محافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف از نظر قرآن(حصہ اول)

حافظ سید محمد رضوی
مقدمہ
حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف پر اعتقاد رکھنا ان امور میں سے ہے جن پر امت مسلمہ کے مابین اجماع قائم ہے۔ بلکہ یہ ان بدیہیات دین میں سے ہے کہ جن پر کسی قسم کے اختلاف اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔آپؑ وہ ہستی ہے جو فخر عیسی ابن مریم ہیں ،آپؑ ہی کی ا مامت میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام نماز ادا کرینگے ۔ مہدی موعود وہ بابرکت ذات ہے جس میں سارے انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی تمام صفات جمیلہ موجود ہیں۔آپ ہی کے وجود مبارک کے توسط سے یہ گردش لیل و نہار اور کائنات اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ قائم و دائم ہے ۔ آپؑ ہی کے طفیل پوری مخلوق عالم رزق و روزی سے مالا مال ہورہی ہے ۔ اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا كہ دنیا میں ہر طرف معصیت کاروں اور خدا ناشناس افراد كی اكثریت ہے لیكن كائنات كا حسنِ نظام بتا رہا ہے كہ كوئی ایسی ہستی ضرور موجود ہے جس كی خاطر یہ دنیا سجی ہوئی ہے۔
دعائے عدیلہ میں اس بات كی طرف ان الفاظ میں اشارہ كیا گیا ہے:
و بیمنہ رزق الوریٰ و بوجودہ ثبتت الارض والسماء
ان كی (حجت خدا كی) بركت سے لوگوں كو رزق ملتا ہے اور ان كے وجود كی بنا پر زمین و آسمان قائم ہیں۔
(مفاتیح الجنان، دعائے عدیلہ )
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی احادیث کے مطابق قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا ظہور پرنور نہ ہوجائے اور ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر نہ دیں ۔
شیخ صدوق اپنی کتاب الاعتقادات میں اہلسنت برادران سے امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں روایت نقل کرتے ہیں کہ "انہ اذا خرج المھدی نزل عیسی بن مریم من السمآء فصلی خلفہ”جب امام مہدی علیہ السلام ظہور فرماہیں گےتو اس وقت حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام آسمان سے نازل ہونگے اور ان حضرتؑ کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔(اعتقادات ،ص64)
امام مہدیؑ قرآن مجید کی نظر میں
احا دیث کے مطابق بہت سی قرانی آیات حضرت صاحب العصر و الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف اور انکے ظہور کے متعلق بشارت دے رہی ہیں کیونکہ مسلم سی بات ہے کہ آخر الزمان میں الہی حکومت کی تشکیل جو کہ ایک بہت بڑا موضوع ہے اور تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی زحمتوں اور قربانیوں کا ثمرہ ہے۔
قرآن حکیم کے 114سورہ میں سے ۶۴ سوروں کی 106 آیتیں جو سید صادق الحسینی شیرازی نے اپنی کتاب المہدی فی القرآن میں نقل کی ہیں جن کا امام مہدی علیہ السلام ربط ہے۔
سورہ الحمد کی اس آیت "مالک یوم الدین "روز جزاء کا مالک ہے کے بارے میں صاحب تفسیر البرہان اور صاحب بحار الانوار صادقؑ آل محمد ﷺوآلہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ یوم الدین سے مراد قائم آل محمد ﷺوآلہ کے ظہور کا دن ہے۔
(البرہان فی تفسیر القرآن ج4 )
فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا
پس اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔(بقرہ60)
تفسیر نور الثقلین میں روایت ہے کہ جب امام مہدیؑ مکہ سے ظہور فرمائیں گے تو ایک منادی ندا دے گا کوئی طعام یا مشروب ساتھ نہ لے مہدیؑ کے پاس موسیٰ ؑ بن وعمران کا پتھر ہوگا اس میں چشمہ جاری ہوگا ۔پس جو بھوکا ہوگا وہ اس کا پانی پی کر اس کی بھوک ختم ہو جائے گی اور پیاسے کی پیاس ، ہیاں تک کہ آپ کوفہ کے قریب نجف پہنچیں گے ۔
(تفسیر نور الثقلین ، ج 1،ص 84)
الذین یومنون بالغیب (بقرہ ۲)
حضرت داود بن کثیر رقی امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیہ شریفہ الذین یومنون بالغیب کے بارے میں فرمایا: من اقر بقیام القائم انہ حق یعنی وہ لوگ کہ جو قائم علیہ السلام کے قیام اور ظہور کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہوں ۔
( تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب ج 1 ، ص 119)
لھم فی الدنیا خزی۔۔۔
ان کیلئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عزاب عظیم ہے ۔
( بقرہ :114)
صاحب مجمع البیان رقمطراز ہیں کہ لھم فی الدنیا خزی۔۔۔ سے مراد بیت المقدس کا دوبارہ اسلام کے قبضے میں آنا ہے یہ قیامت سے قبل امام مہدی ؑ کے قیام و حکومت میں ہوگا جب وہ جنگ کے بعد یہود و نصاریٰ کو رسوا کر کے قتل کر دیں گے۔
(مجمع البیان ،ج1 ، ص 357)
صاحب موسوعۃ الامام المھدی اپنی کتاب میں اس آیت کی ضمن میں ابن جریرؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ جب امام مھدی ؑ تشریف لائیں گے تو استنبول کو فتح کر کے انہیں ( رومیوں) کو قتل کر دیں گے چونکہ رومی بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو ویران کرنے کی کوشش کی تھی۔
و اذاابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن
اور جب ابراہیم ؑ کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا۔ (بقرہ۱۲۴ )
حافظ سلیمان قندوزی حنفی اپنے اسناد کیساتھ مفضل بن عمر سے روایت کی ہے، وہ بتاتے تھے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے اس آیہ شریفہ( و اذاابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن) کے بارے میں سوال کیا تو حضرتؑ نے فرمایا: یہ وہ کلمات تھے کہ جنہیں حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے حاصل کیا اور ا للہ تعالی نے انہی کلمات کی بنا پر ان کی توبہ قبول کی اور اس انداز سے فرمایا: اے میرے پروردگار میں تجھ سے بحق محمد و علی فاطمہ و حسن و حسین صلوات اللہ علیھم اجمعین چاہتا ہوں کہ میری توبہ قبول فرما اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ میں نے عرض کیا ہے اے فرزند رسول یہاں پروردگار کی فاتمھن سے کیا مراد ہے ؟فرمایا یعنی بارہ اماموں کو قائم کے ساتھ کامل کردیا کہ جن میں سے نو امام حسین کی اولاد میں سے امام ہیں۔(المھدی فی القرآن ، ص10)
و لکل وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا
اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو،تم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کرے گا۔
علامہ شیخ محسن علی نجفی نے الکوثر فی تفسیر القرآن میں سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۴۸کے ذیل میں یوں تحریر کرتے ہیں کہ یہ آیت اصحاب امام مہدی کے بارے میں ہے۔شیعہ امامیہ کی متعدد روایات میں وارد ہو ا ہے کہ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انصار ہیں۔
( الکوثر فی تفسیر القرآن،،ج1 ص427)
جبکہ علامہ محمد حسین طباطبائی رحمہ اللہ اپنی تفسیر "المیزان فی تفسیر القرآن ” میں فرماتے ہیں :
اِنَّہٗ مِنَ التَّطْبِیْقِ وَ الْجَرْیِ
یہ آیت امام زمانہ قائم آل محمد ﷺوآلہ کے اصحاب و انصار پر بھی قابل تطبیق ہے۔
(تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن، ج1،ص 776)
صاحب الزام الناصب سورہ البقرہ کی اس آیت ان اللہ مبتلیکم بنھر کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آیت اصحاب طالوت کے بارے میں ہے جو بھوک و خوف میں مبتلا کئے گئے تھے بالکل اسی طرح اصحاب قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف بھی اس آزمائش میں مبتلا کئے جائیں گے ۔
(الزام الناصب ، ج1 ، ص 55)
ومن يطع الله والرسول فأولئك مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقا۔(سورہ نساء69)
تفسیر قمی میں آیت مذکورہ کے متعلق رقمطراز ہے کہ "النبیین "سے مراد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں” و الصدیقین "سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ” الشھدأ "سے مقصود امامان الحسن و الحسین علیہما السلام ہیں” و الصالحین” سے مراد ائمہ طاہرین علیھم اجمعین ہیں "و حسن آولئک رفیقا "سے مراد مہدی آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔
(تفسیر قمی، ج1 ، ص 142,143)
امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی:
وَ مِن قَومِ مُوسٰٓی امَّة یَّھدُونَ بِالحَقِّ وَ بِہ یَعدِلُونَ۔(اعراف159)
اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جب قائم آل محمدؑ پشت کعبہ سے ظاہر ہونگے تو آپؑ کیساتھ اللہ تعالیٰ آپ ؑ کے 313 اصحاب کو بھیج دے گا جن میں سے (15) قوم موسیٰؑ کے مومنین، اصحاب کہف کے(7) افراد یوشع ؑ جناب موسیٰؑ کے جانشین، مومن آل فرعون ، سلمان فارسی ، ابودجانہ انصاری اور مالک اشتر ہیں ۔ یہ سب کے سب حضرت حجت ؑ کے 313 ساتھیوں میں شامل ہونگے۔ اور یہی اس آیت مجیدہ میں آگاہ کیا گیا ہے۔
(تفسیر عیاشی ج 2ص 32)
میزان الحکمت میں مذکور ہے کہ
الإمامُ الصّادقُ علیہ السلام: إِنَّ لِقِيَامِ القَائِمِ ث عَلاَماتٍ تكونُ مِنَ الله عز و جل للمؤمنينَ ، قلتُ محمّدُ بنُ مسلمٍ: وما هِيَ ، جَعَلني اللهُ فِداكَ ؟
قالَ: ذلكَ قولُهُ عز و جل وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ يعني المؤمنينَ قبلَ خروجِ القائمِ بِشَيْءٍ مِنَ الخَوْفِ و الجُوعِ و نَقْصٍ مِنَ الأمْوالِ و الأنْفُسِ و الَّثمَراتِ و بَشِّرِ الصّابِرينَ۔(بقرہ۱۵۵)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام :’’قائم آل محمدؑ کے ظہور کی کچھ علامتیں ہیں جو خدا نے مؤمنین کے لئے مقرر کردی ہیں‘‘محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں! وہ کون سی علامتیں ہیں؟‘‘ امامؑ نے فرمایا: ’’خداوندعالم کا یہ قول کہ ہم تم کو (یعنی مومنین کو قائم آل محمد ؑکے ظہور سے پہلے)کچھ خوف ،بھوک اور مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو ۔
(منتخب میزان الحکمت حدیث ۵۷۲ )
مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن :
یَومَئِذٍ یَّفرَحُ المُومِنُونَ بِنَصرِ اللّٰہِ۔۔۔(روم ۴،۵)
اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔ امام جعفر صادق ؑ سے مروی ہے کہ آخری امامؑ کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مومنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔
وَ يَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ* بِنَصْرِ اللَّهِ‏ عند قيام القائم عليه السلام
(البرہان فی تفسیر القرآن ج4، ص335)
حق کی کامیابی کا دن:
وَ یَمحُ اللّٰہُ البَاطِلَ وَ یُحِقُّ الحَقَّ بِکَلِمٰتِہ انہ علیم بذات الصدور
اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔
(شوریٰ24)
تفسیر نور الثقلین میں امام محمد باقر ؑ سے مروی ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ؑہیں کہ جو سینوں میں مخفی باتوں سے یقینا خوب واقف ہے۔ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔
(تفسیر نور الثقلین ج 4ص576)
دین حق:
ھُوَ الَّذِی ارسَلَ رَسُولَہ‘ بِالھُدٰی وَ دِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ ۔۔۔(فتح ۸۲)
وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔
حافظ قندوزی نے اپنے اسناد کیساتھ امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہؑ کا ظہور ہے جب آپ ظہور فرمائیں گے کوئی مشرک باقی نہیں ہوگا اور تمام کافروں کو قتل کیا جائے گا ۔
(المھدی فی القرآن ، ص47)
آیت اللہ کاظم قزوینی ؒ اپنی کتاب میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں امام ؑ سے لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ کا مطلب پوچھتے ہیں ۔ امام ؑ جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیام قائم ؑ کے وقت اس دین کو تمام ادیان پر غلبہ دےگا۔
علامہ کاظم قزوینیؒ سلیمان قندوزی کی روایت کو یوں لکھتے ہیں کہ امام صادق ؑنے فرمایا : بخدا ! اس آیت کی تاویل اس وقت آئے گی جب امام مہدیؑ قیام فرمائیں گے ۔اس وقت روئے زمین پر موجود ہر مشرک ( وکافر ) ان کے خروج کو ناپسند کرےگا اور ہر مشرک و کافر کو تہہ تیغ کیا جائے گا۔
(امام مہدیؑ ولادت سےظہور تک ، 2016 ،ص62،63)
پیغمبراکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین : اَطِیعُوا اللّٰہَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم ۔۔۔(نساء ۹۵)
اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔ رسالت مآب ﷺوآلہ نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور مسلمانوں کے پیشوا اور رہنما ہیں جن میں سے پہلے علی ابن ابی طالب ؑاور آخری امام مہدی ؑ ہیں۔
(المھدی فی القرآن ، ص 23)
اللہ کا وعدہ:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھم الۡفٰسِقُوۡنَ۔۔(نور ۵۵)
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں ۔
آیت اللہ کاظم قزوینی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ان آیات میں سے ہے جن کی تاویل اما م مہدی ؑ اور حکومت مہدی ؑ کی گئی ہے۔ (العرف الوردی فی اخبار المھدی، ص61)
نیز اس آیت کے بارے میں صاحب تفسیر انوار النجف یوں تحریر فرماتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ مروی ہے یہ آیت قائم آل محمد علیہ السلام کے حق میں ہے اور ان کی تشریف آوری کی پیشن گوئی کر رہی ہے۔ نیز تفسیر مجمع البیان میں بروایت عیاشی حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے۔ آپ علیہ السلام نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا اس سے شیعیان اہل بیت علیھم السلام مراد ہیں اور یہ وقت ان پر تب آئے گا جب کہ اس امت کا مہدی ظاہر ہوگا۔
(تفسیر انوار النجف، ج10،ص152،153)
راہنما اور امام کی ضرورت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس آیت ” قل ارایتم ان اصبح ماؤکم غورا فمن یاتیکم بماء معین
کہو: کہ اگر تمہارا پانی خشک ہو جائیں تو کون ہے جو تمہیں ستھرا پانی لائے گا؟ ” کے بارے میں روایت ہے : کیا تم دیکھتے ہو اگر تمہارا امام تم سے غائب ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لئے نیا امام لائے ۔
(کمال الدین و اتمام النعمۃ ، ج 2ص356)
وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ صَدَقَنَا وَعۡدَہٗ وَ اَوۡرَثَنَا الۡاَرۡضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الۡجَنَّۃِ حَیۡثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ
(زمر۷۴)
اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں ہم جہاں چاہیں جگہ بنا سکیں، پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے جب حضرت قائم علیہ السلام اکیلے ظاہر ہونگے اور کعبہ میں اکیلے پہنچیں گے ۔پھر حضرت جبرائیل اور میکائیل علیھما السلام اور فرشتے صف در صف نازل ہونگے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام امامؑ سے کہے گا! یا سیدی قولک مقبول، و امرک جائز، فیمسح علیہ السلام یدہ علی وجھہ ویقول الحمد للہ ذِیۡ صَدَقَنَا وَعۡدَہٗ۔۔۔ اور انکے ہاتھوں کا بوسہ دینگے ۔
(بحارالانوار ، ج53،ص7،باب: مایکون عند ظہورہ علیہ السلام)
یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ۔( الصف8)
خداوندکریم اس نور نبوت اور ہدایت کو پورا کرے گا۔ اور دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غلبہ عطا فرمائے گاا اور اس پیشن گوئی سے مراد قائم آل محمد علیہ السلام کی آمد کا زمانہ ہے آپکے زمانے میں اس قدر امن و ہوگی کہ تمام وحشی جانور ایک دوسرے سے مانوس ہوجائیں گے اور کوئی کسی کو گزند اور نقصان نہیں پہنچائے گا۔ کسی پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا ، صلیبیں توڑ دی جائیں گی اور خنزیر کو قتل کیا جائے گا اور یہ سب قائم آل محمد علیہ السلام کی تشریف کے آوری کے وقت ہوگا۔ ۔ روئے زمین پرکوئی بھی غیر اللہ کے پوجنے والا نہ ہوگا ، اور زمین عدل و انصاف سے اس طرح پر ہوگی جس طرح ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی اور اللہ کے نور کے پورا ہونے سے مراد حضرت امام زمانہ کا ظہور ہے (تفسیر انوار النجف،ج14ص09)
جب "فسیروا فیھا لیالی و ایاما آمنین ” ان میں راتوں اور دنوں میں امن کے ساتھ سفر کیا کرو” کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے تاویل دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد زمان قائم آل محمد علیہ السلام ہے۔
(تفسیر انوار النجف،ج1ص104)
اما م صادق ؑ سے روایت منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا یہ سورہ قیامت تک باقی رہے گی اور اگر یہ ٹھا لیا جائے تو پوراقرآن ہی ختم ہو جائے گا چونکہ اس سورہ میں تنزل الملائکۃ و الروح کو اللہ تعالیٰ نے لفظ مستقبل کیساتھ استعمال کیا اور لفظ ماضی کے ساتھ (نزَل ) نہیں فرمایا اور حق یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کیلئے ملائکہ نازل ہوں اور دوسری قوم کے لئے نہ ہوں ۔ لہذا ضروری ہے ایک ایسے ہادی کا ہونا جس پر ملائکہ اور روح شب قدر میں نازل ہوں سال بھر کا حتمی فیصلہ صادر کریں اگر اایسا نہ ہوا تو امر بھی نہیں ہوگا۔ پس آنحضرت ﷺ وآلہ پر ملائکہ نازل ہوتے تھے اور انکے انکے اوصیاء پر جن کے اول حضرت علی ؑ اور آخری امام زمانہ ؑ ہیں جن پر تا قیام قیامت پرشتے نازل ہوتے رہیں گے ۔ کیونکہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی اور آج تا قیام قیامت وہ حجت مہدیؑ آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں ۔
(الامام المہدی المنتظر فی القرآن ،ج: 3، ص 244)
عن أبي عبد الله عليه السلام في قوله الله عز وجل: أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن الله على نصرهم لقدير
قال هي في القائم (عليه السلام) وأصحابه "
امام محمد باقر علیہ السلام اس آیت کی تاویل کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ آیت حضرت قائم علیہ السلام اور اس کے انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(المھدی فی القرآن ، ص57)
عن أبي عبد الله عليه السلام في قولہ تعالى: يعرف المجرمون بسيماهم ۔۔۔۔
( رحمٰن41)
مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے پھر وہ پیشانیوں اور پیروں سے پکڑے جائیں گے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ آیت مہدی آل محمد علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے وہ گناہ گاروں کو ان کے چہروں سے پہچانیں گے اور اپنی تلوار سے انہیں قتل کر دیں گے۔
( الغيبة النعمانی، ص 247 )
فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا
(اے محمدﷺ) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں اور جھگڑا لو قوم کی تنبیہ کریں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مؤمنین کو قیام قائم علیہ السلام کی خوشخبری دو اور دشمنوں کو قتل اور آخرت کی عذاب کی خبر دو۔
(الامام المہدی فی القرآن ، ج2 ، ص313 )
وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاھِرَۃً وَّ بَاطِنَۃ۔( لقمان 20)
اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں
عن الكاظم عليه السلام النعمة الظاهرة الامام الظاهر والباطنة الامام الغائب
امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ نعمت ظاہر سے مراد امام ظاہر اور نعمت باطنہ سے مراد امام غائب ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا یہ آواز حق ہے جو مہدی آل محمد عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے دن آسمان کی جانب سے آرہی ہوگی وہ ان تک پہنچنے کا دن ہوگا۔
(تفسیر الصافی ،ج5 ،ص65)
وَ اسۡتَمِعۡ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ ۔( ق۴۱)
اور کان لگا کر سنو! جس دن منادی قریب سے پکارے گا،
یَّوۡمَ یَسۡمَعُوۡنَ الصَّیۡحَۃَ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُرُوۡجِ۔(ق42)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا منادی حضرت قائم علیہ السلام اور ان کے والد کے نام سےندا دے گا اور "الصیحۃ” سے مراد آسمان سے قائم علیہ السلام کی آواز ہے کہ یہ خروج کا دن ہے۔
(الامام المہدی فی القرآن ، ج1 ، ص81 )
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ۔(فاطر ۲۴)
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت منقول ہے نزیر سے مراد ہر زمانے کا امام معصوم ہے اور امام علیہ السلام نے امام وقت کی عظمت و کبریائی بیان فرمائی ہے۔
(تفسیر قمی، ج2 ، ص 183)
اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّھمۡ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا
( غافر7)
جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے) اس کے اردگرد ہیں سب اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور اس پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : یا علی جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے رکھتے ہیں اور اس جے اردگرد موجود ہیں سب خدا کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ میری اور اے علی تمہاری اور تمہارے فرزند امام تا مہدی آل محمد کی ولایت پر ایمان رکھتے ہیں ان کیلئے رحمت طلب کرتے ہیں۔ ‪‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
(الامام المہدی فی القرآن ، ج2 ، ص385 )
اَلۡمُلۡکُ یَوۡمَئِذِۣ الۡحَقُّ لِلرَّحۡمٰنِ ؕ وَ کَانَ یَوۡمًا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ عَسِیۡرًا۔ ( فرقان ۲۶)
اس دن سچی بادشاہی صرف خدائے رحمن کی ہو گی اور کفار کے لیے وہ بہت مشکل دن ہو گا۔
صاحب الزام الناصب اسناد کیساتھ بعض اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ امام معصوم ؑ نے فرمایا پہلے اور آخری دن کی ملکیت رحمٰن کی ہے ، لیکن جب قائم عجل اللہ فرجہ الشریف قیام فرمائیں گے تو عبادت و اطاعت صرف خداوند متعال کی ہوگی۔
(الزام الناصب ، ج1 ، ص78)
اذا جاء نصر اللہ و الفتح ۔( نصر1)
کتاب الزام الناصب میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اس آیت مبارکہ میں فتح سے مراد فتح قائم آل محمد علیہ السلام ہے ۔
(الزام الناصب ، ج1 ، ص 103)
اے یوسف زہرا ؑ! وہ وقت کب آئے گا کہ ہم آپ کے چشمے سے سیراب ہوجائے ۔ کب ہماری صبح و شام آپ کے ساتھ گزرے گی کہ جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button