سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے نمونے اور وجوہات

مقالہ نگار:محمد عمار یاسر(متعلمِ جامعۃ الکوثر )
خلاصہ
اس مقالہ میں جنابِ فاطمہؑ کے اپنے باباؐ کے ساتھ سلوک کے ایسے واقعات و اقوال کو بیان کیا گیا ہے جن سے معصومہؑ کی اپنے باباؐ سے ایک خاص محبت کا اظہار ہوتا ہے اور ان محبت کی مثالوں میں سے مشرکین کی جانب سےرسولِ خدا کی توہین کرنے پہ بی بیؑ کا اپنے باباؐ کے ساتھ سلوک، غزوہِ اُحد کا واقعہ، آپؑ کو امِ ابیھا کہنے کی وجہ اور رسولِؐ خدا سے دو مختلف خبریں سننے پہ شہزادی کے ردِ عمل کے واقعات کو ذکر کیا گیاہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس محبت کی وجہ کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں اور آیا سیدہؑ کی اپنے باباؐ سے محبت صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ آپؑ کے پدر ہیں؟ یا اس خاص محبت کی وجہ کچھ اور ہے جو کسی بھی ایسے انسان پر واضح ہوسکتی ہے جو شہزادیؑ کی اپنے باباؐ سے خاص محبت کے واقعات کا کتب سے مطالعہ کرتا ہے۔
مقدمہ
تمام حمد و ثناء کے لائق وہ بے مثل و بے مثال ذات ہے جس نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیاءؑ و اوصیاءؑ کاسلسلہ جاری فرمایا اور اس کا اختتام ائمہ اثنا عشر پر کیا اور انہی کے ساتھ ایک ایسی مستورہ کو بھی نمونہ عمل قرار دیا جو ناصرف عوام الناس پر بلکہ امام حسن عسکریؑ کے فرمان کے مطابق خود ائمہ پر حجتِ خدا ہیں(1) اور بارہویں امام کے فرمان کے مطابق خود امام زمانہ عجل اللہ فرجہ کے لیے نمونہ عمل ہیں(2)اور بعد از حمد، درود و سلام ہو محمد و آل محمدﷺ کی ذوات مقدسہ پر جن کے اقوال و اعمال امت کی دنیاوی و اخروی کامیابی کا ذریعہ ہیں ۔
رسولِ خداﷺکی اپنی دختر سے محبت و الفت کو بہت سی کتب میں بیان کیا جاتا ہے بلکہ سیرت و تاریخ کی بھی کتب جو جناب سیدہؑ کے حوالے سے لکھی گئی ہیں ان میں رسول خداؐ کی اپنی بیٹی سےمحبت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور اس پہ کثرت سے احادیث بیان کی گئی ہیں البتہ یہ موضوع جو ہمارے زیرِ نظر ہے "جناب فاطمہ زہراءؑ کی نبی اکرمؐ سے محبت کے نمونے اور وجوہات” ایک خاص نوعیت کا حامل ہے اس پہ کتب تاریخ و سیرت میں بطورِ اشارہ ذکر کیا گیا ہے اس لحاظ سے یہ ایک خاص اہمیت کا حامل موضوع ہے ، کہ وہ ہستی جوکائنات کی عورتوں کی سردار ہیں اور ہر محبِ اہل بیتؑ کے لیے محبوب ترین ہستی ہیں ان کے لیے بھی ایک ایسی ذات موجود ہیں جو خود سیدہؑ کے نزدیک محبوب ترین ہستی ہیں اور وہ سیدہؑ کے باباؐ ہیں اور آپؑ کی اپنے باباؐ سے محبت صرف ایک والد ہونے کے لحاظ سے نہ تھی بلکہ یہ محبت الہی محبت تھی۔
جناب سیدہؑ کی اپنے باباؑ سے محبت بھری زندگی کو ان چند صفحات میں بیان کرنا ایسے ہی ناممکن امر ہے جیسے سمندر کو کوزہ میں بند کرنا چنانچہ ہم نے چند منتخب نمونوں کو ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے سب سے پہلے محبت کی وجوہات پہ کچھ حد تک روشنی ڈالنے کی کوشش کی اور بعد ازاں محبت بھرے اقوال و واقعات کو بیان کیا ہے۔
محبت کی وجوہات
دنیاوی محبت کی وجوہات کئی مادی اشیاء ہوا کرتی ہیں جن میں سے ممکن ہے کہ کچھ کا تعلق آخرت سے ہو البتہ دنیاوی محبت دنیا تک ہی محدود ہوتی ہے باالفاظِ دیگر دنیاوی محبت فناء پذیر ہے البتہ ان تمام مادی اشیاء کو آخرت کے لیے بھی فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ان مادی و دنیاوی اشیاء سے محبت صرف مادیات کی حد تک نہ ہو بلکہ الہی محبت بن جائے۔
الہی محبت کو دو علامات کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے:
(1) انسان کےکسی بھی ذات، شی یا کام سے محبت کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہو تو یہ ان اشیاء سے محبت بھی الہی محبت بن جائے گی جیسا کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے اور اس موضوع پہ اصولِ کافی شیخ کلینیؒ میں ایک مکمل باب تشکیل دیا ہے "الحب فی اللہ و البغض فی اللہ” یہاں پہ صرف ایک حدیث کو ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں :
(بحذف سند) عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال :”من احب للہ و ابغض للہ واعطیٰ للہ فھو ممن کمل ایمانہ”(3)
جو اللہ کے لیے محبت کرے، اللہ کی وجہ سے نفرت کرےاور اللہ کی خاطر عطا کرے تو یہ شخص ان افراد میں سے ہے جن کا ایمان کامل ہے۔
اس کے علاوہ ایسی احادیث بھی نقل کی گئی ہیں جن میں الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کو افضل الاعمال شمار کیا گیا ہے(4)
(2) اگر انسان کسی دنیاوی ذات یا شی سے محبت کرنا اس کو خدا سے قریب کر رہاہو تو یہ الہی محبت شمار ہوگی اور اگر خدا سے دوری کا سبب بن رہی ہو تو یہ دنیاوی محبت شمار ہوگی کیونکہ احادیث میں آیا ہے انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ محشور ہوگا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
"ایاک ان تحب اعداء اللہ او تصفی ودک لغیر اولیاء اللہ فان من احب قوما حشر معھم "
خدا کے دشمنوں سے محبت کرنے سے بچواور خدا کے دوستوں کے علاوہ ،اوروں کے ساتھ اپنی محبت خالص نہ رکھو کیونکہ جو شخص جس قوم سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔ (5)
اور ایک اور مقام پہ امام علیؑ نے فرمایا:
"المعین علی الطاعۃ خیر الاصحاب”
اطاعتِ (پروردگار) پر تعاون کرنے والا بہترین دوست ہوتا ہے۔ (6)
بات یہاں تمام نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی کام جو بظاہر دنیاوی لحاظ سے اچھا کام ہو اور انسان اس کو تقرب الی اللہ کی نیت سے انجام دے تو یہ کام بھی الہی کام بن جائے گا البتہ ضروری ہے کہ اس کام میں کسی قسم کی قباحت نہ ہو مثلاً اگر کوئی دنیاوی مقاصد کے لیے صاف ستھرا رہتا ہے تو اس کا یہ کام الہی نہ ہوگا البتہ یہی صفائی خدا کی قربت کے حصول کے لیے ہو تو انسان کا صاف رہنا بھی الہی کام شمار ہوگا، اب اگر کوئی اسی صفائی سے اس لیے محبت کرتا ہو کہ خدا صاف ستھرا رہنے والوں سے محبت کرتا ہے”ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین"(7) تو اس صفائی سے محبت بھی الہی محبت شمار ہوگی۔
ایک نکتہ اور بیان کرتا چلوں کہ ذوات کے مختلف ہونے سے انسان کی محبت بھی کم یا زیادہ ہوا کرتی ہے مثلاً اپنے قریبی ترین رشتہ دار جن میں والدین،اولاد، ازواج، اخوہ و اخوات شامل ہیں انسان ان سے باقی رشتہ داروں کی نسبت زیادہ محبت کرتا ہے اگرچہ مذکورہ بالا نسبی رشتوں میں بھی محبت برابر کی نہیں ہوتی بلکہ کسی سے زیادہ اور کسی سے کم ہوتی ہے اگر ان عزیز ترین رشتہ داروں سے محبت بھی اللہ کی وجہ سے ہو اور ان سے محبت انسان کو خدا کے قریب کرے تو یقیناً ان سے محبت بھی الہی محبت ہوگی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں محبت و نفرت کا ایک معیار و میزان قائم کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر ایک مومن کو اپنی زندگی کے کاموں کو مرتب کرنا چاہیے اور اسی معیار پہ کسی سےحتیٰ اپنے قریبی ترین رشتوں سے بھی محبت یانفرت کرنی چاہیے الغرض اسی میزان پہ مومن کا ایمان پرکھا جائے گا جیسا کہ خداوند متعال کا فرمان ہے:
” لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ”
آپ کبھی ایسے افراد نہیں پائیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہوں خواہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں (8)
خدا کی مشیتِ تشریعی یہی ہے کہ اس کے بندے اس کو اور اس کے حبیبؐ کو سب سے زیادہ محبوب رکھیں اسی لیے سورہ توبہ میں ان لوگوں کے لیے تحدیدی لہجہ اپنایا ہے جو اللہ تعالیٰ و رسول خداﷺسے بڑھ کر کسی اور سے محبت کرتے ہیں فرمایا:
” قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ "
کہدیجئے:تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (9)
اور سابقہ حدیث جس میں بیان کیا گیا کہ اگر کسی سے محبت ہو تو وہ بھی اللہ کی خاطر اور اگر کسی سے نفرت ہو تو وہ بھی اللہ کی خاطر ہو، تو اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ محبت حقیقی و اولی اگر کسی سے ہونی چاہیے تو وہ اللہ کی ذات ہے اور اگر کسی سے محبت کی جائے تو وہ بھی خدا کی وجہ سے کی جائے، اب اگر ہم ایک ایسی ذات سے متعلق گفتگو کرنا چاہیں جن کی زندگی کا ہر کام بلکہ ان کی لسانِ مبارک سے صادر ہونے والا ہر ہر کلمہ خدا کی ذات کے لیے ہو جو ہر قول و فعل میں خدا کی رضا چاہتی ہوں جس کی وجہ سے آپؐ کو راضیہ(10) جیسا لقب خود خدا نے عطا کیا ہو اور اس قدر خدا کی رضا کی جستجو میں محو ہوجائیں کہ خدا ان کو مرضیہ(11) جیسا لقب عطا فرما دے کہ جناب سیدہؑ کی رضا خدا کی رضا بن جائےاور ان کا غضب خدا کا غضب بن جائے (12) اور بی بیؑ کے کلمات جو ناصرف خود آپؑ کے لیے تقرب الہی کا ذریعہ ہوں بلکہ کسی بھی فرد کا ان الفاظ کو سننا اور پڑھنا ان افراد کے لیے تقرب الہی کا ذریعہ ہو تو یقیناً اگر وہ کسی سے محبت کرتی ہیں تو اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے اوراگر کسی سے نفرت کرتی ہیں تو اس کا معیار بھی خدا کی ذات ہے۔تو یہاں سے معلوم ہوا کہ جناب سیدہؑ کی محبت الہی محبت ہے اور ان کی محبت و نفرت کا معیار بھی اللہ کی ذات ہے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی باباؐ سے محبت
مذکورہ بالا بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ جناب سیدہؑ کسی سے محبت کرتی ہیں تو اس کی وجہ و سبب خدا کی ذات ہے اور اسی بیان سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب سیدہؑ اگر اپنے باباؐ سے محبت کرتی ہیں اور اپنی زندگی میں اس کا عملاً اظہار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جس کے چند نمونے آگے چل کے بیان کیے جائیں گے تو اس کی وجہ یہ قرار دینا کہ سید الانبیاءؐ شہزادی کے باباؐ ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ شدتِ محبت اس بناء پہ تھی کہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں اور الہی نمائندہ ہیں چنانچہ پہلے بیان کیا گیا کہ قرآن و حدیث میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ کسی سے بھی محبت کی وجہ خداوند متعال کی ذات ہونا چاہیے اگرچہ وہ اللہ کے رسولؐ ہی کیوں نہ ہوں، اس بات کو ایک حدیث کے ضمن میں واضح کرتے چلیں:
ایک نوجوان نے رسولِ خداؐ کو سلام کیا اور مسرت بھرے انداز میں آپؐ کے رخِ انور کو دیکھنے لگا رسولِ خداؐ نے اس سے فرمایا: "اتحبنی یافتی!” اے جوان کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں ! خدا کی قسم اے اللہ کے رسولؐ! آنحضرتؐ نے فرمایا: "مثل عینیک” اپنی آنکھوں کی طرح؟ اس نے کہا ان سے بڑھ کر۔ فرمایا: "مثل ابیک” اپنے والد کی طرح؟ کہا: ان سے بھی زیادہ۔ فرمایا: "امک” اپنی ماں کی مانند؟ کہا: ان سے بھی زیادہ۔ فرمایا: "مثل نفسک” خود اپنے برابر؟ کہا: خدا کی قسم اے اللہ کے رسولؐ! اس سے بھی کہیں زیادہ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: "امثل ربک” کیا اپنے پروردگار کی طرح؟ کہا: اللہ! اللہ! اللہ! اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ سے یا کسی اور سے میری محبت کی وجہ کوئی اور نہیں، بخدا میں آپؐ سے خدا کی محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہوں۔ چنانچہ سید الانبیاءؐ نے اپنےاصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: "ھکذا کونوا احبوا اللہ لاحسانہ الیکم وانعامہ علیکم واحبونی لحب اللہ” اسی طرح تمہیں بھی چاہیے کہ تم خدا سے اس کی طرف سے تم پر کیے گئے احسان اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کی وجہ سے محبت کرو، اور مجھ سے خدا کی محبت کی وجہ سے محبت کرو۔ (13)
اب جب کہ اس حدیث میں آیا کہ "مجھ سے اللہ کی محبت کیوجہ سے محبت کرو” اور سابقہ بیان کی گئی آیات و حدیث میں بیان ہوا کہ اللہ و رسولؐ سے سب سے زیادہ محبت کی جائے تو جناب سیدہؐ کی نسبت یہ بات مقام یقین تک پہنچتی ہے کہ ان کے لیے سب سے زیادہ محبوب ہستی بعد از خدا، سید الانبیاءؐ کی ہے اور خود سید الانبیاءﷺ سے محبت خدا سے محبت کی وجہ سے ہے۔
بی بیؑ کی اپنے باباؐ سے محبت کے نمونے
اس بات کےبیان کے بعد کہ سیدہؑ کی اپنے باباؐ سے محبت خدا کی محبت کی وجہ سے تھی اب اس محبت کے چند نمونے بیان کرنا چاہیں گے قبل از بیان ذکر کرتے چلیں کہ اظہارِ محبت دو طرح سے ممکن ہے ایک مرتبہ محبوب کا ذکر کرنا اور اس کی شان الفاظ کے ضمن میں بیان کرنا اور دوسری مرتبہ میدانِ عمل میں محبوب سے محبت کا اظہار کرنا، چونکہ اس مختصر رسالہ میں جناب سیدہؐ کی وہ ساری زندگی بیان نہیں کی جاسکتی جو آپؑ کی اپنے باباؐ کے ساتھ گزری جس میں بی بیؑ کی اپنے باباؐ سے محبت بھری سیرت ہے، لہذا چند منتخب نمونے بیان کیے دیتے ہیں:
کلمات و فرمودات کے ذریعے
جناب سیدہؑ نے اپنے خطبہِ فدک میں اپنے باباؐ کے بارے میں جو کلمات ارشاد فرمائے وہ اپنی مثال آپ ہیں اس میں بی بیؑ نے اپنے باباؐ کا مقام بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہؑ کو اپنے بابا سے کس قدر محبت تھی وہ جملے یہاں نقل کرتے ہیں :
” وَأَشْهَدُ أنّ أبي مُحَمَّداً صلّى الله عليه وآله عبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اخْتارَهُ وَانْتَجَبَهُ قَبْلَ أَنْ أَرْسَلَهُ، وَسَمّاهُ قَبْلَ أنِ اجْتَبَلَهُ، وَاصْطِفاهُ قَبْلَ أنِ ابْتَعَثَهُ، إذِ الْخَلائِقُ بالغَيْبِ مَكْنُونَةٌ، وَبِسِتْرِ الأَهاويل مَصُونَةٌ، وَبِنِهايَةِ الْعَدَمِ مَقْرُونَةٌ، عِلْماً مِنَ اللهِ تَعالى بِمآيِلِ الأُمُور، وَإحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ، وَمَعْرِفَةً بِمَواقِعِ الْمَقْدُورِ. ابْتَعَثَهُ اللهُ تعالى إتْماماً لأمْرِهِ، وَعَزيمَةً على إمْضاءِ حُكْمِهِ، وَإنْفاذاً لِمَقادِير حَتْمِهِ.فَرَأى الأُمَمَ فِرَقاً في أدْيانِها، عُكَّفاً على نيرانِها، عابِدَةً لأَوثانِها، مُنْكِرَةً لله مَعَ عِرْفانِها. فَأَنارَ اللهُ بِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وآله ظُلَمَها، وكَشَفَ عَنِ القُلُوبِ بُهَمَها، وَجَلّى عَنِ الأَبْصارِ غُمَمَها، وَقَامَ في النّاسِ بِالهِدايَةِ، وأنقَذَهُمْ مِنَ الغَوايَةِ، وَبَصَّرَهُمْ مِنَ العَمايَةِ، وهَداهُمْ إلى الدّينِ القَويمِ، وَدَعاهُمْ إلى الطَّريقِ المُستَقيمِ.ثُمَّ قَبَضَهُ اللهُ إليْهِ قَبْضَ رَأْفَةٍ وَاختِيارٍ، ورَغْبَةٍ وَإيثارٍ فِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وآله منْ تَعَبِ هذِهِ الدّارِ في راحةٍ، قَدْ حُفَّ بالمَلائِكَةِ الأبْرارِ، وَرِضْوانِ الرَّبَّ الغَفارِ، ومُجاوَرَةِ المَلِكِ الجَبّارِ. صلى الله على نبيَّهِ وأَمينِهِ و خیرتہ من الخلق و صفیہ، والسَّلامُ عَلَيْهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ.”
"اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر محمد ﷺ اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں، اللہ نے ان کو رسول بنانے سے پہلے انہیں برگزیدہ کیا تھا اور ان کی تخلیق سے پہلے ہی ان کا نام روشن کیا، اور مبعوث کرنے سے پہلے انہیں منتخب کیا جبکہ مخلوقات ابھی پردہِ غیب میں پوشیدہ تھیں وحشت ناک تاریکی میں گم تھیں اور عدم کی آخری حدود میں دبکی ہوئی تھیں۔ اللہ کو (اس وقت بھی) آنے والے امور پر آگہی تھی اور آئندہ رونما ہونے والے ہر واقعہ پر احاطہ تھا اور تمام مقدرات کی جائے وقوع کی شناخت تھی، اللہ نے رسول کو اپنے امور کی تکمیل اور اپنے دستور کے قطعی ارادے اور حتمی مقدورات کو عملی شکل دینے کے لیے مبعوث فرمایا رسول خداؐ نے اس وقت اقوامِ عالَم کو اس حال میں پایا کہ وہ دینی اعتبار سے فرقوں میں بٹی ہوئی ہیں، کچھ اپنے آتشکدوں میں منہمک اور کچھ بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف، معرفت کے باوجود اللہ کی منکر تھیں پس اللہ تعالیٰ نے میرے والد گرامی محمدؐ کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کردیا اور دلوں سے ابہام کو اور آنکھوں سے تیرگی کو دور کردیا، (میرے والد نے) لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا اور انہیں گمراہوں سے نجات دلائی۔ آپ انہیں اندھے پن سے بینائی کی طرف لائے نیز آپؐ نے استوار دین کی طرف ان کی رہنمائی کی، راہِ راست کی طرف انہیں دعوت دی پھر اللہ نے آپؐ کو اپنے پاس بلا لیا شوق و محبت اور اختیار و رغبت کے ساتھ نیز (آخرت کی) ترغیب و ترجیح کے ساتھ۔ اب محمدؐ دنیا کی تکلیفوں سے آزاد ہیں، مقرب فرشتے ان کے گرد حلقہ بگوش ہیں، آپ رب غفار کی خوشنودی اور خدائے جبار کے سایہِ رحمت میں آسودہ ہیں، اللہ کی رحمت ہو اس کے نبی امین پر جو ساری مخلوقات سے منتخب و پسندیدہ ہیں، اور اللہ کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں ہوں آپؐ پر۔(14)
اس کے علاوہ جناب سیدہؑ کا ایسا فرمان بھی کتب احادیث میں مذکور ہے جس میں بی بیؑ نے اس دنیا میں اپنی محبوب چیزوں کا ذکر فرمایا آپؑ نے فرمایا:
"حبب الی من دنیاکم ثلاث : تلاوۃ کتاب اللہ و النظر فی وجہ رسول اللہ و الانفاق فی سبیل اللہ”
مجھے تمہاری دنیا سےتین چیزیں پسند آئیں: کتاب اللہ کی تلاوت کرنا، رسول خداﷺکے چہرے کی زیارت کرنا اور راہ خدا میں انفاق کرنا۔ (15)
عالَمِ طفولیت کا واقعہ
جناب سیدہؑ کے بچپن کاایک واقعہ ملتا ہے جس کو بخاری نے اپنی شہرت یافتہ کتاب صحیح بخاری میں متعدد مقامات پہ متعدد اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے یہاں پہ اسی واقعہ کو ذکر کرنے پہ اکتفا کرتے ہیں:
” ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي عند البيت وابو جهل واصحاب له جلوس، إذ قال بعضهم لبعض، ايكم يجيء بسلى جزور بني فلان فيضعه على ظهر محمد، إذا سجد فانبعث اشقى القوم، فجاء به، فنظر حتى إذا سجد النبي صلى الله عليه وسلم وضعه على ظهره بين كتفيه وانا انظر لا اغير شيئا لو كان لي منعة، قال: فجعلوا يضحكون ويحيل بعضهم على بعض، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد لا يرفع راسه حتى جاءته فاطمة، فطرحت عن ظهره، فرفع راسه، ثم قال: اللهم عليك بقريش ثلاث مرات، فشق عليهم إذ دعا عليهم، قال: وكانوا يرون ان الدعوة في ذلك البلد مستجابة، ثم سمى اللهم عليك بابي جهل، وعليك بعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وامية بن خلف، وعقبة بن ابي معيط، وعد السابع، فلم يحفظ، قال: فوالذي نفسي بيده لقد رايت الذين عد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرعى في القليب قليب بدر”.
(بحذف سند) عبد اللہ ابن مسعود حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو)اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھ میں روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں)کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔ (16)
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اور غزوہِ احد
سیدہؑ نے جہاں اپنی ساری زندگی میں اپنے باباؐ سے محبت کا ایسا سلوک رکھا جو دنیا کی کوئی بیٹی پیش نہیں کر سکتی اسی محبت کی ایک بہترین مثال ہمیں جنگِ اُحد میں دیکھنے کو ملتی ہے جس جنگ میں سید الانبیاءﷺشدید زخمی ہوگئے تھے اسی واقعہ کو یہاں ذکر کیے دیتے ہیں:
جنگِ احد کی جنگ کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب رسولِ خداﷺکو ایک پتھر لگا جس سے آپؐ کی پیشانی مبارک زخمی ہوگئی پھر دوسرا پتھر آپؐ کے دہنِ مبارک پر لگا جس سے آپ کے دو دانت بھی شہید ہوگئے تھے، آپؐ کی پیشانی اقدس سے خون بہا جس نے آپؐ کی ریشِ مبارک کو رنگین کردیا۔ اس دوران ابلیس نے چیخ بلند کی جسے احد میں مسلمانوں نے سنا اور اہل مدینہ نے بھی سنا، اس نے کہا "قُتِل محمد” محمد قتل ہوگئے، میدانِ جنگ میں تزلزل پیدا ہوا ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ اس آواز کو سن کر بہت سے لوگ بھاگ نکلے، لیکن اہلِ ایمان ثابت قدم رہے۔ یہی چیخ مدینہ میں بھی پہنچی تو فوراً حضرت عبد المطلبؑ کی بیٹی صفیہ، رسولِ خداؐ کی پھپھی اور جنابِ فاطمہ زہراءؑ میدانِ اُحد کی طرف آئیں، حضرت فاطمہؑ کی چیخیں بلند ہوئیں آپؑ کی حالت یہ تھی کہ آپؐ اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوئے تھیں اور رورہی تھیں، تمام ہاشمیات اور قریشی خواتین سبھی اس صورت میں نکلیں کہ ان کا ہاتھ سر پر تھا اور بلند آواز سے رو رہی تھیں جنابِ صفیہؑ اور حضرت فاطمہ زہراءؑ میدانِ جنگ میں اس وقت پہنچیں جب جنگ ختم ہوچکی تھی، قتل ہونے والے قتل ہوچکے تھے اور زخمی ہونے والے زخمی حالت میں پڑے تھے۔ دونوں بیبیاں دوڑتی ہوئی آئیں اور سید الشھداء حضرت حمزہؑ کے جنازہ پر پہنچیں اور درد ناک بین کرنے لگیں ان کی اس حالت کو دیکھ کر پیغمبر اسلامؐ بھی رونے لگے ، اسی دوران جناب فاطمہؑ کی نگاہ اپنے باباؐ کے چہرے پر پڑی، آپ نے دیکھا کہ باباؐ کا چہرہ زخمی ہے، پیشانی مبارک پھٹی ہوئی ہے اور اس سے خون بہہ رہا ہے جو محاسنِ شریفہ کو رنگین کر رہا ہے تو چیخ بلند کی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، رو بھی رہی تھیں اور اپنے باباؐ کے چہرے کو دھو بھی رہی تھیں اور یہ بھی فرمارہی تھیں: "اللہ کے نبیؐ کے چہرے کو جس ظالم نے اس طرح زخمی کیا ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو”۔ بی بیؑ اپنے باباؐ کے نور افشاں چہرے کو دھو رہی تھیں ادھر جناب امیر المؤمنینؑ ڈھال میں پانی لاکر پیغمبرؐ خدا کے چہرہ اقدس پر ڈال رہے تھے، جب حضرت زہراءؑ نے دیکھا کہ پیغمبرؐ کے زخموں پر پانی ڈالنے سے خون نہیں رک رہا بلکہ مزید اس میں اضافہ ہورہا ہے تو آپؑ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جلایا اور اس کی خاکستر پیغمبرؐ کے زخموں پر لگا دی جس سے خون بہنا بند ہوگیا۔ (17)
سیدہؑ کو ام ابیھا کہنے کی وجہ
جناب سیدہؑ کی ایک کنیت ام ابیھا ہے(18) جو رسولِ خداﷺنے اپنی بیٹی کو عطا کی اس کنیت کے عطا کرنے کی وجہ علماء نے مختلف بیان کی ہیں ہم یہاں پہ دو نظریات کو ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جو ہمارے موضوع کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں :
(1) آیت اللہ مظاہری جو شیعہ مراجع میں سے ہیں ان کا ماننا ہے کہ جس طرح پیغمبر اکرمﷺ خود کو اپنی والدہ جنابِ آمنہؑ کا مقروض و احسان مند سمجھتے تھے اسی طرح سے آپ خود کو حضرت فاطمہؑ کا بھی مقروض سمجھتے تھے لہذا آنحضرتؐ نے حضرت زہراءؑ کو ام ابیہا کا لقب دیا تھا۔ (19)
(2) منقول ہوا ہے کہ رسول خداﷺ کا سلوک حضرت فاطمہؑ کے ساتھ ایسا تھا جیسا فرزند کا سلوک ماں کے ساتھ ہوتا ہے اور اسی طرح سے حضرت فاطمہؑ کا سلوک بھی آنحضرتؐ کے ساتھ ایسا تھا جیسا ایک ماں کا مشفقانہ سلوک اپنے فرزند کے ساتھ ہوتا ہے۔ فاطمہؑ کو ام ابیھا کہا گیا ہے جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ آنحضرتؐ فاطمہؑ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے سفر سے پہلے فاطمہؑ سے سب سے آخر میں خداحافظی کرتے تھے اور سفر سے واپسی میں فقط فاطمہؑ کے دیدار کے لیے تشریف لے جاتے تھے اس کے مقابل میں فاطمہؑ بھی آپؐ کے ساتھ مادرانہ شفقت کے ساتھ پیش آتی تھیں آپ کا خیال کرتی تھیں اور آپؐ کے زخموں، درد و رنج کا مداوا کرتی تھیں۔ (20)
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنابِ سیدہؑ کا اپنے باباؐ کے ساتھ سلوک ایک بیٹی جیسا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے باباؐ کے ساتھ ایک شفیق ماں کی طرح پیش آتی تھیں اور اسی وجہ سے سید الانبیاءﷺنے شہزادیؑ کو ام ابیھا جیسے لقب سے نوازا تھا۔
رحلتِ رسول ﷺکی خبر
کتبِ احادیث میں ایک ایسی حدیث بھی ملتی ہے جس میں جنابِ سیدہؑ کی اپنے باباؐ سے محبت کا ایک خاص نمونہ پیش کیا گیا ہے جو سید الانبیاءﷺ کی رحلت کے قریب کے ایام کی ہے بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں مکمل حدیث کو بیان کریں:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بلایا پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام اﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم ﷺنے میرے کان میں فرمایا کہ آپﷺ کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں مسکرانے لگیں۔‘‘ (21)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ سیدہؑ کو اپنے باباؐ سے ایسی محبت تھی کہ ان کی جدائی برداشت کرنا آپؑ کے لیے نہایت سنگین تھا جس کی وجہ سے آپؑ گریہ کرنے لگیں لیکن جب سنا کہ آپؑ سب سے پہلے رسول خداﷺ سے ملحق ہونگی تو مسکرا دیں تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں آپؑ کے لیے سب سے زیادہ محبوب ہستی اگر کوئی تھی کہ جن کی ملاقات آپؑ کو ہر ذات و شئی سے زیادہ محبوب تھی تووہ سید الانبیاءﷺکی ذات تھی۔
حوالہ جات و منابع
(1) البحرانی،عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار و الاقوال،شیخ عبداللہ البحرانی الاصفہانی، جلد 11، ص ،1030
(2) الطبرسی،الاحتجاج ،ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب الطبرسی، جلد،2، 279، منشورات دار النعمان للطباعۃ والنشر
(3) الکلینی،اصول کافی،شیخ ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی الرازی جلد 2، ص 124، دار الکتب الاسلامی
(4) شہری،میزان الحکمہ،محمد الری شہری، جلد 1، ص 514،دار الحدیث
متقی ھندی،کنز العمال،علاء االدین علی المتقی بن حسام الدین الھندی البرھان فوری، جلد 9، ص 3، حدیث نمبر 24638، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
(5) شہری،میزان الحکمہ، جلد 1، ص 497
(6) شہری،میزان الحکمہ،جلد 2 ،ص 1590
(7) القرآن،سورہ بقرہ، آیت 222
(8) محسن نجفی،بلاغ القرآن،شیخ محسن علی نجفی، سورہ مجادلہ، آیت 22
(9) محسن نجفی،بلاغ القرآن ، سورہ توبہ، آیت 24
(10) اربلی،کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ،ابو الحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح الاربلی، جلد 2، ص 91، دار الاضواء بیروت لبنان
(11) اربلی،کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ،ابو الحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح الاربلی، جلد 2، ص 91، دار الاضواء بیروت لبنان
(12) نیشاپوری،المستدرک علی الصحیحین، ابو عبداللہ الحاکم النیسابوری، جلد 3، ص 154، دار المعرفۃ بیروت لبنان
(13) دیلمی،ارشاد القلوب، حسن بن ابی الحسن محمد الدیلمی،طبع بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ص 161
جواد محدثی،بہترین عشق، جواد محدثی، ص 10، دار الثقلین
(14) محسن نجفی،خطبہِ فدک، شیخ محسن علی نجفی، ص 45 تا 49، ادارہ نشر معارف اسلامی لاہور
(15) نہج الحیاۃ، جلد 1، ص 271
(16) بخاری،صحیح بخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم ابن المغیرۃ بن بردزبۃ البخاری الجعفی،کتاب الصلاۃ، ح520، اسی طرح کی حدیث کتاب الوضوء، ح240، کتاب الجہاد، ح2934، اور کتاب الجزیۃ، ح 3185 وغیرہ میں بھی ہے۔
(17) قزوینی،فاطمہؑ طلوع سے غروب تک، السید محمد کاظم قزوینیؒ، ص 155تا 156، قزوینی فاؤنڈیشن قم المقدسہ اسلامی جمہوریہ ایران
(18) مجلسی،بحار الانوار،شیخ محمد باقر المجلسی، جلد 43، ص 19،مؤسسۃ الوفاء بیروت لبنان
ابنِ مغازلی،مناقب امیر المؤمنین علی بن ابی طالب،ابو الحسن علی بن محمد الواسطی المعروف بابن المغازلی، ص 407، حدیث نمبر 392، دار الآثار للنشر والتوزیع
(19) مظاہری،فاطمہ دختری از آسمان،آیت اللہ مظاہری ص28
(20) فاطمۃؑ الزہراء بضعۃ قلب مصطفیٰؐ، جلد 1، ص 204
(21) بخاری،صحیح البخاری، حدیث نمبر 3625،4433، 4434،
ابن حنبل،مسند احمد ابن حنبل، جلد 6 ص 77، دار صادر بیروت،
مسلم،صحیح مسلم،ابو الحسین مسلم بن الحجاج ابن مسلم القشیری النیسابوری، جلد 7، ص144، دار الفکر بیروت لبنان

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button