محافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

زمانہ غیبت میں وجودِ امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کا فائدہ

آیت اللہ مکارم شیرازی
حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ کی غیبت کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو یہ سوال ذہنوں میں کروٹیں لینے لگتا ہے کہ امام علیہ السلام یا رہبر کا وجود اسی صورت میں مفید اور قابل استفادہ ہے جب وہ نگاہوں کے سامنے ہو اور اس سے رابطہ برقرار ہوسکتا ہے لیکن اگر امام علیہ السلام نظروں سے غائب ہو، اس تک پہونچنا ممکن نہ ہو، ایسی صورت میں وجود امام علیہ السلام سے کیا حاصل ؟
بعض کے لئے ہوسکتا ہے کہ یہ سوال نیا معلوم ہو اور کسی "دانشمند” ذہن کی اُپج معلوم ہو مگر خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ سوال بہت پرانا ہے۔ یہ سوال حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ کی ولادت سے پہلے کیا جاچکا ہے کیونکہ جب حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ اور ان کی غیبت کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ائمہ علیہم السلام بیان فرماتے تھے اس وقت بعض لوگ یہی سوال کرتے تھے۔
احادیث میں اس سوال کا جواب متعدد انداز سے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث قابلِ غور ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمانہ غیبت میں حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ کے وجود کا فائدہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ای والذی بعثنی بالنبوة انهم ینتفعون بنور ولایته فی غیبته کانتفاع الناس بالشمس وان جللها السحاب "
’’قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے مجھے نبوت پر مبعوث فرمایا، لوگ ان کے نورِ ولایت سے اس طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح لوگ سورج سے اس وقت استفادہ کرتے ہیں جب وہ بادلوں کی اوٹ میں ہوتا ہے‘‘۔
اس حدیث کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ سمجھیں کہ نظام کائنات میں آفتاب کیا کردار ادا کرتا ہے۔
آفتاب دو طرح اپنا نور پھیلاتا ہے ایک بلا واسطہ اور دوسرے بالواسطہ۔ دوسرے لفظوں میں ایک واضح اور دوسرے پوشیدہ۔
جس وقت آفتاب بلا واسطہ اور واضح نور پھیلاتا ہے، اس وقت اس کی شعاعیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین کے گرد ہوا کی
دبیز چادر شعاعوں کی حرارت میں کمی کر دیتی ہے اور ان کے زہریلے اثرات کو ختم کرتی ہے۔ لیکن ہوا کی یہ دبیز چادر آفتاب کو بلا واسطہ نور پھیلانے سے نہیں روکتی۔
لیکن بالواسطہ اور بطور مخفی نور افشانی کی صورت میں بادل آفتاب کے چہرے کو چھپا لیتا ہے اس صورت میں روشنی تو ضرور نظر آتی ہے مگر آفتاب دکھائی نہیں دیتا۔
اس کے علاوہ آفتاب کا نور اور اس کی شعاعیں نظام کائنات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یہ نور اور شعاعیں،
زندہ چیزوں کا رشد و نمو،غذا اور بقائے نسل،حس و حرکت،خشک زمینوں کی آبیاری،دریا کی موجوں کا جوش و خروش،نسیم سحر کی اٹکھیلیاں،پژمردگی کو حیات نو عطا کرنے والی بارش،آبشاروں کے نغمے،مرغانِ چمن کی خوش الحانیاں،پھولوں کی نزاکت اور طراوٹ،انسان کی رگوں میں خون کی گردش اور دل کی دھڑکن،ذہن بشر میں فکر کی جولانیاں،طفلِ شیر خوار کی طرح کیوں کی مسکراہٹ۔
یہ ساری کرشمہ سازی آفتاب کے نور اور اس کی شعاعوں کی بدولت ہے۔ اگر لمحہ بھر بھی زمین کا رشتہ آفتاب سے منقطع ہوجائے تو پھر نور پر ظلمتوں کا راج ہوجائے اور نظام کائنات درہم برہم ہوجائے۔
ہاں ایک سوال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ساری باتیں صرف اس صورت میں ہیں جب آفتاب بلا واسطہ نور پھیلا رہا ہو۔؟
ہر شخص نفی میں جواب دے گا۔ جب آفتاب کا نور بالواسطہ زمین تک پہونچ رہا ہو اس وقت بھی آثار حیات باقی رھتے ہیں۔ بالواسطہ نور افشانی کی صورت میں صرف وہی آثار ختم ہوتے ہیں جن کا تعلق بلا واسطہ نور افشانی سے ہوتا ہے، بالواسطہ نور افشانی میں وہ جراثیم ضرور پھیل جاتے ہیں جن کے حق میں بلا واسطہ نور افشانی زہر ہلاہل ہے۔
اب تک بادلوں کی اوٹ میں آفتاب کے اثرات کا تذکرہ تھا۔ اب ذرا یہ دیکھیں، کہ غیبت کے زمانے میں دینی رہبروں کے فوائد کیا ہیں اور اس کے اثرات کیا ہیں۔غیبت کے زمانے میں وجود امام کی نامرئی شعاعیں مختلف اثرات رکھتی ہیں۔
اُمّید
میدان جنگ میں جاں نثار بہادر سپاہیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی صورت پرچم سرنگوں نہ ہونے پائے جبکہ دشمن کی پوری طاقت پرچم سرنگوں کرنے پر لگی رہتی ہے کیونکہ جب تک پرچم لہراتا رہتا ہے، سپاہیوں کی رگوں میں خون تازہ دوڑتا رہتا ہے۔
اسی طرح مرکز میں سردار لشکر کا وجود سردار خاموش ہی کیوں نہ ہو سپاہیوں کو نیا عزم اور حوصلہ عطا کرتا رہتا ہے۔
اگر لشکر میں یہ خبر پھیل جائے کہ سردار قتل ہوگیا تو اچھا خاصا منظم لشکر متفرق ہوجاتا ہے سپاہیوں کے حوصلے منجمد ہوجاتے ہیں۔
قوم شیعہ جس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کے امام زندہ ہیں، اگر چہ بظاہر امام علیہ السلام نظر نہیں آتے ہیں، اس کے باوجود یہ قوم خود کو کبھی تنہا محسوس نہیں کرتی۔ اسے اس بات کا یقین کہ اس کا رہبر موجود ہے جو ان کے امور سے واقف ہے ہر روز رہبر کی آمد کا انتظار رہتا ہے یہ انتظار قوم میں تعمیری جذبات کو بیدار رکھتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ انسان کے حق میں جس قدر "مایوسی” زہر ہلاہل ہے اسی قدر "امید” تریاق، ہے۔
اگر رہبر کا کوئی خارجی وجود نہ ہو بلکہ لوگ اس کے تولد کا انتظار کر رہے ہوں تو صورت حال کافی مختلف ہوجائے گی۔
اگر ایک بات کا اور اضافہ کردیا جائے تو بات کافی اہم ہوجائے گی اور وہ یہ کہ شیعہ روایات میں کافی مقدار میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں امام علیہ السلام اپنے ماننے والوں کی باقاعدہ حفاظت کرتے ہیں۔ ہر ہفتہ اُمّت کے سارے اعمال امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردیے جاتے ہیں۔
(یہ روایت تفسیر "برہان” میں اس آیہ کریمہ کے ذیل میں نقل ہوئی ہے: وقل اعملوا فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون ۔توبہ ، ۱۰۵)
یہ عقیدہ ماننے والوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ہم یشہ اپنے اعمال کا خیال رکھیں کہ ان کا ہر عمل امام علیہ السلام کی نظر مبارک سے گزرے گا۔ لھٰذا اعمال ایسے ہوں جو امام علیہ السلام کی بارگاہ اقدس کے لائق ہوں جن سے امام علیہ السلام خوش ہوں۔ یہ طرز فکر کس قدر تعمیری ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
دین کی حفاظت
حضرت علی علیہ السلام نے ایک مختصر سے جملے میں امام کی ضرورت کو بیان فرمایا ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کسی بھی صورت میں الٰہی نمائندے سے خالی نہیں رہ سکتی ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اللهمّ بلیٰ لاتخلوا الارض من قائم لله بحجّة اما ظاهراً مشهورا او خائفا مغمورا لئلا تبطل حجج الله وبیناته‘‘
’’ہاں واللہ زمین کبھی بھی الٰہی دلیل، قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی خواہ یہ حجت ظاہر و آشکارا ہو اور خواہ پوشیدہ و مخفی تاکہ اللہ کی دلیلیں اور اس کی نشانیان ضائع نہ ہونے پائیں‘‘۔
ہر روز ہی شخصی نظریات کو مذہب کا رنگ دیا جارہا ہے خود غرض اور فتنہ پرداز افراد آسمانی تعلیمات کی حسب خواہش توضیح و تفسیر کر رہے ہیں جس کی بنا پر اصلی اسلام میں اتنی خرافات شامل ہوگئی ہیں کہ ایک عام انسان کے لئے صحیح اسلام کی تلاش محال نہیں تو دشوار ضروری ہے۔
وحی کے ذریعہ آسمان سے نازل شدہ آب حیات میں اجنبی نظریات کی آمیزش سے وہ تازگی اور بالیدگی نہ رہی جو صدر اسلام میں تھی۔ ایسی صورت میں ایک ایسے فرد کی موجودگی سخت ضروری ہے جس کے پاس آسمانی اسناد اپنی اصلی صورت میں ہوں۔ اب کسی پر وحی تو نازل ہوگی نہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا لھٰذا اس زمانے میں بھی ایک معصوم فرد کا وجود لازمی ہے جو اسلامی تعلیمات کا تحفظ کرسکے، جس کے پاس ہر طرح کی خرافات سے پاک صاف دین موجود ہو۔ اسی حقیقت کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ فرمایا ہے کہ
"تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشانیاں ضائع نہ ہونے پائیں‘‘۔
اور اس طرح حقیقت کے متلاشی افراد حقیقت تک پہونچ سکیں اور ہدایت کے پیاسے سرچشمۂ ہدایت و حیات سے سیراب ہوسکیں۔
فداکاروں کی تربیت
بعض افراد کا خیال ہے کہ غیبت کے زمانے میں امام علیہ السلام کا کوئی تعلق عوام سے نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل بر خلاف ہے۔ اسلامی روایات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں بھی امام علیہ السلام سے ایک ایسے خاص گروہ کا رابطہ ضرور برقرار رہے گا جس کا ہر فرد عشق الٰہی سے سرشار، اخلاص کا پیکر، اعمال و اخلاق کی منہ بولتی تصویر اور دلوں میں عالم کی اصلاح کی تمنا لیے ہوئے ہے اسی طریقے سے ان لوگوں کی رفتہ رفتہ تربیت ہورہی ہے، انقلابی امنگیں ان کی روح میں جذب ہوتی جارہی ہیں۔
یہ لوگ اپنے علم و عمل اور تقویٰ و پرہیز گاری سے اتنی بلندی پر ہیں جہاں ان کے اور آفتابِ ہدایت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے حقیقت بھی یہی ہے اگر آفتاب بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کی زیارت کے لئے آفتاب کو نیچے کھینچا جاسکتا بلکہ خود بادلوں کو چیر کر اوپر نکلنا ہوگا تب آفتاب کا رخ دیکھ سکیں گے۔ گذشتہ صفحات میں ہم یہ حدیث نقل کرچکے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کی مثال بادلوں میں چھپے ہوئے آفتاب سے دی ہے۔
نامرئی تاثیر
ہم سب جانتے ہیں کہ سورج کی شعاعیں دو طرح کی ہیں، ایک وہ شعاعیں جو دکھائی دیتی ہیں اور دوسرے وہ جو دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ اسی طرح آسمانی رہبر اور الٰہی نمائندے دو طرح عوام کی تربیت کرتے ہیں ایک اپنے قول اور عمل کے ذریعے اور دوسرے اپنے روحانی اثرات کے ذریعے۔ اصطلاحی طور پر پہلے طریقے کو "تربیت تشریعی” اور دوسرے طرز کو "تربیت تکوینی” کہا جاسکتا ہے۔ دوسری صورت میں الفاظ و حروف نہیں ہوتے بلکہ جاذبیت اور کشش ہوتی ہے۔ ایک نگاہ اثر انداز سے روح و جسم میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی تربیت کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ کے صفحات پر جابجا نظر آتی ہیں۔ شاہد کے طور پر جناب زہیرابن قین، جناب حر، جناب ابو بصیر علیھم الرحمۃ کے پڑوسی (حکومت بنی امیہ کا سابق کارندہ)، قیدخانہ بغداد میں ہارون کی فرستادہ مغنیّہ۔۔۔۔
مقصد تخلیق
کوئی بھی عقلمند بے مقصد قدم نہیں اٹھاتا ہے۔ ہر وہ سفر جو علم و عقل کی روشنی میں طے کیا جائے اس کا ایک مقصد ضرور ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب انسان کوئی با مقصد کام انجام دیتا ہے تو اس کا مقصد اپنی ضروریات پورا کرنا ہوتا ہے لیکن جب خدا کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس میں بندوں کا فائدہ پوشیدہ ہوتا ہے کیونکر خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے۔
اب ذرا اس مثال پر توجہ فرمائیے:
ایک زرخیز زمین میں ایک باغ لگایا جاتا ہے جس میں طرح طرح کے پھل دار درخت اور رنگ برنگ کے خوشنما اور خوشبودار پھول ہیں، ان درختوں کے درمیان کچھ بیکار قسم کی گھاس بھی اُگی ہوئی ہے۔ لیکن اس باغ کی آبیاری کی جائے گی تو گھاس کو بھی فائدہ پہونچے گا۔
ہاں دو مقصد سامنے آتے ہیں:
اصلی مقصد: پھل دار درختوں کی اور پھولوں کی آبیاری،
ثانوی مقصد: گھاس کی آبیاری،
بغیر کسی شک و تردید کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آبیاری کا سبب اصلی مقصد ہے ثانوی مقصد نہیں۔
اگر اس باغ میں صرف ایک پھل دار درخت باقی رہ جائے جس سے تمام مقاصد پورے ہورہے ہوں، تب بھی آبیاری ہوتی رہے گی اور اس بنا پر کوئی عقل مند آبیاری سے دستبردار نہیں ہوگا کہ ایک درخت کی خاطر کتنی بیکار چیزیں سیراب ہورہی ہیں۔ البتہ اگر باغ میں ایک درخت بھی نہ رہ جائے تو اس صورت میں آبیاری ایک بے مقصد کام ہوگا۔
یہ وسیع و عریض کائنات بھی ایک سر سبز و شاداب باغ کی مانند ہے۔ انسان اس باغ کے درخت ہیں۔ وہ لوگ جو راہ راست پر گامزن ہیں اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی منزلیں طے کر رہے ہیں، وہ اس باغ کے پھل دار درخت ہیں اور خوشبو دار پھول ہیں۔ لیکن وہ افراد جو راہ راست سے منحرف ہوگئے اور جنھوں نے گناہ کی راہ اختیار کی، ارتقاء کے بجائے پستیوں میں گرتے چلے گئے، یہ لوگ اس باغ کی گھاس وغیرہ کہے جاسکتے ہیں۔
یہ چمکتا ہوا آفتاب، یہ نسیم جانفزا، یہ آسمان و زمین کی پے پناہ برکتیں، گناھگاروں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں افراد کے لیے پیدا نہیں کی گئی ہیں، بلکہ یہ ساری کائنات اور اس کی تمام نعمتیں خدا کے نیکو کار بندوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور وہ دن ضرور آئے گا جب یہ کائنات ظالموں کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے اختیار میں ہوگی۔
’’ان الارض یرثها عبادی الصالحون‘‘
’’یقیناً میرے صالح بندے اس زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔
یہ صحیح ہے کہ دنیا میں ہر طرف گناھگاروں اور خدا ناشناس افراد کی اکثریت ہے لیکن کائنات کا حسنِ نظام بتا رہا ہے کہ کوئی ایسا فرد ضرور موجود ہے جس کی خاطر یہ دنیا سجی ہوئی ہے۔ حدیث میں اس بات کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
’’بیمنہ رزق الوریٰ و بوجودہ ثبتت الارض والسماء‘‘
’’ان کی (حجت خدا کی) برکت سے لوگوں کو رزق ملتا ہے اور ان کے وجود کی بنا پر زمین و آسمان قائم ہیں۔”
اسی بات کو خداوند عالم نے حدیث قدسی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے بیان فرمایا ہے:
’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘
’’اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو نہ پیدا کرتا۔”
زمانۂ غیبت میں وجود امام علیہ السلام کا ایک فائدہ اس کائنات ہستی کی بقاء بھی ہے۔
وہ لوگ جو حقائق سے بہت دور ہیں وہ زمانۂ غیبت میں وجود امام علیہ السلام کے لئے صرف شخصی فائدے کے قائل ہیں اور اس عقیدے کے سلسلے میں شیعوں پر طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے ہیں جبکہ وہ اس بات سے بالکل غافل ہیں کہ خود ان کا وجود امام علیہ السلام کے وجود کی بنا پر ہے۔ یہ کائنات اس لئے قائم ہے کہ امامِ قائم عجل اللہ فرجہ پردۂ غیبت میں موجود ہیں اگر امام علیہ السلام نہ ہوتے تو نہ یہ دنیا ہوتی اور نہ اس دنیا کے بسنے والے۔
(اقتباس از: فلسفہ انتظار)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button