مقالات قرآنی

تزکیہ نفس ،کامیابی کا واحد راستہ

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ الاعلیٰ:۱۴﴾
بتحقیق جس نے پاکیزگی اختیار کی وہ فلاح پا گیا،
تفسیر آیات
۱۔ فلاح و نجات اس شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو دنیا پرستی سے پاک رکھتا ہے۔ یعنی اگر دنیا اور آخرت میں تصادم ہو تو آخرت کو ترجیح دیتا ہے اور دنیوی مفادات سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ یہ نفس کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ حدیث ہے:
حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیئَۃً۔۔۔۔ (الکافی۲: ۳۱۶)
دنیا پرستی ہر گناہ کی جڑ ہے۔
۲۔ جب نفس حب دنیا کے پردوں کے پرے نہ ہو گا۔ بلکہ پاک و شفاف ہو گا تو اس کا ضمیر اور وجدان بیدار ہو گا۔ نماز کے اوقات میں نام خدا یاد آئے گا پھر نماز کے لیے دوڑے گا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 140)
وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿الشمش:7 تا 9﴾
اور نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی، بتحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا۔
تشریح کلمات
الھم:( ل ھ م ) یہ لفظ التھام الشیٔ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز کو نگل جانے کے ہیں۔
تفسیر آیات
نفس انسانی کی قسم اور اس ذات کی جس نے اس نفس کو معتدل بنایا۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفطار آیات ۷۔ ۸
الھام کسی کے دل میں کوئی بات ڈالنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے دل میں ڈالی جانے والی بات کے لیے مخصوص ہے۔ ہم نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ الہام کا تعلق باطنی شعور سے ہے۔ الہام ایک اشراقی عمل ہے۔ الہام تحت الشعور میں ہوتا ہے جب کہ وحی شعور میں ہوتی ہے۔ الہام اشراقی لہروں کے ذریعے ذہن کے تصورات میں آنے والے بغیر حروف و اصوات کے مطالب ہیں۔
نفس انسانی کو معتدل بنانے کے بعد ماوراء خلقت میں برائی اور اس سے بچنے کا شعور ودیعت فرمایا۔ چنانچہ تمام زندہ موجودات کے تحت الشعور میں اس کی بقا و ارتقا سے مربوط تمام باتوں کو تکمیلِ خلقت کے بعد اس کے ماوراء میں ودیعت فرمایا ہے۔ جسے ہم فطرت کہتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ روم آیت۳۰۔
شمس و قمر لیل و نہار اور ارض و سما کے ساتھ قسم کھانے کے بعد اس نفس کی قسم کھائی جس کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس میں خیر و شر، پاکیزگی و پلیدی، فسق و فجور اور تقویٰ کی سمجھ ودیعت فرمائی۔ اس نفس کے لیے اچھائی اور برائی کوئی ناشناس چیزیں نہیں ہیں۔ نفس انسانی ان چیزوں سے آشنا ہے۔ اسی لیے نیکی کی طرف بلانے والے اور برائی سے روکنے والے کی آواز پہچان لیتا ہے اور اسے پذیرائی ملتی ہے۔اس شعور کے مالک نفس انسانی کی قسم! کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کو پاک رکھا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس نفس کے شعور کو دبائے رکھا، یعنی فطرت کی آواز کو دبایا۔قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا
یہ آیت مذکورہ قسموں کا جواب ہے۔ کامیاب ہے وہ شخص جس نے نفس کو اپنی فطرت کی حالت پر بچائے رکھا۔ جیسے اللہ نے اسے شفاف خلق فرمایا تھا اسی طرح شفاف رکھا۔ فطری تقاضوں کے منافی میل کچیل کو آنے نہیں دیا۔ چونکہ فطرت کے خلاف بیرونی منفی دباؤ نہ آئے تو فطرت انسان کی سو فیصد درست راہنمائی کرتی ہے اور فطرت رسول باطنی اور حجت خدا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 184)
تزکیہ نفس، بعثت انبیاء کا ایک بنیادی ہدف
کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ﴿بقرہ:۱۵۱﴾ؕۛ
۔جیسے ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
یُزَکِّیۡکُمۡ:(ز ک و) لغوی معنی نمو و فزونی ہے۔ تزکیہ یعنی پاک کرنا اور تربیت کے ذریعے ارتقائی منازل سے گزارنا۔
۲۔ وَ یُزَکِّیۡکُمۡ تزکیہ یعنی فکری و عملی خبائث سے پاک کر کے ارتقائی منازل کی طرف لے جانا۔
اس کا تعلق فکری، عملی، ظاہری، باطنی، مادی، عقلی، جسمانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی اور سماجی امور سے ہوگا تاکہ ان تمام میدانوں میں انسانوں کو اخلاقی اور انسانی اقدار کا مالک بنایا جائے اور ان کے ظاہر و باطن کو سدھارا اور سنوارا جائے، جس سے انسان کو حیات ابدی اور جاوداں زندگی مل جاتی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ {۸ انفال : ۲۴}
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 432)
وَ مَنۡ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفۡسِہٖ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿فاطر:۱۸﴾
اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔
وَ مَنۡ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفۡسِہٖ: جو اللہ کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو گناہ کی پلیدی سے پاک کر دیتا ہے، اس کا فائدہ خود اسی کو پہنچتا ہے۔ اگر کوئی ہستی انسان کو پاکیزگی کی دعوت دیتی ہے تو یہ دعوت اس انسان کے حق میں ہوتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 205)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿حشر:۱۸﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (روز قیامت) کے لیے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ یقینا اس سے خوب باخبر ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ: اتَّقُوا پرہیز کرو۔ بچاؤ کرو اللہ سے یعنی اللہ کے عدل سے۔ لا نخاف الا عدلہ۔۔۔۔ (بحار ۹۱: ۱۰۷۔ امیر المومنین (ع) سے مروی دعا) ہم صرف اللہ کے عدل سے ڈرتے ہیں۔ جیسا کہ ہر مجرم عدل و انصاف سے ڈرتا ہے۔ ورنہ اللہ خود ارحم الراحمین ہے لیکن اللہ کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ نیک اور برا برابر نہ ہو لہٰذا اللہ کے عدل سے ڈرنے کا حکم ہے۔ اللہ کے عذاب سے ڈرو۔ عذاب بھی عدل کا ایک تقاضا ہے۔
۲۔ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ: ہر نفس، ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے روز قیامت کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ وَ لۡتَنۡظُرۡ اپنے اعمال، اپنی ہر جنبش پر نظر رکھنی چاہے۔ ہر وقت اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ تقویٰ کے بعد محاسبہ نفس کا مرحلہ آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں محاسبہ، تقویٰ کا لازمہ ہے۔ جب انسان آگاہ اور ہوشیار ہوتا ہے اور خطرات سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائے گا۔
۳۔ لِغَدٍ: قیامت کو غد کل سے تعبیر فرمایا کہ قیامت ایسی ہے جیسے آج کے بعد کل ہے۔ یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ زمانے میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ آگے کل ہر صورت میں آنے ہی والا ہے۔ اسی طرح قیامت ہے کہ جس نے ہر صورت میں آنا ہے۔ جس طرح یہ نہیں ہو سکتا آج کے بعد کل نہ آئے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں قیامت نہ آئے۔
۴۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ: دوبارہ تقویٰ کا حکم تاکید کے لیے ہے چونکہ تقویٰ کو انسان کی سرنوشت و تقدیر میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ تقویٰ مقام محاسبہ سے مربوط ہے کہ کیا عمل اخلاص کے ساتھ صادر ہوا ہے؟ جب کہ شروع میں جس تقویٰ کا حکم دیا وہ اعمال کی بجا آوری سے متعلق ہے۔
اہم نکات
۱۔ فکر مستقبل ہر عاقل کا شیوہ ہے۔
۲۔ خطرات سے بچاؤ کا اہتمام عقلی تقاضا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 125)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button