Uncategorized

روزہ خود سازی کا بہترین وسیلہ

آیت اللہ ابراہیم امینی
تزکیہ نفس اور اس کی پاکیزگی اور خودسازی کے لئے ایک بہت بڑی عبادت کہ جس کے بہت زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں وہ روزہ ہے۔ روزے کے فضیلت میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ
قال رسول الله صلی الله علیه و آله: الصوم جنة من النار
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۸۹)
روزہ جہنم کی آگ سے حفاظت کرنے والی ڈھال ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
ان الله تعالی یقول : الصوم لی و انا اجزی علیه
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۹۰)
خدا فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دونگا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
من صام یوما تطوعا ابتغاء ثواب الله وجبت له المغفرة
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۹۳)
” روزہ رکھنے والا بہشت میں پھرتا ہے اور فائدہ حاصل کرتاہ ے اس کے لئے فرشتے افطار کرنے تک دعا کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص ثواب کے لئے ایک مستحبی روزہ رکھے اس کے لئے بخشا جانا واجب ہے۔
حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
نوم الصائم عبادة و صمته تسبیح و عمله متقبل و دعائه مستجاب
( وسائل ، ج ۷ ص ۲۹۴)
روزہ دار کا سونا بھی عباد ہے اور اس کا چپ رہنا تسبیح ہے۔ اور اس کا عمل مقبول اور اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
نوم الصائم عبادة و صمته تسبیح و عمله متقبل و دعاء ه مستجاب
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۹۴)
قال الله عزّ و جل : کلّ اعمال ابن آدم بعشرة اضعافها الی سبعماة ضعف الاّ الصبر فانّه لی و انا اجزی به ، فثواب الصبر مخزون فی علم الله و الصبر الصوم
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۹۵)
اللہ تعالی فرماتا ہے :نیک بندوں کے اعمال دس برابر سے سات سو برابر ثواب رکھتے ہیں سوائے روزے کہ جو میرے لئے مخصوص ہو تو اس کی جزاء میں دونگا پس روزے کا ثواب صرف خدا جانتا ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے معراج کی رات فرمایا ۔
فی لیلة المعراج یا ربّ ما اوّل العبادة؟ قال : اوّل العبادة الصّمت و الصوم_ قال یاربّ و ما میراث الصوم؟ قال یورث الحکمة و الحکمة تورث المعرفة و المعرفة تورث الیقین فاذا استیقن العبد لا یبالی کیف اصبح بعسر ام بیسر
(مستدرک ، ج ۱ ص ۵۹۰)
اے میرے خالق۔ پہلی عبادت کونسی ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ پہلی عبادت ساکت رہنا اورروزے ۔ پیغمبر علیہ السلام نے عرض کی اے میرے خالق روزہ کا اثر کونسا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ روزے کا اثر دانائی ہے اور دانائی معرفت کا سبب ہوتی ہے۔ اور معرفت یقین کا سبب بنتی ہے اور جب انسان یقین کے مرتبے تک پہنچتا ہے تو پھر اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سختی میں یا آرام میں زندگی کرے۔
روزہ ایک خاص عبادت ہے کہ جس میں دو پہلو نفی اور ثبات موجود ہوتے ہیں پہلا اپنے نفس کو کھانے پینے اور عزیز لذت سے جو شرعا جائز ہے روکنا اور محافظت کرنا۔ اسی طرح خدا اور رسول پر جھوٹ نہ باندھنا اور بعض دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا۔ قصد قربت اور اخلاص کو جو در حقیقت اس عبادت کے روح کے بمنزلہ ہے۔ روزے کی حقیقت نفس کو روکنا اورمادی لذات سے حتمی طور سے قصد قربت سے محافظت کرنا ہوتا ہے۔ کھانا پینا جنسی عمل خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنا روزے کو باطل کردیتے ہیں فقہی کتابوں میں روزے کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ اگر کوئی ان امور یعنی کھانے پینے جماع خدا اور رسول پر جھوٹ باندھے ۔ انزال منی۔ حقنہ کرنا۔ غسل ارتماسی ۔ جنابت پر باقی رہنا کو قصد قربت سے ترک کرے تو اس کی عبادت صحیح ہے اور اس کی قضاء اور کفارہ نہیں بتلایا گیا ہے بلکہ روزہ اس سے زیادہ وسیع معنی میں بیان کیا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی روزہ دار وہ ہے کہ حس کے تمام اعضاء اور جوارح گناہوں کو ترک کریں یعنی آنکھ آنکھوں کے گناہوں سے اسی طرح زبان اور کان ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء اپنے اپنے گناہوں کو ترک کریں ایسا روزہ اللہ کے خاص بندوں کا ہے۔
اس سے بلند اور بالا ایک وہ روزہ ہے جو خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے اور وہ ان چیزوں کے ترک کرنے کے علاوہ اپنے دل کو ہر اس خیال اور فکر سے فارغ کردے جو خدا کی یاد سے روکے اور ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کا مہمان جانے اور اپنے آپ کو خدا کی ملاقات کے لئے آمادہ کے۔ نمونے کے طور پر اس حدیث کی طرف توجہ کیجئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
لیس الصیام من الطعام و الشراب ان لا یاکل الانسان و لا یشرب فقط و لکن اذا صمت فلیصم سمعک و بصرک و لسانک و بطنک و فرجک و احفظ یدک و فرجک و اکثر السکوت الاّ من خیر و ارفق بخادمک
(وسائل ، ج ۷ ص ۱۱۸)
روزہ صرف کھانے اور پینے کو ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ جب روزہ رکھے تو پھر کان اور آنکھ اور زبان اور شکم اور شرمگاہ کو بھی گناہوں سے محفوظ کرے اور ساکت رہے سوائے نیکی اور مفید کلام کے بات کرنے سے رکا رہے اور اپنی خدمت کرنے والوں اور نوکروں سے نرمی کرے جتنا ہو سکتا ہے ساکت رہے سوائے خدا کے ذکر کے اور اس طرح نہ ہو کہ روزے والا دن اس طرح کا ہو کہ جس دن روزہ نہ رکھا ہوا ہو ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے جو شخص ماہ رمضان کا روزہ ساکت ہو کر رکھے اور کان اور آنکھ اور زبان اور شرمگاہ اور دوسرے بدن کے اعضاء کو جھوٹ اور حرام اور غیبت سے اللہ کے تقرب کی نیت سے روکے رکھے تو وہ روزہ اس کے تقرب کا اس طرح سبب بنے گا کہ گویا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہم نشین ہو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
ان الصیام لیس من الطعام و الشراب وحده ، انّما للصوم شرط یحتاج ان یحفظ حتی یتمّ الصوم و هو الصمت الداخل اما تسمع قول مریم بنت عمران انّی نذرت للرحمان صوما فلن اکلّم الیوم انسیا یعنی صمتا فاذا صمتم فاحفظوا السنتکم عن الکذب و غضّوا ابصارکم و لا تنازعوا و لا تحاسدوا و لا تشاتموا و لا تنابزوا و لا تجادلو ا ولا تبادوا و لا تظلموا و لا تسافهوا و لا تزاجروا و لا تغفلوا عن ذکر الله و عن الصلاة والزموا الصمت والسکوت و الحلم و الصبر و الصدق و مجانبة اهل الشر و اجتنبوا قول الزور و الکذب و الفراء و الخصومة و ظنّ السوء و الغیبة و النمیمة و کونوا مشرفین علی الاخرة منتظرین لا يّامکم ، منتظرین لما وعدکم الله متزوّدین للقاء الله و علیکم السکینه و الوقار و الخشوع و الخضوع و ذلّ العبد الخائف من مولاء راجین خائفین راغبین راهبین قد طهّرتم القلوب من العیوب و تقدّست سرائرکم من الخبّ و نظفت الجسم من القاذورات ، تبرّا الی الله من عداه و والیت الله فی صومک بالصمت من جمیع الجهات مما قد نهاک الله عنه فی السرّ و العلانیة و خشیت الله حق خشیته فی السرّ و العلانیة ووهبت نفسک الله فی ایام صومک و فرغت قلبک له و نصبت قلبک له فیما امرک و دعاک الیه ، فاذا فعلت ذلک کله فانت صائم الله بحقیقة صومه صانع لما امرک و کلّما نقصت منها شیئا مما بيّنت لک فقد نقص من صومک بمقدار ذلک (الی ان قال) ان الصوم لیس من الطعام و الشراب انما جعل الله ذلک حجابا مما سواها من الفواحش من الفعل و القوم یفطر الصوم _ ما اقل الصوّام و اکثر الجوّاع ۔
(وسائل ، ج ۷ ص ۱۹۹)
روزہ صر ف نہ کھانے اور پینے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے شرائط ہیں کہ ان کی محافظت کرنی چاہئے تا کہ روزہ کامل اور تام ہو سکے وہ ہے سکوت اور چپ رہنا۔ کیا تم نے حضرت مریم علیہا السلام کی بات نہیں سنی کہ جو آپ نے لوگوں کے جواب میں کہا تھا کہ میں نے اللہ تعالی کے لئے نذر کی ہوئی ہے کہ آج کے دن کسی سے بات نہ کروں یعنی چونکہ روزے سے ہوں مجھے چپ رہتا چاہئے لہذا جب تم روزہ رکھو تو اپنی زبان کو جھوٹ بولنے سے روکو۔ اور غصہ نہ کرو۔ گالیاں نہ دو بری باتیں نہ کرو۔ جھگڑا اور لڑائی نہ کرو۔ ظلم اور ستم سے پرہیز کرو۔ جہالت اور بد اخلاقی اور ایک دوسرے سے دوری سے پرہیز کرو۔ اللہ تعالی کےذکر اور نماز سے غافل نہ رہو۔ سکوت اور تعقل اور صبر و صدق اور برے لوگوں سے دوری کا خیال کرو۔ باطل کلام جھوٹ بہتان دشمنی سوء ظن غیبت چغل خوری سے اجتناب کرو۔ اور آخرت کی طرف توجہ رکھو اور اس دن کے آنے کے انتظار میں رہو کہ جس دن خدا کا وعدہ پورا ہوگا اور اللہ تعالی کی ملاقات کا سامان مہیا کرو۔ آرام اور وقار خشوع خضوغ ذلت کہ جب کوئی بندہ اپنے مولی سے ڈرتا ہے اس کی رعایت کرو۔ خوف اور امید خوف اور ترس کی حالت میں رہو اور اگر اپنے دل کو عیبوں سے اور باطل کو دھوکا دینے سے اور بدن کو کثافت سے پاک اور صاف کرو۔ اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک چیز سے بیزاری کرو۔ اور اللہ کی حکومت کو روزے کے وسیلے سے اور ظاہر اور باطن کو جس سے خدا نے منع کیا ہے خالی کرنے سے قبول کر لیا اور اللہ تعالی سے خوف اور خشیت کو ظاہر اور باطن میں ادا کیا اور روزہ کے دنوں اپنے نفس کو خدا کے لئے بخش دیا اور اپنے دل کو خدا کے لئے خالی کر دیا اور اسے حکم دیا تا کہ وہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے اگر اس طرح اور اس کیفیت سے روزہ رکھا تو پھر تو واقعا روزہ دار ہے اور اپنے وظیفہ پر عمل کیا ہے اور ان چیزوں میں جتنی کمی اکرو گے اتناہی تیرا روزہ ناقص ہوجائیگا کیونکہ روزہ رکھنا صرف نہ کھانے اور پینے سے نہیں ہوتا بلکہ خدا نے روزے کو تمام افعال اور اقوال جو روزے کو باطل کردیتے ہیں حجاب اور مانع قرار دیا ہے پس روزے رکھنے والے کتنے تھوڑے ہیں اور بھوکے رہنے والے بہت زیادہ ہیں۔
اپنے آپ کو سنوار نے میں روزے کا کردار
اگر روزے کو اسی طرح رکھا جائے کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے چاہا ہے اور اسی کیفیت اور شرائط سے بجالا جائے کہ جو شرعیت نے معین کیا ہے تو پھر روزہ ایک بہت بڑی قیمتی اور مہم عبادت ہے اور نفس کے پاک کرنے میں بہت زیادہ اثر کرتا ہے روزہ ہر حالت میں نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے خالی کرنے اور نفس کو کامل اورزینت دیئے جانے والے اور اللہ تعالی کے اشراقات سے استفادہ کرنے میں کامل طور سے موثر ہوتا ہے۔ روزہ رکھنے والا گناہوں کے ترک کرنے کے وسیلے سے نفس امارہ پر کنٹرول کر کے اپنے قابو میں رکھتا ہے۔ روزے کے دن گناہوں کے ترک کرنے سے نفس کی ریاضت اور عملی تجربے کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں نفس کو گناہوں اور کثافت سے پاک کرنے کے علاوہ جائز لذات کھانے پینے سے بھی چشم پوشی کرتا ہے اور اس وسیلے سے اپنے نفس کو صفا اور نورانیت بخشتا ہے کیونکہ بھوک باطن کے صفا اور خدا کی طرف توجہہ کا سبب ہوتی ہے۔ انسان بھوک کی حالت میں غالباً خوش حالی کی حالت پیدا کر لیتا ہے کہ جو پیٹ بھری حالت میں اسے حاصل نہیں ہوتی۔ خلاصہ روزہ تقوی حاصل کرنے میں بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں تقوی حاصل کرنے کو روزے کے واجب قرار دینی کی غرض بتلایا گیا ہے۔ قرآن میں ہے ۔
یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلّکم تتّقون
( بقرہ ، ۱۸۳)
”اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے روزہ تم پر واجب کیا گیا ہے جیسے کہ پہلے لوگوں پر واجب کیا گیا تا کہ تھا تم اس وسیلے سے صاحب تقوی ہو جاؤ۔ جو شخص ماہ رمضان میں روز رکھے اور چونکہ روزہ دار پورے مہینے میں گناہوں اور برے اخلاق سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے تو وہ ماہ رمضان کے بعد بھی گناہوں کے ترک کرنے کی حالت کو باقی رکھے گا۔
یہاں تک جو کچھ کہااور لکھا گیا ہے وہ روزے کا نفس انسانی کے پاک کرنے اور نفس کو گناہوں اور کثافتوں سے صاف کرنے کا اثر لیکن روزہ کچھ مثبت اثرات بھی رکھتا ہے جو نفس کو کمال تک پہنچنے اور باطن کے خوشمنا ہونے اور ذات الہی تک تقرب کا موجب اور سبب بنتا ہے ۔ جیسے
۱۔ روزہ یعنی نفس کو مخصوص مفطرات سے روکنا ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں اخلاص اور قصد قربت سے نفس کی تکمیل اور تربیت ہوتی ہے اور قرب الہی کا دوسری عبادتوں کی طرح سبب بنتی ہے۔
۲۔ گناہوں اور اور لذات کے ترک کرنے سے روزہ دار کا دل صاف اور پاک ہو جاتاہے اور خدا کے سوا ہر فکر اور ذکر سے فارغ ہوجاتا ہے اس وسیلے سے اللہ تعالی کے اشراقات اور افاضات اور القاء اللہ کی استعداد اور قابلیت پیدا کر لیتا ہے اور اس حالت میں اللہ تعالی کے الطاف اور عنایات اسے شامل حال ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کے جذبے سے قرب الہی کو حاصل کر لیتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں وارد ہوا ہے کہ روزے دار کا سانس لینا اور سونا بھی ثواب اور عبادت ہے۔
۳۔ روزے کے دن عبادت اور نماز اور دعا اور قرآن پڑھنے ذکر اور خیرات اور مبرات کے بہترین دن ہوتی ہیں کیونکہ نفس حضور قلب اور اخلاص اور اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے لئے دوسرے دلوں سے زیادہ آمادہ اور حاضر ہوتا ہے۔ ماہ رمضان عبادت کی بہار اور خدا کی طرف توجہ کرنے کے لئے بہترین وقت ہوا کرتا ہے اسی لئے احادیث میں ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے فرزند سے سفارش کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ
اذا دخل شهر رمضان : فاجتهدوا انفسکم فان فیه تقسم الارزاق و تکتب الاجال و فیه یکتب وفد الله الذی یفدون الیه و فیه لیلة العمل فیها خیر من الف شهر
( وسائل، ج ۷ ص ۲۲۱)
” عبادت کرنے میں کوشش کرو کیونکہ اس مہینے میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے۔ اور اجل اور موت لکھی جاتی ہے۔ اس میں وہ لوگ جو خدا کے پاس جائیں گے لکھے جاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں تک ایک رات ایسی کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینے سے زیادہ افضل ہے۔ امیرالمومنین نے لوگوں سے فریاد کہ
علیکم فی شهر رمضان بکثرة الدعاء و الاستغفار فاما الدعاء فیدفع به عنکم البلاء و اما الاستغفار فتمحی به ذنوبکم
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۲۳)
ماہ رمضان میں دعا زیادہ کیاکرو اور توبہ اور استغفار کرو کیونکہ دعا کے وسیلے سے تم سے مصیبتیں دور کی جائیں گی اور توبہ اور استغفار کے ذریعے سے تمہارے گناہ مٹ جائیں گے۔
امیرالمومنین نے روایت کی ہے کہ ” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دن ہمارے لئے خطبہ بیان کیا اور اس میں فرمایا :
ان رسول الله خطبنا ذات یوم فقال: ایها الناس انه قد اقبل الیکم شهر الله بالبرکة و الرحمة و المغفرة _ شهر هو عند الله افضل الشهور و ایامه افضل الایام و لیالیه افضل اللیالی و ساعاته افضل الساعات ، هو شهر دعیم فیه الی ضیافة الله و جعلتم فیه من اهل کرامة الله انفاسکم فیه تسبیح و نومکم فیه عبادة و عملکم فیه مقبول و دعائکم فیه مستجاب ، فاسالوا الله ربّکم بنیات صادقة و قلوب طاهرة ان یوفقکم لصیامه و تلاوة کتابه ، فان الشقی من حرم غفران الله فی هذا الشهر العظیم واذکروا بجوعکم و عطشکم فیه جوع یوم القیامة و عطشه ، و تصدّقوا علی فقرائکم و مساکینکم ، ووقّروا کبارکم وارحموا صغارکم وصلوا ارحامکم واحفظوا السنتکم و غضّوا عمّا لا یحلّ النظر الیه ابصارکم و عمّا لا یحلّ الاستماع الیه اسماعکم و تحنّنوا علی ایتام الناس یتحنن علی ایتامکم وتوبوا الی الله من ذنوبکم وارفعوا الیه ایدیکم بالدعاء فی اوقات صلاتکم فانها افضل الساعات ینظر الله عزّ وجل فیها بالرحمة الی عباده ، یجیبهم اذانا جوه و یلبیهم اذا نادوه و یعطیهم اذا سالوه و یستجیب لهم اذا دعوه …
ایها الناس ان انفسکم مرهونة باعمالکم ففكّوها باستغفارکم ، و ظهورکم ثقیلة من اوزارکم فخفّفوا عنها بطول سجودکم واعملوا ان الله اقسم بعزّته ان لا یعذّب المصلّین والساجدین و ان لا یروعهم بالنار یوم یقوم الناس لربّ العالمین _ ایها الناس من فطر منکم صائما مؤمنا فی هذا الشهر کان له بذلک عند الله عتق نسمة و مغفرة لما مضی من ذنوبه قیل یا رسول الله فلیس کلّنا نقدر علی ذلک ، فقال صلی الله علیه و آله : اتقوا النار و لو بشقّ تمرة ، اتقوا النار و لو بشربة من مائ، ایها الناس من حسّن منکم فی هذا الشهر خلقه کان له جوازاعلی الصراط یوم تزلّ فیه الاقدام و من خفف فی هذا الشهر عما ملکت یمینه خفّف الله علیه حسابه و من کفّ فیه شرّه کفّ الله عنه غضبه یوم یلقاء و من اکرم فیه یتیما اکرمه الله یوم یلقاه و من وصل فیه رحمه و صله الله برحمته یوم یلقاه و من قطع فیه رحمه قطع الله عنه رحمته یوم یلقاه و من تطوّع فیه بصلاة کتب الله برائة من النار و من ادّی فیه فرضا کان له ثواب من ادّی سبعین فریضة فیما سواه من الشهور و من اکثر فیه الصلاة عليّ ثقّل الله میزانه یوم تخفّ الموازین و من تلا فیه آیة من القرآن کان له مثل اجر من ختم القرآن فی غیره من الشهور_ ایها الناس ان ابواب الجنان فی هذا الشهر مفتّحةفاسالوا ربّکم ان لا یغلقها علیکم و الشیاطین مقلولة فاسئلوا من ربکم ان لا یسلّطها علیکم ، قال امیر المؤمنین علیه السلام فقمت فقلت: یا رسول الله ما افضل الاعمال فی هذا الشهر؟ فقال: یا ابا الحسن افضل الاعمال فی هذا الشهر الورع عن محارم الله
(وسائل ، ج ۷ ص ۲۲۷)
لوگو! ماہ رمضان کا مہینہ برکت اور رحمت اور مغفرت کی ساتھ تمہارے طرف آیا ہے یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے۔ اس کے دن دونوں سے بہترین دن ہیں اور راتیں راتوں میں سے بہترین راتیں ہیں اس کی گھڑیاں گھڑیوں میں سے بہترین گھڑیاں ہیں یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تم خدا کی طرف اس میں دعوت دیئے گئے ہو اور اللہ تعالی کی نزدیک صاحب کرامت قرار دیئے گئے ہو۔ اس میں تمہارا سانس لینا تسبیح کا ثواب رکھتا ہے اور تمہارا سونا عبادت کا ثواب رکھتا ہے۔ اس مہینے میں تمہارے اعمال قبول کئے جاتے ہیں اور تمہاری دعائیں قبول کی جاتی ہیں پس تم سچی نیت اور پاک دل سے خدا کو پکارو کہ اس نے تمہیں اس میں روزہ رکھتے اور قرآن پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے کیونکہ بدبخت اور شقی ترین وہ شخص ہے جو اس بزرگ مہینے میں اللہ تعالی کے بخشنے جانے سے محروم رہے اس میں اپنی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔ فقراء اور مساکین کو صدقہ دو اور بڑوں کا احترام کرو اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کرو۔ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو۔ اپنی زبان کی حفاظت کرو اور حرام چیزوں سے اپنی آنکھوں کو بندہ کرو اور کانوں کو احرام کے سننے سے بند کرو۔ یتیموں پر رحم اور مہربانی کرو۔ اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ اور نماز کے اوقات میں اپنے ہاتھوں کو دعا کرنے کے لئے بلند کرو کیونکہ یہ وقت بہترین وقت ہے کہ خدا لوگوں پر رحمت کی نگاہ ڈالتا ہے اور ان کی مناجات کو قبول کرتا ہے اور ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے جب کوئی سوال کرے اسے عطا کرتا ہے اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔ لوگو تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے مقابلے میں گروہی میں پس استغفار کے ذریعے انہیں آزاد کراؤ۔
تمہاری پشت گناہوں کی وجہ سے سنگین ہوچکی ہے طویل سجدوں سے اس بار سنگین کو ہلکار کرو اور جان لو کہ خدا نے اپنے عزت کی قسم کھا رکھی ہے کہ نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہ کرے اور ان کو قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ڈرائے۔
لوگو جو شخص اس مہینے میں روزہ دار کو افطاری کرائے اسے ایک بندے کے آزاد کرنے کا ثواب دیا جائیگا اور گذرے ہوئے گناہوں کو معاف کردیا جائیگا۔ کہا گیا۔ یا رسول اللہ۔ ہم تمام افطاری دینے پر قدرت نہیں رکھتے ۔ آپ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ سے بچو خواہ ایک ٹکڑا یا پانی کا ایک گھونٹ پلانا ہی کیوں نہ ہو ۔ لوگو جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا کرے قیامت کے دل پل صراط سے عبور کرے گا۔ اور خدااسے آزاد کرے گا۔ جو شخص اس مہینے میں کسی بندے کے کام کو آسان کردے خداوند عالم قیامت کی دن اس کے کام کو آسان کردے گا۔ جو شخص اس مہینے میں اپنی برائی کو لوگوں سے روکے خدا قیامت کے دن اپنے غضب کو اس سے روکے گا۔ جو شخص کسی یتیم کی عزت کرے خدا قیامت کے دن اسے اپنی رحمت سے متصل کرے گا جو شخص قطع رحمی کرے خدا قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کردے گا۔ جو شخص اس مہینے میں مستحب نمازیں پڑھے خدا اس کے لئے جہنم سے برات لکھ دے گا۔ جو شخص اس مہینے میں مجھ پر زیادہ درود بھیجے خدا اس کے نامہ اعمال کے ترازو کو بھاری قرار دے گا۔ جو شخص اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت پڑھے اس کو ایک قرآن کے ختم کرنے کا جو دوسرے مہینوں میں پڑھے گا ثواب دیا جائیگا۔ لوگو اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اللہ تعالی سے طلب کرو کہ وہ تم پر بند نہ کرے ۔ اس مہینے میں دوزخ کے دروازے بند کردیئےاتے ہیں۔ خدا سے طلب کرو کہ وہ تم پر کھول نہ دیئے جائیں۔ اس مہینے میں شیطانوں کو زنجیروں میں بند کر دیا جاتا ہے خدا سے طلب کرو کہ ان کو تم پر تسلط اور غلبہ نہ دیا جائے۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابوالحسن۔
اس مہینے میں محرمات سے پرہیز کرنا سب سے زیادہ افضال عمل ہے۔
جیسے کہ ان حادیث سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ماہ رمضان پر برکت اور بافضیلت مہینہ ہے یہ عبادت اور اپنے آپ کو بنانے دعا اور تہجد نفس کی تکمیل اور تربیت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں عبادت دوسرے مہینوں کی نسبت کئی برابر ثواب رکھتی ہے یہاں تک کہ اس مہینے میں مومن کا سانس لینا بھی عبادت ہے۔ اس مہینے مین جنت کے دروازے مومنین کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کے فرشتے خدا کے بندوں کو عبادت کی طرف بلاتےرہتے ہیں بالخصوص سحری اور شب قدر کہ جس میں جاگتے رہنا اور عبادت کرنا ہزار مہینے سے افضل ہے خدا نے اس مہینے میں عام دربار لگایا ہے اور تمام مومنین کو اپنی طرف مہمانی کے لئے بلایا ہے اس دعوت کا پیغام پیغمبر علیہم السلام لائے ہیں۔
میزبان جواد مطلق ہے ۔ اللہ کے مقرب فرشتے مہمان مومنین کے خدمت گزار ہیں۔ اللہ تعالی کی نعمتوں کا عام دسترخوان بچھا ہوا ہے۔ مختلف قسم کی نعمتیں اور جوائز کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے۔ اور نہ کسی کے دل پر خطور کیا ہے مہیا کر دی گئی ہیں۔ رمضان کا مہینہ پر برکت اور با فضیلت مہینہ ہے۔اللہ تعالی کی توفیق ہر طرف سے آمادہ اور مہیا ہے۔ دیکھیں کہ ہماری ہمت اور لیاقت کتنی ہے اگر ہم نے غفلت کی تو قیامت کے دن پشیمان ہونگے لیکن اس دن پشیمانی کوئی قائدہ مند نہ ہوگی۔ ماہ رمضان کی دعائیں مفاتیح الجنان اردو اور دوسری دعاؤں کی کتابوں میں موجود ہیں جیسے مفاتیح الجنان جدید و غیرہ۔ خلوص اور توجہہ کے ساتھ اللہ تعالی کے تقرب اور سیر و سلوک کے لئے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ باقی تمام عبادات بھی نماز اور روزے ذکر اور دعا کی طرح اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے اور تکمیل اور تربیت نفس میں مفید اور موثر ہوتے ہیں چونکہ ہماری بنا اختصار پر تھی لہذا ان کو توضیح اور تشریح سے صرف نظر کیا ہے۔
(خود سازی یعنی تزکیہ و تہذیب نفس سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button