دعا و مناجات

دعا ء کميل کے چار و سیلے

اب ہم دعاء کميل کے چارو سیلوں کے سلسلہ ميں بحث کرتے ہيں اور یہ اس دعا شریف کی دوسری فصل ہے ۔
پہلا وسیلہ
خدا وند عالم نے اپنے بندے پر پہلے ہی اپنا فضل و کرم فرمادیا ہے ۔جب بندہ اپنے عمل و کو شش ميں عاجزہو جاتا ہے اور اس کے اور الله کے درميان پر دے حائل ہوجاتے ہيں تو خدا کا بندے پر فضل اور اس کی رحمت خدا تک پہنچنے کے لئے بندہ کی شافع ہوتی ہے ۔
خدا کا بندے پر سابق فضل اور رحمت نازل کرنا الله کا بندے سے محبت کرنے کی علامت ہے ۔
اور اسی (حب الٰہی)کے ذریعہ بندہ خدا وند عالم کے سامنے اپنی حاجتيں پيش کرتا ہے جب بندہ خدا کی رحمت کا مستحق نہیں ہوتا تو الله کی محبت اس کو اپنی رحمت اور فضل کا اہل بنا دیتی ہے اور اس کو مقام اجابت تک پہنچاتی ہے امام عليہ السلام اس وسیلہ کے بارے ميں فرماتے ہيں :
یَامَن بَدَ ءَ خَلقْي وَذِکرِْي وَتَربْيَتِي وَبِرِّي،ْهَبنْيِ لاِبتِدَاءِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِي
اے ميرے پيداکرنے والے ،اے ميرے تربيت دینے والے،اے نيکی کرنے والے!اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجهے معاف فرمادے۔
ہماری پيدائش بهی الله سے سوال کرنے سے پہلے نيکی کاذکر، خلق اور تربيت کے ذریعہ ہو ئی جبکہ ہم اس کے مستحق نہیں تهے ۔
جب ہما رے گناہ اور ہماری برائياں الله کی نيکی اور اس کی رحمت کے درميان حا ئل ہو جا تے ہيں تو الله کی محبت ہماری شفاعت کرتی ہے اور ہم کو الله کے روبر واور اسکی رحمت کے مقام پر لاکر کهڑاکردیتی ہے ۔
دوسرا وسیلہ
ہماری خدا سے محبت ، اس کی ہمارے لئے کا مياب محبت کاوسیلہ ہے ۔امام عليہ السلام نے پہلےوسیلہ ميں خدا کی محبت کا ذکر کيا ہے اور اس کے بعد خداوند عالم سے اپنی محبت کو وسیلہ قرار دیا ہے ۔
اس وسیلہ کے سياق ميں ہمارا خدا کی وحدانيت کا اقرار ، اس کی بارگاہ ميں خضوع و خشوع، ہماری نمازیں سجدے ، ذکر ، شہادت (گواہی )، اس کی ربوبيت کا اقرار نيز اس کی عبودیت کا اقرار کرنایہ تمام چيزیں آتی ہيں ۔ ان تمام چيزوں کا مرجع دو ہی چيزیں ہيں ہمارا اس سے محبت کرنا اور اس کی توحيد کا اقرار کرنا ہے ۔بيشک (حب)اور (توحيد )دونوں ایسے سرمایہ ہيں جن کو الله ردنہيں کرتا ہے اور ہم کو بهی دو نوں چيزوں ميں ایک لحظہ کیلیے بهی کو ئی شک نہیں کرنا چاہئے ۔
امام عليہ السلام اسوسیلہسے متوسل ہونے کےلئے فرماتے ہيں :
اَتُرَاکَ مُعَذِّبِي بِنَارِکَ بَعدَْ تَوحْيدِْکَ وَبَعدَْ مَاانطْو یٰ عَلَيهِْ قَلبْي مِن مَعرَْفَتِکَ وَلَهِجَ بِهِ لِسَانِي مِن ذِکرِْکَ وَاعتْقَدَهُ ضَمِيرِْي مِن حُبِّکَ وَبَعدَْصِدقِْ اعتِرَافِي وَدُعَائِي خَاضِعاً لِّرُبُوبْيِّتِکَ
کيا یہ ممکن ہے کہ ميرے عقيدہ توحيد کے بعد بهی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا ميرے دل ميں اپنی معرفت کے باوجود مجهے مورد عذاب قرار دے کہ ميری زبان پر مسلسل تيرا ذکر اور ميرے دل ميں برابر تيری محبت جاگزیں رہی ہے۔ميں صدق دل سے تيری ربوبيت کے سامنے خاضع ہوں۔
یہاں پرہم دعا کے اس فقرہ سے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہيں ۔ کہا جاتا ہے :جب خدا وند عالم نے حضرت یوسف عليہ السلام کو مصر کی حکو مت وسلطنت عطا کی توآپ ایک دن اپنے گهر کے سامنے تخت پر ایک ایسے نيک وصالح بندے کے ساتھ تشریف فرماتهے جس کو الله نے علم اور نور عطا کياتها ، اسی وقت اس تخت کے پاس سے ایک نوجوان کا گذر ہواتو اس صالح بندے نے حضرت یوسف عليہ السلام سے عرض کيا کہ کياآپ اس جوان کو پہچانتے ہيں؟ آپ نے فرمایا :نہيں تو اس بندے نے عرض کيا :یہ وہی بچہ ہے جس نے آپ کے بری وپاک ہونے کی اس وقت گواہی دی تهی جب عزیز مصر کی زوجہ نے آپ پر الزام لگایا تها ۔
وَشَهِدَشَاهِدٌ مِن اَهلِهَااِن کَانَ قَمِيصْهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَت وَهُوَمِنَ الکاذِبِينَْ وَاِن کَانَ قَمِيصُهُ قُدَّمِن دُبُرٍفَکَذَبَت وَهُوَمِنَ الصَّادِقِينَْ
( یو سف ٢٧)
اور اس پر اس کے گهر والوں ميں سے ایک گواہ نے گو اہی بهی دیدی کہ اگر ان کا دامن سا منے سے پهٹا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جهوٹوں ميں سے ہيں اور اگر ان کا کر تا پيچهے سے پهٹا ہے تو وہ جهوٹی ہے اور یہ سچو ں ميں سے ہيں ۔
یہ وہی شير خوا ربچہ ہے جس نے گہوار ے ميں آپ کی گواہی دی تهی اور یہ اب جوان ہوگيا ہے حضرت یوسف عليہ السلام نے اس کو بلا یا ،اپنے پہلو ميں بيٹهایا اور اس کا بہت زیادہ احترام کيا اور وہ عبد صالح حضرت یو سف عليہ السلام کے پاس متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے حضرت یوسف کے اس برتاؤکا مشاہد ہ کرتارہا۔ حضرت یوسف عليہ السلام نے اس نيک بندے سے فرمایا۔کيا تم کو ميرے اس جوان کے عزت وکرام کر نے پر تعجب ہو رہاہے ؟ تو اس نے کہا :نہيں ليکن اس جوان کی آپ کے بری الذمہ ہو نے کی گواہی کے علاوہ اور کوئی حيثيت نہیں ہے ،خدا نے اس کو قوت گویائی عطا کی جبکہ اس کی خود اس ميں کوئی فضيلت نہیں ہے ،اس کے باوجود آپ نے اس کا اتنا زیادہ اکرام کيا اس کو اتنی عزت دی ہے ۔
تو یہ کيسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ الله کے سامنے اتنے طولانی سجد ے کرے اور وہ اس کو جہنم کی آگ ميں جلادے ،یا اس بندے کے اس دل کو جلادے جو اس کی محبت سے لبریزہے ،یا اس کی اس زبان کو جلادے جس سے اس نے خدا کو بہت زیادہ یاد کيایا اس کی وحدانيت کی گواہی دی اور اس کی وجہ سے شرک کا انکار کيا ہے ؟
حضرت امام علی عليہ السلام اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں :
وَلَيتَْ شِعرِْي یَاسَيَّدِي وَاِ لھٰی وَمَولَائِي اتُسَلِّطُ النَّارَعَلیٰ وُجُوهٍْ خَرَّت لِعَظمَتِکَ سَاجِدَةً وَعَلٰی اَلسْنٍ نَطَقَت بِتَوحْيدِْکَ صَادِقَةً وَبِشُکرِْکَ مَادِحَةً وَعَلیٰ قُلُوبِْ اعتْرَفَت بِاِ لٰهيَّتِکَ مُحَقِّقَةً وَعَلٰی ضَمَائِرَحَوَت مِنَ العْلمِْ بِکَ حَتّیٰ صَارَت خَاشِعَةً وَعَلیٰ جَوَارِحَ سَعَت اِ لٰی اَوطَانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً،وَاَشَارَت بِاِ ستْغفْارِکَ مُذعنَةً مَا هٰکَذَاا لظَّنُّ بِکَ وَلَااُخبرنابِفَضلکَ عَنکَْ یَاکَرِیمُْ
ميرے سردار ۔ميرے خداميرے مولا ! کاش ميں یہ سوچ بهی سکتا کہ جو چہرے تيرے سامنے سجدہ ریز رہے ہيں ان پر بهی توآگ کو مسلط کردے گااور جو زبانيں صداقت کے ساتھ حرف توحيد کو جاری کرتی رہی ہيں اور تيری حمد وثنا کرتی رہی ہيں یا جن دلوں کو تحقيق کے ساتھ تيری خدائی کا اقرار ہے یا جو ضمیر تيرے علم سے اس طرح معمور ہيں کہ تيرے سامنے خاضع وخاشع ہيں یا جو اعضاء و جوارح تيرے مراکز عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہيں اور تيرے استغفا ر کو یقين کے ساتھ اختيار کرنے والے ہيں ؛ان پر بهی تو عذاب کرے گا۔ہر گز تيرے بارے ميں ایسا خيال بهی نہیں ہے اور نہ تيرے فضل وکرم کے بارے ميں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے ۔
تيسرا وسیلہ
عذاب برداشت کرنے کے مقابلہ ميں ہمارا کمزور ہو نا ، ہماری کهال کا باریک ہونا ،ہماری ہڈیوں کا کمزور ہونا ،ہم ميں صبر اور قوت برداشت کے مادہ کاکم ہونا ،کمزوری، قوی متين تک پہنچنے ميں ایک کا مياب وسیلہ ہے ،ہر کمزورقوی کو جذب کرنے اور اس کی عطوفت ومحبت کو اخذ کر نے کی خواہش کرتا ہے ۔
بيشک کمزور ميں ایک راز ہے جس کی بنا پراسے ہميشہ قوی کی طلب ہو تی ہے اسی طرح قوی (طاقتور )کو ہميشہ کمزور کی تلاش رہتی ہے یعنی دونوں ميں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی تلاش رہتی ہے ۔بيشک شيرخوار اپنی کمزوری کی بناء پر اپنی ماں کی محبت چاہتا ہے جس طرح مادر مہربان کو بچہ کی کمزوری اوراس کی رقت کی چاہت ہو تی ہے ۔ کمزور کا اسلحہ اوروسیلہ بکا اور اميد ہے اميرالمو منين علی علیہ السلام دعا ء کميل ميں فرماتے ہيں :
یَامَنِ اسمْهُ دَوَاءٌ،وَذِکرُْهُ شِفَاءٌ وَطَاعَتُهُ غِنیً اِرحْم مَن رَّاسُ مَالَهُ الرَّجَاءُ وَسِلاَحَهُ البـکَاءُ
اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا۔۔۔ اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط اميداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے۔
بيشک فقير کا اصل سرما یہ غنی (مالدار )سے اميد رکهناہے ،کمزور کا اسلحہ، قوی کے نزدیک گریہ وزاری کر ناہے ،اوردنيا ميں جو کمزور کے ،قوی وطاقتور سے اور طاقتور کے کمزور سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں الله کی سنتوں کو نہیں سمجھ پا ئے گا وہ اس دعا ء کميل ميں حضرت علی عليہ السلام کے ان موثر فقروں کو نہیں سمجھ پائيگا ۔
حضرت امام علی بن ابی طالب عليہ السلام دوسری مناجات ميں فرماتے ہيں :
انت القوي واناالضعيف وهل یرحم الضعيف الاالقوي
تو قوی ہے اور ميں کمزور ہوں اور کيا طاقتور کے علاوہ کو ئی کمزور پر رحم کر سکتا ہے۔
امام عليہ السلام اس دعا کميل ميں بندے کی کمزور ی ،اس کی تدبير کی کمی اسکے صبر وتحمل کے جلد ی ختم ہوجانے ،کهال کے رقيق ہو نے اور اسکی ہڈیوں کے رقيق ہونے سے متوسل بہ بارگا ہ خد ا و ند قدوس ہوتے ہيں ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہيں :
یَارَبِّ ارحْم ضَعفَْ بَدَنِي وَرِقَّةَجِلدِْي وَدِقَّةَ عَظمْي
پروردگار ميرے بدن کی کمزوری، ميری جلد کی نرمی اور ميرے ہڈیوں کی کمزوری پر رحم فرما ۔!
ہم کو دنيا ميں کا نٹا چبهتا ہے ،انگارے سے ہمارا ہاتھ جل جاتا ہے اور جب ہم کودنيا ميں ہلکی سی بيماری لا حق ہو جاتی ہے تو ہماری نيند اڑجاتی ہے اور ہم بے چين ہو جاتے ہيں ،جبکہ اس تهوڑی سی دیر کی بيماری کو خداوندعالم نے امتحان کے لئے قرار دیا ہے تو ہم اس وقت کيا کریں گے جب ہم درد ناک عذاب کی طرف لے جائے جا ئيں گے اورعذاب کے فرشتوں سے کہا جائيگا :
خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ ثُمَّ الْجَحِيْمُ صَلُّوْهُ
( الحاقہ ٣٠،٣١)
ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍذَرْعُهَاسَبْعُوْنَ ذِرَاعاً ( فَاسْلُکُوْهُ)
اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو ،پهر اسے جہنم ميں جهونک دو ۔پهر ستر گز کی ایک رسی ميں اسے جکڑلو ۔
امام عليہ السلام فرما تے ہيں :
وَاَنت تَعلَمُ ضَعفْي عَن قَلِيلٍْ مِن بَلاَءِ الدُّنيْاوَعُقوْبْاتِهَاوَمایَجرِْی فِيهَْا مِن المَکَارِهِ عَلیٰ اَهلْهَاعَلیٰ اَنَّ ذِلکَ بَلاَ ءٌ وَمَکرُْوهٌْ قَلِيلٌْ مَکثْهُ یَسِيرٌْبَقَائُهُ قَصِيرٌْمُدَّتُه فَکَيفَْ اِحتِمَالِی لِبَلاَءِ الآخِرَةِ وَجَلِيلِْ وَقُوعِْ المَکَارِهِ فِيهْاوَهُوَ بَلَاءٌ تَطُولُْ مُدَّتُهُ وَیَدُومُْ مُقَامُهُ وَلَایُخَفِّفُ عَن اَهلْهِ لِاَنَّهُ لَایَکُونُْ إِلَّاعَن غَضَبِکَ وَانتِقَامِکَ وَسَخَطِکَ وَ هٰذَا مَالَاتَقُومُْ لَهُ السَّمٰوات وَالاَْرض یَا سَيِّدِي فَکَيفَْ لِي وَاَنَاعَبدُْکَ الضَّعِيفُْ الذَّلِيلُْ الحْقِيرُْالمِسکْينُْ المْستْکِينُْ یَااِ لهٰي وَرَبِّي وَسَيِّدِی وَمَولْاي.
پروردگار اتو جانتا ہے کہ ميں دنيا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور ميرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہيں جب کہ یہ بلائيں قليل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو ميں ان آخرت کی بلاوں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظيم،جن کی مدت طویل اور جن کا قيام دائمی ہے۔جن ميں تخفيف کا بهی کوئی امکان نہیں ہے اس لئے کہ یہ بلائيں تيرے غضب اور انتقام کا نتيجہ ہيں اور ان کی تاب زمين وآسمان نہیں لاسکتے ،تو ميں ایک بندہ ضعيف و ذليل و حقير ومسکين وبے چارہ کيا حيثيت رکهتا ہوں خدایا، پروردگارا، ميرے سردار،ميرے مولا۔!
چوتھا وسیلہ:
امام عليہ السلام اس دعا ميں بندہ کے الله سے مضطر ہو نے کو بيان فر ماتے ہيں اورانسان کےلئے اضطرار ایک کا مياب وسیلہ ہے اور اس کی حا جتيں الله کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ پوری نہیں ہو سکتی ہيں ۔
ہماری اضطرار سے مراد یہ ہے کہ انسان کی حا جتيں الله کے علاوہ کو ئی اورپورا نہیں کر سکتا ہے اور اس کی پنا ہ گاہ کے علاوہ کوئی پنا ہ گاہ نہیں ہے ،انسان الله کے علاوہ کسی اور جگہ بهاگ کر جاہی نہیں سکتا الله کے علاوہ اس کو کوئی اور پناہ گاہ نہیں مل سکتی ہے ۔
چهو ٹابچہ بچپن ميں اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی اورکو ایسا نہیں پاتا جو اس کے کام آئے اس کا دفاع کر ے اس کی حاجتیں پوری کرے اس کی ہر خواہش وچاہت پر لبيک کہے اس پر عطوفت کرے لہٰذا وہ اپنے والدین سے مانوس ہوتا ہے وہ اپنے ابهرتے بچپن ميں ان دونوں سے اپنے ہر مطالبہ اور ہر ضرورت کوان کی رحمت رافت شفقت سے پاتا ہے جب بچہ کو کوئی تکليف ہوتی ہے تو ان کو تکليف ہوتی ہے جب اس کو کسی چيز کا خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کی پناہ ميں آجاتا ہے اور ان کے پاس اس کو امن وچين ،رحمت اور شفقت ملتی ہے اس کی ضرورتيں پوری ہو تی ہيں اور جس چيز سے اس کو خوف ہو تا ہے ان سے امان ملتی ہے ۔
جب وہ کبهی ایسا کام انجام دیتا ہے جس ميں وہ ان دونوں کے عقاب کا مستحق ہو تا ہے اور اس کو اپنی جان کا خوف ہو تا ہے تو وہ اپنے دائيں بائيں نظریں ڈالتا ہے تو اس کو کوئی پناہ گا ہ نظر نہیں آتی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے فرار کر سکتا ہے اور ان کے علاوہ کوئی امن کی جگہ اس کو نظر نہیں آتی تو انہيں کی پنا ہ گا ہ ميں چلا جاتا ہے اور اپنے نفسں کو ان کا مطيع وفرمانبردار کہہ کران سے فریاد کرتا ہے حالا نکہ وہ دونوں اس کو مار نے اور مواخذ ہ کرنے کا اراد ہ کرتے ہيں ۔ والدین کو بهی اس طرح کے اکثر مناظردیکھنے کو ملتے ہيں اور بچہ ان کی محبت اور عطو فت کوحاصل کرليتا ہے ۔
امام عليہ السلام اس دعا ئے شریفہ ميں اسی معنی کی طرف اشارہ فر ماتے ہيں کہ آپ ہر مسئلہ ميں الله سے پناہ مانگتے تهے جب آپ پر کو ئی سخت وقت آتاتها،کو ئی مصيبت پڑتی تهی یا کسی مصيبت کا سامنا کرنا پڑتا تها تو آپ الله کی بارگاہ ميں فریاد کرتے تهے اور اسی سے لو لگاتے تهے ليکن پهر بهی آ پ کو اپنی مصيبت کے سلسلہ ميں الله کے علاوہ اور کو ئی پناہ گاہ نہیں ملتی تهی امام عليہ السلام انسان کا اسی حالت ميںمشاہدہ کرتے ہيں وہ خداوند عالم کے اسی غضب کے سا منے ہے جس کی رحمت کی اسے اميد ہے اور اس خداوند قدوس کی عقوبت کے سامنے ہے جس کے غضب سے وہ سلا متی چاہتا ہے ۔ بندے کی (جب وہ اپنے کو الله کے عذاب کا مستحق دیکھتا ہے )الله کے علاوہ اور کو ئی پناہ گاہ نہیں ہے الله کے علاوہ وہ کہيںفرارا ختيار نہیں کرسکتا نہ اس کو خدا کے علا وہ کسی کی حمایت حا صل ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ خدا کے علا وہ کسی اور سے سوال کرسکتا ہے ۔
جب عذاب کے فرشتے اس کو جہنم کی طرف لے جاتے ہيں تو وہ خدا کی بارگاہ ميں گڑگڑا تا ہے اس سے امن وچين طلب کر تا ہے اس سے فریاد کر تا ہے ،اپنے نفس کےلئے اس سے رحمت طلب کرتا ہے جيسے وہ بچہ کہ جب اس کے والدین اس سے ناراض ہو جاتے ہيں تو اس کے پاس ان دونو ں کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار کر نے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے اوروہ ان کے علاوہ وہ کسی کو اپنا مونس ومدد گار نہیں پاتا ہے ۔
ہم امام عليہ السلام سے ان کلمات ميں دقيق ورقيق و شفاف مطالب کو سنتے ہيں جن کو توحيد اور دعا کی روح وجان کہا جاتا ہے۔
فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدِي وَمَولْاي اُقسْمُ صَادِقاً لَا ن تَرَکتْنِي نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينْ اَهلْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاصرُْخَنَّن الیک صُرَاخَ المْستْصرِْخِينَْ وَلَابکْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المْومِنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُستْغِيثْينَْ یَاحَبِيبَْ قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِلہ العْالَمِينَْ
تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں کی طرح نالہ و شيون کروں گااور گم کردہ عزیز کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فریادیوں کا فریادرس،صادقين کے دلوں کا محبوب اور عالمين کا معبود ہے۔ قضيہ کی یہ پہلی وجہ ہے اور دوسری وجہ بهی پہلی وجہ کی طرح واضح و روشن ہے یعنی خداوند عالم کا اپنے بندہ سے رابطہ ۔
پہلی وجہ کا خلا صہ یہ ہے کہ بندہ جب مضطر ہو تا ہے تو خدا سے ہی لو لگاتا ہے اس کی رحمت اور اس کی امن کی تلاش ميں رہتا ہے ۔
بندہ سے خداوند عالم کے محبت کرنے کا دو سرا رخ اس وقت نظر آتا ہے جب وہ تيز بخار ميں مبتلا ہوتا ہے اور اُس (خدا ) کی رحمت کا طلبگار ہو تا ہے خدا وند عالم سے خود اسی خدا کی طرف فرار کرتا ہے خداوند عالم کی رحمت اور فضل کو اس حال ميں طلب کرتا ہے کہ وہ خداوند عالم کی عقوبت اور انتقام کے سامنے ہوتا ہے ۔
کيا یہ ممکن ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ارحم الراحمين ہو نے کے باوجود بندہ کی فریاد سنتا ہو اور اس(بندہ )کو اس کی عقل کی کمی اور جہالت کی وجہ سے اس کا ٹهکانا جہنم بنا دے جبکہ وہ اس سے فریا د کرتا ہے ،اس کا نام ليکر چيختا ہے ،اپنی زبان سے اس کی توحيد کا اقرار کرتا ہے ،اس سے جہنم سے نجات کا سوال کرتا ہے ،اور اسی کی بارگاہ ميں گڑگڑاتا ہے ۔۔۔اور وہ اس کو جہنم کے عذاب ميں ڈال دے اور اس کے شعلے اس کو جلا دیں ،اس کو جہنم کی آواز پریشان کرے ،اس کے طبقوں ميں لوٹتارہے، اس کے شعلے اس کو پریشان کریں جبکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ یہ بندہ اس سے محبت کرتا ہے یہ سچ بول رہاہے اس کی توحيد کا اقرار کر رہا ہے اس سے پناہ مانگ رہا ہے اور اسی کا مضطر ہے ۔
پس تم غور سے سنو :
اَفَتُرَاکَ سُبحْانَکَ یَااِلهٰي وَبِحَمدِْکَ تَسمْعُ فِيهْاصَوتَْ عَبدٍْمُسلِمٍ سُجِنَ فِيهْابِمُخَالَفَتِهِ وَذَاقَ طَعمَْ عَذَاِبهاَبِمَعصْيَتِهِ وَحُبِسَ بَينَْ اَطبَاقِهَابِجُرمِهِ وَجَرِیرَْتِهِ وَهُوَیَضِجُّ اِلَيکَ بِلِسٰانِ اهلِْ تَوحْیدِکَ وَ یَتَوَسَّلُ اِلَيکَْ ضجٍيجَ مُومِّلٍ لرَحمَتِکَ وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اٴَھْلِ تَوْحیدِکَ،وَ یَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ۔ یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَھُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ،اٴَمْ کَیْفَ تُوْٴلِمُہ النّٰارُوَھُوَیَاٴْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،اٴَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھیبُھٰاوَاٴَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَرٰی مَکٰانَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاٴَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ،اٴَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ زَبٰانِیَتُھٰاوَھُوَ یُنٰادیکَ یٰارَبَّہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ في عِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰا،ھَیْھَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ من فَضْلِکَ،وَلامُشْبِہٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ
اے ميرے پاکيزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کيا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم ميں گرفتار اور معصيت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکهنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درميان کروٹيں بدلنے والا بنادے اور پهر یہ دیکھے کہ وہ اميد وار رحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحيد کی طرح پکارنے والا ،ربوبيت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہیں سنتا ہے۔
خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا،جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکھ رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنےلپیٹ ميں ليں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رہا ہوگا،وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح کروٹيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ،جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم ميں کس طرح چهوڑ دے گا جب کہ وہ تيرے فضل و کرم کا اميدوار ہوگا ،ہر گز تيرے بارے ميں یہ خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہیں ہے ،تونے جس طرح اہل توحيد کے ساتھ نيک برتاو کيا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
(دعا عند اھل البیتؑ سے اقتباس)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button