مکتوب مجالس

مجلس بعنوان ” امامت و ولایت اہل بیت علیھم السلام”

الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایۃ علی ابن ابی طالب و لآئمۃ المعصومین صلوات اللہ علیھم اجمعین
قرآن اور امامت
عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید ،دوسری تمام چیزوں کے مانند امامت کے مسئلہ میں بھی ہمارے لئے بہترین راہنما ہے۔قرآن مجید نے مسئلہ امامت پر مختلف جہات سے بحث کی ہے۔
۱۔قرآن مجید”امامت“کو خدا کی جانب سے جانتا ہے:
جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں حضرت ابراھیم علیہ السلام بت شکن کی داستانوں میں پڑھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراھیمعلیہ السلام کو نبوت اور رسالت پر فائز ہو نے اور مختلف امتحانات میں کامیاب ہو نے کے بعد امامت کے عہدہ پر قرار دیا ہے۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴ میں ارشاد فر مایا ہے:
وإذابتلیٰ إبرا ھیم ربّہ بکلمٰتٍ فاٴتمّھنّ قال إنی جاعلک للنّاس إما ماً
”اور اس وقت کو یاد کروجب خدانے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام بنارہے ہیں۔“
قرآن مجیدکی مختلف آیات اور تاریخی قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام با بل کے بت پرستوں سے مبارزہ کر نے،شام کی طرف ہجرت کر نے اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے بیٹے اسماعیلعلیہ السلام کو قربان گاہ میں لے جانے کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہو ئے ہیں۔
جب نبوت و رسالت کا عہدہ خدا کی طرف سے معیّن ہو ناضروری ہے تو مخلوق کی ہمہ جہت امامت و رہبری کا مرتبہ بطریق اولیٰ خدا کی طرف سے معیّن ہو نا ضروری ہے ،کیونکہ امامت کا مرتبہ رہبری کے تکامل کی معراج ہے ۔اس لئے یہ کوئی ایسی معمولی چیز نہیں ہے جسے لوگ انتخاب کریں ۔
پھر قرآن مجید خود مذکورہ آیت میں فر ماتا ہے:
<إنی جاعلک للنّاس اماماً>
”میں تم کو امام و پیشوا قرار دینے والا ہوں۔“
اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۷۳ میں بھی بعض با عظمت انبیاء جیسے: حضرت ابراھیمعلیہ السلام ،حضرت لوطعلیہ السلام ،حضرت اسحاقعلیہ السلام اور حضرت یعقوبعلیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے:
<وجعلنا ھم اٴئمة یھدون باٴمرنا>
”اورہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے
اس قسم کی تعبیریں قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں بھی ملتی ہیں ،جن سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ الہٰی منصب خداوند متعال کے توسط سے ہی معیّن ہو نا چاہئے ۔
اس کے علاوہ ہم حضرت ابراھیم علیہ السلام کی امامت سے متعلق مذکورہ آیت کے آخری حصہ میں پڑھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرزندوں اور آنے والی نسل کے لئے اس منصب کی درخواست کی تو اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا :
<لا ینال عھدی الظالمین>
”میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا “
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی دعا قبول ہوئی ،لیکن آپ کےفر زندوں میں سے جو ظلم کے مرتکب ہو نے والے ہیں وہ ہر گز اس مرتبہ پر فائز نہیں ہو ں گے۔
قابل ذکر بات ہے کہ لغوی اور قرآن مجید کی منطق کے اعتبار سے ”ظالم“ کے وسیع معنیٰ ہیں اور اس میں تمام گناہ من جملہ ان کے آشکار و مخفی شرک اور اپنے اوپر اور دوسروں پر ہر قسم کا ظلم شامل ہے ۔چونکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اس امر سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے، کیونکہ صرف خدا ہی لوگوں کی نیتوں اور باطن سے آگاہ ہے ،اس لئے واضح ہو تا ہے کہ اس مرتبہ و منصب کا تعیّن صرف خدا وند متعال کے ہاتھ میں ہے ۔
۲۔آیہ تبلیغ
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ میں یوں ارشاد ہوا ہے:
(یٰاٴ یّھا الرّسول بلّغ ماانزل إلیک من ربّک وإن لم تفعل فما بلّغت رسا لتہ واللّٰہ یعصمک من الناس إن اللّٰہ لا یھدی القوم الکٰفرین)”اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پرور دگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکہے گا کہ اللہ کا فروں کی ہدایت نہیں کر تا ہے۔“
اس آیہ شریفہ کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر ایک سنگین ماٴ مو ریت ڈالی گئی ہے اور اس سلسلہ میں ہر طرف کچھ خاص قسم کی پریشانیاں پھیلی تھیں ،یہ ایسا پیغام تھا کہ ممکن تھا لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی،اس لئے آیہ شریفہ تاکید کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر عمل کر نے کا حکم دیتی ہے اور ممکنہ خطرات اور پر یشانیوں کے مقابلہ میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خاطر خواہ اطمینان دلاتی ہے۔
یقینا یہ اہم مسئلہ توحید، شرک یا یہودو منا فقین جیسے دشمنوں سے جہاد کر نے سے مربوط نہیں تھا،کیونکہ اس زمانہ(سورہ مائدہ نازل ہو نے )تک یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو چکا تھا۔
اسلام کے دوسرے احکام پہنچانے کے سلسلہ میں بھی اس قسم کی پریشانی اور اہمیت نہیں تھی ،کیو نکہ مذکورہ آیت کے مطابق بظاہر یہ حکم رسالت کے ہم وزن اور ہم پلہ تھا کہ اگر یہ حکم نہ پہنچا یا جاتا تو رسالت کا حق ادا نہیں ہو تا ۔کیا یہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟خاص کر جب کہ یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے اور یہ خلافت کے مسئلہ کے ساتھ تناسب بھی رکھتا ہے ،جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ونبوت کی بقا کا وسیلہ ہے۔
اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد ،من جملہ زید بن ارقم ،ابو سعید خدری ،ابن عباس،جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو ہریرہ ،حذیفہ اور ابن مسعود سے اس سلسلہ میں کثیر تعداد میں روایتیں نقل ہو ئی ہیں اور ان میں سے بعض روایتیں گیارہ واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور اہل سنت علماء،مفسرین ،محدثین اور مورخین نے بھی انھین نقل کرتے ہو ئے واضح کیا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علیعلیہ السلام اور غدیر کے واقعہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے۔
(مزید تفصلاات کے لئے کتاب ”احقاق الحق“،”الغدیر“،”المراجعات“ اور ”دلائل الصدق“کا مطالعہ کریں)
ان شاء اللہ ہم ”غدیر“کی داستان کو ”روایات وسنت “کے عنوا ن سے آئندہ بحث میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن یہاں پر ہم اسی یاد دہانی پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ اپنی زندگی کے آخری حج سے لوٹتے وقت حضرت علیعلیہ السلام کو با ضابطہ طور پر اپنا جا نشین معیّن کریں اور تمام مسلمانوں کو ان کا تعارف کرائیں۔
۳۔آیہ اولی الامر
سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوا ہے:
<یٰاٴیّھاالّذین اٰمنوا اطیعوااللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔۔۔>
”ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرواور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں۔۔۔“
یہاں پر اولوالامر کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ہمراہ بیان ہوئی ہے۔
کیا”اولوالامر“سے مراد ہر زمان و مکان کے حکام اور فرمانروا ہیں؟ مثلاًکیا ہمارے زمانے میں ہر ملک کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے حکام اور فر مانرواؤں کی اطاعت کریں؟(جیسا کہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے بیان کیا ہے)
یہ بات عقل ومنطق کی کسی کسوٹی پر ہر گز نہیں اترتی ہے،کیونکہ اکثرحکمراںمختلف زمانوں اور عصروں میں منحرف،گناہ کار ،دوسرے ملکوں کے ایجنٹ اور ظالم ہو ئے ہیں۔کیا اس سے مراد یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی پیروی و اطاعت کی جانی چاہئے جن کا حکم اسلامی احکام کے خلاف نہ ہو؟یہ بھی آیت کے مطلق ہو نے کے خلاف ہے۔
کیا اس سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے مخصوص اصحاب ہیں؟یہ احتمال بھی اس آیت کے وسیع مفہوم (جو ہردور اور زمانے کے لئے ہے)کے خلاف ہے۔
اس لئے ہمارے لئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد معصوم پیشوا ہے جو ہر دور اور زمانے میں موجود ہو تا ہے اور اس کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر واجب ہو تی ہے اور اس کا حکم، خدا ورورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہو تا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلامی منابع وماٴخذ میں موجود متعدد احادیث میں ”اولو الامر“کی حضرت علیعلیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہ السلام سے کی گئی تطبیق بھی اس حقیقت کی گواہ ہے۔
(مزید تفصلاگت کے لئے تفسری نمونہ ج۳:ص۴۳۵کا مطالعہ کریں)
۴۔آیہ ولایت
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد ہوا ہے:
<إنما ولیکم اللّٰہ ورسولہ والّذین آمنواالّذین یقیمون الصّلوٰة ویؤتون الزکوٰة وھم راکعون>
”ایمان والو بس تمھاراولی اللہ ہے اور اس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔“
عربی لغت میں لفظ”إنما“انحصار کے لئے استعمال ہو تا ہے،اس بات کے پیش نظر قرآن مجید نے مسلمانوں کی قیادت اور ولایت وسر پرستی کو صرف تین اشخاص میں منحصر فر مایا ہے :”خدا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰة دیتے ہیں“۔
اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ”ولایت“ سے مراد مسلمانوں کی آپس دوستی نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی عام دوستی کے لئے قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمام مسمان آپس میں دوست اور بھائی بھائی ہیں اگر چہ رکوع کی حالت میں کوئی زکوٰة بھی نہ دے ۔اس لئے یہاں پر ”ولایت“ وہی مادی و معنوی رہبری اور سر پرستی کے معنی میں ہے،بالاخص جب کہ یہ ولایت ،خدا کی ولایت اور پیغمبر کی ولایت کے ساتھ واقع ہو ئی ہے۔
یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ مذکورہ آیت میں ذکر شدہ اوصاف ایک مخصوص شخص سے مر بوط ہیں،جس نے رکوع کی حالت میں زکوٰة دی ہے،ورنہ یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ انسان نماز کے رکوع کی حالت میں زکوٰة ادا کرے ،حقیقت میں یہ ایک نشاندہی ہے نہ توصیف۔
ان تمام قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ حضرت علیعلیہ السلام کی ایک مشہور داستان کی طرف ایک پر معنیٰ اشارہ ہے کہ حضرت علیعلیہ السلام نماز کے رکوع میں تہے ،ایک حاجتمند نے مسجد نبوی میں مدد کی درخواست کی ۔کسی نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حضرت علیعلیہ السلام نے اسی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کی چہوٹی انگلی سے اشارہ کیا ۔حاجتمند نزدیک آگیا۔ حضرت علیعلیہ السلام کے ہاتھ میں موجود گراں قیمت انگوٹھی کو اتار کر لے گیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کا مشاہدہ فر مایا تو نماز کے بعد اپنے سر مبارک کو آسمان کی طرف بلند کر کے یوں دعا کی :پروردگارا!میرے بھائی موسیعلیہ السلام نے تجھ سے درخواست کی کہ ان کی روح کو کشادہ،کام کو آسان اور ان کی زبان کی لکنت کو دور فر مادے اور ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور مدد گار بنادے۔۔۔پرور دگارا! میں محمد ،تیرا منتخب پیغمبر ہوں ،میرے سینہ کو کشادہ اور میرے کام مجھ پر آسان فر ما، میرے خاندان میں سے علیعلیہ السلام کو میرا وزیر قرار دے تاکہ اس کی مدد سے میری کمر قوی اور مضبوط ہو جائے“۔
ابھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ کو لے کر جبرئیل امین نازل ہو ئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل سنّت کے بہت سے عظیم مفسرین ،مورخین اور محدثین نے اس آیہ شریفہ کی شاٴن نزول کو حضرت علیعلیہ السلام کے بارے میں نقل کیا ہے ۔اس کے علاوہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک گروہ نے ،جن کی تعداد س سے زیادہ ہے،اس حدیث کو خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست نقل کیا ہے۔
(مزید توضح کے لئے قیتس کتاب”المراجعات “کا مطالعہ فر مایئے ،جس کا اردو ترجمہ”دین حق“کے نان سے ہو چکا ہے)
ولایت کے موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر ہوئی ہیں ،ہم نے کتاب کے اختصار کے پیش نظر صرف مذکورہ چار آیتوں پر ہی اکتفا کیا۔
آیہ صادقین کی روشنی میں اما مت و ولایت
"یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین”(سورہ توبہ آیت ۱۱۹)
”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“
جس آیہ شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:
"فارجع البصرهل تریٰ من فطورثمّ ارجع البصرکرّتین” (سورہ ملک آیت ۳۔۴)
”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “
خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔
اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔
اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:
۱۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق
۲۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط
۳۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال
۴۔علما ء ومفسرین کے بیانات
۵۔شیعہ،سنی احادیث وروایات
آیت کے بارے مفردات میں بحث
اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔
استعمالا ت لغوی
اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
ابن منظور نے ”لسان العرب“ میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:
الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔
(لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷)
رجل صدق:نقیض رجل سوء ۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔
وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔
ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناه نعم الرجل هو
نیزاسی طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔
رجل صدق اللقاء وصدق النظر، خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان
والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرها، ورمح صدق:مستو،وکذالک سیف صدق
صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔
عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاوصاف المحمودة
بن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔
قال الخلیل:”الصدق:الکامل کلّ شیءٍ”
خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔
۲۔”مفردات قرآنمیں راغب کاکہناہے:
"ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاهراًوباطناًبا لصدق،فیضاف إلیه ذٰلک الفعل الّذی یوصف به نحو قوله “
ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت اضافتدی جاتی ہے۔(مفردات فی القرآن،ص۲۷۷)
استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔
استعمالات قرآنی
قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں:
” وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لهم قدم صدق عندربّهم”(سورہ یونس آیت۲)
اس آیہء شریفہ میں ’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔
"ولقدبوّاٴنا بنی اسرائیل مبوّاٴصدق”(سورہ یونس آیت۹۳)
اس آیہء شریفہ میں ”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔
"وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق "
(سورہ اسراء آیت۸۰)
اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکانداخل اورخارج کرنے کی جگہ ہیں یا مصدرخودکوداخل کرنایاخارج کرناہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔
"فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر” (سورہ قمر آیت۵۰)
اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“جگہ اوربیٹھنےکی صفت ہے۔
"لیس البرّاٴن ُتوَلّوُاوجوهکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰه والیوم الآخروالملائکة والکتاب والنبیّین وآتی المال علی حبّه ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعهدهم إذاعاهدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء وحین الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک هم المتّقون "
(سورہ بقرہ آیت۱۷۷)
اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میں صبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوںصدق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔
لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔
اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط
اس آیت سے پہلی والی آیتجیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔
انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔
بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہےاہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔
اس آیہ شریفہزیر بحث آیتمیں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟
اس آیت کا ائمہ معصومین علیہ السلام کی امامت سے ربط
ابتدائی نظر میںجیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ایسالگتاہے کہ جملہ کونوامع الصادقین سے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔
قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ( کونوامع الصادقین) کا وقوع”اتقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔
مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میں صادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میں واجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔
چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔
علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق
اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
علامہ بہبہانی کا قول:
پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے میں آیہشریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین هم اٴهل بیت النبیّی المطهّرون“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة”
(نمایة المرام ،ص۲۴۸)
اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمه فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعدم إرادة مطلق الصادقین منهکمادلّت علیه الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّه لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منه المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامللکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّه یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقینفالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبةمخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینةومن المعلوم اٴنّ هذه المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بها اٴن یتبعهم سائر المؤمنین جمیعاً،وهذاالمرتبة الکاملة التی تکون بهذه المثا بة لیست إلاّ العصمة والطهارة التی لم یتطرّق معها کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طهّره اللّٰه تعالی واٴذهب عنه الرجس!وهم اٴهل بیت النبیّی بنصّایة التطهیرواتّفاق جمیع المسلمین
فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیهم الکذب و لو جهلاً اٴو سهواً و هو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطهّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴهل بیت النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الّذین اٴذهب اللّٰه عنهم الرجس و طهرَّهم تطهیراً، و إلیه یشیر قول مولانا الرضا علیه السلام ”هم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتهم“
) فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع)
و یدلّ علی کونهم اٴئمّة کمانبّه علیه مولانا الرضا علیه السلام فی هذه الروایة اٴمره سبحانه وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرهم بالاٴتّقاء عن محارمه باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون معهم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتهم ،متحرّزین عن مخا لفتهم ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبله تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعه،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامه وعدم مفارقته عنه "(مصباح الہدایہ ص۹۳۔۹۲)
شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیضروایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میں صادقین سے مرادپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔
(دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے)
مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔
آیہء کریمہ میں ”صادقین“سے مرادجیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“سچائیکہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہکریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراسصورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔
یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہاورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرناہے۔
صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔
اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہاگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومینعلیہ السلام کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہعصمت وطہارتپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔
دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ماموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔
اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔
فخررازی کا قول
دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:
”و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّه تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین فهذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة
فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقوله:کونوا مع الصادقین اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولده: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟
سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ هذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان هذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة
سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق هو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنه کما تقو له الشیعة؟
و الجواب عن الاول: اٴنّ قوله:
کونوا مع الصادقین اٴمر بموافقة الصادقین، و نهی عن مفارقتهم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب فدّلت هذه الآیة علی وجود الصادقین و قوله: ” إنّه عدول عن الظاهر من غیر دلیل
قوله: ” هذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجهة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی هذا التکلیف کذلک
الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّها بدلیل صحة الاستثناء الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حمله علی الباقی فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و هو باطل ! اٴو علی الکلّ فهو المطلوبو الرابع: و هو اٴنّ قوله:
” یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰہ”
اٴمر لهم بالتقوی و هذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منه اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونه مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و هم الّذین حکم اللّٰه تعالی بکونهم صادقین فهذ ایدّل علی اٴنّه واجب علی جائز الخطاٴ کونه مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و هذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصوله فی کل الازمان
قوله:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد هو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“
قلنا:نحن نعترف باٴنّه لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم هو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منهم فنقول: هذا الثانی باطل، لاٴنّه تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنه ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من هو ،لاالجاهلباٴنّه من هو فلو کان ماٴموراً بالکون معه کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّه لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم باٴنّا لانعلم هذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قوله: وکونوا مع الصادقین لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن و لمّا بطل هذا بقی اٴنّ المراد منه الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک”
(التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰)
ترجمہ:
”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔
اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو۔
جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہ وکون امع الصادقین یہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔
مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تککے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہےاوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ۔
اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہشریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔
یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:
”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“
فخررازی کے قول کا جواب
فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:
پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔
اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔
دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:
۱۔چودہ معصومینعلیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے
۲۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان جو ایک عام عنوان ہے سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔
۳۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔
۴۔فخررازی کا قول
”یاایهاالذین آمنوا “اور صا دقینکے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔
۵۔صادقین سے مراد مجموعہ امت عام مجموعیہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:
”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“
لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔
امامت آیہ ” علم الکتاب“ کی روشنی میں
” یقول الّذین کفروالست مرسلاً قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب”
)سورہ رعدآیت۴۳)
” اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں تو کہدےجئے کہ ہمارے اور تمامرے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔“
یہ آیہ شریفہ ان آیتوں میں سے ہے جن میں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک بڑی فضیلت بلکہ احتجاجکی روایت کے مطابق سب سے بڑی فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے اس کے معنی میں مزید غور وخوض کیا جائے۔(مصباح الھدایہ،ص ۴۳)
اس آیت میں پہلے کفار کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے دو گواہ ذکر کئے گئے ہیں ایک خدا وند عالم کی ذات اور دوسرے وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
آیت کی دلالت کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بحث کو درج ذیل دو محوروں پر جاری رکھا جا ئے۔
۱۔ خداوندمتعال کی گواہی کس طرح سے ہے؟
۲۔من عندہ علم الکتابسے مراد کون ہے؟
خدا وند عالم کی گواہی:
اس آیہ شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:
۱۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :
” والقران الحکیم انّک لمن المرسلین "
” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“۔(سورہ یاسین آیت۱۔۲)
۲۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔
من عندہ علم الکتاب سے مرادکون ہے؟
دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:
پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:
اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدییےا اے پیغمبر! ہمارےاورتما رے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبرصلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔
یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔
دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔
یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہشریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔
شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔
(معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶)
تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ (جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔
اول یہ کہ : جملہ
” قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب "
میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔
دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہ شریفہ :
"تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب "
میں ”غافرالذّ نب “گناہ کو بخشنے والا اور ”قابل التوب “ توبہ کو قبول کرنے والادوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔
چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔
اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔
لوح محفوظ اور حقائق ہستی
قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“یا ” امام مبین“یا ” لوح محفوظ“کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:
” وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین”
” اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین لوح محفوظ میں نہ ہو”۔
اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟
”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم
ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔
قرآن مجیدمیں فرماتا ہے۔
” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا” ۔(سورہ نمل آیت۴۰)
جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب (لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔
واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔
جب ہمیں آیہ کریمہ لا یمسّه إلا المطهرون سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حا ئق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جوپیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنتکے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجالکے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“میں اور حاکم حسکانی تفسیر شواہد التنزیلمیں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔
بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیںسعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔
اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہعبداللهبن سلام کا بیٹااس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔
۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔
(” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰)
اس کے علاوہ ابن شہر آشوبنے اپنی ”کتاب مناقب “ میں کہا ہے:
” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقرعلیہ السلام سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادقعلیہ السلام سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضاعلیہ السلامسے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفرعلیہ السلام، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:
کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب کے بارے میں کہا ہے کہ:
”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالبعلیہ السلام ہیں۔“
(ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس شہر آشوبکی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے)۔
(مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹)
شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرمایئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافیمیں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انواں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ
"قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب”
میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومینعلیہ السلام کا قصد کیا گیا ہے اور علی علیہ السلام پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔
(اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹)
احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہےعلی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہےآصف برخیا کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:
"عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین – علیه السلام – و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر”
(نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷)
یعنی: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب علیہ السلامتھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھایعنی حضرت علی علیہ السلامامام نے فرمایا:
"جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے”۔
یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔
اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”لایمسه الّا المطهرون “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین کے ذریعہ ثابت ہے۔
(سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴)
اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔
آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:
”لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم “
(فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴)
”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔
(کتاب: امامت اورائمہ معصومن کی عصمت سے اقتباس)
امامت ،سنّت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں
اسلامی احادیث سے مربوط کتابوں ،بالخصوص اہل سنت بھائیوں کی طرف سے تاٴلیف کی گئی کتابوں کا مطالعہ کر نے کے دوران انسا ن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث کی ایک کثیر تعداد سے روبرو ہو تا ہے جو واضح طور پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنی احادیث موجود ہو نے کے باوجود اس مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہ جاتا تو پھر ایک گروہ اہل بیت علیہ السلام کی راہ سے ہٹ کر کو ئی دوسری راہ کیسے اختیار کر لیتاہے؟
یہ احادیث ،جن میں سے بعض کے اسناد سینکڑوں تک ہیں (جیسے حدیث غدیر) اور بعض کے اسناد دسیوں تک اور دسیوں مشہور اسلامی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہیں ،ایسی واضح اور روشن ہیں کہ اگر ہم تمام گفتگوؤں کو نظر انداز کردیں اور کسی کی تقلید کر نا چھوڑ دیں،تو ہ مسئلہ ہمارے لئے ایسا واضح ہو جائے گا کہ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ان احادیث کے مخزن سے ہم یہاں پر چند مشہور احادیث کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر بیشتر اور گہرے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے ہم بعض منابع(کتابوں) کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سی استفادہ کریں۔
۱۔حدیث غدیر
مورخین اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سال حج بجا لائے ۔فریضہ حج کو بجالانے کے بعد جبکہ حجاز کے مختلف علاقوں سے حج کے لئے آئے ہوئے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نئے اور پرانے صحابیوںاور اسلام کے عاشقوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی ۔مکہ سے واپسی پر یہ عظیم اجتماع ،مکہ اور مدینہ کے در میان واقع ”جحفہ“نامی ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ”غدیر خم“کے نام پر ایک خشک اور گرم بیابان میں پہنچ گیا ۔در حقیقت یہ ایک چورا ہا تھا ۔جہاں پر حجاز کے تمام لوگوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔
یہاں پر حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو رکنے کا حکم دیا۔ جو آگے بڑہےتھے انہیں واپس آنے کا حکم دیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا،اس طرح سب ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ہوا انتہائی گرم اور دہوپ نہایت جھلسا دینے والی تھی۔بیابان میں دوردور تک کہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا تھا۔مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ظہر کی نماز پڑھی ۔جب ان سب نے نماز کے بعد اپنے خیموں کی طرف جانا چاہا تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ سب لو گ ٹھہر جائیں اور ایک مفصل و بیشتر وضاحت کے لئے کتاب”المراجعات“،”الغدیر“اور ”نوید امن وامان“کی طرف رجوع کریں۔
خطبہ کے ضمن میں ایک اہم الہٰی پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ہو جائیں ۔
اونٹوں کے پالانوں کا ایک منبر بنایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف لے گئے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حمد وثنائے الہٰی کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
میں خدا کی دعوت کو لبیک کہتے ہوئے جلدی ہی تمھارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو ۔ تم لوگ میرے بارے میں کس طرح کی شہادت دیتے ہو؟
لوگوں نے بلند آواز سے کہا:
” نشہد انک قد بلغت و نصحت و جہدت فجزاک اللّٰہ خیرا“
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ہماری بھلائی کے لئے ہماری نصحیت کی اور ہماری ہدایت میں نہایت کوشش کی،خداوند متعال آپ کو جزائے خیردے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت ، میری رسالت اور قیامت کی حقیقت اور اس دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی شہادت دیتے ہو؟
جواب میں سب نے یک زبان ہوکر کہا: جی ہاں ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوندا! گواہ رہنا۔۔۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوبارہ فرمایا: اے لوگوں ! کیا میری آواز سن رہےہو؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد پورے بیابان میں چاروں طرف خاموشی چھاگئی اور ہوا کی سنسناہٹ کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
پیغمبرا سلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اب بتاؤ کہ ان دو گرانقدر چیزوں کے ساتھ تم لوگ کیسا سلوک کروگے جومیں تمھارے درمیان یادگارکے طور پر چہوڑے جارہاہوں؟
مجمع میں سے کسی نے بلند آورز سے سوال کیا: کون سی دوگرانقدر چیزیں، یا رسول اللہ؟!
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: پہلی چیز ”ثقل اکبر“ یعنی کتاب الہی”قرآن مجید“ہے۔ اس کے دامن کو ہرگز نہ چہوڑنا تا کہ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اور دوسری گرانقدر یادگار چیز میرے اہل بیت ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجہے خبردی ہے کہ یہ دوچیزیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگیں یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے مل جائیں، ان دو نوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہنا، کیونکہ اس صورت مین بھی ہلاک ہوجاؤگے۔
اس دوران اچانک آپعلیہ السلام نے اپنی نظریں ادھر اُدھردوڑائیں، جیسے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوکسی کی تلاؤ تھی۔ جوں ہی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نظرحضرت علی علیہ السلام پر پڑی، آپ جھک گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے رہی تھی۔ سب لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں پہچان لیا۔
اس موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ رفرمایا:
ایّھا الناس ! من اولی النّاس بالمومنین من انفسھم؟
لوگو! لوگوں میں سے کون شخص مومنین پر خود ان سے بھی زیادہ سزاورا ہے؟
سب نے جواب میں کہا: خدا اور س کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہتر جانتاہے۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
” خداوند متعال میرامولا اور رہبر ہے، اور میں مؤمنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کی نسبت خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتاہوں۔“
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“
”جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں، اس اس کے علیعلیہ السلام بھی مولاہیں“
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس جملہ کوتین مرتبہ دہرایا، بعض راویان حدیث کے مطابق اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا، اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا:
”اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ واحب من احبہ، وابغض من ابغضہ، وانصرمن نصرہ، واخذل من خذلہ، وادار الحق معہ حیث دار“
”خداوندا! اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور س کے دشمنوں سے دشمن رکھ، جو شخص اسے محبوب رکہے اسے محبوب رکھ اور اس شخص سے بغض رکھ جس کے دل میں اس کا بغض ہو، اس کے دوستوں کی یاری فرما اور اس کا ساتھ چہوڑنے والوں کو محروم فرما، حق کو اس کے ساتھ پھیر جدھر وہ پھرے “
اس کے بعد فرمایا:
”تمام حاضرین اس خبر کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس دقت یہاں پر حاضر نہیں ہیں۔“
ابھی لوگ متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبرئیل امین وحی الہی لے کرنازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ آیہ شریفہ لے آئے:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی(سورہ مائدہ آیت۳)
”آج میں نے تمھارے لئے تما رے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیاہے“
اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”اللّٰہ اکبر ،اللّٰہ اکبر ،علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والو لایة لعلی من بعدی۔“
”خدا کی بزرگی کا اعلان کرتا ہوں ،خدا کی بزرگی کا اعلان کر تا ہوں، اس لئے کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دیا ہے اور میری رسالت اور میرے بعد علیعلیہ السلام کی ولا یت سے راضی ہو نے کا اعلان فر مایا ہے۔“
اس وقت لوگوں میں شور وغوغا بلند ہوا،لوگ حضرت علی علیہ السلام کو اس مرتبہ کی مبارک باد دے رہےتھے ،یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر نے لوگوں کے اجتماع میں علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر یہ جملہ کہا:
”بخ بخ لک یابن ابیطالب اصبحت و امسیت مولای ومولا کل مؤمن ومؤ منة“
”مبارک ہو آپ کو ،مبارک ہو آپ کو ،اے فرزند ابی طالب آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا اور رہبر ہو گئے ہیں۔
مذکورہ بالاحدیث کو علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے مختلف عبارتوں میں، کہیں مفصل اور کہیں خلاصہ کے طور پراپنی کتا بوں میں درج کیا ہے ۔یہ حدیث متواتر احادیث میں سے ہے اور کوئی بھی شخص اس کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہونے پر شک وشبہہ نہیں کرسکتا ہے ،یہاں تک کہ مصنف و محقق ”علامہ امینی “نے اپنی مشہور کتاب ”الغدیر“ میں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب اور تین سو ساٹھ اسلامی علماء کی کتابوں سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث اہل سنت بھائیوں کی اکثرتفسیر و تاریخ اور حدیث کی کتا بوں میں درج ہے ،یہان تک کہ علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کے سلسلہ میں مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلہ میں ایک گرانقدر اور بے نظیر مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں چھبیس ایسے علمائے اسلام کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے ”حدیث غدیر “کے متعلق مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔
بعض اشخاص نے حدیث کی سند کو ناقابل انکار پاتے ہوئے اس کی امامت وخلافت پر دلالت کے بارے میں شک وشبہہ ایجاد کر نے کی کوشش کی ہے ،اور مولا کے معنی کو ”دوست“کے عنوان سے جہوٹی تو جیہ کر نے کی کو شش کی ہے،جبکہ حدیث کے مضمون ،زمان ومکان کے شرائط اور دوسرے قرائن پر غور کر نے سے بخوبی معلوم ہو تا ہے کہ” مولا“کا مقصد ،بمعنی مکمل رہبری و قیادت اورمسئلہ امامت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
الف:آیہ تبلیغ ،جس کا ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا ،اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اس میں موجود تندوسخت لہجہ اور قرائن اس بات کی بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عام دوستی اور رفاقت کی بات نہیں ہے ،کیونکہ یہ امر پریشان کن نہیں تھا اور اس کے لئے اتنی اہمیت اور تاکید کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح اس واقعہ کے بعد نازل ہو نے والی آیہ ”اکمال الدین“ اس امر کی گواہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک غیر معمولی مسئلہ تھا اور رہبری وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں تھا۔
ب۔اس حدیث کا ان تمام مقد مات کے ساتھ اس تپتے ہوئے بیان میں ایک تفصیلی خطبہ کے بعد بیان کیا جانا اور اس حساس زمان و مکان میں لوگوں سے اقرار لینا یہ سب ہمارے دعویٰ کی مستحکم دلیل ہے۔
ج۔مختلف گرہوں اور شخصیتوں کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کے علاوہ اس سلسلہ میں اسی روز اور اس کے بعد کہے گئے اشعار،اس حقیقت کے گویا ہیں کہ یہ مسئلہ علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بلند منصب پر منصوب ہو نے سے مربوط تھا نہ کسی اور چیز سے۔
حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“
بہت سے عظیم شیعہ وسنی مفسرین نے حدیث ”منزلت“کو سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اس آیہ شریفہ میں حضرت موسیعلیہ السلام کے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جانے اور اپنی جگہ پر ہارون کو جانشین مقرر کر نے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حدیث یوں ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ مشرقی روم کے بادشاہ نے حجاز،مکہ اور مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے ایک بڑی فوج کو آمادہ کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کواپنے خاص انسانی اور حریت و استقلال کے نظام کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچنے سے پہلے ہی ،نابود کر دیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فر ماکر ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے (تبوک جزیرہ عرب کے شمال میں مشرقی روم کی سلطنت کی سر حد پر واقع تھا)
حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں عرض کی:کیا مجہے بچوں اورعورتوں کے درمیان چہوڑ رہے ہیں ؟(اور اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہمراہ میدان جہاد میں چل کر اس عظیم افتخار کو حاصل کروں؟)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”الاترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسی الا انّہ لیس نبی بعدی؟“
”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون علیہ السلام کی موسی علیہ السلام سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا؟“
مذکورہ عبارت اہل سنت کی مشہور ترین حدیث کی کتابوں ،یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے ،صرف اس فرق کے ساتھ کہ صحیح بخاری میں پوری حدیث درج ہے اور صحیح مسلم میں ایک مرتبہ پوری حدیث اور دوسرے مرتبہ صرف جملہ ”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ لّا انّہ لا نبی بعدی“ایک کلی اور تمام جملہ کی صورت میں نقل کی گئی ہے۔
(صححن بخاری ج۶،ص۳۔ صحح مسلم ج۱،ص۴۴۔اور ج۴،ص۱۸۷)
اس کے علاوہ یہ حدیث اہل سنت کی دوسری کتابوں ،جیسے:”سنن ابن ماجہ“،”سنن ترمذی“اور بہت سی دوسری کتابوں میں نقل کی گئی ہے اور اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)پر مشتمل اس حدیث کے راویوں کی تعدادبیس افراد سے زیادہ ہے،جن میں جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو سعید خدری،عبداللہ بن مسعود اور معاویہ بھی شامل ہیں۔
ابو بکر بغدادی نے ”تاریخ بغداد“میں عمر بن خطاب سے یوں نقل کیا ہے:عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حضرت علیعلیہ السلام کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا ،عمر نے اس شخص سے کہا :مجہے لگتا ہے کہ تم منافق ہو، کیونکہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے :
کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرما تے تھے:
”انّما علیّ منّی بمنزلة ھارون من موسیعلیہ السلام الّانہ لا نبیّ بعد
(تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)
”علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی موسی علیہ السلام سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
قابل توجہ بات ہے کہ احادیث کے معتبر منابع و ماٴخذ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات (حدیث منزلت) صرف جنگ تبوک کے موقع پر ہی نہیں فر مائی ہے بلکہ درج ذیل سات مواقع پر بیان فر مائی ہے جو اس کے عام اور واضح مفہوم کی دلیل ہے:
۱۔”مکہ کے پہلے مواخات کے دن“۔یعنی جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنے اصحاب سے برادری اور اخوت کا عہد و پیمان باندھا،اس موقع پر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہی جملہ تکرار فر مایا۔
۲۔”مواخات کے دوسرے دن“۔جب (مدینہ منورہ میں) مہاجر وانصار کے در میان برادری و اخوت کا عہد وپیمان باندھا تو اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث منزلت کو دوسری بار بیان فر مایا۔
۳۔جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے گھروں کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں اور صرف حضرت علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہے،توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس پر بھی اس جملہ (حدیث منزلت )کو دھرایا۔
۴،۵،۶و۷۔اسی طرح غزوہ تبوک کے دن اور اس کے علاوہ تین اور مواقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کو دھرایا ہے کہ ان کے مدارک اہل سنت کی تمام کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں، لہذا نہ سند کے لحاظ سے اس حدیث کے بارے میں کوئی شک وشبہہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کے عام مفہوم (دلیل) مفہوم ہو نے کے لحاظ سے ۔
حدیث منزلت کا مفہوم
اگر ہم اپنے ذاتی نظریات سے ہٹ کر،غیر جانبدارانہ طور پر مذکورہ حدیث پر تحقیق و تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت ہارون کو جو تمام مناسب اور عہدے بنی اسرائیل میں حاصل تھے ،حضرت علی علیہ السلام بھی صرف نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں پر فائز تھے،کیونکہ اس حدیث میں نبوت کے عہدے کے علاوہ کوئی اور قید وشرط موجود نہیں ہے۔
اس لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے:
۱۔علی علیہ السلام امت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل تھے۔ (کیونکہ ہارون کا مرتبہ بھی ایسا ہی تھا)۔
۲۔علی علیہ السلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر،خاص نائب اور رہبری میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے شریک تھے،کیونکہ قرآن مجید نے حضرت ہارون کے لئے یہ تمام منصب اور عہدے ثابت کئے ہیں ۔
(سورہ طہ،آیت ۲۹ سے ۳۲ تک)
۳۔علی علیہ السلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ تھے ،آپعلیہ السلام کے ہوتے ہو ئے کوئی دوسرا شخص اس عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا تھا ،کیونکہ حضرت موسیعلیہ السلام کی نسبت حضرت ہارون علیہ السلام بھی یہی مقام و منزلت رکھتے تھے۔
حدیث ”یوم الدار“
اسلامی تواریخ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے تیسرے سال خدا کی طرف سے امر ہوا کہ اپنی خفیہ دعوت اسلام کو آشکار فر مائیں ، چنانچہ سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۱۴میں ارشاد ہوا ہے:
وانذر عشیرتک الا قربین
”اور پیغمبر!آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے چچا حضرت ابو طالبعلیہ السلام کے گھر میں کھا نے کی دعوت دی ،کھانا کھانے کے بعد فر مایا:
”اے عبد المطلب کے فرزندو!خدا کی قسم عرب میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جواپنی قوم کے لئے مجھ سے بہتر کوئی چیزلایا ہو ،میں تمھارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لایا ہوں اور خدا وند متعال نے مجہے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو اس دین (اسلام )کی طرف دعوت دوں ،تم میں سے کون(اس کام میں) میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین بن جائے“؟
سوائے علی علیہ السلام کے کسی بھی شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہی ۔حضرت علی علیہ السلام ان میں سب سے کم سن تھے،اٹہے اور عرض کی :”اے رسول خدا !میں اس راہ میں آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یار ویاور ہوں“۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی گردن پر اپنا دست مبارک رکھ کر فر مایا:
”ان ھٰذا اخی ووصی وخلیفی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ“
(تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)
”یہ تم لوگوں میں میرا بھائی،وصی اور جانشین ہے،اس کی بات سنو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو۔“
لیکن اس گمراہ قوم (قریش)نے نہ فقط پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکا مذاق بھی اڑایا۔
مذکورہ حدیث جو کہ حدیث ”یوم الدار“روز دعوت ذو العشیرہ کے نام سے مشہور ہے، کافی حد تک واضح اور گو یا ہے ۔اور سند کے ساتھ بہت سے اہل سنت علماء،جیسے:ابن ابی جریر ،ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ، ابونعیم، بیہقی، ثعلبی،طبری،ابن اثیر،ابو الفداء اور دوسرے لو گوں نے اسے نقل کیا ہے۔
(مزید تفصلارت کے لئے کتاب” المراجعات“،ص۱۳۰سے الخ اورکتاب ”احقاق الحق“، ج۴، ص۶۲الخ کی طرف رجوع کا جائے)
اگر ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق و تجزیہ کرین گے تو حضرت علیعلیہ السلام کی ولایت وخلافت سے مربوط حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے کیونکہ اس حدیث میں بھی مسئلہ خلافت و ولایت کے بارے میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔
حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“
حدیث ثقلین کے اسناد
اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی ایک بڑی جماعت نے بلا واسطہ (براہ راست)آنحضرتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے بعض بزرگ علماء نے اس حدیث کی روایت کر نے والے اصحاب کی تعداد تیس سے زیادہ بتائی ہے۔
(سرثہ حلی ج۳۳،ص۳۰۸)
مفسرین،محدثین اور مور خین کے ایک بڑے گروہ نے اس حدیث کو اپنی کتا بوں میں درج کیا ہے۔اس طرح اس حدیث کے متواتر ہو نے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔
بزرگ عالم سید ہاشمۺ بحرانی نے اپنی کتاب”غایة المرام“میں اس حدیث کو اہل سنت علماء کے ۳۹ اسناد اور شیعہ علماء کے ۸۰ اسناد سے نقل کیاہے ۔اور عالم بزرگوار میر حامد حسین ہندی نے اس حدیث کے بارے میں مزید تحقیقات انجام دی ہیں اور تقریباً دوسو اہل سنت علماء سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس حدیث کے سلسلہ میں تحقیقات کو اپنی عظیم کتاب(احقاق الحق) کی چھ جلدوں میں جمع کیا ہے ۔
جن مشہور اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،ان میں :ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری،زید بن ارقم،زید بن ثابت،ابورافع،جبیر بن مطعم ،یاخذیفہ،ضمرہ اسلمی ،جابر بن عبداللہ انصاری اور ام سلمہ قابل ذکر ہیں۔حضرت ابوذرغفاریۺ کے بیان کے مطابق اصل حدیث یوں ہے :ابوذر غفاری اس حال میں کہ خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے، لوگوں کی طرف مخاطب ہو کربیان کر رہےتھے :میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے سنا کہ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمفر ماتے تھے :
إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی وانھمالن تفترقاحتی یرد اعلی الحوض
(جامع ترمذی،طبق نقل ینابعل المودة،ص۳۷)
”میں تمھارے درمیان دویاد گار گرانقدر چیزیں چہوڑ ے جارہاہوں، قرآن مجیداور میرے اہل بیت علیہ السلام ۔یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں ،پس تم ان کا خیال رکھنا اور دیکھنا تم میری وصیت کا ان کے بارے میں کس قدر لحاظ رکھتے ہو۔“
یہ روایت اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ، جیسے ” صحیح ترمذی“، ”نسائی“، ”مسند احمد“، کنزالعمال“ اور ” مستدرک حاکم“ و غیرہ میں نقل ہوئی ہے۔
بہت سی روایتوں میں”ثقلین“(دوگرانقدر چےزیں) کی تعبیر اور بعض روایات میں ”خلیفتین“(دوجانشین) کی تعبیر آ ئی ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر لوگوںکے سامنے بیان فرمایاہے:
”جابربن عبداللہ انصاری“ کی روایت میں آیاہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سفر حج کے دوران عرفہ کے دن اس حدیث (ثقلین) کو بیان فرمایا۔
”عبداللہ بن خطب“ کی روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کو سرزمین جحفہ(جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں سے بعض حجاج احرام باندھتے ہیں) میں بیان فرمایاہے۔
” ام سلمہ“ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس حدیث کو غدیر خم میں بیان فرمایا۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بیان فرمایاہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہ حدیث مدینہ منورہ میں منبر پر بیان فرمائی ہے۔
(المراجعات،ص ۴۲)
حتی اہل سنت کے ایک مشہور عالم ” ابن حجر“ اپنی کتاب”صواعق المحرقہ“ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد حضرت علیعلیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ انہیں بلند کیا اور فرمایا:” یہ علیعلیہ السلام قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیعلیہ السلام کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدانہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے پاس مجھ سے ملیں گے”۔ (الصواعق المحرقہ،ص ۷۵)
اس سے واضح ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے بار بار تا کید فر ما ئی ہے اور اس قطعی حقیقت کو بیان کر نے کے لئے کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے تا کہ اسے کبھی فرا موش نہ کیا جائے۔
حدیث ثقلین کا مفہوم
یہاں پر چند نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔قرآن اور عترت (اہل بیت) کو پیغمبر اسلام کی طرف سے دو ”خلیفہ “ یا دو گرانقدر چیزوں کے عنوان سے پیش کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز ان دوچیزوں کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہئے ،بالخصوص اس قید وشرط کے ساتھ جو بہت سی روایتوں میں مذکور ہے :” اگر ان دو چیزوں کا دامن نہ چھوڑو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے “اس سے یہ حقیقت تا کید اً ثابت ہو تی ہے۔
۲۔قرآن مجید کا عترت کے ساتھ اور عترت کا قرآن مجید کے ساتھ قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور خطا سے محفوظ ہے،اسی طرح عترت اور اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی مرتبہ عصمت کے مالک ہیں۔
۳۔ان بعض روایتوں میں پیغمبر اسلام نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت سے فر مایا ہے :میں قیامت کے دن تم سے ان دو یاد گاروں کے ساتھ کئے گئے تمھارے برتا ؤ کے بارے میں باز پرس کرونگا تاکہ دیکھ لو کہ تمھارا ان کے ساتھ کیسا سلوک رہا ہے؟
۴۔بلاشک شبہہ،ہم ”عترت واہل بیت“کی جس طرح بھی تفسیر وتوضیح کریں،حضرت علی علیہ السلام ان کے نمایاں ترین مصداق ہیں ۔اور متعدد روایات کے مطابق آپعلیہ السلام کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوئے ہیں اور قرآن مجید بھی آپعلیہ السلام سے جدا نہیں ہوا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ آیہ ”مباہلہ“ کے نازل ہو نے کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی،فاطمہ حسن اور حسین (علیہم السلام) کو پکار کر فر مایا: ”یہ میرے اہل بیت ہیں“۔
(مشکوة المصابح ،ص۵۶۸(طبع دہلی)ریاض المنضرہ ،ج۲،ص۲۴۸(بحوالہ مسلم و تر مذی)۔
۵۔اگر چہ اس دنیا کی چار دیواری میں مقیّد ہم لوگوں کے لئے قیامت سے متعلق مسائل پوری طرح واضح نہیں ہیں ،لیکن جیسا کہ روایتوں سے معلوم ہو تا ہے ”حوض کوثر“سے مراد بہشت میں موجود ایک خاص نہر ہے جس کے بہت سے خصوصیات ہیں، اور یہ نہر سچے مومنین ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ائمہ اہل بیت علیہ السلام اور ان کے مکتب کے پیروؤں کے لئے مخصوص ہے۔
یہاں تک کی گئی ہماری گفتگو سے واضح ہو تا ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کے رہبر و قائد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپعلیہ السلام کے بعد آپ ہی کی نسل سے گیارہ ائمہ ہیں۔
حدیث سفینہ
اہل سنت اور شیعوں کی کتا بوں میں جو دلکش تعبیریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نقل ہو ئی ہیں،ان میں سے ایک مشہور حدیث ”سفینہ نوح“ہے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابو ذر فر ماتے ہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یوں فر مایا:
”اٴلا إن ّمثل اھل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبھا نجی ومن تخلف عنھا غرق“
”میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے جدا ہوا وہ غرق (ہلاک) ہو گیا۔“[15] (مستدرک حاکم ،ج۳،ص۱۵۱)
یہ مشہور حدیث بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی و اطاعت کو ضروری اور لازم قرار دیتی ہے۔
چونکہ ایسی عظیم اور عالمگیر طوفان کے وقت صرف حضرت نوح کی کشتی نجات کا ذریعہ تھی ،اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں رونما ہو نے والے گمراہی کے طوفان میں راہ نجات صرف ولایت اہل بیت سے تمسک رکھنا تھا اور ہے۔
منصب امامت کازبان امامت سے تعارف
آیہشریفہ کوبیان کرنے کے بعدمناسب ہے کہ امامت کی حقیقت کے سلسلہ میں ہمارے آٹھویں امام حضرت امام موسی الرضا علیہ السلام کی بیان کی گئی ایک حدیث پیش کیجائے:
اٴبو محمدالقاسم بن العلاء-رحمه-رفعه عن عبدالعزیزبن مسلم قال:کنّامع الرضا-علیه السلام-بمرو،فاجتمعنافی الجامع یوم الجمعة فی بدء مقدمنا،فاٴدارواامرالامامته وذکرواکثرةاختلاف الناس فیها فدخلت علی سیدی-علیه السلام-فاٴعلمته خوض الناس فیه،فتبسم-علیه السلام-ثم قال:یاعبدالعزیزجهل القوم وخذعواعن آرائهمإن اللّٰه عزّوجلّ لم یقبض نبیّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی اٴکمل له الدین وانزل علیه القرآن فیه تبیان کلّ شیء،ٍ بیّن فیه الحلال والحرام والحدود والاحکام وجمیع مایحتاج الیه النّاس کملاً فقال عزّوجلّ
مافرّطنافی الکتاب من شیءٍ”(انعام آیت ۳۸)
"واٴنزل فی حجة الوداع،وهی آخرعمرهصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
اٴلیوم اٴکملت لکم دین واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً” (مائدہ آیت ۳)
"وامرالامامةمن تمام الدینولم یمضصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتیّ بیّن لامته معالم دینهم واٴوضع لهم سبیلهم، وترکهم علی قصد سبیلالحق،و اقام لهم علیّا علما ًوإماماً و ماترک لهم شیئاً یحتاج إلیه الامته إلاّبیّنه فمن زعم ان اللّٰه عزّوجلّ لم یکمل دینه فقد ردّ کتاب اللّٰه و من ردّ کتاب اللّٰه فهو کافر به هل یعرفون قدر الإمامة و محلّها من الامّة فیجوز فیها اختیارهم؟ إنّ الامامة اٴجلّ قدراً و اٴعظم شاٴنا و اعلی مکاناً و اٴمنع جانباً و ابعد غوراً من اٴن یبلغها النّاس بعقولهم اٴوینالو بآرائهم اٴویقیموا إماماً باختیارهم
إنّ الإمامة خص اللّٰه عزّوجلّ بها إبراهیم الخلیل – علیه السلام – بعد النبوة و الخلّة مرتبة ثالثة و فضیلة شرّفه بها و اٴشاد بها ذکره فقال:إنّی جاعلک للنّاس اماماً فقال الخلیل- علیه السلام سروراًبها: ومن ذرّیّتی قال اللّٰه تعالی: ولاینال عهدی الظالمین”(بقرہ آیت۱۲۴)
"فابطلت هذه الآیة إمامة کلّ ظالم إلی یوم القیامة و صارت فی الصفوه ثمّ اٴکرم اللّٰه تعالی باٴن جعلها فی ذرّیّته اهل الصفوة و الطهارة فقال: و وهبنا له إسحاق و یعقوب نافلة وکلّا جعلنا صالحین وجعلناهم اٴئمّه یهدون باٴمرنا واٴوحینا إلیهم فعل الخیرات وإقام الصلوةوإیتائ الزکوة وکانوا لنا عابدین”ّ(انبا ء آیت ۷۳۔۷۲)
"فلم تزل فی ذرّیّته یرثها بعض عن بعض قرناً فقرناً حتی ورّثها اللّٰه تعالی النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال جلّ وتعالی: إنّ اٴولی الناس بإبراهیم للّذین اتّبعوه وهذا النبیّی والّذین آمنوا واللّٰه ولیّ المؤمنین”(آل عمران آیت۶۸)
” فکانت له خاصّةفقلّدها صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیاً-علیه السلام-باٴمراللّٰه تعالی علی رسم مافرض اللّٰه فصارت فی ذرّیّته الاٴصفیاء الذین آتاهم اللّٰه العلم والإیمان بقوله تعالی: وقال الّذین اٴو تو االعلم والإیمان لقد لبثتم فی کتاب اللّٰه إلی یوم البعث” (روم آیت۵۶)
"فهی فی ولد علیّ – علیه السلام – خاصّة إلی یوم القیامة،إذ لا نبیّی بعد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فمن اٴین یختار هؤلاء الجّهال
إنّ الإمامة هی منزلة الاٴنبیاء وإرث الاٴوصیاءإنّ الإمامة خلافة اللّٰه وخلافة الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ومقام اٴمیرالمؤمنین -علیه السلام – ومیراث الحسن والحسین -علیها السلام – انّ الإمامة زمام الدّین ونظام المسل مین وصلاح الدنیا وعزّالمؤمنین إنّالإمامةاُس الإسلام النامی و فرعه السّامی بالإمام تمام الصلاة و الزکاة والصیام والحج والجهاد وتوفیرالفیء والصدقات وإمضاء الحدود والاٴحکام ومنع الثغور والاٴطرافالإمام یحلّ حلا ل اللّٰه ویحرّم حرام اللّٰه و یقیم حدود اللّٰه و یذّب عن دین اللّٰه ویدعو إلی سبیل ربّه بالحکمة الموعظة الحسنة و الحجّة البالغة الإمام کالشمس الطالعة المجللّة بنورها للعالم وهی فی الاٴفق بحیث لاتنالها الاٴیدی والاٴبصار
الإمام البدرالمنیر والسراج الزاهر والنور الساطع والنجم الهادی فی غیاهب الدجی واجواز البلدان والقفار ولجج البحارالإمام الماء العذب علی الظماء والدالّ علی الهدی والمنجی من الرّدی الإمام النار علی الیفاع الحارّ لمن اصطلی به والد لیل فی المهالکمن فارقه فهالک
الإمام السحاب الماطروالغیث الهاطل والشمس المضیئةوالسماء الظلیلة والاٴرض البسیطة والعین الغزیرةوالغدیروالروضة
الإمام الاٴنیس الرفیق والوالد الشفیق واالاٴخ الشقیق والاٴم البرّة بالولد الصغیر ومفزع العباد فی الداهیة النآد
الإمام اٴمین اللّٰه فی خلقه وحجّته علی عباده وخلیفته فی بلاده والداعی إلی اللّٰه والذابّ عن حرام اللّٰه
الإمام المطهّرمن الذنوب والمبرّاٴ عن العیوب المخصوص بالعلم الموسوم بالحلم نظام الدّین و عزّالمسلمین وغیظ المنافقین و بوار الکافرین
الإمام واحد دهره، لا یدانیه اٴحد ولا یعادله عالم ولایوجد منه بدل ولا له مثل و لا نظیر مخصوص بالفضل کلّه من غیر طلب منه له و لا اکتساب بل اختصاص من المُفضل الوهّاب فمن ذا الذی یبلغ معرفة الإمام اٴو یمکنه اختیاره؟!! هیهات هیهات! ضلّت العقول وتاهت الحلوم وحارت الاٴلباب و خسئت العیون و تصاغرت العظماء و تحیّرت الحکماء و تقاصرت الحلماء و حصرت الخطباء و جهلت الاٴلبّاء و کلّت الشعراء وعجزت الاٴدبائ وعییت البلغاء عن وصف شاٴن من شاٴنه اٴوفضیلة من فضائله واٴقرّت بالعجز و التقصیر و کیف یوصف بکلّه اٴو ینعت بکنهه اٴو یفهم شیئ من اٴمره اٴویوجدمن یقوم مقامه یغنی غناه؟!
لا، کیف واٴنّی؟ و هو بحیث النجم من ید المتناولین و وصف الواصفین! فاٴین الاختیار من هذا؟ و اٴین العقول عن هذا؟ و اٴین یوجد مثل هذا؟! اٴتظنّون ان ّذلک یوجد فی غیرآل الرسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذبتهم – واللّٰه – اٴنفسهم و منّتهم الاٴباطبل فارتقوا مرتقاً صعباً دحضاً تزلّ عنه إلی الحضیض اٴقدامهم راموا إقامة الإمام بعقول حائرة ناقصة و آرا مضلّة فلم یزدادوا منه إلاّ بُعداً قاتلهم اللّٰه اٴنّی یؤفکون ؟ ولقد راموا صعبا و قالوا إفکاً و ضلّواضلا لاً بعیداً و وقعوا فیالحیرة إذ ترکوا الإمام عن بصیره
زیّن لهم الشیطان اٴعمالهم عن السبیل و کانوا مستبصرین”(نمل آیت۲۴)
"رغبوا عن اختیار اللّٰه و اختیار رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واٴهل بیته إلی اختیارهم و القرآن ینادی هو ربّک یخلق مایشاء و یختار ما کان لهم الخیرة سبحان اللّٰه و تعالی عماّ یشرکون” (قصص آیت۶۸)
وقال عزّوجلّ:
"و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة إذا قضی اللّٰه و رسوله اٴمراً اٴن یکون لهم الخیرة من اٴمرهم”
(احزاب آیت۳۶)
"الآیة و قال:مالکم کیف تحکمون اٴم لکم کتاب فیه تدرسون إن ّلکم فیه لمّا تخیّروناٴم لکم اٴیمان علینا بالغة إلی یوم القیامة إنّ لکم لما تحکمون سلهم اٴیّهم بذلک زعیم اٴم لهم شرکاء فلیاٴتوا به شرکائهم إن کانوا صادقین” (قلم آیت۴۱۔۳۶)
"وقال عزّوجل: اٴفلایتدبّرون القرآن اٴم علی قلوب اٴقفالها ۵ اٴم طبع اللّٰه علی قلوبهم فهم لا یفقهون”(محمد آیت۲۴)
"اٴم :قالوا سمعنا و هم لا یسمعون إنّ شرّ الدوابّ عند اللّٰه الصمّ البکم الذین لا یعقلون و لو علم اللّٰه فیهم خیراً لاٴسمعهم و لو اٴسمعهم لتولّوا و هم معرضون”(توبہ آیت۸۷)
"اٴم: قالوا سمعنا و عصینا”(انفال آیت۲۳۔۲۱ ۵۔بقرہ آیت۹۳)
"بل هو فضل اللّٰه یؤتیه من یشاء و اللّٰه ذوالفضل العظیم فکیف لهم باختیار الإمام؟! و الإمام عالم لا یجهل وراع لاینکل معدن القدس والطهارة و النسک و الزهادة و العلم والعبادة مخصوص بدعوة الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ونسل المطهرةالبتول لامغمز فیه فی نسب و لا یدانیه ذو حسب فی البیت من قریش، و الزروة من هاشم و العترة من الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و الرضا من اللّٰه عزّوجلّ شرف الاٴشرف و الفرع من عبد مناف نامی العلم کامل الحلم مضطلع بالإمامة عالم بالسیاسة مفروض الطاعة قائم باٴمر اللّٰه عزّوجلّ ناصح لعباداللّٰه حافظ لدین اللّٰه
إنّا لاٴنبیاء والاٴئمة – صلوات اللّٰه علیهم – یوفّهم اللّٰه و یؤتیهم من مخزون علمه و حکمه ما لایؤتیه غیرهم فیکون علمهم فوق علماٴهل الزمان فی قوله تعالی
اٴفمن یهدی إلی الحقّ اٴحقّ اٴن یُتّبع اٴمّن لایهّدی إلاّ اٴن یُهدی فمالکم کیف تحکمون”
(یونسآیت۳۵)
"و قوله تبارک و تعالی
ومن یؤت الحکمة فقد اٴُوتی خیراً کثیراً”
(بقرہآیت۲۶۹۳۔بقرہ۲۴۷۴۔سورہ نساءسے اقتباسآیت۱۱۳)
"و قوله فی طالوت إنّ اللّٰه اصطفاه علیکم و زاده بسطة فی العلم و الجسم و اللّٰه یؤتی ملکه من یشاء و اللّٰه واسع علیم
و قال لنبیه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنزل علیک الکتاب و الحکمة و علّمک مالم تکن تعلم و کان فضل اللّٰه علیک عظیماً
و قال فی الاٴئمّة من اٴهل بیت نبیّه و عترته و ذریّته صلوات اللّٰه علیهم
اٴم یحسدون الناس علی ما آتاهم اللّٰه من فضله فقد آتینا آل ابراهیم الکتاب و الحکمة و اتيناهم ملکاً عظیماً فمنهم من آمن به ومنهم من صدّ عنه و کفی بجهنم سعیراً”
(نساء آیت ۵۵۔۵۶)
"و إنّ العبد إذا اختاره اللّٰه عزّ و جلّ لاٴُمور عباده شرح صدره لذلک و اٴودع قلبه ینابیع الحکمة و اٴلهمه العلم إلهاماً فلم یعی بعده بجواب و لا یحیر فیه عن صواب فهو معصوم مؤیّد فوفّق مسدّد قد اٴُمن من الخطایا و الزلل والعثار یخصّه اللّٰه بذلک لیکون حجّته علی عباده و شاهد علی خلقه و ذلک فضل اللّه یؤتیه من یشائ و اللّٰه ذوالفضل العظیم
فهل یقدرون علی مثل هذا فیختارونه؟ اٴو یکون مختارهم بهذه الصفة فیقدّمونه؟ تعدّوا – و بیت اللّٰه – الحقّ و نبذوا کتاب اللّٰه۔
وراء ظهورهم کاٴنهم لا یعلمون و فی کتاب اللّٰه الهدی والشفائفنبذوه و اتّبعوا اٴهواء هم فذمّهم اللّٰه و مقّتهم و اٴتعسهم فقال جلّ و تعالی:
و من اٴضّل ممّن اتّبع هواه بغیر هدی من اللّٰه إنّ اللّٰه لایهدی القوم الظالمین "
(قصص آیت ۵۰)
"وقال: فتعساٴلهم واٴضلّ اٴعمالهم”
(محمد آیت ۸)
"و قال: کبُر مقتاً عند اللّٰه وعند الّذین آمنوا کذلک یطبع اللّٰه علی کلّ قلب متکبّر جبّار”
(غافر آیت ۳۵)
"وصلی اللّٰه علی النبیّ محمد وآله وسلّم تسلیماً کثیراً”
(اصول کافی،مترجم،ج۱،ص۲۸۳،اصول کافی غرٰمترجم،ج۱،ص۱۹۸،عوان اخبار الرضا۴،ج۱،ص۲۱۶)
عبدالعزیزبن مسلم سے روایت ہے کہ:ہم مسجدمرومیں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں تھے۔وہاں پہنچنے کے ابتدائی دنوں میں جمعہ کے دن جامع مسجدمیں جمع ہوئے تھے۔حضارنے مسئلہء امامت کے بارے میں گفتگوکی اوراس موضوع کے بارے میں موجود بہت سے اختلافات کو بیان کیاگیا۔
میں نے اپنے مولاامام رضا علیہ السلامکی خدمت میں لوگوں کی اس گفتگو کے بارے میں وضاحت کی۔حضرت علیہ السلام نے ایک مسکراہٹ کے بعدیوںفرمایا:اے عبدالعزیز!ان لوگوںنے نادانی کا راستہ اختیارکیاہے اور اپنے نظریات کی جانب دھوکہ میں ہیں۔
خدائے عزّوجل نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکواس دنیاسے اس وقت تک نہیں اٹھایاجب تک ان کے لئے دین کومکمل نہیں کر لیااورقرآن مجیدکہ،جوہرچیزکوواضح کرنے والی کتاب ہے اورجس میں حلال وحرام،حدوداحکام اورانسان کی تمام ضرورتیں مکمل طورپربیان ہوئی ہیں نازل نہیں کر لی اورفرمایا
"مافرّطنا فی الکتاب من شیء”
”ہم نے کتاب میں کوئی چیزنہیں چھوڑی ہے“
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے حجہ الوداع میں جوآپکی عمرکے آخری ایام میں انجام پایاآیہ
” اٴلیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً”
نازل فرمائی۔اس طرح دین کوکامل فرمایااورامامت دین کا تکملہ ہے۔خدا نےپیغمبراسلام صلى‌الله‌عليہ ‌وآلہ ‌وسلم کوتب تک اس دنیاسے نہیں اٹھالیاجب آپنے امت کے لئے دینی امور واضح کر دیئے حق کاوہ راستہ دکھلادیاجس پران کوچلناتھااورحضرت علی علیہ السلام کواپنے بعد امت کے لئے رہبرکے طورپر پہنچوا دیا،حتی کہ امت کی ضرورت کی کسی چیزکوبیان کئے بغیرنہیں چھوڑا۔پس،ان اوصاف کے پیش نظرجو یہ تصورکرے کہ خدائے متعال نے اپنے دین کومکمل نہیں کیاہے،اس نے خدا کی کتاب سے انکارکیاہے،اورایساآدمی کافرہے۔کیایہ لوگ امت کے در میان امامت کی عظمت وبلندی نیز اس کی کلیدی حیثیت کوجاننے کاشعوررکھتے ہیں تاکہ اس سلسلہ میں کوئی رائے قائم کرسکیں؟بیشک امامت اس سے کہیں زیادہ گراں بہا،عظیم الشاں،بلندمرتبہ اورعمیق ترہے کہ لوگ اسے اپنی عقلوں سے درک کریں نیزاپنی رائے اوراپنے اختیارسے امام منتخب کریں۔
امامت ایک ایساخاص عہدہ ہے جوخدائے متعال کی طرف سے خُلّ نیزنبوت ورسالت کے منصب کے بعدحضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطاکیاگیا،اوراس سے مذکورہ دو نوںعہدوں سے بلنداورافضل قراردیتے ہوئے خدا وند عالم نے فرمایا:
"إنیّ جاعلک للناّس إماماً”
یعنی:”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قراردیتاہوں“۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خوش ہوکرکہا:
"ومن ذرّیّتی”
”کیامیری ذریت کوبھی یہ عہدہ ملے گا؟“
خدائے متعال نے فرمایا:
"لاینال عهدالظالمین”
”میرا وعدہ (امامت )ظالموں تک نہیں پہنچے گا“۔
اس آیہ شریفہ نے ہرظالم کے لئے عہدہ امامت کوقیامت تک کے لئے مستردکردیا اوراس امامت کوممتازاورمنتخب افراد میں متعین قراردیایہاں تک کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے وراثت میں حاصل کیا آپنے بھی اسے خداکے حکم سے علی علیہ السلام اور ان کی معصوم نسلوں میں قراردیا کہ جو اہل علم و ایمان تھے اوریہ مقام ان کے معصوم فرزندوں میں قیامت تک رہے گا۔پس یہ نا دان کیسے امام کوانتخاب کرسکتے ہیں۔؟!!امامت انبیاء کی عظمت و منزلت اور اولیائے الہٰی کی وراثت ہے۔امامت،خدائے متعال اورپیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشین اورامیرالمؤمنین علیہ السلام کی عظمت نیزحسن وحسین علیہماالسلام کی وارثت ہے۔امامت،دین کی زمامداری،مسلمانوں کی حکمت عملی ،دنیا کی بہتری اورمؤمنین کی عزت ہے۔صرف امامت کے ذریعہ نماز،روزہ،حج،زکواةاورجہادکومکمل طورپرانجام دیاجاسکتاہے اورامام کے ذریعہ حدوداوراحکام الہٰی کا نفاذ ممکن ہے اورسرحدوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔
یہ امام ہی ہے جوخدا کے حلال کوحلال اوراس کے حرام کوحرام بتاتاہے،خداکے حدود کوجاری کرتاہے،دین خداکادفاع کرتاہے اورلوگوں کوخداکے راستہ کی طرف اپنی حکمت عملی،اچھی نصیحت اورمحکم ومتقن دلا ئل سے دعوت دیتاہے۔
امام ایک آفتاب کے مانند ہے جوطلوع ہوکرپوری دنیا کوروشنی میں غرق کر دیتاہے چو نکہ وہ ایک بلندی پرمستقرہوتاہے لہذااس تک لو گوں کی نظریں اور آلودہ ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
امام، ماہ تابان ،شمع فروزان، چمکتانوراوردرخشاں ستارہ ہے جو شدیدتاریکیوں شہہ راہوں اورگزرگاہوں،شہروں اورگلی کوچوں ، صحراؤں اور سمندروں کے گردابوں میں جہالت و آزمائش نیز دربدری کے زمانہ میں لوگوں کی ہدایت کرنے والا ہوتاہے۔
امام،پیاسوں کے لئے ٹھنڈاپانی اورگمراہوں کی ہدایت کے لئے راہنماو ایک دلیل ہے۔
امام،ایک ابر باران ،موسلا دھاربارش،چمکتا ہواسورج،سایہ دارچھت،وسیع وعریض زمین،ابلتاہواچشمہ،نیزجھیل اورگلستان کے مانند ہوتاہے۔
امام،خداکے بندوں کے لئے انتہائی سختیوں میں ،ہمدم و مونس، مہربان باپ،برابرکابھائی،غمخوارماں اور خدا کی پناہ گاہ ہوتاہے۔
امام،خداکے بندوں میں خداکاامانتدار،اس کے بندوں پرحجت الہٰی اوراس کے ملک میں اس کاجانشین ہوتاہے۔
امام،خداکی طرف دعوت دینے والااورحریم الہٰیحدود،مقدرات اوراحکامکادفاع کرنے والاہوتاہے۔
امام،گناہوں سے پاک ،عیوب اوربرائیوں سے منّزہ ہوتا ہے۔
امام علم میں یگانہ،حلم وبردبادی میں یکتا،نظام، دین نیزمسلمانوں کی عزت،منافقون کے واسطے غضب اورکافروں کے لئے ہلاکت ہے۔
امام،فضائل اورانسانی اقدارکے حوالے سےبے مثال ہوتاہے۔کوئی بھی عظمت و بزرگی کے اعتبار سے اسامامکے برابرنہیں ہوسکتاہے اورکوئی عالم اس کے مساوی نہیں ہوسکتا ہے اورکسی کو اس کاجانشین اور متبادل قرارنہیں دیاجاسکتاہے۔اورامام وہ ہے کہ،جس کوتلاش وکوشش کے بغیرتمام فضیلتیں خداکی طرف سے عطاہوتی ہیں۔
پس،کون ہے جو امام کوپہچان سکتاہے۔ اور اس کو چننے اور منتخب کرنے کی قدرت رکھتا ہے افسوس!افسوس!اس سلسلہ میں
عقلیں گم ہیں،نظریں ناتواں ہیں،بڑے چھوٹے ہوگئے ہیں،حکماء اورفلاسفہ حیراں و سرگرداں ہیں،اورخطباء،عقلاء،شعراء،ادباء اورمبلغین،خستہ وعاجزہیں،کہ اسامامتکی کوئی شان یااس کی فضیلتوں میں سے کسی فضیلت کی توصیف کریں۔یہ مقام کیسے توصیف کے حدودمیں اسکتاہے جبکہ امام ستارہ کے مانند ہے اورانسان کی توصیف کے دائرہ امکان سے دورہے۔
کیاتم لوگ تصور کرتے ہو کہ یہ خصوصیتیں پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے علاوہ کسی اورمیں موجودہوسکتی ہیں؟!
خداکی قسم! ان کی نفسانی خواہشات نے انھیں جھوٹ بولنے پر مجبورکیاہے اورباطل تصورات نے انہیں منحرف کیا ہے۔
انہوںنے بلندیوں پر قدم رکھااورآخرکاران کے قدم ڈگمگائے اوروہ پستیوں میں جاگرے ہیں۔انہوںنے اپنی گمراہ کن اورپریشان عقلوں سے امام منتخب کرناچاہالیکن دوری،گمراہی اورانحراف کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔
انہوںنے خدائے متعال،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیزآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے انتخاب کے علاوہ خودانتخاب کرنا چاہا،جبکہ قرآن مجید،ان کے لئے یوں فرماتا ہے:
"وربّک یخلق مایشاء ویختارماکان لهم الخیرة”
”تیرا پروردگارجسے چاہتاہے خلق کرتاہے اورمنتخب کرتاہے،ان کے لئے انتخاب کا حق نہیں ہے،وہ اس بات سے منزّہ وپاک ہے کہ جس کالوگ اسے شریک قراردیتے ہیں“
خدائے متعال مزیدفرماتاہے
"وما کالمؤمن ولا مؤمنة إذ قضی اللّٰه و رسوله اٴمراً اٴن یکون لهم الخیر من اٴمرهم”
”اورکسی مؤمن مردیا عورت کواختیار نہیں ہے کہ جب خداورسولخداکسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امورکے بارے میں صاحب اختیار ہو جائے“۔
پس وہ کیسے امام کو انتخاب کرسکتے ہیںجبکہ امام ایک ایسادانشور ہے جس کے حدود میں نادانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہ ایک ایساسرپرست ہے،جس میں خوف اورپلٹنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔وہ تقدس،پاکیزگی،زہدواطاعت،علم و عبادت کامرکزہے،پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائیں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا بتول کی پاکیزہ اولادسے مخصوص ہے۔ وہ یہ کہ اس مقدس سلسلہ میں عیب جوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورکوئی بھی خاندانی شرف اس کے برابرنہیں ہے۔وہ خاندان قریش وہاشم اورپیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت سے ہیں جو خدا کے پسندیدہ ہیں۔وہ اشراف الاشراف عبد مناف کی اولادسے ہیں۔وہ علم وآگہی کے وارث اور مکمل بردباری کے مالک ہیں۔رہبری میں قدرتمنداورسیاست سے آگاہ ہیں۔خداکے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کرنا واجب ہے۔وہ امرخداپرسختی سے قائم،نیزخدائے متعال کے بندوں کے حق میں خیرخواہ اوردین کے محافظ ہیں۔
خدائے متعال نے انبیاء اورائمہ کوتوفیق عطا کی ہے اوراپنے علم وحکمت کے خزانہ سے جوچیزدوسروں کونہیں دی ہے، وہ انہیںعطاکی ہے۔اس لحاظ سے ان کی عقل اپنے زمانہ کے لوگوں کی عقلوں سے افضل ہے کہ خدائے متعال نے فرمایاہے:
"افمن یھدی إلی الحق”
کیا جو حق کی طرف ہدایت کرتاہے و ہ اطاعت کے لئے زیادہ شائستہ و سزاوار ہے یاوہ جوخود راہنمائی کے بغیرراستہ پر گامزن نہیں ہے؟تم لوگوں کوکیا ہواہے؟کیسے حکم کرتے ہو؟خدائے متعال فرماتاہے۔
"ومن یؤت الحکمة”
” جسے حکمت دے دی گئی ہے اس نے بہت سی نیکیاں پالی ہیں“۔
طالوت کے بارے میں خدائے عزّوجل کافرمان ہے:
"إنّ للّٰہ اصطفائ علیکم”
انہیں اللہ نے تماطرے لئے منتخب کیاہے اورعلم وجسم میں وسعت عطافرمائی ہے اوراللہ جسے چاہتا ہے اپناملک عطاکرتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اورصاحب علم بھی۔
خدائے متعال نےاپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:
"واٴنزل اللّٰه علیک الکتاب والحکمة”
”اوراللہ نے آپ پر کتاب اورحکمت نازل کی ہے اورآپ کوان تمام باتوں کاعلم دے دیا ہے کہ جن کاآپ کوعلم نہ تھا،اورآپ پرخداکابہت بڑافضل ہے“۔
اوراہل بیت اطہاراورعترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ائمہ کے بار ے میں فرمایا:
"اٴم یحسدون النّاس علی ماآتاهم اللّٰه من فضله”
”یاوہ ان لوگوں سے حسدکرتے ہیں جنہیں خدانے اپنے فضل وکرم سے بہت کچھ عطا کیاہے توپھر ہم نے آل ابراھیم علیہ السلام کوکتاب وحکمت اورملک عظیم عطا کیاہے۔پھران میں سے بعض ان پر ایمان لے آئے اوربعض نے انکارکردیااوران کے لئے جہنم کی دھکتی ہوئی آگ ہے“۔
حقیقت میں جب خداوند متعال اپنے کسی بندہ کواپنے بندوں کے امورکی اصلاح کے لئے منتخب کرتاہے،تواس کے سینہ میں وسعت عطا کرتاہے،اس کے دل میں حکمت کے چشمے قراردیتاہے اوراسے ایک ایسے علم سے نواز تاہے کہ اس کے بعدکسی سوال کا جواب دینے میں عاجز نہیں ہوتااورراہ حق سے منحرف نہیں ہوتا ہے۔پس اس اماممعصوم کو خدائے متعال کی طرف سے توفیق اور تائیدحاصل ہوتی ہے۔ہرقسم کی خطا،لغز ش اورفروگذاشت سے محفوظ ہوتاہے۔خدائے متعال نے اسے ان صفات کا امتیازبخشاہے تاکہ وہ اس کے بندوں پر حجت اور اس کی مخلوقات پرگواہ رہے اوریہ بخشش وکرم خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتاعطا کرتا ہے اورخداوند متعال بڑا کریم ہے۔
کیالوگوں میں یہ طاقت ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا انتخاب کریں یاان کا منتخب کردہ نمائندہ اس قسم کا ہو؟بیت اللہ کی قسم! ان لوگوں نے حق سے تجاوزکیا ہے اور نادانی کی صورت میں کتاب خدا سے منہ موڑلیاہے،جبکہ ہدایت اورشفاکتاب خدا میں ہے۔انہوں نے کتاب الہٰی کوچھوڑکراپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی ہے۔ خدائے متعالی نے بھی ان کی مذمت کی اورانھیں دشمن قراردیتے ہوئے قعر مذلت میں ڈال دیااورفرمایا:
"ومن اٴضلّ ممن هواه بغیر هدی من اللّٰه”
”اوراس سے زیادہ گمراہ کون ہے جوہدایت الہی کے علاوہ اپنی خواہشات کااتباع کرلے جبکہ اللہ ظالم قوم کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے“۔
اورفرمایا:
"فتعساً لهم واٴضلّ اعمالهم”
”وہ نا بود اور ھلاک ہو جائیں اوران کے اعمال برباد ہو جائیں“۔
اورفرمایا:
"کبر مقتاً عنداللّٰہ”
”وہ اللہ اورصاحبان ایمان کے نزدیک سخت نفرت کے حقدار ہیں اوراللہ اس طرح ہرمغروراورسرکش انسان کے دل پرمہر لگاتا ہے“۔خدا کی بے شماررحمتیں اور درودوسلام حضرت محمد اوران کے خاندان پر۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button