احادیث سیدہ فاطمہ زھرا ؑاھل بیت علیھم السلامحدیثموضوعی احادیث

مقام و منزلت حضرت فاطمہؑ بزبان آئمہ ھدیٰ ؑ

امام حسن علیہ السلام کے کلام میں:
1۔ قال الحسن ابن العلی علیھما السلام: "رایت امی فاطمۃ علیھا السلام قامت فی محرابھا لیلۃ جمعتھا فلم تزل راکعۃ و ساجدۃحتی اتضح عمود الصبح سمعتھا تدعو للمومنین و المومنات و تکثر الدعاء لھم ولا تدعو لنفسھا بشئی فقلت لھا یا اماہ! لم تدعین لنفسک کما تدعین لغیرک ، فقالتؑ: الجار ثم الدار۔”
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو دیکھا وہ شب جمعہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں اور ساری رات رکوع و سجود میں گزار دیتی ہیں حتی کہ صبح نمودار ہوجاتی ہے اور ساری رات مومنین اور مومنات کے لیے دعائیں مانگتی ہیں اپنے لیے کوئی سوال نہیں کرتیں تو میں نے عرض کیا اے مادر گرامی ! آپؑ نے دوسروں کے لئے دعائیں کیں لیکن اپنے لئے کو ئی دعا نہیں مانگی ۔ تو آپ (س) نے فرمایا!”پیارے بیٹے : پہلے پڑوسی پھر گھر والے ۔”
(اعلام الھدایہ ،ج3)


ایک یہودی نے امام حسن علیہ السلام سے عرض کی کہ آپؑ کی والدہ کون ہیں؟
قال الامام الحسن ابن علی علیھما السلام
"امی الزھراء بنت محمد المصطفیٰ، قلادۃ الصفوۃ، وردۃ صدف العصمۃ،و غرۃ جمال العلم و الحکمۃ، وھی نقطۃ دائرۃ المناقب والمفاخر، ولمعۃ من انوار المحامد والمآثر، خمرت طینۃ وجودھا من تفاحۃ من تفاح الجنۃ، کتب (اللہ) فی صحیفتھا عتق عصاۃ الامۃ، وھی ام السادۃ النجباء، وسیدۃ النساء البتول العذراء فاطمۃ الزھراء”
"میری مادر گرامی زہراء بنت محمدؐ ہیں جو فضیلتوں کا ہار ہیں، گلدستہِ عصمت کا پھول ہیں،علم وحکمت کی زینت ہیں، مناقب ومفاخر کا نقطہِ مرکز ہیں،خصلتوں اور عزتوں والے انوار میں سے ایک نور ہیں،ان کے وجود کی مٹی جنت کے سیبوں میں سے ایک سیب سے گوندھی گئی ہے،اللہ نے ان کے حق مہر میں امت کے گنہگاروں کی مغفرت لکھ دی ہے،وہ برگزیدہ سادات میں ماں ہیں اور وہ عورتوں کی سردار بتول، عذراء، فاطمہ زہؑراء ہیں”۔
(مدینۃ المعاجز، جلد 3، ص295)


امام حسینؑ کی نظر میں آپ (س) کی منزلت:
قال الامام الحسین ابن علی علیھما السلام :
"امی خیر منی”
"میری ماں مجھ سے بہتر ہیں۔”
(بحار الأنوار، ج۴۵، ص ۳)


عن الامام الحسین علیہ السلام
امامِ حسین ؑ اپنی والدہ ماجدہ کا مقام بیان کرتے ہوئے اپنے نانا کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"فاطمۃ بھجۃ قلبی،وابناھا ثمرۃ فؤادی، وبعلھا نور بصری، والائمۃ من ولدھا امناء ربی وحبلہ الممدود بینہ وبین خلقہ، من اعتصم بہ نجا، ومن تخلف عنہ ھویٰ”
"فاطمہؑ میرے دل کا سکون ہے، ان کے بچے میرے دل کی ٹھنڈک ہیں،ان کے شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں،اور ان کی نسل سے معصوم ائمہؑ اللہ کے امین اور اس کے اور مخلوق کے درمیان اسکی سیدھی رسی ہیں جس رسی کا سہارا لینے والے نجات پائیں گے اور روگردانی کرنے والے ہلاک ہوجائیں گے”
(ارشاد القلوب الی الصواب، جلد 2، ص 423)


امام سجادؑ اور مقامِ فاطمہؑ:
وعن زين العابدين عليه السلام قال: "ضمني والدي عليه السلام إلى صدره يوم قتل والدماء تغلى وهو يقول: يا بنى احفظ عني دعاء علمتنيه فاطمة عليها السلام، وعلمها رسول الله صلى الله عليه وآله وعلمه جبرئيل عليه السلام في الحاجة والمهم والغم والنازلة إذا نزلت والامر العظيم الفادح، قال ادع:
امام زین العابدینؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس دن میرے والد گرامی شہید ہوئے تو اس دن انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر فرمایاتھا کہ مجھے میری والدہ سیدۃ النساء العالمیؑن نے ایک دعا تعلیم فرمائی ہے آپؑ اس دعا کو حفظ کرلیں انہیں یہ دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی ا ور ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جناب جبرائیلؑ لے کر آئے تھے۔ جب غم و حزن نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہو، مسائل و مشکلات سے تمام راہیں مسدود ہوچکی ہوں تو اس دعا کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے اور انسان کو ہر قسم کی مشکل سے نجات مل جاتی ہے۔ وہ دعا یہ ہے
"بِحَقِّ یس وَ الْقُرآنِ الْکَرِیمِ وَ بِحَقِّ طه وَ الْقُرآنِ الْعَظِیمِ یا مَنْ یَقْدِرُ عَلَی حَوائِجِ السّائِلِینَ یا مَنْ یَعْلَمُ ما فِی الضَّمِیرَ یا مُنَفِّسَ عَنِ الُمَکُرُوبِینَ یا مُفَرِّجَ عَنِ الْمَغْمُوْمِینَ یا راحِمَ الشَّیْخِ الْکَبیرِ یا رازِقَ الطِّفْلِ الصَّغِیرِ، یا مَنْ لا یَحْتاجُ اِلَی التَّفْسِیرِ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ افْعَلْ بِی کَذا وَ کَذا۔۔
خدایا! یس کے حق و حقیقت کا واسطہ! قرآن حکیم کی عزت و عظمت کا واسطہ ! طہٰ کی حقیقت کا واسطہ! اور قرآن عظیم کا واسطہ! اے وہ ذات !جو سائلین کی حاجات کو پورا کرنے پر قادر ہے ۔اے وہ ذات !جو انسان کے اعماق روح کا علم رکھتا ہے ۔اےخدایا۔! اے وہ ذات جو مصائب زدہ لوگوں کے مصائب کو دور کرنے والا ہے ۔اے وہ ذات !جو غم زدہ لوگوں کے غم کو دور کرنے والا ہے ۔اے بوڑھے پر رحم کرنے و الے! اے چھوٹے بچوں کو روزی عطا کرنے والے! وہ ذات جس کو تفسیر و توضیح کی ضرورت نہیں ہوتی تو محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیج اور میری حاجت کو پورا فرما۔۔۔
(بحار الأنوار، ج92ص196)


قال الاما م العلی ابن الحسین علیھما السلام
"اناابن فاطمۃ الزھراءانا ابن سیدۃ النساء”
"لوگو! میں فاطمہ زہؑراء کا فرزند وں، میں تمام عورتوں کی سردار کا فرزند ہوں”۔
(بحارالانوار، ج 45: ص، 137 تا 140)


عن زرارۃ عن ابی جعفر عن ابیہ علیہ السلام
یہ آیت "وامر اھلک بالصلاۃواصطبر علیھا” جب نازل ہوئی تو ہر صبح رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنابِ فاطمہ علیھا السلام کے دروازے پر آتے اور فرماتے السلام علیکم اھل البیت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، الصلاۃ ،اللہ تم پر رحم فرمائے، اور پھر آیتِ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے” ۔
(بحار الانوار، جلد25، ص220)


امام محمد باقرؑ اور مقامِ فاطمہؑ:
قال ابو جعفر علیہ السلام
"ولقد کانت مفروضۃ الطاعۃ، علی جمیع من خلق اللہ من الجن والانس والطیر والوحش والانبیاء والملائکۃ”
"(جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا )کی اطاعت ہر مخلوقِ خدا پر فرض قرار دی گئی ہے چاہے جن ہوںِ انسان ہوں پرندے ہوں، جانور ہوں انبیاءؑ ہوں یا ملائکہ(سب پر اطاعتِ سیدہ فاطمہؑ اللہ نے فرض قرار دی ہے)” ۔
(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص172)


قال الامام محمد بن علی الباقر علیھما السلام
"انما سمیت فاطمۃ بنت محمد الطاھرۃ، لطھارتھا من کل دنس، وطھارتھا من کل رفث، وما رات قط یوما حمرۃ ولا نفاس
"حضرت فاطمہؑ بنت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو طاھرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؑ ہر طرح کی پلیدگی، گندگی اور زنانہ عادات سے پاک تھیں” ۔
(بحار الانوار، جلد43، ص19)


قال الامام الباقر علیہ السلام
"لفاطمۃ(علیہا السلام) وقفۃ علی باب جھنم، فاذا کان یوم القیامۃ کتب بین عینی کل رجل مومن او کافر فیؤمر بمحب قد کثرت ذنوبہ الی النار فتقرا فاطمہ بین عینیہ محبا فتقول:الھی وسیدی سمیتنی فاطمہ وفطمت بی من تولانی وتولی ذریتی من النار ووعدک الحق وانت لاتخلف المیعاد فیقول اللہ عز وجل: صدقت یا فاطمۃ انی سمیتک فاطمۃ وفطمت بک من احبک وتولاک واحب ذریتک وتولاھم من النار ووعدی الحق وانا لا اخلف المیعاد ونما امرت بعبدی ھذا الی النار لتشفعی فیہ فاشفعک ولتبین ملائکتی وانبیائی ورسلی واھل الموقف موقفک منی ومکانتک عندی فمن قرات بین عینیہ مؤمنا فخذیہ بیدہ وادخلیہ الجنۃ”
"قیامت کے روز جنابِ سیدہؑ جہنم کےدروازے کے قریب کھڑی ہوجائیں گی، اس دن ہر شخص کی پیشانی پر یا مومن لکھا ہو گا یا کافر لکھا ہوگا ،اسوقت ایک محبِ آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ جو بہت بڑا گنہگار ہوگا کو جہنم میں جانے کا حکم سنا دیا جائے گا جب جنابِ فاطمہؑ اس کی پیشانی پر محبِ اہلبیؑت لکھا ہوا دیکھیں گی تو بارگاہِ ربوبیت میں عرض کریں گی: اے میرے معبود و سردار! تو نے میرا نام فاطمہ ؑرکھا اور مجھ سے اور میری آلؑ سے محبت کرنے والوں کو جہنم سے دور قرار دیا، (اے آقا) تیرا وعدہ برحق ہے اور تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ اسوقت اللہ ارشاد فرمائے گا: اے فاطمہؑ تو نے سچ کہا، میں نے ہی تیرا نام فاطمہؑ رکھا اور تم سے اور تیری آلؑ سے محبت وولایت رکھنے والوں کو جہنم سے بری قرار دیا ، میرا وعدہ بھی بر حق ہے اور میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتا۔ (اے میری کنیز فاطمہؑ) میں نے اپنے اس بندے کو جہنم میں جانے کا حکم اس لیے دیا تاکہ تو اس کی شفاعت میری بارگاہ میں کرے اور میں تیری شفاعت قبول کروں اور تاکہ میرے ملائکہ، انبیاءؑ، رسل اور میرے نزدیک ہر صاحبِ مرتبہ یہ جان لے کہ تیرا مقام میرے نزدیک کتنا بلند ہے،(اے فاطمہؑ)تم نے جس کی پیشانی پہ محبِ اہلبیؑت لکھا ہوا پڑھا ہے اس کو اپنے ساتھ جنت لے جاؤ” ۔
(بحار الانوار، جلد43، ص14)


قال محمد بن علی الباقر علیھما السلام
"من سبح تسبیح الزھراء علیھا السلام ثم استغفر غفر لہ وھی مائۃ باللسان والف فی المیزان وتطرد الشیطان وترضی الرحمٰن”
"جو شخص تسبیحِ فاطمہ علیھا السلام پڑھے اور پھر خدا سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، اور یہ (تسبیح) پڑھنے میں صرف سو لفظ ہیں لیکن میزان میں جب تولی جائے گی تو ایک ہزار کے برابر ہوگی،اور یہ تسبیح پڑھنے سے شیطان دور ہوتا ہے اور رحمان راضی ہوتا ہے” ۔
(ثواب الاعمال، ص163)


امام صادقؑ اور مقامِ سیدہؑ
قال الصادق علیہ السلام
” امام جعفر صادق علیہ السلام جنابِ فاطمہؑ کی ولادت کےاحوال بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں؟ جنابِ سیدہؑ اس دنیا میں آئیں تو یہ جملے ان کی لسان مبارک سے صادر ہوئے:
"اشھد ان لا الہ الا اللہ وان ابی رسول اللہ سید الانبیاء وان بعلی سید الاوصیاء وان ولدی سادۃ الاسباط۔۔۔
"میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہےاور میرے باباؐ انبیاء کے سردار ہیں اور علی اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے بیٹے جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔”
(روضۃ الواعظین، ص143)


قال الصادق علیہ السلام
"لفاطمۃ تسعۃ اسماء عند اللہ عز وجل فاطمۃ، والصدیقۃ، والمبارکۃ، والطاھرۃ، والزکیۃ، والراضیۃ، والمرضیۃ، والمحدثۃ، والزھراء، ثم قال: اتدری ای تفسیر فاطمۃ علیہا السلام؟ قلت اخبرنی یا سیدی قال: فطمت من الشرقال:ثم قال: لولا امیرالمؤمنین تزوجھا ما کان لھا کفو الی یوم القیامۃ علی وجہ الارض، آدم فمن دونہ”
"اللہ کے ہاں میری جدہ فاطمہؑ کے نواسماء ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاھرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ اور زھراء، پھر امامؑ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ فاطمہ کی تفسیر کیا ہے؟ (راوی کہتا ہے کہ)میں نے عرض کی: میرے مولا آپ بیان فرمائیے۔ امامؑ نے فرمایا: کیونکہ میری جدہ فاطمہؑ کو شر سے دور رکھا گیا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر امامؑ نے فرمایا: اگر امیر المؤمنینؑ جنابِ سیدہؑ سے شادی کرنے کیلئے نہ ہوتے تو روئے زمین پر قیامت تک حضرت آدم اور ان کے علاوہ کوئی بھی جنابِ فاطمہؑ کا کفو نہ ہوتا "۔
(علل الشرائع، جلد 1، ص178،امالی شیخ صدوق، ص688)


3۔ حضرت جابرؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفرؑ صادق کی خدمت میں عرض کیا:مولا! جنابِ فاطمہؑ الزھراءکو زھراء کیوں کہا جاتا ہے؟
قال الصادق علیہ السلام: "لان اللہ عز وجل خلقھا من نور عظمتہ، فلما اشرقت اضاءت السماوات والارض بنورھا وغشیت ابصار الملائکۃ وخرت الملائکۃ للہ ساجدین، وقالوا: الھنا وسیدنا، ماھذا النور؟
فاوحی اللہ الیھم: ھذا نور من نوری، واسکنتہ فی سمائی، خلقتہ من عظمتی، اخرجہ من صلب نبی من انبیائی، افضلہ علی جمیع الانبیاء واخرج من ذلک النور ائمۃ یقومون بامری، یھدون الی حقی، واجعلھم خلفائی فی ارضی بعد انقضاء وحیی”
” کیونکہ اللہ نے جنابِ فاطمہؑ کو اپنی عظمت کے نور سے خلق فرمایا، اور جب آپؑ کا نور چمکا تو آپؑ کے نور سے زمین وآسمان روشن ہوگئے اور ملائکہ کی آنکھیں چندھیا گئیں جس کی وجہ سے سارے ملائکہ اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے، اور عرض کرنے لگے: اے ہمارے معبود وآقا! یہ کیسا نور ہے؟
اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی: یہ نور میرے نور میں سے ہے جسے میں نے اپنے آسمان میں ٹھہرایا ہے، میں نے اسے اپنی عظمت سے خلق کیا ، اور اسے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کے صلب میں قرار دیا جس نبی کو میں نے سارے انبیاء سے افضل قرار دیا ہے، اور اسی نور سے میں ایسے امام قرار دونگا جو میرے امر کو قائم کریں گے، میرے راستے کی طرف ھدایت دیں گے اور میں انہیں زمین پر اپنی وحی کے ختم ہونے کے بعد اپنے خلفاء قرار دونگا۔”
(الامامۃ و التبصرۃ، ص133)


قال الصادق علیہ السلام
"ان اللہ(تعالی) امھر فاطمۃ(علیھا السلام) ربع الدنیا، فربعھالھا، وامھرھا الجنۃ والنار، تدخل اعداءھا النار، وتدخل اولیاءھا الجنۃ، وھی الصدیقۃالکبریٰ وعلی معرفتھا دارت القرون الاول”
"بے شک اللہ تعالیٰ نے جنابِ سیدہؑ کو حق مہر میں اس دنیا کا چوتھائی حصہ عطا فرمایا، پس اس دنیا کا چوتھائی حصہ سیدہِ کائناتؑ کی ملکیت ہے، اور اسی طرح (اللہ نے جنابِ سیدہؑ کو حق مہر میں) جنت و جہنم کی ملکیت عطا فرمائی کہ سیدہؑ اپنے دشمنوں کو جہنم کا ایندھن بنائیں اور اپنے چاہنے والوں کو جنت میں لے جائیں ، اور فاطمہؑ ہی صدیقہ الکبریٰ ہیں اور ان کی معرفت قرونِ اولیٰ کیلئے محور ومرکز تھی” ۔
(امالی شیخ طوسیؒ، ص668)


5۔ حضرت مفضل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ مین نے امام صادقؑ سے عرض کی کہ مولا جنابِ فاطمہؑ کے بارے میں اس فرمانِ رسولؐ "انھا سیدۃ نساء العالمین” کے بارے میں بیان فرمائیں کہ کیا جنابِ فاطمہؑ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں؟
قال الصادق علیہ السلام
امامؑ نے فرمایا: کہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تو حضرت مریمؑ تھیں، جنابِ فاطمہؑ گزری ہوئی اور آنے والی تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں”۔
(منھاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، جلد13،ص6)


قال الصادق علیہ السلام : ” اذا کان یو م القیا مة نادی مناد من تحت الحجب یا اهل الجمع غضوا ابصارکم ونکسو ا رؤ سکم فهذه فاطمة بنت محمد (صلی الله علیه واله وسلم )ترید ان تمر علی الصراط "
"جب قیامت کا دن ہوگا تو اولین وآخرین کوجمع کیا جائے گا، اس وقت ایک منادی ندا دے کر کہے گا: اے اہل محشر! اپنی نظریں جھکا لواور اپنے سروں کو نیچے کر لو کیونکہ فاطمہؑ بنت محمدؐ گزر رہی ہیں” ۔
(منھاج البراعۃ فی شرھ نہج البلاغہ، جلد13، ص34)


قال الصادق علیہ السلام
امامؑ اپنے پاس مصحف فاطمہؑ کے ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اپنے خاص صحابی حضرت ابو بصیرؒ کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
"وان عندنا لمصحف فاطمۃ علیھا السلام وما یدریھم ما مصحف فاطمۃ علیھا السلام؟
قال: قلت: وما مصحف فاطمۃ علیھا السلام؟
قال: مصحف فیہ مثل قرآنکم ھذا ثلاث مرات۔ واللہ ما فیہ من قرآنکم حرف واحد۔۔”
"یقیناً ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ علیھا السلام ہےاور لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟
حضرت ابو بصیرؒ نے عرض کی: مولا مصحفِ فاطمہؑ کیا ہے؟
امامؑ نے فرمایا: یہ ایک مصحف ہے جو اس قرآن سےتین گنا زیادہ بڑا ہے لیکن اللہ کی قسم اس قرآن کا ایک حرف بھی اس میں موجود نہیں ہے”۔
(الکافی، جلد1، ص239)


اور بحار میں یہ اس کے علاوہ یہ بھی موجود ہے:
۔۔انما ھو شئ املاہ اللہ علیھا واوحیٰ الیھا”
"مصحفِ فاطمہؑ وہ ہے جو اللہ نے جنابِ سیدہؑ کو املاء کروایا ہے” ۔
(بحار الانوار، جلد26، ص39)


قال الصادق علیہ السلام
مصحفِ فاطمہ علیھا السلام وہ مصحف ہے جو اللہ نے بذریعہ ملائکہ جنابِ سیدہؑ کو املاء کروایا اور جس کی وجہ سے جنابِ سیدہؑ کو محدثہ کہا جاتا ہے اس سلسلے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"انما سمیت فاطمۃ محدثۃ لان الملائکۃ کانت تھبط من السماء فتنادیھا کما تنادی مریم بنت عمران فتقول: یا فاطمۃ ان اللہ اصطفاک وطھرک واصطفاک علی نساء العالمین، یا فاطمۃ اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین، فتحدثھم ویحدثونہ، فقالت لھم ذات لیلۃ: الیست المفضلۃعلی نساء العالمین مریم بنت عمران؟ فقالوا: ان مریم کانت سیدۃ عالمھا، وان اللہ عز وجل جعلک سیدۃ نساء عالمک وعالمھا وسیدۃ نساء الاولین والآخرین”
"میری جدہ فاطمہؑ کو محدثہ اس لیے کہا جاتا ہےکیونکہ ملائکہ آسمان سے آتے تھے اور آپؑ کو ایسے ہی ندا دیتے تھے جیسے مریم بنت عمران کو دیا کرتے تھے، ملائکہ آکر کہتے تھے: "اے فاطمہؑ! بے شک اللہ نے آپ کو برگزیدہ بنایا ہے اور پاکیزہ بنایا ہے اور آپ کو تمام جہانوں کی عورتوں پر برگزیدہ بنایا ہے، اے فاطمہؑ! اپنے رب کی اطاعت کریں اور سجدہ کرتی رہیں اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہیں” ملائکہ جنابِ سیدہؑ سے باتیں کرتے اور بی بیؑ ان سے باتیں کرتی تھیں۔ ایک شب آپؑ نے ملائکہ سے فرمایا: کیا مریم بنت عمران کو تمام جہانوں کی عورتوں پر فضیلت نہیں دی گئی؟ تو ملائکہ نے عرض کی: جنابِ مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور اللہ تعالی نے آپؑ کو اس آپ کے زمانے، ان کے زمانے اور اولین وآخرین کی عورتوں کی سردار بنایا ہے” ۔
(بحار الانوار، جلد14، ص206)


8۔ قال الصادق علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام ان کے پاس آئی اور یہ پیغام دیا:
لِاَنَّھَا فَطَمَت شِیعَتُھَا مِن َالنَّارِ
” آپؐ کی اس عظیم بیٹی کانام زمین پر فاطمہ ؑ اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کو جہنم سے نجات دلانے والی ہیں۔“
(بحارالانوار۔ ج 43، ص18)


9۔ قال الصادق علیہ السلام
قال الصادق علیہ السلام :”اِنَّمَا سُمِّيَت فَاطِمَۃُ مُحَدِّثـَـۃَ لِاَنَّ المَلَائِكَۃَ كَانَت تَهبِطُوا مِنَ السَّمَاءِ فَتَنَا دِمِیھَا كَمَا تُنَادِي مَریَم”
حضرت فاطمہ زہراؑ کو محدثہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آسمان سے ملائکہ ان پر نازل ہوتے اور ان سے اس طرح گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریمؑ سے فرشتے گفتگو کرتے تھے اور انہیں ندا دیتے تھے اور باتیں کرتے تھے۔ وہ حضرت فاطمہ زہرا کو ندا دیتے تھے:
يَا فَاطِمَۃُ! اِنَّ اللهَ اصطَفٰكَ وَطَهَّرَكِ وَاصطَفٰكِ عَلٰى نِسَاۤءِ العَالَمِينَ۔
” اے فاطمہؑ! اللہ نے تمہیں برگزیدہ بنایا اور پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور آپ ؑکو تمام عالمین پر برتری عطا کی ہے“۔
(علل الشرائع ص 182،باب 146،ح1)


امام موسی ٰ کاظمؑ اور مقامِ سیدہؑ:
1۔ قال الامام موسیٰ ابن جعفر علیھما السلام
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنی جدہ فاطمہ علیھا السلام کی شان میں ایک فرمانِ رسولؐ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"الا ان فاطمۃ بابھا بابی وبیتھا بیتی، فمن ھتکہ فقد ھتک حجاب اللہ۔۔۔”
"اے لوگو! خبردار فاطمہؑ کا دروازہ میرا دروازہ ہے اور فاطمہؑ کا گھر میرا گھر ہے جس نے بھی اس گھر کی بے حرمتی کی اس نے اللہ کے حجاب کو پھاڑ ڈالا” ۔
(بحار الانوار،جلد22، ص477)


قال الامام موسیٰ ابن جعفر علیھما السلام
اس کے علاوہ امامؑ لوگوں کو فقر سے بچنے ذریعہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
"لا یدخل الفقر بیتا فیہ اسم محمد او احمد او علی او الحسن او الحسین او جعفر او طالب او عبداللہ او فاطمۃ من النساء
"اس گھر میں فقر داخل نہیں ہوتا جس میں کسی فرد کا نام محمدیااحمد یا علی یا حسن یا حسین یا جعفر یا طالب یا عبداللہ یا خاتون کا نام فاطمہ ہو” ۔
(الکافی، جلد6، ص19)


قال الامام موسیٰ ابن جعفر علیھما السلام
"ان فاطمۃ علیھا السلام صدیقۃ شھیدۃ”
"بے شک میری جدہ فاطمہ علیھا السلام صدیقہ اور شہیدہ ہیں” ۔
(الکافی، جلد1، ص458)


قال الامام موسیٰ ابن جعفر علیھما السلام
لَا یَد خُلُ الفقر بَیتَا فِیہِ اِسمُ مُحَمَّدُ وَفَاطِمَۃُ ٗ مِنَ النِّسَاءِ
”اس گھر میں فقر داخل نہیں ہوتا کہ جس گھر میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فاطمہ سلام نام کے افرادہوں“
(سفینۃ البحار)


امام علی رضاؑ اور مقامِ سیدہؑ:
قال علی ابن موسیٰ الرضا علیھما السلام
اسی طرح امام رضاؑ اپنے آباء واجداد سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"تحشر ابنتی فاطمۃ علیہ السلام یوم القیامۃ ومعھا ثیاب مصبوغۃ بالدماء تتعلق بقائمۃ من قوائم العرش تقول یا احکم الحاکمین احکم بینی وبین قاتل ولدی قال علی بن ابی طالب علیہ السلام قال رسول اللہ ویحکم لابنتی فاطمۃ ورب الکعبۃ”
"قیامت کے دن میری بیٹی فاطمہؑ جب میدان محشر میں آئیں گی تو ان کے پاس ایک خون سے بھرا ہوا لباس ہوگا ، فاطمہؑ عرش کے ستونوں میں سے ایک ستون کا سہارا لیں گی اور اپنے رب کے حضور عرض کریں گی: اے بہترین فیصلہ کرنے والے میرے اور میرے بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ربِ کعبہ کی قسم اس وقت اللہ میری بیٹی فاطمہؑ کے حق میں فیصلہ فرمائے گا” ۔
(عیون اخبار الرضاؑ، جلد 2، باب30، ص12)


قال علی ابن موسیٰ الرضا علیھما السلام
حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراؑ سے فرمایا:
یَا فَاطِمَۃُ اَتَدرِینَ لِمَ سُمِّیَت فَاطِمَۃُ؟
” اے میری شہزادی فاطمؑہ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپؑ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا ہے ؟حضرت علی علیہ الصلاۃ والسلام آپ وہاں تشریف فرما تھے، اُنھوں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائیں کہ فاطمؑہ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا ہے؟
رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
لِاَنَّھَا فَطَمَت شِیعَتُھَا مِن َالنَّار
”اس لئے اس کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے کیونکہ آپؑ اور آپ ؑکے پیروکار ان جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون رہیں۔“
(بحار الانورج 43،ص4)


امام محمد تقیؑ اور مقامِ سیدہؑ:
1۔ زکریا بن آدم بیان کرتے ہیں:
"انی لعند الرضا اذ جیء بابی جعفر علیہ السلام وسنہ اقل من اربع سنین، فضرب بیدہ الی الارض ورفع راسہ الی السماء فاطال الفکر،
"میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا جب وہاں امام ابو جعفر محمد تقی علیہ السلام آئے اور اس وقت آپؑ کا سن مبارک چار سال سے کم تھا، امام ؑ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور کافی دیر تک سوچتے رہے،۔
فقال لہ الرضا علیہ السلام: بنفسی فلم طال فکرک؟
اس وقت امام علی رضاؑ نے اپنے فرزند سے فرمایا: میں تم پر قربان جاؤں کیا سوچ رہے ہو؟
فقال الامامؑ: فیما صنع بامی فاطمؑۃ۔۔۔”
امام محمد تقیؑ نے عرض کی: میں اس مصائب کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو میری ماں فاطمہؑ پر ڈھائے گئے۔”
(بحار الانوار، جلد50، ص59)


امام علی نقیؑ اور مقامِ سیدہؑ:
عن الامام العلی بن محمد النقی علیھما السلام
امام علی نقیؑ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"انما سمیت ابنتی فاطمۃ لان اللہ عز وجل فطمھا وفطم من احبھا من النار”
"میری بیٹی کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے فاطمہؑ اور اس سے محبت کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے بری قرار دیا ہے” ۔
(بحار الانوار، جلد43، ص15)


امام حسن عسکری ؑ اور مقام سیدہ ؑ:
أبو هاشم العسكري قال: سألت صاحب العسكر عليه السلام: لم سمّيت فاطمة الزهراء؟ قال علیہ السلام: كان وجهها يزهر لأمير المؤمنين من أوّل النهار كالشمس الضاحية، و عند الزوال كالقمر المنير، و عند غروب الشمس كالكوكب”
ابو ھاشم عسکری کہتے ہیں کہ میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے پوچھا :فاطمہ کو زہراء کیوں کہتے ہیں ؟
آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:اس وجہ سے کہ ان کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جیسے سورج کی روشنائی طلوع سے لے کر غروب تک چمکتی ہے۔”
(تسلیة المُجالس و زینة المَجالس (مقتل الحسین علیه السلام) , جلد۱ , صفحه ۵۲۲ )


امام مہدیؑ اور مقامِ فاطمہؑ:
قال الامامؑ فی توقیعہ
"فی ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لی اسوۃ حسنۃ”
"میرے لیے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی میں بہترین نمونہِ عمل ہے” ۔
(احتجاج للطبرسی، جلد2، ص238)


 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button