امام رضا علیہ السلام کا عمران صابی سے مناظرہ

وجود خدا اور اس کے صفات پر امام رضاؑ کا ایک کلامی مناظرہ ہے۔ یہ مناظرہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جس کے مطابق امام رضاؑ اکثر و بیشتر عباسی سلسلہ کے خلیفہ مامون عباسی کی خواہش کے مطابق عیسائیوں، یہودیوں اور زرتشتیوں کے عظیم علماء سے مناظرہ کیا کرتے تھے۔ اس مناظرے کے دوران عمران صابی نے خداوند عالم کے متعلق بہت سے سوالات کئے اور امام رضاؑ نے ان سب کے جوابات اسے عنایت فرمائے۔
اس حدیث کے راوی کے بقول، عمران صابی امام رضاؑ کے جوابات سے قانع ہوا اور اپنی زبان پر شہادتین جاری کرکے مسلمان ہوگیا۔ یہ حدیث متعدد کتابوں جیسا کہ شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی کتاب "توحید صدوق” اور "عیون اخبار الرضا” وغیرہ میں نقل ہوئی ہے۔
مناظرے کا پس منظر
امام رضاؑ کے مناظرات کے متعلق ایک حدیث میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں مختلف ادیان کے بڑے بڑے علماء سے مناظرے کئے۔
(شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-175۔)
اس حدیث کے راوی حسن بن محمد نوفلی، اس مناظرے کے پس منظر کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: جس وقت امام رضاؑ مدینہ منورہ سے عباسی خلیفہ مامون عباسی کے پاس مرو تشریف لائے تو اس نے مختلف ادیان سے تعلق رکھنے والے متعدد علماء اور متکلمین جیسا کہ جاثَلیق (عیسائیوں کا بڑا عالم)، رأس الجالوت (یہودیوں کا بڑا عالم)، صابئیوں کے بڑے علماء اور اسی طرح ہِربِذ (زرتشتیوں کا بڑا عالم) کو اکھٹا کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ امام رضاؑ کے ساتھ مناظرہ کریں۔
( شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-418؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-155۔)
پھر اس نے امام رضاؑ سے کہا کہ اگر آپ کو پسند ہو تو آپ مناظرے میں شرکت فرمائیں۔ امام رضاؑ نے اس کی اس درخواست کو قبول فرمایا اور اگلے دن مامون کے پاس تشریف لے گئے۔
( شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-418؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-155۔)
امامؑ نے اس مناظرے میں جاثَلیق، رأس الجالوت و ہِربِذ سے گفتگو کرنے اور انہیں مغلوب کرنے کے بعد –(شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-175۔)-مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اگر کوئی اسلام کا مخالف ہے تو وہ اپنے سوالات دریافت کر سکتا ہے۔ اسی وقت عمران صابی کہتا ہے کہ میں نے خداوند عالم کی وحدانیت کے بارے میں کوفہ، بصرہ، شام اور جزیرہ کے بہت سے علماء و متکلمین سے گفتگو کی لیکن کوئی بھی اس موضوع پر مجھے قانع کنندہ جواب نہیں دے سکا۔ چنانچہ اس نے امام رضاؑ سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی درخواست کی جسے امامؑ نے قبول فرما یا۔
(شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص430؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص168۔)
عمران صابی کے سوالات
اس مناظرے میں عمران صابی نے امام رضاؑ سے خداوند عالم کے متعلق بہت سے سوالات دریافت کئے کہ ان میں سے بعض کو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے:
1۔ہستی کا سب سے پہلا موجود کون ہے؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص169۔)
2۔کیا اس موجود کو اپنے بارے میں سب کچھ معلوم ہے؟ اور کیا اسے اپنی ذات کا علم ہے؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص169۔)
3۔خدا کیسے خلق کرتا ہے اور خلق کرنے کے معنی کیا ہیں اور خلق کی کتنی اقسام ہیں؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص170۔)
4۔کیا مخلوق کو خلق کرنے سے خدا میں کوئی تغیر و تبدیلی رونما ہوتی ہے؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص171۔)
5۔ہم کس چیز کے ذریعے خدا کے وجود تک پہنچتے ہیں؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص171۔)
6۔اس کی حقیقت کیا ہے؟ ( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص171۔)
7۔کیا خدا، مخلوقات کے اندر ہے یا مخلوق اس کے اندر ہے؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص173۔)
8۔خداوند عالم کی وحدانیت، کیا اس ذات کی معرفت سے سمجھ میں آتی ہے یا اس کے صفات کی معرفت سے؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص172۔)
9۔خدا کہاں رہتا ہے؟ کیا کوئی چیز اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے؟ اور کیا وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نقل مکانی کرتا ہے؟( شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص176۔)
مناظرے کا نتیجہ
اس مناظرے کے راوی، حسن بن محمد نوفلى کے بقول، جب امام رضاؑ نے عمران صابی کے تمام سوالات کے جوابات دے دیئے تو وہ قانع ہوگیا اور اس نے کہا: بے شک خدا ویسا ہی ہے جیسا امام رضاؑ نے بتلایا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ زبان پرشہادتین جاری کرتا ہے اور مسلمان ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد راوی کہتا ہے کہ مناظرہ ختم ہونے کے بعد امام رضاؑ نے عمران کو شام کے کھانے کے واسطے اپنے بیت الشرف پر مدعو کیا اور کھانے کے بعد ایک قیمتی لباس، ایک سواری اور دس ہزار درہم اسے تحفہ میں دئیے۔( شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص178۔)
اس روایت کے مطابق اس مناظرے کے بعد کچھ عرصہ تک، بہت سے علماء و متکلمین عمران صابی کے پاس جاتے اور اس سے بحث و گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ ان سب کو مغلوب کر دیتا تھا۔ مامون عباسی نے خوش ہوکر اسے دس ہزار درہم سے نوازا اور امام رضاؑ نے اسے شہر بلخ سے صدقات و زکات اکھٹا کرنے کا ذمہ دار مقرر فرمایا۔
( شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص178۔)
ایدرس:
https://ur.wikishia.net/view/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85_%D8%B1%D8%B6%D8%A7_%DA%A9%D8%A7_%D8%B9%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%86_%D8%B5%D8%A7%D8%A8%DB%8C_%D8%B3%DB%92_%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%B8%D8%B1%D9%87