مناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

بعثت رسول خدا ﷺ از نظر امام علی علیہ السلام

1۔ بَعَثَهٗ وَ النَّاسُ ضُلَّاَلٌ فِیْ حَیْرَةٍ، وَ خَابِطُوْنَ فِیْ فِتْنَةٍ، قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الْاَهْوَآءُ، وَ اسْتَزَلَّتْهُمُ الْكِبْرِیَآءُ، وَ اسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِیِّةُ الْجَهْلَآءُ حَیَارٰی فِیْ زِلْزَالٍ مِّنَ الْاَمْرِ، وَ بَلَآءٍ مِّنَ الْجَهْلِ، فَبَالَغَ ﷺ فِی النَّصِیْحَةِ، وَ مَضٰی عَلَی الطَّرِیْقَةِ، وَ دَعَا اِلَی الْحِكْمَةِ ﴿وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾”
” پیغمبر ﷺ کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگ حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردۂ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہے تھے، نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا اور غرور نے بہکا دیا تھا اور بھر پور جاہلیت نے ان کی عقلیں کھو دی تھیں اور حالات کے ڈانواں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے انہیں سمجھانے بجھانے کا پورا حق ادا کیا، خود سیدھے راستے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔”
(نہج البلاغہ خطبہ،93)
2۔ اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ تَنَازُعٍ مِّنَ الْاَلْسُنِ، فَقَفّٰی بِهِ الرُّسُلَ، وَ خَتَمَ بِهِ الْوَحْیَ، فَجَاهَدَ فِی اللهِ الْمُدْبِرِیْنَ عَنْهُ، وَ الْعَادِلِیْنَ بِهٖ”
"اللہ نے آپؐ کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ رکا پڑا تھا اور لوگوں میں جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں۔ چنانچہ آپؐ کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا اور آپؐ کے ذریعہ سے وحی کا سلسلہ ختم کیا۔ آپؐ نے اللہ کى راہ میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو اس سے پیٹھ پھرائے ہوئے تھے اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرا رہے تھے”
(نہج البلاغہ: خطبہ؛131)
3۔ اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ طُوْلِ هَجْعَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ، وَ انْتِقَاضٍ مِّنَ الْمُبْرَمِ، فَجَآءَهُمْ بِتَصْدِیْقِ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهٖ، وَ النُّوْرِ الْمُقْتَدٰی بِهٖ. ذٰلِكَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَنْطِقُوْهُ، وَ لَنْ یَّنْطِقَ، وَ لٰكِنْ اُخْبِرُكُمْ عَنْهُ: اَلَا اِنَّ فِیْهِ عِلْمَ مَا یَاْتِیْ، وَ الْحَدِیْثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَآءَ دَآئِكُمْ، وَ نَظْمَ مَا بَیْنَكُمْ.
"(اللہ نے) آپؐ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جب کہ رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور اُمتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور (دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپؐ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق (کرنے والی کتاب) اور ایک ایسا نور لے کر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ اس کتاب سے پوچھو لیکن یہ بولے گی نہیں، البتہ میں تمہیں اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات، گزشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔”
(نہج البلاغہ، خطبہ:156)
4۔”فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهٗ مِنْ عِبَادَةِ الْاَوْثَانِ اِلٰی عِبَادَتِهٖ، وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّیْطٰنِ اِلٰی طَاعَتِهٖ، بِقُرْاٰنٍ قَدْ بَیَّنَهٗ وَ اَحْكَمَهٗ، لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ اِذْ جَهِلُوْهُ، وَ لِیُقِرُّوْا بِهٖ بَعْدَ اِذْ جَحَدُوْهُ، وَ لِیُثْبِتُوْهُ بَعْدَ اِذْ اَنْكَرُوْهُ. فَتَجَلّٰی سُبْحَانَهٗ لَهُمْ فِیْ كِتَابِهٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّكُوْنُوْا رَاَوْهُ، بِمَاۤ اَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِهٖ، وَ خَوَّفَهُمْ مِنْ سَطْوَتِهٖ، وَ كَیْفَ مَحَقَ مَنْ مَّحَقَ بِالْمَثُلَاتِ، وَ احْتَصَدَ مَنِ احْتَصَدَ بِالنَّقِمَاتِ!.”
"اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں، تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔ اللہ ان کے سامنے بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہو قدرت کی (ان نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں اسے مٹانا تھا انہیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنہیں تہس نہس کرنا تھا انہیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کر دیا۔”
(نہج البلاغہ، خطبہ: 145)
5۔اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ، وَ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ یَقْرَاُ كِتَابًا، وَ لَا یَدَّعِیْ نُبُوَّةً وَّ لَا وَحْیًا، فَقَاتَلَ بِمَنْ اَطَاعَهٗ مَنْ عَصَاهُ، یَسُوْقُهُمْ اِلٰی مَنْجَاتِهِمْ، وَ یُبَادِرُ بِهِمُ السَّاعَةَ اَنْ تَنْزِلَ بِهِمْ، یَحْسِرُ الْحَسِیْرُ، وَ یَقِفُ الْكَسِیْرُ فَیُقِیْمُ عَلَیْهِ حَتّٰی یُلْحِقَهُ غَایَتَهٗ، اِلَّا هَالِكًا لَّا خَیْرَ فِیْهِ، حَتّٰی اَرَاهُمْ مَنْجَاتَهُمْ وَ بَوَّاَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ، فَاسْتَدَارَتْ رَحَاهُمْ، وَ اسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ، وَایْمُ اللهِ! لَقَدْ كُنْتُ مِنْ سَاقَتِهَا حَتّٰی تَوَلَّتْ بِحَذَافِیْرِهَا، وَ اسْتَوْسَقَتْ فِیْ قِیَادِهَا، مَا ضَعُفْتُ، وَلَا جَبُنْتُ، وَ لَا خُنْتُ، وَ لَا وَهَنْتُ، وَایْمُ اللهِ! لَاَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ حَتّٰۤی اُخْرِجَ الْحَقَّ مِنْ خَاصِرَتِهٖ.”
"جب اللہ نے محمد ﷺ کو بھیجا تو عربوں میں نہ کوئی (آسمانی) کتاب کا پڑھنے والا تھا اور نہ کوئی نبوت و وحی کا دعوے دار۔ آپؐ نے اطاعت کرنے والوں کو لے کر اپنے مخالفوں سے جنگ کی۔ درآنحالیکہ آپؐ ان لوگوں کو نجات کی طرف لے جا رہے تھے اور قبل اس کے کہ موت ان لوگوں پر آ پڑے، ان کی ہدایت کیلئے بڑھ رہے تھے۔ جب کوئی تھکا ماندہ رک جاتا تھا اور خستہ و درماندہ ٹھہر جاتا تھا تو آپؐ اس کے (سر پر) کھڑے ہو جاتے تھے اور اسے اس کی منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی ایسا تباہ حال ہو جس میں ذرّہ بھر بھلائی ہی نہ ہو۔ یہاں تک کہ آپؐ نے انہیں نجات کی منزل دکھا دی اور انہیں ان کے مرتبہ پر پہنچا دیا، چنانچہ ان کی چکی گھومنے لگی اور ان کے نیزے کا خم جاتا رہا۔ خدا کی قسم میں بھی انہیں ہنکانے والوں میں تھا۔ یہاں تک کہ وہ پوری طرح پسپا ہو گئے اور اپنے بندھنوں میں جکڑ دئیے گئے۔ اس دوران میں نہ مَیں عاجز ہوا نہ بزدلی دکھائی، نہ کسی قسم کی خیانت کی اور نہ مجھ میں کمزوری آئی۔ خدا کی قسم! میں (اب بھی) باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں گا۔”
6۔ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ،اَرْسَلَهٗ بِالدِّیْنِ الْمَشْهُوْرِ، وَ الْعَلَمِ الْمَاْثُوْرِ، وَ الْكِتَابِ الْمَسْطُوْرِ، وَ النُّوْرِ السَّاطِعِ، وَ الضِّیَآءِ اللَّامِعِ، وَ الْاَمْرِ الصَّادِعِ، اِزَاحَةً لِّلشُّبُهَاتِ، وَ احْتِجَاجًۢا بِالْبَیِّنَاتِ، وَ تَحْذِیْرًۢا بِالْاٰیَاتِ، وَ تَخْوِیْفًۢا بِالْمَثُلَاتِ.
وَ النَّاسُ فِیْ فِتَنٍ انْجَذَمَ فِیْهَا حَبْلُ الدِّیْنِ، وَ تَزَعْزَعَتْ سَوَارِی الْیَقِیْنِ، وَ اخْتَلَفَ النَّجْرُ وَ تَشَتَّتَ الْاَمْرُ، وَ ضَاقَ الْمَخْرَجُ وَ عَمِیَ الْمَصْدَرُ، فَالْهُدٰى خَامِلٌ، و الْعَمٰى شَامِلٌ. عُصِیَ الرَّحْمٰنُ، وَ نُصِرَ الشَّیْطٰنُ، وَ خُذِلَ الْاِیْمَانُ، فَانْهَارَتْ دَعَآئِمُهٗ، وَ تَنَكَّرَتْ مَعَالِمُهٗ، وَ دَرَسَتْ سُبُلُهٗ، وَ عَفَتْ شُرُكُهٗ.
اَطَاعُوا الشَّیْطٰنَ فَسَلَكُوْا مَسَالِكَهٗ، وَ وَرَدُوْا مَنَاهِلَهٗ، بِهِمْ سَارَتْ اَعْلَامُهٗ وَ قَامَ لِوَآئُهٗ، فِیْ فِتَنٍ دَاسَتْهُمْ بِاَخْفَافِهَا وَ وَطِئَتْهُمْ بِاَظْلَافِهَا وَ قَامَتْ عَلٰى سَنَابِكِهَا، فَهُمْ فِیْهَا تَآئِهُوْنَ حَآئِرُوْنَ جَاهِلُوْنَ مَفْتُوْنُوْنَ، فِیْ خَیْرِ دَارٍ، وَ شَرِّ جِیْرَانٍ، نَوْمُهُمْ سُهُوْدٌ، وَ كُحْلُهُمْ دُمُوْعٌ، بِاَرْضٍ عَالِمُهَا مُلْجَمٌ وَّ جَاهِلُهَا مُكْرَمٌ.
"اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں، جنہیں شہرت یافتہ دین، منقول شدہ نشان، لکھی ہوئی کتاب [۱] ، ضوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا، تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور دلائل (کے زور) سے حجت تمام کی جائے، آیتوں کے ذریعے ڈرایا جائے اور عقوبتوں سے خوف زدہ کیا جائے۔
(اس وقت حالت یہ تھی کہ) لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے، نکلنے کی راہیں تنگ و تار تھیں، ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں) اللہ کی مخالفت ہوتی تھی اور شیطان کو مدد دی جا رہی تھی، ایمان بے سہارا تھا، چنانچہ اس کے ستون گر گئے، اس کے نشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے، اس کے راستے مٹ مٹا گئے، اور شاہرا ہیں اجڑ گئیں۔
وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اس کے گھاٹ پر اتر پڑے، انہی کی وجہ سے اس کے پھریرے ہر طرف لہرانے لگے تھے، ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سموں سے روندتے اور اپنے کُھروں سے کچلتے تھے اور اپنے پنجوں کے بَل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے۔ تو وہ لوگ ان میں حیران و سرگرداں، جاہل و فریب خوردہ تھے، ایک ایسے گھر میں جو خود اچھا [۲] ، مگر اس کے بسنے والے برے تھے، جہاں نیند کے بجائے بیداری اور سرمے کی جگہ آنسو تھے۔ اس سر زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معزز و سرفراز تھا۔”
(نہج البلاغہ: خطبہ نمبر:02)
7۔ اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ اَمِیْنًا عَلَى التَّنْزِیْلِ، وَ اَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلٰى شَرِّ دِیْنٍ، وَ فِیْ شَرِّ دَارٍ، مُنِیْخُوْنَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَّ حَیَّاتٍ صُمٍّ، تَشْرَبُوْنَ الْكَدِرَ، وَ تَاْكُلُوْنَ الْجَشِبَ، وَ تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ، وَتَقْطَعُوْنَ اَرْحَامَكُمْ، اَلْاَصْنَامُ فِیْكُمْ مَنْصُوْبَةٌ، وَ الْاٰثَامُ بِكُمْ مَعْصُوْبَةٌ.
"اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے) متنبہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب! اس وقت تم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔”
(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر؛26)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button