امیدِ موعود کا عقیدہ اور منتظرین کی ذمہ داریاں

عقیدہ موعود کا مطلب ایک نجات دہندہ پر یقین رکھنا ہے جو انسانوں کو بچانے، انہیں آزاد کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے آخری زمانے میں آئے گا۔ منجی موعود اور نجات دہندہ کا تصور مختلف اقوام اور ملتوں میں موجود مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے تحت مختلف اور متنوع شکلوں میں بیان ہوا ہے لیکن تقریباً سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ ایک نجات دہندہ آئے گا اور انہیں ظلم و جبر اور جابر حکمرانوں کی غلامی کی زنجیر سے آزاد کرے گا اور عدل و انصاف سے سرشار معاشرے کو تشکیل دے گا۔ ہندو، وشنو کی دسویں تجلی یا کالکی کا انتظار کر رہے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والے پانچویں بدھ کے ظہور کے منتظر ہیں؛ یہودی، مسیح (ماشیح) کو منجی مانتے ہیں؛ عیسائی فارقلیط کی تلاش میں ہیں، جس کے آنے کی خوشخبری حضرت عیسی مسیح ؑنے دی ہے اور مسلمان حضرت مہدیؑ کے ظہور پر یقین رکھتے ہیں۔
عقیدہ موعود مختلف ادیان میں مختلف شکلوں میں پیش کیا گیا ہے اور اسے ان کے بنیادی عقائد میں سے ایک سمجھا گیا ہے۔ بعض محققین کے مطابق، شاذ و نادر ہی کوئی مذہب یا قوم ایسی ہو جو ایک منجی موعود پر یقین نہ رکھتی ہو۔
تمام اسلامی فرقے بھی آخر الزمان میں منجی موعود کے ظہور پر ایمان رکھتے ہیں، اگرچہ اس کی ذاتی نوعیت اور خصوصیات میں اختلاف ہے۔ اہل سنت پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے مہدی موعودؑ کے ظہور پر یقین رکھتے ہیں، جو مستقبل میں آئے گا، تاہم، ایک زندہ اور موجود امام پر ایمان شیعہ اور بعض اہل سنت علماء کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، لہذا، شیعہ اور اہل سنت، پیغمبر اکرمؐ کی متواتر احادیث کی وجہ سے، منجی موعود کے آنے پر راسخ عقیدہ رکھتے ہیں جو آکر دنیا سے ظلم و جور کو ختم اور عدل انصاف سے پر کر دے گا۔
اسلام میں منجی موعود کے تصور کو قرآنی آیات سے سمجھا جاسکتا ہے جن میں سورہ توبہ آیت 33، سورہ فتح آیت 28، سورہ صف آیت 9، سورہ انبیاء آیت نمبر 105، سورہ نور آیت 55 اور سورہ قصص آیت نمبر 6 شامل ہیں۔
اس کے علاوہ احادیث نبوی میں منجی موعود کا نام اور خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ نیز ان کے ظہور سے پہلے رونما ہونے والے واقعات، ظہور کے ثمرات اور نتائج بھی ذکر ہوئے ہیں۔( جمعی از نویسندگان، گونہشناسی اندیشہ منجی موعود در ادیان، 1389شمسی، ص227)
نیز شیعہ روایات میں بھی آخر الزمان کے منجی موعود کی خصوصیات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔( بورونی، علی، ماشیح، مسیحا، مہدی در ادیان ابراہیمی، انتشارات مرغ سلیمان، چاپ اول، سال 89، ص72)
منتظرین کی ذمہ داریوں میں معاشرے میں حق و انصاف، قانون، عدل اور حق الناس کی رعایت کرنا، جھوٹی خبروں اور سائبر اسپیس میں احتیاط برتنا، اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے کوشش کرنا شامل ہے، تاکہ وہ امام زمانہؑ کی ظہور کے لیے حقیقی معنی میں تیار ہو سکیں۔
امام زمانہؑ کے منتظرین کی ذمہ داریاں:
حق و انصاف پر عمل کرنا: منتظرین پر لازم ہے کہ وہ معاشرے میں عدل و انصاف کو فروغ دیں اور حق الناس کی رعایت کریں۔
قانون کی پاسداری: قانون اور عدالت کا احترام کرنا، منتظرین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے۔
سائبر اسپیس میں احتیاط: موجودہ دور میں سائبر اسپیس میں جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ عام ہے؛ منتظرین کو ایسی معلومات سے اجتناب کرنا چاہیے اور دوسروں کی آبرو ریزی سے بچنا چاہیے۔
سماجی برائیوں کا خاتمہ: منتظرین کو معاشرے میں موجود برائیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور نیکی کو فروغ دینا چاہیے۔
خود کی اصلاح: امام زمانہؑ کی ظہور کے لیے خود کو حقیقی معنی میں تیار کرنے کے لیے اپنے اندرونی اور باطنی اصلاح پر توجہ دینا ضروری ہے۔
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) سے روایت ہے:
"فرج (نجات) کا انتظار کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، کیونکہ اللہ عزّوجل کے نزدیک سب سے محبوب عمل فرج کا انتظار ہے۔”
(الخصال، شیخ صدوق، ص616)
فرج کا انتظار یعنی الٰہی عدل پر مبنی بابرکت حکومت کا انتظار، جو حضرت ولیّ عصر امام مہدی (عجل اللہ فرجہ الشریف) کی قیادت میں قائم ہوگی۔ جیسا کہ زیارت میں آیا ہے:
"اور میں تیرے (امام) پر توکل کرنے والا ہوں، تیرے ظہور کا منتظر ہوں، اور تیرے سامنے جہاد کے لیے منتظر و آمادہ ہوں۔”
(المزار، شہید اول، ص206)
فرج کا انتظار صرف آرزو کرنا نہیں ہے بلکہ زراعت کی مثال کی طرح ہے:
کسان پہلے زمین کو ہموار کرتا ہے، بیج بوتا ہے، پانی دیتا ہے اور پھر فصل کا انتظار کرتا ہے۔ فصل کی نوعیت اس کی محنت پر منحصر ہے۔
اسی طرح ایک دیندار شخص، جب وہ اللہ کے محارم سے پرہیز کرے اور نبی اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کے طریقے پر چلے، تو وہ گویا امام زمان (عج) کے ظہور کے لیے زمین ہموار کر رہا ہوتا ہے۔
لہٰذا، فرج کا حقیقی انتظار یہ ہے کہ ہم ظہور کے شرائط پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جیسے امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اور دیگر نیک اعمال۔
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"ہمارے قائم (عج) کے ان شیعوں پر خوشخبری ہو، جو ان کی غیبت میں ظہور کے منتظر ہوں، اور ظہور کے وقت ان کی اطاعت کریں، وہی اللہ کے دوست ہیں جنہیں نہ خوف ہے اور نہ غم۔”
(المزار، شہید اول، ص206)
🖤 عشاقِ امام مہدی (عج) 🖤