اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

ساتواں درس
"إِلهِي إِنْ أَخَذْتَنِي بِجُرْمِي أَخَذْتُكَ بِعَفْوِكَ وَإِنْ أَخَذْتَنِي بِذُنُوبِي أَخَذْتُكَ بِمَغْفِرَتِكَ وَإِنْ أَدْخَلْتَنِي النَّارَ أَعْلَمْتُ أَهْلَها أَنِّي اُحِبُّكَ ، إِلهِي إِنْ كانَ صَغُرَ فِي جَنْبِ طاعَتِكَ عَمَلِي فَقَدْ كَبُرَ فِي جَنْبِ رَجائِكَ أَمَلِي ، إِلهِي كَيْفَ أَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِكَ بِالخَيْبَةِ مَحْرُوماً وَقَدْ كانَ حُسْنُ ظَنِّي بِجُودِكَ أَنْ تَقْلِبَنِي بالنَّجاةِ مَرْحُوماً”
قیامت کے دن اگر جرم کی وجہ سے میرا گریباں پکڑ لےتو ” أَخَذْتُكَ بِعَفْوِكَ ‘میں بھی تیرا دامن عفو تھام لوں گا۔ اگر تو میرے گناہوں کی وجہ سے مجھے پکڑ لے ، تو میں تیر ی مغفرت ،غفران ،بخشش اور عفو کو پکڑ لوں گا”
اگر مجھے جہنم میں ڈال دیا،اگرچہ لفظ صحیح نہیں ہے،لیکن ان الفاظ میں صرف اپنےاحساسات کو بیان کر رہا ہوں۔یہ اس لیے کہ اس طرح کے الفاظ ہم سمجھ سکتے ہیں ۔
اگر دیکھیں تو امیر المومنین کا جملہ فقط اتنا ہے ” أَدْخَلْتَنِي النَّارَ أَعْلَمْتُ أَهْلَها أَنِّي اُحِبُّكَ "
اگر تو نے مجھے جہنم میں ڈال دیاتومیں اہل جہنم سب کو بتا دوں گا کہ میں کتنا تجھے چاہتا تھا، کتنا میں تجھ سے محبت کرتا تھا اس محبت کے با وجود میرے اللہ نے مجھے آتش جہنم میں ڈال دیا ہے۔
فرزند امیر المومنین امام زین العابدینؑ دعائے ابی حمزہ ثمالی میں فرما تے ہیں :
إِلَهِي وَ سَيِّدِي، وَ عِزَّتِكَ وَ جَلالِكَ لَئِنْ طَالَبْتَنِي بِذُنُوبِي لَأُطَالِبَنَّكَ بِعَفْوِكَ، وَ لَئِنْ طَالَبْتَنِي بِلُؤْمِي لَأُطَالِبَنَّكَ بِكَرَمِكَ، وَ لَئِنْ أَدْخَلْتَنِي النَّارَ لَأُخْبِرَنَّ أَهْلَ النَّارِ بِحُبِّي لَكَ إِلَهِي وَ سَيِّدِي، وَ عِزَّتِكَ وَ جَلالِكَ
الہی و سیدی ، میرے معبود، میرے آقا: تجھے تیری عزت کی قسم ،تیرے جلال کی قسم دے کر کہ رہا ہوں
لَئِنْ طَالَبْتَنِي بِذُنُوبِي لَأُطَالِبَنَّكَ بِعَفْوِكَ
اگر تو نے مجھے روک لیا کہ تو گناہ گار ہے تو میں بھی یہ سوال اٹھا وں گا کہ تو بھی بخشنے والا ہے،اسی طرح اگر تو نے میرے گناہوں کی طرف دیکھا تو میں تیرے عفو پر سوال اٹھا وں گا : وَ لَئِنْ طَالَبْتَنِي بِلُؤْمِي لَأُطَالِبَنَّكَ بِكَرَمِكَ،
اے اللہ اگر تو نے میری تقصیر، میرے گناہوں ،اوربرےاعمال کی نشاندہی کی تو میں کس چیز کی نشاندہی کروں گا؟” کسی چیز کے مطالبے پراگر تو نے مجھ سے حساب لیا تو میں تیرے کرم کا تقاضہ کروں گا” وَ لَئِنْ أَدْخَلْتَنِي النَّارَ " اور اگر تو نے مجھے آتش جہنم میں داخل کر دیا” لَأُخْبِرَنَّ أَهْلَ النَّارِ بِحُبِّي لَكَ ” یہاں خدا سےلاڈلے اور پیارے بندے کی طرح اپنے نقصان کی دھمکی دے کر مطالبہ کر رہا ہوں ، خدا سے کہہ رہا ہوں ” لاخبرن” تاکید کے ساتھ کہ پھر میں خبر دوں گا میں جا کر ہر کسی سے کہوں گا "لَأُخْبِرَنَّ أَهْلَ النَّارِ بِحُبِّي ” میں کتنا اپنے خدا کو چاہتا ہوں یا چاہتا تھا میرے دل میں ایک ہی محبت تھی وہ بھی میرے اپنے رب سے محبت تھی لیکن میرے رب نے مجھے جہنم میں تمہارے ساتھ ڈال دیا ۔ اے اہل نار، تم خدا کی محبت نہیں رکھتے تھےاس لئے جہنم میں ہو میں خدا کی محبت رکھتا تھا پھر بھی میں جہنم میں ہوں ۔ میں کیوں جہنم میں ہوں خدا یا میں تجھے چاہتا ہوں۔ اگر تو کہے گا کہ ، تو محبت تو مجھ سے کرتا تھا لیکن تیر ے اعمال اچھے نہیں تھے تیری معصیت نے تجھے یہاں پہنچایا ہے تو میں کہوں گا ۔
إِلَهِي وَ سَيِّدِي، إِنْ كُنْتَ لا تَغْفِرُ إِلّا لِأَوْلِيَائِكَ وَ أَهْلِ طَاعَتِكَ فَإِلَى مَنْ يَفْزَعُ الْمُذْنِبُونَ، وَ إِنْ كُنْتَ لا تُكْرِمُ إِلّا أَهْلَ الْوَفَاءِ بِكَ فَبِمَنْ يَسْتَغِيثُ الْمُسِيئُونَ.
اے میرے اللہ، میرے معبود ، میرے آقا میں گناہگار سہی اگر تو نے مغفرت صرف اپنے اولیاء اور اہل اطاعت کی کرنی ہے جنہوں نے تیری اطاعت اور بندگی کی اور اچھے کام کئے صرف ان کو جنت دینی ہے تو ہم گناہگاروں کا کون ہے؟ ہم کس کے پاس جائیں؟ تو ہمارا بھی اتنا پروردگارہے جتنا عبادت گزاروں کا ہے ۔پس تو جتنا علیؑ کا رب ہے اتنا میرا بھی رب ہے ۔ اگر تو نے صرف ان کو نوازنا ہے جو تیری اطاعت کرنے والے ہیں تو گناہگار پھر کہاں جائیں”وَ إِنْ كُنْتَ لا تُكْرِمُ إِلّا أَهْلَ الْوَفَاءِ بِك” اگر صرف اہل وفا کا اکرام کرنا ہے ” فَبِمَنْ يَسْتَغِيثُ الْمُسِيئُونَ ” تو ہماراسہارا کون ہوگا؟ ہمارے لیے بھی صرف تو ہے۔ ہم بھی صرف تجھے ہی پکار سکتے ہیں اور صرف تجھے ہی پکاریں گے۔کیا تو ہمیں پھر بھی گناہوں کی وجہ سے پکڑے گا۔؟
إِلهِي إِنْ أَخَذْتَنِي بِجُرْمِي أَخَذْتُكَ بِعَفْوِكَ وَإِنْ أَخَذْتَنِي بِذُنُوبِي أَخَذْتُكَ بِمَغْفِرَتِكَ
یہ میری سمجھ سے باہر تھا جب میں دعا پڑھ رہا تھا تومجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ امیر المومنینؑ کیافر مارہے ہیں "جو ذلیل ہے ، مستکین ہے ، حقیر ہے، کسی قابل نہیں ،جومنہ اٹھا کر بات کرنے کے بھی قابل نہیں وہ قیامت کے دن خدا کے سامنے حساب و کتاب کے وقت سب سے پہلا مطالبہ کر رہا ہے کہ مجھے حساب و کتاب اور باقی چیزیں نہیں چاہیے، مجھے جنت بھی نہیں چاہیے مجھے جہنم کی فکر بھی نہیں مجھے تو بس تیرا دیدار چاہیے اور یہ انسان کو کتنا اوپر لے آیا کہ وہ اپنے پروردگار کے مقابل میں کھڑا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اگر تو میرے گناہوں کا پوچھے گا تو میں تیرے عفو کا سوال کروں گا۔ تو مجھے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گا تومیں تیرا دامن عفو تھام لوں گا ۔ اتنا اس انسان کو اوپر لے آیا اتنا انسان کو جراتمند بنا دیا۔میں نہیں سمجھ سکا،حیران ہوں ۔ میں نے سوچا آخر ایسا کیوں؟ پھر سمجھ آیا ،اب اسے سنیں اور سننے کے بعد عمل کیجیے گا ۔ یہاں مجھے خدا کے مقابل میں پیش نہیں کیا جا رہا ۔ کہ خدا کے مقابل میں آگیا ہوں اور کہہ رہا ہوں خدایا اگر تو مجھ سے پوچھے گا تو میں بھی تجھ سے پوچھوں گا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں۔ بلکہ انسان خدا کی صفات جمالیہ کو اس کی صفات قہاریہ کے سامنے لا رہا ہوگا ۔
قر بان جاوں امیر المومنینؑ پر؛ خدا کی صفات جمالیہ کو صفات قہاریہ کے مقابلے میں لا کر قہر کو خاموش کرنے کا راستہ نکال رہے ہیں ۔
اس لئے ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں:
يا مَوْلاَي فَكيفَ يبْقَی فِي الْعَذَابِ وَهُوَ يرْجُو مَا سَلَفَ مِنْ حِلْمِك أَمْ كيفَ تُؤْلِمُهُ النَّارُ وَهُوَ يامُلُ فَضْلَك وَرَحْمَتَك
میرے مولا! وہ کیسے عذاب میں مبتلا رہےگا جبکہ وہ تیری سابقہ نیکیوں اور بردباریوں کی امید لے کر بیٹھا ہے، کس طرح تیری آگ اس کو ستاتی رہےگی جبکہ وہ تیرے بےانتہا فضل و رحمت کا آرزومند ہے؟
اللہ اکبر۔ دیکھیے ، جب انسان اس دنیا سے جاتا ہے تو ہم اس سے کیا کہتے ہیں؟ جواب: یقینا اسے مرحوم کہتے ہیں۔ کہ وہ مورد رحمت الہی قرا ر پایا ہے وہ انسان مرحوم و مقہور ہو جاتا ہے صفات جمالیہ بھی ہیں اور صفات قہریہ بھی ہیں ۔اس دنیا میں تو اسے آزادی تھی اب وہ مقہور ہو گیا ہے اب وہ لاچار ہو گیا ہے اب اسے حساب دینا ہے اب عمل،آزدی اور ارادے کا وقت ختم ہو گیا لیکن اسے کوئی بھی مقہور نہیں کہتا اسے سب مرحوم کہتے ہیں ۔ اس لئے کہ صفات قہریہ کی بجائےصفات جمالیہ کواستعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ اللہ کو صفات جمالیہ سے پکار نا زیادہ پسند ہے صفات جما لیہ انسان کو قہر الہی سے نجات دلاتی ہیں”
إِلهِي إِنْ كانَ صَغُرَ فِي جَنْبِ طاعَتِكَ عَمَلِي
اے اللہ تیری اطاعت کے حق کے سامنےمیرا عمل ہیچ ہے ۔ میر اعمل اس قابل نہیں کہ تجھ سے درخواست کر سکوں کہ اس عمل کو قبول فرما ۔ تیرا حق اطاعت کہا ں اور میرا عمل کہاں؟ تیرے اولیاء نے جو عمل کیا وہ کہاں میرا عمل کہاں؟
جو نماز امام زین العابدین ؑ پڑھتے تھے وہ کہاں اور جو نماز میں پڑھتا ہوں وہ کہاں؟ میرا عمل تیری اطاعت کے سامنے حقیر ہے۔ یہاں تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔ ایک میرا عمل ہے اور دوسرا تیرا حق اطاعت” فَقَدْ كَبُرَ فِي جَنْبِ رَجائِكَ أَمَلِي
تیسری چیز ” تجھ سے رجاء ہے میری آرزوئیں ہیں تو جو امیدیں مجھے دیتا ہے، جو رحمتیں عطا کرتا ہے وہ اور ہیں اس کے مقابل میں جو میری امیدیں اور آرزو ئیں ہیں وہ اور ہیں اگر میر اعمل بہت حقیر ہے اور کم ہے اور تیرا حق اطاعت بہت زیادہ ہے تو پھر دوسری چیز تجھ سے رجاء ہے، بہت زیادہ ہے اس کے مقابلے میں میرا عمل جو قصور اور تقصیر سے بھر ا ہو ا ہےاسے قبول فرما ۔
والدمحترم ( علامہ شیخ محسن علی نجفی مد ظلہ)نے اپنی تفسیر ” الکوثر فی تفسیر القرآن ” میں یہ شعرلکھا ہے:
چون عود نبود چوب بید آور دم
روئے سیہ و موئے سفید آوردم
گفتی توبہ کن کہ نا امیدی کفراست
بر قول تو رفتم و امید آوردم
” اللہ اکبر۔ کاش ہم ان باتوں کو سمجھ سکتے!
إِلهِي كَيْفَ أَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِكَ بِالخَيْبَةِ مَحْرُوماً وَقَدْ كانَ حُسْنُ ظَنِّي بِجُودِكَ أَنْ تَقْلِبَنِي بالنَّجاةِ مَرْحُوماً
الہی،میرا رب، میرے پروردگار ، میری آرزو بہت بڑی ہے مگر تیرے رجاء کے سامنے یہ بہت چھوٹی ہے۔ یہاں پر جو عرض ہو رہا ہے ۔ بارہ گاہ الہی میں جو مناجات ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ میں جو چیز لے کر آیا ہوں وہ حسن ظن ہے ۔ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ اگر خدا کی بارگاہ میں ایک چیز کو بار بار پیش کیا جائے ، اس پر اصرار کیا جائے تو باب رحمت کھل جاتا ہے اور خدا کو اپنے بندہ کا بار بار کہنا پسند ہے باربار خدا کو پکاریں جتنی بار پکاریں اتنی بار ملے گا اور ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ ملے گا اور اس کے درہائے رحمت کھلتے چلے جائیں گے۔
اما م جعفر صادق ؑارشاد فرماتے ہیں :
” إن الله عز وجل، كره إلحاح الناس بعضهم على بعض في المسألة، وأحب ذلك لنفسه، إن الله عز وجل يحب أن يسأل، ويطلب ما عنده ” (الكافي – الشيخ الكليني – ج ٢ – الصفحة ٤٧٥)
اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے سوال کرے، الحاح (کچھ دینے پر اصرار) کرے ،بار بار مطالبہ کرے ، مانگے یہ خدا وند تعالی کو پسند نہیں۔ ہم سمجھ نہیں سکتے ۔ ہم سمجھتے ہیں یہی اسباب ہیں۔ جن سے ہمیں ملتا ہے اس لئے ان اسباب سے بار بار مانگتے ہیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے پاس سب کچھ ہے اور انسانوں سے بار بار مانگتے ہیں۔ خدا کہتا ہے ان سے نہ مانگو اگر کبھی مانگو بھی تو بار بار نہ مانگو۔ اگر لوگوں سے نہیں مانگو گے خدا تمہیں عطا کرے گاوہ کچھ دیر تجھے کیوں نہیں دیتا ؟ تا کہ وہ دیکھے کہ وہ جوتیرا ہے کیاتو بھی اس کا ہے یا نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اللہ کے علاوہ باقی سب سے امید ہے اور جب میں امید لے کر اس کے در پر ایک دفعہ گیا، دو دفعہ گیا،چار دفعہ گیا، نہ صرف یہ کہ مجھے نہ دیا بلکہ دھتکار دیامیری آبرو بھی گئی اور ملا بھی کچھ نہیں۔میں واپس آیا اور گڑ گڑنا شروع کیا، اے اللہ میں کسی کو نہیں مانتا کوئی بھی مجھے نہیں دے سکتا صرف تو ہی دے سکتا ہے مگر پھر بھی خدا کی طرف سے نہیں ملتا۔تو کیوں نہیں ملتا؟ اس لیے کہ خدا آزماتا ہے۔ایک دو دن دعا مانگنے کے بعد یہ خیال آتا ہے کہ ہاں،فلاں بھی تو ہے۔ پھر خدا کو چھوڑ کر کسی اور کے دروازے پر چلا جاتا ہے”
"إن الله عز وجل، كره إلحاح الناس بعضهم على بعض "
ایک دوسرے سے اصرار کرنا اور مانگنا خدا کو ناپسند ہے وأحب ذلك لنفسه خدا کے پاس بار بار آنا اللہ کوبہت زیادہ پسند ہے ۔
إن الله عز وجل يحب أن يسأل، ويطلب ما عنده
خدا کو یہ بات پسند ہے کہ اس سے بار بار مانگا جائے ، بار بار اس کے در پر آیا جائے،یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
والله لا یلح عبد مومن علی الله فی حاجة الّاقضاها له
خدا کی قسم اللہ کا کوئی بندہ بھی اپنی حاجت اللہ سے مانگنے میں اصرار نہیں کرے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے۔
اگر کوئی عبد مومن اللہ سے الحاح کرے بار بار مانگے تو یقینا اسے وہ حاجت مل کر رہتی ہے۔
اگلا جملہ ہے :إِلهِي كَيْفَ أَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِكَ”
میں کس طرح تیرے حضور سے خالی واپس آجاوں، محروم واپس آجاوں؟ جبکہ میرا حسن ظن تجھ پر ہے اور میں اپنے تمام اعمال میں اپنے قصور اور تقصیر کو قبو ل کرتا ہوں میں اس بات کو مانتا ہوں کہ میرے عمل میں کوئی طاقت نہیں کوئی حسن نہیں میرا عمل مجھے کہیں نہیں پہنچا سکتا ۔
میرا نبی وجہ تخلیق کائنات ہے وہ جو مرد اول عالم امکان ہے ، وہ جس کی نعت میں تمام قرآن ہے وہ پیغمبرؐارشاد فرمارہےہیں”
"ما عبدناك حق عبادتك و ما عرفناك حق معرفتك”
اے اللہ؛ حق عبادت ،محمد مصطفےؐ سے بھی ادا نہیں ہوسکا ۔ وہ عبادت جس میں علیؑ کی عبادت بھی شامل ہے۔ وہ علی ؑ جس کی خندق کے روز کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔ اس کے سامنے تمام فرشتوں کی عبادت ہیچ ہے اس عبادت کے بارے میں ہے۔
"ما عبدناك حق عبادتك "
ہم حق عبادت ادا نہیں کر سکتے ۔ گر محمدا ؐور علیؑ یہ فرماتے ہیں تو ہماری عبادت کی کیا حیثیت ہے۔ ہمارے عبادتوں سے کیا ہو سکتا ہے؟
امام موسی ابن جعفر ؑ فرماتے ہیں:
” كل عمل تعمله تريد به وجه الله عز وجل فكن فيه مقصرا عند نفسك، فإن الناس كلهم في أعمالهم فيما بينهم وبين الله عز وجل مقصرون ” (الكافي – الشيخ الكليني – ج ٢ – الصفحة ٥٧٩)
جو بھی عمل کرتے ہو، اس میں اپنی کوتاہی کو، اپنے اس عمل کے کامل نہ ہونے کے باوجود، انجام دو اور اس کے بعد اس عمل کو انجام دو، پھر اس کے بعد اللہ سے طلب کرو۔
” فان الناس کلھم فی اعمالھم فیما بینھم و بینما عزوجل مقصرون "
تما م لوگوں کے اعمال و عبادتوں کو بھی جمع کیا جائے تو بھی خدا کی عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
افسوس برین عمر گرانمایه که بگذشت
ما از سر تقصیر و خطا درنگذشتیم (سعدی )
اگر ہمارے اعمال اس قابل نہیں ہیں کہ ہمیں بچا سکیں تو پھر کیا کریں؟ حدیث قدسی ہے۔
لا يتكل العاملون لي على أعمالهم ”
جو میرے لئے عمل کرتے ہیں وہ اپنے اعمال پر تکیہ نہ کریں جو عمل وہ انجام دیتے رہے ہیں ان پر بھروسہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان باتوں سے کوئی غلط نہ سمجھےکہ جو عمل کر رہے ہیں اس کا فائدہ نہیں ۔ یہ عمل صرف خدا سے نظر لطف مانگنے کے لئے ہے۔ اگر یہ عمل بھی نہ کریں تو ہم یہ باتیں بھی نہیں کر سکیں گے۔ اور نہ ہی معصومین ؑ کے کلام کو اپنی زبان پر جاری کر سکیں گے ۔پس جن کا امیر المومنین ؑ کے عمل سے، کردار سے،دعاوں سے اور تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا امیر المومنین ؑ سے بھی کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ اللہ سے اس طرح کلام کر سکتے ہیں۔
"لا يتكل العاملون لي على أعمالهم التي يعملونها لثوابي ”
جو اپنے ثواب کے لئے اعمال کرتے ہیں اسپر اکتفا ء نہ کریں۔
"فَإِنَّهُمْ لَوِ اجْتَهَدُوا وَ أَتْعَبُوا أَنْفُسَهُمْ ”
وہ جتنی بھی کوشش کریں اور خود کو جتنا بھی تھکا دیں
كَانُوا مُقَصِّرِينَ ” حق عبادت کو ادا نہیں کر سکتے ۔پھر کیا کریں”
وَ لَكِنْ فَبِرَحْمَتِي فَلْيَثِقُوا
تمام تر اعتماد میری ( خدا کی ) رحمت پر ہونا چاہیے۔
وَ بِفَضْلِي فَلْيَفْرَحُوا
میرے فضل سے امید رکھو
وَ إِلَى حُسْنِ الظَّنِّ بِي فَلْيَطْمَئِنُّوا
اطمینان کس سے ہوگا ؟حسن ظن سے ہوگا۔
تمام تر اطمینان حسن ظن سے ہوگا۔ جو اللہ سے حسن ظن آپ نے رکھا ہوا ہے اس کی وجہ سے مطمئن ہو جاو۔
لوگوں کی طرف سے یہ سوال بہت زیادہ آتا ہے کہ ہم وہ کونسا عمل کریں جس سے ہم مطمئن ہوجایئں کہ ہمار عمل قبول ہوا ہے؟تو جواب یہ ہے کہ تمہارا کوئی بھی عمل اس قابل نہیں کہ تم اس پر اعتماد کر سکو۔ کسی عمل کی بات نہ کرو عمل سارے کرو مگر اپنے کسی پر اعتماد نہ کرو۔
اعتماد کس پر؟ رحمت خدا پر خدا کے اوپر حسن ظن پر ،خدا سے اچھا گمان رکھو پھر اعتماد رکھو پھر مطمئن ہو جاو ۔
مناجات کا اگلا جملہ یہ ہے:
إِلهِي وَقَدْ أَفْنَيْتُ عُمْرِي فِي شِرَّةِ السَّهْوِ عَنْكَ وَأَبْلَيْتُ شَبابِي فِي سَكْرَةِ التَّباعُدِ مِنْكَ فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ أَيَّامَ اغْتِرارِي بِكَ وَرُكُونِي إِلى سَبِيلِ سَخَطِكَ ،
خدایا، میں نے اپنی تمام عمر ضائع کر دی سہو اورغفلت میں پڑا رہا اپنی جوانی بھی ہاتھ سے دے دی”، تجھ سے دور رہا جوانی میں تیرا قرب حاصل کرنے کی ساری طاقتیں میرے پاس تھیں اور تمام بدن ، روح اور شعور کی طاقتیں اپنی جوبن پر تھیں ان طاقتوں سے میں نے تیرا تقرب حاصل کر نا تھا، لیکن میں مست رہا،غفلت میں رہا، میں اپنے مقصد حیات کو بھول گیا اور میں نہ جانے کن کاموں میں زندگی بسر کر تا رہا اور جوانی چلی گئی۔
فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ أَيَّامَ اغْتِرارِي بِكَ وَرُكُونِي إِلى سَبِيلِ سَخَطِكَ ،
کس غفلت میں رہا ہوں ، کس سہو میں، میں نے یہ زندگی گزار ی ہے کہ جب تو نے مجھے جھنجھو ڑا اور تو نے مجھے اپنے سخط سے، غضب سے عذاب سے بھی آگاہ کر نا چاہا مجھے خبر نہ ہوئی اور میں نہیں جاگا۔ کرونا آیا کرونا نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا موت کو قریب سےدکھا دیا مگر مجھے ابھی تک کوئی خبر نہیں ہوئی ۔ میں ابھی تک پہلی والی زندگی گزار رہا ہوں۔ میں ابھی تک انہیں لوگوں کو سن رہا ہوں جنہوں نے میری ساری زندگی لہو لعب میں تباہ کر دی ۔ابھی میں انہیں سے سن رہا ہوں کہ مجھے ان ایام میں کیا کرنا ہے۔ اللہ اکبر،کیسے ممکن ہے؟ کب مجھے ہوش آئے گا ؟کب میں جاگوں گا؟ ”
إِلهِي وَأَنا عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ قائِمٌ بَيْنَ يَدَيْكَ مُتَوَسِّلُّ بِكَرَمِكَ إِلَيْكَ ،
میں اپنی ساری زندگی گنوا چکا ہوں۔ میں نے اپنی ساری جوانی برباد کر دی۔ مجھے خبر نہ ہوئی ۔تو نے جھنجھوڑ نے کی کوشش کی ، میں پھر بھی نہیں جاگا۔ لیکن الہی میں تیرے پاس آیا ہوں۔ یہ وہ موت بھی ہو سکتی ہے جو موت کے بعد ہے اور ابھی بھی اگر اس کو سمجھ لوں اور خد اکے پاس پلٹ کر چلے جاو ں اور ابھی بھی اختیاری طور پر ایک موت کو اختیار کرو ں ،اللہ کے لقاء کروں اور ان کلمات کو اپنی زبان پر لاوں” إِلهِي وَأَنا عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ ” الہی میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں ” قائِمٌ بَيْنَ يَدَيْكَ ” سب غفلتیں ختم ہوگئیں اب میں ہوشیار ہواہوں، میں آیا ہوں لیکن خالی ہاتھ ہوں میرے پاس کچھ بھی تجھے پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔ تو بے نیاز ہے تجھے کچھ بھی میں لا کر نہیں دے سکتا جو تیرے پاس نہیں ہے وہ نیاز ہے، حاجت ہے وہ میں تیرے پاس لے کر آیا ہوں تیرے پاس اپنی حاجت لے کر آیا ہوں۔
"مُتَوَسِّلُّ بِكَرَمِكَ إِلَيْكَ ” میں کرم مانگے آیا ہوں میں نے غفلت میں اپنی عمر گزاردی ہے ۔
قرآن میں بہت زیادہ تاکید ہے کہ انسان غفلت میں اپنی زندگی نہ گزارے اور یہ دور غفلت کا دور ہے یہ ٹیکنالوجی جو آپ کے ہاتھوں میں ہے آپ کے دائیں بائیں ہے آپ کے اطراف میں ہے اس کا اصل مقصد آپ کو غفلت میں رکھنا ہے ۔آپ اصل ہدف سے غافل رہیں اور اس طرح کام کرتے جائیں جس طرح شیطان چاہتا ہے۔
قرآن میں ہے؛
"لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ” ( الاعراف:179)
ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان ہیں مگر سنتے نہیں ، یہ تو جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدترہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں۔
دل تو ہے لیکن سوچتے نہیں ہیں سمجھتے نہیں ہیں درک نہیں کرتے،آنکھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں ہیں ۔ جو نہ دیکھنے والی چیزیں ہیں ان چیزوں کو دیکھتے ہیں اور جو دیکھنے کی چیزیں ہیں ان کو نہیں دیکھتے”
وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ
یہ جانورو ں کی طرح ہے بلکہ ان سے بھی بد تر ہےکیوں؟
"أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ "
کیونکہ انسان کی یہ حالت غفلت کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔ اٹھ جاو اور غفلت کو چھوڑ دو”
صبحدم شد زود برخيز اي جوان
رخت بربند و برس در کاروان
کاروان رفت و تو غافل خفته اي
در زياني در زياني در زيان
"ويل لمن غلبت عليه الغفلة فنسى الرحلة ولم يستعد "
ویل ہے بربادی ہےو تباہی ہے اس پر جس پر غفلت کا غلبہ ہووہ کوچ کرنے کو بھول گیا”
وَ أَبْلَیْتُ شَبَابِی فِی سَکْرَةِ التَّبَاعُدِ مِنْکَ
اور میں نے مستی میں ، نشے میں اپنی جوانی گنوا دی، جو جوان سن رہے ہیں وہ اور جو بچے ہیں وہ اپنی جوانیوں کو تباہ نہ کریں ۔
نشہ صرف شراب کا نشہ نہیں ہے اس سے بڑھ کر بھی بڑے نشے ہیں۔
سُكْرُ الْغَفْلَةِ وَالْغُرُورِ أبْعَدُ إفَاقَةً مِنْ سُكْرِ الْخَمُورِ
شراب کا نشہ تو جلدی اتر جاتا ہے لیکن غفلت اور غرور کا نشہ بہت دیر سے اترتا ہے اور جب اترتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے استعيذوا بالله من سكرة الغنى
اللہ سے پناہ مانگو ۔مالدار اگر ہو تو اس کا نشہ تم پر حاوی نہ ہو جائے۔بہت سے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں انہیں بہت تھوڑا مال مست کر دیتا ہےان بیچاروں کی حالت قابل رحم ہے کیونکہ چھوٹے لوگوں کو کم مال مست کر دیتا ہے انہیں اپنے مقصد خلقت سے غافل کر دیتا ہے۔ غنی ہونے کے نشے سے اللہ سے پناہ حاصل کرو ۔
"فإن له سكرة بعيدة الإفاقة”
ایسا نشہ ہے جو آپ کی عقل کو زائل کر دیتا ہے۔ جب تک آپ کی عقل زائل رہتی ہے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔انتہائی خوبصورت حدیث پیش خدمت ہے” ینبغی للعاقل” غور سےسنیے گا۔
عاقل وہ ہے جو اپنے آپ کو محفوظ رکھے مال،قدرت ،علم،مدح، جوانی کی نشے سے۔اگرتم عاقل ہو؟ تو اس کی علامت امیر المومنینؑ فرمارہے ہیں:ینبغی للعاقل ” عاقل کے لئے سزاوار ہے ،عاقل کو یہ کام کرنا چاہیے،تمام عقلا سنو اور یہ کام کرو، ہر شخص اپنے اپنے حساب سے جتنا اس کے پاس مال ہے جتنی اس کے پاس قدرت ہے جتنا اس کے پاس علم ہے، جتنی اس کی لوگ تعریف کرتے ہیں ،جتنی اس کے پاس جوانی ہے وہ اتنا ہی مست ہے اور جتنا چھوٹا انسان ہے وہ اتنی چھوٹی چیز پر زیادہ مست ہو جاتا ہے یہ تمہارے چھوٹے پن کی علامت ہے ۔ جاگو!عاقل کے لئے یہ بات سزاوار ہے کہ وہ مال کے نشے سے نکل آئے وہ قدرت کے نشے سے نکل آئے وہ علم کے نشے سے نکل آئے۔علم کے نشےکی وجہ سے عالم اپنے آپ کو برتر جاننا شروع کردیتا ہے۔ یہ علم صرف علم دین نہیں۔ عالم صرف مذہبی پیشوا نہیں ہوتا بلکہ تمام پڑھے لکھے جن کو اپنے میدان میں تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہے ، سب اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ سائنس و ٹیکنالوجی میں میڈیکل میں کتنا آگے نکل گئے ہیں ایک وائرس سے ہار گئے ہیں۔ جہالت کا اعتراف کرنا پڑا۔ کوئی عالم نہیں ہے۔
وما اوتیتم من العلم الا قلیلا”
تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے کیوں اتنے سےعلم پر نشے میں آجاتے ہو؟”سکر العلم و سکر المدح” اگر تمہارے سامنے کوئی تمہاری تعریف کرتا ہے ،اورتمہیں معلوم ہے جھوٹ بول رہا ہے تمہیں معلوم ہے کہ تم اتنے خوبصورت نہیں ہو، تو تم نشے میں آجاتے ہو” وسکر الشباب” اور جوانی کا نشہ۔
اپنے دلوں پر امیر المومنینؑ کا یہ فرمان لکھ دیں کہ :
"فان لکل ذلک ریاح خبیثه تسلب العقل و تستخف الوقار ” (مستدرک میرزا حسین نوری طبرسی ،الوسائل، ج 11،ص 371)
یہ نشہ آخر کس چیز کا ؟مال کا ،قدرت کا، مدح کا ،علم کا اور جوانی کا۔ان تمام نشوں کی ایسی بدبو ہے کہ وہ عقل کو سلب کر لیتی ہے اس کا وقار ختم کر دیتی ہے۔اللہ اکبر! کوئی چشم بینا امیر المومنین ؑ سے لے۔ہم جس مال کو سینے سے لگا ئے ہوئے ہیں ہمیں لگ رہا ہے کہ ہم سے کتنی خوشبو آرہی ہے ہم نے جو لباس فاخرہ زیب تن کیا ہوا ہے ، مہنگا موبائل ہاتھ میں لیا ہوا ہے ،امیر المومنینؑ فرماتے ہیں ان چیزوں سے ایسی بدبو آتی ہے کہ خود امیر المومنینؑ کے الفاظ استعمال کروں،ایسی خبیث بدبو اٹھتی ہے کہ وہ انسان کے عقل کو زائل کر دیتی ہے ” تسلب العقل” اصلا عقل نہیں رہتی ،اس کا شمار عقلا میں نہیں رہتااس کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی ۔
"فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ أَيَّامَ اغْتِرارِي بِكَ وَرُكُونِي إِلى سَبِيلِ سَخَطِكَ”
میں نہیں جاگا۔ میرے ساتھ سب کچھ ہو گیا۔ میں نے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا نہیں جاگا ۔ میں نے عذاب الہی نازل ہوتے ہوئے دیکھا نہیں جاگا ،میں نے اللہ کی آیات کو آسمان و زمین میں دیکھا نہیں جاگا۔روز سائنس نے اللہ کے کرشموں کو بتایا مگر نہیں جاگا۔ مجھے ہزاروں لاکھوں کروڑوں کہکشاوں نے بتایا میں نہیں جاگا، سوتا رہا۔
امیر المومنین فرماتے ہیں: لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مرتے ہیں تو ان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔
"إِلهِي وَأَنا عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ "
میں تیرا غلام ،تیرا بندہ اور تیرے بندوں کا بیٹا ہوں ، میری ماں بھی تیری کنیز ہے میرا باپ بھی تیرا عبد ہے، میں اب تیری بارگاہ میں ہوں۔
إلهي كفى بي عِزًّا أن أكون لك عَبدًا، وكفى بي فخرًا أن تكون لي رَبًّا
اے امیر المومنین ؑ ،قربان جاوں آپ کے ان کلمات پر! میرے پروردگار” کفی بی فخرا” میرے فخر کے لئے، یہ جوانی نہیں،یہ ذوالفقار نہیں ،یہ لباس نہیں چاہیے؟بلکہ میرافخرتو یہ ہے کہ تو میرا رب ہے” وکفی بی عزا” اور میری عزت کے لئے یہ کافی ہے کہ” أن أكون لك عَبدًا ” کہ میرا تیرا عبد ہوں”
میں جس طرح چاہتا تھا میرا رب ویسا ہی ہے وہ تمام کمالات تجھ میں ہے۔ فاجعلني كما تُحب پس مجھے بھی اس طرح قرار دے جس طرح تو مجھے چاہتا ہے تو مجھے انسان کامل دیکھنا چاہتا ہے تو مجھ میں اپنی تمام صفات کا آئینہ دیکھنا چاہتا ہے لہذا تو ہی مجھے ایسا بنا دے جیسا تو چاہتا ہے”
ہماری دعاہے کہ خدا ہمیں ، ان مناجات کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوئے ہیں۔)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button