کلام امیر المومنین علیہ السلام میں تعلیم وتعلم کے آداب اور اصول
کلام امیر المومنین علیہ السلام میں تعلیم وتعلم کے آداب اور اصول
مہدی حسن شاکری
مقدمہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَ نْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَ اٰلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ بِالۡقَلَمِ،عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ،وصَلَّی اللّٰہُ علیٰ حَبِیْبِهِ وَ عَبْدِہِ وَ نَبِیِّه مُحَمّدِِ،اَفْضَلِ مَنْ عُلِّمَ وَ عَلَّمَ،وِ لَعْنَةُ اللّٰہِ علیٰ اَعْدَآئِھمِ۔
تمام تعریفیں اس خالق لم یزل کیلئے،جس کی رحمت سے نا امید نہیں اور جس کی نعمتوں سے کسی کا دامن خالی نہیں، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔جس نے انسان کو "احسن تقویم” بناکر خلق فرمایا اور لاتعداد نعمات سے نواز۔بہت سی نعمات دنیا میں آنے سے پہلے اور لاتعداد نعمات اس کے پیدا ہونے کے بعد اسے عطا کیں۔یہ نعمات انسان کی مانگنے پر نہیں بلکہ اپنے لطف و کرم سے دیں۔جب انسان ان نعمات سے مستفید ہو کر کچھ بولنے اور کہنے کے قابل ہو تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر میں تمیز کرنے کی حس عطا فرمائی جسے عقل یا رسول باطنی کہا جاتا ہے لیکن اس رسول باطنی کے ہوتے ہوئے بھی انسں کسی غفلت کے شکار ہونے کا خوف رہتا تھا اسے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو معصیت سے بچانے کیلئے پہلے نبوت پھر امامت کا سلسلہ شروع کیا اور تا قیام قیامت انسانوں کی ھدایت کا ساماں کیا ۔اس مقالے میں تعلیم و تعلم کے آدب و اصول کلام امیر المومنین کے روشنی میں چند گزارشات صفحہ قرطاس پر اتارنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں سب سے پہلے علم کے تعریف کے ساتھ ساتھ فضیلت علم ،اہمیت علم اور تعلیم و تعلم کے ادب و اصول کلام امیر المومنین کے روشنی میں قلم بند کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔
علم در لغت
"علم” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جاننے کے ہیں۔
اور اگر ہم عربی لغات کی طرف رجوع کریں تو علم کی کچھ اس طرح تعریف ملتی ہے "العلم نقیض الجھل"(1) علم جھل کی نقیض ہے۔اور بعض نے علم کی تعریف اس طرح کی ہے کہ”العلم ادراک الشی بحقیقة"(2) کس بھی چیز کی حقیقت کو درک کرنا علم کہلاتا ہے۔
علم کی اصطلاحی تعریف
مناطقہ والوں نے علم کی یوں تعریف کی ہے ” حصول صورۃ الشی لدی الذہن ” یعنی کسی بھی چیز کی صورت کازہن میں منطق حاصل ہو جانا علم کہلاتا ہے۔ البتہ علم منطق میں علم کی دو قسمیں کی جاتی ہے۔ ایک علم حصولی اور دوسر اعلم حضوری، مذکورہ بالا تعریف علم حصولی کی تعریف ہے۔
علم کی قسمیں
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہے۔اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ:مَطْبُوْعٌوَّمَسْمُوْعٌ،وَلَایَنْفَعُ الْمَسْمُوْعُ اِذَالَمْیَكُنِالْمَطْبُوْعُ(3)
حضرت علی علی علیہ السلام نے فرمایا: علم کی دو قسمیں ہے:
1۔وہ علم جو انسان کے نفس میں رچ بس جائے ۔
2۔وہ علم جو انسان نے صرف سن لیا گیا ہو۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان میں اگر ہم غور فکر کرے تو یہ سمجھ آجاتا ہے کہ مولا نے فرمایا کہ علم دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ علم جو انسان کے دل میں راسخ ہوجاے یعنی راسخ ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان جو علم حاصل کرتا ہے اس علم سے انسان کی شخصیت کا علم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص واقع میں علم رکھتا ہے تو اس انسان کی کراد،گفتار،ادب واخلاق،عمل اور بول چال ان چیزوں سے علم کا پتہ چل جاتا ہے واقع میں اس نے جو علم حاصل کیا ہے وہ اس کے دل میں راسخ ہوا ہے یا نہیں کیونکہ جو انسان علم جیسی نعمت سے مالا مال ہے اس کے اعضاءجوارح سے معلوم ہوجاتا ہے یہ علم رکھتا ہے ۔اور دوسرا وہ علم جس کو صرف سن لیا گیا ہو ۔وہ علم انسان کو فائدہ نہیں دیتا جب تک علم انسان کے دل میں راسخ نہ ہو اس علم کا فائدہ نہیں ہے۔اسی وجہ سے خود امیر المومنین نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: "اَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وَقَفَ عَلَى اللِّسَانِ، وَ اَرْفَعُهٗ مَا ظَهَرَ فِی الْجَوَارِحِ وَ الْاَرْكَانِ."(4) وہ علم بہت بے قدر و قیمت ہے جو زبان کی حد تک رہ جاے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ رکھتا ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو۔پس جو علم رکھتا ہے وہ انسان اسکی اعضا و جوارح سے پہچانا جاتا ہے کہ اس نے علم کو علم جان کر حاصل کیا ہے اور وہ بھی پہچانا جاتا ہے جو علم کو زبان کی حد تک حاصل کر لیتا ہے۔
علم کی اہمیت از نظر امیر المومنین
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام علم کے اعلی ترین درجہ کے حامل ہیں، وہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ علم کی کتنی اہمیت ہے وہ علم کے بارے میں ارشاد فرمارہے ہیں: الْعِلْمُ وِراثَةٌ کَریمَةٌ(5)؛ علم ایک باکرامت وراثت ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی اس حدیث کے ذریعہ علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علم صرف اس انسان کے کام نہیں آتا جو علم حاصل کرتا ہے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ ہر کسی کے کام آتا ہے اسی لئے بہت زیادہ روایتوں میں حکم دیا گیا ہے کہ اپنی اولاد کو علم کے زیور سے آراستہ کرو، کیونکہ علم کے ذریعہ ہی انسان کی اہمیت ہوتی ہے، اگر خداوندی متعال اور معصومین علیہم السلام کی معرفت حاصل کرنا ہے تو وہ اسی علم کے ذریعہ ان کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرمایا:” مَنْ عَلِمَ (عَمِلَ) ھْتَدیٰ"(6) جس نے علم حاصل کیا (یا عمل کیا) اس نے ھدایت پائی۔مولا کے اس فرمان سے بھی علم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے جو علم حاصل کرے اور عمل کرے تو وہ ھدایت یافتہ ہو گا۔اگرچہ دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت مسلم ہے، قرآن و حدیث میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے متعلق بہت تاکید آئی ہے اور اس کی اہمیت و فضیلت کو ہمارے مولا امیر المومنین علیہ السلام نے خوب اجاگر کیا ہے ، دینی تعلیم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ربانی بھی ہے، جہاں ذریعہ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے، اصل علم تو دینی تعلیم ہے،یہی علمِ دین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا، مگر موجودہ دور میں دینی تعلیم سے نا آشنائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ بہت سارے لوگ وضو اور غسل کے فرائض سے بھی ناواقف ہیں جو ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے کافی شرمناک ہے اس محرومی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی تربیت کا ڈھنگ بدل چکا ہے اب وہ اپنے بچوں کو پہلے انگریزی زبان اور مغربی تہذیب و تمدن سے آشنا کروانا پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بچپن ہی سے دینی تعلیم سے محروم ہونے کے سبب اسلام اور اس کی تعلیمات سے بہت دور ہو چکے ہوتے ہیں حتیٰ کہ حرام و حلال کی تمیز بھی نہیں کر پاتے۔جبکہ ہمیں دینی تعلیم کے حصول کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے،قرآن کریم کے تقریباً 78 ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ تعائی نے قلب رسول نازل فرمایا وہ ’’ إقرأ ‘‘ہے یعنی پڑھیئے اور قرآن کریم کے 6ہزارسے زائد آیتوں میں سب سے پہلے جو 5 آیتیں نازل فرمائی گئیں، ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم ِدین کی عظمت وفضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی امت کے نام اپنے پہلے ہی پیغام میں علم ِدین کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَم"(7)
اے پیغمبر ! آپ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا ہے، (اور) انسان کو خون کےلوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو وہ کچھ سکھادیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
سورہ علق کی ان پانچ آیات کے ساتھ نزولِ قرآن کریم کا آغاز ہوا ، یہ وحی الہی کی پہلی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے دینی علم کی اہمیت کے پیش نظر لفظ ’’ إقرأ ‘‘ کو تکرار کے ساتھ لاکر دینی تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔پہلی دفعہ حصول علم کے حکم کے ساتھ اپنی خالقیت کا تذکرہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان کے وجود کا مقصد ہی دینی علم سے واقفیت ہے ۔دوسری دفعہ حکم کے ساتھ اپنی شان کریمی کا تذکرہ اس بات کی طرف اشارہ ہے اگر مسلمان دنیا وآخرت میں قابل تکریم رہنا چاہتے ہوں تو سب سے پہلے اسلامی تعلیم حاصل کریں ۔جہاں اللہ تعالیٰ نے علم کی وجہ سے اہل علم کو فرشتوں سےبھی ممتاز رکھا ، وہیں ان کی گواہی کو اپنی گواہی کے ساتھ ذکرکرنے کا اعزازبخشا چنانچہ ارشاد فرمایا:
"شَهِدَ اللّٰہُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ"(8) اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔علم ایسا عظیم خزانہ ہے اسکی اہمیت یہاں سے واضح ہوجاتی ہے کہ اس صفحہ ہستی کا موجود اول اپنے علم میں اضافے کے لیے دست سوال دراز کرتا ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے۔قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا(9): میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔پروردگار میرے علم میں اضافہ کر: یہ جملہ ایک تعلیم، ایک نمونہ عمل ہے۔ آداب بندگی، ایک رہنمائی ہے۔حصول علم کے لیے ایک اسوہ ہے۔علم کی اہمیت کے لیے ایک درس ہے۔ اللہ کے بعد اس کائنات میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی ہستی مزید علم کے لیے سوال کرتی ہے تو بے علم لوگوں کو حصول علم کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں آداب بندگی ہے کہ علم خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اللہ کے سامنے عاجزی کرنی چاہیے۔اسی وجہ سے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "علم لا یصلحک ضلال ومال لا ینفعک وبال"(10) وہ علم جو تیری اصلاح نہ کرے ضلالت ہے اور وہ مال جو تجھے فائدہ نہ دے وبال ہے۔پس کمال علم اس پر عمل کرنا ہے۔
علم کی فضیلت از نظر امیر المومنین
حضرت امیر المومنین علیہ السلام علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "أَيُّهَا اَلنَّاسُ اِعْلَمُوا أَنَّ كَمَالَ اَلدِّينِ طَلَبُ اَلْعِلْمِ وَ اَلْعَمَلُ بِهِ أَلاَ وَ إِنَّ طَلَبَ اَلْعِلْمِ أَوْجَبُ عَلَيْكُمْ مِنْ طَلَبِ اَلْمَالِ إِنَّ اَلْمَالَ مَقْسُومٌ مَضْمُونٌ لَكُمْ قَدْ قَسَمَهُ عَادِلٌ بَيْنَكُمْ وَ ضَمِنَهُ وَ سَيَفِي لَكُمْ وَ اَلْعِلْمُ مَخْزُونٌ عِنْدَ أَهْلِهِ وَ قَدْ أُمِرْتُمْ بِطَلَبِهِ مِنْ أَهْلِهِ فَاطْلُبُوهُ"(11) اے لوگو!جان لو دین کا کمال،علم کا سکیھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔یاد رکھو!بیشک تمہارے لئے علم کی تلاش،دولت کی تلاش سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ مال تمہاری قسمت میں لکھا جاچکا ہے اور اسکی ضمانت لی ہے۔ خدائے عادل نے اسے تمہارے درمیان تقسیم کیا ہے،تمہیں اس کا وعدہ کیا ہے جسے وہ جلد ہی پورا فرمائے گا،نیز چونکہ علم اپنے اہل کے سینے میں پوشیدہ ہوتا ہے(اسی وجہ سے تمہیں اس کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے)۔ پس اسے تلاش کرو۔اگر ہم غور فکر کرے۔ تو امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مولا فرما رہیں ہیں کہ ہمیں اس چیز کی فکر کرنا چائیے جس کی ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے وہ چیز علم ہے جبکہ دیکھا جائے۔تو انسان اس چیز کی فکر زیادہ کرتا ہے جس چیز کی ضمانت خدا نے لے رکھی ہے۔
اس کی زیادہ فکر کرتے ہیں اور ہمیشہ اسی کی فکر میں انسان کی زندگی گزر جاتی ہے اور وہ علم جس کو تلاش کرنے کے لئے کہا گیا اس کی کوئی فکر نہیں کرتا اور اس کی تلاش کرنے میں ہم سستی کرتے ہے۔
اور مال کی تلاش میں جس قدر ہم کوشش کرتے ہے جس کی ضمانت خدا نے لی ہے اور وہ علم جس کی وجہ سے انسان میں انسانیت اجاتی ہے۔وہ علم جس کی وجہ سے انسان کی قدر قیمت بڑجاتی ہے۔وہ علم جس کی وجہ سے انسان کی پہچان ہوتی ہے اس کی تلاش کرنے میں ہم سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بیشک خدا مال، دولت ،دوست اور دشمن دونوں کو دیتا ہے۔لیکن علم صرف دوست ہی کو دیتا ہے۔علم اور مال میں یہی فرق ہے مال خرچ کرنے سے کم ہوجاتاہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے ۔
مال جمع کرنے والا زندہ ہونے کے باوجود مردہ کے مانند ہے جبکہ علم صرف کرنے والا اور حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں ۔اس کی بہتریں مثال خود امیر المومنین علیہ سلام کی کلام ہے جو نہج البلاغہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک اور مقام پر علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلْعَالِمُ أَفْضَلُ مِن الصَّائمِ الْقَائمِ الْمُجَاهِدِ،وَ إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ ثُلِمَ فِي الإِسْلَامِ ثُلْمَةُٗ لاَ يَسُدُّهَا إلَّا خَلَفُٗ مِنهُ "(12) عالم دن کو روزے رکھنے والے اور راتوں میں عبادت کرنے والے مجاہد سے زیادہ بہتر ہے اور جب کوئی عالم دنیا سے چلا جاتا ہے اسلام میں ایک ایسا شگاف پڑجاتا ہے جو اس کے جانشین کے بغیر کس سے پر نہیں ہوسکتا۔
مولا کے اس فرمان میں ہم تدبر کرئے تو یہ سمجھ اجاتا ہے کہ علم کی عظمت یہ ہے اگر کوئی عالم فوت ہوجائے تو اس دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جس سے کوئی پر نہیں کرسکتا ۔اسی لئے کہا جاتا ہے "موت عالِم موتُ عَالم ” عالم کی موت عَالم کی موت ہے
ایک مقام پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے علم کی فیضلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:” كَفَى بِالْعِلْمِ شَرَفاً أَنَّهُ يَدَّعِيهِ مَنْ لاَ يُحْسِنُهُ وَ يَفْرَحُ بِهِ إِذَا نُسِبَ إِلَيْهِ"(13) علم کی شرف کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ شخص بھی عالم ہونے کا دعوی کرتا ہے جو علم کو اچھی طرح جانتا بھی نہیں اور جب اس عالم کہا جاتا ہے تو خوش ہوتا ہے،جہل کی مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ خود جاہل بھی جہل کو پسند نہیں کرتا اور اس سے اظہار بیزاری کرتا ہے۔مولا کی اس فرمان سے ہم علم کی فضیلت کو اخذ کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کے پاس علم نہ بھی ہو اس کو عالم کہا جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے اور جہل کے لئے یہی کافی ہے کہ کوئی انسان اپنے آپ کو جاہل کہنا پسند نہیں کرتا حتی کہ خود جاہل بھی اپنے آپ کو جاہل کہنا پسند نہیں کرتا یعنی جہل سے اظہار بیزاری کرتا ہے ۔جبکہ انسان کی قدر قیمت کا علم معیار علم ہے اسلئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "قِیْمَةُ کُلِّ امرِئِِ مَا یَعْلَمُه"(14) ہر انسان کی قیمت اس کے علم کے مطابق ہوتا ہے پس جو شخص جتنا زیادہ علم رکھتا ہے اتنا ہی اس کی قدر و قیمت اور اہمیت ہوگی کیونکہ علم انسان کی زینت ،علم انسان کی ہمنشین،علم انسان کے لئے خوف خدا کا باعث،انسان کے ایمان کا بہترین ساتھی علم ہے۔علم جیسا کوئی ذخیرہ نہیں ہے(کیونکہ علم مال کی برعکس خود صاحب علم کی حفاظت کرتا ہے) انسان کے لئے علم سے بڑی کوئی غرت نہیں ہے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چائیے کہ یہ علم جو انسان کو کمال کی منزل تک پہنچاتا ہے یہ اس وقت ہے جب انسان علم پر عمل کرئے ۔لیکن اگر علم پر عمل نہ کرئے تو اس علم کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ علم بھی اس انسان کے لئے وبال جان بن جائے گا۔
مال سے علم افضل ہونے کے سات معیارات
حضرت امیر المومنین علیہ السلام علم کی فضیلت بیان کرتے ہوے فرمایا: "یَاکُمَیلُ! اَلْعِلمُ خَیرُٗ مِنَ المَالِ،العَلمُ یَحرُسُكَ وَ اَنتَ تَحْرُسُ الْمَالَ،وَالْعلمُ حَاکِمُٗ،وَالْمَالُ مَحکُومُٗ عَلَیهِ،والمَالُ تَنْقُصُھا النَفقَةُ وَالعِلمُ یَزْکُو عَلیٰ الاِنْفَاقِ"(15) اے کمیل! علم مال سے بہتر ہے ۔کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے جبکہ مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے،علم حاکم ہے لیکن مال پر حکومت کی جاتی ہے۔مال خرچ کرنے سے کم ہوجاتا ہے جبکہ علم خرچ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔اگر ہم مولا کے اس فرمان پہ غور و فکر کرے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم وہ نور ہے جو انسان کی حفاظت کرتا ہے اور انسان جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کا ذہن وسع تر ہوتا جاتا ہے اور یہی علم ہے جو انسان کو ظلمت سے نکلا کر منزل کمال تک لے کر جاتا ہے۔علم انسان کو اس چیز کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس امر کا تمہیں خدا نے حکم دیا ہے ۔علم حق کی طرف ہدایت کرتا ہے علم ایسا عظیم خزانہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگا ۔اگر کوئی عالم باعمل اس دارے فانی سے عَالم بقاء کی طرف کوچ کر جاے تو بظاہر وہ عالم باعمل ہمارے نظروں سے اوجہل ہوجاتا ہے ۔در حقیقت دیکھا جاے تو وہ زندہ و جاوید نظر اتا ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرما رہا ہے: "هَلَكَ خُزَّانُ الْاَمْوَالِ وَ هُمْ اَحْیَآءٌ، وَ الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ: اَعْیَانُهُمْ مَفْقُوْدَةٌ، وَ اَمْثَالُهُمْ فِی الْقُلُوْبِ مَوْجُوْدَةٌ."(16) مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے عالم باعمل فوت ہوجاے تب بھی اس کا علم رہتی دنیا تک شاگروں اور کتابوں کی صورت میں باقی رہتا ہے جبکہ مال دار انسان جس کے پاس اربوں مال ودولت ہو اس کے فناء ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے. "قالَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طالِبٍ عَلیہ سلام: العِلْمُ أفْضَلُ مِنَ المالِ بِسَبْعَةِ أوْجُهٍ: أوَّلُها: العِلْمُ مِيراثُ الأنْبِياءِ، والمالُ مِيراثُ الفَراعِنَةِ.
الثّانِي: العِلْمُ لا يَنْقُصُ بِالنَّفَقَةِ والمالُ يَنْقُصُ.
والثّالِثُ: يَحْتاجُ المالُ إلى الحافِظِ والعِلْمُ يَحْفَظُ صاحِبَهُ.
والرّابِعُ: إذا ماتَ الرَّجُلُ يَبْقى مالُهُ والعِلْمُ يَدْخُلُ مَعَ صاحِبِهِ قَبْرَهُ.
والخامِسُ: المالُ يَحْصُلُ لِلْمُؤْمِنِ والكافِرِ، والعِلْمُ لا يَحْصُلُ إلّا لِلْمُؤْمِنِ.
والسّادِسُ: جَمِيعُ النّاسِ يَحْتاجُونَ إلى صاحِبِ العِلْمِ في أمْرِ دِينِهِمْ، ولا يَحْتاجُونَ إلى صاحِبِ المالِ.
السّابِعُ: العِلْمُ يُقَوِّي الرَّجُلَ عَلى المُرُورِ عَلى الصِّراطِ، والمالُ يَمْنَعُهُ."(17)
حضرت امیر المومنین علیہ سلام فرمایا؛ علم مال سے بہتر ہے۔سات دلیلوں سے علم کو مال پر برتری حاصل ہے۔(۱)علم انبیاء کی میراث ہے جبکہ مال فرعون کی میراث ہوتی ہے
(۲) علم صرف کرنے سے کم نہیں ہوتا جبکہ مال خرچ کرنے سے کم ہو جاتا ہے۔
(۳) مال کی پاسداری اور حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ علم خود اپنے مالک کی حفاظت کرتا ہے
(۴) جب کوئی شخص مرجائے تو اس کا مال(موت کے بعد مال اس سے جدا ہو جاتا ہے) رہ جاتا ہے
(۵) مال مومن اور کافر دونوں کے لئے میسر ہے لیکن علم صرف مومن ہی کو حاصل ہوتا ہے۔
(۶) تمام لوگ اپنے دینی امور میں عالم کے محتاج ہوتے ہیں لیکن وہ مال کے محتاج نہیں ہوتے۔
(۷) علم اس شخص کو پل صراط سے گزرتے وقت تقویت بخشتا ہے لیکن مال اسے روک دیتا ہے۔
معلم کےآداب و اصول امیر المومنین کی نگاہ میں
علم کے باب میں آدمی کی چار حالتیں ہیں۔ایک طالب علم کا زمانہ،دوسرا وہ دور جس میں حاصل شدہ علم پر اتنا عبور ہوجائے کہ سوال کی ضرورت ہی باقی نہ رہے،تیسرا وہ دور جس میں اپنے علم پر غور و فکر کرے اور فائدہ اٹھاے اور چوتھا وہ دور کہ اپنے علم سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔یہ آخری حالت سب حالتوں سے افضل ہے کیوں کہ جب بھی کوئی علمی میدان میں ان مراحل سے گزر کر ایک مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس انسان میں اس قدر صلاحیت اجاتا ہے کہ وہ اپنا علم دوسروں پہنچائے۔اور وہ شخص جو علم جیسا عظیم نور دوسروں تک پہنچاتے ہیں اس کو ہم معلم کہتے ہے۔اس معلم کے بھی کچھ آداب و اصول ہے ہم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے کلمات کے روشنی میں بیاں کرتے ہے ۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "مَنْ نَّصَبَ نَفْسَهٗ لِلنَّاسِ اِمَامًا، فَلْیَبْدَاْ بِتَعْلِیْمِ نَفْسِهٖ قَبْلَ تَعْلِیْمِ غَیْرِهٖ، وَ لْیَكُنْ تَاْدِیْبُهٗ بِسِیْرَتِهٖ قَبْلَ تَاْدِیْبِهٖ بِلِسَانِهٖ، وَ مُعَلِّمُ نَفْسِهٖ وَ مُؤَدِّبُهَاۤ اَحَقُّ بِالْاِجْلَالِ مِنْ مُّعَلِّمِ النَّاسِ وَ مُؤَدِّبِهِمْ"(18)
جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے، اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے، اور جو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کر لے وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اس فرمان سے واضح ہوجاتا ہے کہ معلم کو زبان سے زیادہ درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چائیے کیونکہ معلم رہبر،رہنما اور لوگوں کا پیشوا بنتا ہے لوگوں کو تعلیم دیتا ہے یہی معلم ہے جو لوگوں کو انسان بناتے ہیں اور انواع و اقسام کے علوم سے لوگوں کے دلوں کو مالا مال کردیتے ہیں۔ معلم جاھلوں کو جو علم جیسا عظیم نور سے محروم ہے ان کے قلوب کو منور کراتے ہے اور یہی معلم انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ لوگوں کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آتا ہے اور حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور باطل سے دور رکھتا ہے تو اس معلم کے کچھ آداب و اصول ہے جو درجہ ذیل ہے۔
1 معلم کو اپنے فیلڈ میں ماہر ہونا چائیے۔
2 معلم اپنے شاگردوں کے لئے با اخلاق اور نمونہ ہونا چائیے۔
3 سچے اور ذہین طالب علم کی شناخت ہونی چائیے۔
4 معلم کو چائیے کہ علم ان لوگوں کے ہاتھ میں نہ دے جن کو علم کی قدر و قیمت نہ ہو۔
5 معلم تعلیم دینے کے لئے ہمیشہ آمادہ و تیار ہو۔
6 معلم کو چائیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے کو احسن طریقے سے انجام دینا چائیے۔
7 متعلم کی نسبت علم پر عمل کرنا معلم کی زیادہ زمہ داری بنتی ہے۔
معلم کو ان چیزوں کا خیال ضروری ہے مختصراً ہم نے معلم کے کچھ آداب ذکر کیا ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے اصول و آداب ہیں۔
متعلم کے آداب
متعلم کے لئے تعلیم شروع کرنے سے پہلے اچھی طرح آمادگی اور اپنے آپکو تیار کرنا یعنی اپنے دل اور نفس کو صاف ستھرا بنا نا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی کسان کھیت میں بیج بونے سے پہلے زمین کو صاف کرکے کاشت کیلئے ہموار کرتا ہے اسی طرح علوم الہیہ کو حاصل کرنے سے پہلے دل کو کینہ اور گناہ وغیرہ سے پاک صاف کرنا ضروری ہے علماء اخلاق نے حافظہ کی تقویت کے لئے تقوی اختیار کرنے اور گناہوں سے پرہیز کرنے کی تاکید کی ہے۔
جو تعلیم کے لئے اچھا وقت ہے اسے بالکل ضائع نہ کرے کیونکہ اس دور میں زندگی کی تمام صلاحیتیں اور قوتیں اپنے عروج پر رہتی ہے جب حواس خمسہ سالم اور ذمہ داریاں کم ہوتی ہیں ۔حتى الامکان ایسی مصروفیتوں اور مشغولیتوں سے دورر ہیں جن سے تعلیم پر غلط اثر پڑتا ہے اور افکار خراب ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اچھے لوگوں کیساتھ اٹھنا بیٹھنا بلند ہمتی اعلی مقاصد پر نظر رکھنا ایک متعلم کے لئے ضروری ہے۔اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام عالم ربانی اور متعلم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
اَلنَّاسُ ثَلَاثَةٌ: فَعَالِمٌ رَّبَّانِیٌّ، وَ مُتَعَلِّمٌ عَلٰى سَبِیْلِ نَجَاةٍ، وَ هَمَجٌ رَّعَاعٌ، اَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ، یَمِیْلُوْنَ مَعَ كُلِّ رِیْحٍ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِنُوْرِ الْعِلْمِ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰى رُكْنٍ وَّثِیْقٍ”(19)
دیکھو! تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک عالم ربانی، دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہو لیتا ہے اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتا ہے، نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیاء کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔متعلم نجات کے راہ پر ہے تو اسکے کچھ آدب اور اصول ہے تو ایک متعلم کو ان آداب اور اصول کا خیال رکھنا ضروری ہیں۔
1۔متعلم کی نیت پاک اور صاف ہونی چائیے ہے،دل کو آلودگیوں سے پاک کرے تاکہ اس میں وہ علم کو قبول اور حفظ کرسکے۔
2۔متعلم پر فرض ہے کہ اپنے حصول علم کے راستے میں موجود رکاوٹوں اور موانع کی جڑون کو کاٹ دے۔تاکہ حصول علم میں آسانی پیدا ہوجاے۔
3۔متعلم کو چائیے ایسے لوگوں سے دور رہے جو اسے اپنے ہدف یعنی حصول علم میں مانع بنتے ہوں جب تک ان سے دور نہ ہو علم حاصل نہیں کر سکتا۔
4۔متعلم کو چائیے کہ علم سیکھنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھے۔ہر وقت آمادہ و تیار رہے حصول علم کے لئے دن ہو یا رات،سفر ہو یا حضر اور اپنے اوقات کو صرف علم کے حصول پر خرچ کرئے سواے وہ کام جو ضروریات میں سے ہیں جیسے کھانا،پینا،سونا اور نماز وغیرہ۔
5۔متعلم کو بلند ہمت ہونا چائیے جتنی علم حاصل کرنے کی ہمت ہو اس قدر علم حاصل کرو،تھوڑے سے علم پر راضی نہ ہو۔اور اپنے کام کو کل پر نہ چھوڑے علمی فائدہ اگرچہ تھوڑا ہو امکان ہوتے ہوئے اسے حاصل کرنے میں دیر نہ کرے۔اگرچہ اسے بعد میں حاصل کرسکتے ہیں اطمینان رکھتا ہو۔کیونکہ تاخیر کرنے میں آفتیں پائی جاتی ہیں۔
6۔متعلم کو چائیے کہ اپنے ردوس کی ترتیب کا خیال رکھے اور ان میں سے پہلے اسی کو شروع کرے جو سب سے مہم ہو۔جب کس علم کا آغاز کرے تو جب تک اس علم کی ایک مکانی صورت میں کئی کتابوں کو اچھی طرح نہ پڑھے دوسرے علم کو شروع نہیں کرنا چائیے۔اور یہی روش ہر علم اپنانی چائیے۔
7۔متعلم کو چائیے کہ حصول علم کے ابتدائی مراحل میں اختلافی باتیں سننے سے پرہیز کرے،خواہ وہ دنیاوی علوم ہو آخروی علوم ۔
متعلم کے بہت سارے آداب ہے ان کا خیال رکھنا ضروری ہے مختصرا ہم نے کچھ بیان کیا ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے آداب اور اصول پایا جاتا ہے۔پس ان تمام چیزوں کا ہمیشہ خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ علم جیسا نور سے اپنے قلوب کو منور کر سکے
معلم اور متعلم کے مشترکہ فرائض و آداب
اگرچہ بزرگان نے معلم اور متعلم کے مشترکہ بہت سارے آداب و اصول بیان کئے ہیں۔لیکن ہم یہاں پر اختصار کی خاطر چند ایک آداب کی طرف اشارہ کریں گے۔
خلوص و نیت؛ اسلام نے انسانوں کو تعلیم دی ہے کہ ہر نیک کام خلوص و نیت اور قربتہ الی اللہ کے قصد سے انجام دینے کی تاکید کی ہے۔
علم و عمل؛ انسان جو علم حاصل کرے پہلے اس پر خود عمل کرے۔کیونکہ اسلام فقط تعلیم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے جب تک اس علم پر عمل نہ کرے۔خود امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "اَلعِلمُ بِلاعَمَلِِ وَ بَالُٗ"(20) عمل کے بغیر علم و بال جان ہے۔اسی طرح مولا نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا؛ "مَا زَکی العِلمُ بِمِثلِ العَمَلِ بِهِ"(21) علم اتنا کس چیز سے نہیں بڑتا جتنا اس پر عمل کرنے سے بڑتا ہے۔
توکل؛ معلم اور متعلم دونوں کو اللہ تعالی پر اعتماد ہونا چائیے۔یعنی خداوند عالم پر ہر طرح کا توکل اور بھروسہ ہونا چائیے۔
اخلاق حسنہ؛ جو عالم ہے وہ لوگوں کا پیشوا ہوتا ہے ان کا اخلاق اچھا ہونا چائیے۔عالم ایسا ہو کہ اس کے کردار،گفتار اور رفتار سے لوگ علم حاصل کر سکے۔
عزت نفس؛معلم اور متعلم کو باتقوی ہونا چائیے۔
استعمال علم؛عالم اور متعلم پر فرض ہے کہ جو علم حاصل کیا ہے اس کو استعمال بھی کرے تا کہ عالم اور جاھل کو پہچانا جاسکے۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا: "اَلْعُلَمَاءُ رَجُلاَنِ رَجُلٌ عَالِمٌ آخِذٌ بِعِلْمِهِ فَهَذَا نَاجٍ وَ عَالِمٌ تَارِكٌ لِعِلْمِهِ فَهَذَا هَالِكٌ وَ إِنَّ أَهْلَ اَلنَّارِ لَيَتَأَذَّوْنَ مِنْ رِيحِ اَلْعَالِمِ اَلتَّارِكِ لِعِلْمِهِ وَ إِنَّ أَشَدَّ أَهْلِ اَلنَّارِ نَدَامَةً وَ حَسْرَةً رَجُلٌ دَعَا عَبْداً إِلَى اَللّٰهِ فَاسْتَجَابَ لَهُ وَ قَبِلَ مِنْهُ فَأَطَاعَ اَللّٰهَ فَأَدْخَلَهُ اَللّٰهُ اَلْجَنَّةَ وَ أَدْخَلَ اَلدَّاعِيَ اَلنَّارَ بِتَرْكِهِ عِلْمَهُ وَ اِتِّبَاعِهِ اَلْهَوَى وَ طُولِ اَلْأَمَلِ أَمَّا اِتِّبَاعُ اَلْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ اَلْحَقِّ وَ طُولُ اَلْأَمَلِ يُنْسِي اَلْآخِرَةَ"(22) علماء دو طرح کے ہیں:
ایک وہ عالم جو اپنے علم پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو یہ نجات پائیں گے اور دوسرا وہ عالم جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے،لہذا یہ ہلاک ہوجائیں گے بتحقیق اہل دوزخ عالم بے عمل کی بدبو سے بیزار ہوں گے۔جہنمیوں میں سب سے زیادہ ہشیمانی اور افسوس اس شخص کو ہوگا جس نے لوگوں کو خدائے متعال کی طرف دعوت دی تو انہوں نے اس قبول کر کے اللہ کی اطاعت کی اور وہ داخل بہشت ہونگے جبکہ انہیں بلانے خود اپنی بے عمل خواہشات کی پیروی اور لمبی آرزؤں کی وجہ سے جہنم میں جھونک دے جائیں گے۔چونکہ خواہشات کی پیروی(انسان) کو حق سے روک دیتی ہے اور لمبی آرزو آخرت کو بھولنے کا سبب ہوتا ہے۔
خلاصہ:
علم نور ہے اللہ تعالی جس کے دل میں چائیے ڈال دیتا ہے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام جو خود باب مدینۃ العلم ہے آپؑ کے فرامین کے روشنی میں ہم یہ نتجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انسانوں کو چائیے کہ اس نور سے اپنے قلوب کو منور کرے کیونکہ یہی علم ہے جو انسان کی پہچان ہے اور یہی علم ہے جو انسان کو حق اور باطل میں تمیز کر واتا ہے علم کی بدولت انسان میں انسانیت اجاتی ہے علم انسان کو منزل کمال تک لے کر جاتا ہے اسی علم کے ذریعے سے ہم معرفت خدا حاصل کر سکتے ہیں یہاں سے علم کی فضیلت بھی واضح ہوجاتی ہے معلم اور متعلم کے کچھ آداب بھی ہے ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ اس نور کو حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے ۔پس درگاہ خدا میں دعا ہے کہ ہمیں علم حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔
حوالہ جات:
1: ابن منظور لسان العرب
2: المعجم الوسیط،جلد2،صفحہ 62
3: نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت 338،صفحہ 685
4: نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت 92،صفحہ 622
5: نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت 4،صفحہ 603
6: غررالحکم،اقوال علی،مولف؛حجةالسلام حسین شیخ السلامی،ترجمہ؛نثار احمد زینپوری،ناشر؛ثاقب پبلی کیشنز،صفحہ 219
7: قرآن کریم؛سورہ العلق آیت 1 تا 5
8: قرآن کریم؛سورہ آل عمران آیت 18
9: قرآن کریم،سورہ طہ آیت 114
10: غررالحکم،اقوال امیر المومنین ،حکمت ،192 بحولہ تفسیر الکوثر ج7 ص 210
11: اشافی اصول کافی،شیخ یعقوب کلینی؛مترجم سید میر حسن رضوی؛ناشر؛زہراء اکادمی،جلد1،صفحہ69
12: مینة المرید ،شیخ زین الدین عاملی شہید ثانی،ناشر؛مرکز القائمیةباصفھان للتحریات الکمبیوتریه،صفحہ 109
13: تذکرہ السامع والمتکم فی ادب العلم و المتعلم ،امام القاضی بدر الدین محمد بن ابراھیم بن سعد اللہ ابن حماعة الکنانی الشافعی،ناشر؛دارابشائر الاسلامیہ،باب اول؛ فی فضل العلم و العلماءوفضل تعلمیة وتعلمیة،صفحہ 41
14: غرر الحکم ،ج 4ع،ص5202
15: نمبر 147ص ،639 نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت
16: نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت 147 ص 139
17: تفسیر فخر رازی الشہید بتفسیر الکبیر ،مولف ،امام محمد راضی فخرالدین ابن علامہ ضیاالدین عمر شہید ،ناشر دار الکفر ،ج 2 ص 199
18: نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت 73 ،صفحہ617
19: نہج البلاغہ،ترجمہ؛علامہ مفتی جعفر حسین،ناشر؛مرکز افکار اسلامی،حکمت 147،صفحہ 638
20: غررالحکم،اقوال علی،مولف؛حجةالسلام حسین شیخ السلامی،ترجمہ؛نثار احمد زینپوری،ناشر؛ثاقب پبلی کیشنز،صفحہ 207
21: غررالحکم،اقوال علی،مولف؛حجةالسلام حسین شیخ السلامی،ترجمہ؛نثار احمد زینپوری،ناشر؛ثاقب پبلی کیشنز،صفحہ 187
22: الکلینی محمد بن یعقوب اصول کافی ج 1 ص 44 کتاب فضل العلم حدیث 1