خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:321)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 19 ستمبر 2025 بمطابق 25 ربیع الاول 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: خوشحالی کو غر بت سے پہلے غنیمت سمجھو

اما بعد فقد قال رسول اللّٰہ ﷺ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
اللہ کا شکر ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں جمعہ کے بابرکت دن میں مسجد میں جمع ہونے کی توفیق ملی تاکہ ہم اس کے کلام اور اس کے رسول اکرم (ص) و آئمہ اہل بیت (ع) کے ارشادات سے رہنمائی حاصل کریں۔ زندگی، اللہ کی عطا کردہ انمول نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ہم اپنی گفتگو کو اسی سلسلے میں آگے بڑھاتے ہوئے اس اہم حدیث نبوی (ص) پر غور کر رہے ہیں جو ہمیں زندگی کی پانچ قیمتی نعمتوں کو ان کے زوال سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید فرماتی ہے۔ ہم نے پچھلے خطبات میں "جوانی کو بڑھاپے سے پہلے” اور پھر "صحت کو بیماری سے پہلے” غنیمت جاننے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
آج ہماری گفتگو کا موضوع اسی حدیث کا تیسرا اور نہایت اہم حصہ ہے:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
(مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 172، حدیث 13778)
ترجمہ: "پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے، اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔”
آج ہم اسی نکتہ، "اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے غنیمت جانو” پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
خوشحالی: اللہ کی نعمت بھی آزمائش بھی
خوشحالی کا مطلب صرف مال و دولت کی فراوانی نہیں، بلکہ رزق کی کشادگی، مالی استحکام اور زندگی کی ضروریات کا بآسانی میسر آنا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم فضل ہے، جس پر ہر حال میں شکر واجب ہے۔ جب اللہ کسی انسان کو خوشحالی عطا کرتا ہے تو یہ ایک نعمت بھی ہے اور ساتھ ہی ایک بڑی آزمائش بھی۔ یہ آزمائش اس بات کی ہے کہ انسان اس مال کو کیسے استعمال کرتا ہے؟ کیا وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے احکامات کے مطابق خرچ کرتا ہے، یا وہ ناشکرا بن کر مال کو صرف اپنے لیے جمع کرتا ہے، بخیل بن جاتا ہے، اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتا؟
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ خوشحالی کو انسان کے لیے ایک آزمائش کے طور پر پیش کرتا ہے:
فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتا ہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے تو کہتا ہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔
اللہ اگر کسی کو امتحان میں ڈالنے کے لیے اسے عزت دیتا اور وافر نعمتوں سے نوازتا ہے تو نادان انسان اسے امتحان و آزمائش خیال کرنے کی جگہ یہ تصور کرتا ہے: میں اللہ کا چہیتا بن گیا ہوں۔ اس لیے مجھے اپنی عنایتوں سے نوازا ہے۔ مجھے مال و دولت اقتدار و سلطنت اس لیے دی ہے کہ مجھ ہی کو اس کا اہل سمجھا ہے۔ اس غلط تصور کی بنیاد پر وہ غرور میں آ کر سرکش ہو جاتا ہے، انسانوں پر حکمرانی اپنا حق تصور کرتا ہے اور اس کے ظالمانہ حکم کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں اس پر مظالم کا پہاڑ توڑ دیتا ہے۔ اگر وہ اسے امتحان سمجھتا تو اس نعمت سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتا، عدل و انصاف سے کام لیتا اور کسی پر ظلم نہ کرتا۔
وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ(سورۃ الفجر، آیت 15-16)
اور جب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔
آزمائش کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس پر روزی تنگ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ یہ صبر کرتا ہے اور اللہ کے فیصلے پر راضی اور شاکر رہتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے مجھے نظر انداز کیا ہے۔ فلاں کو دولت سے مالا مال کیا اور مجھے فقر و تنگدستی میں ڈال کر مجھے ذلیل کیا۔ اگر وہ اسے امتحان تصور کرتا تو اس پر صبر و شکر کرتا اور اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلنے کی سعی کرتا۔
ان دو آیات سے معلوم ہوا دولت اور غربت دونوں اللہ کی طرف سے امتحان ہیں۔ نہ دولت قرب الٰہی کی علامت ہے، نہ تنگدستی اللہ سے دوری کی علامت ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۳۵)
اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں۔
دولت کو انسان خیر اور غربت و تنگدستی کو شر سمجھتا ہے۔ ان دونوں آزمائشوں میں مشکل، خیر کے ذریعے آزمائش ہے۔ چنانچہ غربت اور تنگدستی میں صبر اور شکر کرنے والے بہت ملیں گے لیکن دولت کی فراوانی اور اقتدار کی آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلنے والے بہت کم ہوں گے۔
ان دو آیات سے یہ بات واضح ہو گئی مال و دولت اس صورت میں اللہ کا فضل و کرم بن سکتی ہے اگر انسان اس امتحان میں کامیاب ہو جائے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 160)
اسی طرح، قرآن ایک اور مقام پر مال و اولاد کو بھی آزمائش قرار دیتا ہے:
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللّٰهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ(سورۃ التغابن، آیت 15)
ترجمہ: ” تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بس آزمائش ہیں اور اللہ کے ہاں ہی اجر عظیم ہے۔
رسول خدا ﷺ نے اس حقیقت کو مولا علی ؑ کے سامنے یوں بیان فرمایا ہے کہ مال میں خیر تبھی ہے جب اس کے ساتھ سخاوت ہو:
لَا خَيْرَ فِي الْمَالِ إِلَّا مَعَ الْجُودِ (مکارم الاخلاق ص 442)
ترجمہ: "مال میں کوئی خیر نہیں سوائے سخاوت کے ساتھ۔”
یعنی خوشحالی کا اصل مقصد اور اس کا حقیقی فائدہ اس کے خرچ کرنے میں ہے، نہ کہ جمع کرنے میں۔

غربت: صبر اور استقامت کی آزمائش
خوشحالی کی ضد(الٹ) غربت ہے، یعنی مالی تنگی اور ضروریاتِ زندگی کی کمی۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے انسان کے لیے ایک آزمائش ہے۔ غربت انسان کو متعدد مشکلات سے دوچار کرتی ہے۔ یہ نہ صرف عبادات کی ادائیگی میں رکاوٹ بن سکتی ہے (جیسے حج پر نہ جا پانا، زکات ادا نہ کر پانا)، بلکہ ذہنی پریشانی، مایوسی اور بعض اوقات گناہوں کی طرف مائل ہونے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ایک غریب شخص کو معاشرتی پسماندگی اور عزت نفس کے متاثر ہونے جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے، جب انسان خوشحال ہو تو اسے چاہیے کہ وہ غربت کے آنے سے پہلے ہی اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اپنی آخرت کا سامان کر لے۔اسی طرح خوشحالی کے زمانے میں فضول خرچیوں سے اجتناب کرے اور ضروریات پر خرچ کرے۔ غربت میں صبر اور قناعت اختیار کرنا مومن کی صفت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی:
اللّٰهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
ترجمہ: "اے اللہ! مجھے مسکین کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین کی حالت میں موت دے، اور مسکینوں کے گروہ میں اٹھا کر۔”
یہ دعا فقر و مسکینی میں صبر اور قناعت کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، جو اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے بندوں کی شان ہے۔ مولا علی علیہ السلام مال کے درست استعمال پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
المالُ يُكرِمُ صاحِبَهُ ما بَذَلَهُ، ويُهينُهُ ما بَخِلَ بهِ۔( غرر الحكم: ۱۸۳۸)
ترجمہ: ” وہ مال اپنے مالک کی عزت کراتا ہے جسے وہ خرچ کرے اور وہ توہین کراتا ہے جس میں وہ بخل سے کام لے۔ ”
یہ قول ہمیں مال کی قدر کرنے، اسے ضروریات میں خرچ کرنے اور بخل و کنجوسی نہ کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
اسی طرح نہج البلاغہ میں مولا علی فرماتے ہیں:
فَدَعِ الْاِسْرَافَ مُقْتَصِدًا، وَ اذْكُرْ فِی الْیَوْمِ غَدًا، وَ اَمْسِكْ مِنَ الْمَالِ بِقَدْرِ ضَرُوْرَتِكَ، وَ قَدِّمِ الْفَضْلَ لِیَوْمِ حَاجَتِكَ۔
میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آؤ۔ آج کے دن کل کو بھول نہ جاؤ۔ صرف ضرورت بھر کیلئے مال روک کر باقی محتاجی کے دن کیلئے آگے بڑھاؤ۔(نہج البلاغہ مکتوب 21)
ایک محتاجی کا دن تو دنیا کا ہو سکتا ہے جب انسان کو اپنے کاروبار وغیرہ میں نقصان ہوجائے تو اس کے لیے بھی خوشحالی کے دنوں میں مناسب منصوبہ بندی کرنی چاہیے جبکہ دوسرا بڑا محتاجی کا دن آخرت کا دن ہے لہٰذا اس کے لیے بھی دنیا میں راہ خدا میں مال خرچ کرکے تیاری کرنی چاہیے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اللہ نے انہیں مال اور خوشحالی بھی عطا کی ہے لیکن وہ پھر بھی اپنی ذات اور ضروریات پر اسے خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ اس بابت امام صادق ؑ سے روایت ہے:
إنّما أعطاكُمُ اللّٰهُ هذهِ الفُضولَ مِن الأموالِ لتُوَجِّهوها حيثُ وَجَّهَها اللّٰهُ عز و جل، ولَم يُعطِكُموها لِتَكنِزوها (الفقيه: ۲/۵۷/۱۶۹۳)
اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال فراوانی کے ساتھ دیا ہے تا کہ تم اسےوہاں مصرف میں لا سکو جہاں اللہ نے اس کو موڑا ہے اور تمہیں اس لیے نہیں دیا کہ تم اسے سنبھال کر رکھو۔
پس مال کو اپنی ذات پر بھی خرچ کرنا چاہیے، مشکل وقت کے لیے بچا کر بھی رکھنا چاہیے اور صدقات و خیرات کے ذریعے آخرت کے لیے بھی مال بچانا چاہیے۔امام علی رضا ؑ سے روایت ہے:
خَيرُ مالِ المَرءِ ذَخائِرُ الصَّدَقَةِ۔(تنبيه الخواطر: ۲/۱۸۲)
انسان کا بہترین مال وہ ہے جو صدقہ کے ذریعے ذخیرہ کر لیا جائے۔
خوشحالی اور غربت کا تقابل: اللہ کا نظام اور آزمائش
خوشحالی اور غربت دونوں زندگی کے وہ پہلو ہیں جو اللہ کے نظامِ کائنات کا حصہ ہیں۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو رزق میں مختلف درجات عطا کیے ہیں۔ اگر دنیا میں سب امیر ہو جائیں یا سب غریب ہو جائیں تو یہ دنیا کا نظام چل نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس حکمت کو واضح فرمایا ہے:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ۔ (سورۃ الزخرف، آیت 32)
ترجمہ: ” کیا آپ کے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ جب کہ دنیاوی زندگی کی معیشت کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم ہی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے اور آپ کے رب کی رحمت اس چیز سے بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ تقسیم باہمی تعاون، ذمہ داری اور ایک دوسرے کی خدمت کے لیے ہے۔ اسی لیے، خوشحالی اور غربت دونوں ہی انسان کے لیے ایک طرح سے امتحان ہیں:
• خوشحالی ایک امتحان ہے شکرگزاری کا، سخاوت کا، اور اللہ کے حقوق ادا کرنے کا۔ امیر کو دیکھنا ہے کہ کیا وہ اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا نہیں؟ کیا وہ غرور اور تکبر میں مبتلا ہوتا ہے یا عاجزی اختیار کرتا ہے؟ خوشحالی میں انسان کو نفس پر قابو پانے اور فرائض کی ادائیگی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔
• غربت ایک امتحان ہے صبر کا، قناعت کا، اور اللہ پر توکل کا۔ غریب کو دیکھنا ہے کہ کیا وہ اپنی تنگی میں بھی اللہ پر راضی رہتا ہے؟ کیا وہ مایوسی کا شکار ہوتا ہے یا اللہ کی رحمت پر امید رکھتا ہے؟ غربت میں انسان کو شکر گزاری اور دین پر ثابت قدمی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔
ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ بزرگ افراد، جو زندگی کے مختلف مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں، وہ اس حقیقت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کا تجربہ اور حکمت جوانوں کے لیے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔
خوشحالی کو غنیمت جاننے کے عملی اقدامات
اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے غنیمت جاننے کا عملی مفہوم کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ جب ہم مالی طور پر آسودہ حال ہوں تو فوراً اللہ کے حقوق ادا کریں اور نیک کاموں میں سبقت لے جائیں، قبل اس کے کہ مال ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔ چند عملی اقدامات یہ ہیں:
• شکر گزاری: سب سے پہلے، ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں، جو زبانی بھی ہو اور عملی بھی۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ۔ (سورۃ ابراہیم، آیت 7)
ترجمہ: "اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔”
 مال کے حقوق کی ادائیگی:
• زکات اور خمس: یہ مال پر واجب حقوق ہیں جو غرباء، مساکین اور خمس سادات کے لیے مخصوص ہیں۔ ان کی ادائیگی سے مال پاکیزہ ہوتا ہے اور اس میں برکت آتی ہے۔ قرآن مجید میں خمس کے بارے میں واضح حکم ہے:
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ۔ (سورۃ الانفال، آیت 41)
ترجمہ: ” اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے،۔
• صدقات و خیرات: اللہ کی راہ میں اپنی خوشی سے خرچ کرنا، مستحقین کی مدد کرنا، قرض حسنہ دینا اور خیراتی کاموں میں حصہ لینا مال کو بڑھاتا ہے اور اس میں برکت ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت 274)
ترجمہ: ” جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔”
• ہمارے آئمہ اطہار (ع) نے بھی انفاق کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے۔ امام زین العابدین (ع) نے فرمایا:
مَن كَفَى يَتِيماً وَ آوَاةُ وَ تَوَلَّى أَمْرَهُ، جَعَلَهُ اللّٰهُ مَعَهُ فِي الْجَنَّةِ۔ (الکافی، جلد 6، صفحہ 22)
ترجمہ: "جو شخص کسی یتیم کی کفالت کرے، اسے پناہ دے اور اس کے معاملے کا ذمہ دار بنے، اللہ اسے اپنے ساتھ جنت میں رکھے گا۔”
اور امام موسیٰ کاظم (ع) نے فرمایا:
إنَّ أَقْرَبَ النَّاسِ إِلَى اللّٰهِ مَنْ يَنْفَعُ النَّاسَ۔ (تحف العقول، صفحہ 409)
ترجمہ: "بے شک اللہ کے قریب ترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچائیں۔”
ان احادیث سے ظاہر ہے کہ مالی خوشحالی میں نفع رسانی اور یتیموں کی مدد کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
• اسراف سے پرہیز: فضول خرچی اور بے جا نمود و نمائش سے بچنا ضروری ہے۔ مال اللہ کی امانت ہے، اسے بے جا صرف کرنا ناشکری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی سے منع فرمایا ہے:
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا  إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ۔ (سورۃ الاسراء، آیت 26-27)
ترجمہ: "اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔”
خوشحالی کی قدر نہ کرنے کے نتائج اور عبرت
اگر ہم اپنی خوشحالی کو غنیمت نہیں جانتے اور اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتے تو اس کے سنگین دنیاوی اور اخروی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔ دنیاوی نقصان کی صورت میں مال کا چھن جانا، برکت کا اٹھ جانا، اور مالی پریشانیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اخروی طور پر، ہمیں اللہ کے حقوق ادا نہ کرنے پر جوابدہی کا سامنا ہوگا، اور آخرت میں حسرت و ندامت ہمارا مقدر ہوگی۔
قارون کی دولت زمین بوس ہونے کا واقعہ
اس کی ایک بہت بڑی اور عبرت ناک مثال قارون کی ہے۔ قرآن کریم نے اس کا واقعہ سورۃ القصص میں بیان کیا ہے:
إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ٭ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللّٰهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ٭ قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَن هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ ٭
فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا یٰلَیۡتَ لَنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ قَارُوۡنُ ۙ اِنَّہٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَیۡلَکُمۡ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ
(سورۃ القصص، آیات 76-81)
ترجمہ: ” ے شک قارون کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان سے سرکش ہو گیا اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بارگراں تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا: اترانا مت یقینا اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد پھیلنے کی خواہش نہ کر یقینا اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔ قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر ملا ہے جو مجھے حاصل ہے، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا جو اس سے زیادہ طاقت اور جمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے تو ان کے گناہ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا۔
(ایک روز) قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیا پسند لوگوں نے کہا: اے کاش! ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بے شک یہ تو بڑا ہی قسمت والا ہے۔
اور جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: تم پر تباہی ہو! اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والے ہی حاصل کریں گے۔
پھر ہم نے قارون اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے مقابلے میں کوئی جماعت اس کی نصرت کے لیے موجود نہ تھی اور نہ ہی وہ بدلہ لینے والوں میں سے تھا۔۔”
قارون کا واقعہ اس بات کی عبرت ہے کہ مال کی ناشکری، فخر اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے کا انجام کتنا عبرتناک ہو سکتا ہے۔ یعنی جب بھی کوئی مجرم اپنے جرم سے باز نہیں آتا اور اپنے جرم پر اسے ناز ہوتا ہے اس وقت جب جرم کی سزا ملنے لگے گی دنیا کی کوئی طاقت اسے اس سزا بچا نہیں سکتی۔

اختتامیہ
پس خوشحالی اللہ کی ایک عظیم امانت ہے، ہمیں اسے اللہ کی رضا کے مطابق استعمال کرنا چاہیے اور اس کے حقوق ادا کرنے چاہییں۔ یہ نعمت ہر حال میں شکر اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
• خوشحال افراد سے میری گزارش ہے کہ اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے، غریبوں کا خیال رکھنے اور اسراف سے بچنے کی کوشش کریں۔ اپنے مال کو صدقہ جاریہ بنائیں تاکہ یہ دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کے لیے بھلائی کا باعث بنے۔
• محروم افراد سے میرا پیغام ہے کہ غربت میں صبر، قناعت اور اللہ پر توکل کریں۔ یہ بھی ایک آزمائش ہے جس میں اللہ کے نزدیک اجر عظیم ہے۔ مایوسی سے بچیں اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی خوشحالی میں شکر گزاری اور اپنے مال کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور غربت سے بچائے، اور اگر آزمائے تو صبر و استقامت عطا فرمائے۔آمین
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button