سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

عظمت قرآن جناب زہراء علیھا السلام کی نگاہ میں اور عظمت زہراء علیھا السلام قرآن کی نگاہ میں

سید علی رضا شیرازی :متعلم جامعۃ الکوثر
خلاصہ:
عندلیب چمنِ نبوت و رسالت، عروس بوستانِ امامت و ولایت، مرکزِ حدیث کساء، نقطہِ دائرہ اِنَّمَا، صِدِّیقةُ الكبرىٰ، جنابِ فاطمةُ الزھراء سلام اللّٰہ علیھا کا گھرانہ مرکزِ نزولِ قرآن اور وحیِ اِلٰہی کا ترجمان ہے۔قرآن مجید اور جناب سیدہ کونین ؑ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کلامِ الٰہی قرآن صامت ہے، جنابِ سیدہ فاطمہ ؑ قرآنِ ناطق ہیں۔سیرت فاطمہ ؑ قرآن مجید کی عملی تفسیر کا نام ہے۔ ملیکہِ جہانِ شرافت، مرکزِ عصمت و عفت کا ہرلمحہ تلاوتِ قرآن اور عمل تعلیمِ قرآن کے مطابق انجام پایا ،جسکی عکاسی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ان الفاظ میں فرمائی ؛
آں ادب پروردہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
یعنی آپ علیھا السلام نے صبر و رضا کی ادب گاہ میں تربیت پائی تھی اور صبر و رضا کی کیفیت یہ تھی کہ چکی پیستی جاتیں اور کلام اللّٰہ کی تلاوت کرتی جاتیں۔ جس طرح بنتِ رسول س نے فرامین،خطبات و سیرت سے عظمتِ قرآن کو اجاگر فرمایا اسی طرح قرآن مجید کی آیات کے معانی و مفاہیم نے سیدہ کونین ؑ کی عظمت کو آشکار فرمایا۔
مقدمہ
أُسوہ قطبِ عالمِ امکاں، سیدہ عالمیاں،یادگارِ خدیجة الکبریٰ، ہمراز علی مرتضیٰ، فخرِ مریم و ن ،سارہ و حوا،شفیعہِ روزِ جزاء، ملیکہ جہانِ شرافت بنت رسول خدا ص کا گھرانہ أنس بقرآن میں یگانہ حیثیت رکھتا ہے۔جس کے بابا وہ ہیں جن کے قلب مبارک پر قرآن نازل ہوا،جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے،نَزَلَ بِہٖ الرُّوحُ الأَمِینُ عَلیٰ قَلبِكَ لِتَکُونَ مِنَ المُنزِرِینَ ۲
جس کے سرتاج علی ع کے قرآن مجید سے عمیق تعلق کو رسول اللہ ص نے یوں بیان فرمایا؛ألقُرآنُ مَعَ عَلِيٍ وَ عَلِيٌ مَعَ ألقُرآنِ ۳
جس کے سبطِ اکبر گود نبوت میں بیٹھ کے سارا دن آیاتِ قرآنی و وحیِ اِلٰہی کی لوریاں سنتے ہیں، جس کے سبطِ أصغر امام حسین ع کہ جس کا جسمِ نازنیں کر بلا کی ریگِ تپاں پہ اور سر نوک سناں پہ تلاوت قرآن کرتا رھا۔ جو بی بی تلاوتِ قرآن مجید اور قرآن کریم کی ایسی مفسرہ بنیں کہ عطرِ گلِ چمنستان رسول،بلبلِ بُوستانِ بتول، منتقم خونِ حسین، عسکری ع کے نورِ عین، نرجس کے دل کے چین، امامِ وقت یوسف زھراء علیہ السلام فرماتے ہیں؛فِی ابنَةِ رَسُولِ اللّٰہِ لِي أُسوَةٌ حَسَنة ۴
جس طرح سید الأنبیاء، سید الأوصیاء و أئمہ آل عباء علیھم السلام نے عظمتِ قرآن کو اپنے عمل،فرامین اور خطبات سے اجاگر فرمایا اسی طرح ناطق قرآن بنت رسول اکرم سلام اللہ علیہا نے بھی أحادیث، خطبات، اور عملی سیرت سے لوگوں پر اسے آشکار فرمایا۔
اگر ہم حیات طیبہ سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ عظمتِ قرآن کے حوالے سے بی بی ؑ کے خطبات و احادیث میں استعمال ہر ہر لفظ قرآن کی زبان سے دھلا ہوا ہے۔ عملی زندگی اتنی قرآن سے مطابقت رکھتی ہے کہ خداوند متعال نے سیدة النساء بنا یاانکی زندگی کوتمام خواتین کیلئے اسوہ حسنہ قرار فرمایا،نہ صرف خواتین بلکہ مرد و زن ہر ایک کیلئے اسوہ کاملہ ہیں حتیٰ امام زمانہ عج کیلئے بھی اسوہ حسنہ ہے۔
یہ مختصر مقالہ دو ابواب میں منقسم ہے، جن کا عنوان کچھ یوں ہے؛
1. عظمتِ قرآن جناب زھراء سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں
2. عظمت جناب زھراء سلام اللہ علیھا قرآن کی نگاہ میں
باب اول
عظمتِ قرآن جناب زھراء سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں؛
اس باب میں جناب سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی أحادیث و خطبات اور سیرت کے پہلو ذکر کیے جائیں گے جن سے قرآن مجید کی عظمت کو بخوبی سمجھا جا سکے گا۔
عظمت قرآن فرامین جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی روشنی میں؛
حدیث نمبر۱
حُبِّبَ اِلَيَّ مِن دُنیَاکُم ثَلَاثٌ تِلَاوَتُ ألقُرآن وَ النَّظَرُ فِي وَجہِ رَسُولِ اللّہِ وَ الإِنفَاقُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ
تمہاری دنیا سے مجھے (صرف) تین چیزیں محبوب ہیں قرآن مجید کی تلاوت چہرہ رسول خدا ص کی زیارت اور راہِ خدا میں خرچ کرنا۔۵
اس حدیث مبارکہ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ بی بی ؑ کی نگاہ میں قرآن مجید کی کیا عظمت ہے کہ اسے اپنے لئے محبوب ترین چیز قرار دیا۔
حدیث نمبر ۲؛ قرآن کی سورہ کی فضیلت کے بارے فرمایا؛
قَارِئُ الحَدِیدِ وَ اِذَا وَقَعَت وَ الرَّحمٰنِ یُدعیٰ فِی السَّمٰوَاتِ وَ الأرضِ،سَاکِنُ الفِردَوس
فرمایا: جو شخص سورہ حدید سورہ واقعہ اور سورہ رحمٰن کی تلاوت کرتا ہے آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں اسے جنتی کہا جاتا ہے۔۶
اس حدیث میں تین سوروں کی تلاوت کے عوض جنت کی خوشخبری دے کے جناب سیدہ کونین س نے عظمت قرآن کو روشن فرمایا
وصیت جناب سیدہ اور أنس بقرآن؛
اِذَا مِتُّ فَتَوَلِّ أنتَ غُسلِي وَ جَھَّزَنِي وَ صَلِّ عَلَيَّ وَ أنزِلْنِي قَبرِي وَ ألحِدنِي وَ سَوِّ التُّرَابَ عَلَيَّ وَ اجْلِس عِندَ رَأسِي قُبَالَةَ وَجھِي فَأکثِر مِن تِلَاوَةِ القُرآنِ وَ الدُّعَاءِ فَإنَّھَا سَاعَةً یُحتَاجُ المَیَّتُ فِیھَا إلیٰ أُنسِ الأحیَاءِ۔۔۔
وصیتِ جناب سیدہ کونین س سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس قدر قرآن مجید سے أنس تھا فرمایا:اے علی ع جب میں اس دنیا سے أٹھ جاؤں تو آپ ہی مجھے غسل و کفن دیجئے گا اور میرے جنازے پر نماز پڑھئے گا اور مجھے قبر میں اتاریئے گا اور زمین کو برابر کرکے مٹی ڈال دیجئے گا پھر بالائے سر میرے سرھانے کی جانب بیٹھ کے زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن اور دعا کیجئے گا کیونکہ اس وقت میت کو اپنے پسماندگان سے أنس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ۷
لوگوں کی بد أعمالیاں اور صدیقة الکبریٰ کی قرآن مجید میں غور و فکر کی دعوت؛
جب بنت رسول س اپنے حق کے مطالبے کیلئے خطبہ ارشاد فرما رہی تھیں اسی دوران خلیفہ نے لوگوں سے کہا خاموش ہو جاؤ پھر کہا ” اے بنت رسول س یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے آپ اور میرے درمیان فیصلہ کیا اور میری بیعت کی”
خلیفہ اول کی اس بات کو سن کے جناب زھراء سلام اللہ علیھا نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور ارشاد فرمایا؛
"مَعَاشِر النَّاس!المُسرِعَة اِلیٰ قِیل البَاطِل المُقضِیَة عَلَی الفِعلِ القَبِیحِ الخَاسِرِ أفَلَا یَتَدَبَّرُونَ ألقُرآنَ أم عَلیٰ قُلُوبٍ أقفَالُھَا”
اے لوگو! تم نے بیہودہ اور فضول باتوں کو کہنے میں بہت جلدی کی ہے اور نقصان دہ برے فعل سے چشم پوشی کر لی ہے کیا تم قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟ یا تمہارے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے؟۸
قرآن سےروگردانی پراخروی برےانجام کی وعید؛
بنت رسول سلام اللہ علیھا نے اسی خطبہ میں لوگوں کو قرآن مجید سے روگردانی کی وجہ أخروی بُرے انجام کی وعید سناتے ہوئے فرمایا؛
"وَلَبِئسَ مَاتَأوَّلتُم وَ سَاءَ مَا بِهٖ أشَرتُم وَ شَرَّ مَا مِنہٗ اعتَضتُم، لَتَجِدَنَّ وَاللّٰهِ مَحمِلَهٗ ثَقِیلًا وَ غِبَّه وَبِیلًا إذَا کُشِفَ لَکُمُ الغِطَاءُ وَ بَانَ مَا وَرَائَهٗ الضَّرَّاءُ وَ بَدَا لَکُم مِن رَّبِّکُم مَا تَکُونُوا تَحسِبُونَ۔”
تم نے قرآن کی آیات کی بہت غلط تأویل کی ہے بہت برا راستہ اختیار کیا ہے اور بہت غلط کام انجام دیا ہے، خدا کی قسم اس بوجھ کو أُٹھانا تمہارے لئے دشوار اور اس کا انجام وبالِ جان ہے۔جس دن تمہارے سامنے پردے ہٹائے جائیں گے اس کے ہٹتے ہی نقصان آشکار ہو جائے گا جس چیز کا تم نے ابھی حساب نہیں کیا۔۹
عظمت قرآن اور سیرت جناب زھراء سلام اللہ علیھا ؛
جناب بنت رسول سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں عظمت قرآن کا اندازہ اس روایت سے لگا سکتے ہیں کہ جس رات قرآن مجید کا نزول ہوا تھا یعنی لیلة القدر اس رات جناب سیدہ س اپنے اھل خانہ کو سونے نہیں دیتی تھیں اور تھوڑی غذا فراہم کر کے ان کو بیدار رکھتی تھیں۔ ۱۰
عظمتِ قرآن خطبات جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی روشنی میں؛
قرآن مجید کی توصیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ؛
قرآن مجید کے أمور ظاہر ہیں اور اس کے أحکام نمایاں اور نورانی ہیں،اس کی علامتیں روشن ہیں، اس کے محرکات واضح ہیں۔ ۱۱
عظمت قرآن خطبہ فدک کی روشنی میں؛
بنت رسول سلام اللّٰہ علیھا نے خطبہ فدک میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اپنے بابا رسول خدا ص کی رسالت مولا علی ع کی ولایت بیان کرنے کے بعد قرآن مجید کی توصیف میں گوہر گراں مایہ کلمات ارشاد فرمائے جس کا ہر ہر لفظ آیات قرآنی سے مطابق تھا۔
ارشاد فرمایا؛وَمَعَنَا کِتَابُ اللّٰه ،اور ھمارے درمیان اللّٰہ کی کتاب بھی موجود ہے۔
حقیقت میں بی بی س ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی تھیں کہ ھمارے درمیان اللّٰہ کی کتاب موجود ہے جس کو تم نے پس پشت ڈال دیا ہے
کِتَابُ اللّٰهِ النَّاطِق،یہ اللہ کی ناطق کتاب ہے۔ یہ کتاب صامت بھی ہے اور ناطق بھی، صامت اس لئے کہ یہ انسانوں کی طرح نطق نہیں کرتی جبکہ یہ ناطق اس لئے ہے کہ یہ انسانوں سے بے زبانی سے نطق کرتی ہے
وَالقُرآنُ الصَّادِقُ،اور یہ سچا قرآن ہے
وَ النُّورُ السَّاطِعُ،اور چمکتا ہوا نور ہے
وَالضِّیَاءُ اللامِعُ،اور روشن چراغ ہے
جیسا کہ قرآن مجید میں خود خداوند عالم نے سورہ حج آیت نمبر 08 میں قرآن مجید کیلئے کتابِ منیر کی تعبیر استعمال فرمائی۔ یعنی ھدایت کےخواہاں کیلئے ہر آیت واضح و روشن ہے سابقہ امتوں کے حالات و آئندہ زمانے کے أحوال مفصل طور پر ذکر ہیں
بَیِّنَةٌ بَصَائِرُہٗ،اس کے دروسِ عبرت واضح ہیں۔
اس کلام میں گزشتہ امتوں کے واقعات سے عبرت کے بکثرت واقعات و حالات مذکور ہیں جو عقلا کیلئے باعث عبرت ہیں
مُنکَشِفَةٌ سَرَائِرُہٗ،اس کے اسرار آشکار ہیں
مُتَجَلِّیَةٌ ظَوَاہِرُہٗ،اس کے ظاہری معانی روشن ہیں
مُغتَبَطٌ بِهٖ أشیَاعُهٗ،اس کی پیروی کرنے والے قابلِ رشک ہیں
جیسا کہ حدیثِ رسول خدا ص میں ہے،”قرآن سب سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑی سعادت ہے جو اس کے ذریعے روشنی طلب کرے اللہ اسے منور کر دیتا ہے اور جو اپنے معاملہ کو قرآن سے وابستہ کرے اللہ اسے محفوظ رکھتا ہے جو اس سے تمسک کرے اللہ اسے نجات عطاء فرماتا ہے ۔” ۱۲
قَائِدٌ اِلیٰ الرِّضوَانِ اِتِّبَاعُهٗ،اس کی پیروی کرنا (انسان کو) رضوان کی طرف لے جاتی ہے
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہوا،قرآن کی اتباع مومن کو مقام رضوان پر فائز کر دیتی ہے یعنی قرآن مجید پر عمل کرنے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو جاتی ہے۔ ۱۳
مُؤدٍّ اِلیٰ النَّجَاتِ اِستِمَاعُهٗ،اس کو غور سے سننا بھی نجات دلاتا ہے
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد خداوندِ عالم ہے
وَ اِذَا قُرِئَ ألقُرآنَ فَاستَمِعُوا لَهٗ وَ أنصِتُوا لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ ۱۴
اور جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا کرو اور خاموش رھا کرو تا کہ تم پہ رحم کیا جائے
بِهٖ تَنَالُ حُجَجُ اللّٰهِ المُنَوَّرَةُ،اس کے ذریعے اللّٰہ کی روشن حُجتوں (دلیلوں) کو پایا جا سکتا ہے۔
جیسے خداوند متعال نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا؛ قُل فَلِللّٰهِ الحُجَّةُ البَالِغَہ ۱۵
عَزَائِمُهٗ المُفَسَّرَةٌ،اور بیان شدہ واجبات کو پایا جا سکتا ہے
وَ مَحَارِمُهُ المُخَدَّرَةُ،اور (قرآن مجید میں) اللہ کی ممنوعہ محرمات کو پایا جا سکتا ہے
وَ بَیِّنَاتُهٗ الجَالِیَةُ ،اور قرآن مجید کے بیّن دلائل کو پایا جا سکتا ہے
وَ بَرَاھِینُهٗ الکَافِیَةُ،اور اس کے براھین جو کافی ہیں (کو پایا جا سکتا ہے)
وَ فَضَائِلُهٗ مَندُوبَةُ،اور ان فضائل کو پایا جا سکتا ہے جو مستحبات پہ مشتمل ہیں
وَ رُخَصُهُ المَوھُوبَةُ ،اور مجوزہ مباحات کوقرآن میں پایا جا سکتا ہے
وَ شَرَائِعُهٗ المَکتُوبَةُ،اور اس کے واجب دستور کو پایا جا سکتا ہے ۱۶

باب ثانی
عظمت جناب زھراء سلام اللہ علیھا قرآن کی نگاہ میں
یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات اھلبیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئیں۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ قرآن مجید شانِ اھلبیت کا مژدہ ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : "قرآن مجید کا چوتھائی حصہ ھم اھلبیت کی شان میں نازل ہوا ہے”
ھم اِختیارًا چیدہ چیدہ آیات کا ذکر کرتے ہوئے عظمت جناب زھراء سلام اللہ علیھا کا ادراک کریں گے۔
اس باب کو دو حصوں میں بیان کیا جائے گا
1۔مجموعہ آیات در شان اھلبیت ؑ 2۔ مجموعہ آیات در شان زھراء سلام اللہ علیھا
بلحاظِ جامعیت شان اھلبیت علیھم السلام میں نازل ہونے والی آیات کا ذکر اس سبب سے ہے کہ جناب زھراء س اھلبیت کی ہی أفضل و أکمل ہستی ہیں۔
مجموعہ آیات در شان اھلبیت علیھم السّلام
آیت مودت
"قُل لَا أسئلُکُم عَلَیہِ أجرًا إلّا المَوَدَّةَ فَی القُربیٰ۔”
اے رسول) کہہ دیجئے، میں اس (کارِ رسالت) پر تم سے کوئی أجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔ ۱۷)
اس آیت کے ضمن میں فریقین کے مصادر میں روایت موجود ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا ص سے پوچھا گیا کہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون ہیں جن کی محبت ھم پر واجب ہے؟رسول خدا ص نے فرمایا ” علی،فاطمہ،حسن اور حسین علیھم السّلام۔
یہ روایت ابن عباس،جابر بن عبدالله، اور دیگر راویوں سے احمد بن حنبل،طبری،طبرانی، نسائی وغیرہ نے بیان کی ہے۔گویا یہ بات مسلّم ہے کہ رسول خدا ص کے قرابت دار علی فاطمہ، حسن و حسین ہیں۔
آیت تطہیر اور شان زھراء ؑ؛
"إنّمَا یُرِيدُاللّٰهُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أھلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطہِیرًا”
الله کا ارادہ بس یہی ہے اے اھلبیت آپ سے ہر طرح کی نا پاکی کو دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ ۱۸)
اھلسنت نے چالیس طرق سے اور شیعہ نے کم از کم تیس طرق سے بیسیوں کتب مصادر میں بیان کیا کہ رسول خدا ص نے تصریح فرمائی کہ اس آیت میں اھلبیت سے مراد علی،فاطمہ، حسن و حسین علیھم السّلام ہیں۔ یوں تو یہ آیت اھلبیت رسول کی عصمت کی گواہی پہ ایک مژدہ ہے مگر مرکز عصمت و طہارت جناب زھراء س ہیں جو نبوت و امامت کی کڑی کو آپس میں ملانے والی ہیں بس یہ آیہ مجیدہ بدرجہ أتم و أکمل عظمت جناب زھراء س کی دلیل ہے۔
روشن دل و دماغ ہیں جس آفتاب سے
ھم نے یہی سنا ہے رسالت مآب سے
علم و ہنر کا موڑ حدیث کساء میں ہے
قرآن کا نچوڑ حدیث کساء میں ہے۔۱۹
آیت مرج البحرین اور شان زھراء؛
شیعہ مفسرین کے علاوہ مولانا ابن الجوزی،ابن فندق،المسعودی، محمد الحنفی المصری و دیگر متعدد اھلسنت مفسرین نے بیان فرمایا کہ
مَرَجَ البَحرَینِ یَلتَقِیٰنِ سے مراد علی و فاطمہ علیھما السلام ہیں ۲۰
اسی طرح درمنثور میں ابن عباس رض سے روایت بھی یہی نقل ہوئی ہے کہ مرج البحرین سے مراد علی و فاطمہ علیھما السلام ہیں۔۲۱
مذکورہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں روایات سے واضح ہے کہ یہ حضرت علی ع کے ساتھ عظمت جناب زھراء س پہ بھی دلیل ہے۔
آیت نور اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا ؛
"فِي بُیُوتٍ أذِنَ اللّٰهُ أن تُرفَعَ وَ یُذکَرَ فِیھَا اسمُهٗ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیھَا بِالغُدُوِّ وَ الاٰصَالٍ”
(ھدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی،وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ ۲۲
اس آیت کی تفسیر میں در منثور میں ایک روایت ذکر ہے؛ مردویہ نے أنس بن مالک اور بریدہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول خدا ص نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے سوال کیا یا رسول اللہ اس آیت میں کون سے گھر مراد ہیں؟ نبی اکرم ص نے فرمایا أنبیاء کے گھر۔ یہ سن کے حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور پوچھا یا رسول اللہ! کیا علی و فاطمہ کا گھر انہی گھروں میں آتا ہے؟ آپ ص نے فرمایا: ہاں! ان (گھروں)سے بھی أفضل ہے۔ ۲۳
آیت صبر اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا
"وَ جَعَلنَا بَعضَکُم لِبَعضٍ فِتنَةً أتُصبِرُونَ وَ کَانَ رَبُّكَ بَصِیرًا”
اور ھم نے تمہیں ایک دوسرے کیلئے آزمائش بنا دیا کیا تم صبر کرتے ہو؟ اور آپ کا پروردگار تو خوب دیکھنے والا ہے۔۲۴
اس آیت کی شان نزول میں تفسیر برھان میں امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث نقل فرمائی، امام محمد باقر فرماتے ہیں ؛ ایک دفعہ رسول خدا ص نے علی،فاطمہ،حسنین علیھم السّلام کو جمع فرما کے دروازہ بند فرمایا اور فرمایا اس گھر میں جناب جبرئیل آئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اللہ نے آپ کیلئے سلام کا تحفہ بھیجا ہے اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لئے عدو قرار دئیے ہیں جو فتنہ پھیلائیں گے تم اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ سب نے فرمایا ھم اللہ کی ہر قضا پہ صبر کریں گے جو بھی نازل ہو گی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
اس فرمان سے واضح ہوتا ہے جناب سیدہ کونین س نے اللہ کی ہر قضاء پہ صبر کو ترجیح دی ۲۵
آیت تسنیم اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا
"وَ مِزَاجُهٗ مِن تَسنِیمٍ عَینًا یَّشرَبُ بِھَا المُقَرَّبُونَ”
اس میں تسنیم (کے پانی) کی آمیزش ہو گی، اس چشمے کی جس سے مقرب لوگ پئیں گے۔۲۶
حافظ حسکانی الحنفی سلسلہ سند میں جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ رسول خدا ص سے روایت ذکر فرماتے ہیں کہ تسنیم جنت میں ملنے والا سب سے أفضل مشروب ہے جو آل محمد اور ان کے مقربین کیلئے ہے۔۲۷
اس روایت سے ظاہر ہے کہ مقام آل محمد علیھم السّلام کتنا بلند ہے کہ سب سے افضل مشروب کو پیئں گے جبکہ اھلبیت میں جناب زھراء س کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جناب زھراء س آل محمد ع کی أفضل و أکمل ہستی ہونے کی حیثیت سے اس عظمت اور مرتبے پر فائز ہیں۔
آیت مباھلہ اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا
"فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ "
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ ۲۸
علامہ زمحشری نے اس جگہ ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ وَ نِسَآءَنَا اور اَنفُسَنَا میں ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ (س) اور حضرت علی علیہ السلام پر اکتفا کیا گیا، لیکن اَبنَآءَنَا میں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیاگیا۔ چونکہ فاطمہ (س) اور علی علیہ السلام کی کوئی نظیر نہیں تھی، لہٰذا ان کے ساتھ کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن اَبنَآءَنَا میں دو ہستیاں ایک دوسرے کی نظیر تھیں، اس لیے یہاں دونوں کو بلایا۔
اس آیت میں عظمت جناب زھراء س روز روشن کی طرح واضح ہے کہ عیسائیوں کی شکست مباھلہ کے بغیر مشکل تھی اور مباھلہ جناب سیدہ کونین سلام کے وجود کے بغیر نامکمل تھا۔
آیت إِطعام اور عظمت زھرا سلام اللہ علیھا:
"وَ یُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسکِینًا وَّ یَتِیمًا وَّ أسِیرًا”
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم، اور أسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ۲۹
اس سے ما قبل آیت میں فرمایا یُوفُونَ بِالنَّذرِ۔۔۔
فریقین کے مصادر میں یہ روایت متعدد طرق سے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیات اہل بیت اطہار علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئیں۔ جب حسنین علیہم السلام بیمار ہوئے تو ان کی شفا کے لیے حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کی خادمہ فضہ س نے تین دن روزے رکھنے کی منت مانی اور حسنین ع کی شفا یابی کے بعد تین دن نذر کے روزے رکھے۔ افطاری کے وقت پہلے دن مسکین، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن قیدی سائل نے سوال کیا۔ آل رسولؐ نے سارا کھانا اللہ کی رضا کی خاطر انہیں دے دیا، صرف پانی سے افطار کر کے فاقے سے رہے۔ جیسا کہ حافظ قندوزی و بیضاوی اور آلوسی وغیرہ نے اپنی تفسیر کی کتاب میں یہی ذکر فرمایا ۔۳۰
فریقین کی تفاسیر سے بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ یہ آیات خاندانِ جناب زھراء س کی شان میں خاص کر بنت رسول اکرم سلام اللہ علیہا کی شان میں نازل ہوئیں جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر تین دن روزے کے باوجود اپنا کھانا مسکین،یتیم اور أسیر کو کھلا دیا اور بدلے میں شکریہ کا انعام بھی نہیں لیتےبلکہ خالصتاً خوشنودی خدا کے لئے کھانا کھلایا۔
مجموعہ آیات در شانِ زھراء سلام اللہ علیھا ؛
یوں تو پورا قرآن ہی اھلبیت رسول علیھم کی شان بیان کرتا دکھائی دیتا ہے مگر کچھ آیات صرف جناب زھراء سلام اللّٰہ علیھا کی شان میں نازل ہوئیں جن میں کوئی اور شریک نہیں۔ اِختیارًا جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
سورہ الکوثر اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا
شیعہ مفسرین اور کچھ مفسرین اھلسنت کے نزدیک یہ سورہ جناب زھراء سلام اللہ علیھا کی شان میں نازل ہوئی جیسا کہ علا مہ الشیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی نے اپنی تفسیر الکوثر میں بیان فرمایا ۳۱
اور اھلسنت مفسر علامہ بیضاوی نے تفسیر البیضاوی میں بیان فرمایا ۳۲
علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر الکبیر میں فرمایا کہ الکوثر سے مراد رسول خدا ص کی اولاد ہے۔۳۳
بعض مفسرین نے کوثر سے مراد حوض کوثر یا جنت میں ایک نہر مراد لی ہے جسے عقل بھی نہیں مانتی یوں لگتا ہے اس سورہ میں انہوں نے تفسیر بالرائے کا سہارا لیا ہے۔یا اھلبیت علیھم السلام سے نفرت و بغض اس کی وجہ بنی۔
قول حق وہی ہے جو علامہ شیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی نے تفسیر الکوثر میں بیان کیا کہ کوثر فوعل کے وزن پہ ہے اور خیر کثیر کے معنٰی میں ہے یعنی بکثرت اولاد، جب نبی کریم ص کے سارے بیٹے یکے بعد دیگرے وفات پا گئے ابوجہل،ابولہب، اور عتبہ نے رسول خدا ص کو ابتر (لاولد) کے طعنے دیئے جس پہ رسول خدا ص رنجیدہ ہوئے جس پریہ سورہ نازل ہوئی۔
یہ سورہ جناب زھراء س کی شان میں نازل ہوئی جن کی اولاد اب تک سب سے زیادہ خیر کثیر کا مصداق ہے یہ شان نزول سورہ سے بھی ثابت ہے اور سورہ کے انداز تخاطب و آیات کی ترتیب سے بھی ظاہر ہے۔
سورہ والضحیٰ اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا ؛
جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول خدا ص نے جناب زھراء س کو دیکھا کہ انہوں نے اونٹ کی اون سے بنی ہوئی چادر اوڑھ رکھی ہے جو بہت سخت (بدن کیلئے تکلیف دہ) تھی نبی کریم ص نے گریہ فرمایا اور فرمایا؛ اِصبِري عَلیٰ مَرَارَةِ الدُّنیَا لِنَعِیمِ الآخِرَة غَدًا،”اے میری بیٹی دنیا کی تلخی پر صبر کرو تاکہ کل آخروی نعمات کو پا سکو”۔ ۳۶
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی
وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ۳۵
عظمت جناب زھراء س کا اندازہ ہوتا ہے کہ صبر جمیل کے عوض عظیم اجر کا وعدہ ہے جس کا شمار محال ہے۔
سورہ قدر اور عظمت زھراء سلام اللہ علیھا ؛
تفسیر فرات کوفی میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث مبارک ہے کہ لیلة سے مراد جناب زھراء س ہیں اور القدر سے مراد اللہ سبحانہ تعالیٰ ہیں۔جس شخص نے معرفت جناب سیدہ س کو درک کر لیا اس نے لیلة القدر کو درک کر لیا۔۳۶
نتیجہ
اگرچہ یہ موضوع تفصیل طلب ہے مگر حتی الامکان بطور اختصار مفاھیم کو تحریر کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کم الفاظ و کم وقت میں حقائق عالیہ کو درک کیا جا سکے۔بعد از مطالعہ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جس طرح نص حدیثِ نبوی کے مطابق قرآن اور علی کا ساتھ ہے بعینہٖ قرآن اور جناب زھراء سلام اللّٰہ علیھا کا ساتھ ہے۔جیسا کہ مسلّم أمر ہے کہ جناب سیدہ کونین س تمام تر کمالات میں کفوِ علی ع ہیں۔پس اگر کسی کو بطورِ أتم قرآن مجید کی عظمت کو درک کرنا ہو تو فرامین و سیرت جناب سیدہ کونین س کی تلاوت کرے اور اگر عظمت جناب زھراء س کو درک کرنا ہو تو قرآن مجید (بالتفسیر) کی تلاوت کرے۔
حوالہ جات:
1. ڈاکٹر،علامہ محمد اقبال،رموز بیخودی ،iqbalurdu.blogspot.com ، ص242۔
2. القرآن: ،193،194،26
3. نیسابوری،محمد بن عبداللہ الحاکم، المستدرک علیٰ الصحیحین،دارالکتب،بیروت، 1411ھ، ج 2، ص 134
4. المجلسی،الشیخ محمد باقر، بحار الانوار،مؤسسة الوفاء،بیروت، ج 53، ص 178
5. آیة اللّٰہ، سید محمد دشتی، أحادیث فاطمة الزھراء، الزھراء پبلشرز، کراچی، 2006، ص 283+284
6. آیة اللّٰہ، محمد دشتی، أحادیث فاطمة الزهراء، الزھراء پبلشرز، کراچی، 2006،ص 283
7. آیة اللّٰہ، محمد دشتی، أحادیث فاطمة الزهراء، الزھراء پبلشرز، کراچی، 2006،ص 330
8. آیة اللّٰہ، محمد دشتی، أحادیث فاطمة الزهراء، الزھراء پبلشرز، کراچی، 2006،ص 137
9. آیة اللّٰہ، محمد دشتی، أحادیث فاطمة الزهراء، الزھراء پبلشرز، کراچی، 2006،ص 137
10. القمی، شیخ محمد عباس، مفاتیح الجنان، العمران پبلیکیشنز،لاہور،ص462
11. صحیفہ زھراء،برقی شکل میں نشر ہوئی مؤلف کا نام ذکر نہیں، شبکة الامامین الحسنین، ص 276
12. مجلسی، الشیخ محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت، 1983، ج89، ص31
13. القرآن: 9، 72
14. القرآن: 7، 204
15. القرآن: 6، 149
16. شیخ، محسن علی نجفی، حضرت فاطمة الزھراء کا خطبہ فدک، سبیل سکینہ، حیدر آباد پاکستان، 2003، ص51-53
17. القرآن: 42، 23
18. القرآن: 33، 33
19. گوھر جارچوی
20. آیةاللہ، محمد امینی، الغدیر، مکتبہ الاسلامیہ،تہران، ج 4،ص218 القرآن: 55، 19۔
21. السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور، دارالکتب العلمية، بیروت، 2000، ج6، ص142
22. القرآن: 24، 36
23. السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور، دارالکتب العلمية، بیروت، 2000، ج5، ص91
24. القرآن: 25، 20
25. البحرانی، السید ھاشم، تفسیر البرھان، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، بیروت، ج5، ص238+239
26. القرآن: 27، 28
27. الحنفی، حافظ الحسکانی، شواھد التنزیل، دارالکتب العلمیة، بیروت، ج2، ص326
28. القرآن: 3، 61
29. القرآن: 76، 8
30. شیخ، محسن علی نجفی، بلاغ القرآن، ح20، ص797
31. شیخ، محسن علی نجفی، بلاغ القرآن، امامیہ آرگنائزیشن،لاہور، ح1، ص832
32. البیضاوی، شیخ ذادہ علی ،انوار التنزیل و اسرار التنزیل مخطوط، ص 1156
33. الرازی، الفخر الدین، التفسیر الکبیر، ج30، ص128
34. القاضی، نور اللّٰہ التستری، احقاق الحق، مکتبة الاسلامیہ، تہران، ص275
35. القرآن: 93، 5
36. کوفی، علامہ فرات بن ابراھیم، قرآن ریسرچ اکیڈمی، ملتان، 2003، ص410

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button