سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

خطبہ فدکیہ معارف الہیہ کا خزینہ

مقالہ نگار: غلام رسول ولایتی، متعلم جامعۃ الکوثر
چکیدہ
معارف میں بالخصوص معرفت خداوندی کی اہمیت ، عظمت ، اور شرف کو مد نظر رکھتے ہوئے خطبۂ فدکیہ میں موجود معارف الہیہ کے خزینے سے بعض معارف کو مو ضوع تحقیق قرار دیا ہے ، اور ہماری اس تحقق کا مقصد مسلم معاشرے میں معرفت الہی کی شناخت کروانی ہے۔ بلا شبہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے معارف کا ایک انمول خزانہ پیش کیاہے ۔
ہماری روشِ تحقیق، علمی وتحلیلی ہے جس کی بنیاد خطبۂ فدکیہ ہے ۔ خطبۂ فدکیہ حضرت زہرا ء علیھا السلام کاارشاد فرمایاہواخطبہ ہے جو آپ نے حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں خلافت کے دربار میں ارشاد فرمایا تھا ، جب حضرت ابوبکر نےرسول اللہ ﷺکی ہبہ شدہ سرزمین ِفدک ایک حکومتی آڈر کے تحت لے لی تھی۔اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے اس میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی طرف اشارہ کیا ہے اورخطاب میں فرمایا کہ اس ابتری کی اصل وجہ و سبب اور اس کی جڑ معرفتِ توحیدی کا کمزور ہونا ہے۔
کلیدی الفاظ:حمد، شکر، اخلاصِ توحید، لا من شیء، بعثت ، معارف الہی
مقدمہ
پیامبراسلام ﷺ کی وفات کے بعد باغ ِفدک کو ایک حکومتی آرڈر کے تحت قبضہ کرکے حکومتی تصرف میں لایا گیا، اور اس باغ کو مختلف لوگوں کو بخشنے کا سلسلہ جاری رہا ،یہاں تک کہ خلفائے بنوامیہ اور بنو عباس نے اپنی مرضی کے تحت کبھی اپنے کسی داماد کو بخش دیا تو کسی نے اپنے بیٹے کو۔ اور کبھی کبھار یہ زمین واپس اہل بیت کی آل و اولاد کو بھی واپس دے دی گئ ، اس طرح یہ عمل کئ بار دہرایا گیا جو کہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
جناب سیدہ علیھا السلام نے خطبے کا آغاز، حمد خداوندی سے کیا ہے اور اس کے بعد ، رسالت کی گواہی، وصفِ مبداَ، خلقت، فلسفۂ معاد، انتخاب ِرسول اللہ، بعثت رسول اللہ، رحلت رسول اللہ، امت اسلام، قرآن کریم، فلسفۂ معارف ، معارف دین، اہل بیتِ رسالت جیسے معارف کا ذکر فرمایاہے، ان سارے معارف میں سے ہم نے ، حمدِ الہی بر نعمات الہی ، شکر بر الہام ِمعرفت ،اخلاص؛ تاویل ِتوحید، ابداعِ اشیا اور بعثتِ رسول اللہ ص پرتحلیلی وعلمی تحقیق پیش کی ہے۔
اس خطبے کو مختلف علما ء نے حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے ۔ سب سے پہلےاہل سنت ادیب و تاریخ دان، ابو الفضل احمد بن ابى طاهر، معروف به ابن طيفور ( 204- 280 هجرى‏)نے“بلاغات النساء” میں ذکر کیا اور اس کے بعد باقی مؤرخین اور محدثین نےبھی اپنی کتابوں میں اس خطبے کا ذکر کیا ہے اور اس کی مختلف شروحات لکھی گئ ہیں۔
زیرنظر تحقیق میں خطبۂ فدکیہ میں موجود معارف الہیہ کے خزینے کی علمی و تحلیلی تحقیق کی ہے ، جو کہ خطبے میں موجود چند معارف ہی کی بنیاد پر ہے۔ اس مقالے میں عربی عبارات کو ہی لکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے، تاکہ قاری کو دوبارہ لغت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس مقالے میں کسی بھی عبارت کا ترجمہ نہیں کیا ہے، اور نہ ہی آیات کا ترجمہ کیا ہے بلکہ عربی عبارات کا مفہوم بیان کیا ہے، اور مفہوم کی تکرار سے بچنے کے لیے اکثر مقامات پر تین چار عربی کلمات و عبارات کا ایک جامع مفہوم بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ خلقت کائنات کے بارے میں مغربی سائنسدانوں کے جدید نظریات کو دو وجوہات کی بنا پر شامل نہیں کیا گیا ، اسکی پہلی وجہ وقت کی شدید کمی تھی جبکہ دوسری وجہ یہ کہ کسی بھی نظریے اور مدعا کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے خودِ صاحب ِکتاب و نظریہ اور اس کی لکھی ہوئی کتاب سے استفادہ کرنا چاہیے، لیکن مجھے کسی بھی سائنسدان کی کتاب میسر نہ آسکی۔ باقی مسلم محققین کی تخلیقِ کائنات اور سائنس و اسلام کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں ملیں لیکن اس پر استناد نہیں کرسکا، کیوں کہ انہوں نے بھی ان کتابوں میں ، اسلامی روایات و قرآن کو یا سائنسی نظریات کو اپنی فکر و منشا کے مطابق بیان کیا ہے۔
اس تحقیق کا ہدف یہ ہے کہ جناب زہراء علیھا السلام نے خطبے میں معارف الہیہ کو کیوں کر ارشاد فرمایا اور اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
اس موضوع پر ماقبل تحقیق
اس موضوع پر اس سے پہلے کسی کی کوئی تحقیق ہمیں نظر نہیں آئی ۔قبل از تحقیق اس موضوع کے بارے میں دقیق انداز سے سرچ کیا لیکن اس موضوع پر کوئی بھی مقالہ یا تحقیق نہیں ملی البتہ اس موضوع کے قریب المعنی ایک مقالہ، مہناز توکلی کا فارسی زبان میں “ توحید در خطبۂ فدکیہ” کے عنوان پر موجود ہے، بعد از آں اس سے وسیع مفہوم کے حوالے سے بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں مندرجہ ذیل کتابیں ملیں ؛ شرح و تفسیر آیت اللہ منتظری ، مصباح یزدی، فیض اللہ ویسی، مہتاب آرانی، غلام علی فردونی۔ یہ سب کتابیں فارسی زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ دورانِ تحقیق اردو اور عربی زبان میں اس خطبے سے متعلق کوئی شرح دستیاب نہ ہوسکی، لہذا ہمارے نزدیک یہ تحقیقی مقالہ اس موضوع پر اردو زبان میں پہلی تحقیقی کاوش ہے ، اور یہ کہ اس سے پہلے اردو زبان میں کسی نے اس موضوع پر تحقیق مقالہ نہیں لکھا ہے۔
معارف الہی
خطبۂ فدکیہ معارف الہیہ کا خزینہ ہے، جہاں سیدہ سلام اللہ علیھا نے متعدد معارف الہی بیان فرمایا ہے ۔ اسلامی نظریۂ کائنات میں توحید اور معرفت ِ خداوندی، بنیادی موضوع ہے۔ توحید اور معرفتِ پروردگار، دینِ اسلام میں تمام معارف و تعلیمات اسلامی کی بنیاد ہیں، اور معارف و عقائد ِ اسلامی کی جڑ ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس خطبے میں حضرت زہرا ؑ نے سب سے پہلے اللہ، رسول، قرآن اور اہل بیت جیسے موضوعات کی معرفت و شناخت کروائی ہے ۔
خطبۂ فدکیہ میں موجودموضوعات جیسےحمد و شکر پروردگارِ دوعالم، کلمۂ توحید کا مقصد ، نبوت خاتم الانبیا جیسے مضامین کو معاشرے تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرہ، نئی تہذیب اور ثقافتی یلغار یعنی ؛ ماڈرن جاہلیت ، مناظراتی اور رسوماتی مذہب سے نکل کر الہی اور حقیقی اسلام کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
1) حمد الہی بر نعمات الہی
(الحمد لله على ما أنعم‏ …).1
حمد؛ ابن فارس کے نزدیک حمد؛(يدلّ على خلاف الذم‏‏ )2 یعنی حمد، ذم اور قدح کا متضاد ہے, اور صاحب فروق اللغہ کے مطابق؛( أن الشكر هو الاعتراف بالنعمة على جهة التعظيم للمنعم، و الحمد الذكر بالجميل على جهة التعظيم المذكور به أيضا و يصح على النعمة و غير النعمة، و الشكر لا يصح الا على النعمة )3، یعنی شکر، اللہ کی نعمات کا عظمت کی وجہ سے اعتراف کرنا اور حمد، اللہ کے جمال و کمال کی وجہ سے یاد کرنا اور تعظیم کی جہت سے ، اور حمد نعمات و غیر نعمات دونوں پر کی جاتی ہے لیکن شکر فقط نعمات پر ہی کیا جاتا ہے، حمد ، شکر کا ایک شعبہ اور حصہ ہے اور حدیث کے مطابق حمد راَسِ شکر ہے، (و هو شُعْبة واحدة من شُعَب الشكر، و إنما كان رأْسه ‏)4،مشہور یہ ہے کہ حمد اور مدح یکساں معنی رکھتے ہیں جیسے کہ اس کے متضاد الفاظ قدح اور ہجوْ، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، جیسا کہ بقولِ راغب اصفہانی ؛ (واژه حَمْد، اخص از مدح و از آن والاتر است ) 5یعنی حمد، مدح سے اخص اور اس کا مقام کے لحاظ سے بلند تر ہے، جس طرح یہ دو الفاظ مختلف ہیں اسی طرح ان کے استعمالات بھی مختلف ہیں، حمد تنہا اس ذات یا شخصیت کی ، کی جاتی ہے کہ جہاں صاحب عقل ہو اور صاحب کمال ہو لیکن اگر کہیں پھر بھی استعمال ہو تو وہ مجازاً استعمال ہوا ہے. 6 حقیقت کے طور پر نہیں، مدح جو کہ ذم کا متضاد ہے ،غیر عاقل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلا ایک قیمتی گوہر کو ممدوح کہہ سکتے ہیں لیکن محمود نہیں کہہ سکتے؛ (یقال مدحت اللؤلؤ علی صفائه و لا یقال حمته علی صفائه ) 7 ، حمد اور مدح میں ایک اور فرق یہ ہے کہ حمد ،فقط اختیاری امور پر کی جاتی ہے لیکن مدح غیر اختیاری امور میں بھی مستعمل ہے مثلا کسی کا چہرہ زیبا ہو تو مدح کرسکتے ہیں لیکن حمد نہیں کرسکتے، کیوں کہ چہرے کی خوبصورتی غیر اختیاری امور میں سے ہے۔ 8
حمد کا لازمہ تسبیح ہے جیسے کہ صفات ثبوتیہ کی نسبت اللہ کی طرف دیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ صفات سلبیہ، اللہ کی ذات سے نفی ہوتی ہیں، اسی طرح حمد کریں تو اللہ کی تسبیح ہونا اس کا لازمہ ہے، اسی وجہ سے محقق حسن مصطفوی فرماتے ہیں کہ قرآن میں بعض اوقات حمد کے ہمرا ہ تسبیح کا لفظ آتا ہے؛ (فَسَبِّحْ‏ بِحَمْدِ رَبِّكَ...) پس اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں، (نَحْنُ نُسَبِّحُ‏ بِحَمْدِكَ... حالاں کہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ)۔
پس حمد ؛ نعمات و غیر نعمات پر اور باکمال و باجمال کاموں پر، ایک صاحب اختیار کے اختیاری کاموں کی وجہ سے، بہ جہتِ تعظیم محمود کا ذکر کرنا حمد کہلاتا ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انسان کو حمد کرنے کا حکم دیا ہے اور 66 بار “حمد” کے ہم پلہ الفاظ آئے ہیں، اور نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی ہر شے اللہ کی حمد کرتی ہے؛ (وَ إِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِه) 9 ۔ پس تو بڑا پاک و پاکیزہ ہے ، ملائکہ و روح کا رب ہے، تیری رحمت تیرے غضب پہ پہل کرتی ہےکوئی قابل عباد ت ہے ہی نہیں سوائے تیرے، تو لائق حمد ہے تو بڑا پاک ہے ، ۔10
اور نِعمة ؛ مصطفوی کے مطابق ؛ (طيب عيش و حسن حال )11 ملائم زندگی اور اچھی حالت ، فراہیدی 12 اور صاحب لسان العرب کے مطابق؛ (الخَفْض و الدَّعةُ ) 13یعنی نرمِش اور آرامش، کے لیے استعمال ہوا ہے ، جو کہ بُؤس یعنی شدت و تنگی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے،نعمة بر وزنِ فِعلة اسم ِنوع ہے اور نعمات کی ایک خاص نوع پر دلالت کرتا ہے قرآن مجید میں “نعمة” کے وز ن پر کئی آیات موجو د ہیں، اور ’نِعم” کے ہم معنی الفاظ 132 مرتبہ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں، اور ان میں سے 100 سے زیادہ میں نعمات کا ذکر ہیں۔ (الحمد لله علی ما انعم...) تمام ستائش مخصوص ہے اس ذات کے لیے کہ جس نے انسان کے بدن و روح دونوں کے لیے ملائم و طِیب زندگی فراہم کی، اور اللہ کی نعمات خاصہ اپنے بندوں پر (وَ إِن تَعُدُّواْ نِعمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحصُوهَا… ) 14بے کراں ہیں اور نعمات عامہ بھی بےحساب ہیں، جو شمار میں نہیں آسکتی ہیں، اگرچہ قابل شمارنہیں ہیں پھر بھی انسا ن کو اللہ کی نعمات یاد کرنے اور ذکر کرنے کا حکم ہے. 15 ، زندگی میں اللہ نے کتنی نعمات سے انسان کو نوازا ہے اس کا شمار نہیں کیا جا سکتا ۔جانوروں کو “ اَنعام ” اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی کی ضروریات اور حسن حال، انعام سے ہی پوری ہوتی ہیں، انعام کے بغیر انسانی زندگی شاید قابل تصور ہی نہ ہو، اس مشینی اور ڈیجیٹل دور میں بھی انسان انعام کا محتاج ہے(...نُسْقيكُمْ مِمَّا في‏ بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَ دَمٍ لَبَناً خالِصاً سائِغاً لِلشَّارِبين‏ ) 16کوئی انسان ڈیجیٹل دودھ نہیں بنا سکتا ہے نہ ہی ڈیجیٹل گوشت بنا سکتا ہے ،(وَ مِنْها تَأْكُلُون‏ ) 17اللہ نے انعام کو انسان کے لیے حلال قرار دیا ہے تو ایسے ا نعام کو جو روح و بدن دونوں کے لیے طِیب بھی ہوں اور طَیِّب بھی، انھیں اللہ نے انسان کے لیے حلال قرار دیا ۔
نعمت اصلی؛ (وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحينَ وَ حَسُنَ أُولئِكَ رَفيقاً ) 18 کہ جن پر انعام کیا وہ؛ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین یہ چار گروہ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا ہے ان کا راستہ ہمیں دکھا اور یہی وہ اصلی نعمت ہے جس کی ہر مومن روز نماز میں دعا کرتا ہے کہ پروردگارا ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا۔ بعض احادیث میں نعمت ، ولایت امیرالمومنین ؑ قرار دی گئی ہے. 19‏ اور “انعمت علیہم” میں پیمبرؐ، آپ کے ساتھی اور امیرالمومنین ع کے شیعوں کو انعام یافتہ لوگوں کا مصداق قرار دیا ہے۔ 20
پس انسان پر بطور بندہ شرعا ، عقلا اور عرفا واجب و لازم ہےکہ منعم کی ستائش کرے اور حمد کرے، شاید اس وجہ سے سیدہ نےکلام کو بسم اللہ سے شروع نہیں کیا بلکہ حمد خدا سے شروع کیا اور کلام کی حمد خدا سے شروع کرنے کی ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ کے بعد لوگوں کے دلوں میں جو کجی آگئی تھی وہ اصل میں توحید اور معرفت خدا کا کمزور ہونا تھا ، اور واقعا آج کے مسلم معاشرے کی سب سے بڑی بیماری بھی یہی ہے کہ اللہ کی معرفت کی کمی ہے اس وجہ سے روز بروز نئی بدعات جنم لے رہی ہیں اور شرکیہ افعال میں اضافہ ہورہا ہے، مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اور مصیبت یہ ہے کہ ان کی ایمانیات، اللہ کی معرفت سے خالی ہیں، ہر کسی نے اپنی کوئی سرگرمی بنائی ہوئی ہے پر اللہ کوبھول گئے ہیں جب کہ اللہ کے نبی اور باقی تمام انبیاکی ایک بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لوگوں کو توحید اور خداوند کی ذات کی معرفت کروائیں تھی لیکن ہر نبی کے بعد اس امت میں خرابی آئی اور سامری نما لوگوں نے امت کو خدا اوراس کی شریعت سے دور کرنے میں پہل کی اور پہلی اینٹ رکھی اور یوں امت آہستہ آہستہ راہ سے بھٹک گئ ، تبھی تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا کہ میں تمھارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اور اگر تم ان کو تھامے رکھو تو تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہو نگے ؛ ایک خدا کی کتاب اور دوسری میری عترت ہے، یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر اکھٹے آئیں گے، اور یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ علی ؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ؑکے ساتھ ہے اور ان کو اسی وجہ سے جناب سیدہ ؑ نے اہل مدینہ کو توحید اور معرفت خداوندی سکھانے اور یاد دلانے کی کوشش کی۔
2) شکر بر الہام معرفت
(…و له الشكر على ما ألهم… ‏) 21
زمخشری کےمطابق شکر کا متضاد کفران (یعنی چھپانا) ہے. 22 ، مصطفوی(إظهار التقدير و التجليل‏ ) 23چھپی ہوئی شے کا اظہار کرنا اور روشن کرنا اور قرشی کے مطابق؛(شكر: ثنا گوئى در مقابل نعمت۔ در مجمع فرموده: شكر اعتراف بنعمت است توأم با نوعى تعظيم۔رمّانى گفته: شكر اظهار نعمت است۔ راغب گويد: شكر ياد آوردى نعمت و اظهار آنست ) 24یعنی اعتراف، اظہار و یادآوری نعمت شکر ہے جو کہ ایسی نعمت پر سپاس گذاری کرنا ہے جو شاکر تلک پہنچے ، پس شکر میں اثر غیر تلک پہنچنا شرط ہے ، 25 اور عربی میں وہ جانور جو کم گھاس پر بھی بہتر نتیجہ دے اور فربہ ہوجائے اس کو“ شَکور” کہتے ہیں، اور جملۂ ( شَكِرَ فلانٌ بَعْدَ البُخْل: أي صار سَخِيّا ) 26 کہ وہ بخل کے بعد شاکر بنا یعنی سخی بنا، اور جملۂ (اشْتَكَرَت‏ الرياحُ: أَتت بالمطر ) 27یعنی ہوائیں متشکر ہوئیں سے مراد یہ ہے کہ ہوائیں چلیں اور مضافاً بارش بھی ہوئی، اور جملۂ (شَكِرَتِ‏ الشَّجَرَةُ و أَشْكَرَتْ‏ إِذا خرج فيها الشي‏ء ) 28درخت شاکر ہوا یعنی ایک اضافی چیز نکلی،پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ شکر ایسا ظاہر کرنا کہ جہاں نعمت کم بھی کیوں نہ ہو لیکن اظہار بدرجۂ اتم اور احسن ہو بلکہ توقع سے زیادہ ہو تو شکر اسے کہتے ہیں یہی قرآن کی آیۂ (وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ ) 29 میں حسنہ کے بدلے حسنے میں اضافہ اور اسم اعظم شکور کا ذکر ہونے سے بھی پتہ چلتا ہے اور اوپر والی مثالوں سے سوائے مثالِ اول کے برجستہ طور پر یہ بات سامنے آئی کہ ایک چیز ظاہر ہوجائے اور بدرجہ اتم بلکہ بعض اوقات اضافی بھی ہو تو شکر کہتے ہیں۔
الہام؛(ما يبدو في القلب ‏) 30، (رسيدن چيزى بخاطر، دل و ذهن انسان ) 31اور (يدلّ على ابتلاع شي‏ء ) 32کا نام ہے یعنی دل میں کوئی بات ظاہر ہونا،ذہن میں خطور کرنااور کسی چیز کے نگلنے کو الہام کہتے ہیں، اب وہ مادی ہو یا معنوی ہو۔پس معلوم ہوا کہ الہام ایک قسم کا ادراک اور معنوی دریافت کانام ہے کہ جو انسان اپنے اندر احسا س کرتا ہے بغیر اس کے کہ کہیں اس نے پڑھا ہو یا تلاش ِ ذہنی یا استدلال سے حاصل کیا ہو، ناگہان ایک روشنی اس کے ذہن میں آجاتی ہے اور قرآن میں فقط ایک مرتبہ ہی اشارہ ہوا ہے۔ 33 کہ اللہ نے انسان کو برائی اور اچھائی کا احساس اور درک دیا جس کےذریعے انسان برائی اور اچھائی کو درک کرتا ہے۔
پس اہل اسلام کو اللہ نے جو خاص قوۂ فہم اور درکِ خصوصی ِ عطا کی ہے اور اس کو نبیَ اللہ کے ذریعے اِثارہ بھی کیا ہے کیوں کہ انبیا ع میثاق ِ الست کو یاد دلانے اور دفن شدہ عقول کو اِثارہ کرنے آتے ہیں، تو رسول اللہ ص نے بھی ان دفن شدہ عقول کو زندہ کیا ہے، تو اب اے مسلمانو تم اس کا حق ادا کرو اور اللہ کا شکر بجا لاؤ، سب سے بڑی نعمت ، توحید اور شریعت کی معرفت ہے اس کا اظہا ر کرو، جس طرح میں زہرا بنت محمد ص اظہار علم کر رہی ہوں، کیوں کہ شکر زبان سے، دل سے کیا جاتا ہے اور عملِ بالجوارح شکر ہے۔ 34
رسول اللہ کو اشارات خاصہ کے ذریعے بتادیا گیا تھا کہ یہ امت بنی اسرائیل کی طرح پیچھے پلٹے گی، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ اگر محمد ؐ قتل ہوجائیں یا وفات پاجائیں تو تم کیا واپس جاہلیت کی طرف پلٹ کر جاؤ گے یا اس سسٹم کو لے کر آگے بڑھنا ہے، جیسا کہ موسی نبی ؑکے چالیس دن کوہِ طور پر تشریف لے جانے کی وجہ سے سامری نے جو کھیل کھیلا اسی طرح امت محمد ؐمیں سے بعض نے بھی ایسا کیا، اور سامریت کا پہلا بیج بویا، لھذا اہل علم پر واجب ہےکہ وہ اظہار علم و معرفت کریں خاموش ، سہمے ہوئے اور مصلحتوں کا شکار نہ رہیں، جیسا کہ امربالمعروف کے تین درجات ہیں ان پر عمل کریں۔
3) اخلاص؛ تاویل توحید
(…وأشهد أن لا إله إلا الله كلمة جعل الإخلاص تأويلها… ) 35
راغب کے مطابق اخلاص ؛ (كالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن كان فيه، و الصَّافِي‏ قد يقال لما لا شوب فيه ) 36اور مصطفوی کے مطابق؛(هو تصفية الشي‏ء و تنقيته عن الشوب و الخلط ) 37یعنی خالص اس نچوڑ کو کہتے ہیں جو پہلے منکدر تھا اور ناخالصیت سے مخلوط تھا ، اس کو تصفیہ کرنے کے بعد جو بچا اسے خالص کہا گیا، اسی وجہ سے (الخِلَاصُ؛ رب يتخذ من التمر) کھجور کے مربے کو خِلاص کہا گیا ، اور (سمي الذهب النقي عن الغش خالصا ) 38 کُندن کو بھی خالص کہتے ہیں، کیوں کہ ہائی ٹمپریچر پہ گرمائش دینے کے بعد سونے کی ناخالصیت الگ ہوتی ہے اور خالص سونا الگ ہوجاتا ہے جسے اردو میں کندن اور عربی میں خالص کہتے ہیں۔پس یہ معلوم ہوا کہ اخلاص اور اس طرح کے دوسرے الفاظ، کسی ناخالصیت اور مختلف آمیزشوں سے جدا شدہ نچوڑ کو کہتے ہیں۔
تاویل؛ اَول سے ہے ، ابن منظور کے مطابق؛ (الأَوْلُ‏:الرجوع‏ ) 39 یعنی کسی شے کی طرف پلٹنے کےمعنی میں ہے، اور علامہ مصطفوی جو علم لغت کے ماہر اور محقق ہیں انکےمطابق ؛ (هو التقدّم بحيث يترتّب عليه آخر ) 40 کسی شے کو ایسے متقدم قرار دینا کہ دوسری شے اس پہ مترتب ہوجائے تو اسے اَول کہتے ہیں ۔ پس ایک شے کواس کی حقیقت کی طرف یا اوّل کی طرف پلٹانا تاویل کہلاتا ہے۔
اور کلمۂ توحید کا مرجع ،مآل، مقصد اور اصل اخلاص ہے ، اخلاص کے بارے میں دو نظریے علامہ محمد تقی جعفری تبریزی نے لکھے ہیں ؛ 41
1؛ انسان ،معرفتِ ربوبی کے کمال تک نہیں پہنچ سکتا ہے جب تک انسان میں معمولی بھی تمائل ،ذات احدیت کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف ہو ، تو ایسے شخص کی توحید مقام کمال تک نہیں پہنچی ہے، پس انسانِ موحد کو چاہیے کہ تمام چیزوں سے منہ موڑ کر پیشگاہ احدیت کی طرف اپنا رخ کرے۔
2؛ اخلاص سے مراد ذات احدیت کو تجسم و عوارض اور لوازمات تجسم سے خالص سمجھنا ہے۔
ہر دو تفاسیر درست ہیں لیکن اس جملےکی مکمل تفسیر نہج البلاغہ میں خود امیرالمؤمنین ع نے کی ہے، جہاں آپ فرماتے ہیں؛(وَ كَمَالُ تَوْحِيدِهِ الْإِخْلَاصُ لَهُ وَ كَمَالُ الْإِخْلَاصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْه‏ ) 42توحید کا کمال اور توحید کی بلند ترین چوٹی اخلاص ہے اور اخلاص کی بلند ترین چوٹی اس کی ذات سےصفات کی نفی کرناہے کیوں کہ ہر صفت گواہی دیتی ہے کہ وہ موصوف سے بالکل الگ ہے ۔ کمال اخلاص یعنی ذات احدیت کو ہرطرح کی صفات ِزائد بر ذات سے، منزہ سمجھنا ہے کیوں کہ یہ ترکُب ِذاتِ احدیت یعنی ذات خدا وندی کا مرکب سمجھنے کا موجب ہے ، صفت ِ زائدہ و موصوف دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، جو کہ ایک موضوع میں جمع ہوتی ہیں اور اس کو مرکب بناتی ہیں،ہاں اللہ کے لیے بے حد و حساب صفات ہیں لیکن وہ سب عین ذات ہیں یعنی ذات خدا کی عین ہیں۔
اور اخلاص پہلے معنی میں یہ ہے کہ بندہ اپنےعمل میں خالص بنے اور عمل کو ہر طرح کے شرک سے پاک کرے، جیسے امیرالمؤمنین ؑ نے عمر ابن عبدود کو زمین پر گرا کر گردن کاٹنے والے ہی تھے تو آپ کے چہرۂ اقدس پر بے ادبی کی تو آپ نے اس کو کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیا اور بعد میں گردن کاٹی تاکہ اپنا ذاتی غصہ، علی کے عمل خیر اور اخلاص میں شامل نہ ہوجائے، اب یہ ہے کمالِ توحید اور کمال ِاخلاص ِ عملی۔
پس انسان کا کلمۂ اخلاص کا اقرا رکرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ، اپنی نیت کو اور عمل کو اللہ کے لیے خالص کرے ، کلمۂ لا الہ الا اللہ اور اخلاص ہی انسانی زندگی کا مرجع بنے، انسان اپنی نیات اور اعمال کا مرجع و مآل کلمۂ لا الٰہ الا اللہ کو قرار دے، انسان کا قبلہ نما ہمیشہ اس ذات کی طرف ہونا چاہیے جو مرجع اصلی ہے کیوں کہ انسان نے اسی کی طرف بالآخر پلٹ کر جاناہے ۔
4) ابداع کائنات
(… ابتدع الأشياء لا من شي‏ء قبله‏… ) 43
ابداع ؛ راغب اصفہانی کے بقول ابداع ؛ (همان إنشاء و آفريدن است كه بدون نمونه قبلى ايجاد و انجام شود ) 44 ، اور مصطفوی کے مطابق؛ (إيجاد الشي‏ء و انشاؤه على خصوصيّة لم يسبقه فيها غيره‏ ) 45 اور قرشی کے بقول؛ (ايجاد ابتكارى‏۔۔۔ ) 46، اور سب سے پہلے لغت شناسِ عرب خلیل ابن احمد فراہیدی کے بقول؛ (إحداث شي‏ء لم يكن له من قبل خلق و لا ذكر و لا معرفة ) 47 ایسی کیفیت مخصوصہ کے ساتھ ایجاد کرنا کہ ا س سے پہلے کوئی اس طرح کی دوسری چیز نہ ہو کہ اسے نمونہ بنا کر اس کو خلق کیا جائے، نہ ہی وہ قابل ذکر ہو نہ ہی اس کی کوئی شناخت و معرفت ہو، یعنی اللہ نے اشیا کو ایسی خلقت بخشی کہ اس سے پہلے کوئی ایسی چیز نہ تھی نہ اس کی مثال تھی نہ اس کا کوئی نمونہ تھا، اسی وجہ سے بدعت ،دین میں ایسی چیز ایجاد کرنے کو کہتے ہیں کہ جس سے پہلے اللہ کی طرف سے وہ چیز تشریع نہیں کی گئی ہو.
شیء؛ راغب اصفہانی کے مطابق ؛(چيزى است كه شناخته مى‏شود و از آن آگاهى و خبر مى‏دهند ) 48، یعنی ایسی چیز جو معلوم و معین ہو اور اس سے خبر دینا درست ہو۔ شے کی یہی بہتر وضاحت ہے کیوں کہ کوئی بھی لغت شناس شے کی ایک جامع تشریح نہ کرسکا ۔ خلقت اشیا کے بارے میں تین نظریے فرض ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ نے اشیا کو “من شیء”سے بنایا، دوسرا یہ کہ اللہ نے اشیا کو“ لاشیء” سے بنایا اور تیسرا نظریہ یہ کہ اللہ نے اشیا کو “ لا من شیء” سے بنایا۔ اللہ نے اشیا کو من شیء سے نہیں بنایا کیوں کہ من شیء سے بناتا تو اس سے پہلے کسی چیز کا “ہونا” لازم آتا کہ مادے کی ازلیت ماننی پڑتی ہے اور تسلسل بھی ماننا پڑے گا ، کیوں کہ وہ مادہ بھی کسی چیزسے تو بنا ہوگا اور اسی طرح سلسلہ آگے بڑھے گا یوں تسلسل لازم آئے گا، دوسرا نظریہ یہ کہ “من لا شی” سے بنایا ہے اس صورت میں “ مِن لا شیء”یعنی عدم، بمنزلہِ مادہ لازم آتا ہے، کیوں کہ “من” کسی چیز کو ثابت کرتا ہے اور “لا” اس کی نفی کرتا ہے، اور عدم کا پہلے سے موجود ہونا لازم آتا ہے، پس جو چیز نیستی بھی ہو اور ہستی بھی ہو یہ اجتماع نقیضین ہے اور اجتماعِ نقیضین محال ہے اور تیسرا نظریہ یہ کہ اللہ نے اشیا کو “ لا من شَیء”بنایا کہ جہان ِہستی کو ابداع کیا ، نہ اس سے پہلے کوئی نمونہ موجود تھا، اور نہ ہی کوئی مادہ تھا کہ اس سےخلق کرتے، 49 متعدد احادیث میں بقول بعضے حضرت زہرا کے تیس سال بعد، امیرالمؤمنین کے خطبات میں “ لا من شیء” کی تعبیر استعمال ہوئی ، سب سے پہلی بار حضرت زہرا ع کے خطبۂ فدکیہ میں یہ بات آئی ، 50 اور امیرالمؤمنین ع سے مروی احادیث میں یہ کلمہ پانچ بار آیا ہے، اور کل چودہ احادیث، چھہ ائمۂ اہل بیت علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں 51 ، اور محدث کلینی نے سب سے پہلے اس حدیث کی توضیح کی کہ اگر “ من لا شیء ” سے اشیا خلق ہوجائیں تو تناقض وجود میں آئے گا، اور تعبیر “من شیء” کو قبول کیا جائے تو مادّے کا قدیم ہونا لازم آئے گا اور ثنوت کے نظریے سے دوچار ہوں گے، اور تعبیر “ لا من شیء” سے ثنویت کے نظریے کی کایا پلٹ جاتی ہے کیوں کہ وہ گمان رکھتے ہیں کہ خداوند نے چیزوں کو خلق کیا ہے تو ان دو حالات سے خالی نہیں ہیں، یا “ من شیء” سے خلق کیا ہے یا “من لا شیء” سے خلق کیا ہے لیکن “ من شیء” سے خلق ہونا تو محال ہے، پس رہ گیا “ من لا شیء” تو یہاں کلمۂ “من” کسی “چیز ”کو ثابت کرتا ہے اور کلمۂ “لا” اس کی نفی کرتا ہے پس اس میں تناقض لازم آیا۔ امیرالمؤمنین ؑ نے کلمۂ “لا من شیء” کی رسا ترین اور درست ترین تعبیر کی اور فرمایا کہ“ جو کچھ بھی ہے وہ کسی چیز سے خلق نہیں فرما یا” ۔ 52 پس کائنات کی خلقت ابداعی ہے جو کہ نہ من شیء سے خلق ہوئی ہے نہ من لا شیء سے خلق ہوئی ہے بلکہ “ لا من شیء” ابداع ہوئی ۔
5) بعثت رسول اللہﷺ:
(…ابتعثه الله تعالى عز و جل إتماما لأمره‏‏… ) 53
بعث؛ بعثت یعنی ؛ (هو المفهوم المركّب من الاختيار، و الرفع، للعمل بوظيفة معيّنة) 54، محقق محترم صاحب التحقیق فی الکلمات القرآن الکریم کے مطابق بعثت، دو مفاہیم سے مرکب ہے جس میں اختیار ہو اور کسی کو ابھارنا اور اٹھانا ہو کسی خاص کام اور ذمہ داری کے لیے ۔ اور بعثت کو فارسی میں برانگیختن کہتے ہیں اور یہ معنی ہر شخص کا وظیفہ اور ذمہ داری کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، جیسے کہ بعثُ الجیش یعنی جہاد کے لیے لشکر کو برآنگیختہ کرنا، اور کسی سوئے ہوئے کو ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اٹھانا بھی بعثت کہلاتا ہے۔
پس اللہ نے رسول اللہ کو امر دین کی اتمام کے لیے برآنگیختہ کیا ، جس کے لیے ابراہیم خلیل اللہ نے دعا کی تھی کہ؛ ( رَبَّنا وَ ابْعَثْ‏ فيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزيزُ الْحَكيمُ ) 55 پروردگارا ان میں ایک رسول مبعوث فرما کہ جو ان پرتیری آیات کی تلاوت کرے اور اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انکا تز کیہ کرے، پس اللہ نے رسول اللہ کو اور انبیا کو برآنگیختہ کیاتو کسی خاص مقصد کے لیے اور ایک خاص ذمہ داری کےساتھ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ؛( هُوَ الَّذي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفي‏ ضَلالٍ مُبينٍ) 56 جناب سیدہ ؑ کا یہ کلام در اصل قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہے، کہ اللہ نےان مادر زاد ناخواندہ لوگوں میں ایک رسو ل کو مبعوث کیا ، جو اللہ کی آیات کو ان پہ تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں حالاں کہ اس سے پہلے وہ ضلالتِ مبین میں اوندھے منہ گرے ہوئے تھے ، اور رسول اللہ کے مبعوث ہونے سے پہلے لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے حالاں کہ ان کے پاس انبیا پہلے بھی تشریف چکے تھے اور بینات اور براہین سے ان کو دین حق کی طرف لاچکے تھے پھر بھی انھوں نے پارٹیاں اور فرقے بنائے ہوئے تھے کہ؛ ( إِنَّ الَّذينَ فَرَّقُوا دينَهُمْ وَ كانُوا شِيَعاً۔۔۔ ) 57، اور ہر قسم کے اختلافات اور پارٹی بازیوں میں دھنسے ہوئے تھے ، بینات و روشن دلائل سے سمجھانے کے بعد اختلافات پیدا ہونے کی وجہ کوقرآن مجید نے یوں ذکر کیا کہ ؛( ۔۔۔ و مَا اخْتَلَفَ الَّذينَ أُوتُوا الْكِتابَ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْياً بَيْنَهُمْ ۔۔۔ ) 58 اور وہ بھی “بغیا” اختلافات پیداکیے، یعنی حسِ بغاوت ان کے اندر تھی اور ہر نبی کے بعد اس نبی کی امت میں پھوٹ پڑی تو اس کی وجہ ان کی حسِ بغاوت تھی۔ حضرت موسی کے کوہ طور پر تشریف لے جانے پر آپ کی امت میں سامری جیسے سامنے آئے اور امت کو گوسالہ پرستی میں لگا دیا، اور یوں امتیں دین سے دور ہوتی گئیں اور آہستہ آہستہ شرک کی طرف بڑھنے لگیں،اور یوں “وثن” پرستی تک پہنچے ۔
جب رسول اعظم ؐمبعوث بہ رسالت ہوئے تھے تو ان کے حالات کے بارے یوں بیان فرمایا کہ؛(فرأى ص الأمم فرقا في أديانها عكفا على نيرانها عابدة لأوثانها منكرة لله مع عرفانها) جیسے کہ ذکر ہوا کہ امتوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی کہ وہ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ صحیح راستہ کیاہے ۔ اور عکفاً یعنی (هو الإقامة حول شي‏ء ) 59 کسی شے کے اردگرد ٹھہرنا، اور یہ لفظ دو معانی سے مرکب ہے ؛ ایک یہ کہ اقامت اور دوسرے کسی شے کے اردگرد ہو، جیسے کہ اس آیت شریفہ سے بھی پتہ چلتا ہے (إِذْ قالَ لِأَبيهِ وَ قَوْمِهِ ما هذِهِ التَّماثيلُ الَّتي‏ أَنْتُمْ لَها عاكِفُونَ‏ ) 60جب انھوں نے کہا اپنے مربی باپ سے کہ یہ مورتیاں کیا ہیں کہ جن کے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو؟ پس جب رسول اللہ مبعوث ہوئے تو ان کو اس حالت میں پایا کہ کوئی توفرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کوئی آگ کے گرد حلقہ بند معتکف ہیں اور کوئی بتوں کی عبادت کر رہے ہیں اور اللہ کا انکار کر رہے ہیں ۔
نتیجہ:
پس ان چند معارف الہیہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جیسے انبیا جب آتےہیں تو سب سے پہلے توحید کا درس دیتے ہیں اسی طرح جناب سیدہ س نے ان کو سب سے پہلے توحید کا سبق یاد کرایا ، اور نعمات خداوندی کو یاد دلایا ، سچ اور جھوٹ میں فرق کے لیے اللہ کی طرف سے دی ہوئی معرفت اور علم کا شکر ادا کرنے او ر اس کو اظہار کرنے کا درس دیا کہ جو بدعات تمھیں نظر آرہی ہیں ان کے خلاف بولو اور اپنے علم کو ظاہر کرو۔ کیوں کہ رسول اللہ کے صاف اعلان کے باوجود لوگ حق اور اہل حق کو پہچاننے سے گریزاں تھے ،اس وجہ سے آپ کو پہلے ان کو معرفت شناسی کروانی پڑی پھر سارے معارف الہیہ کو بیان کرنا پڑا۔
حوالہ جات:


[1]  ابن طيفور، احمد بن أبي طاهر ، بلاغات النساء،(قم: الشریف الرضی، بی تا) ص 27

 [2]ابن فارس، احمد ابن فارس ‏،معجم المقائیس اللغہ، (قم:  مکتب الاعلام السلامی،1404 ق)  ج 2، ص 100

[3]  عسكرى، حسن بن عبدالله‏،  الفروق في اللغة، (بیروت: دار الآفاق الجدیدہ، 1400 ق‏)، ص 39

[4]  زمخشرى، محمود بن عمر، الفايق في غريب الحديث، (بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1417 ق) ج‏1، ص 273

[5] اصفهانی، راغب، ترجمه و تحقيق مفردات الفاظ قرآن،( تہران: مرتضوی، 1374 ش‏) ج‏1، ص: 541

[6]  زمخشرى، محمود بن عمر، أساس البلاغة، (بیروت: دار صابر، 1979 ء) ص، 140

[7]  طباطبايى، محمدحسين، الميزان في تفسير القرآن، (بيروت :مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ، 1390 ق)، ج 1، ص 19

[8]   آملی، جوادی،عبد اللہ، تفسیر تسنیم ،   (قم: مرکز نزشر اِسراء،  1399 ش)، ج 1، ص 329

[9]  طباطبايى، محمدحسين، الميزان في تفسير القرآن، (بيروت :مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ،  1390 ق‏)، 20جلد  ص 19

[10]  مفيد، محمد بن محمد، المقنعہ ، ‏‏ (قم: كنگره جهانى هزاره شيخ مفيد، 1413 ق)  ص  121

[11] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،(تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی) ج 12، ص 178

[12] فراهیدی، خلیل ابن احمد، كتاب العين،(قم: نشر هجرت‏، 1409 ق‏) ج‏2، ص: 162

[13]ابن منظور، محمد بن مكرم،  لسان العرب،(بیروت: دار الفكر، 1414 ق‏) ج‏12، ص: 580

[14] القرآن ا لکریم، 16، 18

[15] القرآن الکریم، 2، 231

[16] القرآن الکریم، 16، 66

[17] القرآن الکریم ،  16، 5

[18] القرآن الکریم، 4، 69

[19] كوفى، فرات بن ابراهيم، تفسير فرات الكوفي،  (تهران: مؤسسة الطبع و النشر،  1410ق‏) ،  ج 1

[20] حسكانى، عبيدالله بن عبدالله، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل،( تهران: مؤسسة الطبع و النشر ،  1411ق‏)، ج 3

[21] ابن طيفور، احمد بن أبي طاهر، بلاغات النساء،(قم: الشریف الرضی، بی تا) ص 27

[22] زمخشرى، محمود بن عمر، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل و عيون الأقاويل فى وجوه التأويل، (بیروت: دار الکتاب  العربی،  1407 ق‏) ج 1، ص 9

[23]  مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،(تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش‏) ، ج 6، ص  100

[24]  قرشى بنايى، على اكبر، قاموس قرآن، (تہران: دار الكتب الاسلاميہ، 1412 ق‏)ج‏4، ص: 63

[25]  آملی، جوادی،عبد اللہ، تفسیر تسنیم ،   (قم: مرکز نزشر اِسراء،  1399 ش)، ج 1، ص 326

[26]صاحب بن عباد، إسماعيل بن عباد،  المحيط في اللغة، (بیروت: عالم الکتاب، 1414 ق‏)ج‏6، ص: 162

[27]  ابن منظور، محمد بن مكرم،  لسان العرب،(بیروت: دار الفكر، 1414 ق‏)، ج 4، ص 426

[28] ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، ج 4، ص 426

[29] القرآن الکریم، 42،  23

[30]  عسكرى، حسن بن عبدالله‏،  الفروق في اللغة، (بیروت: دار الآفاق الجدیدہ، 1400 ق)، ص، 76

[31] راغب اصفهانی، حسین بن محمد، ترجمه و تحقيق مفردات الفاظ قرآن،( تہران: مرتضوی، 1374 ش‏) ، ج‏4 ، ص 163

[32]  مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش‏) ،  ج ‏10، ص 243

[33]  القرآن الکریم، 91، 8

[34]     طبرانى، سليمان بن احمد، التفسير الكبير: تفسير القرآن العظيم (اردن: دار الكتاب الثقافي ، 2008 ء)، ج 6

[35]  ابن طيفور، احمد بن أبي طاهر، بلاغات النساء،( قم: الشریف الرضی، بی تا) ص 27

[36]   راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، (بیروت: دارالقلم، 1412 ق‏)، 292

[37]  مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی،  1368ش‏) ، ج ‏3، 102

[38]عسكرى، حسن بن عبدالله‏،  الفروق في اللغة، (بیروت: دار الآفاق الجدیدہ، 1400 ق)، ص: 295

[39]  ابن منظور، محمد بن مكرم،  لسان العرب،( بیروت: دار الفكر، 1414 ق)، ج 11، ص 33

[40]  مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش‏) ، ج 1، ص 175

[41]  جعفری، تبریزی، علامہ محمد تقی، شرح نہج البلاغہ،(اصفہان: مرکز تحقیقات قائمیہ، بی تا)، ص 26

[42] ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، (قم: مكتبة آية الله المرعشي النجفي‏،  1404ق) ج 1، ص 72

[43]  ابن طيفور، احمد بن أبي طاهر، بلاغات النساء،( قم: الشریف الرضی، بی تا) ص 27

[44]  راغب اصفهانی، حسین بن محمد، ترجمه و تحقيق مفردات الفاظ قرآن،( تہران: مرتضوی، 1374 ش) ، ج‏1، ص 245

[45] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش‏) ،  ج 1، ص 230

[46]  قرشی،اکبر، قاموس قرآن، (تہران: دار الكتب الاسلاميہ، 1412 ق)ج 1، ص 171

   [47]فراهیدی، خلیل ابن احمد، كتاب العين،( قم: نشر هجرت‏، 1409 ق ‏)، ج‏2، ص 54   

[48]  راغب اصفهانی، حسین بن محمد، ترجمه و تحقيق مفردات الفاظ قرآن،( تہران: مرتضوی، 1374 ش) ، ج‏2، ص  365

[49] آملی، جوادی، عبداللہ، ہمتائی حضرت فاطمہ و علی، مقالہ، سایت اسرا  ڈاٹ کام

[50]    ابن طيفور، احمد بن أبي طاهر، بلاغات النساء،( قم: الشریف الرضی، بی تا) ص 19

[51] رنانی، محمد سلطانی، مقالہ تحلیل مفہوم و منطقی احادیث “ لا من شیء” در باب خلقت الہی، (قم،1397  ش)

[52]  کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، باب، جوامع التوحید، (تہران: دار الکت الاسلامیہ، 1407 ق‏)، ج 1، ص 136

[53]  ابن طيفور، احمد بن أبي طاهر، بلاغات النساء،( قم: الشریف الرضی، بی تا) ص 27

[54] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش‏) ، ج 1، ص 295

[55] القرآن الکریم، 2، 129

[56] القرآن الکریم،  62، 2

[57] القرآن الکریم، 6، 159

[58] القرآن الکریم، 3، 19

[59] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن،( تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368 ش‏) ، ج  6، ص 154

[60] القرآن الکریم، 21،52

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button