اخلاق رذیلہاخلاقیات

مومن کی اہانت کی سزا (حصہ اول)

آیۃ اللہ شہید دستغیب
مومن کی آبروریزی کرنا
مذاق، گالی، طعنہ، تذلیل، توہین، پھٹکار، ہجو اور آزاررسانی سے مومن کی آبروریزی کرنا ایسا گناہ کبیرہ ہے جس کے لیے خداوندعالم نے عذاب کا وعدہ کیا ہے، مومن کی آبروریزی چاہے وہ جس طرح بھی ہو، چاہے ہنسی آڑانے سے یا گالی دینے سے اور بُرا بھلا کہنے سے یا عیب بیان کرنے سے یا ڈانٹ پھٹکار اور ملامت سے یا ذلیل کرنے سے، بے قدری کرنے سے، توہین کرنے سے یا ہجو کرنے سے اور اس کو آزار پہنچانے سے ہو۔
مومن باعزت ہوتا ہے
مومن کی شان میں جو آیتیں اور روایتیں ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی شان اور شرافت میں خدا نے غیر معمولی اہتمام کیا ہے کہ اسے تمام محترم چیزوں سے زیادہ محترم اور اس کی آبروریزی کو بہت بڑا گناہ اور اس کا خون بہانے کے مانند شمار کیا ہے اور اسے اپنے آپ سے وابستہ سمجھ کر فرمایا ہے: "خدا ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لائے ہیں۔” ( البقرہ :۲۵۷) ” اور اپنے آپ کو ان کا دوست اور مددگار بنایا ہے۔” ( محمد :۱۱) اور مومنوں کی مدد اپنے اوپر واجب کر لی ہے۔”ّ( روم :۴۷) اسے حقیقی عزت دے کر اپنے اور اپنے پیغمبر کے پیچھے رکھا۔” (منافقون:۸) ” اسے بہترین اور سب سے اونچا انسان سمجھتا ہے۔” (البیّنہ:۷) ” اور اپنے اشرف المخلوقات یعنی حضرت خاتم الانبیاء کو ان کے ساتھ عاجزی اور نرمی سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔” ( الشعراء :۲۱۵) ” اپنی رحمت ان کے لیے واجب کر دی ہے۔” (سورة انعام:۵۴ ، توبہ:۷۱) ” اپنے آپ کو ان کی جان اور مال کا خریدار کہا ہے۔” (التوبہ:۱۱۱) ” انہیں پسند کرتا ہے اور وہ بھی خدا کو سب سے زیادہ دوست رکھتے ہیں۔”(مائدہ :۵۴ ، بقرہ :۱۶۵)
غرض خدا سے مومن کی نسبت اور وابستگی ظاہر ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ بزرگی سے جو توہین عزت وابستہ ہے وہ درحقیقت اسی بزرگ یعنی مومن کی توہین ہو گی۔ آنحضرت کی روایت میں اس پر طعنہ زنی اور اس کی بات کی کاٹ خدا کی بات کی کاٹ بتائی گئی ہے۔
(وسائل الشیعہ کتاب الحج باب ۱۵۹)
اور حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم مومن کا حق کعبے کے حق سے بھی بڑا ہوتا ہے۔”
(سفینة البحار جلد ۱ ص ۲۹۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی آبروریزی کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ محترم قارئین کی معلومات کے لیے مذکورہ عناوین میں سے ہر عنوان سے خصوصیت رکھنے والی آیات اور احادیث بیان کی جاتی ہیں:
مذاق اُڑانا
کسی شخص کی گفتگو یا عمل یا خصوصیت یا عادت اس طرح بیان کرنا جس سے دوسروں کو ہنسی آ جائے چاہے گفتگو سے ہو یا عمل سے، بشارت سے ہو یا کنائے سے اس کے گناہ کبیرہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید اور روایتوں میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ میں کہا گیا ہے: "جو لوگ ہنسی ہنسی میں خیرات کرنے والے مومنوں کے عیب نکالتے ہیں۔ ان کی بخششوں (خیراتوں) اور خود ان میں بھی برائیاں بتاتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا مال ہی نہیں ہے جو اپنی طاقت اور حیثیت سے زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کر سکیں۔ خدا ان مذاق اُڑانے والوں کی ہنسی اُڑاتا ہے (یعنی ان کی ہنسی کا انہیں بدلہ دیتا ہے) اور ان کے لیے تکلیف دینے والا اور دردناک عذاب ہے۔
(التوبہ:۷۹)
اس آیت کی شانِ نزول میں بہت سی روایتیں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ تبوک کی لڑائی میں رسول خداؐ نے اسلام کی فوج کے اخراجات کے لیے حکم دیا کہ جو کوئی جتنا دے سکتا ہو دے۔ بعض مالدار بہت سا مال لائے اور بعض مفلسوں نے جن کے پاس کم تھا کم دیا۔ چنانچہ ابوعقیل انصاری تقریباً پونے دو سیر کھجوریں لائے اور بولے میں نے گذشتہ رات کو صبح تک کام کیا جس کی مزدوری مجھے ساڑھے تین سیر کھجوریں ملی تھیں۔ آدھی میں نے اپنے بچوں کے لیے چھوڑ دیں اور آدھی خدا کی راہ میں دے دیں۔ منافقوں نے دونوں باتوں کی ہنسی اُڑائی اور دونوں میں عیب نکالا۔ جنہوں نے زیادہ مال دیا ان کے لیے کہتے تھے کہ دھوکا اور ریا ہے اور اتنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے دیا ہے اور جنہوں نے کم دیا تھا ان کے لیے کہتے تھے کہ انہوں نے کچھ صدقہ اس لیے دے دیا ہے کہ خیرات کرنے والوں میں شامل ہو جائیں اور لوگوں کو اپنی یاد دلائیں۔
مومنوں کی ہنسی اُڑانے والوں کی سزا ایک تو ان کے ساتھ خدا کا مذاق ہے اور دوسری جہنم ہے جو ان کی جائے قرار ہے۔ اللہ کے مذاق سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں کچھ باتیں کہی گئی ہیں مثلاً خدا ہنسی اُڑانے والوں کو دُنیا میں مہلت دیتا ہے اور نازونعمت میں مشغول رکھتا ہے جب ان کی سرکشی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو انہیں ہلاک کر دیتا ہے اور یہ بات اس لیے مذاق بن جاتی ہے کہ یہ مہلت اور نازو نعمت ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ہلاکت ہوتی ہے اور یہ آخرت کا مذاق اس لیے ہے کہ جب مومنین بہشت میں اپنے اپنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور کافر دوزخ میں پڑے ہوں گے اس وقت خدا کے حکم سے بہشت کی طرف دوزخ کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ جب منافق بہشت کو دیکھیں گے تو بہت پھرتی سے اس کے دروازے تک پہنچیں گے اور بہشتوں کو عالی شان مقامات پر بیٹھاپائیں گے لیکن جیسے ہی بہشت میں داخل ہونا چاہیں گے فوراً دروازہ بند ہو جائے گا اور مومنین ان پر ہنس پڑیں گے۔ دُنیا میں ان کے ہنسی اُڑانے کا یہ جواب ہو گا۔
آج مومنین کافروں پر ہنسیں گے
پھر فرمایا ہے: ” پس آج اہل ایمان کفار پر ہنس رہے ہیں۔ مسندوں پر بیٹھے (کفار کا انجام) دیکھ رہے ہیں۔ کیا کفار کو ان کی حرکتوں کا بدلہ دیا گیا؟۔”
(التطفیف:۳۴)
ان آیتوں میں مومن پر ہنسنے والے کو گناہگار اور مجرم کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں گناہ میں ڈوبا ہوا، کفر کا رُخ کرنے والا، سچائی اور نیکی سے دُور اور قیامت میں انہیں مومنوں کے مقابل میں جگہ ملے گی جو بہشت میں ہوں گے اور ظاہر ہے کہ بہشت کے مقابل دوزخ ہے۔
شاید وہ لوگ بہتر ہوں
خدا سورہ حجرات میں فرماتا ہے: "اے ایمان والو! تمہارا ایک گروہ دوسرے گروہ کی ہنسی نہ اُڑائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہنسی اڑانے والوں سے وہ بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جائے (درجے کی بلندی اور خدا کے نزدیک اعلیٰ مرتبے کے باعث) اور نہ عورتیں،عورتوں کی ہنسی اُڑائیں شاید وہ بہتر ہوں اور نہ اپنے لوگوں کو طعنہ دو اور نہ ان کی عیب جوئی کرو (یعنی اپنے ہم مذہبوں کی ہنسی نہ اُڑاؤ۔ چونکہ تمام مومنین نفسِ واحدہ کی طرح یعنی ایک ذات ہیں اس لیے دوسرے کی عیب جوئی اپنی ہی عیب جوئی ہو گی) اور ایک دوسرے کو بُڑے ناموں سے نہ پکارو۔”
تفسیر مجمع البیان میں بیان کیا گیا ہے کہ ثابت بن قیس جب پیغمبر کی مجلس میں آتے تھے تو اصحاب ان کے اونچا سننے کی وجہ سے انہیں رسولِ خداؐ کے قریب ہی جگہ دے دیتے تھے تاکہ آنحضرت کی باتیں سُن لیں۔ ایک دن صبح کی نماز کے لیے وہ آخری صف میں جا کھڑے ہوئے۔ نماز کے بعد اٹھے اور لوگوں پر پاؤں رکھتے ہوئے جا رہے تھے کہ ان کے اور پیغمبرؐ کے درمیان صرف ایک آدمی کا فاصلہ رہ گیا۔ انہوں نے اس شخص سے کہا کہ ہٹ جاؤ تاکہ میں رسول خداؐ کے قریب بیٹھ سکوں۔ اس شخص نے کہا: "وہیں بیٹھ جاؤ۔” ثابت خفا ہو کر وہیں بیٹھ گئے۔ جب اجالا ہوا تو ثابت نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا: "تو کون ہے؟” اُس نے کہا میں "میں فلاں ہوں۔” ثابت نے کہا "فلاں ولد فلانی۔” اور اس کی ماں کا نام لیا جو اسلام سے پہلے زنا اور عیاشی کے لیے بدنام تھی۔ وہ شخص اس ملامت سے شرمندہ ہو گیا اس نے سر جھکا لیا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی۔
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: "قیامت میں ہنسی اُڑانے والوں کو لائیں گے۔ ان میں سے ایک کے لیے بہشت کا دروازہ کھولیں گے اور اس سے کہیں گے پھرتی سے اس میں داخل ہو جاؤ۔ وہ رنج وغم کے ساتھ داخل ہونے کے لیے بڑھے گا کہ دروازہ بند کر دیں گے۔ پھر دوسری طرف کا دروازہ کھول کر اس سے کہیں گے کہ جلدی سے داخل ہو جاؤ۔ جیسے ہی وہ دروازے کے نزدیک پہنچے گا دروازہ بند کر دیں گے۔ وہ اسی طرح مصیبت میں گرفتار اور پریشان ہو گا لیکن کسی دروازے سے بھی اندر نہیں جا سکے گا آخر کار نااُمید ہو جائے گا۔ چنانچہ جب اس سے پھر کہیں گے کہ جلدی سے آتو وہ نہیں آئے گا۔”
(محجة البیضاء جلد ۵ ص ۳۲۶)
گالی اور طعنہ
مومنوں کو بری باتوں سے نسبت دینا اور ان کے لیے برے برے الفاظ استعمال کرنا۔ فقہاء کی بول چال میں زنا اور حرام زادگی کی نسبت کو قذف کہتے ہیں اور دوسری بری نسبتوں کو گالی کہتے ہیں۔ مثلاً اے سود کھانے والے، شرابی، ملعون، بے ایمان ، کتے، اے سور، گناہگار، بدکار وغیرہ جن سے مخاطب کو ذلیل وخوار کرنا مراد ہوتا ہے۔
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: "مومن کو گالی دینا گویا اسے ہلاکت کے قریب پہنچانا ہوتا ہے۔”
سباب المومن کالمشرف علی الھلکة
(الکافی)
اور اور شاید مراد یہ ہے کہ مومن کو گالی دینا کفر کے قریب پہنچنا اور دین سے خارج ہو جانا ہے کیونکہ کبیرہ گناہوں پر اصرار کرنے کا انجام کفر ہوتا ہے۔
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "مومن کو گالی دینا فسق (گناہ) ہے، اس سے لڑنا کفر اور اس کا گوشت کھانا (غیبت کرنا) گناہ ہے، اور اس کا مال اس کے خون کی طرح حرام رکھا گیا ہے۔”
علّامہ مجلسی  اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: "یہاں فسق کے معنی گناہِ کبیرہ کے ہیں جو کفر کے قریب ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گالی دینے کا گناہ غیبت سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ مومن کو غیبت کے مقابلے میں گالی سے زیادہ تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ گالی میں تکلیف منہ پر اور غیبت میں تکلیف پیٹھ پیچھے ہوتی ہے۔”
شرح قتالہ کفر میں فرماتے ہیں: "وہ کفر مراد ہے جو گناہِ کبیرہ کے مرتکب کے لیے کہا جاتا ہے یا اس موقع کے اعتبار سے ہے جو اس کے قتل کو حلال شمار کرتا ہے یا اس کے ایمان کے باعث اس سے لڑتا ہے یا یہ کہ مومن سے لڑنا کفر کا سبب ہوتا ہے۔
بد ترین موت
حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص مومن کے منہ پر اسے طعنہ دے گا وہ بدترین موت پائے گا اور اس بات کا مستحق ہو گا کہ پھر نیکی کی طرف نہ پلٹے۔”
مجلسی  اس حدیث کی تشریح کرتے ہیں: "بدترین موت یا دُنیا کے لحاظ سے مثلاً ڈوبنا یا جلنا یا عمارت کے تلے دب جانا یا جانور کی خوراک بن جانا وغیرہ یا آخرت کے لحاظ سے ہے مثلاً یہ کہ کافر مرے یا توبہ کیے بغیر اس دُنیا سے رخصت ہو جائے اور نیکی سے مراد توبہ اور نیک عمل یا ایمان ہے۔”
کبھی کبھی مظلوم بھی ظالم ہو جاتا ہے
حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے ایسے دو آدمیوں کے بارے میں جو ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں فرمایا ہے کہ جو شروع میں گالی دیتا ہے وہ زیادہ ظالم ہے اور اپنا اور دوسرے کا گناہ اسی کی گردن پر ہے جب تک مظلوم یعنی دوسرا فریق حد سے نہ گذر جائے (کافی) یعنی اگر دوسرا فریق اس کے جواب میں حد سے گذر گیا تو پھر اس کا گناہ اسی کی گردن پر ہو گا۔
اس حدیث کی تشریح میں علّامہ مجلسی کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں شخصوں کی گالیوں کا گناہ اس شخص کے ذمّے ہے جس نے ابتداء میں گالی دی ہے کیونکہ حرام فعل پہلے اسی سے سرزد ہوا ہے اور دوسرے فریق کے ارتکاب گناہ کا باعث بھی یہی بنا ہے۔ اگر وہ گالی نہ دیتا تو دوسرا فریق بھی خاموش رہتا۔ جواب میں دوسرے فریق کی گالی اگرچہ گناہ کی تلافی ہے لیکن خدا نے وہ گناہ ابتداء کرنے والے کے ذمّے ہی رکھا ہے بشرطیکہ فریقِ ثانی حد سے تجاوز نہ کرے اور اگر وہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو اپنی زیادتی کی وجہ سے وہ خود گالی کی ابتداء کرنے والا بن جاتا ہے۔
گالی دُہرا کر یا زیادہ سخت گالی دے کر حد سے تجاوز کرنا
جواب میں زیادتی کبھی بار بار گالی دینے سے ہوتی ہے۔ مثلاً شروع میں گالی دینے والا ایک بار کہتا ہے کہ اے کتے! وہ جواب میں دو بار کہتا ہے اے کتے! اے کتے! کبھی جواب میں زیادتی اور زیادہ سخت گالی دینے سے ہوتی ہے۔ مثلاً اس شخص کے جواب میں جس نے کہا ہے اے گدھے! یہ کہے اے کتے! ۔یہ جو کہا گیا ہے کہ جب کوئی برابر کا جواب دیتا ہے تو اس کا گناہ بھی شروع کرنے والے کی گردن پر ہوتا ہے ایسی صورت سے متعلق ہیہ کہا گیا ہے کہ جب اصل گالی قذف یا جھوٹ نہ ہو۔ تو اگر کوئی کہے اے زنا کرنے والے! یا اے چور! تو جب تک گالی دینے والا چور نہ ہو اس کے جواب میں دوسرا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اے چور! غرض یہ ہے کہ گالی کے جواب میں ایسی گالیوں تک محدود رہنا چاہیئے جو ڈانٹنے پھٹکارنے کے موقع کے لیے مشہور ہے۔ مثلاً کہنا اے بیوقوف، جاہل، ظالم، غافل وغیرہ۔
بدزبان پر بہشت حرام ہے
رسولِ خداؐ فرماتے ہیں: "واقعی خدا نے ہر ایسے بے آبرو گالی دینے والے اور بے شرم پر بہشت حرام کر دی ہے جسے اس بات میں کوئی جھجھک ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس سے کیا کہا جائے گا کیونکہ درحقیقت اگر اس کی تحقیق کی جائے تو یا تو یہ زنا سے ہے یا اس میں شیطان شریک ہے۔” عرض کیا گیا: "اے رسول خداؐ ! آدمیوں کے بیچ میں شیطان بھی شریک ہوتا ہے؟ ” آپؐ نے فرمایا: "کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں پڑھا کہ اور اے شیطان! مال اور اولاد میں ان لوگوں کا شریک ہو جانا۔”
(کافی۔ باب البذاء)
علّامہ مجلسی نے شیخ بہائی سے نقل کیا ہے کہ شاید اس سے یہ مراد ہے کہ جتنی مدت تک بہشت اس پر حرام ہے یا کوئی مخصوص بہشت مراد ہے جس سے وہ محروم ہے اور جو گالی نہ دینے والے مومن کے لیے تیار کی گئی ہے۔
سماعہ کہتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے پاس گیا۔ آپ نے مجھ سے بات شروع کی: "اے سماعہ! یہ کیا جھگڑا تھا جو تیرے اور تیرے اونٹ والے کے درمیان کھڑا ہو گیا ایسا نہ ہو کہ تو گالی بکنے والا، بدزبان اور لعنت بھیجنے والا بن جائے۔” مَیں نے جواب میں کہا: "خدا کی قسم ایسا ہی ہوا کیونکہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔” آپ نے فرمایا: "اگر اس نے تجھ پر ظلم کیا تھا تو تو بھی اس کے سر پڑ گیا اور تو نے زیادہ ظلم کیا۔ واقعی یہ ہمارا عمل نہیں ہے۔ مَیں اپنے شیعوں کو ایسا حکم نہیں دوں گا۔ اپنے پروردگار سے معافی مانگ اور پھر ایسا نہ کرنا۔
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: "جو کوئی کسی مومن کو ایک لفظ سے بھی طعنہ دے گا، بُرا کہے گا خدا اس پر بہشت کی خوشبو حرام کر دے گا حالانکہ بہشت کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلے سے آتی ہے۔”
(مستدرک الوسائل، کتاب الحج باب ۱۳۹)
اس کے بارے میں روایتیں بہت سی ملتی ہیں لیکن جو کچھ کہا جا چکا ہے وہی کافی ہے۔
یہاں دو باتیں کہنا ضروری ہیں ایک یہ کہ جب کسی مومن کو گالی دی گئی تو چونکہ اس کو دکھ پہنچایا گیا اس لیے آخرت کے عذاب اور سزا کے علاوہ اس مومن کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ حاکم شرع سے گالی دینے والے کی شکایت کرے تاکہ وہ جس طرح مناسب سمجھے اسے سزا دے جیسا کہ قذف کی گفتگو میں بیان کیا جا چکا ہے کہ گالی دینے والا جس کو گالی دیتا ہے اگر اس سے معافی مانگ لیتا ہے اور اسے منا لیتا ہے تو سزا ساقط ہو جاتی ہے دوسرے یہ کہ اگر اس گناہ پر شرمندہ ہو جائے اور خدا سے معافی مانگ لے تو اس سے عذابِ آخرت بھی اُٹھ جائے گا۔
گالی جس کسی کو دی جائے
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "گالی گلوچ اور بدزبانی ظلم ہے اور ظلم جہنم کا مستحق ہے۔” (الکافی)
محقق بزرگوار مرحوم میرزا محمد تقی شیرازی مکاسب کے حاشیے میں لکھتے ہیں: روایتوں کے مطابق فحش (گالی) حرام ہے چاہے جس کسی کو دی جائے چاہے وہ مسلمان اور مومن ہو یا کافر اور گناہگار (فاسق)، چھوٹا ہو یا بڑا بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چاہے بچّہ اور بے شعور ہو بلکہ بعض روایتوں میں تو جانوروں کو بھی بُرا بھلا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے۔
جواب میں گالی کا حرام ہونا
مخالف یا کافر کو دی جانے والی گالی اگر پلٹا دی جائے اور جواب میں اسے یا کسی دوسرے مومن کو دے دی جائے تو جائز نہیں ہے۔ چنانچہ دنیا کی کسی قوم کے دینی مقدسات کو گالی دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس قوم کا گالی سُننے والا کوئی فرد پلٹ کر دینِ الہٰی کے مقدسات کو گالی دے سکتا ہے اس وقت گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے کے ذمّے ہو گا یہی وجہ ہے کہ سورہ انعام میں اس بات سے صاف صاف منع فرمایا گیا ہے۔
تفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ اس دینی ادب کو ملحوظ خاطر رکھو کہ دینی مقدسات اس احترام کی وجہ سے توہین اور ہنسی سے محفوظ رہتے ہیں چونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے مقدسات کا احترام بچانے کے لیے ان لوگوں کے مقابلے پر کھڑا ہو جاتا ہے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں اور اکثر اوقات غیظ وغضب کی شدت ان لوگوں کے مقدسات کو بُرا بھلا کہنے پر مجبور کر دیتی ہے اور چونکہ یہ ممکن ہے کہ مسلمان اپنے پروردگار کا بچاؤ کرنے کے لیے بتوں کو گالیاں دیں جن کے جواب میں مشرکین مجبور ہو جائیں کہ خدا کے حریم مقدس کی توہین کریں اس لیے خدا انہیں (مسلمانوں کو) حکم دیتا ہے کہ مشرکوں کے خداؤں کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم بُرا کہو گے اور جھگڑے کی صورت میں وہ بھی خدا کے حریم مقدس کی ایسی ہی توہین کریں گے تو درحقیقت خدا کی توہین کی ذمّہ داری خود مومنین پر ہی آ پڑے گی۔
(اقتباس از:گناہان کبیرہ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button