شیعہ منابع پر ایک سرسری نظر(پہلا حصہ)

ہم اس مقالہ میں وہ تمام چیزیں جو تاریخ تشیع سے مربوط ہیں ان پر تمام جوانب سے تحقیق وجستجو نہیں کریں گے بلکہ اہم ترین منابع و مآخذ کی طرف صرف اشارہ کریں گے، تاریخی کتابیں یاوہ کتابیں جو معصومین(علیہ السلام) کی زندگی کے بارے میں لکہی گئی ہیں نیز کتب احادیث، رجال وغیرہ بہی جو شیعہ تاریخ سے مربوط ہیں، ان کا مختصر طور سے خلاصہ بہی پیش کریں گے، اس وجھت سے شیعہ تاریخ کے منابع کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
(۱) خصوصی منابع
(۲)عمومی منابع
خصوصی منابع
(۱)مقاتل الطالبین
شیعہ تاریخ کے حوالے سے ایک بہترین منبع کتاب مقاتل الطالبین ہے، اس کتاب کے موٴلف ابو الفرج علی ابن حسین اصفھانی ہیں جو ۲۸۴ھ میں اصفہان میں پیدا ہوئے اور بغداد میں پروان چڑھے، آپ نے بغداد کے بزرگ علماء سے علم حاصل کیا، آپ کا سلسلہ نسب بنی امیہ تک پہنچتا ہے لیکن آپ کا مذہب علوی ہے۔
اس کتاب کا موضوع جیسا کہ خود اس کتاب کے نام سے و اضح اور روشن ہے ان طالبیین کے بارے میں ہے جو ظالموںاور ستمگاروں کے ہاتہوں قتل ہوئیں جیسا کہ موٴلف فرماتے ہیں:
انشاءاللہ ہم اس کتاب میں خدائےمتعال کی مددسے ابوطالب(علیہ السلام) کی وہ اولاد جو زما نہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر اس وقت تک(جس دن یہ کتا ب لکھنی شروع کی ہے یعنی جمادی الاول ۳۱۳ھ میں لکہی گئی ہے)قتل اور شہید ہوئے ہیں ا س میں مختصراً ذکر کیا ہے کہ کون زھرسے شہید ہوا، کون وقت کے بادشاہوں کے ظلم سے مخفی و روپوش ہو گیا اور پہر وہیں انتقال کیا اور کن لوگوں نے زندان میں انتقال فرمایاوغیرہ اور ان تمام چیزوں کے ذکرکرنے میں ترتیب کی رعایت کی ہے نہ کہ ان کے فضل کی۔[1]
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ زمانہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنی عباس کی تشکیل حکومت تک اوردوسرا حصہ عباسیوں کے زمانہ سے مربوط ہے۔
اگرچہ اس کتاب میں ابو طالب(علیہ السلام) کے شہداء کی تحقیق اور چھان بین کی گئی ہے لیکن اس اعتبار سے کہ اماموں، رہبروں اور علوی شہیدوں کے ماننے والوں کے حالات بہی معرض تحریر میں آگئے ہیں اورکتاب کے کسی حصہ سے بہی آپ تاریخ شیعہ کا استخراج کر سکتے ہیں یہ کتاب تشیع کی سیاسی تاریخ سے مربوط ہے اس لئے اس میں تاریخ شیعہ پرتمام جوانب سے کم بحث کی گئی ہے۔
(۲)الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ
اس کتاب کے موٴلف سید علی خان شیرازی ہیں جو ۵/جمادی الاول ۱۰۵۲ھ مدینہ میں پیدا ہوئے اور وہیں آپ نے علم حاصل کیا، ۱۰۶۸ ھ میں حیدرآباد ھندوستان ھجرت کرگئے، ۴۸ سال وہیں قیام کیا اور وہیں سے امام رضا(علیہ السلام) کے زیارت کے لئے ایران کا سفر کیا، ۱۱۱۷ ھ میں شاہ سلطان حسین صفوی کے زمانہ میں اصفہان تشریف لے گئے دو سال اسی شہر میں قیام کیا اور دو سال کے بعد شیراز تشریف لے گئے اوراس شہر کی علمی و دینی زعامت کو اپنے ذمہ لیا [2]
کتاب الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ اس بلند مرتبہ شیعہ دانشور کی تالیفات میں سے ایک ہے اگر چہ اس کتاب کا موضوع شیعوں کے حالات کی وضاحت اور ان کی تاریخ ہے نہ کہ تاریخ تشیع، لیکن اس سے تشیع کی عام تاریخ کے بارے میں دو دلیلوں سے استفادہ کیاجاسکتا ہے ایک تو یہ کہ مختلف زمانوں میں شیعوں کے حالات کی چھان بین، دوسرے یہ کہ خود موٴلف کتاب نے مقدمہ میں اختصار کے ساتھ شیعہ تاریخ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ خصو صاً بنی امیہ کے سخت دور کا ذکرکیا ہے، آپ نے کتاب کے مقدمہ میں بیان کیا ہے، خدا تم پر رحمت نازل کرے تم یہ جان لو کہ امیرالمومنین اور تمام ائمہ(علیہ السلام) کے شیعہ ہر زمانے میں حاکموں کے ڈر سے خفیہ زندگی بسر کرتے تہے اور بادشاہ وقت کی نگاہ سے دور رہتے تھے۔[3]
اس کے بعد معاویہ کے استبدادی زمانے سے لے کرعباسیوں کے دور تک کو بیان کیا ہے، یہ کتاب جیسا کہ موٴلف نے مقدمہ میں ذکر کیا ہے بارہ طبقات پر مشتمل ہے یعنی شیعوں کو بارہ طبقوں میں تقسیم کر نے کے بعد ان کی تحقیق اورچھان بین کی ہے جو اس طرح سے ہے۔
(۱)صحابہ
(۲)تابعین
(۳)وہ محدثین جنہوں نے ائمہ طاہرین علیہم السلام سے حدیثیں نقل کی یں
(۴)علماء دین
(۵)حکماء اورمتکلمین
(۶) عرب علماء
(۷)صوفی سردار
(۸)بادشاہ اور سلاطین
(۹)روٴسا
(۱۰)وزراء
(۱۱)شعراء
(۱۲)خواتین
اس قیمتی کتاب سے اس وقت جو ہماری دسترس میں ہے وہ مذکورہ مطالب پر مشتمل ہے پھلا طبقہ یعنی صحابہ کا حصہ بطور کامل۔ چوتھا طبقہ یعنی علماء کے باب کا کچھ حصہ، گیارہواں طبقہ یعنی شعراء کے باب سے بھت تہوڑا۔
یہ کتاب صحابہ کے درمیان تشیع کے موضوع پر ایک اہم اور بھترین کتاب ہے نیز اس سلسلے میں جامعیت رکھتی ہے، اس کتاب کے موٴلف نے شیعہ رجال اورعلماء کے نظریات کوشیعہ صحابہ کے بارے میں جمع کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں اظھار نظر نیزتحقیق و تجزیہ بھت کم کیا ہے۔
(۳)۔اعیان الشیعہ ، اس بے نظیرا ور قیمتی کتاب کے موٴلف شیعوں کے عظیم محقق اور عالم دین مرحوم سید محسن امین ہیں، کتاب اعیا ن الشیعہ خود ہی جیساکہ اس کے نام سے معلوم ہے ایک ایسی کتاب ہے جو بزرگان شیعہ کے حا لات اور ان کے زندگی نام کو بیان کرتی ہے، اس کتاب میں تین مقدمے ہیں جن میں سے پھلے مقدمہ میں مصنف کی روش کوبیان کیا گیا ہے اس مقدمہ کے شروع میں آیا ہے: ”فی ذکر طریقتنافی ھذا الکتاب وہی امور۔۔۔“ یعنی اس کتاب میں ھماری روش کے ذکر کے متعلق جس میں یہ چند امور ہیں۔ ۔۔پھرچودہ حصوں میں اپنی روش کی تفصیل بیان کی ہے لیکن دوسرا مقدمہ شیعوں کی عمومی تاریخ کے بارے میں ہے جو بارہ ابحاث پر مشتمل ہے اور تیسرا مقدمہ کتاب کے منابع و مصادر کے بارے میں ہے:
پھلی بحث: –
شیعیت کا مفہوم اور اس کے معنی۔
تمام شیعہ اصطلاحات۔
شیعہ فرقوں کے بارے میں اھل سنت مصنفین کے نظریات اور تنقید۔
دوسری بحث: –
شیعیت کی ابتدا ا ور اس کا فروغ پانا۔
شیعہ صحاب، شیعوں کی کثرت۔
تیسری بحث:-
بعض مظالم کی طرف اشارہ ہے جو اھل بیت(علیہ السلام) اور ان کے شیعوں پر ہوئے یں۔
چوتہی بحث:-
شیعیان اہل بیت(علیہ السلام) سے غیر منصفانہ برتاوٴ۔
پانچویں بحث:-
اھل بیت(علیہ السلام) پر مسلسل حملے۔
چھٹی بحث:-
شیعوں پر بھت زیادہ بھتان و افترا پردازی اور شیعہ اثنا عشری عقائد کا خلاصہ۔
ساتویں بحث:-
اسلامی ممالک میں تشیع کے پہیلنے کے اسباب۔
آٹہویں بحث:-
اہل بیت(علیہ السلام) کی فضیلت اور اسلام کے لئے ان کی خدمات –
نویں بحث:-
شیعہٴ امامیہ کے عقائد۔
دسویں بحث:-
شیعہ ادبا، علما، شعراء اورموٴلفین اور ان کی کتابوں کے بارے میں۔
گیارہویں بحث:-
وزرا، امرا، قضات اورنقیبان شیعہ کے بارے میں۔
بارہویں بحث:-
شیعہ نشین شہروں کاذکر۔ [4]
کتاب اعیان الشیعہ کی ارزش و اہمیت ھمارے بیان سے باہر ہے اس لئے کہ یہ کتاب تاریخی معلومات اورمعارف کا ایک ایسا دریا ہے جس کی گھرائی تک ہم نہیں پھنچ سکتے اور نہ ہی پوری طرح سے اس پر مسلط ہوسکتے ہیں کہ جس سے اس کا اندازہ لگائیں اور اس کے بررسی کریں بلکہ ا پنی توانائی کے مطابق اس سے استفادہ کریں، قلم کی فصاحت و بلاغت، مطالب کی گھرائی، مباحث کا نفوذ، عناوین کی تقسیم بندی اور منطقی ترتیب جیسے پھلو اس کتاب کے خاص امتیازات ہیں۔
اس کتاب کے بارے میں تنقیدی اعتبار سے ایک جزئی اشارہ کیا جاسکتا ہے جیسے شیعہ کے دوسرے ناموں کی بحث بہت مختصر کی گئی ہے اور صرف امامیہ، متاٴولہ، قزلباش، رافضیہ، جعفر یہ ا ورخاصہ جیسے ہی کے ناموں کو شمار کیا گیا ہے [5]جبکہ جو نام شیعوں پر صادق آتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں فقط پھلی صدی میں علوی، ترابی، حسینی وغیرہ نام شیعوں کے بارے میں بیان ہو ئے ہیں۔
دوسرا اعتراض جو اس کتاب پر ہو سکتا ہے وہ معنای شیعیت اوراس کے حدود کے بارے میں ہے، بعض ایسے اشخاص کو موٴلف نے شیعہ شمار کیا ہے جن کو خود شیعہ علمائے رجال شیعہ نہیں جانتے، اس لئے کہ اگر چہ یہ لوگ سیاسی اعتبار سے شیعہ تہے لیکن اعتقادی اعتبار سے شیعہ نہیں تہے یعنی سی اسی کشمکش میں اہل بیت(علیہ السلام) کے طرفدار تہے لیکن عقائد کے لحاظ سے اہل بیت(علیہ السلام) کے سرچشمہ سے استفادہ نہیں کرتے تہے۔
تیسرا اعتراض یہ کہ ایک فصل کو اس بحث سے مخصوص کرنا چاہیے تھا اور کتاب کے شروع میں کھنا چا ہیے تھا کہ شیعوں سے مراد کون لوگ ہیں۔
(۴)تاریخ الشیعہ
کتاب تاریخ شیعہ کے موٴلف علامہ بزرگ مرحوم شیخ محمد حسین مظفر ہیں یہ کتاب تاریخ تشیع کا ایک اہم ماخذ و منبع ہے یہ کتاب متعدد بار چھپ چکی ہے اور استاد ڈاکٹر سید محمد باقر حجتی صاحب کے توسط سے فارسی میں بہی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔
مرحوم مظفر نے تاریخ شیعہ کو دور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر اپنے زمانے تک مورد بحث قراردیا ہے جو بیاسی عناوین پر مشتمل ہے بطور کلی اس کتاب کے عناوین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)تشیع کی وسعت کے زمانے
(۲)شیعہ نشین علاقے
(۳)شیعہ حکومتیں
مرحوم مظفر جو ایک عظیم مصنف، عالم، ماہر صاحب قلم اور انشاء پردازی میں بھرپور تجربہ رکھتے تہے جن کے قلم میں روانی اور طرز تحریر کی خوبی کے علاوہ قادر الکلامی اور استحکام بہی پایا جاتا ہے۔ کتاب تاریخ شیعہ کی ایک خوبی اور امتیاز یہ بہی ہے کہ روئے زمین پرہر زمانہ میں شیعوں کے پائے جانے کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے۔
یہ کتاب تاریخ تشیع پر تحقیق کرنے والوں کے لئے ہر زمانہ میں ایک اہم ترین ماخذ و منبع ہوسکتی ہے، تاریخ شیعہ دوسری تمام کتابوں پر امتیاز رکھتی ہے لیکن اختصار کی وجہ سے حق مطالب کو ادا نہیں کیا گیا ہے، ھاں بعض موارد جیسے، شیعہ، کے مفہوم اور اس کے نام کو اہلبیت(علیہ السلام) کے دوستوں سے مختص ہونے کا زمانہ، آغاز تشیع ا ور شیعیت کا فروغ پانا کہ جس کا تعلق اساس شیعیت سے ہے، ان سب کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔ مرحوم مظفر مقدمہٴ کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
"میں کسی چیز کاطالب نہیں ہوں مگر یہ کہ لوگ اس بات کو جان لیں کہ تشیع کا سلسلہ رسالت مآب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے شروع ہو ا ہے ایرانی اور ابن سبا اس کی تاٴسیس میں کوئی دخالت نہیں رکھتے ہیں۔”
دوسرا اعتراض جو اس کتاب کے بارے میں ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب تحقیقی نہیں ہے موٴلف محترم نے اختصار کی وجہ سے دوسروں کے نظریوں، آراکو نقل نہیں کیا ہے اور تنقید بھی نہیں کی ہے۔
مناسب تھاکہ اس کتاب کا ایک حصہ جو اسلامی حکومت کے بارے میں تھا اسے مکمل کیا جاتا اس لئے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اوران تحولات وتغیرات کے پیش نظر گئی جوشیعہ حکومتوں کو در پیش تھے مورد بحث قرار دئے گئے ہیں اور ان میں سے بعض ختم ہوگئی یں لیکن مترجم محترم نے بعض نئی حکومتوں کا ذکر نہیں کیا ہے اور مزیدمطالعہ کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے، نتیجہ میں اسی شکل میں ترجمہ کردیاہے بلکہ بعض شیعہ حکومتوں کی بحث سے کھنگی اورقدامت کی بو آتی ہے۔
(۵)شیعہ در تاریخ کتاب شیعہ در تاریخ، جو محمد حسین زین عاملی کی تالیف ہے اور محمد رضا عطائی نے اس کتاب کافارسی ترجمہ کیا ہے، یہ کتاب آستانہ قدس رضوی کے توسط سے چھپی ہے شیعہ تاریخ کے بارے میں لکھی جانی والی کتابوں کے لئے یہ ایک اہم منبع و ماخذ ہے، یہ کتاب پانچ فصلوں اور ایک خاتمہ پر مرتب ہوئی ہے:
پھلی فصل:-
شیعہ عقائد کا مختصرخاکہ اس کے معنی اور مفہوم نیز سابقہ شیعیت کے بیان میں ہے۔
دوسری فصل:-
شیعوں سے وجود میں آنے والے گروہ اور فرقوں کے بیان میں ہے۔
تیسری فصل:-
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سے امام حسین(علیہ السلام) کی شھادت تک کی تاریخ اور اس پر تجزیہ وتبصرہ کے علاوہ اس دوران جو حادثات واقعات واقع ہوئے یں ان کا بیان ہے۔
چوتہی فصل:-
اموی اور عباسی خلفاء کے زمانے میں شیعوں کا اپنے موقف پرقائم رھنا سے مربوط ہے۔
پانچویں فصل: –
غلواور غالیوں سے شیعوں کا اظہار بیزاری کرنا۔
”شیعہ در تاریخ “ شیعوں کے اندرونی فرقوں کے بارے میں یک اچھا منبع و ماخذ ہے بالخصوص شیعوں کے فرقوں کے وجود میں آنے کے علل و اسباب کو بیان کیاگیا ہے اور اچھا تجزیہ و تبصرہ کیا ہے۔
یہ کتاب تاریخ تشیع کے عنوان سے بھت زیادہ جامع نہیں ہے کیونکہ کیں کیں ایسی بحثیں جوبیان ہوئی ہیں جو تاریخ تشیع کے دائرے سے خارج ہیں، جیسے وہ بحثیں تاریخ خلافت اور خوارج کے بارے میں پیش کی گئی ہیں وہ تاریخ تشیع سے بالکل خارج ہیں۔
(۶) جہاد ا لشیعہ
تاریخ شیعہ کے منابع میں سے ایک کتاب جہاد شیعہ ہے اگر چہ اس کی اصلی بحثیں شیعہ اور شیعہ فوجیوں کے جہاد و انقلاب کے بارے میں ہیں، اس کتاب کی موٴلفہ محترمہ ڈاکٹر سمیرہ مختار لیثی(استا دعین شمس یونیورسٹی، مصر)ہیں کتاب جہاد شیعہ دارالجیل مطبع بیروت وزیری سائزمیں بصورت مجلد ۱۳۹۶ھ میں شائع ہوئی جو ۴۲۴ صفحات پر مشتمل ہے، یہ کتاب مقدمہ کے بعد پانچ ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے، اس کتاب کا موضوع جہاد شیعہ ہے کہ اس کتاب میں تقریباً دوسری صدی ہجری کے آخر تک کے حالات کو مورد بحث و بررسی قراردیا گیا ہے، بہ عبارت دیگر: اس کتاب کی موٴلفہ ایک طرف عباسیوں کے خلاف شیعوں کی فوجی تحریک اور جہاد، نیز علویوں کے قیام اور ان کی شکست کے اسباب کو بیان کرتی یں، شیعہ فرقوں، ان کی تحریکیں، ان کے اجتماعی اور سیاسی موقف کو جو اس زمانہ میں موجود تھے بیان کرتی ہیں دوسری طرف خلفا کی سیاست جو ائمہ اطہارعلیہم السلام اور شیعوں کے بارے میں تہی اس پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ عام شیعہ تاریخ کے مباحث پہلے باب کے ایک حصہ میں بیان کئے ہیں جیسے: شیعہ درلغت، مفاہیم شیعہ شیعوں کے وجود میں آنے کی تاریخ، امام حسین(علیہ السلام) کے جہاد کا اثر، عراق میں شیعوں کا جھاد، شیعہ کیسانیہ کا وجود، شیعہ امامیہ کے فرقے نیز تحقق شیعیت اور تاریخ شیعہ کے بارے میں مختلف نظریوں کو بیان کیا ہے۔ تنھا ایک اعتراض جو اس کتاب پر وارد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ائمہ اطہار علیہم السلام کے سیاسی نظریات کو اپنے لحاظ سے بیان کیاہے چونکہ وہ شیعہ نہیں تیں اسی وجہ سے وہ ائمہ کے سیاسی تفکرکے اصول کو نہیں سمجھ سکیں اور اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام کے بعدوہ امامت کے مبانی اور اصول کور وحانی وعلمی امامت بتاتی ہیں وہ ان(بقیہ نو ائمہ)کی روش کو امیرالمومنین(علیہ السلام)، امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کی روش سے جدا جانتی ہیں۔[6] https://erfan.ir/urdu/84937.html