵). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 433.
۶). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلامیّه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 158.
۷). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 136؛ طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 433.
۸). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 434.
۹). ایضا، ص 269.
۱۰). ایضا، ص 433.
۱۱). مجلسى، بحارالأنوار، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1385 ه.ق، ج 48، ص 158.
۱۲). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 434.
۱۳). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 437 و 434.
۱۴). مامقانى، تنقيح المثال، تهران، انتشارات جهان، ج 2، ص 317.
۱۵). عبدالرحمن بن حجاج نے امام صادقؑ و امام کاظمؑ سے بھی کسب فیض کیا، پاک و مشھور و ممتاز شیعہ شخصیات میں سے ایک تھے (نجاشى، فهرست اسما مصنفى الشيعه، قم، مكتبه الداورى، ص 65، مامقانى، عبداللّه، تنقيح المقال تهران، انتشارات جهان، ص 141)
چھٹے امامؑ  ان سے فرمایا کرتے: اے عبدالرحمٰن! مدینے کے لوگوں سے علمی گفتگو و بحث کیا کرو کیونکہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ شیعوں میں تجھ جیسے عالم موجو ہوں۔
(اردبيلى، جامع الرواه، منشورات مكتبه آيه الله العظمى المرعشى النجفى، ج 1، ص 447؛ طوسى، همان كتاب، ص 442).
عبداللہ بن یحیی کاہلی امامؑ کی نظر میں خاص احترام رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ امامؑ نے متعدد بار علی بن یقطین سے فرمایا: کاہلی اور اس کے خاندان کی کفالت کی ضمانت تم دو میں تمہیں بہشت کی ضمانت دیتا ہوں۔(طوسى، ہمان كتاب، ص 402)
علی بن یقطین بھی امامؑ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کاہلی کے خاندان کی تاعمر کفالت اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی چھپ چھپ کر ہر لحاظ سے مدد کی.
(طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 448).
۱۶). طوسى، اختيار معرفه الرجال، تحقيق: حسن المصطفوى، مشهد، دانشكده الهيات و معارف اسلامى، ص 435.
http://arezuyeaab.blogfa.com/post/402

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button