مکتوب مجالس

مجلس بعنوان: حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا محور و مرکز عصمت و طہارت

انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهکم تطهیرا
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کے لئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی۔ اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود حیات طیبہ میں عقل کو حیران کر دینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر ہوئیںیہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی ہیں۔
شداد بن عبد اللہ ابی عمار نے واثلہ بن الاسقع سے روایت کی کہ میں حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور حضرت علی علیہ السلام کے متعلق پوچھا ، آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں ہیں تشریف لے گئے ہیں ۔ حتی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی اور حسنین علیہم السلام کے ہمراہ تشریف لائے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین علیہما السلام کو اپنے مبارک ہاتھوں پر لیا ہوا تھا ، جب تشریف لائے تو حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اپنےزانوو ں پر بٹھایا ، پھر ان پانچ ذوات مقدسہ نے ایک چادر اوڑھی پھر اس آیت کریمہ :
انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا
کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا ۔اللهم هولاء اهل بیتی ، اے خدا یہی میرے اہل بیت ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل ج٤ ص ١٠٧ و ١٣٥ کتاب فضائل ، فضائل امیر علیہ السلام ، تاریخ ابن عساکر ج ١٣ ص ٧٦)
اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انداز سے اس لئے بٹھایا تاکہ دیکھنے والوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی پنجتن پاک ہیں ۔
عبد اللہ الجیار بن عباس شبامی نے عمار دہنی سے ، اس نے عمرة بنت افعی سے اس نے ام سلمہ سے روایت کی ہے ۔ کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی اور گھر میں سات ہستیاں موجود تھیں ، جبرئیل ، میکائیل ، اور پنجتن پاک ، اور میں گھر کے دروازے پر کھڑی تھی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا ، کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں ، تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاانتِ علی الخیرتو بھلائی پر ہے ، تو پیغمبر کی ازواج مطہرات میں شامل ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تو اہل بیت میں شامل ہے۔
(شواہد التنزیل الحسکانی ج٢ ٨١ ط ١ ۔ اس آیت کی تفسیر میں متعدد اسانید کے ساتھ)
گویا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ زبانی اور عملی طور پر لوگوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی ذوات مقدسہ ہیں ۔ اور ام سلمہ والی روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج اس مقدس عنوان میں داخل نہیں ہیں ۔
حقیقت کو قبول کرنے کے لئے اس کے بعد کیا عذر باقی ہے ، ہاں مگر دشمنی اور عناد کا کوئی علاج نہیں ۔
آیت کے نزول کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حقیقت کو لوگوں کے اذھان میں مزید پختہ کرنے کے لئے حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کے دروازے پر یشریف لاتے اور بلند آواز سے پڑھتے :
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہاهل البیت انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطهرکم تطهیرا
اور یہ عمل چھ سات یا نو مہینے ہر روز پانچ مرتبہ انجام دیتے اور یہ عمل ہر روز کا وطیرہ تھا اس کی تفصیل اور تصدیق کے لئے طبری ، ابن کثیر اور سیوطی کی تفاسیر کو ملاحظہ کیا جائے ۔
(مسند ابی داؤد ج٨ ص ٢٧٤ ، اسد الغابہ ج٥ ص ٥٢١ و طبقات ابن سعد ج٧ ص ٢٠٦ والبدایۃ والنہایہ ابن کثیر ج٨ ص ٢٠٥ والمنتخب طریحی ص ١٨٦)
ابن حجر کہتا ہے اکثر مفسرین قائل ہیں کہ یہ آیت حضرت علی، فاطمہ ، اور حسنین علیھما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(صواعق محرقہ ، ١٤٣)
ابوبرزہ راوی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سترہ ماہ تک نماز پڑھتا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر دروازہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جا کر السلام علیکم فرماتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے۔
( مجمع الزوائد باب فضل اہل البیت )
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی عصمت کی گواہی قرآنی آیات اور احادیث میں واضح الفاظ میں موجود ہے اور علماء نے اس موضوع پہ بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں لبنان سے تعلق رکھنے والے معروف شیعہ عالم دین مرحوم آیت اللہ سید عبد الحسین شرف الدین موسوی العاملی کہتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ میرا حصہ ہے۔ اور یہ حدیث حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے معصوم ہونے پہ التزامی طور پر دلالت کرتی ہے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اور یہ عصمت ان کے ہر حصے کے لیے ثابت ہے۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی عصمت کی بلندی کا ادراک کسی بھی عام آدمی کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے اور ان کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے۔ یہ حدیث حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی عصمت کی بلندی کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واضح الفاظ میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا جس کسی پر بھی غضبناک ہوں گی اس پر اللہ بھی غضبناک ہو گا اور جس سے بھی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا راضی اور خوش ہوں گی اللہ بھی اس پر راضی ہو گا۔ اب اس سے بڑھ کر کسی کی عصمت کی کیا دلیل ہو سکتی ہے۔
قرآن مجید میں آیت تطہیر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی عصمت کی واضح دلیل کے طور پر موجود ہے کیونکہ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی سلام اللہ علیہ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، حضرت حسن سلام اللہ علیہ اور حضرت حسین سلام اللہ علیہ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان پانچوں مقدس ہستیوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
حداد حضرمی نے القول الفصل میں کہا ہے آیت تطہیر اور حدیث کساء مشہور اور متواتر احادیث میں سے ہے بزرگ حفاظِ حدیث میں سے سترہ نے اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے اور اس حدیث کے سلسلہ سند میں موجود افراد کی تعداد ۵۰ تک جا پہنچتی ہے۔
یہ تمام روایات جناب سیدہ فاطمہ علیھا السلام کے صدیقہ ہونے کی گواہی دیتی ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَبُّوَيْهِ الرَّئِيسُ الْفَقِيهُ بِمَرْوَ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَارِثِ النَّيْسَابُورِيُّ بِمَرْوَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، ثنا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ الْأَبْرَشُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا ذُكِرَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَصْدَقَ لَهْجَةً مِنْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الَّذِي وَلَدَهَا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
(المستدرك على الصحيحين للحاكم – ذكر مناقب فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ص175،كتاب سير أعلام النبلاء لشمس الدین الذھبی ( ط الرسالة) – فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ص131)
جب حضرت عائشہ کے پاس حضرت فاطمہ ع بنت نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا: میں نے کائنات میں فاطمہ ع سے بڑھ کر سوائے انکے باباصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی کو سچا نہیں پایا۔
امام حاکم کہتے ہیںیہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔
عن عائشة قالت :‏ ما رأيت أفضل من فاطمة غير أبيها‏ ، قالت :‏ وكان بينهما شيء‏؟‏ ، فقالت : يا رسول الله سلها فإنها لا تكذب ‏، رواه الطبراني في الأوسط وأبو يعلى إلاّّ أنها قالت :‏ ما رأيت أحداً قط أصدق من فاطمة ‏،‏ ورجالهما رجال الصحيح‏
حضرت عائشہ سے روایت ہے فرمایا میں نے فاطمہؑ سے افضل کسی کو نہ پایا سوائے اسکے بابا رسول اللہ سوائے انکے بابا کے۔
اور فرمایا رسول اللہ سوائے انکے باباصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاور جناب فاطمہ علیھا السلام کے درمیان کوئی بات ہوئی تو حضرت عائشہ نے فرمایایا رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ سلام اللہ علیھاسے پوچھئے پس بیشک وہ جھوٹ نہیں بولتی۔
طبرانی نے اوسط میں اور ابو یعلی نے روایت کیا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے فاطمہؑ سے زیادہ کسی کو سچا نہ پایا (ان دونوں کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں )۔
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ كَانَ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا وَلَا حَدِيثًا وَلَا جِلْسَةً مِنْ فَاطِمَةَ
حضرت عائشہ ام المؤمنین نے فرمایا میں نے تمام لوگوں میں گفتگو، اور بیٹھنے میں فاطمہ ع سے زیادہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ نہیں پایا۔
(كتاب صحيح الأدب المفردباب قيام الرجل لأخيه ، ص355،الجامع الصحيح للسنن والمسانيد تقبيل الأولاد عند السلام ص334)
اب ہم ان مقدمات کی روشنی میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کو نقل کرتے ہیں اور پھر یہ بیان کرینگے کہ یہ حدیث کیسے ہمارے دعوی کی دلیل بن سکتی ہے ۔
تحشر ا بنتی فاطمة و علیها حلة الکرامة قد عجنت بماء العیوان ، فینظر الیها الخلائق فیتعجبون منها ، ثم تکسی ایضا من حلل الجنة الف حلة ، مکتوب علی کل حلة بخط اخضر ، ادخلو ا بنت محمد الجنة علی احسن الصورة و احسن الکرامة ، و احسن فنظر
(تاریخ دمشق ابن عسا کر ج١٢ ص ٨٦)
میری بیٹی فاطمہ قیامت کے دن با وقار لباس میں ملبوس وارد محشر ہونگی ، ایسا لباس جو آب حیات سے بنا ہوا ہو گا ۔ تمام لوگ اس منظر کو دیکھ کر تعجب میں پڑ جائینگے ، پھر حضرت زہرا ءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہزاروں بہشتی حلوں سے مزین کیا جائے گا ، ہر حلہ پر سبز رنگ سے یہ عبارت مرقوم ہوگی اے محمد بن عربی کی دختر نیک اختر ، بہترین صورت ، باوقار انداز اور خوش نما منظر کے ساتھ بہشت میں داخل ہو جائیں ۔
اور قیامت جیسے برحق دن ممکن نہیں کہ خدا کی عدالت کے نظام میں ذرا برابر تبدیلی واقع ہو ، اور انسان کو جو صورت عطا ہو گی وہ اس کے دنیاوی اعمال کا نتیجہ ہو گی ۔ پس اس شخص کو انتہائی خوبصورت ، کامل ترین ، اور مثالی صورتسے نوازا جائے گا ، جو پاکیزہ ، کامل ، اور مثالی سیرت اور نیک کردار کا مالک ( اس دنیا میں )رہا ہو ۔
پس اگر انسان عملی اعتبار سے سب سے بہتر اخلاق سے آراستہ افراد میں سب سے بر تر اور عملی میدان میں سب سے بڑھ کر نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اسے قیامت کے دن سب سے بہترین صورت میں لایا جائے ۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت زہرا ءسلام اللہ علیھا کے بارے میں یہ فرمانا کہ
فاطمة بضعة منی
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔
و فاطمة روحی التی بین جنبی
فاطمہ میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان میری روح ہے۔
(بحار الانوار ج٢٧ ص ٦٣ کتاب الامامۃ ٢٨ ، ٣٨)
حضرت زہرا ءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت ہمارے ناقص اذہان میں سما ہی نہیں سکتی ۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ اس حیرت انگیز تشبیہ جو حضرت زہرا ءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پائی جاتی تھی ، کی طرف متوجہ ہوئیں تو بے ساختہ کہہ دیا ، میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، جو سیرت ، صورت ، گفتارر ،کردار میں حضرت زہراء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ رسول پاک سے مشابہ ہو۔
(بخاری ج٥ ص ٢٦ ج٧ ص ٤٧ و مسلم ج٧ ص ١٤١ و مسند احمد ج٤ ص ٣٢٣ ، ٣٢٨ ، ٣٣٢)
اور جب حضرت عائشہ کو اندازہ ہوا کہ حضرت زہراء علیھا السلام کی رسول پاکصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک کیا قدر و منزلت ہے تو روایت کی کہ جب حضرت زہراء علیھا السلام تشریف لاتیں ، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے ،بیبی حضرت زہراء علیھا السلام کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے ۔اور اپنی مسند پر بٹھاتے۔
(سنن الترمذی ج٥ ص ٧٠٠ والمستدرک ج٣ ص ١٦٠)
جب اکثر اوقات حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے حق میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی وطیرہ تھا تو یہ احترام اس شخصیت کے لئے سزاوار ہے جو ایک لحظہ بھی حق سے جدا نہ ہو ، اور یہ رتبہ عصمت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی عزت وعظمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بیسیوں مقام پر پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا تعارف کرایا اور لوگوں میں آپ کی عظمت کو اجاگر کیا کبھی اصحاب کے مجمع میں تو کبھی گھر میں غرض ہر موقع پر آپ کے مقام و مرتبے کو بیان فرمایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملائکہ بھی آپ کا خاص احترام فرماتے ہے حتی کہ روایات میں ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ کا سر مبارک جناب سیدہ کی گود میں تھا اور حضرت عزرائیل علیہ السلام نے باہر کھڑے ہو کر اجازت لی۔ اسی طرح مختلف مقامات پر ملائکہ نے بھی آپ کی قدر و منزلت کا لحاظ کیا جس کے نمونے تاریخ نے اپنے محفوظ کر لیے ہم ذیل میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی عصمت و طہارت پر ملائکہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند ارشادات اور نموذج پیش کرتے ہیں۔
حضرت زہراء علیہا السلام کی عصمت پر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فاطمہ علیہا السلام کو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ علیہا السلام کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا اس کا دشمن، میرا اور خدا کا دشمن ہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا:
فاطمہ علیہا السلام میرا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے اور خدا کو ناراض کیا۔
خلاصہ کچھ احادیث میں جو اہل سنت کی معتبر کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ خدا کی خوشی اور ناراضگی کا معیار فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں دسیوں احادیث میں یہی مفہوم اور معنی موجود ہے
وہ احادیث جو حضرت زہراء علیہا السلام کے معصومہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہ کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہو تو کیسے پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ علیہا السلام کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی( کا معیار) قرار دیا جا سکتا ہے؟
ابن ابی الحدید اس اعتراف کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:
قوله عليه السلام: فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز و جل يدل على عصمتها، لانها، لوكانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال
(كشف ‏الغمه ج 2 ص 89)
فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: جس نے اسے (فاطمہ علیہا السلام ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی، یہ فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلیل ہے، کیوں کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ علیہا السلام کا دکھ ہر حال میں پیغمبراسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کا دکھ حساب نہ ہوتا۔
بس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرامین فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر واضح دلیل ہیں جسے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوربھی مانتے ہیں مسلمان شعراء بھی کلام خدا اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نظم میں لے آئے ہیں:
وان مريم احصنت فرجها جاءت بعيسى كبدر الدجى
فقد احصنت فاطم بعدها و جاءت بسبطى نبى الهدىٰ
(شرح نہج ‏البلاغہ، ج 16، ص 273)
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کو لے آئی جو سورج کی طرح چمکتا اور منور رہے۔ اور حضرت زہراءعلیہا السلام نے بھی عصمت اور پاکی کے ساتھ زندگی کی اور دو انوار کو جو نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں نبی کے حوالہ کیا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلامسے پوچھا گیا کہ فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا؟
حضرت نے فاطمہ علیہا السلام کی عصمت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
غسلها اميرالمؤمنين لانها كانت صديقة، و لم يكن ليغسلها الا صديق
(بحارالانوار، ج 43، ص 50)
حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کو غسل دیا، کیونکہ فاطمہ علیہا السلام معصوم تھی اور معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ جیسے ہی سائل نے تعجب کیا تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نے غسل نہیں دیا ہے۔ ہم آخر میں احادیث اہل بیت، آیہ تطہیر، امیر المؤمنین علیہ السلام کی دلائل اور اہل سنت کے بزرگ دانشمندوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام دوسرے تمام معصومین کی طرح معصوم تھی۔ اور وہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور ائمہ سے افضل ہیں۔
فاطمہ زہراءعلیہا السلام کی عصمت پر ملائکہ کی گواہی
بہت ساری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جبرئیل امین اور دوسرے تمام فرشتے حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام پر نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ اور اس گفتگو کے درمیان میں اس خاتون عصمت کے فضائل اور مناقب میں کچھ ایسے مطالب کہتے تھے جس سے ان کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف دو مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا :
قال رسول‏ اللَّه صلى اللَّه عليه و آله: ابنتى فاطمه، و انها لسيده نسا العالمين فقيل: يا رسول‏اللَّه! اهى سيده نسا عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمه فهى سيده نسا العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه مريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين
(عوالم، ج 11، ص 99)
میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھےاللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
انما سميت فاطمه محدثه لان الملائكه كانت تهبط من السما فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران فتقول: يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين. فتحدثهم و يحدثونها فقالت ذات ليله: اليست المفضله على نسا العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيده نسا عالمها و ان اللَّه عزوجل جعلك سيده نسا، عالمك و عالمها و سيده نسا الاولين و الاخرين
(بحار، ج 43، ص 78، ح 65)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام کو ’’محدثہ‘‘کہاجاتاہےکیونکہانکےپاسآسمانسےملائکہنازلہوتےتھےاورانسےگفتگوکرتےتھےجسطرححضرتمریمعلیہاالسلامسےگفتگوکرتےتھےاورملائکہ حضرت فاطمہ علیہا السلام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ اے فاطمہ علیہا السلام ! بیشک اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و صاف قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہانوں کی عورتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام بھی ان سے گفتگو کرتی تھی اور ان کی گفتگو سنتی تھی۔ ایک دن حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نے ملائکہ سے کہا: کیا مریم بنت عمران علیہا السلام تمام جہاں کی عورتوں سے افضل نہیں ہے؟
ملائکہ نے جواب دیا: حضرت مریم اعلیہا السلام اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھی، لیکن آپ اول و آخر تمام عورتوں کی سردار ہیں یہاں تک کہ خود حضرت مریم علیہا السلام کے زمانے کی عورتوں کی بھی سردار ہیں۔
ان احادیث کو بطور نمونہ منتخب کیا گیا ہے جن میں فاطمہ زہراء علیہا السلام کو جہاں عالَم کی تمام عورتوں کی سردار، خداوند عالَم کی منتخب اور ملائکہ و جبرئیل امین کی ہمنشین و ہم صحبت ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی احادیث کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ عصمت زہراء علیہا السلام کے بارے میں تردید کرے؟

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button