خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:200)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک05 مئی 2023ء بمطابق 14 شوال المکرم1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: خوف خدا و خشیتِ الٰہی
خوف کے معنی، باطنی ڈراور وحشت ہے۔ لہٰذا اسے ترک ِگناہ اور ہر قسم کے جرم سے دوری کے لیے ایک باطنی ہتھیار شمار کیا جاتا ہے۔ مثلاً قانون، عدالت، جرمانے، قید اور سزائوں کے خوف کی وجہ سے انسان جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا اور یہ سوچ کرلا قانونیت سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اسے سزاکا سامنا نہ کرنا پڑےلہٰذا خوف ِخداکے معنی اللہ رب العزت کی ذات ِپاک سے ڈر اور وحشت نہیں، کیونکہ انسان عام طور پر ظالم و جابر سے ڈرتا ہے جبکہ اللہ تو عادل اور رحمان اور رحیم ہے تو پھر خوف خدا کا معنی اللہ کے قانون اور اس کے عدل سے ڈرنا ہے۔
قرآنِ مجید میں خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی مختلف خصوصیات میں سے خوف خدا کو ایک اہم خصوصیت کے طور پر بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ:
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا, اِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا.
"اور جو یوں التجا کرتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں عذاب جہنم سے بچا، بے شک اس کا عذاب تو بڑی تباہی ہے۔ بے شک جہنم تو بدترین ٹھکانا اور مقام ہے”۔
(سورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۵، ۶۶)
خداوند ِعالم نے اس آیہ شریفہ میں اپنے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیت کی جانب اشارہ کیا ہے جو ” خوف وخشیت ِالٰہی“ کی صفت ہےیعنی یہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بُرے انجام سے شدت کے ساتھ خوفزدہ رہتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی کے معنی شیطان کے حکم کی تعمیل ہے اور یہ عمل عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ میں ڈالے جانے کا باعث ہوگا۔
یہ لوگ گناہ کے انجام اور دوزخ کے عذاب سے اس قدر خوف رکھتے ہیں کہ ان کی یہ باطنی کیفیت اپنا اظہار کرتی ہے اور وہ انتہائی عاجزی کے ساتھ درگاہِ الٰہی میں دست ِدعا بلند کرتے ہوئے التماس کرتے ہیں کہ: بار الٰہا! ہمیں مجرموں کے لیے تیار کیے گئےدوزخ کے سخت عذاب سے دوررکھنا۔
اس طرح یہ لوگ قدرتی طور پر عذاب ِالٰہی کی وجہ بننے والے عوامل سے پرہیز کرنے لگتے ہیں اور فرامینِ الٰہی کی تعمیل اور احکامِ الٰہی کی انجامدہی کے ذریعے خداوند ِعالم کی بے پایاں رحمت کو اپنی جانب جلب اور جذب کرتے ہیں۔
ان لوگوں پر یہ حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے، اور ایک لمحے کے لیے بھی خوف ِخداان سے دور نہیں ہوتایہ لوگ غرور و غفلت میں مست، مدہوش اور بے پروا زندگی بسرکرنے والے لوگوں کی طرح خدا کی اس وعید کو ہنسی مذاق نہیں سمجھتے۔
خوف ِخدا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان عدلِ الٰہی کے پیمانے پر اپنے اعمال کا وزن کرےلہٰذا خوف کے معنی ان سزائوں کو ناگوار سمجھنا ہے جو گناہ اور خدا کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
قرآنِ مجید انبیائے الٰہی کا تعارف بشیر ونذیر کی حیثیت سے کراتا ہےیعنی یہ ہستیاں انسانوں کو رحمت ِالٰہی، بہشت اور بے پایاں جزاو ثواب کی نوید بھی دیتی ہیں، او رانہیں خبردار کرتے ہوئے گناہ کے خطرناک انجام سے متنبہ بھی کرتی ہیں۔
انبیا کی یہ دو صفات، اس بات کی ترجمان ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ وہ خوف اور امید کے بین بین زندگی بسر کرےخدا کی رحمت کی امید بھی رکھے اور اس سے خوف بھی کھائےیہی اعتدال کا راستہ ہےاگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو اپنا لے اور دوسرے کو چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے باعث ِخطر ہےکیونکہ اگر وہ صرف(رحمت ِالٰہی) کا امید وار رہا، تو دھوکے میں پڑجائے گا اور خدا کی رحمت واسعہ کی امید پر ہر گناہ میں ہاتھ رنگنے لگے گااس کے برخلاف اگر وہ صرف خوفزدہ رہا، تو یاس و ناامیدی میں مبتلا ہوجائے گا اور یہ حالت انسان کو افسردگی اور خستگی میں مبتلا کردے گی، اس کے اندر سے ولولہ، نشاط اور آگے بڑھنے کی امنگ ختم کرکے اسکی پیشرفت کو روک دے گی۔
اسی بنیاد پر بہت سی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار نے فرمایا ہے کہ:مومن خوف اور رجا (امید) کے درمیان زندگی بسرکرتا ہے اور اس میں یہ دونوں خصوصیات مساوی طور پر پائی جاتی ہیں لہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے تھے کہ:
اِنَّهُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍمُؤْمِنٍ اِلّا وَفِی قَلْبِهِ نُورٰانِ، نُورُخِیَفةٍ وَنُورُ رَجٰاءٍ، لَوْوُزِنَ هٰذٰالَمْ یَزِدْعَلٰی هٰذٰا، وَلَوْ وُزِنَ هٰذٰا لَمْ یَزِدْ عَلٰی هٰذٰا۔
"کوئی شخص مومن نہیں، سوائے اس کے جس کے دل میں دو نور پائے جاتے ہوں نورِ خوف اور نورِ امیداگر اس میں ان دونوں کا باہم وزن کیا جائے تو دونوں کا وزن برابر ہو گا”۔(اصول کافی ج ۲۔ ص۷۱)
یہ نکتہ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہےسورہ زمر کی آٹھویں اور نویں آیت میں غیر مومن اور مومن انسان کا مواز نہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ پہلا گروہ (یعنی غیر مومن گروہ) بلا اور مصیبت کے موقع پر خوفزدہ ہوجاتا ہے اور نعمت و آسائش کے موقع پر مغرور اور خدا سے بے خبر، جبکہ دوسرا گروہ (مومنوں کا گروہ) ہمیشہ خوف خدا بھی رکھتا ہے اور ساتھ اس کی رحمت کا امیدوار بھی رہتا ہےیہ دونوں گروہ کسی صورت برابر نہیں ہوسکتےبلکہ پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا گروہ راہِ راست پر گامزن ہےدوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو:

يَحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّه
"آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے رکھتا ہے”۔ (سورہ زمر۳۹۔ آیت ۹)
قرآن کی نظر میں خوف خدا:۔
قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں خوف وخشیت ِالٰہی کی اہمیت او رمختلف ابعاد میں اسکے درجات کا تذکرہ ہوا ہےمثال کے طور پر سورہ سجدہ کی آیت سولہ میں، سچے اور حقیقی مومنین کی شان میں فرمایا گیا ہے:
تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۔
"(رات کو) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں”۔ (سورہ سجدہ ۳۲آیت ۱۶)
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوف اور امید، خدا کے ان مخلص بندوں کی شب بیداریوں اور ان کے خدا سے مضبوط تعلق کا سبب اور وجہ ہیں اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔
سورہ ناز عات کی آیات نمبر چالیس اور اکتالیس میں ہے کہ:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى
"اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اور نفس کو خواہشات سے روکتا ہے، اس کا ٹھکانا یقینا جنت ہے”۔
اس آیت کی بنیاد پر، خوفِ خدا ترک ِگناہ کا مقدمہ ہے اور اسکا نتیجہ خدا کا اجرِ عظیم یعنی جنت ہے۔
اسی بات کو سورئہ رحمٰن کی چھیالیسویں آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ
"اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اس کے لیے دو باغ ہیں”۔
خوف خدا کے مراتب:۔
جب ہم عظمت ِالٰہی کے سامنے خوف و ہراس سے متعلق آیات ِقرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس خصلت کے بارے میں ایسے مختلف الفاظ اور تعبیرات کے ذریعے گفتگو کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف انسانوں کے خوف و ہراس کے درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
مرحوم شیخ صدوؒق نے کتاب ” خصال“ میں قرآنِ کریم کی روشنی میں خوف کو پانچ اقسام میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر قسم کے لیے ایک آیت کا ذکر کیا ہے۔
یہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں:
۱۔ خوف ۲۔ خشیت۳۔ وجل۴۔ رہبت ۵۔ ہیبت ۔اس کے بعد ان کے بار ے میں کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خوف، گناہگاروں کے لیے ہے۔
خشیت، علما کے لیے ہے۔
وجل(دل کا خوفزدہ ہونا)، انکساری کے ساتھ تسلیم ہونے والوں کے لیے ہے۔
رہبت، عابدوں کے لیے ہے اور ہیبت کا تعلق عارفوں سے ہے۔
پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
خوف، گناہوں کی وجہ سے ہے
خشیت، وظائف و فرائض کی انجامدہی میں کوتاہی کے احساس کی وجہ سے طاری ہونے والا خوف و ہراس ہے،
وجل اور قلبی خوف و ہراس، خدمت ترک کرنے کی وجہ سے ہے
رہبت، عبادت میں تقصیر اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ہے
اور ہیبت، اسرار کے انکشاف کے وقت شہودِ حق کی وجہ سے خدا کے لامتنا ہی شکوہ وعظمت سے خوف و ہراس کا نام ہے(خصال۔ ج۱۔ ص۲۸۳)
خوف خدا میں شدت و ضعف کا فرق:۔
خوف کے مراتب کے بارے میں ایک دوسرا موضوع یہ ہے کہ خوف شدت اور ضعف رکھتا ہےجوشخص خوف کے جس مرتبے کا حامل ہو۔ اسی کی مناسبت سے مقامات حاصل کرتا ہےوہ ہستیاں جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، مثلاً انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی، ان میں خدا کا شدید ترین خوف پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کے درمیانی حصے میں اپنی نمازوں اور مناجات کے دوران خوف ِخدا سے گریہ ونالہ وفغاں کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے بہنے والے شفاف آنسوئوں سے اپنی روح کو دھوتے ہیں، اور اپنے شوق و خوف کے آنسوئوں کے ذریعے اپنے پرزور احساسات کے ساتھ اپنی انتہائی تواضع اور کمالِ بندگی کا اظہار کرتے ہیں اس قسم کا گریہ وزاری اس قدر پسندیدہ اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
مَنْ دَرَفَتْ عَیْنٰاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، کٰانَ لَهُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ مِنْ دُمُوعِهِ مِثْلَ جَبَلِ اُحُدٍیَکُون فِی مِیزانِهِ فِی الأَجْرِ
"جس کی آنکھ خوف ِخدا سے بہنے والے آنسوئوں سے تر ہوجائے، اسکے آنسوئوں کا ہر قطرہ روزِ قیامت اس کے میزانِ عمل میں احد کے پہاڑ کی مانند وزن رکھے گا”۔ (بحارالانوار۔ ج ۹۳ص ۳۳۴)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اَلْبُکٰاءُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ مِفْتٰاحُ رَحْمَةِ اللهِ
"خوفِ خدا سے رونا، رحمت ِالٰہی کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے”۔ (غررالحکم )
پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف خدا کی اہمیت
پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کلام میں اس خصلت کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور خوف ِخدا نہ رکھنے کی مذمت کی گئی ہے۔ہم اس سلسلے میں محترم سامعین کی توجہ رسولِ مقبول ؐاور ائمہ اطہارؑ کے چند اقوال کی جانب مبذول کراتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
اَعْلَی النّٰاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَاللهِ اخْوَفُهُمْ مِنْهُ
"خدا کے نزدیک لوگوں میں اعلیٰ وارفع مقام کے حامل افراد وہ لوگ ہیں جو ان میں سے زیادہ خوف ِخدا رکھتے ہیں "۔(بحارالانوارج ۷۷۔ ص۱۸۰)
امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا:جب قیامت برپا ہوگی تو منادیٔ حق ندا دے گا کہ:
ایُّهَاالنّٰاسُ اِنَّ اَقْرَبَکُمُ الْیُوْمُ مِنَ اللهِ اَشَدُکُمْ مِنْهُ خَوْفاً
"اے لوگو! آج بارگاہِ خدا میں تم سب سے مقرب ترین شخص وہ ہے جو دنیا میں دوسروں سے زیادہ خدا کی عظمت سے خوفزدہ تھا”۔(بحارالانوارج ۷۸۔ ص۴۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
لٰایَکُونُ الْعُبُدُ مُؤْمِنًا حَتّیٰ یَکُونَ خٰائفاً رٰاجِیاً
"کوئی بندہ خدا اس وقت تک ایمان کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک اس میں خوف اور امید کی خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں”۔( بحارالانوارج ۷۰۔ ص ۳۹۲)
البتہ یہ بات واضح ہے کہ سچا خوف وہ ہوتا ہے جو اطاعت اور ترک ِمعصیت کا موجب بنے اور اسکی علامات عمل سے ظاہر ہوں، جبکہ جھوٹا خوف کھوکھلا اور غیر موثر ہوتا ہے۔
اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللهَ خَافَ اللهَ، وَمَنْ خٰافَ اللهَ سَخَتْ نَفْسُهُ عَنِ الدُّنْیٰا
"جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ اس سے خوف کھاتا ہے، اور جوشخص خوف ِ خدا رکھتا ہے، وہ دنیا کا گرویدہ نہیں ہوتا”۔(اصول کافی ج ۲ص ۶۸)
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ میں نے امام سے عرض کیا:
بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کی رحمت سے (مغفرت کی) امید رکھتے ہیں ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے، یہاں تک کہ موت ان کے سرپر آپہنچتی ہے (اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں کیا انہیں اُن کی اِس امید کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا؟ )
امام ؑنے فرمایا: اس قسم کے لوگ، ایسے افراد جو اپنی آرزئوں ہی میں مگن رہتے ہیں، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں یہ لوگ (دراصل) امید وار نہیں ہوتےجوشخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے؟ اس کا طلبگار ہوتا ہے، اور جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے، اس سے گریز کرتا ہے (اس خصلت سے عاری یہ لوگ درحقیقت خدا سے روگرداں ہیں اور عذاب کے موجبات، جوگناہ ہیں، کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں)(اصولِ کافی ج۲۔ ص۶۸)
امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:
لاٰخَوْفَ کَخَوْفِ حٰاجِزٍ، وَلاٰ رَجٰاءَ کَرَجٰاء مُعِینٍ
"کوئی خوف، اس خوف کی مانند گراں قیمت نہیں جو گناہ سے باز رکھتا ہےاور کوئی امید اس امید سےگراں قدر نہیں جو (توبہ اور عواملِ نجات کے سلسلے میں) مدد گار ہوتی ہے”۔ (بحارالانوارج ۷۰۔ ص۱۶۴)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
اَلْعَجَبْ مِمَّنْ یَخَافُ الْعِقٰابَ فَلَمْ یَکِفَّ، وَرَجَا الثَّوابَ فَلَمْ یَتُبْ
"باعث ِتعجب ہے وہ شخص جو عذاب ِالٰہی سے ڈرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گناہوں سے باز نہیں رکھتا اور ثواب وپاداشِ الٰہی کی امید رکھتا ہے لیکن توبہ نہیں کرتا”۔(بحارالانوارج ۷۷۔ ص ۲۳۷)
امام حسین علیہ السلام ” دعائے عرفہ“ میں ایک مقام پر خدا سے عرض کرتے ہیں کہ:
اَللَّهُمَّ اجْعَلْنی اَخْشاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ
"بارِالٰہا! مجھے اپنی بارگاہ میں ایسا خوف رکھنے والا بنادے کہ گویا میں تجھے دیکھ رہا ہوں”۔
آج کی گفتگو کا خلاصہ
ہماری آج کی گفتگو سے یہ نتیجہ برامد ہوتا ہے کہ خوف کی خصلت، خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی خصوصیت اور ایک اعلیٰ اور تعمیری انسانی فضیلت ہے۔خوف صرف زبان اور حالت کے ذریعے اظہار کا نام نہیں بلکہ کامل خوف وہ ہے جس کے آثار عمل میں دکھائی دیں اور جو گناہوں سے دوری کا قومی عامل بنے۔
خوف کے اعلی مراحل وہ ہیں کہ انسان رات کی تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس سے مناجات کے دوران گریہ وزاری کرے اور انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا دل خدا سے وابستہ رکھے اور اپنے آپ کو خدا کی عظمت کے سامنے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے۔
امام حسن علیہ السلام کا واقعہ:
اس گفتگو کو ہم اس معروف قصے پر ختم کرتے ہیں جو قیامت کے وحشتناک حوادث سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خوف کی نشاندہی کرتا ہے:امام حسن علیہ السلام اپنی حیات کے آخری لمحات میں خوف ِخدا سے گریہ کررہے تھےوہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے سوال کیا: اے فرزند ِرسول! آپؑ جو بارگاہ الٰہی میں انتہائی بلند درجے اور مقام کی حامل ہیں، آپؑ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ؐنے بکثرت فرمایا ہےآپؑ جو بیس مرتبہ پیدل حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے ہیں، تین مرتبہ آپؑ نے اپنا تمام مال و دولت راہِ خدا میں ضرورت مندوں کو بخشا ہے(لہٰذا موت کا یہ سفرتو آپؑ کے لیے مبارک و مسعود سفر ہے) اسکے باوجود آپؑ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟
امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا: اِنَّما اَبْکِی لِخِصْلَتَیْنِ لَهِوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِراقِ الاَحِبَّهِ
(جان لو کہ میں دو وجوہات کی بنا پر رورہا ہوں، ایک روزِ قیامت کی وحشت کی وجہ سے، کہ اس روز ہر کوئی حالات سے آگاہی اور نجات کی کوئی راہ تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہا ہوگا اور دوسری وجہ دوستوں کی جدائی ہے(امالی ٔشیخ صدوق مجلس ۳۹حدیث ۹)

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button