آئمہؑ اور زیارت امام حسینؑ

امام سجادؑ اور زیارت امام حسینؑ:
امام سجادؑ کہ جو خود بھی واقعہ کربلا میں حاضر تھے، انہوں نے عملی طور پر اپنے والد محترم امام حسینؑ کی زیارت کے لیے کربلا جا کر زیارت کی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا عَرَفْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ عليهما السلام أَنِّي رَأَيْتُ رَجُلًا دَخَلَ مِنْ بَابِ الْفِيلِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَتَبِعْتُهُ حَتَّى أَتَى بِئْرَ الزَّكَاةِ وَ هِيَ عِنْدَ دَارِ صَالِحِ بْنِ عَلِيٍّ وَ إِذَا بِنَاقَتَيْنِ مَعْقُولَتَيْنِ وَ مَعَهُمَا غُلَامٌ أَسْوَدُ فَقُلْتُ لَهُ مَنْ هَذَا فَقَالَ هَذَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَدَنَوْتُ إِلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَ قُلْتُ لَهُ مَا أَقْدَمَكَ بِلَاداً قُتِلَ فِيهَا أَبُوكَ وَ جَدُّكَ فَقَالَ زُرْتُ أَبِي وَ صَلَّيْتُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ هَا هُوَ ذَا وَجْهِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و آله و سلم۔
ابو حمزہ کہتا ہے کہ پہلی مرتبہ کہ جب میں نے علی ابن الحسینؑ کو پہچانا تو یہ وہ دن تھا کہ جب میں نے دیکھا کہ ایک بندہ مسجد کوفہ کے باب الفیل سے داخل ہوا اور اس نے چار رکعت نماز پڑھی۔ میں اس بندے کے پیچھے گیا کہ جو بئر الزکاۃ (کنوئیں کا نام) کہ صالح ابن علی کے گھر کے نزدیک تھا، پہنچ گیا۔ وہاں میں نے زانو سے بندھے ہوئے دو اونٹ اور کالے غلام کو دیکھا۔ میں نے غلام سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ اس نے کہا وہ علی ابن الحسین ہیں۔ یہ سن کر میں ان کے نزدیک گیا اور ان کو سلام کیا اور ان سے کہا: کیا ہوا ہے کہ آپ اس جگہ تشریف لائے ہیں ؟ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں پر آپ کے بابا اور جدّ کو شہید کیا گیا۔ امامؑ نے فرمایا کہ میں اپنے والد کی زیارت کے لیے آیا ہوں اور میں نے اس مسجد میں نمازپڑھی ہے اوراب میں واپس مدینہ جا رہا ہوں۔
(كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الوفاة: 329 ق، الكافي ج8 ص255،محقق:غفارى على اكبر و آخوندى،محمد،چاپ چهارم، ناشر:دار الكتب الإسلامية)
امام محمد باقرؑ اور زیارت امام حسینؑ
امام باقرؑ نے لوگوں کو امام حسینؑ کی زیارت کا شوق دلانے کے لیے، زیارت کا ثواب بیان کرنے کے علاوہ بعض روایات میں واضح طور پر امام حسینؑ کی زیارت کرنے کا حکم دیا ہے کہ اگر ان روایات سے زیارت کرنے کا واجب ہونا نہ بھی سمجھا جائے تو کم از کم امام حسین کی زیارت کا مستحب مؤکد ہونا ثابت ہوتاہے۔
روایت اول:
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَكَمِ النَّخَعِيِّ عَنْ أَبِي حَمَّادٍ الْأَعْرَابِيِّ عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام فَذَكَرَ فَتًى قَبْرَ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام مَا أَتَاهُ عَبْدٌ فَخَطَا خُطْوَةً إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ حَسَنَةً وَ حَطَّ عَنْهُ سَيِّئَة.
سدیر صیرفی نے کہا ہے کہ میں امام محمد باقر ؑ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بندے نے امام حسینؑ کی قبر مبارک کا ذکر کیا تو امام باقرؑ نے اس سے فرمایا کہ جو بھی بندہ امام حسین کی زیارت کے لیے جائے خداوند ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے ایک نیکی کولکھتاہےاوراس کےایک گناہ کو معاف فرماتا ہے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص134، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
روایت دوم:
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ وَ جَمَاعَةُ مَشَايِخِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيِّ جَمِيعاً عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ: مُرُوا شِيعَتَنَا بِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَإِنَّ إِتْيَانَهُ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ وَ يَمُدُّ فِي الْعُمُرِ وَ يَدْفَعُ مَدَافِعَ السَّوْءِ وَ إِتْيَانَهُ مُفْتَرَضٌ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ يُقِرُّ لِلْحُسَيْنِ بِالْإِمَامَةِ مِنَ اللَّهِ۔
امام باقرؑ نے فرمایا ہے کہ ہمارے شیعوں کو امام حسینؑ کی زیارت کرنے کا حکم دو کہ ان امام کی زیارت کرنا رزق کو زیادہ، انسان کی عمر کو طولانی اور اس سے بلاؤں کو دور کرتا ہے۔ امام حسینؑ کی زیارت کرنا ہر اس انسان پر کہ جو امام حسینؑ کی امامت کو خداوند کی طرف سے ہونے کا اقرار کرتا ہے ، واجب و ضروری ہے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص150، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
امام صادقؑ اور زیارت امام حسینؑ:
امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں امام صادقؑ سے بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں امام صادقؑ نے امام حسینؑ کی زیارت کے ثواب کو عام طور پر اور زیارت اربعین کے ثواب کو خاص طور پر بیان کیا ہے اور خود بھی عملی طور پر امام حسینؑ کی زیارت کے لیے کربلا گئے ہیں۔
روایت:1
حَدَّثَنِي أَبِي وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَتِّيلٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ حَجَ دَهْرَهُ ثُمَّ لَمْ يَزُرِ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عليهما السلام لَكَانَ تَارِكاً حَقّاً مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ وَ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ صلي اللّٰه عليه و آله و سلم لِأَنَّ حَقَّ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَرِيضَةٌ مِنَ اللَّهِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم۔
امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے جو بھی اپنی زندگی میں حج کے لیے مکے جائے لیکن امام حسینؑ کی زیارت کے لیے کربلا نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر خداوند اور رسول خدا ؑکے بعض حقوق کو ترک کیا ہے کیونکہ امام حسینؑ کا حق فرض اور ضروری ہے کہ جو خداوند کی طرف سے ہر مسلمان پر واجب ہے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص122، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
روایت :2
حَدَّثَنِي أَبِي وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنِ السُّحْتِ الْخَزَّازِ قَالَ حَدَّثَنَا حَفْصٌ الْمُزَنِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ بَيَاضٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ: قَالَ لِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ يَا أَبَانُ مَتَى عَهْدُكَ بِقَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام قُلْتُ لَا وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ حِينٍ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَ أَنْتَ مِنْ رُؤَسَاءِ الشِّيعَةِ تَتْرُكُ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَا تَزُورُهُ- مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ عليه السلام كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَا عَنْهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ سَيِّئَةً وَ غَفَرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ يَا أَبَانُ لَقَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ عليه السلام فَهَبَطَ عَلَى قَبْرِهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ شُعْثٌ غُبْرٌ يَبْكُونَ عَلَيْهِ وَ يَنُوحُونَ عَلَيْهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔
ابان ابن تغلب کہتا ہے کہ امام صادقؑ نے مجھے فرمایا ہے کہ اے ابان تم نے امام حسینؑ کی قبر کی کب زیارت کی ہے ؟ ابان نے کہا کہ اے رسول خدا کے بیٹے میں نے ابھی تک امام حسینؑ کی قبر کی زیارت نہیں کی۔ امامؑ نے فرمایا: سبحان اللہ تم تو بزرگان شیعہ میں سے ہو اور پھر بھی امام حسینؑ کی زیارت کو ترک کرتے ہو اور زیارت کے لیے نہیں جاتے ؟ امامؑ نے فرمایا کہ جو بھی بندہ امام حسینؑ کی زیارت کے لیے جائے تو خداوند ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے ایک نیکی کو لکھتا ہے اور اس کے ایک گناہ کو معاف فرماتا ہے اور اس تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔اے ابان جب امام حسینؑ کو شہید کیا گیا تو 70 ہزار فرشتے غبار آلود اور پریشان بالوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہوئے اور اس دن سے لے کر قیامت تک امام حسینؑ کے لیے گریہ اور نوحہ خوانی کرتے رہیں گے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص331، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
روایت:3
حَدَّثَنِي أَبُو الْعَبَّاسِ الرَّزَّازُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي دَاوُدَ الْمُسْتَرِقِّ عَنْ أُمِّ سَعِيدٍ الْأَحْمَسِيَّةِ قَالَتْ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام وَ قَدْ بَعَثْتُ مَنْ يَكْتَرِي لِي حِمَاراً إِلَى قُبُورِ الشُّهَدَاءِ فَقَالَ مَا يَمْنَعُكِ مِنْ زِيَارَةِ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ قَالَتْ قُلْتُ وَ مَنْ هُوَ قَالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام قَالَتْ قُلْتُ وَ مَا لِمَنْ زَارَهُ قَالَ حِجَّةٌ وَ عُمْرَةٌ مَبْرُورَةٌ وَ مِنَ الْخَيْرِ كَذَا وَ كَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِيَدِهِ۔
امّ سعید احمسیہ کہتی ہے کہ میں امام صادقؑ کے پاس بیٹھی تھی اور میں نے کسی کو گدھا کرائے پرلانے کے لیے بھیجا ہوا تھا کہ وہ مجھے شہداء کی قبور کی زیارت کے لیے لے جائے۔امام نے فرمایا کہ کیا چیز مانع ہے کہ آپ سید الشہداء کی زیارت کے لیے نہیں جاتی ؟ ام سعید کہتی ہے کہ میں نے پوچھا: سید الشہداء کون ہیں ؟امام نے فرمایا کہ وہ امام حسینؑ ہیں۔ام سعید نے کہا: امام حسینؑ کی زیارت کرنے کا کیا ثواب ہے ؟ امامؑ نے فرمایا ایک مقبول حج و عمرے اور بہت سے نیک اعمال انجام دینے کا ثواب ملتا ہے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص109، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
امام موسی کاظمؑ اور زیارت امام حسینؑ:
امام موسیٰ کاظمؑ سے بعض روایات امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں امام موسیٰ کاظمؑ نے فرمایا کہ جو امام حسینؑ کی زیارت کرے گا اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا۔ امام معصوم سے اس طرح کے ثواب کا نقل ہونا یہ امام حسین ؑکی زیارت کی اہمیت اور فضیلت کوظاہر کرتا ہے۔
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيِّ وَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْقُمِّيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الزَّيَّاتِ عَنْ قائد [فَائِدٍ] الْحَنَّاطِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَاضِي عليه السلام قَالَ: مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ عليه السلام عَارِفاً بِحَقِّهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ۔
حضرت امام کاظمؑ نے فرمایا کہ جو امام حسین ؑ کی زیارت کرے اور ان امام حسین ؑکے حق کی بھی معرفت رکھتا ہو تو خداونداس کے گذشتہ اور آئندہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص138، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
امام علی ابن موسی الرضا (ع) اور زیارت امام حسین (ع):
امام رضاؑ خود بھی امام حسینؑ کی زیارت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اورزیارت کا ثواب بیان کرکے لوگوں کو بھی امام حسینؑ کی زیارت کا شوق دلایا کرتے تھے۔
حَدَّثَنِي أَبِي وَ جَمَاعَةُ مَشَايِخِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدٍ الْجُعْفِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي جَرِيرٍ الْقُمِّيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا عليه السلام يَقُولُ لِأَبِي مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عليه السلام عَارِفاً بِحَقِّهِ كَانَ مِنْ مُحَدِّثِي اللَّهِ فَوْقَ عَرْشِهِ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ. فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِر۔
محمّد بن ابی جریر قمّی کہتا ہے کہ میں نے امام رضاؑ سے سنا ہے کہ وہ میرے والدسے فرماتے تھے کہ جو شخص امام حسین (ع) کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو وہ عرش خدا پر خداوند سے گفتگو کرنے والوں میں سے ہو گا۔ پھر امام نے اس آیت کی تلاوت کی:
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ، فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ.
بے شک متقی لوگ باغوں اور نہر کے کنارے ہوں گے، ان کا ٹھکانہ حقیقت کے ساتھ خداوند کہ جسکی سلطنت جاویدانی ہو گی، کے نزدیک ہو گا۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص141، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
امام ہادی النقیؑ اورزیارت امام حسینؑ :
امام ہادیؑ نے ایک بہت ہی نورانی روایت میں ایک شخص کو اپنی بیماری کی شفاء کےلیے امام حسینؑ کے حرم میں زیارت کےلیے بھیجا تا کہ وہ وہاں جا کر امام کی شفاء کےلیے دعا کرے۔
امام معصوم سے اس عملی روایت کی روشنی میں امام حسین (ع) کی زیارت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْوَهْوِرْدِيُّ حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ ره قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ الْحِمْيَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيُّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عليه السلام وَ هُوَ مَحْمُومٌ عَلِيلٌ فَقَالَ لِي يَا أَبَا هَاشِمٍ ابْعَثْ رَجُلًا مِنْ مَوَالِينَا إِلَى الْحَائِرِ يَدْعُو اللَّهَ لِي فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَاسْتَقْبَلَنِي عَلِيُّ بْنُ بِلَالٍ فَأَعْلَمْتُهُ مَا قَالَ لِي وَ سَأَلْتُهُ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلَ الَّذِي يَخْرُجُ فَقَالَ السَّمْعَ وَ الطَّاعَةَ وَ لَكِنَّنِي أَقُولُ- إِنَّهُ أَفْضَلُ مِنَ الْحَائِرِ إِذْ كَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ فِي الْحَائِرِ وَ دُعَاؤُهُ لِنَفْسِهِ أَفْضَلُ مِنْ دُعَائِي لَهُ بِالْحَائِرِ فَأَعْلَمْتُهُ عليه السلام مَا قَالَ فَقَالَ لِي قُلْ لَهُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم أَفْضَلَ مِنَ الْبَيْتِ وَ الْحَجَرِ وَ كَانَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَ يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ وَ إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى بِقَاعاً يُحِبُّ أَنْ يُدْعَى فِيهَا فَيَسْتَجِيبَ لِمَنْ دَعَاهُ وَ الْحَائِرُ مِنْهَا۔
ابو ہاشم جعفری نے کہا ہے کہ میں امام ہادی (ع) کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ امام کو بہت تیز بخار ہے۔ امام نے مجھ سے کہا کہ ہمارے شیعوں میں سے کسی کو کربلا امام حسین (ع) کے حرم میں بھیجو تا کہ وہ میرے لیے وہاں جا کر دعا کرے۔یہ سن کر میں امام کے گھر سے باہر آ گیا۔ وہاں میں نے علی ابن بلال کو دیکھا تو میں نے اس کوامام ہادی (ع) کی حالت اور ساری بات بتائی اور اس سے کہا کہ کسی بندے سے بات کرے۔ علی ابن بلال نے کہا: میں نے بات سن لی ہے اور اطاعت بھی کروں گا لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ خودامام ہادیؑ حرم امام حسینؑ سے افضل اور برتر ہیں کیونکہ وہ بھی امام حسینؑ کی طرح ایک معصوم امام ہیں اوران کی دعا خود اپنے لیے، میرا ان کے لیے امام حسینؑ کے حرم میں جا کر دعا کرنے سے بہتر ہے۔ میں دوبارہ امام ہادیؑ کی خدمت میں آیا اور علی ابن بلال کی ساری بات امام کو بتائی۔ اس پرامام نے مجھ سے فرمایا: اس سے کہو کہ رسول خدا (ص) بیت اللہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن پھر بھی بیت اللہ کے گرد طواف کرتے تھے اور حجر الاسود کو بوسہ دیا کرتے تھے، خداوند کے لیے بعض مقامات ہیں کہ خود خدا چاہتا ہے کہ وہاں پر اس سے دعا مانگی جائے اور وہ دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرے، اور ان مبارک مقامات میں سے ایک امام حسین (ع) کا حرم ہے۔
(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص274، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية)
امام حسن عسکریؑ اور زیارت امام حسینؑ:
امام حسن عسکریؑ نے بھی ایک روایت میں امام حسینؑ کی زیارت کو مؤمن کی علامات میں سے قرار دیا ہے۔
رُوِيَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْعَسْكَرِيِّ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بسم الله الرحمن الرحيم۔
مومن کی پانچ علامات ہیں:
1- اکاون رکعت نماز پڑھنا، 2- زیارت اربعین پڑھنا، 3- دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4- خاک شفاء پر سجدہ کرنا، 5- نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلندآوازسے پڑھنا۔
(الشيخ المفيد، الوفاة: 413 ق، المزار- مناسك المزار (للمفيد) ج1 ص53 ، محقق: ابطحى، محمد باقر، چاپ اول)
امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اورزیارت امام حسینؑ :
حاجی علی بغدادی کی مشہور داستان کہ وہ امام زمان (عج) کے حضور شرفیاب ہوا۔ اس داستان میں ہے کہ امام زمان (عج) حاجی علی بغدادی کے ساتھ امام حسین (ع) کی زیارت کے لیے کربلا گئے کہ خود امام حسین (ع) کی زیارت کی اہمیت پر واضح دلیل ہے۔
یہ داستان مرحوم نوری کی کتاب النجم الثاقب میں تفصیل سے ذکر ہوئی ہے لیکن ہم یہاں پر مختصر طور پر ذکر کرتے ہیں:
الحكاية الحادية و الثلاثون :
قضية الصالح الصفي التقي الحاج علي البغدادي الموجود حالياً في وقت تأليف هذا الكتاب وفّقه الله ، و هي تناسب الحكاية السابقة ، و لو لم يكن في هذا الكتاب الشريف الّا هذه الحكاية المتقنة الصحيحة التي فيها فوائد كثيرة ، و قد حدثت في وقت قريب ، لكفت في شرفه و نفاسته ۔
في شهر رجب السنة الماضية كنت مشغولا بتأليف رسالة جنّة المأوى فعزمت على السفر إلى النجف الأشرف لزيارة المبعث ، فجئت الكاظمين و وصلت بخدمة جناب العالم العامل و الفقيه الكامل السيد السند و الحبر المعتمد الآقا السيد محمد ابن العالم الأوحد السيد احمد ابن العالم الجليل و الدوحة النبيل السيد حيدر الكاظميني أيّده الله و هو من تلامذة خاتم المجتهدين و فخر الاسلام و المسلمين الأستاذ الأعظم الشيخ مرتضى أعلى الله تعالى مقامه ، و من أتقياء علماء تلك البلدة الشريفة ، و من صلحاء أئمة جماعة الصحن و الحرم الشريف ، و كان ملاذاً للطلاب و الغرباء و الزوار ، و أبوه و جدّه من العلماء المعروفين ، و ما زالت تصانيف جدّه سيد حيدر في الأصول و الفقه و غيرهما موجودة ۔
فسألته إذا كان رأى أو سمع حكاية صحيحة في هذا الباب أن ينقلها ، فنقل هذه القضية ، و كنت قد سبقتها سابقاً و لكنّي لم أضبط أصلها و سندها فطلبت منه أن يكتبها بخطّ يده . فقال : سمعتها من مدّة وأخاف أن أزيد فيها أو أنقص ، فعليَّ أن ألتقي به و اسئله و من ثمّ اكتبها ، و لكن اللقاء به و الأخذ منه صعب فانّه من حين وقوع هذه القضية قلّ اُنسه بالناس و سكناه في بغداد و عندما يأتي للتشرّف بالزيارة فانّه لا يذهب إلى مكان و يرجع بعد أن يقضي وطراً من الزيارة ، فيتفق أن لا أراه في السنة الّا مرّة أو مرّتين في الطريق ، وعلى ذلك فانّ مبناه على الكتمان الّا على بعض الخواص ممن يأمن منه الافشاء و الإذاعة خوف استهزاء المخالفين المجاورين المنكرين ولادة المهدي عليه السلام و غيبته ، و خوفاً من أن ينسبه العوام إلى الفخر و تنزيه النفس ۔
قلت : انّي أطلب منك أن تراه مهما كان و تسأله عن هذه القضية إلى حين رجوعي من النجف ، فالحاجة كبيرة و الوقت ضيق . ففارقته لساعتين أو ثلاث ثمّ رجع اليّ و قال : من أعجب القضايا انّي عندما ذهبت إلى منزلي جائني شخص مباشرة و قال جاؤوا بجنازة من بغداد و وضعوها في الصحن الشريف و ينتظرونك للصلاة عليها . فقمت و ذهبت و صلّيت فرأيت الحاج المذكور بين المشيّعين فأخذته جانباً ، و بعد امتناعه سمعت هذه القضية ، فشكرت الله على هذه النعمة السنية ، فكتبت القصة بكاملها و ثبّتها في جنّة المأوى۔
اجتمع في ذمّتي ثمانون توماناً من مال الإمام عليه السلام فذهبت إلى النجف الأشرف فأعطيت عشرين توماناً منه لجناب علم الهدى و التقى الشيخ مرتضى أعلى الله مقامه و عشرين توماناً إلى جناب الشيخ محمد حسين المجتهد الكاظميني و عشرين توماناً لجناب الشيخ محمد حسن الشروقي و بقي في ذمّتي عشرون توماناً ، كان في قصدي أن أعطيها إلى جناب الشيخ محمد حسن الكاظميني آل ياسيني أيده الله عند رجوعي . فعندما رجعت إلى بغداد كنت راغباً في التعجيل بأداء ما بقي في ذمّتي ، فتشرّفت في يوم الخميس بزيارة الامامين الهمامين الكاظمين عليهما السلام و بعد ذلك ذهبت إلى خدمة جناب الشيخ سلّمه الله و أعطيته مقداراً من العشرين توماناً و واعدته بأني سوف أعطي الباقي بعد ما أبيع بعض الأشياء تدريجياً ، و أن يجيزني أن أوصله إلى أهله ، و عزمت على الرجوع إلى بغداد في عصر ذلك اليوم ، و طلب جناب الشيخ منّي أن أتأخر فاعتذرت بأن عليّ أن أوفي عمّال النسيج أجورهم ، فانّه كان من المرسوم أن أسلّم أجرة الأسبوع عصر الخميس ، فرجعت و بعد أن قطعت ثلث الطريق تقريباً رأيت سيداً جليلا قادماً من بغداد من أمامي ، فعندما قرب منّي سلّم عليّ و أخذ بيدي مصافحاً و معانقاً وقال : أهلا وسهلا و ضمني إلى صدره و عانقني و قبّلني و قبّلته ، و كانت على رأسه عمامة خضراء مضيئة مزهرة ، و في خدّه المبارك خال أسود كبير ، فوقف و قال : حاج علي على خير ، على خير ، أين تذهب ؟ قلت : زرت الكاظمين عليهما السلام و أرجع إلى بغداد . قال : هذه الليلة ليلة الجمعة فارجع . قلت : يا سيدي لا أتمكّن . فقال : في وسعك ذلك ، فارجع حتى أشهد لك بأنّك من موالي جدّي أمير المؤمنين عليه السلام و من موالينا ، و يشهد لك الشيخ كذلك ، فقد قال تعالى : { واستشهدوا شهيدين } و كان ذلك منه إشارة إلى مطلب كان في ذهني أن ألتمس من جناب الشيخ أن يكتب لي شهادة بأنّي من موالي أهل البيت عليه السلام لأضعها في كفني. فقلت : أي شيء تعرفه ، و كيف تشهد لي ؟ قال : من يوصل حقّه إليه ، كيف لا يعرف من أوصله ؟
قلت : أيُّ حق ؟ قال : ذلك الذي أوصلته إلى وكيلي . قلت : من هو وكيلك . قال : الشيخ محمد حسن . قلت : وكيلك ؟ قال : وكيلي . و كان قد قال لجناب الآقا السيد محمد ، و كان قد خطر في ذهني ان هذا السيد الجليل يدعوني باسمي مع أنّي لا أعرفه ، فقلت في نفسي لعلّه يعرفني و أنا نسيته . ثمّ قلت في نفسي أيضاً : انّ هذا السيد يريد منّي شيئاً من حقّ السادة ، و أحببت أن اُوصل إليه شيئاً من مال الإمام عليه السلام الذي عندي ۔
فقلت : يا سيد بقي عندي شيءٌ من حقّكم فرجعت في أمره إلى جناب الشيخ محمد حسن لأؤدّي حقّكم يعني السادات بأذنه . فتبسّم في وجهي و قال : نعم قد أوصلت بعضاً من حقّنا إلى وكلائنا في النجف الأشرف ۔
فقلت : هل قبل ذلك الذي أدّيته ؟ فقال : نعم . خطر في ذهني أن هذا السيد يقول بالنسبة إلى العلماء الأعلام ( وكلائنا ) فاستعظمت ذلك ، فقلت : العلماء وكلاء في قبض حقوق السادات و غفلت. ثم قال : ارجع زُر جدّي . فرجعت و كانت يده اليمنى بيدي اليسرى فعندما سرنا رأيت في جانبنا الأيمن نهراً ماؤه أبيض صاف جار ، و أشجار الليمون و النارنج و الرمان و العنب و غيرها كلّها مثمرة في وقت واحد مع انّه لم يكن موسمها ، و قد تدلت فوق رؤوسنا . قلت : ما هذا النهر و ما هذه الأشجار ؟ قال : انها تكون مع كل من يزورنا و يزور جدّنا من موالينا الی أن قال الحاج علی البغدادی: قال لی ذالک السيد : هل تزور جدّي الحسين عليه السلام ؟
قلت : نعم أزوره فهذه ليلة الجمعة ۔
فقرأ زيارة وارث ، و قد فرغ المؤذنون من اذان المغرب ، فقال لي : صلِّ و التحق بالجماعة ، فجاء إلى المسجد الذي يقع خلف الحرم المطهّر و كانت الجماعة قد انعقدت هناك ، و وقف هو منفرداً في الجانب الأيمن لإمام الجماعة محاذياً له ، و دخلت أنا في الصفّ الأول حيث وجدت مكاناً لي هناك .فعندما انتهيت لم أجده۔
محدث نوری نے لکھا ہے کہ:
حکایت نمبر :31
یہ داستان ایک صالح اور متقی انسان حاجی علی بغدادی کی ہے، کہ جو اس کتاب کے لکھنے کے زمانے میں زندہ ہے اور اگر اس کتاب میں اس سچی اور مفید داستان کے علاوہ کوئی دوسری داستان نہ بھی ہو تو پھر بھی اس کتاب کے معتبر اور بہترین ہونے کے لیے کافی ہے۔ گذشتہ سال کے ماہ رجب میں، میں کتاب جنۃ الماوی لکھنے میں مصروف تھا کہ میں نے مبعث کے دن کی زیارت (27 رجب) کے لیے نجف اشرف جانے کا ارادہ کیا۔ پس میں سید محمد کاظمینی کہ جو عالم عامل اور شیخ اعظم کے شاگردوں میں سے تھے کہ جو متقی ترین اور کاظمین کے حرم میں امام جماعت، کہ جو ہمیشہ طالب علموں، نیاز مندوں اور زائرین کی مدد کیا کرتے تھے، کہ جن کے والد اور دادا محترم بھی علماء میں سے تھے، کی خدمت میں کاظمین آیا۔ میں نے سید محمد کاظمینی سے پوچھا کہ اگر آپ نے امام زمان (عج) سے ملاقات کے بارے میں کوئی سچی حکایت سنی ہے تو اس کو ہمارے لیے بھی بیان فرمائیں، پس انھوں نے حاجی علی بغدادی کی حکایت کو ہمارے لیے بیان کیا۔ میں نے اس حکایت کو اگرچہ پہلے بھی سنا ہوا تھا کیونکہ میں نے اس کو لکھا نہیں تھا، اس لیے میں نے سید محمد کاظمینی سے التماس کی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اس حکایت کو مجھے لکھ کر بھی دیں۔سید محمد کاظمینی نے کہا: میں نے اس حکایت کو کافی عرصہ پہلے سنا تھا، اور مجھے ڈر ہے اس کو بیان کرتے وقت میں اپنی طرف سے کوئی چیز اس میں زیادہ یا کم نہ کر دوں۔ اس لیے میں خود حاجی علی بغدادی سے ملاقات کر کے اس حکایت کو دوبارہ سن کر اور لکھ کر پھر آپ کے سامنے بیان کروں گا، اور اس کے علاوہ حاجی علی بغدادی سے ملاقات کرنا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ وہ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے درمیان بغداد میں کم ہی ظاہر ہوتا ہے اور جب زیارت کے لیے بھی آتا ہے تو صرف زیارت کرتا ہے اور زیارت کرنے کے بعد واپس چلا جاتا ہے پس میں اس کو سال میں فقط ایک یا دو مرتبہ دیکھتا ہوں۔ اسی لیے حاجی علی بغدادی ہمیشہ اس حکایت کو فقط خاص خاص لوگوں کو بتاتا ہے کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب مخالفین اس حکایت کو سنیں تو وہ اس کا مذاق نہ اڑائیں یا بعض عام لوگ یہ نہ بولیں کہ حاجی علی اس داستان سے خود کو مشہور کرنا چاہتا ہے۔
محدث نوری کہتا ہے کہ میں نے سید کاظمینی سے کہا کہ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ جیسے بھی ہو ، میرے نجف واپس جانے سے پہلے آپ ضرور حاجی علی بغدادی سے ملاقات کریں اور اس حکایت کو اس سے دوبارہ سنیں کیونکہ مجھے اس حکایت کی بہت ضرورت ہے اور میرے پاس وقت بھی بہت کم ہے۔ یہ بات کر کے میں سید کے گھر سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو سید نے مجھ سے کہا کہ آج عجیب اتفاق ہوا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے ایک بندہ میرے گھر آیا اور مجھ سے کہا ہے کہ ایک جنازے کو بغداد سے حرم میں لائیں ہیں اور اس کو حرم کے صحن میں لا کر رکھا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اس پر نماز پڑھیں۔ میں جلدی سے حرم گیا اور اس جنازے پر نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں میں نے حاجی علی بغدادی کو دیکھا اور اس سے اس حکایت کو دوبارہ سن کر میں نے حکایت کو لکھ لیا ہے۔
محدث نوری کہتا ہے کہ میں نے اس حکایت کو کتاب جنۃ الماوی میں نقل کیا ہے کہ:
80 تومان سہم امام میرے ذمے تھا، لہٰذا میں نجف اشرف گیا اور ان میں سے 20 تومان جناب شیخ مرتضیٰ کو دیئے اور 20 تومان جناب شیخ محمد حسن مجتہد کاظمینی کو دیئے اور 20 تومان جناب شیخ محمد حسن شروقی کو دیئے۔اس طرح اب میرے ذمے صرف 20 تومان رہ گئے تھے کہ میں نے سوچا کہ جب میں بغداد واپس جاؤں گا تو وہ شیخ محمد حسن کاظمینی آل یاسین کو دوں گا اور میرا یہ ارادہ تھا کہ جونہی بغداد جاؤں گا تو فوری اس ذمے کو ادا کروں گا۔ جمعرات کا دن تھا کہ میں نے کاظمین میں حضرت موسیٰ بن جعفر اور حضرت امام محمدتقی علیہما السلام کی زیارت کی اور جناب شیخ محمد حسن کاظمینی آل یاسین سے ملنے کے لیے ان کے پاس چلا گیااوران بیس تومان میں سے کچھ تومان ان کو دیئے اوران سے وعدہ کیا کہ باقی کم کم کر کے آپ کو دے دوں گا۔ اسی دن دوپہر کے وقت میں نے بغداد جانے کا ارادہ کیا تو جناب شیخ نے کہا کہ ایک دن اوررک جاؤں لیکن میں نے کہا کہ کار خانے میں کام کرنے والوں کو تنخواہ بھی دینی ہے۔ یہ کہہ کر میں بغداد کے لیے نکل پڑا۔ ابھی زیادہ راستہ طے نہیں کیا تھا کہ میں نے ایک سید کو دیکھا کہ جو بغداد سے میری طرف آ رہا تھا، جب وہ میرے نزدیک آیا تو اس نے مجھے سلام کیا اور مجھ سے گلےملنے کے لیے اس نے اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھایا اور اہلاً و سہلاً کہہ کر مجھے گلے لگا لیا۔ اس سید کے سر پر سبز عمامہ اور رخسار پر کالا تل تھا۔ اس سید نے مجھے کہا حاجی علی کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے کہا میں کاظمین سے زیارت کرنے کے بعد اب بغداد واپس جا رہا ہوں۔ اس سید نے کہا آج شب جمعہ ہے، واپس عراق کی طرف پلٹ جاؤ۔ میں نے کہا اے سید محترم میرے لیے اب واپس پلٹنا ممکن نہیں ہے، سید نے کہا: ممکن ہے، سید نے کہا واپس پلٹ جا کہ تا کہ میں گواہی دوں کہ تم میرے دادا امیرالمؤمنین علی (ع) اور ہمارے موالیوں میں سے ہو، اور شیخ نے بھی گواہی دی کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے کہ دو گواہ بنایا کرو اور یہ بالکل وہی بات تھی کہ جو میرے دل میں تھی کیونکہ جب میں نے جناب شیخ کو دیکھا تو ان سے کہا تھا کہ ایک ایسی بات لکھیں اور اس میں گواہی دیں کہ میں اہل بیت (ع) کے موالیوں میں سے ہوں اور اس تحریر کو میں اپنے ساتھ کفن میں رکھنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا آپ کو کیسے پتہ ہے اور کیسے گواہی دے رہے ہیں ؟ اس سید نے کہا کیسے تم میرے حق کو تو مجھے دیتے ہواور خود مجھ کو نہیں پہچانتے ؟ میں نے کہا: کون سا حق ؟ اس سید نے کہا جو تم نے میرے وکلاء کو دیا ہے، میں نے کہا آپ کے وکلاء کون ہیں ؟ سید نے کہا شیخ محمد حسن، میں نے کہا وہ آپ کے وکیل ہیں ؟ اس نے کہا ہاں وہ میرا وکیل ہے۔ یہاں پر میرے ذہن میں آیا کہ کیسے اس سید نے مجھے میرے نام سے پکارا ہےحالانکہ وہ مجھے جانتا نہیں ہے ؟
میں نے خود اپنے آپ کو جواب دیا کہ شاید وہ مجھے جانتا ہی ہو اور میں اس کو نہیں جانتا۔ پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ سید مجھ سے سہم سادات میں سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے اور میرا بھی دل تھا کہ میں اس سہم میں سے کچھ حصہ اس سید کو دیدوں۔ لہٰذا میں نے اس سے کہا کہ آپ کے حق کے پیسے میرے پاس تھے کہ میں شیخ محمد حسن کے پاس گیا تھا کیونکہ اس کی اجازت سے دوسروں کوان کا حصہ دیتا،اس سید نے میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہا ہاں تم نے ہمارے بعض حق کو ہمارے وکلاء کو نجف میں دیا ہے۔ میں نے کہا: جو کچھ میں نے دیا ہے وہ قبول ہے ؟ اس سید نے کہا: ہاں قبول ہے، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ سید کون ہے کہ جو بڑے بڑے علماء کو اپنا وکیل کہتا ہے اور میں نے اس پر تعجب بھی کیا ؟ پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ علماء تو سادات کا سہم لینے میں وکیل ہوتے ہی ہیں ! پھر اس سید نے مجھے فرمایا کہ واپس پلٹواور میرے جدّ کی زیارت کرو، میں واپس پلٹا اور میرا بایاں ہاتھ اس کے دائیں ہاتھ میں تھا اور ہم نے اکٹھے کاظمین کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ جب ہم چل رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ہمارے دائیں طرف صاف سفید پانی کی نہر بہہ رہی ہے اور لیموں، مالٹے، انار، انگور کے درخت ہیں حالانکہ ان پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ میں نے کہا یہ نہر اور پھلوں کے درخت کیا ہیں ؟ اس سید نے فرمایا جو ہمارے جدّ اور ہماری زیارت کرے یہ سب اس کے لیے ہیں۔ یہاں تک کہ امامؑ نے مجھے فرمایا کہ کیا تم ہمارے جدّ امام حسین (ع) کی زیارت کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں آج تو شب جمعہ ہے ضرور زیارت کروں گا۔ امام زمان (عج) نے میرے لیے زیارت وارث پڑھی۔ اس وقت اذان مغرب ہو چکی تھی۔ امام نے مجھے فرمایا جاؤ جماعت کے ساتھ جا کر نماز پڑھو۔ قبر مقدس کے پیچھے ایک مسجد تھی ہم نے اس میں جا کر با جماعت نماز پڑھی، خود امام مسجد میں امام جماعت کے سیدھی طرف کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور میں نے پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ جب نماز ختم ہوئی تو میں نے امام کی طرف دیکھا لیکن وہ نہیں تھے، جلدی سے مسجد سے باہر آ کر حرم میں ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ بالکل نظر نہ آئے …….
(ميرزا حسين النوري الطبرسي، الوفاة : 1320، النجم الثاقب ج2 ص160 تحقيق : السيد ياسين الموسوي چاپ اول، الناشر : أنوار الهدى)
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=403