قرآنیاتمقالات قرآنی

قرآن کی بطور دستور حیات، تعلیم و تنفیذ کی ضرورت

 علامہ شیخ سجاد حسین مفتی

اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ ۔
بے شک یہ قرآن کجی و انحراف سے پاک، متوازن اور مقتدر زندگی کی جانب رہنمائی اور رہبری کرتا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا دستور حیات قرآن کریم ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے کامل،جامع، فطرت سے ہم آہنگ اور ہر زمان و مکان کے لیے کارآمد مترقی دستور حیات ہے۔
ہر قسم کی عظمت و رفعت اسی دستور حیات کو ماننے،سمجھنے اور اس پر مکمل عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سید البشر،سید المرسلین،رحمۃ للعالمین اور خاتم الانبیاء کے منصب پر فائز ہوئے اور  آپ پر قرآننازل ہوا،آپ نے اسے سینے سے لگایا،اس کی تبلیغ کی اور اپنی ذات اور معاشرے پر اسے نافذ کیا نیز اس راہ میں اعصاب شکن مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
آئمہ اطہار علیہم السلام کو منصب امامت و ولایت پر فائز ہوئے اور وہ رسول اکرمؐ کے بعد اس کتاب ہدایت کو سب سے زیادہ سمجھتے تھے،عمل کرتے تھے،تبلیغ کرتے تھے، اس کی اصالت و حقانیت کی حفاظت کرتے تھے اور اس راہ میں سب سے زیادہ کوشش کی اور قربانی دی۔
رمضان المبارک اور شب قدر کو دوسرے ایام پر فضیلت اسی لیے ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا۔
پیغمبر اسلامؐ  نے اسی قرآن کے ذریعے اسفل السافلین میں گری ہوئی عربی قوم کو انسانیت کے اعلیٰ علیین کے مقام پر فائز کیا۔
جب تک مسلمانوں کی حیات اجتماعی میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل رہی من حیث القوم عصر ملوکیت میں بھی مسلمان متحد، دنیا کے مربی و معلم،غالب اور فاتح رہے۔
دنیا بھر کی طاغوتی محاذ کی مخالفت اور معاندانہ معرکہ آرائی کے باوجود انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، استحکام اور تمام شعبہ ہائے حیات میں بڑھتی ہوئی ترقی و اثر و نفوذ کا بنیادی سبب بھی وسیع پیمانے پر قرآن مجید کی درست تعلیم اور اس کی تعلیمات پر مکمل عمل کرنےکی کوشش ہے۔ انہوں نے توحیدی مکتب فکر کے قافلہ سالار امام خمینی کی سرپرستی میں ستر سال پہلے سے گھر،مکتب،مدرسہ،مسجد اور امام بارگاہوں کو قرآن کریم کے متن،ترجمہ اور تفسیر سکھانے کا مرکز بنا کر سنجیدہ اور معقول کوشش کی ہے جو آج بھی رہبر معظم کی نگرانی میں جاری ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو جزوی ضرورتیں پوری کرنے کا ٹوٹکہ اور مرنے کے صدیوں سال بعدآخرت میں ثواب،محلات اور مادی لذات کے حصول کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے اور اسے عزت سے غلاف میں بند کر کے عملی زندگی سے نکال دیا ہے۔ اسے اپنے مقصد نزول سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے۔ فکر و عمل کی حاکمیت سے محروم کر کے شب قدر قرآن سر پر رکھ کر خدا کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا و آخرت میں آزاد،خودمختار،باعزت مقتدر اور خدا پسند زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کو اس کے مقصد نزول سے تناظر ،اسے مانیں اور اس کے حقوق ادا کریں۔ اسے جلال و جمال الہٰی سے ہمکنار ہونے کا آئین سمجھ کر عمل کریں اور اپنی زندگی واحد دستور حیات تسلیم کریں،اسےسیکھیں،پڑھیں، سمجھیں، عمل کریں،اسی کو ہی شاہراہ حیات بنائیں اور اپنی ذاتی،خاندانی، قومی اور بین الاقوامی زندگی پر اس کی حق حاکمیت کو عملی طور پر نافذ کریں۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے راہ ہموار کریں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button