مقالات قرآنی

تقویٰ، انسان کی فضیلت و کرامت کا معیار

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ﴿الحجرات:۱۳﴾
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی: اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسلی افزائش کے لیے مرد و زن کی آمیزش کا طریقہ اختیار فرمایا چونکہ دو انسانوں کی مشارکت کی وجہ سے آنے والی نسل میں امتیاز آ جاتا ہے کہ یہ فرزند نہ ماں ہے، نہ باپ بلکہ اولاد ہے جو دوسروں سے مختلف ہے۔ رنگ، شکل، چال، طبیعت و مزاج، ترجیحات اور لیاقت و ذہانت، خلق و خو اور خصلتوں میں بھی ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ اختلاف ایک دوسرے کے تعاون اور باہمی تبادل مفادات کے لیے ہے ورنہ اگر ان میں کسی بات میں بھی اختلاف نہ ہوتا تو کوئی کسی کے کام نہ آتا اور کلوننگ کے ذریعے پیدا ہونے والی نسل اس امتیازی حیثیت کی حامل نہ ہوتی۔ اس طرح فرد فرد کو شناخت نہ ملتی۔
۲۔ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ: پھر اللہ تعالیٰ نے اجتماعی امتیاز کے لیے قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا۔ یہ تقسیم ایک دوسرے پر فخر جتلانے کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی شناخت کے لیے ہے۔
۳۔ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ: اللہ کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت رنگ و نسل سے نہیں اخلاق و کردار سے بنتی ہے، کیونکہ رنگ و نسل میں انسان کے عمل اور کردار کا دخل نہیں ہے۔ جو چیز انسان کے دائرہ اختیار میں ہو اس کے مطابق انسان کی قدر بڑھتی گھٹتی ہے۔ وہ میزان تقویٰ ہے جس سے انسان کی قیمت بنتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اَحَبُّکُمْ اِلَی اللہِ اَکْثَرُکُمْ لَہُ ذِکْراً وَ اَکْرَمُکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْ وَ اَنْجَاکُمْ مِنْ عَذَابِ اللہِ اَشَدُّکُمْ لَہُ خَوْفاً۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۷۵)
اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ جو اللہ کا زیادہ ذکر کرتا ہے اور سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے اور تم میں عذاب سے بچنے والا ہونے میں بہتر وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ اگر مخلوقات میں امتیازات نہ ہوتے تو معاشرے کا نظم درہم برہم ہو جاتا۔
۲۔ تقویٰ سے اللہ کے نزدیک انسان کی قیمت بنتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 340)
حق تقویٰ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿آل عمران: ۱۰۲﴾
اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔
تفسیرآیات
پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ تقویٰ اپنے آپ کو ہر قسم کی گزند سے بچانے کا نام ہے۔ عام طور پر تقویٰ سے مراد ’’ اللہ سے ڈرنا ‘‘ لیا جاتا ہے، حالانکہ یہ تقویٰ کا لازمہ ہے۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عدل سے ڈرو اور گناہ نہ کرو۔ کیونکہ گناہگار اور مجرم ہمیشہ عدالت سے خوفزدہ رہتا ہے۔
اس آیت میں فرمایا: تقویٰ اختیارکرو جیساکہ تقویٰ اختیارکرنے کا حق ہے۔ یعنی اطاعت کرو، کوئی معصیت نہ ہو اور شکر خدا کرو، جس میں کوئی کفرانِ نعمت نہ ہو۔ ذکر خدا کرو، جس میں کوئی غفلت نہ ہو۔ لیکن تقویٰ کا حق اداکرنا بہت سے لوگوں کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں دوسری آیت میں فرمایا:
فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ۔۔۔۔ (۶۴ تغابن: ۱۶)
پس جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔۔۔۔
اس آیت کو سابقہ آیت کے ساتھ ملایا جائے تو یہ مطلب سامنے آتا ہے کہ اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے اور اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے جہاں تک تم سے ہو سکتا ہے کوشش جاری رکھو۔ اس طرح سب کے لیے راہ تقویٰ اختیارکرنا ضروری ہے۔ البتہ ہرشخص کی استطاعت کے مطابق اس کے درجات و مراتب ہیں۔
وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ: موت ایک غیر اختیاری امر ہے۔ اس پر امر و نہی نہیں ہو سکتی۔ البتہ مرتے دم تک اپنے آپ کو اسلام پر باقی رکھنا ممکن ہے۔ اس لحاظ سے یہ حکم آیا کہ اپنے آپ کو دین اسلام کے اصولوں پر اس طر ح قائم رکھو کہ حالت اسلام میں تمہاری موت واقع ہو۔
احادیث
جناب ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ کا کیا مطلب ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا:
یُطَاعُ فَلَا یُعْصَی وَ یُذْکَرُ فَلَا یُنْسَی وَ یُشْکَرُ فَلَا یُکْفَرُ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱۵: ۲۳۵)
تقویٰ کا حق اس طرح ادا ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے، پس اس کی معصیت نہ کی جائے۔ اللہ کا ذکر کیا جائے اور اس میں نسیان و غفلت نہ برتی جائے نیزاللہ کا شکر بجا لایا جائے اور کفران نعمت نہ کیا جائے۔
اسی مضمون کی روایت درمنثور میں رسول کریم (ص) سے بھی مروی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
من اتقی اللہ حق تقاتہ اعطاہ اللہ انسا بلا انیس و غناء بلا مال و عزا بلا سلطان ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۶۵)
جو تقویٰ کا حق ادا کرتا ہے، اس کو اللہ کسی انس دینے والے کے بغیر انس اور کسی مال کے بغیر بے محتاجی اور کسی بادشاہی کے بغیر عزت عطا فرمائے گا۔
اہم نکات
۱۔ ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق تقویٰ اختیار کرے اور آخری دم تک اس پر قائم رہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 129)
تقوی کا اجتماعی پہلو
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (المائدہ:2)
اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی: نیکی اور تقویٰ جہاں ایک انفرادی عمل ہے، وہاںیہ دونوں ایک اجتماعی عمل بھی ہے کہ خود نیکی اور تقویٰ پر عمل کرے اور اس کام میں دوسروں کی مدد کرے۔ دوسروں کو نیکی کی ترغیب دے اور نیک کاموں کی رہنمائی کرے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی رکاوٹ یا غلط فہمی ہے تو اسے دور کرے۔اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی نیکی اور اجتماعی تقویٰ کا حکم ہے، جو انفرادی نیکی اور انفرادی تقویٰ سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح انفرادی گناہ کے ارتکاب سے اجتماعی گناہ کا ارتکاب کہیں زیادہ قابل نفرت ہے۔ لہٰذا گناہ اور زیادتی میں مدد دینے سے منع فرمایا۔ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے تعاون علی البر و التقویٰ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے اہم ترین اصلاحی دستور ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک اعلیٰ انسانی مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے اور مسلمانوں میں جو فکری، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی انحطاط آیا ہے، وہ اس اسلامی انسان ساز دستور پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔
۔نیکی اور تقویٰ میں باہمی تعاون اور گناہ اور زیادتی میں عدم تعاون، ایک اہم معاشرہ ساز دستور ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 465)
تقوی بہترین زاد راہ
وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ (بقرہ:197)
اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔
وَ تَزَوَّدُوۡا, زاد راہ مہیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی اگر حج کے مختصر سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو آخرت کے طویل اور لامحدود سفر کے لیے زاد راہ کتنا ضروری ہوگا اوراس کے لیے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 526)
محرک تقویٰ
ذٰلِکَ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ ﴿الحج:۳۲ ﴾
بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔
تشریح کلمات
شَعَآئِرَ🙁 ش ع ر ) شعیرۃ کی جمع ہے۔ لڑائی میں فوجی اشارے کو شعار کہا جاتا ہے۔ حج کی رسوم ادا کرنے کی جگہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ: شعائر وہ علامتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے لیے نصب کی ہیں۔ حرمات اللہ کی تعظیم کے ذکر کے بعد اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے فرمایا: جملہ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ کی تعظیم، قلوب کا تقویٰ ہے۔ حرمات اللہ کی تعظیم کے بارے میں بتایا کہ یہاں تعظیم سے مراد حدود کی پاسداری کرنا اور کوئی حکم حرام ہے تو اس سے باز رہنا ہے۔ اسی طرح شعائر اللہ کی تعظیم بھی، ان کے متعلق احکام کی پابندی کرنا ہے۔
شَعَآئِرَ اللّٰہِ کیا ہیں؟: شَعَآئِرَ اللّٰہِ وہ علامتیں ہیں جو اللہ نے اپنی اطاعت کے لیے نصب فرمائی ہیں۔ حج کے اعمال چونکہ محسوس اماکن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جیسے کعبہ، صفا و مروہ، میدان عرفات، مزدلفہ، منیٰ اور قربانی کے جانور۔ یہ سب اس امت کے بانی حضرت خلیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت الٰہی میں یکسوئی اور فنا فی اللہ کی علامات پر مشتمل ہیں۔
سورۃ المائدۃ میں فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ ۔۔ (۵ مائدہ: ۲)
اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو۔
اس آیت میں شعائر اللہ سے حدود اللہ مراد لی گئی ہیں جو امر و نہی اور احکام و فرائض سے عبارت ہیں۔ لہٰذا اس آیت میں شعائر اللہ سے مراد اگرچہ حج سے متعلق اماکن و اعمال ہیں تاہم یہ شعائر اللہ کی تطبیق ہے، انحصار نہیں ہے۔
۲۔ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ: تقویٰ کی نسبت دلوں کی طرف اس لیے دی ہے کہ اصل تقویٰ کا محرک دل ہیں۔ دل میں اگر صدق نیت نہ ہو، اللہ کے ساتھ خلوص اور اللہ کی طرف یکسوئی نہ ہو تو پھر تقویٰ کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے۔ دل وہ مرکزی محور ہے جس پر انسان کے تمام کردار کا انحصار ہے۔
اہم نکات
۱۔ شعائر اللہ کا تعین احکام کے تعین کی طرح امر خدا ہے۔
۲۔ تعظیم احکام، تقوائے قلب کے ساتھ مربوط ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 319)
تقویٰ کا نتیجہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿الانفال: ۲۹﴾
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تفسیر آیات
تقویٰ کی تین اہم خصوصیات ہیں : پہلی خصوصیت، حق و باطل میں تمیز: حق و باطل کی تمیز کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں ایک کسوٹی رکھی ہے جسے ضمیر اور وجدان کہتے ہیں لیکن اکثر اوقات خواہشات نفسانی اس کسوٹی پر اپنا کثیف پردہ ڈال دیتی ہیں جس کی وجہ سے حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کی یہ قوت ماند پڑ جاتی ہے۔ اب دلیل و منطق اس پر اثر نہیں کرتی۔ اس کو حق، باطل اور باطل، حق دکھائی دیتا ہے۔ دعوت حق پر لبیک کہنے کی بجائے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے مگر اہل تقویٰ کا ضمیر شفاف، وجدان صاف ہوتا ہے۔ اس کا زندہ احساس، بیدار عقل، اس کی بصیرت اوراس کا صاف و شفاف ضمیر ہر موڑ، ہر مشکل، ہر اختلاف اور ہر تفرقہ کی صورت میں انہیں بتا دیتا ہے کہ کون سا راستہ باطل کی طرف جاتا ہے اور کون سا راستہ حق کی طرف۔ کس قدم میں اللہ کی رضایت ہے اور کس میں اس کی رضایت نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
اتَّقُوا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰہِ ۔ (اصول الکافی ۱: ۲۱۸ باب ان المتوسمین ذکرھم ۔۔۔۔)
مؤمن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ نور خدا کے ذریعے دیکھتا ہے۔
اس کی آنکھوں کے سامنے پردہ نہیں ہوتا۔ وہ راہ گم نہیں کرتا۔
مولانا روم کہتے ہیں :
چونکہ تقویٰ بست دو دست ہوا
حق کشاید ہر دو دست عقل را
تقویٰ نے خواہشات کے دونوں ہاتھ باندھ دیے تو اللہ تعالیٰ نے عقل کے دونوں ہاتھ کھول دیے۔
۱۔ وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ: تقویٰ کی دوسری خصوصیت گناہوں کو مٹا دینا ہے۔ گناہ کو مٹانے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ گناہ کے محرک کو مٹا دیتا ہے۔ جس کے پاس تقویٰ جیسا شعور موجود ہو۔ اس پر گناہ کی رغبت غالب نہیں آتی اور دوسری یہ کہ اللہ گناہ کے اثرات کو مٹا دیتا ہے۔ یعنی تقویٰ والے سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو چونکہ اس کا ضمیر زندہ ہے فوراً اس گناہ کی تلافی کرتا ہے۔
۲۔ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ: تیسری خصوصیت یہ ہے کہ تقویٰ والے سے اگر کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو اللہ خود معاف فرماتا ہے۔ چونکہ باتقویٰ انسان صرف چھوٹے گناہوں کا ارتکاب کرے گا جن کے بارے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔
۳۔ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ: تقوی والے ہی اللہ کے عظیم فضل کے لیے اہل بن سکتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
فَاِنَّ تَقْوَی اللہِ مِفْتَاحُ سِدَادٍ وَ ذَخِیرَۃُ مَعَادٍ وِ عِتْقٌ مِنْ کُلِّ مَلَکَۃٍ وَ نَجَاۃٌ مِنْ کُلِّ ھَلَکَۃٍ بِھَا یَنْجَحُ الطَّالِبُ وَ یَنْجُوالْھَارِبُ وَ تُنَالُ الرَّغَائِبُ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۲۳۰)
بے شک تقوائے الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ (خواہشوں کی) ہر غلامی سے آزادی اور ہر تباہی سے رہائی کا باعث ہے۔ اس کے ذریعہ طلبگار منزل مقصود تک پہنچتا اور (سختیوں سے) بھاگنے والا نجات پاتا ہے اور مطلوبہ چیزوں تک پہنچ جاتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ بندے کو تقویٰ کے ذریعے اپنے اندر اہلیت پیدا کرنا ہو گی تاکہ وہ فرقان (حق و باطل میں تمیز کی کسوٹی) اور فضل عظیم کا سزاوار بن جائے: اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 379)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button