اخلاق حسنہاخلاقیات

تربیت اولاد قرآن کی نظر میں

تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی
مقدمہ :
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کی مختلف اکائیاں ہیں۔جن میں سے ہر اکائی انسانی زندگی کے ایک شعبہ کے لئے اصول و ضوابط تشکیل دیتی ہے۔خداوند عالم نے انسان کو ایک معین وقت تک زندہ رہنے کے لیے خلق فرمایا لیکن انسانی وجود کا مقصد صرف زندہ رہنا نہیں، بلکہ ایک خاص مقصد اورہدف کے لئے زندہ رہنا ہے تاکہ تکامل کے مختلف مراحل کو طے کرنے کے بعد ہدف اصلی یعنی معرفت پروردگار حاصل ہو اور عملی میدان میں اس معرفت کی شعائیں منعکس ہوں ان اکائیوں اور عناصر میں سے ایک اہم ترین اکائی و عنصر انسانی تربیت کا عنصر ہے۔
اس عظیم ہدف اور مقصد کا حصول کسی رہنما اور مربی کے بغیرممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے مورد میں مربی (تربیت کرنے والا)کی تخلیق کو متربی ( جس کی تربیت کی جاتی ہے ) کی تخلیق پر مقدم کیاہے۔
پس یہ ایک حقیقت سامنے آگئی کہ انسانی تربیت ایک اہم ترین عنصر ہے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی تربیت کا آغاز کب ہوتا ہے؟
ماہرین نفسیات اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد یا بعض کے نزدیک پیدائش کےتین سال بعدسے اس کی تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس مورد میں اسلام کیا کہتا ہے؟
اسلام اس مورد میں نہایت ہی دقت سے کام لیتاہے اور کہتا ہے کہ انتخاب ہمسر سے ہی بچے کی تربیت کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔
بنا بریں جو بھی شریک حیات کے صحیح انتخا ب میں کامیاب ہو جائے تو معاشرہ، انسانیت اور خود والدین کی خا طر ایک مفید بچہ کی پیدائش کا سبب بنے گا۔ اس حقیقت کی تصدیق قانون توارث بھی کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے: بچہ ماں باپ اوران کے خاندان سے چالیس سے پچاس فیصد اثرات لے کے آتا ہے۔ لہٰذا جس قدر لڑکے کے لئے شریک حیات کے انتخاب میں مذکورہ باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اتنا ہی لڑکی کے لئے شوہرکے انتخاب میں بھی اس مرحلے میں جذبات سے بالاتر ہو کر مستقبل کی فکر کرتے ہوئے یہاں نہایت ہی دقت سے کام لیناضروری ہے ہے۔ بنا بر ایں بچے کے ماں، باپ جس قدر خاندانی، جسمانی اور معنوی اعتبار سے باشرف ہوں گے بچہ بھی ان کے ہم سنخ ہوگا۔البتہ ایک نکتہ کی طرف توجہ دینا نہایت ضروری ہے کہ صرف شریک حیات کے انتخاب پر ہی کام تمام نہیں ہوتا بلکہ اسلام نے نطفۂ پدر کے رحم مادر میں ٹھہرنے کے وقت سے لے کر بچہ کے جوان ہونے تک کے مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے؛ جن میں بچپنہ میں اس کی صحیح دیکھ بال،لڑکپن میں اس کی تعلیم و تربیت اور غلط سوسائٹی سے اسے بچائے رکھنا اور صحیح استاد کا انتخاب کرنا اور نوجوانی میں ان کی فکری اور روحانی تربیت کے مراحل شامل ہیں۔
اگرچہ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر سیر حاصل گفتگو کرنے کی ہماری اس مختصر تحقیق میں گنجائش نہیں لیکن “ماَلَا یُدْرَکْ کُلُّهُ لا یُتْرَکْ کُلُّهُ”یعنی مکمل ترک کرنے سے مختصر ذکر کرنا بہتر ہے۔ اس عنوان کے تحت صرف چند آیات مجیدہ کو اس ضمن میں ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔ تاکہ صاحبان مطالعہ اس تحقیق سے راہنمائی لیتے ہوئے اس میدان میں مزید آگے بڑھ سکیں۔

پہلاباب:
تربیت اور اولادکی لغوی اور اصطلاحی تعریف
اس باب میں ہم درج ذیل سوالات کا جواب دیں گے:
1۔ تربیت لغوی اعتبار سے کن معانی میں استعمال ہوئی ہے؟ اور قرآن مجید میں یہ کس معنی میں استعمال ہوئی ہے؟
2۔ اولاد کس مادہ سے ماخوذ ہے اور یہ کن معانی میں مستعمل ہے؟ اور آیات قرآنی کس معنی کی تائید کرتی ہیں؟
3۔ ماہرین نے تربیت کی تعریف کس طرح کی ہے؟ اور ان میں سے بہترین تعریف کی کون کونسی خصوصیات ہیں؟
تربیت لغوی اعتبار سے:
تربیت؛” رَبَبَ یا رَبَوَ “سے مشتق ہے ۔ یہاں دونوں کی وضاحت کرنامناسب معلوم ہوتاہے۔
ربب: الرَّبُّ: هو اللّٰه عزّ و جلّ، هو رَبُّ كلِّ شي‏ءٍ أَي مالكُه، و له الرُّبوبيَّة على جميع الخَلْق، لا شريك له، و ربُّ كلِّ شي‏ءٍ: مالِكُه و مُسْتَحِقُّه و قيل: صاحبُه. و يقال: فلانٌ رَبُّ هذا الشي‏ءِ أَي مِلْكُه له. و كُلُّ مَنْ مَلَك شيئاً، فهو رَبُّ۔یعنی رَبَبَ کا مصدر ”الرب“ہے جو خدا کی باعزت اور باجلالت ذات ہے۔ اوروہ ذات تما م چیزوں کا رب؛ یعنی مالک ہے جسے تمام مخلوقات پر ربوبیت ومالکیت حاصل ہے۔ جس کاکوئی شریک نہیں۔ ہر چیز کا رب وہ ہوتاہے جو اس چیز کا مالک ہواورحق تصرف رکھتاہو۔جب کسی چیز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلان اس چیز کا رب ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز اس کی ملکیت ہے۔ پس جو بھی کسی چیز کا مالک ہو ،وہ اسی چیز کا رب کہلاتا ہے۔
ربو: ربا الجرح و الأرض و المال و كل شي‏ء يربو ربوا، إذا زاد
یعنی؛زخم بھر گیا۔اس کے علاوہ زمین، مال اور ہر چیز کے اضافہ کو بیا ن کرنے کے لئے اس لفظ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
لغت میں ”ربو “بڑھنے اور پروان چڑھنے کے معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے تربیت جو باب تفعیل سے ہے۔ تو یہ بھی اضافہ کرنا، پروان چڑھانا، نمو دینا، پرورش کرنا اور کسی چیز کے رشد کے لئے جو لوازمات ہیں ان سب کو فراہم کرنے کے معنی میں ہے۔لغت عرب اور قرآنی و حدیثی اصطلاح میں بھی تربیت اسی معنی میں آئی ہے۔معجم مقائیس اللغہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے:الراء والباء والحرف المعتل وکذالک المهموز منه،یدل علی اصل واحدو)هو الزیادة والنماء والعلو؛یعنی ؛ربو،ربی اور ربا،اضافہ اور پروان چڑھانے کے معنی میں ہیں۔مجمع البحرین اور مفردات قرآن میں بھی یہی معنی بیان کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں بھی رب معمولا مالک کے معنی میں آیا ہے: لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَني‏ ما أَنَا بِباسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمينَ(مائدہ:28) ترجمہ: اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔
فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَيْتِ (قریش/3) ترجمہ: لہذا انہیں چاہیے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں۔
اولاد لغوی اعتبار سے:
الوَلَدُ: المَوْلُودُ. يقال للواحد و الجمع و الصّغير و الكبير.ولدسے مراد وہ بچہ ہے جو دنیا میں آچکا ہو۔اور یہ لفظ واحد ،جمع اور چھوٹے بڑے سب کے لئےمستعمل ہے
قال اللّٰه تعالى: جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ (النساء/ 11)، اور اگر میت کی اولاد نہ ہو۔
أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ (الأنعام/ 101) اس کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے.
الوَلَدُ: الابن و الابنة، و الوُلْدُ هُمُ الأهلُ و الوَلَدُ.
یعنی” ولد”بیٹا اور بیٹی دونوں کے لئے استعمال ہوتاہے اور اس سےمراد اہل وعیال ہوتے ہیں۔
و يقال: وُلِدَ فلانٌ. قال تعالى: وَ السَّلامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ (مريم/ 33)، وَ سَلامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ (مريم/ 15)
جب کسی کے ہاں بچہ ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ وُلِد فُلان"اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا.اور سلام ہو ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے۔
و الأب يقال له وَالِدٌ، و الأمّ وَالِدَةٌ، و يقال لهما وَالِدَانِ، قال: رَبِّ اغْفِرْ لِي وَ لِوالِدَيَ۔ (نوح/ 28) باپ کو والد اور ماں کو والدہ اور ان دونوں کو والدین کہا جاتا ہے۔قرآن مجید میں بھی اسی معنی میں آیا ہے۔ جیسے:پروردگار مجھے اور میرے والدین کو بخش دے۔
و تَوَلُّدُ الشي‏ءِ من الشي‏ء: حصوله عنه بسبب من الأسباب،
کسی چیز سے کسی دوسری چیز کے پیدا ہونےسے مرادیہ ہے کہ پہلی والی چیز دوسری چیزکو وجود میں لانے کا سبب بنی ہو خواہ سبب جیسے بھی ہو۔”
و جمعُ الوَلَدِ أَوْلادٌ. قال تعالى: أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ (التغابن/ 15)،
وَلَدْ“ کی جمع ”اولاد “ہے۔جیساکہ قرآن مجید میں بھی ”وَلَدْ“اسی معنیٰ میں آیا ہے: تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بس آزمائش ہیں۔
إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَ أَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ (التغابن/ 14) فجعل كلّهم فتنة و بعضهم عدو
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہاری ازدواج اور تمہاری اولاد میں سے بعض یقینا تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو۔پس ان سب کوآزمائش اور ان میں سے بعض کو دشمن قرار دیا ہے۔
تربیت اصطلاحی اعتبار سے:
تعلیم وتربیت کے ماہرین اور دانشوروں نے تربیت کی مختلف تعریفیں کی ہیں البتہ ان میں سے بعض جامع ومانع نہیں ہیں۔ اگرچہ ایسی تعریف کرنا جو ہر جہت سے جامع ومانع ہو،مشکل ہے لیکن اس کے باوجود اس کی سب سے مناسب تعریف یوں ہوسکتی ہے :
رشد وپرورش کے تمام اسباب ولوازمات کو فراہم کرنا اور کمال وسعادت مطلو ب تک پہنچانے کے لئے انسان کے تمام استعدادات اور صلاحیتوں کو بروئے کا لانا ۔
اس تعریف کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
1۔ تربیت پذیری: اس تعریف میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایسی صلاحیت ،طاقت اور استعداد پایا جاتا ہے جسے تربیت کے ذریعے فعلیت دی جاسکتی ہے۔
2۔ مخصوص تربیت:اس حقیقت کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سبزے اور حیوانات بھی پروان چڑھتے ہیں۔لیکن یہاں تربیت سے مراد مخصوص انسانی تربیت ہے، جو لفظ انسان اور کمال مطلوب کے ذکر کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔
3۔ ہمہ جہت تربیت :انسان ایک شگفت انگیز وجود کا نام ہے جو وسیع اور مختلف پہلووں کے حامل ہیں۔اور وہ مختلف میدانوں میں مختلف صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پس اس انسان کی تربیت بھی اس کے مختلف صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر ہونی چاہیے۔رشد و پرورش کے الفاظ سے یہی معنی سمجھے جاتے ہیں۔ جو تربیت کے ہر پہلو کو شامل کرتا ہے۔
4۔ پروگرامینگ (برنامہ ریزی):تربیت ایک ہمہ جہت ذمہ داری کا نام ہے، جو ہمیشہ استمرار چاہتا ہے جسے خاندان، سکول اور اجتماعی معاشرہ کو فراہم کرنے کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔
5۔ ہدفِ تربیت: اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ تربیت کا یہ سسٹم ایک مخصوص ہدف اور مقصد کے تحت انجام پاتا ہے۔اس تعریف میں سعادت و کمال کے کلمات سے تربیت کے اہداف کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
6۔ متربی کے رجحانات: تربیت اس وقت ثمر بخش ثابت ہوگی جب یہ متربی کی چاہت، رجحان اور کوشش کے ساتھ انجام پائے۔مربی کو چاہیے کہ وہ بچے کی اندرونی صلاحیتوں کو ابھارنے کے ذریعے اس کی تربیت کے لئے زمینہ فراہم کرئے اور تربیت جیسی اس اہم ذمہ داری کو ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے اس تعریف میں ”ابھارنے “ کے لفظ سے یہی معنی ذہن میں آتا ہے۔
7۔ خود سازی: تربیت کے اہم ترین پہلووں میں سے ایک اہم پہلو،معنوی تربیت اور باطنی خود سازی ہے۔سالک(راہ خدا)اپنے کو ریاضت،عبادت اور کوششوں کے ذریعے اپنے نفس کی اصلاح کردیتا ہے۔ ہماری یہ تعریف اس حقیقت کو بھی پہنچاتی ہے۔
دوسرا باب:
تربیت قرآن کی رو سے
اس باب میں ہم درج ذیل سوالوں کے جواب ذکر کریں گے:
1۔ :کیا دوسرے موجودات کی طرح انسان بھی ایک معمولی خلقت کا حامل ہے یا اس میں اور دوسرے موجودات میں فرق پایا جاتا ہے؟
2۔ :اگر انسان کو دوسرے مخلوقات پر برتری حاصل ہے تو اس کا بنیادی سبب کیا ہے؟
3۔ :کیا انسان کے اندر کچھ خاصیتیں فطری طور پر موجود ہوتی ہیں یا وہ ماں کی پیٹ سے خالی ذہن دنیا میں آتا ہے؟
4۔ :منکرین فطرت اپنے اس نظریے کی کس طرح توجیہ کرتے ہیں؟
5۔ :انسان کے اندر فطری خاصیتوں کے موجود ہونے کے قائلین اپنے اس نظریے کوکس طرح بیان کرتے ہیں؟
6۔: منکرین فطرت کے اس نظریے کا ردکیا ہے؟
7۔ :انسان کے اندر فطری خاصیتوں کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے قرآن کیا کہتا ہے؟
8۔ :علامہ طباطبائی نے جسم اور روح کے رابطے کو کس طرح بیان کیا ہے؟
9۔ :انسان کے ذمہ کن افراد کی تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے؟
کسی بھی کام اور ذمہ داری کو بجالانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی حقیقت سے آگہی رکھتا ہو وگرنہ ہر وہ ذمہ داری جو انسان کے ذمہ ہے اسے انجام نہیں دیا جاسکتا مثلاً اگر کسی کی ذمہ داری مکان بنانا ہو تو اس کے لئے ایک انجنیئر کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے جو تعمیرات میں مہارت رکھتا ہو اور اس عمارت کی تعمیر کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہو ،ان تمام چیزوں سے آگہی رکھتا ہو۔ اسی طرح بچے کی تربیت کا کام نہ صرف مکان بنانے کی مانند ہے بلکہ اس سے بھی نہایت ہی مشکل کام ہے۔کیونکہ یہ کام انسان سازی کا کام ہے۔ اگر مربی اپنے متربی کی حقیقت وواقعیت سے آگہی نہ رکھتا ہو تو یہ اہم ذمہ داری بھی صحیح طرح نہیں نبھا سکتا۔لہٰذا سب سے پہلے جاننا ہوگا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی رشد ونمو میں کن کن چیزوں کا دخل ہے؟ اور اسے کن کن مراحل سے گزارنا ہے؟
انسان ایک اتفاقی شی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ایسے موجود کا نام ہے جو حیرت انگیز ،مشکل اور مختلف خصوصیات اور پہلووں کا حامل ہے۔انسان کے وجود میں ایسے راز اور حقائق پوشیدہ ہیں جنہیں اس کے وجود کا ”مرکز “ قرار دے سکتے ہیں۔اس کے عزم وارادہ اور کمالات کو دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔انسانی وجود ہی ایسا وجود ہے جو کائنات کی باقی تمام چیزوں کے لئے آئینہ کی حیثیت رکھتاہے ۔اور یہ وجود ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو اسے فرشتوں کے برابر بلکہ ان سے بھی بالاتر کردیتا ہے:
وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئكَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فىِ الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَ تجَْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَ نحَْنُ نُسَبِّحُ بحَِمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنىّ‏ِ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ(بقرہ /۳۰)اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب ) بنانے والا ہوں ،فرشتوں نے کہا : کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرئے گا؟ جبکہ ہم تیری ثنا کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں ،اللہ نے فرمایا:(اسرار خلقت بشر کے بارے میں ) میں وہ ان تمام حقائق سے آگاہی رکھتا ہوں جسے تم نہیں جانتے۔
لہٰذا تعلیم وتربیت کے میدان میں سب سے بنیادی ترین چیز خود انسان کی شناخت ہے کیونکہ تربیت کا موضوع ہی انسان ہے۔اگر خود انسان کی معرفت نہ ہو تو کس طرح اس کی تربیت کے دریچے کھلیں گے؟ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تربیت کے تمام اجزاء، اس کے عناصر اور اس کے اہداف یا اصول وروش یا عوامل وموانع ،یہ سب کسی نہ کسی طرح خود انسان سے منسلک ہے۔اس لئے تربیت کے میدان میں انسان کی شناخت اور اس کے وجود کے مختلف زاویوں کی پہچان نہایت ہی ضروری ہے۔
انسان کی شناخت کے لئے عصر قدیم سے ہی کوششیں جاری ہیں جس کے نتیجے میں علم کے مختلف شعبے وجود میں آئے لیکن اس کے باوجود وہ انسان کی شناخت تو چھوڑیں اس کے قریب بھی نہیں پہنچ پائے ۔آج کے موجودہ صدی میں بھی علوم وفنون میں اتنی ترقی کے باوجود بھی ماہرین اس ممکن الوجود کی حقیقی معرفت معرفت سے عاجز نظر آتے ہیں ۔آخر وہ کونسا سبب ہے جس کے باعث یہ راز کبھی بھی کشف نہ ہو پایا !؟
مغربیوں نے انسان کو محض گوشت و پوست اور مختلف شہوات کا ایک مجموعہ قرار دیااوراسی عنوان کے تحت اس پر تحقیق کی ۔جس طرح دوسرے حیوانات کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے اسی نقطہ نظر سے وہ انسان کو بھی دیکھتے ہیں۔
یہاں دوسرا سوال یہ پیش آتا ہے کہ جب انسان خود اپنی شناخت سے بے بس ہے تو وہ کونسا راستہ ہے جہاں سے اس کی شناخت ہوسکے؟
جواب:اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ کسی بھی چیز کے بارے میں اگر معلومات لینا ہوتو اس چیز کے موجد سے دریافت کیا جاتا ہے ۔تو اس مورد میں بھی ہمیں انسان کو عدم سے وجود میں لانے والی ہستی کی طرف مراجعہ کرنا ہوگا جو اپنے وجود کے اعتبار سے مستقل ہے اور واجب الوجود ذات ہےکیونکہ اس ذات کے علاوہ باقی تمام موجودات ممکن الوجود ہیں ،وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے ؟
رب قدوس اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں مادی نفسیات شناسوں کے برخلاف انسان کو روح اوربدن کا مجموعہ قراردیتا ہے اورروح کو اصل اور جسم کو اس کی فرع شمار کرتا ہے ۔خداوند متعال نے اپنی اس کتاب میں ایک سورہ کو خود انسان کے نام سے موسوم کیا ہے اور اسے مختلف تعبیرات سے یاد کیا گیا ہے۔ بعض آیتوں میں انسان کی مادی جسم کی حقیقت کوذکر کیا ہے اور اسے مٹی،پانی ،کیچڑ،جمے ہوئے خون وغیرہ سے خلق ہونے کو بیان کیا گیا ہے جیسے:اِنَّ مَثَلَ عِیْسی عِنْدَاللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَاب(آل عمران/۵۹ )
ترجمہ:عیسٰی علیہ السلام کی مثال اللہ کے نزدیک آدم علیہ السلام جیسی ہے کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا ہوجا اور وہ ہوگیا۔
وَ هُوَ الَّذِى خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرً (فرقان/۵۴)
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر کو پیدا کیا۔
الَّذِى أَحْسَنَ كلُّ‏ شَىْءٍ خَلَقَهُ وَ بَدَأَ خَلْقَ الْانسَانِ مِن طِينٍ(سجدہ/7)
جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔
پھر قرآن ماں کی پیٹ میں آنےکے بعد بچے کی حقیقت کو بیان کرتا ہے:
سورہ مومنون میں ارشاد پروردگار ہوتا ہے:
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْانسَنَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ(مومنون/۱۲)
اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
ثمُّ‏ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فىِ قَرَارٍ مَّكِينٍ(مومنون/۱۳)
پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بناکر رکھا ہے۔
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لحَْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا ءَاخَرَ فَتَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الخَالِقِينَ(مومنون/ 14)پھر نطفہ کوعلقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔
علامہ طباطبائی اس آیت کی ذیل میں روح اور بدن کے فرق کی یوں وضاحت فرماتے ہیں:
1۔ یہ دو گوہر (جسم اور روح)ذات، صفات اور خاصیت کے اعتبار سےایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کیونکہ بدن مختلف مراحل،مبادی اور مواد سے تشکیل پاکر ایک خاص زمان اور ایک خاص مکان میں وجود میں آتا ہے جبکہ روح میں ایسا نہیں۔
2۔ جب بدن مکمل ہوجاتا ہے تو ایک بے جان، بے حس اوربے حرکت پیکر رہتا ہے جبکہ روح خود سے ایک زندہ موجود اور عامل حس و حرکت ہے۔
3۔ جب بدن مکمل ہوجاتا ہے تو ایک ناتوان موجود رہتا ہے جبکہ روح ایک طاقتور اور علم و قدرت کی حامل ہے، بدن، روح کے لئے ایک آلہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح قلم سے لکھنے والا لکھنے کے لئے استفادہ کرتا ہے،اسی طرح روح بھی اپنے کاموں کو انجام دینے کے لئے بدن سے استفادہ کرتا ہے۔ خیر وبرکت کی اساس خدا کی ذات ہے اور اسی ذات سے کسب فیض کرکے روح بھی خیر وبرکت کی بنیاد اور اساس بنتی ہے اسی حقیقت کو یہ آیت بھی بیان کرتی ہے: فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الخَْالِقِينَ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ روح کو اس کا رکن اصیل قرار دیتے ہیں:وَ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبىّ‏ِ وَ مَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا(اسراء/۸۵)ترجمہ: اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔
لہٰذا تربیت کے مورد میں خواہ تربیت کے اصول بنانے ہوں یا اس کے مبانی اور روش سے متعلق امور ،ان تمام صورتوں میں ان دونوں پہلووں کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ تاکہ یہ دونوں امور مل کر انسان کی تکاملی راہ میں اسے کمال تک پہنچانے کے لئے سامان فراہم کرے۔
یہاں تیسراسوال یہ پیش آتا ہے کہ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو کیا وہ خالی الذہن اور خالی سیڈی کی مانند ہوتا ہے جسے بعد میں ماحول، گھرانہ اور دوست وغیرہ اپنے آثار سے پر کرتا ہے۔ یا یہ کہ دنیا میں آتے وقت ہی اس کے اندر بعض صلاحیتں اور تقاضے پائے جاتے ہیں جس کے مطابق دوسرے اسباب سے بھی اثر قبول کرتا ہے؟
جواب: اس حوالے سے متفکرین اور ماہرین کے درمیان دوگروہ پائے جاتے ہیں:
1۔ منکرین فطرت: بعض عمرانیات کے ماہرین اور ایگزیسٹنشیالیزم(Existentialism )کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے وقت ایک بے صورت مادہ اور ایک خالی سیڈی اور ایک سفید کاغذ کی مانند بے رنگ دنیا میں وجود میں آتا ہے۔البتہ وہ اپنے اردگرد اور معاشرتی عوامل سے اثر قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتاہے۔ پس انسان کے اندر صرف اثر کو قبول کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن اس کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عوامل بیرونی ہیں۔
۲۔ فطرت کے قائلین: مسلمان دانشور اور متاخر فلاسفرز، انسان کو ایک ایسا موجود قرار دیتے ہیں جوذات وفطرت کا حامل ہے اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ انسانی بینش اور رجحانات اس کے وجود میں ہی پنہاں ہیں۔اگرچہ دنیا میں آتے وقت یہ صلاحیتیں پروان چڑھ کر کامل ہوکے نہیں آتیں لیکن خالی برتن اور خالی سیڈی کی مانند بھی دنیا میں نہیں آتے بلکہ اس کے وجود میں مختلف صلاحیتیں اور پہلو ایک خاص ترکیب، خاص توانائی اور خاص زاویے کے تحت ترتیب دی ہوئی ہیں اور یہ چیزیں اس کا فطری سرمایہ شمار ہوتی ہیں جسے فطرت کے عنوان سے یادکیا جاتا ہے۔
اب یہاں چوتھاسوال یہ مطرح ہوتا ہے کہ جب متفکرین انسان کے فطرت کے حامل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں تو گویا فطرت ایک متنازعہ چیز ہے۔پس جب اس میں تمام متفکرین کی متفقہ رای نہیں ہے تو جو چیزیں فطرت کی بنیاد پر ہم ثابت کرتے ہیں ،خواہ دینی امور میں ہوں یا غیر دینی، یہ تمام امور بھی متزلزل ہو جائنیگے کیونکہ“اذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال” ایک چیز کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جونہی احتمال آجائے تو اس کی بنیاد پر جو استدلال کیا جاتا ہے، وہ بھی باطل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہاں سے تمام دینی امور متزلزل ہوجائنیگے کیونکہ دین کے تمام اعتقادی امور میں ہمارا دعوی یہ ہے کہ یہ سب انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں؛ خواہ خدا شناسی ہویا توحید پرستی یا انبیاء، اوصیاءاور قیامت پر اعتقاد،تو ہم ان اعتقادی امور کو کس بنیاد پر ثابت کریں گے؟
جواب: پہلاجواب دلیل نقضی کے ذریعے دیا جاسکتا ہے۔ یعنی جہاں مثبتین فطرت کا استدلال دوسروں کی نفی کرنے سے باطل ہوتا ہے تو کیا فطرت انسانی کی نفی کرنے والے یہ کہ سکتے ہیں کہ تمام متفکرین اس دعوی میں متفقہ نظررکھتے ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں۔ بلکہ اس چھوٹے سے گروہ کا احتمال، قوی دلیل کے آنے کے بعد باقی نہیں رہتا۔
ثانیاً: ہم اگر اپنے نظریے سے فی الحال صرف نظر بھی کرلے اور منکرین کے قریب آکر ان سے سوال کریں کہ حد اقل فطرت کو تو تم بھی مانتے ہو۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ معاشرہ اور ارد گرد کے ماحول سے اثر قبول کرنے کی انسان کے اندر صلاحیت پائی جاتی ہے کیونکہ اگر ظرف کے اندر مظروف کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو یا سیڈی کے اندر آواز کو ضبط کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہوتوپانی وغیرہ کو کس طرح برتن کے اندر ڈالا جاسکتا ہے اسی طرح سیڈی کے اندر آواز کوکس طرح محفوظ کیا جاسکتا ہے؟ اس کے علاوہ ہم یہاں ان سے یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ کیا برتن کے اندر آواز کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے؟ یا سیڈی کے اندر پانی وغیرہ محفوظ کرسکتے ہیں؟ تو اس کا جواب وہ یقیناً نفی میں دینگے پس یہاں سے ثابت ہوا کہ ہر ظرف اور اس کے مظروف کےدرمیان سنخیت ہونا چاہیے وگرنہ ایک دوسرے کے اثر کو ہرگز قبول نہیں کرئے گا۔
ہمارااعتقاد بھی یہی ہے کہ خدا پرستی، پیغمبروں کی اطاعت اور قیامت کا عقیدہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اسی لئے وہ اسے قبول کرتا ہے وگرنہ وہ ان اعتقادات کو ہرگز کو قبول نہ کرتا ۔لہٰذا یہاں سے ہمارا مدعی؛ یعنی ابتداء سے ہی انسانی فطرت کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ثالثاً:جب دو افراد کے آپس میں کسی معاملے پر جھگڑا ہوتو معینہ اصول و ضوابط کی طرف مراجعہ کیا جاتا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے مفاد میں بات کرتا ہے۔ جب تک ان دونوں سے بالاتر کوئی قانون اور ضابطہ نہ ہوتواس وقت تک ان دونوں کے درمیان فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔تو اس مورد میں ہم کس چیز کو معیار اور پیمانہ قرار دے سکتے ہیں؟ میری نظر میں قرآن مجید ہی وہ اصل اورکامل ضابطہ قرارپا سکتا ہے جوایسے مورد میں صحیح فیصلہ دے سکے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر صدائے فطرت انسانی کی طرف تاکید کی گئی ہے۔
آقای محمد بہشتی نے ان امورکو چودہ عناوین کے تحت تقسیم کیا ہے:
1۔ آیہ فطرت۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَنُ قَالَ يََادَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلىَ‏ شَجَرَةِ الخُْلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا يَبْلى‏(طہ/۱۲۰) پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں بتاؤں؟
2۔ آیات فطری الہامی۔
3۔ آیات فطری نفس۔
4۔ آیات میثاق۔
5۔ آیات ذکری وتذکیری۔
6۔ آِیات نسیان۔
7۔ آیات جوار۔
8۔ آیات ابتکار ذات انسان۔
9۔ آیات حنیف۔
10۔ آیہ صبغۃ اللہ۔
11۔ آیات عالم ذر۔
12۔ آیات خلود وحس جاودانگی۔
13۔ آیات مسخ ہویت۔
14۔ آیات پرسشی۔
یہاں ان تمام آیات کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں لہٰذا شاہد کے عنوان سے ایک آیت کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے:
وَ اعْلَمُواْ أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكمُ‏ْ فىِ كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لَاكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْايمَانَ وَ زَيَّنَهُ فىِ قُلُوبِكمُ‏ْ وَ كَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوقَ وَ الْعِصْيَانَ أُوْلَئكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ(حجرات/۷)ترجمہ: اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر, فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دے دیا ہے اور درحقیقت یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:فطرت کی طرف دقیق نظر سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین انسان کے لئے محبوب ترین چیز اور کفرو فسق اور گناہ کو انجام دینا اس کی نظر میں منفور ترین چیز ہے۔ کیونکہ انسان فطرتاً ہی کمال کا خواہاں ہے اور اپنی سعادت کی تلاش میں رہتا ہے اور خسارت، نقصان، ضلالت و گمراہی اور انحطاط سے وہ فطرتاً ہی گریزاں ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے نفع،مصلحت اور رشدوکمال کے عوامل کے درپے ہوتا ہے۔ دین اس لحاظ سے کہ رشدو کمال کے لئے حقیقی عامل کی حیثیت رکھتا ہے، انسان کو یہ سعادتمند آئین اور سعادتمند پروگرام اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیش آتا ہے کہ جب خداوند متعال نے انسان کی فطرت میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ خود اچھائی کو برائی سے، نیکی کو بدی سے، کمال کو نقص سے اورفائدے کو نقصان سے تمیز دے سکتا ہے تو خداکو چاہیے تھا کہ اسے اپنی فطری حالت پر چھو ڑ دیتا تاکہ وہ اپنی فطری آواز پر لبیک کہتا ہوا اس کے احکام پر عمل کرتا۔لہٰذا ان کی ہدایت کے لئے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔بلکہ وہ خود اپنی عقل کی مددسے اچھائی اور برائی میں تمیزدے سکتا ہےاورعقل کے دستورات پر عمل کرکے دنیوی اور اخروی زندگی دونوں میں سرخرو ہوسکتا ہے؟
جواب: اولاً، انسانی عقل محدود ہے اور وہ اپنی اس محدودعقل کی مددسے کائنات کے اس لامحدود نظام کو نہیں سمجھ سکتا اگر چہ بعض امور کی مصلحت اور نقصان کا ادراک کرسکتی ہے۔
ثانیا،انسان کو خداند عالم نے صرف دنیوی زندگی کے لئے خلق نہیں کیا بلکہ اسے اخروی زندگی کے لئے خلق کیاہے اور اس دنیاکی محدودزندگی کو آخرت کی اس ابدی زندگی کے لئے ایک امتحان گاہ قراردیا ہے قرآن کہتا ہے: أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً وَ أَنَّكُمْ إِلَيْنا لا تُرْجَعُونَ (مومنون/115)
کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟
تو اعتقادات دینی کے مورد میں بھی بہت سارے حقائق ایسے ہیں جن کے بارے میں اس وقت تک ہمیں آگہی حاصل نہیں
ہوسکتی جب تک ایک خدائی نمائندہ اس مرحلے میں ہماری راہنمائی نہ کرے۔
ثالثا:تاریخ انسانی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ منبع وحی سے فیض حاصل نہ کرنے اور صرف اور صرف اپنے عقل کا سہارا لینے کے باعث بہت سارے لوگوں نے اپنی شخصیت کو اتنا گرا دیا کہ بے جان بتوں کے سامنے سرتسلیم خم کیاجس کے نتیجے میں دنیوی سعادت اوراخروی نعمتوں سے محروم ہوگئے ۔شاہد کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے قرآن اسے یوں بیان کرتا ہے:
وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ۔(شعراء۶۹) اور انہیں ابراہیم کا واقعہ سنا دیجئے:
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَ قَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ(شعراء/۷۰)
انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کو پوجتے ہو؟
قَالُواْ نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ(شعراء /۷۱)
انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور اس پر ہم قائم رہتے ہیں۔
وَ إِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَابْرَاهِيمَ(صافات/۸۳)
إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ(صافات84)
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَ قَوْمِهِ مَا ذَا تَعْبُدُونَ( صافات/۸۵)
أَ ئفْكا ءَالِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ( صافات/۸۶)
فَمَا ظَنُّكمُ بِرَبّ‏ِ الْعَالَمِينَ( صافات/۸۷)
۔ اور ابراہیم یقینا نوح کے پیروکاروں میں سے تھے۔
۔ جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں قلب سلیم لے کر آئے۔
۔ جب انہوں نے اپنے باپ(چچا) اور قوم سے کہا: تم کس کی پوجا کرتے ہو؟
۔ کیا اللہ کو چھوڑ کر گھڑے ہوئے معبودوں کوچاہتے ہو ؟
۔ پروردگار عالم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔
قرآنی آیات کے بیان کرنے سے معلوم ہوا کہ انسان کے لئے ایک مربی اور راہنماکا ہونا ضروری ہے جس کے بغیر فلاح پاناممکن نہیں۔ تو ہمیں یہ جاننا ہے کہ قرآن کی رو سے تربیت کی کتنی صورتیں ہیں؟
تربیت کے اقسام
قرآن مجید نے انسان کے ذمہ تین طرح کی تربیت کو قرار دیا ہے:
1۔ انفرادی تربیت:
رب قدوس سورہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے:۔يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ(مائدہ :105)اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا، تم سب کو پلٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گاکہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
2۔ گھر والوں کی تربیت:
سورہ طہٰ میں ارشاد رب العزت ہے:۔ وَ أْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَوةِ وَ اصْطَبرِْ عَلَيهَا لَا نَسْئَلُكَ رِزْقًا نحْنُ نَرْزُقُكَ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى۔ (طہٰ:132)
ترجمہ: اوراپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں،ہم آپ سے کوئی رزق نہیں مانگتے بلکہ آپ کو رزق ہم دیتے ہیں اوربہترین انجام اہل تقویٰ ہی کے لیے ہے۔
سورہ تحریم میں بھی اسی حوالے سے یوں تاکید کی گئی ہے: يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ قُواْ أَنفُسَكمُ‏ْ وَ أَهْلِيكمُ‏ْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الحِْجَارَةُ عَلَيهَْا مَلَئكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ(تحریم: 6)ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
اس آیت کے شأن نزول میں تفسیر ”الاصفیٰ فی تفسیر القرآن ” میں ایک روایت نقل ہوئی ہے : جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں میں سے ایک شخص روتا ہوا بیٹھ گیا اور وہ کہ رہاتھا کہ جب میں اپنی اصلاح سے عاجز ہوں تو گھر والوں کی اصلاح کیسے کروں؟ تو رسول ﷺنے فرمایا : تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم اپنے نفس کے لئے جو حکم کیا کرتے ہو وہی اپنے گھر والوں کوبھی کیا کرو !اور انہیں ان چیزوں سے منع کرو جن سے تم اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہو !۔ ( ٦)
تیسراباب:
تربیتِ اولاد قرآن کی رو سے
روش تربیت:
یہاں چندسوالات پیش آتے ہیں:
1۔ تربیت کے کتنے مراحل ہیں؟
2۔ہرمرحلے میں مربی کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں؟
3۔کیا اسلام نے ان مراحل کو ملحوظ خاطررکھا ہے؟
4۔قرآن کی رو سے بچے کی تربیت کے دوران کن کن امورکو پہلے بجا لانا چاہیے اور کن امور کو بعد میں؟
5۔بچے کو معاشرے کا ایک بہترین فرد بنانے کے لئے اس کی تربیت کا اندازکیسا ہوناچاہیے؟
6۔ اس مورد میں قرآن کس حد تک ہماری راہنمائی کرتا ہے؟
تربیت کےمراحل:
پیغمبر اکرم ﷺکی ایک حدیث میں ان مراحل کی تفسیر بیان ہوئی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: اَلْوَلَدُ سَیِّد سَبْعَ سِنِیْنَ وَعَبْد سَبْعَ سِنِیْنَ وَوَزِیْر سَبْعَ سِنِیْنَ فَاِنْ رَضِیْتَ خَلَائِقَه لِاحْدَیْ وَعِشْرِیْنَ سَنَةً وَاِلَّا ضُرِبَ عَلی جَنْبَیْهِ فَقَدْ اَعْذَرْتَ اِلی اللّٰهِ۔( ٢)
ترجمہ: بچہ سات سال تک بادشاہ (کی مانند )ہے اور (اس کے بعد) سات سال تک غلام ( کی مانند)ہے اوراس کے بعد کے سات سال وزیر (کی مانند ) ہے ۔اگر تم اپنے بچہ کے اخلاق و اطوار کو اکیس سال تک ٹھیک کرسکے تو کتنا ہی بہتر، ورنہ تم نے خداکے حضور کوتاہی سے کام لیا ہے (جس کے لئے تمہارے پاس کوئی عذر نہیں)۔پس اس روایت سے معلوم ہوا کہ بچہ کو ابتدائی سات سالوں میں آزاد رکھنا چاہیے تاکہ اسکی ذہنی صلاحیتیں ابھر سکیں۔ پھر سات سال سے چودہ سال تک کے درمیانی عرصہ کو اسے غلاموں کی طرح زیر نظر رکھناباالخصوص اس عمر میں غلط سوسائٹی سے بچائے رکھنا چاہیے کیونکہ عقلی اعتبار سے ابھی وہ ممیز (یعنی اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے)نہیں جس کے نتیجہ میں وہ غلط سمت پر گامزن ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر چودہ سے اکیس سال تک وزیر کی طرح رکھنا چاہیے اور گھریلو معاملات میں ان سے مشورہ لینا چاہیے تاکہ آہستہ آہستہ وہ خود بھی اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرے۔
بچپن میں ماں باپ کی ذمہ داریاں:
قرآن کہتاہے کہ: وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْن ِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاْعَةَوَعَلیَ الْمَوْلُوْدِ لَه رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِا الْمَعْرُوْفِ۔۔۔۔(بقرہ / ٢٣٣)ترجمہ: اور مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں ( یہ حکم ) ان لوگوں کے لئے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں اور بچے والے (باپ) کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہوگا۔
اس آیت کی ذیل میں علامہ طباطبائی نے درج ذیل نکات ذکر کئے ہیں:
پہلا نکتہ: یہاں” وَالِدَاتْ” کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ کہ ”اُمَّهَاتْ” کی ۔کیونکہ ”اُم” والدہ سے اعم ہے (یعنی ماں اور غیر ماں دونوں کو شامل ہے ) اسی طرح ”اب” بھی والد سے اعم ہے (یعنی باپ اور چچا دونوں کو شامل ہے)
دوسرا نکتہ :ان کی غذا اور لباس عرف کے مطابق بچے والے( یعنی باپ) پرادا کرنا واجب ہے۔
تیسرا نکتہ : اسی آیت کی تفسیر میں ترجمہ مفردات قرآن میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل ہے جس میں آپؑ نے فرمایا:
لَاْ تُضَاْرَ بِا الصَّبِی ّ ِوَلَا بِاُمِّه ِفِیْ رِضَاْعِهِ وَلَیْسَ لَهَاْ اَنْ تَأخُذَ فِیْ رِضِا عِهِ فَوْ قَ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ۔
ترجمہ: بچہ کو دودھ پلانے سے نہ ماں کو ضررپہنچتا ہے اور نہ ہی بچہ کو البتہ ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچے کو دو سال سے زیادہ دودھ نہ پلائیں ۔
اس روایت سے ایک شبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ(کیا بچہ کو دودھ پلانے سے ماں کی خوبصورتی اور اس کی صحت متأثر ہوتی ہے؟تو)امامؑ فرماتے ہیں کہ: نہ اس سے ماں کو کوئی ضرر پہنچتاہے اور نہ ہی بچہ متأثرہوتاہے۔ ماہرین کے تجربات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ بچے کے لئے سب سے مفید غذا اسکی ماں کا دودھ ہے۔ اسی ضمن مین تفسیر صافی نے کتاب ”کافی“ او ر ” من لا یحضرہ الفقیہ “سے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا متن یہ ہے:
مَامِنْ لَبَنٍ رَضَعَ بِهِ الصَّبِیُّ اَعْظَمُ بَرَکَةً عَلَیْهِ مِنْ لَبَنِ اُمِّهِ وَقَدْ یَجِبُ عَلَیًهِنَّ کَمَا لَمْ یَرْتَضِعْ اِلّا مِنْ اُمِّهَا اَوْلَا یَعِیْشُ اِلَّا بِلَبَنِهَاا َوْلَا یَجِدْ غَیْرَهَا
ترجمہ : بچے کے لئے ان کی ماں کے دودھ سے زیادہ مؤثر غذا کوئی اور نہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ تین موارد میں دودھ پلانا ان پر واجب ہوتا ہے :
1۔ جب بچہ اپنی ماں کے دودھ کے علاوہ کسی اور کا دودھ نہ پئے۔
2۔ جب تک ماں اپنا دودھ نہ پلائے،بچہ زندہ نہ رہتا ہو ۔
3۔ ماں کے علاو ہ دودھ پلانے کے لئے کوئی اور تیار نہ ہو ۔
دنیوی امور ہوں یا اخروی ، شخصی امور ہوں یا اجتماعی ان تمام امور میں سے بعض کو اصل کی حیثیت حاصل ہے اور بعض کو فرع کی ۔بعض ”اہم“ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض”مہم“ کی ۔تو ان امورکو بجالانے کے مرحلے میں جب پہلے اور بعد میں بجا لانے کے حوالے سے تردہو تو انسانی عقل بھی یہی دستور دیتی ہےکہ اصل کو فرع سے اور اہم کو مہم سے پہلے بجالانا چاہیے۔پس بچے کو دینی نقطہ نگاہ سے تربیت دیتے وقت بھی اس اصل کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ دینی امور میں سے بھی بعض اصول سے تعلق رکھتے ہیں اوردوسرے بعض کا تعلق فروع سے ہے تو اصول دین کی تعلیم کو فروع دین پر مقدم رکھنا چاہیے۔قرآن کہتا ہے کہ تم سب سے پہلے توحید پر اعتقاد کو درست کرلو!کیونکہ دوسرے تمام اعتقادات کی بنیاد اسی اصل پر استوار ہے سورہ توحید میں ارشاد ہوتاہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (توحید/۱ ) کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام اللہ ہے) ایک ہے۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ہے: وَ إِلَاهُكمُ‏ْ إِلَاهٌ وَاحِدٌ لَّا إِلَاهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِيم۔(بقرہ/۱۶۳)اور (لوگو) تمہارا معبود خدائے واحد ہے اس بڑے مہربان (اور) رحم کرنے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
وہ ذات قادر مطلق ہے ۔ارشاد ہوتاہے: ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها أَوْ مِثْلِها أَ لَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ (بقرہ/۱۰۶)
ترجمہ: ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے۔وہ ذات فاعل مختار ہے۔ارشاد رب قدوس ہے: إِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّلِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجرِى مِن تَحتِهَا الْأَنْهَارُ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيد(حج/۱۴)ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہیں ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
اس کےبعد بچے کو یہ بھی باور کرادےکہ وہ ذات عادل بھی ہےاور وہ اپنے کسی بھی بندہ پر ظلم نہیں کرتا۔
ارشاد خداوندی ہے :ِانَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَ إِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَ يُؤْتِ مِن لَّدُنْهُأَجْرًا عَظِيمًا (نساء/۴۰ )ترجمہ: خدا کسی کی ذرا بھی حق تلفی نہیں کرتا اور اگر نیکی (کی) ہوگی تو اس کو دوچند کردے گا اور اپنے ہاں سے اجرعظیم بخشے گا۔
وہ ذات عالم ہے اور کائنات کے ہرذرہ سے کامل آگہی رکھتی ہے ۔قرآن کہتا ہے :قُلِ اللّٰهُمَّ فاطِرَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ عالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبادِكَ في‏ ما كانُوا فيهِ يَخْتَلِفُون (زمر/۴۶)ترجمہ: کہدیجئے: اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے خالق، پوشیدہ اور ظاہری باتوں کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔
اس کے بعد دوسرے مرحلے میں خداکے نمائندوں یعنی؛ انبیاءکرام پر بچے کے اعتقاد کو مضبوط کری۔قرآن دستور دیتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلىَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيهِْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِين (آل عمران/۱۶۴)ترجمہ: خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
پھر خدا کے ولیوں کی معرفت سے بچے کے دل کو سرشار کریں۔قرآن کہتا ہے:يَأَيُّهَا الَّذِينَءَامَنُواْ أَطِيعُواْ اللّٰهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكُم‏ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فىِ شىَ‏ْءٍ فَرُدُّوهُ إِلىَ اللّٰهِ وَ الرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الاَْخِرِ ذَالِكَ خَيرٌْ وَ أَحْسَنُ تَأْوِيل (نساء/۵۹)ترجمہ: مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے۔اس کے بعد اسے یہ بھی باور کرادیں کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کےلئے نہیں آئے بلکہ صرف ایک محدود مدت کے لئے آئے ہیں۔ ہماری اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جس میں ہم نے اپنے دنیوی اعمال کی سزا اور جزا کو بھگتنا ہے۔ اگر اس دنیا کی مختصرسی زندگی میں اچھے اعمال بجا لائے ہوں تو قیامت کے روز اس کا اجر پائے گا لیکن اگر اسے برے کاموں میں صرف کی ہوتو اس کی سزا پائے گا۔ رب قدوس قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ أَنَّ السَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَ أَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فىِ الْقُبُور(حج/۷)
اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ ان سب کو اٹھائے گا جو قبروںمیں ہیں۔
يَوْمَئذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْاْ أَعْمَلَهُمْ
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
وَ مَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَه ( زلزال/۶،۷،۸ )

ترجمہ: اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر نکل آئیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔جب ان اصول خمسہ پر اس کا ایمان مستقر ہوجائے تو فروعات کی طرف اس کی راہنمائی کریں۔فروعات میں نمازباقی سب پر مقدم ہے ۔قرآن کہتا ہے:
وَ أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْریْ (طهٰ/14)
ترجمہ: اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔
پھر روزہ کی تعلیم دیں۔قرآن کہتا ہے:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلىَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(بقرہ/183)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
پھر خمس کی تعلیم دیں ۔قرآن دستور دیتا ہے:
وَ اعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شىَ‏ْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِى الْقُرْبىَ‏ وَ الْيَتَامَى‏ وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ ءَامَنتُم بِاللّٰهِ وَ مَا أَنزَلْنَا عَلىَ‏ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَ اللّٰهُ عَلىَ‏ كُلّ‏ِ شىَ‏ْءٍ قَدِيرٌ(انفال/۴۱)
ترجمہ: اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
پھر زکات سے اسے آگاہ کریں ۔قرآن کہتا ہے:
وَ أَقِيمُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتُواْ الزَّكَوةَ وَ ارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَ(بقرہ/43 )
ترجمہ:اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور ـ(اللہ کے سامنےـ) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔
پھر حج وجہاد کی تعلیم دیں۔قرآن کہتا ہے: فِيهِ ءَايَاتُ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَ مَن دَخَلَهُ كاَنَ ءَامِنًاوَ لِلّٰهِ عَلىَ النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًاوَ مَن كَفَرَ فَإِنَّ اللّٰهَ غَنىِّ‏ٌ عَنِ الْعَالَمِينَ( آل عمران/97)
ترجمہ: اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقا م ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والاہو گیااور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو اہل عالم سے بے نیاز ہے۔
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَ عَسىَ أَن تَكْرَهُواْ شَيًْا وَ هُوَ خَيرٌْ لَّكُمْ وَ عَسىَ أَن تُحِبُّوا شَيًْا وَ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ أَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ(بقرہ/216)ترجمہ: تمہیں جنگ کا حکم دیاگیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، جیساکہ ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
پھر امربہ معروف اور نہی از منکر سے آگاہ کریں۔قرآن کہتا ہے:
وَ لْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلىَ الخَْيرِْ وَ يَأْمُرُونَ بِالمَْعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران/104 )ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
پھر سب سے آخر میں تولی وتبریٰ کی تعلیم دیں ۔یعنی محمد وآل محمد: سے اظہار محبت اور ان کی تابعداری اور ان کی دشمنوں سے اظہار برائت کرنا سکھائیں تاکہ مرتے دم تک وہ ان تعلیمات پر عمل کرتا رہے اور دنیا وآخرت دونوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو۔قرآن اس مورد میں کہتا ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَن يجَُادِلُ فىِ اللّٰهِ بِغَيرِْ عِلْمٍ وَ يَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَنٍ مَّرِيدٍكُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَن تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَ يَهدِيهِ إِلىَ‏ عَذَابِ السَّعِيرِ(حج/۳۔4 ) ترجمہ: اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہےں جو لاعلمی کے باوجود اللہ کے بارے میں کج بحثیاں کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔
جب کہ اس شیطان کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کرے گا اور جہنم کے عذاب کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔ ان اصول وفروع کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کے اخلاق واطوار کی طرف بھی خصوصی توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ انسانی زندگی میں اخلاق کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اچھے اخلاق ہی کے ذریعے بچہ ماں، باپ اور معاشرےکے لئے سرخروئی کا باعث بن سکتا ہےاور برے اخلاق کے ذریعے والدین اور معاشرہ دونوں کے لئے ننگ وعار کا سبب بھی قرار پاسکتا ہے لٰہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ بچے کو ابتداء ہی سے رزائل اخلاق سے دوررکھےاورفضائل اخلاقی سے اسےآراستہ مزین کریں۔خدا ہم سب کو اپنی اولاد کی اسلامی وقرآنی دستورات کے مطابق تربیت دینے اوراسلام اورمسلمانوں کے لئےقابل فخرافراد کے مربی ہونے کی توفیق عطا فرما!آمین ثم آمین
فہرست منابع
1۔ الاصفی فی تفسیر القرآن ، ملا محسن ، مرکز انتشارات تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، تاریخ نشر ۱۳۷۴.
2۔ اطیب البیان فی تفسیر القرآن ، طیب عبد الحسین ، انتشارات اسلامی تہران ، تاریخ نشر ۱۴۷۸.
3۔ الاعجاز التربوی فی القرآن الکریم،مصطفی رجب ، جدارالکتاب العالمی عمان اردن ، پہلاایڈیشن ، تاریخ نشر ۲۰۰۶ء.
4۔ الامثل فی تفسیر القرآن ، ناصرمکارم شیرازی ، ناشر : مدرسہ امام علی ابن ابی طالب،تاریخ نشر:۱۴۲۱ھ.
5۔ ترجمہ تفسیر المیزان، سید محمد باقر موسوی ہمدانی ، ناشر دفتر انتشارات اسلامی حوزہ علمیہ قم، تاریخ نشر:۱۳۷۴.
6۔ تفسیر جوامع الجامع،فضل بن حسن طبرسی، ناشر : انتشارات دانشگاہ تہران ومدیریت حوزہ علمیہ قم،پہلا ایڈیشن، تاریخ نشر ۱۳۷۷.
7۔ تفسیر صافی ،ملامحسن فیض کاشانی ،انتشارات صدرتہران ،تاریخ نشر۱۴۱۵.
8۔ تفسیرالمیزن، علامہ محمد حسین طباطبائی، ناشر موسسہ النشرالاسلامی حوزہ علمیہ قم، تاریخ نشر، ۱۴۲۱ھ.
9۔ مبانی تعلیم وتربیت درقرآن وحدیث، رضا فرہادیان، ناشر موسسہ بوستان کتاب قم، دوسراایڈیشن، تاریخ نشر، ۱۳۸۵.
10۔ مبانی تعلیم وتربیت درقرآن وحدیث، محمد بہشتی، ناشر سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ واندیشہ اسلامی، پہلاایڈیشن ، تاریخ نشر،۱۳۸۷ .
11۔ وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی ،موسسہ آل البیت قم، تاریخ نشر، ۱۴۱۹ھ.

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button