احادیث سیدہ فاطمہ زھرا ؑاھل بیت علیھم السلامحدیثموضوعی احادیث

احادیث جناب سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا

عقیدہ توحید کا بیان
قالت (علیھا السلام)” وأشهد أن لا إله إلّا الله وحده لا شريك له ، كلمة جعل الإخلاص تأويلها ، وضمّن القلوب موصولها ، وأنار في التفكّر معقولها ، الممتنع من الأبصار رؤيته ، ومن الألسن صفته ، ومن الأوهام كيفيته ، ابتدع الأشياء لا من شيء كان قبلها ، وأنشأها بلا احتذاء أمثلة امتثلها ، كوّنها بقدرته ، وذرأها بمشيّته ، من غير حاجة منه إلى تكوينها ، ولا فائدة له فـي تصويرها ، إلّا تثبيتاً لحكمته ، وتنبيهاً على طاعته ، وإظهاراً لقدرته ، وتعبّداً لبريّته وإعزازاً لدعوته "
” میں شھادت دیتی ہوں کہ خدا وحدہٴ لاشریک ھے اور اس کلمہ کی اصل اخلاص ھے،اس کا معنی دلوںسے پیوست ہے، اس کا مفھوم فکر کو روشنی دیتا ھے-وہ خدا وہ ھے کہ آنکھوںسے جس کی رویت،زبان سے تعریف اور خیال سے کیفیت کا تصور محال ھے-اس نے چیزوں کو بلا کسی مادہ اور نمونہ کے پیدا کیاھے صر ف اپنی قدرت اور مشیت کے ذریعہ،اسے نہ تخلیق کے لئے نمونہ کی ضرورت تھی،نہ تصویر میں کوئی فایدہ تھا سوائے اس کے کہ اپنی حکمت کو مستحکم کردے اور لوگ اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ھوجائیں- اس کی قدرت کا اظھار ھو اور بندے اس کی بندگی کا اقرارکریں-وہ تقاضاٴے عبادت کرے تو اپنی دعوت کو تقویت دے”
( بحار الانوار، ج۲۹، ص۲۱۵)


2۔ بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہداف:
قالت علیھا السلام : "ابتعثه الله إتماماً لأمره ، وعزيمة على إمضاء حكمه ، وإنفاذاً لمقادير حتمه ، فرأى الأُمم فرقاً في أديانهم ، عُكَّفاً على نيرانها ، عابدة لأوثانها ، منكرة لله مع عرفانها ، فأنار الله بأبي ، محمّد ـ صلَّى الله عليه وآله وسلَّم ـ ظُلَمَها ، وكشف عن القلوب بهمها ، وجلا عن الأبصار غممها وقام في الناس بالهداية ، فأنقذهم من الغواية ، وبصّرهم من العماية ، وهداهم إلى الدّين القويم ، ودعاهم إلى الصّراط المستقيم.”
” اللہ نے آپ کوبھیجا تاکہ اس کے امر کی تکمیل کریں،حکمت کو جاری کریں اور حتمی مقررات کونافذ کریں مگر آپ نے دیکھا کہ امتیں مختلف ادیان میں تقسیم ہیں آگ کی پوجا،بتوں کی پرستش اور خدا کے جان بوجھ کر انکار میں مبتلا ہیں- آپ نے ظلمتوں کو روشن کیا، دل کی تاریکیوں کو مٹایا،آنکھوں سے پردے اٹھائے، ھدایت کے لئے قیام کیا،لوگوں کو گمراہی سے نکالا، اندھے پن سے با بصیرت بنایا،دین قویم اور صراط مستقیم کی دعوت دی”
( بحار الانوار، ج۲۹، ص۲۱۵)


3۔عبادت میں خلوص کے فوائد
قالت فاطمة الزهراء سلام الله عليها:” من أصعد إلی الله خالص عبادته، أہبط الله عزوجل إلیه أفضل مصلحته.”
"جو شخص اپنی خالص عبادت خداوند متعال کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے (اور صرف اس کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے﴾ خدا بھی اپنی بہترین مصلحتیں اس پر نازل فرماکر اس کے حق میں قرار دیتا ہے.”
(تحف العقول ص۹۶۰ )


4۔ ایمان اور نماز کے فوائد
قالَتْ (سلام الله عليها): "فجعل الله الایمان تطهیرا لکم من الشرک ، و الصلاة تنزیها لکم عن الکبر”
"خدائے تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے شرک سے پاکیزگی کا سبب قرار دیا اور نماز کو غرور وتکبر سے دوری کا عامل.”
(احتجاج طبرسی،ج1،ص258)


5۔ ایمان و عدل کی ثمرات
قالَتْ (سلام الله عليها): "فَفَرَضَ اللّهُ الايمانَ تَطهيرا مِنَ الشِّركِ… وَ العَدلَ تَسکينا لِلقُلوبِ”
"خداوند متعال نے ایمان کو شرک سے پاکیزگی کے لئے فرض کیا ہے اور … عدل و انصاف کو قلوب کی تسکین کے لئے.”
(من لایحضرہ الفقیہ، ج 3، ص 568)


6۔ایمان، نماز، زکواة، روزے اور حج کے ثمرات
قالَتْ (سلام الله عليها): "جَعَلَ اللّهُ الاْيمانَ تَطْهيراً لَكُمْ مِنَ الشّـِرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزيهاً لَكُمْ مِنَ الْكِبْرِ، وَ الزَّکاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَ الصِّيامَ تَثْبيتاً لِلاْخْلاصِ، وَ الْحَّجَ تَشْييداً لِلدّينِ”
"اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو شرک سے پاک رکھنے والا، نماز کو تمہارے لئے تکبر سے دور رکھنے والا اور زکات کو تمہارے نفس کی پاکیزگی اور رزق کو وسعت دینے والا، روزے کو اخلاص میں ثبات عطا کرنے والا اور حج کو دین کو استحکام بخشنے والا سبب قرار دیا ہے۔”
(ریاحین الشّریعة: ج 1، ص 312، فاطمة الزّہراء (س) ص 360،.احتجاج طبرسی،ج1،ص258)


7۔ شرک کیوں حرام ہے؟
قالَتْ(عليها السلام): "وَ حَرَّمَ – اللّه – الشِّرْكَ إخْلاصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ، فَاتَّقُوا اللّه حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُّنَ إلاّ وَ أنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ أطيعُوا اللّه فيما أمَرَكُمْ بِهِ، وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنّهُ، إنَّما يَخْشَى اللّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءِ.”
” اللہ تعالیٰ نے شرک کو اپنی ربوبیت میں اخلاص کی خاطر حرام قرار دیا ہے لہٰذا خدا سے کما حقہ ڈرو۔ اور دیکھو تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ مسلمان مرو جس جس چیز کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے اور جس جس چیز سے روکا ہے ان سب میں اس کی اطاعت کرو۔ یاد رکھو کہ اللہ سے صرف اس کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں۔”
(ریاحین الشریعۃ؛ج۱، ص۳۱۲، فاطمہ الزہرا(علیہا السلام)ص۳۶۰ ،مشہور خطبہ سے اقتباس)


8۔ شراب، تہمت اور چوری کی حرمت کی وجہ
قالَتْ (عليها السلام): …” وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزيهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَاجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ايجاباً لِلْعِّفَةِ۔”
"(اور اللہ نے) شراب خوری کو پلیدی سے دور رکھنے کی خاطر ، تہمت سے پرہیز کو لعنت وملامت سے دور رکھنے کی خاطر اور چوری ترک کرنے کو عفت وپاکدامنی کی خاطر واجب کیا ہے۔”
(ریاحین الشریعۃ؛ج۱، ص۳۱۲، فاطمہ الزہراعلیہا السلام، ص۳۶۰ ،مشہور خطبہ سے اقتباس)


9۔ آل محمد ؑ کی محبت میں مرنا شہادت ہے۔
عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسی ابن جَعْفَر (ع)… عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عَلَیه ِوَ آلِه وِ سَلَّمَ ، قالَتْ (سلام الله عليها):” قَالَ رَسُولُ اللّه ِصَلَّى اللّه ِعَلَیه ِوَ آلِه ِوَ سَلَّمَ : «ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِیداً.”
حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام صادق (ع) کی بیٹی سے ایک روایت نقل کرتی ہیں جس کا سلسلہ سند حضرت فاطمہ زہرا (س) تک پہنچتا ہے ۔۔۔ حضرت زھراء (س﴾ فرماتی ہیں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: «آگاہ رہو ! جو شخص آل محمّد کی محبت کے ساتھ مرے وہ شہید مرا ہے۔”
)عوالم العلوم، ج ٢١، ص ٣٥٣)


10۔آل محمد (ع) کا تعارف
قالَتْ (سلام الله عليها): "نحن وسیلته فی خلقه و نحن خاصته و محل قدسه و نحن حجته فی غیبه و نحن ورثه أنبیائه
"ہم( اہل بیت رسول خدا (ص)) خدا کے ساتھ مخلوقات کے ارتباط کا وسیلہ ہیں؛ ہم اس کے برگزیدہ اور پاک وپاکیزہ بندے ہیں ہم اس کے غیب میں اس کی حجت ہیں اور ہم ہی اس کے انبیاء (ع) کے وارث ہیں۔”
(شرح‌ نہج‌ البلاغہ‌ لابن حدید، ج‌ 16 ، ص‌ 211)


11۔ حبدار علی (ع﴾ سعادت مند و خوش بخت ہے۔
قالَتْ (سلام الله عليها): "ان السعید، کل السعید، حق السعید من أحب علیا فی حیاته و بعد موته۔”
"بے شک حقیقت اور اور مکمل سعادتمند شخص وہ ہے جو امام علی علیہ السلام سے آپ (ع) کی حیات میں اور بعد از حیات، محبت رکھے.
( مسند احمد بن حنبل فی فضائل الصحابۃ، ج؛2، ص:658/ امالی شیخ طوسی: ص، 249)


12۔ اہل بیت (ع) کی اطاعت و امامت کے فوائد
قالَتْ (سلام الله عليها):” فجعل الله…اطاعتنا نظاما للملة و امامتنا أمانا للفرقة”
” اللہ تعالیٰ نے ہماری اطاعت کو ملت کے نظام اور ہماری امامت کو تفرقہ سے امان کا سبب قرار دیا ہے”.
(بحار الانوار، ج 43، ص 158)


13۔ امام کی مثال کعبہ کی طرح ہے۔
قالَتْ (سلام الله عليها): "مَثَلُ الإمام مَثل الكَعبة إذ تُؤتي وَ لا تَأتي”
"امام، کعبہ کی مانند ہے( لوگوں کو امام کی جانب جانا اور رجوع کرنا پڑتا ہے) جبکہ امام کسی کے پاس نہیں جاتا (لوگوں کو امام کی خدمت میں حاضرہوناپڑتا ہے چنانچہ امام کے اپنے پاس آنے کی توقع نہیں کرنی چاہئے).
(بحار الانوار ، ج 36 ، ص 353)


14 ۔ محمد و علی علیھما السلام امت کے باپ
قالَتْ (سلام الله عليها): أبَوا هِذِهِ الاْمَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىٌّ، يُقْيمانِ أَودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ أطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما.
"حضرت محمّد صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم اور علىّ علیہ السلام دونوں، اس امت کے باپ ہیں ۔دونوں امت کے انحراف کو سیدھا اور عذاب دائمی سے امت کو نجات دلاتے ہیں اگر امت ان کی اطاعت کرے، اور دونوں امت کو دائمی نعمت سے بہرہ مند کرتے ہیں اگر امت ان کے ہمراہ ہو جائے۔”
(بحارالأنوار: ج 23، ص 259، ح 8)


15 ۔ آل محمد ؑ (ص) کی فرمانبرداری کے ثمرات
قالَتْ (سلام الله عليها): أمّا وَاللّهِ، لَوْ تَرَكُوا الْحَقَّ عَلى أهْلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبيّه، لَمّا اخْتَلَفَ فِى اللّهِ اثْنانِ، وَ لَوَرِثَها سَلَفٌ عَنْ سَلَف، وَ خَلْفٌ بَعْدَ خَلَف، حَتّى يَقُومَ قائِمُنا، التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ(عليه السلام).”
” خدا کی قسم! اگر حق (خلافت) کو اس کے اہل کے سپرد کردیتے اور اپنے نبی کی عترت کے تابع ہو جاتے تو دو آدمیوں کے درمیان کبھی کسی دینی مسئلہ میں اختلاف نہ ہوتااور (خلافت و امامت کا عہدہ) لائق اور شائستہ افراد سے لائق اور شائستہ افراد کو منتقل ہوتا رہتا ۔یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہوجاتا جو میرے فرزند حسین(ع) کے نویں بیٹے ہیں۔”
(الإمامة والتبصرة: ص 1، بحارالأنوار: ج 36، ص 352، ح 224)


16۔ امام علی علیہ السلام کا تعارف
قالَتْ (سلام الله عليها):” وَهُوَ الإمامُ الرَبّانى، وَالْهَيْكَلُ النُّورانى، قُطْبُ الأقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الإمامَةِ.”
"(علی ابن ابی طالب علیہ السلام )الہی پیشوا، نور اور روشنی کا پیکر، تمام موجودات اور عارفین کا مرکز توجہ اور طاہرین و طیبین کے خاندان کے پاک و طیب فرزند ہیں؛ حق بولنے والے متکلم ہیں (بولتے ہیں تو حق بولتے ہیں)،وہ امامت و قیادت کا مرکز و محور ہیں۔ (ریاحین الشّریعة: ج 1، ص 93).


17۔ علی (ع) نے فریضۂ الہی پر عمل کیا
قالَتْ (سلام الله عليها): "ما صَنَعَ أبُو الْحَسَنِ إلاّ ما کانَ يَنْبَغى لَهُ، وَ لَقَدْ صَنَعُوا ما اللّهُ حَسيبُهُمْ وَ طالِبهُمْ.”
” جو کچھ ابو الحسن (ع) نے انجام دیا (رسول اللہ کی تدفین اور بیعت کے سلسلے میں)وہی ان کے لئے مناسب تھا اور جو کچھ لوگوں نے انجام دیا ہے اللہ اس کا ان سے حساب لے گا اور ان سے مؤاخذہ کرے گا”
.(الإمامة والسّیاسة: ص 30، بحارالأنوار: ج 28، ص 355، ح 69.)


18۔ علی (ع) فرشتوں کے بھی قاضی
عن عَبْدُ اللّهِ بْنِ مَسْعُود، فالَ: أتَيْتُ فاطِمَةَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْها، فَقُلْتُ: أيْنَ بَعْلُكِ؟ فَقالَتْ (عليها السلام): عَرَجَ بِهِ جِبْرئيلُ إلَى السَّماءِ، فَقُلْتُ: فيما ذا؟ فَقالَتْ: إنَّ نَفَراً مِنَ الْمَلائِكَةِ تَشاجَرُوا فى شَيْىء، فَسَألُوا حَكَماً مِنَ الاْدَمِيّينَ، فَأَوْحىَ اللّهُ إلَيْهِمْ أنْ تَتَخَيَّرُوا، فَاخْتارُوا عَليِّ بْنِ أبي طالِب (عليه السلام)
"عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ جناب فاطمہ (س) نے فرمایا:انھیں جبرئیل آسمان پر لے گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا ۔ کس سلسلہ میں؟فرمایا:ملائکہ کے درمیان کسی چیز کو لے کر نزاع ہوا تھا تو انھوں نے کسی انسان کو حاکم بنانے کی خواہش کی، اللہ نے ان پر وحی کی کہ کسی کو انتخاب کرو، چنانچہ ملائکہ نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو منتخب کر لیا۔”
(اختصاص شیخ مفید: ص 213، س 7، بحارالأنوار: ج 37، ص 150، ح 15.)


19۔ غدیر کے بعد کو‏ئی عذر نہ رہا
قالَتْ (سلام الله عليها): "إلَيْكُمْ عَنّي، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَديرِكُمْ، وَ الاَمْرُ بعد تقْصيركُمْ، هَلْ تَرَكَ أبى يَوْمَ غَديرِ خُمّ لاِحَد عُذْراٌ.”
"(مہاجرین وانصار سے خطاب میں فرمایا)تم مجھ سے دور ہو جاؤ غدیر کے بعدتمہارے پاس کوئی عذر نہیں ہے کوتاہیوں کے بعد بہانہ تراشی کرتے ہو کیا میرے باپ نے غدیر خم کے دن کسی کے لئے کوئی عذر باقی رکھا تھا۔”
(خصال: ج 1، ص 173، احتجاج طبرسی: ج 1، ص 146.)


20۔قرآن مجید کا تعارف
"زعیم حق لہ فیکم ، و عھد قدمہ الیکم، و بقیۃ استخلفھا علیکم کتاب اللّٰہ الناطق، و القران الصادق، و النور الساطع و الضیاء اللامح، بینۃ بصائرہ منکشفۃ سرائرہ، منجلیۃ ظواہرہ، مغتبطۃ بہ اشیاعہ ، قائد الی الرضوان اتباعہ مؤد الی النجاۃ استماعہ، بہ تنال حجج اللّٰہ المنورۃ، و عزائمہ المفسرۃ، و محارمہ المحذرۃ، و بیناتہ الجالیۃ، و براھینہ الکافیہ ، و فضائلہ المندوبۃ ، و رخصہ الموھوبۃ و شرائعہ المکتوبۃ”
"یہ قرآن تمہارے درمیان حق کا پاسدار ہے۔ اللہ کا وہ عہد ہے جو تمہارے لیے پیش کیا گیاہے۔ وہ جانشین ہے جو تمہارے لیے پیچھے چھوڑا گیا ہے۔ اللہ کی ناطق کتاب اور سچا قرآن ہے۔ چمکتا نور ، روشن چراغ ہے۔ اس کی بصیرتیں واضح، اس کے اسرار قابل انکشاف، اس کے ظواہر واضح، اس کے پیروکار قابل رشک ہیں۔ اس کی اتباع کرنے والوں کو رضائے حق کی طرف رہنمائی کرنے والا، اس کے سننے والوں کو نجات تک پہنچانے والا، اس سے اللہ کے نورانی دلائل اور اس کے واجب العمل احکام، قابل اجتناب محرمات، واضح دلائل، مکمل براہین، مطلوبہ فضائل، قابل اجازت اعمال اور واجب العمل شریعت تک رسائی ممکن ہے۔”
(الاحتجاج للطبرسی ۱: ۹۹)


21۔قرآنی سورتوں کی تلاوت کا ثواب
قالَتْ (سلام الله عليها): "قاریءُ الحدید، و اذا وقعت، و الرحمن، یدعی فی السموات و الارض، ساکن الفردوس۔”
"سورة الحدید، سورة الواقعہ اور سورة الرحمن کی تلاوت کرنے والے لوگ آسمانوں اور روئے زمين پر جنتی کہلاتے ہیں”
(کنزالعمال ، ج‌ 1 ، ص582)


22۔ بہترین اور قابل قدرترين افراد
قالَتْ (سلام الله عليها): "خیارکم الینکم مناکبة و اکرمهم لنسائهم”
فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کا سامنا کرتے وقت زیادہ نرم و مہربان ہو اور جو اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ مہربان اور زیادہ بخشنے والے ہوں.”
(دلال الامامہ ص76 و کنزالعمال ، ج‌ 7، ص225)


23۔ سیدہ طاہرہ ؑ کی پسندیدہ چیزیں
قالَتْ (سلام الله عليها): حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل الله”
"تمہاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں :تلاوت قرآن، رسول خدا (ص) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا اور، خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا۔”
( نھج الحیاۃ، ج:1، ص 271)


24۔صبر و جہاد کی ثمرات
قالَتْ (سلام الله عليها): "جعل الله … الجهاد عز للإسلام، و الصبر معونة علي استيجاب الأجر”
” اللہ تعالیٰ نے جہاد کو اسلام کی عزت اور صبر کو طلب اجر کا معاون قرار دیا ہے”
.(احتجاج طبرسی، ج 1، ص 258)


25۔ شیعہ کون ہے؟
قالَتْ (سلام الله عليها): شيعَتُنا مِنْ خِيارِ أهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَ مَوالى اَوْليائِنا وَ مُعادى أعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا
"ہمارے شیعہ اور ہمارے سارے محب اور ہمارے چاہنے والوں کے چاہنے والے اور ہمارے دشمنوں کے دشمن اور دل وزبان سے ہماری پیروی کرنے والے سب کے سب جنت کے بہترین لوگ ہیں۔”
(بحارالأنوار: ج 68، ص 155، س 20، ضمن ح 11.)


26۔ حقیقی شیعیان اہل بیت کون ہیں؟
قالَتْ (سلام الله عليها): "إنْ كُنْتَ تَعْمَلُ بِما أمَرْناكَ وَ تَنْتَهى عَمّا زَجَرْناكَ عَنْهُ، قَأنْتَ مِنْ شيعَتِنا، وَ إلاّ فَلا.”
"اگر تم ہم "اہل بیت عصمت و طہارت” کے اوامر پر عمل کرو اور جن چیزوں سے ہم نے منع کی ہے ان سے اجتناب کرو تو تم ہمارے شیعوں میں سے ہو ورنہ تو نہیں”.
(بحار الانوار، ج: 65، ص۔155)


27۔ سیدہ (س) اور آپ کے والد (ص) پر تین روز تک سلام کا ثمرہ
قالَتْ (سلام الله عليها): "مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ اَوْ عَلَيَّ ثَلاثَةَ أيّام أوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَياتِهِ وَ حَياتِكِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا. "
"جو شخص میرے والد (رسول خدا (ص) اور مجھ پر تین روز تک سلام بھیجے خدا اس پر جنت واجب کردیتا ہے۔”
راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا یہ سلام آپ اور آپ کے والد (ص) کے ایام حیات کے لئے ہے؟
سیدہ (س) نے فرمایا: ہمارے ایام حیات میں اور ہماری موت کے بعد بھی”.
(بحارالأنوار: ج 43، ص 185، ح 17.)


28۔ خواتین کے لئے کون سی چیز بہتر ہے؟
قالَتْ (سلام الله عليها): "خَيْرٌ لِلِنّساءِ أنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَ لا يَراهنَّ الرِّجالُ.”
"عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ (نا محرم)مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ہی (نامحرم)مرد انھیں دیکھیں”
(بحارالأنوار: ج 43، ص 54، ح 48)


29۔ خواتین کی میت بھی نامحرموں کی نظروں سے محفوظ ہو
قالَتْ (سلام الله عليها): "إنّى قَدِاسْتَقْبَحْتُ ما يُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إنّهُ يُطْرَحُ عَلىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُها لِمَنْ رَأى، فَلا تَحْمِلينى عَلى سَرير ظاهر، اُسْتُرينى، سَتَرَكِ اللّهُ مِنَ النّارِ.”
جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا نے جناب اسماء بنت عمیس سے فرمایا:”جو عورتوں کے ساتھ (جنازہ میں)کیا جاتا ہے مجھے بے حد نا پسند ہے کہ ایک کپڑا اس کے بدن پر ڈال دیا جاتا ہے جو دیکھنے والوں کے لئے عورت کے جسم کو نمایاں کر دیتا ہے ۔ دیکھو ہرگز مجھے ظاہری چار پائی پر نہ اٹھانا ، مجھے پوشیدہ رکھنا خدا تمہیں آتش جہنم سے محفوظ رکھے ۔ ”
(تہذیب الأحکام: ج1، ص 429، کشف الغمّہ: ج 2، ص 67، بحار:ج 43، ص 189،ح 19)


30۔ پردہ حتی نابینا مردوں سے بھی:
قالَتْ (سلام الله عليها): … "إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراه، وَ هوَ يَشُمُّ الريح.”
[ایک روز رسول خدا ؐ کے ہمراہ بیت زھراء ؑ میں ایک نابینا آدمی داخل ہوا تو حضرت زہراء (علیہا السلام) نے پردہ کیا. رسول اکرم (ص) نے فرمایا: جان پدر! یہ شخص نابینا ہے اور دیکھتا نہیں ہے تو عرض کیا] "اگر وہ (نابینا)مجھے نہیں دیکھ سکتا تو میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں اور وہ خوشبوتو سونگھ سکتا ہے ۔”
(بحارالأنوار: ج 43، ص 91، ح 16، إحقاق الحقّ: ج 10، ص 258.)


31۔ شوہر داری کا بہترین نمونہ:
قالَتْ (سلام الله عليها): يا أبَا الحَسَن، إنّى لأسْتَحى مِنْ إلهى أنْ أكَلِّفَ نَفْسَكَ ما لا تَقْدِرُ عَلَيْهِ.
بی‌بی سیدہ نے اپنے شریک حیات حضرت امیرالمؤمنین علىّ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اے ابو الحسن ! میں اپنے پروردگار سے شرم کرتی ہوں کہ آپ کو کسی ایسی چیز کی زحمت دوں جسے آپ نہ کر سکتے ہوں”۔.
(أمالى شیخ طوسى : ج 2، ص 228.)


32۔ ماں کی خدمت کی نصیحت:
قالَتْ (سلام الله عليها): الْزَمْ عجْلَها فَإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أقْدامِها و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ.
فرمایا:.” ہمیشہ ماں کی خدمت میں رہو اس لئے کہ ماؤں کے پیروں تلے جنت ہے ہمیشہ اس کی خدمت کرو کیونکہ بہشت اس کے پاس ہے۔”
(کنزل العمّال: ج 16، ص 462، ح 45443.)


33۔ روزہ کس طرح ہونا چاہیے؟
قالَتْ (سلام الله عليها):” ما يَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِيامِهِ إذا لَمْ يَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ۔”
فرمایا: ” روزہ دار اپنے روزے سے کیا اجر پائے گا جب اس نے اپنی زبان ، کان ، آنکھ اور دیگر اعضاء بدن کو (گناہوں سے)محفوظ نہیں رکھا۔”
(مستدرک الوسائل: ج 7، ص 336، ح 2، بحارالأنوار: ج 93، ص 294، ح 25.)


34۔ خوشروئی اور اس کے ثمرات
قالَتْ (سلام الله عليها): اَلْبُشْرى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصاحِبهِ الْجَنَّةَ۔”
فرمایا: "مومن کے چہرے پر خوشی لانا ( اس خوشی لانے والے) شخص کے لئے جنت کا سبب بن جاتا ہے”
(مستدرک الوسائل: ج 12، ص 262، بحار: ج 72، ص 401، ح 43.)


35۔ جمعہ کے روز دعا کا بہترین وقت:
قالَتْ (سلام الله عليها): "اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإنْ رَأيْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّى لِلْغُرُوبِ فَأعْلِمْنى حَتّى أدْعُو.”
(اپنے غلام سے فرمایا:)”چھت پر چلے جاؤ دیکھو کہ آدھا سورج ڈوب گیاہےتو مجھے باخبر کرو تاکہ میں دعا کروں۔”
(دلائل الإمامة: ص 71، س 16، معانى الأخبار: ص 399، ضمن ح 9.)


36۔ قیامت کی یاد
قالَتْ (سلام الله عليها): "يا أبَة، ذَكَرْتُ الْمَحْشَرَ وَوُقُوفَ النّاسِ عُراةً يَوْمَ الْقيامَةِ، وا سَوْأتاه يَوْمَئِذ مِنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ.”
"اے بابا! میں یاد کررہی ہوں روز محشر اور روز قیامت لوگوں کے عریاں کھڑے ہونے کو، اس روز کی اللہ سے پناہ ہے۔”
(کشف الغمّة: ج 2، ص 57، بحار الأنوار: ج 8 ، ص 53، ح 62.)


37۔ ۔ امت کے گنہگاروں کی شفاعت
قالَتْ (سلام الله عليها):” إذا حُشِرْتُ يَوْمَ الْقِيامَةِ، أشْفَعُ عُصاةَ أُمَّةِ النَّبىَّ”
فرمایا:” جب بروز قیامت میں محشور ہوں گی تو امت رسول کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گی۔.”
(إحقاق الحقّ: ج 19، ص 129.)


38۔ میت کے لئے تلاوت قرآن اور دعا
قالَتْ (سلام الله عليها): "فَأكْثِرْ مِنْ تِلاوَةِ الْقُرآنِ، وَالدُّعاءِ، فَإنَّها ساعَةٌ يَحْتاجُ الْمَيِّتُ فيها إلى أُنْسِ الاْحْياءِ.”
بی‌بی سیدہ (س)نے امام علىّ (علیہ السلام) سے وصیت میں فرمایا:(اے علی ! میری قبر پر) کثرت سے تلاوت قرآن اور دعا کرنا اس لئے کہ وہ ایسا وقت ہوتا ہے جس میں (میت کو) زندوں سے انسیت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
( بحارالأنوار: ج 79، ص 27، ضمن ح 13)


39۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونےکی ضرورت
قالَتْ (سلام الله عليها): لا يَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتُ وَ فى يَدِه ريحُ غَمَر.”
فرمایا:”جس آدمی کے ہاتھ میں کھانے کی بو بسی ہوئی ہے وہ اسی حال میں سو جائے اور اسے کوئی گزند پہنچے تو اپنے سواء کسی کو ملامت نہ کرے ”
. (کنزل العمّال: ج 15، ص 242، ح 40759.)
40۔ دسترخوان کے بارہ آداب
قالَتْ (سلام الله عليها): "فی المائدة اثنتا عشرة خصلة یجب علی کل مسلم ان یعرفها اربع فیها فرض؛ و اربع فیها سُنَّة و اربع فیها تأدیب: فامّا الفرض فالمعرفة و الرضا والتسمیة و الشکر؛ و اما السنة فالوضو ء قبل الطعام و الجلوس علی الجانب الایسر و الاکل بثلاث اصابع و لعق الاصابع؛ فامّا التأدیب فاکل بما یلیک و تصغیر اللقمه و المضغ الشدید وقلة النظر فی وجوه الناس.”
فرمایا:” آداب دسترخوان بارہ ہیں جن کا علم ہر مسلمان کو ہونا لازم ہے. ان میں سے چار چیزیں واجب، چار مستحب اور چاررعایت ادب کے لئے ہیں. واجبات دسترخوان کچھ یوں ہیں: معرفت رب، رضائے الہی، شکر پروردگار، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا؛ وہ جو مستحب ہیں یہ ہیں: کھانے سے پہلے وضو کرنا، بائیں پہلو کی جانب بیٹھنا، تین انگلیوں سے لقمہ اٹھانا اور انگلیوں کو چاٹنا اور وہ چار چیزیں جو رعایت ادب کا تقاضا ہیں یہ ہیں: جو کچھ تمہارے سامنے رکھاہے کھالینا (اور اپنے سامنے ہی سے کھا لینا)، لقمہ چھوٹا اٹھانا، خوب چبا کر کھالینا (دسترخوان پر بیٹھے ہوئے) افراد کی طرف کم ہی دیکھنا ۔”
(تحف العقول ص۔96)


41۔ اولاد رسول (ص) کے قاتلین کی مذمت
قالَتْ (سلام الله عليها): "خابَتْ أُمَّةٌ قَتَلَتْ إبْنَ بِنْتِ نَبِيِّها.”
فرمایا:” بد بخت ہے وہ قوم جو اپنے نبی کی بیٹی کے بیٹے کو قتل کردے۔”
. (مدینة المعاجز: ج 3، ص 430.)


42۔ ترک دنیا اور غاصبوں کی ابدی مخالفت …
قالَتْ (سلام الله عليها): أصْبَحْتُ وَ اللهِ! عائفة لدنیاکن قالیة لرجالکن”
[فدک غصب ہوجانے اور سیدہ سلام اللہ علیہا کے استدلال و اعتراض کے بعد مہاجرین انصار کی بعض عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کا حال پوچھنے لگیں تو سیدہ سلام اللہ علیہا نے] فرمایا: خدا کی قسم!.میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ تمہاری دنیا سے بیزار ہوں اور تمہارے مردوں سے نالاں ہوں۔”
(دلائل الإمامة: ص 128، ح 38، معانى الأخبار: ص 355، ح 2.)


43۔ صلہ رحمی کا دنیا میں اثر:
قالت سلام اللہ علیھا: "جعل اللّه ُ صلة الأرحام منسأة في العمر ومنماة للعدد "
فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کو درازی عمر اور کثرت اولاد کا سبب قرار دیا ہے۔”
(بحار الأنوار :ج: 74/94/23 )


44۔ امر بالمعروف کی حکمت:
قالت سلام اللہ علیھا: "جعل اللہ الأمر بالمعروف مصلحة للعامة”
فرمایا: "خدواند متعال نے امر بالمعروف کو اجتماعی مصلحت و مفاد کا سبب قرار دیا ہے۔”


45۔ والدین کے ساتھ نیک برتاؤ:
قالت سلام اللہ علیھا: "(جعل اللہ ) بر الوالدين وقاية من السخط”
فرمایا: "خدواند متعال نے والدین سے اچھے انداز میں پیش آنے کو غضب الہی سے نجات کا ذریعہ بنایا”


46َ۔ فقہی مسئلہ بیان کرنے کا ثواب:
حَضَرَتِ اِمْرَأَةٌ عِنْدَ اَلصِّدِّيقَةِ فَاطِمَةَ اَلزَّهْرَاءِ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَقَالَتْ إِنَّ لِي وَالِدَةً ضَعِيفَةً وَ قَدْ لُبِسَ عَلَيْهَا فِي أَمْرِ صَلاَتِهَا شَيْءٌ وَ قَدْ بَعَثَتْنِي إِلَيْكِ أَسْأَلُكِ فَأَجَابَتْهَا فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ عَنْ ذَلِكَ فَثَنَّتْ فَأَجَابَتْ ثُمَّ ثَلَّثَتْ إِلَى أَنْ عَشَّرَتْ فَأَجَابَتْ ثُمَّ خَجِلَتْ مِنَ اَلْكَثْرَةِ فَقَالَتْ لاَ أَشُقُّ عَلَيْكِ يَا اِبْنَةَ رَسُولِ اَللَّهِ قَالَتْ فَاطِمَةُ هَاتِي وَ سَلِي عَمَّا بَدَا لَكِ أَ رَأَيْتِ مَنِ اُكْتُرِيَ يَوْماً يَصْعَدُ إِلَى سَطْحٍ بِحِمْلٍ ثَقِيلٍ وَ كِرَاهُ مِائَةُ أَلْفِ دِينَارٍ يَثْقُلُ عَلَيْهِ فَقَالَتْ لاَ فَقَالَتْ اُكْتُرِيتُ أَنَا لِكُلِّ مَسْأَلَةٍ بِأَكْثَرَ مِنْ مِلْءِ مَا بَيْنَ اَلثَّرَى إِلَى اَلْعَرْشِ لُؤْلُؤاً فَأَحْرَى أَنْ لاَ يَثْقُلَ عَلَيَّ”

“ایک دفعہ صدیقہ طاہرہ حضرت زہراءؑ کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی ۔اس نے عرض کیا : میری والدہ اس وقت کمزور وضعفیہ ہیں۔انھیں نماز کے دوران فلاں امر میں اشتباہ ہوا ہے۔انہوں نےمجھے آپ کی بارگاہ میں بھیجا ہے کہ میں آپ سے یہ مسئلہ دریافت کروں ۔صدیقہ طاہرہؑ نے اس عورت کو مسئلہ بتایا اور وہ چلی گیئں۔پھر وہ دوسری مرتبہ آپؑ کے پاس وہی مسئلہ لے کر آئی۔آپؑ نے اسے جواب دیا اور وہ چلی گئی ،حتیٰ کہ وہ اس طرح دس مرتبہ آپؑ کے پاس آئی اور آپؑ نے ہر بار بغیر کسی تھکاوٹ اور الجھن کے اسے جواب دیا۔آخرکار وہ عورت اپنی اس آمدرفت اور ایجاد زحمت سے شرمندہ ہوئی اور اس نے آپؑ کی خدمت میں عرض کیا :اے رسول اللہ کی دختر میں آپ کے لئے زحمت و مشقت کا باعث بنی ہوں ۔مجھے معاف کردیجے۔آپؑ نے فرمایا : اے میری دوست تو دیکھ ایک شخص کو مزدوری کے لئے کہا گیا کہ وہ بھاری چیز چھت پر لے جائے اور اس کی اجرت ایک لاکھ دینار مقرر کی گئی ہے۔کیا یہ کام اس آدمی پر سنگین وبھاری ہوگا؟اس عورت نے جواب دیا نہیں۔آپ نے فرمایا :ہر مسئلہ میں میری جو اجرت مقرر رہے وہ تحت الثریٰ سے لے عرشِ اولیٰ تک موتیوں کو سے لبریز فضا ہے اب تیرا کیا خیال ہے ؟کیا تیرا مجھ سے باربار سوال کرنا مجھ پر بھاری ہوگا؟”
(بحار الانوار، ج:2، ص:03)


47۔ علماء و مبلغین اسلام کا آخرت میں مقام:
قالت سلام اللہ علیھا: سَمِعْتُ أَبِي صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقُولُ إِنَّ عُلَمَاءَ شِيعَتِنَا يُحْشَرُونَ فَيُخْلَعُ عَلَيْهِمْ مِنْ خِلَعِ اَلْكَرَامَاتِ عَلَى قَدْرِ كَثْرَةِ عُلُومِهِمْ وَ جِدِّهِمْ فِي إِرْشَادِ عِبَادِ اَللَّهِ حَتَّى يُخْلَعُ عَلَى اَلْوَاحِدِ مِنْهُمْ أَلْفُ أَلْفِ حُلَّةٍ مِنْ نُورٍ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادِي رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا اَلْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ اَلنَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ اِنْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ اَلَّذِينَ هُمْ أَئِمَّتُهُمْ هَؤُلاَءِ تَلاَمِذَتُكُمْ وَ اَلْأَيْتَامُ اَلَّذِينَ كَفَلْتُمُوهُمْ وَ نَعَشْتُمُوهُمْ فَاخْلَعُوا عَلَيْهِمْ خِلَعَ اَلْعُلُومِ فِي اَلدُّنْيَا فَيَخْلَعُونَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أُولَئِكَ اَلْأَيْتَامِ عَلَى قَدْرِ مَا أَخَذُوا عَنْهُمْ مِنَ اَلْعُلُومِ حَتَّى إِنَّ فِيهِمْ يَعْنِي فِي اَلْأَيْتَامِ لَمَنْ يُخْلَعُ عَلَيْهِ مِائَةُ أَلْفِ خِلْعَةٍ وَ كَذَلِكَ يَخْلَعُ هَؤُلاَءِ اَلْأَيْتَامُ عَلَى مَنْ تَعَلَّمَ مِنْهُمْ ثُمَّ إِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ أَعِيدُوا عَلَى هَؤُلاَءِ اَلْعُلَمَاءِ اَلْكَافِلِينَ لِلْأَيْتَامِ حَتَّى تُتِمُّوا لَهُمْ خِلَعَهُمْ وَ تُضَعِّفُوهَا لَهُمْ فَيَتِمُّ لَهُمْ مَا كَانَ لَهُمْ قَبْلَ أَنْ يَخْلَعُوا عَلَيْهِمْ وَ يُضَاعَفُ لَهُمْ وَ كَذَلِكَ مَنْ يَلِيهِمْ مِمَّنْ خَلَعَ عَلَى مَنْ يَلِيهِمْ وَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ يَا أَمَةَ اَللَّهِ إِنَّ سِلْكَةً مِنْ تِلْكَ اَلْخِلَعِ لَأَفْضَلُ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ اَلشَّمْسُ أَلْفَ أَلْفِ مَرَّةٍ وَ مَا فَضَلَ فَإِنَّهُ مَشُوبٌ بِالتَّنْغِيصِ وَ اَلْكَدَرِ.”
” آپ (س) نے فرمایا:میں نے اپنے بابا رسولؐ اللہ سے سناہے کہ انھوں نے فرمایا:ہماری مکتب کے علماء ودانشور اس حال میں میدانِ محشر میں وارد ہوں گے تو ان کے علم ودانش اور اس راہ میں جدو جہد کے مطابق انھیں خُلعت ہائے کرامت پہنائی جائیں گی اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے کہ جنھوں نے اس دنیا میں علم کی حصول میں اور علم ودانش کی ترویج و تبلیغ میں بہت زیادہ زحمات اٹھائی ہوں گی تو انھیں ہزار ہزار نور کے حلّے پہنائے جائیں گے۔ میدان محشر میں خدا وند عالم کی طرف سے ندا بلند ہوگی ،کہ ہاں اے وہ صاحبان علم و دانش کہ تم نے یتیمان آل محمد ؐ کی علمی و دینی و فکری سر پرستی کی تھی۔ان کے حقیقی آبا ء کی آئمہ طاہرینؑ کی رحلت کے بعد تم نے بھر پور شائستگی کے ساتھ ان کی محافظت و مراقبت و کفالت کی تھی۔تم نے انھیں دابش و بینش سے لبریز اور شاداب کردیا تھا۔ جس قدر تم نے انھیں علوم سکھلائے اسی مقدار میں اسی طرح اب بھی انھیں جنت کی نورانی خلعتوں سے آراستہ و پیراستہ کرو۔اس وقت یہ علماء ان یتیموں اور اپنے شاگردوں کو ان کے حصول علم کے مطابق اور حسبِ مراتب خلعت پہنائیں گے ،یہاں تک کہ بعض یتیم لاکھ لاکھ خلعت پاجائیں گے۔اس طرح یہ یتیم اپنے شاگردوں کو خلعت تقسیم کریں گے۔بعد ازاں اللہ پھر حکم فرمائے گا کہ ان یتیموں کی کفالت کرنے والے علماء کو پھر خلعت دیجئے پھر انھیں وہ خلعت ملیں گے ،یہاں تک کہ انھیں دگنا کردیا جائے گا اور ان شاگردوں میں تقسیم سے قبل جس قدر خلعت ان کے پاس ہوں گے اسی قدر انھیں دگنا کردیا جائے گا ۔ اس طرح حسب مراتب ان کے خلعت یافتہ شاگردوں کا حال ہوگا۔پھر حضر ت فاطمہ زہراءؑ نے اس عورت سے فرمایا: اے کنیز خدا ان بہشتی خلعتوں کا ایک دھاگہ ان تمام اشیاء جن پر آفتاب چمکتا ہے لاکھ مرتبہ افضل اور اعلیٰ ہے۔”
(بحار الانوار :ج2،ص3 ریاحین الشرعیہ :ج 2ص 130 )


48۔ چوری سے اجتناب کی حکمت:
قالَتْ (سلام الله عليها):”جعل اللہ ترک السرقۃ ایجاباً للعفۃ”
فرمایا: خداوند متعال نے چوری سے اجتناب کو عفت و پاکیزگی کی بقاء کا سبب قرار دیا ہے۔”


49۔ میں سب سے پہلے اپنے والد سے ملحق ہونگی:
قالَتْ (سلام الله عليها): "يا أبَا الْحَسَنِ! إنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ أهلِهِ لُحُوقاً بِهِ وَ لا بُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِمْرِاللّهِ تَعالى وَ ارْضَ بِقَضائِهِ.”
فرمایا: اے ابو الحسن! اللہ کے رسول نے مجھ سے عہد لیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں ان کے اہل خانوادہ میں سب سے پہلے ان سے محلق ہونے والی ہوں اور یہ ہوکے رہے گا لہٰذا امر الٰہی کے آگے صبر کیجئے اور اس کے فیصلہ پر راضی رہئے۔”
(بحارالأنوار: ج 43، ص 200، ح 30.)


50۔ اپنی مظلومیت کا بیان:
قالت سلام اللہ علیھا : "یا ابتاہ:صُبَّتْ عَلَيَّ مَصَائِبٌ لَو أَنَّهَا صُبَّتْ عَلَى الأَيَّامِ صِرْنَ لَيَالِيَا ۔”
فرمایا؛ "بابا جانؐ ! آپ کے جانے کے بعد مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر روشن دنوں پر پڑتی تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہوجاتے۔”
(مناقب آل أبي طالب۔ ج ٢ :ص: ١٣١، اعلام النساء، ج:4، ص:113)


51: یاعلی مجھے ہرگز نہ بھولنا
قالَتْ (سلام الله عليها): أوُصيكَ يا أبَا الْحَسنِ أنْ لا تَنْسانى، وَ تَزُورَنى بَعْدَ مَماتى.
سیدہ (س) نے اپنی وصیت کے ضمن میں فرمایا: "اے ابوالحسن ! میں آپ سے وصیت کرتی ہوں کہ آپ مجھے بھول نہ جائیے گا اور میری موت کے بعد میری زیارت کو تشریف لایئے گا۔”
( الموسوعۃ الکبریٰ عن فاطمۃ الزھراء (س)، ج:15، ص: 117)


52۔ عہدشکن میری میت پر نماز نہ پڑھیں
قالَتْ (سلام الله عليها): لا تُصَلّى عَلَيَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَ اللّهِ وَ عَهْدَ أبى رَسُولِ اللّهِ فى أمير الْمُؤمنينَ عَليّ، وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ، وَ أخَذُوا إرْثى، وَ خَرقُوا صَحيفَتى اللّتى كَتَبہا لى أبى بِمُلْكِ فَدَک.
فرمایا: "وہ لوگ جنہوں نے امیرالمؤمنین علىّ (علیہ السلام) کے بارے میں خدا اور میرے والد رسول خدا (ص) کے ساتھ کیا ہوا عہد توڑا اور میرے حق میں ظلم کا ارتکاب کیا اور میرے ارث کو غصب کیا اور جنہوں نے میرے لئے وہ صحیفہ پھاڑڑ ڈالا جو میرے والد نے فدک کے سلسلے میں میرے لئے لکھا تھا وہ میری میت پر نماز نہ پڑھیں.”
(بیت الأحزان: ص 113، کشف الغمّة: ج 2، ص 494)


 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button