اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

حر بن یزید ریاحی رضوان اللہ تعالی علیہ

حر بن یزید ریاحی کے نام سے معروف حضرت امام حسین علیہ السلام کے جانثار ہیں جن کا مکمل نام حُرّ بْن یَزید بْن ناجیہ تَمیمی یَرْبوعی ریاحی، ہے۔واقعہ کربلا سے پہلے ایک سپہ سالار کی حیثیت سے ابن زیاد کی جانب سے حضرت امام حسین ؑ ے کارواں کو کوفہ آنے سے روکنے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔لہذا وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ عازم سفر ہوا۔
عاشورا سے پہلے
حر کوفہ کے مشہور ترین جنگی دلاوروں میں سے تھے۔بعض منابع نے اشتباہ کی وجہ سے انہیں عبید اللہ بن زیاد کے شُرطہ ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے [5] پس اس بنا پر وہ صاحب شرطہ کے عنوان سے نہیں بلکہ وہ ایک فوجی منصب کے حامل تھے اور انہیں عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے تمیم و ہمْدان کے جوانوں پر مشتمل فوج کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین(ع) کو روکنے کیلئے مامور کیا گیا۔آپ کے فوجی عہدے دار ہونے کے احتمال کی مزید تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ کوفہ کی 60 سالہ زندگی میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا ذکر نہیں آیا ہے اور وہ سیاست سے کسی قسم کا سروکار نہیں رکھتے تھے ۔
غیبی آواز کا سننا
خود حر روایت کرتے ہیں کہ جب میں قصر ابن زیاد سے باہر نکلا تا کہ حسین کو روکنے کیلئے سفر کا آغاز کروں تو میں نے تین بار اپنے پیچھے سے ایک غیبی ندا سنی کہ جو مجھے کہہ رہی تھی:
اے حرّ! تہیں جنت کی بشارت مبارک ہو.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کسی کو اپنے پیچھے نہ پایا اور میں نے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا : یہ کیسے جنت کی بشارت ہو سکتی ہے جبکہ میں امام حسین سے جنگ کرنے کیلئے جا رہا ہوں ۔
اس نے اس بات کو ذہن نشین کیا یہاں تک کہ اس نے اس بات کو حضرت امام حسین کے سامنے بیان کیا تو امام نے کہا :تو نے حقیقت میں نیکی اور خیر کی راہ کو پا لیا ہے۔ (نفس المہموم، ص۲۳۱)
امام حسین علیہ السلام کے روبرو
امام حسین(ع) ذی حُسم کے مقام پر حر کے روبرو ہوئے. تاریخی منابع کی تصریح کے مطابق حرّ جنگ کیلئے اعزام نہیں ہوئے تھے بلکہ صرف امام حسین کو ابن زیاد کے پاس لانے کیلئے مامور تھے اسی وجہ سے انہوں امام حسین کی قیام گاہ کے سامنے صف آرائی کی کس طرح سے سپاہ حر امام حسین کے سامنے آئے اس کی کیفیت کو ابومخنف نے حضرت امام حسین کےساتھ ہمراہی کرنے والے بنی اسد قبیلے کے افراد سے یوں نقل کیا ہے:
جب کاروان امام حسین(ع) نے شراف سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے دور سے دشمن کے لشکر کا مشاہدہ کیا تو امام(ع) اپنے ساتھیوں سے استفسار کیا:یہاں نزدیک کوئی پناہ گاہ ہے جہاں ہم پناہ لیں اور انہیں اپنے پشت سر قرار دیں تا کہ ایک طرف سے انکے ساتھ مقابلہ کر سکیں ؟انہوں نے جواب دیا ہاں !بائیں طرف ایک منزل بنام ذو حُسم ہے۔
پس امام نے بائیں طرف سفر کا آغاز کیا جبکہ دشمن نے بھی اسی طرف کا رخ کیا لیکن امام حسینؑ ان سے پہلے اس مقام پر پہنچ گئےاور انہوں نے اپنے خیام نصب کر دئے ۔
حر بن یزید ریاحی اور اسکے ساتھی ظہر کے وقت پیاس کے عالم میں وہاں پہنچے اور انہوں نے امام حسین ؑ کے سامنے خیام نصب کئے اور انکے سامنے صف آرائی کی ۔ انکے اس دشمنانہ رویے کے باوجود امام حسین ؑ نے ان سے صلح آمیز رویہ اپنایا۔امام نے اپنے ساتھیوں کے حکم دیا کہ انہیں پانی پلائیں ۔حر نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی آپ نے اسے قبول فرمایا ۔حر نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ۔امام نے اسے بتایا کہ مجھے کوفہ کے اہالیان نے دعوت دی ہے میں انکے بلانے پر یہاں آیا ہوں نیز کوفیوں کے مسلسل لکھے ہوئے خطوط سے آگاہ کیا اور انکی پریشانی کا بتایا کہ وہ اپنے کئے پر نادم ہیں ۔
حر نے بتایا کہ وہ ان خطوط سے بے خبر ہے۔وہ اور اسکے ساتھ آنے والوں میں کوئی آپ کو خطوط لکھنے والوں میں سے نہیں ہے ۔ہمیں کہا گیا ہے کہ آپکو کوفے کے حاکم پاس لے کر جائیں۔ امام نے جب اپنے اصحاب کے ساتھ سفر شروع کرنے کا ارادہ کیا تو حر کوفے جانے اور آپکے واپس حجاز جانے میں رکاوٹ بنا ۔
حر کی جانب سے مسلسل یہ اصرار تھا کہ میں آپ کو کوفہ لے جانے کے لئے مامور ہواہوں حضرت نے حر کے اس اڑیل رویہ کو دیکھتے ہوئے فرمایا:
"ثکلتک امّک "
تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے !تو مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟ حر یہ جملہ سن کر کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس کے بعد اس طرح گویا ہوا :
"اما واللہ لو غیرک من العرب یقولھا لی و ھو علی مثل تلک الحالۃ الّتی انت علیھا ما ترکت ذکر امّہ باثکل ان اقولہ کائناً ما کان و لکن واللہ مالی الی ذکر امّک من سبیل الّا باحسن ما یقدر علیہ ” (ارشاد شیخ مفید،244)
خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ کوئی عرب شخص مجھے یہ جملہ کہتا اور وہ ایسی حالت میں ہوتاجس میں آپ ہیں میں اس کی ماں کا تذکرہ انہی الفاظ میں کرتا لیکن خداکی قسم !آپ کی ماں بڑی عظیم المرتبت ہیں اور مجھے حق نہیں کہ ان کو ذکر خیر کے علاوہ یاد کروں ”
نماز کے بعد یہ دوسرا موقعہ تھا کہ جب حر نے دامن تہذیب کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہ دیا۔
حر نے امام کو تجویز دی کہ وہ کوفے اور مدینے کے علاوہ کسی اور راستے کا انتخاب کریں تا کہ وہ اس سلسلے میں ابن زیاد سے نئے دستور کو طلب کر سکے ۔حر نے امام سے کہا: آپ سے جنگ کرنا میرا وظیفہ نہیں ہے لیکن مجھے کہا گیا ہے کہ میں آپ سے کسی صورت میں جدا نہ ہوں یہاں تک کہ میں آپ کو کوفہ لے کر جاؤں۔پس اگر آپ میری ہمراہی سے گریزاں ہیں تو آپ ایسا راستہ اختیار کریں جو آپ کو نہ کوفہ لے کر جائے اور نہ مدینہ ہی لے کر جائے ۔جب تک میں عبید اللہ بن زیاد کو خط لکھتا ہوں اگر آپ چاہتے ہیں تو یزید بن معاویہ کو خط لکھیں تا کہ یہ معاملہ صلح پر ختم ہو جائے ۔میرے خیال میں یہ میرا اپنے آپ کو جنگ و جدال میں ملوث کرنے کی نسبت زیادہ بہتر ہے ۔اس کے بعد امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ عُذیب الہجانات اور قادسیہ کا راستہ اختیار کیا نیز حر بن یزید امام کے ساتھ رہا ۔ (طبری، ج۵، ص۴۰۲ـ۴۰۳)
حر اگرچہ حر بن یزید ریاحی امام سے جنگ کرنے کیلئے مامور نہیں تھا لیکن وہ شروع سے ہی امام حسین ؑ کو ممکنہ جنگ کی تنبیہ کرتا رہا یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ اس نے امام کو تنبیہ کی کہ اگر جنگ ہوئی آپ یقینا قتل ہو جائیں گے ۔ جب موقع ملتا پاتا تو امام سے خدا کیلئے آپ اپنی جان کی حفاظت کریں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپ کا قتل ہونا یقینی ہے ۔لیکن امام نے اسے اس شعر میں جواب دیا:خدا کی راہ میں موت سے کوئی ڈر و خوف نہیں ہے ۔
عذیب کے مقام پر کوفہ سے چار افراد آپ سے ملحق ہونے کیلئے آئے ۔حر نے انہیں گرفتار کرنے یا انہیں کوفہ واپس بھیجنے کا ارادہ کیا لیکن امام اس ارادے میں مانع بنے ۔انہوں نے کوفے کے غیر معمولی حالات اور آپ کے سفیر قَیس بن مُسہرصیداوی کے شہید ہونے کی خبر دی نیز آپ سے جنگ کرنے کیلئے کوفے میں ایک بہت بڑے لشکر کی تیاری خبر دی ۔
دو محرم کو حر کی امام کے ساتھ ہمراہی اختتام کو پہنچی۔دونوں گروہ نینوا نامی جگہ پر پہنچے تھے کہ عبید اللہ کا نامہ حر بن یزید ریاحی کو ملا جس میں اسے دستور دیا کہ امام حسین سے سختی کے ساتھ پیش آئے اور اسے کسی صحرا اور بیابان میں پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرے ابن زیاد نے حر کو لکھا:جیسے ہی تمہیں میرا نامہ ملے تم حسین کے ساتھ سخت گیری سے پیش آؤ اور اسے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرو جہاں پانی وغیرہ نہ ہو۔میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلسل تمہارے ساتھ رہے تا کہ وہ مجھے تمہاری بارے میں خبر دے کہ تم نے میرے دستور کے مطابق عمل کیا ہے۔والسلامحر نے یہ خط امام کی خدمت میں پڑھ کر سنایا۔امام نے کہا ہمیں نینوا یا غاضریہ میں پڑاؤ ڈالنے دو۔(ارشاد شیخ مفید ،ج۲، ص۸۱ـ۸۴)
عبید اللہ بن زیاد کی جاسوسی کی وجہ سے حر بن یزید ریاحی سختی میں تھا لہذا اس نے امام کو روک دیا اور امام کی درخواست کے باوجود انہیں نینوا کے پاس پڑاؤ ڈالنے سے منع کیا ۔امام نے مجبور ہو کر کربلا کے میں اپنے خیام نصب کئے ۔ بعض روایات کی بنا پر عقر گاؤں کے پاس فرات کے قریب خیام نصب کیے ۔ زہیر بن قین نے امام سے کہا :خدا کی قسم ! جیسا میں دیکھ رہا ہوں کہ اس گروہ کے بعد آنے والوں کی نسبت اس گروہ سے ہمارے لیے جنگ کرنا آسانترہے ۔اپنی جان کی قسم!انکے بعد آنے والوں کے ساتھ ہم میں جنگ کرنے کی سکت نہیں ہے ۔ امام نے جواب دیا ہاں درست کہہ رہے ہو لیکن میں جنگ میں پہل نہیں کرنے والا نہیں ہونگا۔
حضرت امام حسین حر کے ساتھ چلتے ہوئے کربلا پہنچے تو حر کے لشکر کے ان کا راستہ روک لیا اور یہیں فرات کے کنارے پڑاؤ ڈالیں۔ امام نے کہا اس جگہ کا نام کیا ہے ؟کہا : کربلا۔ امام نے یہیں پڑاؤ ڈال دیا ۔حر کے ساتھیوں نے ایک طرف خیام نصب کر دیے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے پڑاؤ ڈالنے پر حر نے ابن زیاد کو خط لکھا اور ان کے کربلا میں ٹھہرنے کی خبر دی ۔
توبہ حرّ
حر نے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ سخت اقدام کیا تھا۔حتیٰ کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ(س) کی عزت و احترام کی جانب اشارہ کیا۔عاشور کے عمر بن سعد نے اپنے لشکر کو آراستہ کیا اور لشکر کے سپہ سالار مقرر کیے۔ اس نے حر بن یزید ریاحی کو بنی تمیم اور بنی ہمدان کی سپہ سالاری دی۔لشکر امام حسین ؑ سے جنگ کیلئے تیار ہو گیا۔حر نے جب لشکر کو امام حسین ؑ سے جنگ کیلیے بالکل مصمم دیکھا تو وہ عمر بن سعد کے پاس آیا اور اس سے کہا: کیا تو اس شخص حسین بن علی علیہ السلام سے جنگ کا ارادہ رکھتا ہے ؟عمر بن سعد نے جواب میں کہا: ہاں، خدا کی قسم ! اس جنگ کی آسان ترین صورت سروں کا گرنا اور ہاتھوں کا کٹنا ہو گی۔حر نے کہا: مگر تمہاری تجویزیں تو خوش آیند نہ تھیں؟عمر بن سعد نے جواب دیا : اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں قبول کر لیتا لیکن تمہارے امیر نے اسے قبول نہیں کیا۔
یہ سننا تھا کہ حر عمر کے لشکر کو چھوڑ کر لشکر کے ایک طرف کھڑا ہوگئے اور آہستہ آہستہ امام حسین ؑ کی فوج کی طرف آنا بڑھنے لگے۔لشکر عمر بن سعد کے ایک شخص مہاجر بن اوس نے کہا :اے حر!حملہ کرنا چاہتے ہو؟حر نے کپکپاتےجسم کے ساتھ کوئی جواب نہیں دیا۔مہاجر حر کی یہ حالت دیکھ کر شک میں پڑ گیا اور حر سے یوں مخاطب ہوا:خدا کی قسم!میں نے کبھی کسی جنگ میں تمہارا یہ حال نہیں دیکھا ۔ مجھ سے کوئی پوچھتا کہ کوفے کا شجاع ترین شخص کون ہے تو میں تمہارا نام لیتا ۔میں تمہارا کیا حال دیکھ رہا ہوں؟
حر نے جواب دیا : میں اپنے آپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔حر نے یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام حسین ؑ کے خیمہ کی طرف چلے گئے۔کہتے ہیں کہ وہ بہت پریشانی کے عالم میں امام حسین ؑ سے ملحق ہوئے اور اسےاس بات یقین نہیں تھا کہ کوفی معاملے کو جنگ تک لے جائیں گے وہ معافی کا طلبگار ہوئے۔
حرّ ان احساسات اور جذبات کو لئے خیمہ سر کار سید الشہداء کی طرف بڑھا قریب پہنچ کر مرکب سے اترا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پس گردن باندھ لیا جیسے ہی امام کے قریب پہونچا اپنے کو زمین پر گرا دیا اور خاک پر لوٹنے لگا اور دعا کے یہ فقرے زبان پر تھے۔
"اللھم الیک انبت فتب علی "
خدایا!میں تیری بارگاہ میں معافی کاطلبگار ہوں میری توبہ کو قبول فرما :
"فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک "
میں نے تیرے خاص بندوں کے دلوں کو دکھایا ہے اور تیرے نبی کی بیٹی کےلخت جگر کا دل دکھایاہے ، مولانے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا:
"ارفع راسک ”
حرّ اپنے سر کو اٹھاؤ !اس نے بصد شرمندگی عرض کیا:فرزند رسول میں وہ شخص ہوں کہ جس نے آپ کو مدینہ واپس جانے نہیں دیا اور آپ پر تمام راستوں کو بند کردیا،کیاواقعاً میرے جیسے گنہگار کے لئے بھی توبہ کی گنجائش ہے ؟
امام روؤف نے جواباً ارشاد فرمایا:
” نعم ،یتوب اللہ علیک "
ہاں تمہارے لئے بھی امکان توبہ ہے اپنے سر کو زمین سے اٹھاؤاللہ نے تمہاری توبہ کو قبول کر لیا ہے۔
امام نے اس کیلئے استغفار کی اور فرمایا تو اس دنیا اور آخرت میں آزاد ہو۔( اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳)
لشکر سے خطاب
حر نے توبہ کرنے کے بعد لشکر کے سامنے کو ان الفاظ میں نصیحت کی:
امام حسین نے جو تجاویز تمہیں دیں اس بات کا باعث نہیں بنیں کہ خدا تمہیں اس جنگ سے دور رکھے؟ حر نے اسی بات کی عمر بن سعد دوبار کہی تو عمر نے کہا :میں حسین سے جنگ کیلئے تیار ہوں اگر اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہوتا میں اسے اختیار کرتا ۔یہ سن کر حر لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:
اے اہل کوفہ! تمہاریں مائیں تمہارے غم میں روئیں!اس نیک شخص کو دعوت دی اور اسے کہا کہ ہم تمہاری رکاب میں جنگ کریں گے.
اب جب وہ تمہارے پاس آ گیا ہے تو اب اس کی مدد سے تم نے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔اسکے سامنے جنگ کیلئے صف باندھے کھڑے ہو اور اس کے قتل کے در پے ہو،اسے گھیرے میں لے لیا ہے، اس کے نفس کو محبوس کردیا ہے اور تم نے اس قدر وسیع و عریض زمین پر کہیں جانے سے اسے روک دیا ہے، اسے اس طرح نرغے میں لے لیا ہے کہ وہ نہ تو اپنی مرضی سے کسی چیز کو انجام دے سکتا ہے اور نہ اپنے ضرر کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے،اس فرات کا پانی اس پر ،اسکے خاندان اور اصحاب پر بند کر دیا ہے جس سے یہود ،نصارا اور مجوسی پانی رہے ہیں،خنزیر اور کتے پانی پر(کھیل رہے )ہیں ۔انکی تشنگی کا یہ عالم ہے کہ تشنگی نے انہیں بے حال کر دیا ہے۔تم نے محمد اور اسکے خاندان کی کیا پاسداری کی ہے؟پیاس کے دن(قیامت کے روز) خدا تمہیں سیراب نہ کرے!۔یہ سننا تھا کہ لشکر نے اسکی جانب تیر اندازی شروع کر دی۔ حر پیچھے ہٹے اور امام حسین کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔
شہادت
حر کی توبہ کو زیادہ وقت نہیں گزرا ۔روایت کی بنا پر اس نے امام حسین ؑ سے تقاضا کیا چونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے امام پر خروج کیا لہذا اسے جنگ کی اجازت دی جائے اور آپکے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر دے۔پس وہ توبہ کے بعد بلا فاصلہ راہی میدان ہوئے۔عمر بن سعد اور اسکے لشکر کو دوبارہ نصیحت کرنے اور جواب میں انکی طرف سے بد اخلاقانہ رفتار دیکھ کر بالآخر چند مرتبہ حملہ آور ہوئے اور درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔
حر نے بڑی بہادری سے جنگ کی ۔ان کا گھوڑا زخمی ہوگیا۔ ان کے کانوں اور پیشانی سے خون جاری تھا لیکن وہ مسلسل رجز خوانی کرتے ہوئے دشمن پر حملے کر رہے تھے یہانتک کہ انہوں نے 40 افراد کو قتل کیا۔ پیادہ لشکر نے مل کر ان پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا ۔کہا گیا ہے کہ ایوب بن مسرح اور ایک کوفی سوار ان کی شہادت میں شریک تھے۔
لیکن بعض نے کہا ہے کہ ظہر سے کچھ پہلے حبیب بن مظاہر کی شہادت کے بعد زہیر بن قین اور حر بن یزید ریاحی اکٹھے میدان جنگ میں گئے دونوں ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے جب ایک دشمن کے نرغے میں آجاتا تو دوسرا اسے چھڑانے کیلئے مدد کو آتا لیکن دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہے یہانتک کہ حضرت حر شہید ہوئے اور زہیر بن قین واپس لوٹ آئے ۔ اصحاب امام حسین ؑ اسکے جنازے کو لائے تو امام حسین ؑ انکی میت کے سرہانے بیٹھ گئے اور اسکے چہرے سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرما رہے تھے :
"انت الحرّ کما سمتک امّک حرّاً فی الدنیا و سعید فی الآخرۃ ِ” ( نفس المھموم،ص:196)
اے حر!تو دنیا میں آزاد ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا تھا اور آخرت میں نیک بخت اور خوش نصیب ہے۔
امام حسین ؑ نے رومال سے اس کے سر کو باندھ دیا۔
تم ایک حُرؑ کے مقدر کی بات کرتے ہو
نہ جانے کتنوں کی قسمت بنارہیں ہیں حسینؑ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button