خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:215)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک25اگست2023ء بمطابق 07صفر المظفر1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: اخلاص
تمام انسانی اعمال کی روح اور جان اخلاص ہے۔قرآن و حدیث میں عمل میں اخلاص کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔قرآن مجید میں سات مقامات پر یہ جملہ آیا ہے:مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ یعنی دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے والے لوگ۔
عمل کو اللہ واحد کی طرف پھیرنے اور اس سے قربت حاصل کرنے کا نام اخلاص ہے، جس میں کوئی ریا کاری ،نمود و نمائش، ظاہری بناوٹ نہ ہو،بلکہ بندہ صرف اللہ واحد کے ثواب کی امید کرے، اس کے عذاب سے ڈرے اور اس کی رضا مندی کا طالب ہو۔یہی وجہ ہے کہ نماز اور دیگر عبادات میں عمل کی نیت میں "قربۃ الی اللہ”کہنے کا حکم ہے یعنی یہ عمل خالصتا اللہ تعالی کی ذات کے لیے ہے۔
جس طرح تمام اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے اسی طرح عمل اور نیت میں خلوص کا ہونا بھی ایسے ہے جیسے جسم کے لیے روح کا ہونا۔ اگر جسم میں روح نہ ہوتو وہ کسی کام کا نہیں رہتا اسی طرح عمل میں اخلاص نہ ہوتو اس عمل کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
قرآن مجید میں اخلاص کے بارے میں ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ﴿البینۃ آیۃ:۵﴾
حالانکہ انہیں تو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر دین کو اس کے لیے خالص رکھتے ہوئے صرف اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی مستحکم (تحریروں کا) دین ہے۔(البینۃآیت5)
یعنی عمل میں کسی قسم کے شرک اور ریاکاری کی آمیزش نہ ہو بلکہ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو مدنظر رکھ کر عمل انجام دیا جائے۔
ہم نے گزشتہ ایک خطبے میں رسالۃ الحقوق سے امام سجاد (علیہ السلام) کی زبانی خدا کا حق بیان کیا تھا جس میں امام ارشاد فرماتے ہیں: "فَأَمَّا حَقُّ اللَّهِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً "،”تو اللہ کا سب سے بڑا حق (تمہارے ذمے) یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ،
اس کے بعد امام ؑ نے حق خدا کی ادائیگی میں خلوص کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَا
تو جب تم نے اخلاص کے ساتھ ایسا کیا تو اس نے تمہارے لیے اپنے ذمے لیا ہے کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے کام کو سنوار دے اور اس (دنیا اور آخرت) میں سے جو تمہیں پسند ہے اسے تمہارے لیے محفوظ کرے”۔
نیز اللہ کے ہاں عمل کی کثرت مطلوب نہیں ہے بلکہ عمل کا حسن یعنی عمل کو احسن انداز میں انجام دینا مطلوب ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا وَہُوَالۡعَزِیۡزُالۡغَفُوۡرُ ۙ﴿الملک آیۃ:۲﴾
اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اَعمال کے حسن کو جانچنے کا تذکرہ کیاہے، کثرت کا نہیں۔ چنانچہ اعمال کی قبولیت اور اس پراجروثواب کے حصول کے لیے اس میں روحانیت واخلاص اور کیفیت کااعتبار ہے نہ کہ محض تعدادیاقلت وکثرت کا۔ حضرات مفسرین نے آیت کے لفظ’’اَحْسَنَ عَمَلاً‘‘ کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے وہ عمل مراد ہے جو اخلاص پر مبنی ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔اس آیت کے پیش نظر علماء محققین نے اعمالِ صالحہ کی قبولیت کے لیے دو شرطیں ذکر کی ہیں:
1-اخلاص یعنی وہ فقط اور فقط اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیےانجام دیا جائے۔
2-اتباعِ سنت یعنی وہ عمل قرآن وسنت کی تعلیمات کے موافق ہو۔ بدعت یاکسی اور طرح سے شریعت کے خلاف نہ ہو۔
احادیث میں بھی اعمال میں اخلاص پیدا کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے مروی روایت میں اخلاص کو ہر اطاعت کا معیار و ملاک قرار دیا گیا ہے:
الْإِخْلَاصُ‏ مِلَاكُ‏ كُلِّ طَاعَةٍ(الأمالي (للطوسي)، النص، ص: 570)
اخلاص ہر اطاعت کا معیار ہے۔
حضرت امام علی علیہ السلام سے مروی روایت میں اخلاص کو دین کا مقصد اور عبادت کا معیار قرار دیا گیا ہے:
الْإِخْلَاصُ‏ غَايَةُ الدِّين (غرر الحكم و درر الكلم، ص: 44)
اخلاص دین کی غرض و غایت ہے۔
ایک اور مقام پہ فرمایا:
‏الْإِخْلَاصُ‏ مِلَاكُ‏ الْعِبَادَةِ (غرر الحكم و درر الكلم، ص: 49)
اخلاص عبادت کا معیار ہے۔
بندے کا دنیا میں خلوص سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انجام دیا گیا عمل اسے آخرت میں نجات عطا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام سے روایت ہے:
كُلَّمَا أَخْلَصْتَ‏ عَمَلًا بَلَغْتَ مِنَ الْآخِرَةِ أَمَلًا(غرر الحكم و درر الكلم، ص: 534)
تیرا عمل جس قدر خلوص نیت پر مشتمل ہوگا اسی قدر تم آخرت میں اپنی آرزوئیں پاؤ گے۔
امام علی علیہ السلام کی ایک اور روایت میں انسان کو تمام اعمال میں اخلاص کی تاکید کی گئی ہے:
طُوبَى لِمَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ عَمَلَهُ وَ عِلْمَهُ وَ حُبَّهُ وَ بُغْضَهُ وَ أَخْذَهُ وَ تَرْكَهُ وَ كَلَامَهُ وَ صَمْتَهُ‏ وَ فِعْلَهُ وَ قَوْلَه
(بحار الأنوار ج‏74، ص: 239)‏
اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس نے اپنے عمل ، علم ، محبت، بغض ،حصول ، ترک ، کلام، خاموشی،فعل اور قول کو خدا کے لیے خالص کر دیا ہے ۔
عمل میں اخلاص کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ قلیل عمل بھی اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور کثیر شمار ہوتا ہےجیسا کہ روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وحی کرکے فرمایا:
مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهِي فَكَثِيرٌ قَلِيلُهُ‏ وَ مَا أُرِيدَ بِهِ غَيْرِي فَقَلِيلٌ كَثِيرُه
(الكافي ج‏8، ص: 46)
جس عمل کے ساتھ میری ذات کا قصد کیا جاتا ہے وہ قلیل بھی کثیر ہوتا ہے اور جس عمل سے میرے غیر کا قصد کیا جاتا ہے وہ کثیر بھی قلیل ہوتاہے۔
اخلاص بہت قمیتی چیز ہے اور اسے دو چیزوں سے خطرہ ہے جو انسان کے خلوص نیت کو خراب کر سکتی ہیں اور وہ ہیں: ایک عُجْب(عین پر پیش کے ساتھ) اور دوسری ریاکاری۔
عُجب یعنی خودپسندی، گھمنڈ، خود کو بہتر سمجھنا اور خود کو غلطی سے پاک سمجھنا۔ اخلاص بعض اوقات، عُجب اور خودپسندی سے آلودہ ہوجاتا ہے، کیونکہ عُجب، عبادت کے بالکل منافی اور متضاد ہے، اس لیے کہ عبادت خضوع اور انکساری کے لئے ہے تا کہ انسان اپنے تکبر کو توڑ کر اللہ کو معبود سمجھ لے اور اپنے آپ کو ذات ذوالجلال کے سامنے کچھ نہ سمجھے، لیکن عُجب یعنی اپنے آپ کو بڑا دیکھنا اور لائق اور پرہیزگار سمجھنا، جبکہ یہ بات عبادت کے مفہوم اور مقصد کے منافی ہے۔
عُجب، انسان کے اخلاص پر اس طرح پردہ ڈال دیتا ہے کہ آدمی دیکھ نہیں سکتا اور اس کا نتیجہ ہلاکت اور تباہی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "لَو لا تُذنِبُوا لَخَشِيتُ عَلَيكُم ماهُوَ اَکْبَرُ مِن ذلِكَ العَجَب”،”اگر تم گناہ نہ بھی کرتے تو میں تمہارے بارے میں اس سے بڑی (چیز) عُجب سے ڈرتا”۔ (بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۲۹)
اسی طرح ریارکاری میں انسان کا عمل لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے جس سے عمل میں خلوص ختم اور اس کا ثواب ضائع ہوجاتاہے بلکہ الٹا گناہ ہوتا ہے۔
واقعہ
حضرت موسی ٰ علیہ السلام نے جب حضرت شعیب کی بیٹیوں کے ریوڑ کو پانی پلا کے دیا تو اس دن وہ جلدی گھر پہنچ گئیں۔حضرت شیعبؑ نے سبب پوچھا تو انہوں نے حضرت موسی ؑ کے بارے بتایا۔ حضرت شعیب ؑ نے حضرت موسی ؑ کو اگلے دن گھر بلایا۔جب وہ ان کے گھر پہنچے تو شام کا کھانا تیار تھا۔حضرت شعیب ؑ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا:
اے جوان! بیٹھو اور کھانا کھاؤ۔حضرت موسی ؑ نے فرمایا: خدا کی پناہ!
حضرت شعیب ؑ نے کہا: کیوں کیا ہوا؟ کیا تم بھوکے نہیں ہو؟
حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا: بھوکا تو ہوں لیکن ڈر ہے کہ یہ کھانا میرے ریوڑ کو پانی پلا دینے کے بدلے میں نہ آ جائے جبکہ ہم آخرت کے عمل کو بیچتے نہیں خواہ اس کے بدلے میں ہمیں پوری زمین کے برابر سونا ہی کیوں نہ مل جائے۔
حضرت شعیبؑ نے فرمایا: اے جوان! بخدا ایسی کوئی بات نہیں بلکہ یہ میری اور میرے آباؤ اجداد کی عادت چلی آرہی ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں۔تب حضرت موسیؑ علیہ السلام کو جب یقین ہوگیا کہ یہ کھانا ان کے اس ریوڑ کو پانی پلادینے والے عمل کا بدلہ نہیں ہے تو وہ کھانا کھانے لگے۔پس ایک نبی خدا اپنے عمل کو اس قدر اللہ کے لیے خالص رکھتے ہیں کہ اس کے بدلے میں دنیا کی کوئی بھی چیز قبول نہیں کرتے۔(بحار الأنوار ج‏13، ص: 21)

رسالۃ الحقوق
امام زین العابدین ؑ کے بیان کردہ رسالۃ الحقوق سے آ ج ہم تیسرا حق بیان کریں گے او ر وہ ہے زبان کا حق۔ امام فرماتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ اللِّسَانِ فَإِكْرَامُہُ عَنِ الْخَنَى وَ تَعْوِيدُہُ الْخَيْرَ
زبان کا حق یہ ہے کہ اسے گالی گلوچ سے محفوظ رکھو اور اسے نیک و شائستہ بات کہنے کا عادی بناؤ
وَ حَمْلُہُ عَلَى الْأَدَبِ وَ إِجْمَامُہُ إِلَّا لِمَوْضِعِ الْحَاجَةِ وَ الْمَنْفَعَةِ لِلدِّينِ وَ الدُّنْيَا
اسے با ادب بناؤ اسے ضرور اور دین و دنیا کے فائدے کے علاوہ بندہی رکھو
وَ إِعْفَاؤُہُ عَنِ الْفُضُولِ الشَّنِعَةِ الْقَلِيلَةِ الْفَائِدَةِ الَّتِي لَا يُؤْمَنُ ضَرَرُہَا مَعَ قِلَّةِ عَائِدَتِہَا
اور زیادہ چلنے، بے فائدہ بولنے سے روکو کہ تم اس کے نقصان سے محفوظ نہیں ہو اور اس کا فائدہ کم ہے،
وَ يُعَدُّ شَاہِدُ الْعَقْلِ وَ الدَّلِيلُ عَلَيْہِ وَ تَزَيُّنُ الْعَاقِلِ بِعَقْلِہِ [وَ] حُسْنُ سِيرَتِہِ فِي لِسَانِہِ
زبان عقل کا گواہ اور اس کی دلیل سمجھی جاتی ہے اور عقلمند کا عقل کے زیر سے آراستہ ہونا اس کی خوش بیانی ہے
وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ
مدد تو بس خدائے بزرگ و برتر ہی کی طرف سے ہے۔

عربی متن
• وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ﴿البینۃ آیۃ:۵﴾
• : "فَأَمَّا حَقُّ اللَّهِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً "،
• فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَا
• الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا وَہُوَالۡعَزِیۡزُالۡغَفُوۡرُ ۙ﴿الملک آیۃ:۲﴾
• اس آیت کے پیش نظر علماء محققین نے اعمالِ صالحہ کی قبولیت کے لیے دو شرطیں ذکر کی ہیں:
1-اخلاص یعنی وہ فقط اور فقط اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیےانجام دیا جائے۔
2-اتباعِ سنت یعنی وہ عمل قرآن وسنت کی تعلیمات کے موافق ہو۔ بدعت یاشریعت کے خلاف نہ ہو۔
• رسول اللہ ﷺ:الْإِخْلَاصُ‏ مِلَاكُ‏ كُلِّ طَاعَةٍ
• حضرت امام علی علیہ السلام:الْإِخْلَاصُ‏ غَايَةُ الدِّين
• ایک اور مقام پہ فرمایا:الْإِخْلَاصُ‏ مِلَاكُ‏ الْعِبَادَةِ
• امام علی علیہ السلام سے روایت ہے:كُلَّمَا أَخْلَصْتَ‏ عَمَلًا بَلَغْتَ مِنَ الْآخِرَةِ أَمَلًا
امام علی علیہ السلام:
• طُوبَى لِمَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ عَمَلَهُ وَ عِلْمَهُ وَ حُبَّهُ وَ بُغْضَهُ وَ أَخْذَهُ وَ تَرْكَهُ وَ كَلَامَهُ وَ صَمْتَهُ‏ وَ فِعْلَهُ وَ قَوْلَه
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وحی کرکے فرمایا:
• مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهِي فَكَثِيرٌ قَلِيلُهُ‏ وَ مَا أُرِيدَ بِهِ غَيْرِي فَقَلِيلٌ كَثِيرُه
• اخلاص بہت قیمتی چیز ہے اور اسے دو چیزوں سے خطرہ ہے جو انسان کے خلوص نیت کو خراب کر سکتی ہیں اور وہ ہیں: ایک عُجْب(عین پر پیش کے ساتھ) اور دوسری ریاکاری۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں:
• .”لَو لا تُذنِبُوا لَخَشِيتُ عَلَيكُم ماهُوَ اَکْبَرُ مِن ذلِكَ العَجَب”،
رسالۃ الحقوق، زبان کا حق:
• وَ أَمَّا حَقُّ اللِّسَانِ فَإِكْرَامُہُ عَنِ الْخَنَى وَ تَعْوِيدُہُ الْخَيْرَ
وَ حَمْلُہُ عَلَى الْأَدَبِ وَ إِجْمَامُہُ إِلَّا لِمَوْضِعِ الْحَاجَةِ وَ الْمَنْفَعَةِ لِلدِّينِ وَ الدُّنْيَا
وَ إِعْفَاؤُہُ عَنِ الْفُضُولِ الشَّنِعَةِ الْقَلِيلَةِ الْفَائِدَةِ الَّتِي لَا يُؤْمَنُ ضَرَرُہَا مَعَ قِلَّةِ عَائِدَتِہَا
وَ يُعَدُّ شَاہِدُ الْعَقْلِ وَ الدَّلِيلُ عَلَيْہِ وَ تَزَيُّنُ الْعَاقِلِ بِعَقْلِہِ [وَ] حُسْنُ سِيرَتِہِ فِي لِسَانِہِ
وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button