اخلاق حسنہاخلاقیات

حلم قرآن وسنت کی روشنی میں (حصہ اول)

حلم اور ضبط ِنفس
قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے ممتاز بندوں کی دوسری خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
(فرقان۶۳)
اور جب جاہل ان سے (نامناسب انداز سے) خطاب کرتے ہیں تو یہ لوگ ان کے جواب میں انہیں سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔
یعنی ان کے سامنے سے، بے اعتنائی اور بزرگواری کے ساتھ گزرجاتے ہیں مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تحمل وبردباری کی صفت پائی جاتی ہے اور انہیں اپنے اعصاب اور جذبات و احساسات پر قابو ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ نامعقول افراد کے رویے کے مقابل بردباری اور ضبط ِ نفس سے کام لیتے ہوئے، اسلامی اخلاق کی حدوں سے باہر نہیں نکلتےعظمت ِکردار اور بزرگواری کی بدولت غیظ وغضب سے مغلوب نہیں ہوجاتےان کے مضبوط ارادے، ان کے صبرو تحمل اور سکون و اطمینان کی بنا پر انہیں پہاڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔یہ کہنا کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں نے مجھ پر اعتراض کیا، مجھے برابھلا کہا، تو اس کے جواب میں، میں نے اسے دس گنازیادہ سنا ڈالیںبلکہ قرآنِ کریم کی رو سے فخر و افتخار کی بات یہ ہے کہ ہم نامعقول لوگوں کے نامناسب رویے کے جواب میں ان کی اس حرکت کو نظر انداز کردیں۔ یعنی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ا ن کی طرف سے منھ پھیر لیں۔
البتہ جس سلام کا یہاں (آیت میں) ذکر ہورہا ہے وہ دوستی والاسلام نہیں، بلکہ بے اعتنائی والا سلام ہے، ایک طرح کے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار ہے جس میں تعلق برقرار رکھتے ہوئے صلح و صفائی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام موجود ہے۔ممکن ہے اس مقام پر یہ سوال پیش آئے کہ قرآنِ کریم اور روایات ِمعصومینؑ میں متعدد مقامات پر مخالفین کو برابری سے جواب دینے کی تاکید کی گئی ہےتاکہ ان ناشائستہ لوگوں کی گستاخی کا سدباب ہوسکےمثلاً قرآنِ مجید فرماتا ہے:
فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ
(بقرہ ۱۹۴)
لہٰذا جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسی زیادتی اس نے تمھارے ساتھ کی ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ، نامناسب طرزِ عمل اپنانے والے ناشائستہ لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں:
پہلی قسم کے لوگ وہ بدخواہ دشمن ہوتے ہیں جو جانتے بوجھتے، بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، نامناسب طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اسی انداز سے جواب دینا چاہیےجبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو لاعلمی میں ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں اور ان سے ایسی گفتار و حرکات جہل اور نادانی کی بناپر سرزد ہوتی ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ حلم و بردباری اور نرمی و ملائمت کا سلوک کرنا چاہیے۔
زیر بحث آیت میں اسی ثانی الذکرگروہ کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی گئی ہےلہٰذا حلم و بردباری کا اظہار اپنے صحیح مقام پر، یعنی جہاں اسے ملحوظ رکھنا چاہیے، نہ صرف تخریبی اور نقصاندہ نہیں بلکہ تعمیری اور موثر بھی ہے۔مذکورہ آیت میں جن لوگوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان کے بارے میں رسول کریم نے فرمایا ہے کہ:
اَحَلمُ الناس مَن فرَّ مِن جُهّال الناس
لوگوں میں سب سے زیادہ بردبارشخص وہ ہے جو جاہل انسانوں سے دور بھاگے۔
(بحارالانوار ج ۷۷ ص۱۱۲)
قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم
قرآ نِ مجید میں حلم اورکظم غیظ (یعنی غصہ پی جانے) کا ذکر دوعمدہ اور عالی صفات کے طور پر کیا گیا ہےان دونوں صفات کی بازگشت ایک ہی مفہوم کی جانب ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے اعصاب پر کنٹرو ل ہونا، جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنا، ضبط ِنفس کا مالک ہونا۔کہاجاسکتا ہے کہ حلم اس حالت کو کہتے ہیں جو کظم غیظ یعنی غیظ و غضب کو ضبط کرلینے کا موجب بنتی ہےبالفاظِ دیگر حلم کی واضح بلکہ بہترین مثال کظم غیظ ہے۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
خیر الحلم التّحلّم
بہترین حلم غصہ پی جانا ہے۔
(غررالحکم ، نقل از میزان الحکم ج ۲ص۵۱۳)
قرآنِ مجید میں حلم کا لفظ ” حلیم“ کی تعبیر کے ساتھ پندرہ مرتبہ آیا ہےان میں سے گیارہ مرتبہ خداوند ِعالم کی ایک صفت کے طور پر اس کا ذکر ہوا ہے۔
( بقرہ ۲۲۵، ۲۳۵، ۲۶۳، آل عمران ۵۵، نساء ۱۲، مائدہ ۱۰۱، حج ۵۹، تغابن ۱۷، بنی اسرائیل ۴۴، احزاب ۵۱، فاطر ۴۱)
جبکہ چار مرتبہ اسکا ذکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب کی ایک صفت کےعنوان سے ہوا ہے۔
( توبہ ۱۱۴، ہود ۸۷، صافات ۱۰۷)
قرآن مجید میں کظم غیظ کو پرہیز گار بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےارشادِ رب العزت ہے:
وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ
وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں۔
( آلِ عمران ۱۳۴)
حلم کے معنی اپنے شدید غیظ وغضب پر قابو پالینا ہےلغت ِقرآن کے معروف عالم”راغب اصفہانی“ اپنی کتاب ” مفردات القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ:
الحلم ضبط النفس عن هیجان الغضب
غیظ وغضب کے ہیجان کے موقع پر ضبط ِنفس کو حلم کہا جاتا ہے
مزید کہتے ہیں کہ: کیونکہ یہ حالت عقل اور خرد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسی لیے کبھی کبھی حلم کے معنی عقل اور خرد بھی لیے جاتے ہیں(مفردات راغب، لفظ حلم کے ذیل میں)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
العقل خلیل المرء، والحلم وزیره
عقل انسان کی مخلص دوست ہے اور حلم عقل کا وزیر ہے
آپ ؑہی کا ارشاد ہے:
الحلم نور جو هره العقل
حلم ایک ایسا نور ہے جس کی حقیقت عقل و خرد ہے۔
(غرر الحکم ، نقل ازمیزان الحکم ج۳ص۵۱۳، ۵۱۴)
دوسری احادیث میں بھی حلم کی صفت کا ذکر انہی معنی میں ہوا ہےمثلاً ایک شخص نے امام حسن علیہ السلام سے پوچھا: حلم کیا ہے؟ آپؑ نے جواب دیا:
کظم الغیظ وملِک النفس
غصہ پی جانا اور نفس پر قابو ہونا۔بحارالانوار ج ۷۸۔ ص ۱۰۲
نیزامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
لا حلم کانصیرت والصّمت
کوئی حلم صبرواستقامت اور زبان کی حفاظت کی مانند نہیں۔
لفظ حلم کا استعمال امورو معاملات میں ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں بھی کیا گیا ہے۔
(بحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص ۷۸، سفینۃ الیحارلفظ ” حلم“ کے ضمن میں)
ان لغوی معنی اور ائمہ معصومین کی تشریحات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حلم سے مراوضبط ِنفس، انقلابی صبر اور امور و معاملات کے دوران ثابت قدمی ہے۔
اس مفہوم کوپیش نظر رکھا جائے تو ضبط ِنفس میں زبان پر کنٹرول، اعصاب اور تمام اعضا و جوارح پر تسلط شامل ہےلہٰذا لفظ ” حلم“ کا ترجمہ ” برداشت“ جو ہمارے یہاں معروف ہوگیا ہے، درست نہیں ہےکیونکہ ” سختی برداشت کرنا“ حلم کے مطلق معنی نہیں ہیں
ا س لیے کہ بسا اوقات اسکا مفہوم ظلم کے سامنے خاموشی سے گھٹنے ٹیک دینا اور اسے قبول کرنا ہوتے ہیں اور یہ عمل کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔اسی بنیاد پر حلم اور ظلم سہنے کے درمیان انتہائی کم فاصلہ پایا جاتا ہےلہٰذا ان دونوں کے مقامات کی اچھی طرح شناخت لازم ہے تاکہ ظلم سہنے کو حلم نہ کہا جانے لگے اور انسان بافضیلت عمل کی انجامدہی کی بجائے فضائل و اقدار کے مخالف کسی عمل کا مرتکب نہ ہو۔
کظم اور غیظ کے الفاظ میں لفظ ” غیظ“ کے لغوی معنی شدید غصہ، اور غیر معمولی روحی ہیجان اور اشتعال ہیں اور اسکی وجہ روحانی اذیت یا گزند پہنچنا ہوتی ہے۔لغت میں ” کظم“ کے معنی ہیں پانی سے بھری ہوئی مشک کا منھ بند کرناکنایتاً یہ لفظ ایسے افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو شدید غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے کے نزدیک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی شدید ردِعمل ظاہر ہواچاہتا ہےلیکن ان میں پایا جانے والا ضبط ِنفس مضبوط تسمے کی مانند غصے سے بھری ان کی مشک کا منھ بند کردیتا ہے اور انہیں پھٹ پڑنے سے باز رکھتا ہےلہٰذا کظم غیظ اور غصے کا ضبط کرلینا، حلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے، جو غصے سے پھٹ پڑنے اور بے جاتندی کے سدباب کا موجب ہے اور انسان کو نامعقول تندی اور ضرررساں اور کبھی کبھی خطرناک ثابت ہونے والے جوش وخروش سے نجات دیتا ہے۔
البتہ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر حلم اور کظم غیظ گناہگار اور مجرم شخص کی جرات و جسارت کی وجہ بنے یا دوسرے مذموم نتائج کا سبب بن جائے تو بے جا اور منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً پیشہ ورمجرموں کے مقابل حلم کا اظہار اور غصے کو پی جانا، یا ایسے منافقین، کفار اور بے دین افراد سے رعایت اور ان سے چشم پوشی درست نہیں جو اسلام و مسلمین کونقصان پہنچانے یا معاشرے میں فساد برپا کرنے میں مشغول ہوں۔
قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت
زیر بحث آیت کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں اور کئی آیات ہیں جن میں حلم، ضبط ِنفس، متانت اور بردباری کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً:
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ
تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو، اس طرح وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو۔
(فصلت۳۴)
یہ آیت حلم اور ضبط ِنفس کے ایک خوبصورت اثر کی جانب اشارہ کررہی ہے اور اس بات کی تلقین پر مشتمل ہے کہ دوسروں کی ناگوار اور رنجیدہ کردینے والی باتوں کے جواب میں حسنِ سلوک، اظہارِ محبت اور اچھے ردِ عمل کے ذریعے اپنی زندگی کو آرام دہ اور آسودہ رکھیےکیونکہ جب آپ اس انداز سے جواب دیں گے تو دشمنیاں اورعداوتیں، دوستی اور محبت میں بدل جائیں گی، فتنہ و فساد کی آگ کے بھڑکتے شعلے سرد پڑجائیں گے اور معاشرے میں یکجہتی، مہرومحبت اور برادری کا چلن عام ہوگا۔علی ابن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ: خداوند ِعالم نے اسی آیت پر اپنے پیغمبر کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے ساتھ پیغمبر اسلام کے طرزِ عمل اور سلوک و برتائو کی بنیاد یہی حکم تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد ” حفض“ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ تمام امور میں صبروتحمل اور متانت و بردباری کا مظاہرہ کرویہ بات ذہن نشین رکھو کہ خداوند ِعالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے لیے منتخب کیا اور انہیں صبرو تحمل کی ہدایت کی (اسکے بعد حضرت نے مذکورہ آیت کی تلاوت کی) اور فرمایا:پیغمبرؐ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس کے ذریعے بلند اور عظیم الشان مقاصد و نتائج حاصل کیے۔
شیخ صدو ق علیہ الرحمہ کی ” امالی“ میں روایت ہے کہ: ایک شخص رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیںمیں صلہ رحم کرتا ہوں لیکن وہ قطع رحم کا مظاہرہ کرتے ہیں پیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت پڑھی اور اسے ہدایت کی کہ وہ بردباری، صبر اور تحمل کے ساتھ (ان کی) بدسلوکی کا نیکی سے جواب دے۔
اس شخص نے صبروتحمل اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، پیغمبر اسلام نے اس کے اشعار کی تعریف کی اور فرمایا:بعض اشعار حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض اپنے بیانات میں جادوئی اثررکھتے ہیں۔
(اقتباس از تفسیر نور الثقلین ج ۴ص ۵۴۹، ۵۵۰)
جیسا کہ ذکر ہوا، قرآنِ کریم میں پندرہ مقامات پر اللہ رب العزت کو ” حلیم“ کی صفت سے یاد کیا گیا ہےپس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ (صحیح اور کامل طور پر) اس صفت کے حامل ہیں وہ خدا کی اس صفت کے مظہر ہیں اور یہ بات حلم اور ضبط ِنفس کی انتہائی اہمیت کی علامت ہے۔خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں اپنے عظیم المرتبت پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس وجہ سے تعریف و تمجید کی کہ وہ ” حلم“ جیسی عالی صفت کے حامل تھے اور فرمایا ہے کہ:
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ
بے شک ابراہیم بہت ہی حلیم اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔
(ہود۷۵)
اور حضرت ابراہیم کو ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:
فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ
پھر ہم نے انہیں ایک حلیم فرزند کی بشارت دی
(صافات ۱۰۱)
یہاں سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ اور بھی دوسرے عالی فضائل اور انسانی خصائل کے مالک تھے، لیکن اس کے باوجود ان دونوں آیات میں صرف ان کی صفت ” حلم“ کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایک اور آیت میں پیغمبر اسلاؐم کو حلم اور ملائمت کی ہدایت کی گئی ہےارشادِ رب العزت ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ
یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سےبھاگ کھڑے ہوتے۔
( آل عمران۳آیت ۱۵۹)
(عباد الرحمٰن کے اوصاف سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button