رمضان المبارکمقالہ جات و اقتباسات

عیدالفطر کی اہمیت

مولف :علامہ مفتی جعفر حسینؒ
ہر قوم و ملت میں کوئی نہ کوئی دن ایسا ضرور ہوتا ہے جو کسی تاریخی پس منظر کی وجہ سے یاد گار حیثیت رکھتا ہے اور وہ اسے اپنے نقطہ نظر سے مناتے ہیں اور وہ اسے اپنے نقطہ نظر سے مناتے ہیں اور اس میں سرور و مسرت کا مظاہرہ کرتے ہیں چناچہ جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتش نمرود سرد ہوئی اوربھڑکتے ہوئے شعلوں میں سے زندہ و سلامت نکل آئے، وہ دن ان کے ماننے والوں کے لیے عید کا دن قرار پایا۔
اور جس دن حضرت یونس علیہ السلام شکم ماہی کے زنداں سے رہا ہوئے وہ دن ان کی قوم کے لیے عید کا دن قرار پایا۔
اورجس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت پر مائدہ نازل ہوا وہ ان کے لیے عید کا دن قرار پایا چناچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء تکون لنا عیدا‘‘
’’ اے ہمارے پروردگار۔! تو ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر جو ہمارے لیے عید قرار پائے‘‘۔
(سورہ مائدہ 114)
اسی طرح اسلام میں بھی مختلف یادگاروں کے سلسلے میں متعدد عیدیں منائی جاتی ہیں جن میں سے عید ضحیٰ اور عید فطر زیادہ شہرت رکھتی ہیں عید اضحیٰ اس بے مثال قربانی کی یاد ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان گاہ منیٰ میں پیش کی تھی۔ اور عید الفطر ماہ مبارک رمضان کے اختتام پر فریضہ صیام سے عہدہ براء ہونے کے شکریے میں منائی جاتی ہے اس عید کی مسرت کو ہمہ گیر بنانے کے لیے اسلام نے ہر ذی استطاعت پر ایک مخصوص مقدار میں زکوٰۃفطرہ واجب کردی ہےاس ہدایت کے ساتھ کہ نماز عید سے قبل مستحقین تک پہنچا دی جائے، تاکہ وہ بھی عید کی مسرتوں میں دوسروں کے ساتھ شریک ہوسکیں۔اور یہ اسلام کی حکیمانہ موقع شناسی ہے کہ اس نے عید الفطر کے موقع پر غرباء کی اعانت کو ضروری قرار دیا ہے اس لیے کہ تیس دن بھوک پیاس میں گذارنے اور فاقہ کشی کی تکلیف سے آشنا ہونے کے بعد غریبوں کے دکھ درد کا احساس اور ان سے ہمدردی کا جذبہ ابھر آتا ہےجوغریبوں اور ناداروں کی اعانت کا محرک ہوتا ہے۔
انسان بطیب خاطر اس مختصر مالی قربانی کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ ادائے فطرہ کے بعد دوگانہ عید سے اس دن کا افتتاح کیا جاتا ہے جس میں اہل شہر مجتمع ہو کر اجتماع شان ، ملی تنظیم اور اسلام اخوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پھر خطبہ عید پڑھا جاتا ہے جو تحمید و تقدیس، درود وسلام، پند نصائح اور سورہ قرآنی پر مشتمل ہوتا ہے اس کے بعد مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ مصافحہ و معانقہ، سلام و دعا اورمیل ملاقات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اسی مسرت افزاء ماحول میں یہ دن تمام ہوجاتا ہے ۔
یہ اسلامی تہوار ہے جس کی مسرت میں سنجیدگی، کیف میں شائستگی اور لطف و سرور میں تہذیب کو سمو دیا گیا ہے اور اس کے آداب و رسوم میں اعلیٰ اخلاقی مقاصد کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے۔
جس دن کی ابتداء نماز فریضہ صبح کے علاوہ زکوٰۃو نماز اور استماع خطبہ سے ہو اور اس کے لمحات میل ملاقات اور رنجشوں اور کدورتوں کو دور کرنے میں صرف ہوں وہ دن یقینا دل میں ایک مسرت آمیز طمانینت کا احساس پیدا کرے گا اور نیکی کے جذبات کو ابھارے نیک کرداری اور خدا پرستی اور قلب و روح کی تطہیر کا سامان کرے گا۔
اور حقیقی عید یہی ہے کہ انسان اپنے قلب و ضمیر کو پاک و صاف کرے، گناہوں سے دامن بچائے اور برائیوں سے محفوظ رہے چناچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے۔
’’انما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ و کل یوم لایعصی اللہ فیہ فھو عید‘‘
’’عید صرف اس کے لیے ہے جس کے روزوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اوراس کے قیام (نماز) کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ اور ہر وہ دن جس میں اللہ کی معصیت نہ کی جائے عید کا دن ہے‘‘۔
( صحیفہ کاملہ سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button